علی پور کا ایلی 636-665

سارا

محفلین
یہ ------‘‘ایلی نے پہلی مرتبہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔۔اس کے ہاتھوں میں ایک کاغذ تھا جسے وہ انجانے میں مڑور رہا تھا۔۔‘‘یہ۔۔‘‘ ایلی نے کہا۔۔‘‘یہ تو کاغذ ہے۔۔اس نے وہ کاغذ بخاری کو دیتے ہوئے کچھ اس انداز میں کہا جیسے انہیں دکھانا چاہتا ہو کہ واقعی وہ کاغذ ہے اور ان پر ثابت کرنا چاہتا ہو کہ اسے کچھ بھی نہیں وہ قطعی طور پر بھول چکا تھا کہ وہ کاغذ سادی کا کاغذ تھا۔۔
بخاری نے وہ کاغذ ایلی کے ہاتھ سے لے لیا اور اسے دیکھنے لگا۔۔
‘‘چائے پئیو۔۔‘بخشی مسکرایا۔۔
ایلی چائے پینے لگا۔۔
‘‘اب کیا گھر جاؤ گے۔۔؟‘‘بخشی نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘تمہیں چھوڑ آئیں۔۔؟‘‘
‘‘نہیں میں چلا جاؤں گا۔۔‘‘ایلی بولا
‘‘اچھی بات ہے۔۔‘‘بخشی نے کہا۔۔
‘‘تم ذرا بیٹھو میں بل دے دوں۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔
‘‘میرے پاس ہیں۔۔‘‘ایلی نے اپنی جیب کی طرف اشارہ کیا۔۔‘‘میرے پاس ہیں۔۔‘‘
‘‘نہیں میں دوں گا۔۔‘‘بخاری نے مسکرا کر کہا۔۔
پھر بخاری نے بخشی کو اشارہ کیا۔۔‘‘ذرا ادھر آنا‘‘۔۔اور وہ دونوں اٹھ کر چلے گئے۔۔
ایلی کی نگاہوں میں اب چیزیں اور ان کا مفہوم ابھر رہا تھا اور وہ شرمندگی سی محسوس کرنے لگا تھا۔۔وہ سوچ رہا تھا۔۔سوچ رہا تھا۔۔
کچھ دیر بعد بخشی اور بخاری دونوں واپس آ گئے۔۔‘‘چلو ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔
‘‘نہیں نہیں۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘آپ تکلیف نہ کریں۔۔‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘ بخاری نے کہا۔۔‘‘ہم ادھر ہی جا رہے ہیں۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘ایلی لاجواب ہو گیا اور تینوں چل پڑے۔۔
جب وہ ناؤ گھر کے مقابل میں پہنچے تو دفتعاً ایلی کو یاد آیا اور وہ دیوانہ وار اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔۔
‘‘کچھ کھو گیا ہے کیا؟۔۔‘‘بخاری نے پوچھا۔۔
ہوٹل میں تم نے ایک کاغذ اس جیب میں ڈالا تھا۔۔‘‘بخاری نے یہ کہتے ہوئے ایلی کے کوٹ کی اوپر والی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک کاغذ نکالا۔۔
‘‘یہی ہے نا؟۔۔‘‘بخاری نے ایلی سے پوچھا۔۔
ایلی نے دیوانہ وار اسے کھولا۔۔دیکھا اور پھر اسے کہنے لگا۔۔‘‘ہاں یہی ہے۔۔‘‘ اس کی آنکھیں جذبہ شکر گزاری سے پر نم ہو گئیں۔۔
‘‘اچھا تو ہم کل صبح آئیں گے۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔‘‘کہیں چلے نہ جانا ہمارے آنے سے پہلے۔۔‘‘
‘‘نہیں تو۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘میں کہاں جاؤں گا۔۔‘‘
اگلے روز صبح سویرے ہی بخشی اور بخاری آ گئے۔۔
‘‘آج تو طبعیت اچھی معلوم ہوتی ہے۔۔‘‘بخاری نے بات شروع کی۔۔
‘‘جی ہاں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘کل کیا ہوا تھا؟‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘تو کہاں گھوم رہے تھے تم؟‘‘
‘‘بس گھوم رہا تھا۔۔‘‘
‘‘کسی کام سے نکلے تھے کیا؟‘‘
‘‘نہیں تو ویسے ہی یہاں بیٹھے بیٹھے طبیعت گھبرا گئی تھی۔۔جدھر منہ اٹھایا چل پڑا۔۔‘‘ ایلی نے ہنسنے کی کوشش کی۔۔
‘‘آج تو نہیں گھبرا رہی طبیعت؟‘‘
‘‘نہیں تو۔۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔۔‘‘آج تو ایسی کوئی بات نہیں۔۔‘‘
‘‘کل کیا بات تھی؟‘‘ بخشی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔۔
شاید ہم کچھ مدد کر سکیں۔۔بخاری نے کہا۔۔
‘‘بات تو کوئی نہیں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘تو اس بات کے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے؟۔۔‘‘
 

سارا

محفلین
کس بات کے متعلق؟ ‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘سوموار کو دو بجے۔۔‘‘ اس نے حیرت سے بخاری کی طرف دیکھا پھر دفتعاً اسے یاد آیا۔۔
‘‘ارے یعنی میرا مطلب ہے یعنی میرا۔۔۔۔۔‘‘ ایلی گھبرا گیا۔۔
‘‘دیکھو بھائی الیاس!۔۔‘‘بخشی مسکرایا اس کی مسکراہٹ بڑی تسلی بخش تھی۔۔‘‘بات یہ کہ ہم نے وہ خط پڑھ لیا ہے۔۔‘‘
‘‘خط؟ ‘‘
‘‘تم نے خود ہی تو دیا تھا ہمیں چائے کی دکان میں۔۔‘‘ بخاری مسکرانے لگا۔۔
‘‘میں نے ؟ ‘‘
‘‘گھبراؤ نہیں تمہارا راز ہمارے پاس محفوظ رہے گا۔۔‘‘ بخاری نے اسے تسلے دی۔۔
ایلی سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔۔دیر تک کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔۔
‘‘تمہیں اس لڑکی سے محبت ہے کیا ؟ ‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘محبت ؟ مجھے معلوم نہیں۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘ہوں۔۔‘‘
‘‘تو کیا تم دو بجے وہاں جاؤ گے ؟ ‘‘
‘‘ہاں۔۔۔۔۔مجھے جانا ہی ہوگا۔۔‘‘
‘‘کیوں کوئی مجبوری ہے کیا۔۔‘‘ بخشی نے پوچھا۔۔
‘‘نہیں تو۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘تو پھر جانا ہی ہو گا کیوں ؟‘‘ بخاری نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔۔
‘‘میں اسے دھوکا نہیں دے سکتا۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا ۔۔‘‘ اور اگر میں نہ گیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
‘‘تو کیا؟ ‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘تو وہ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ایلی نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔۔
‘‘ورنہ؟ ‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘ اس نے لکھا ہے ضرور آنا ورنہ۔۔۔۔۔۔‘‘
‘‘ورنہ تو یہ ہمیشہ ہی لکھتی ہیں۔۔‘‘ بخاری ہنسنے لگا۔۔
‘‘نہیں۔۔‘‘ ایلی بولا۔۔‘‘ تم اسے نہیں جانتے میں اسے جانتا ہوں اور اس کے ورنہ کو بھی۔۔‘‘
‘‘ہوں۔۔‘‘ وہ خوموش ہو گئے۔۔
‘‘الیاس اگر برا نہ مانو تو میں پوچھوں کہ وہ کون ہے ؟ ‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘کون ہے۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ہے ؟‘‘ ‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘میرا مطلب ہے کہ کس گھرانے سے ہے ؟ ‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘میں نہیں جانتا۔۔مجھے اس کا علم نہیں۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا۔۔
بخشی اور بخاری نے حیرت سے ایلی کی طرف دیکھا۔۔‘‘اس کے رشتہ داروں کے متعلق۔۔۔۔۔۔۔‘‘بخشی نے پوچھا۔۔
‘‘مجھے نہیں معلوم ؟‘‘ ایلی نے بخشی کی بات کاٹ دی۔۔
‘‘اچھا۔۔‘‘ وہ سوچ میں پڑ گئے۔۔‘‘تعجب کی بات ہے۔۔‘‘کچھ دیر تک وہ دونوں خاموش رہے۔۔
‘‘تو کیا تمہارا فیصلہ اٹل ہے ؟ ‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں میں جاؤں گا۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا۔۔‘‘مجھے جانا ہی ہو گا۔۔‘‘
‘‘اس کے نتائج سوچے ہیں تم نے ؟ ‘‘
‘‘نہیں ۔۔مجھے نتائج کی پرواہ نہیں۔۔‘‘
‘‘اوہ۔۔۔۔۔‘‘
‘‘تمہارے پاس کوئی جگہ ہے جہاں اسے لے جا سکو ؟ ‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
‘‘کوئی بھی نہیں۔۔‘‘
‘‘اونہوں۔۔‘‘
‘‘روپے کا انتظام ہے ؟ ‘‘
ایلی ہنس پڑا۔۔‘‘میرے پاس روپیہ کہاں۔۔‘‘
‘‘کوئی دوست ہے ؟ ‘‘
‘‘اونہوں۔۔‘‘
کچھ دیر تک وہ خاموش رہے بخشی کی آنکھوں میں غم کی گٹائیں چھا رہی تھیں۔۔بخاری کے ہونٹوں پر عجیب سا تبسم تھا۔۔
‘‘اور اگر تم پکڑے گئے تو ؟ ‘‘
‘پکڑا جاؤں گا اور کیا۔۔‘‘ ایلی نے کہا۔۔
‘‘اور اگر لڑکی نے تمہارے خلاف بیان دے دیا پھر ؟ ‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘ ایلی بولا۔۔
‘‘نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
‘‘وہ میرا ساتھ دے گی۔۔‘‘
‘‘تمہیں یقین ہے؟ ‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘اور اگر۔۔۔۔۔‘‘
‘‘اونہوں۔۔‘‘ایلی نے بخاری کی بات کاٹ دی۔۔‘‘کوئی اگر مگر نہیں۔۔‘‘ کمرے پر پھر خاموشی چھا گئی۔۔ کچھ دیر کے بعد بخاری نے کہا۔۔‘‘ بھائی الیاس مجھے تم سے مل کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔۔‘‘
‘‘کیوں ؟‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘تم ان سوالات کا برا تو نہیں مان رہے۔۔‘‘
‘‘نہیں اب کیا ہے ؟ ‘‘ وہ بولا۔۔
‘‘اور اگر تم ہار گئے ؟ ‘‘
‘‘تو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘ ایلی نے کہا۔۔
‘‘اس کا مطلب ہے کہ تم اس سے محبت کرتے ہو۔۔‘‘
‘‘مجھے نہیں معلوم۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘ اگر مجھے وہ نہیں ملی تو میں محسوس کروں گا جیسے میں نے کچھ کھو دیا ہو۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘ بخشی نے کہا۔۔‘‘ ابھی تو دو دن باقی ہیں۔۔آج ہفتہ ہے نا۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘ایلی نے پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا کہ ابھی دو دن باقی ہیں۔۔
‘‘اگر تم ہمیں سارا قصہ سنا دو تو کوئی حرج ہے ؟ ‘‘بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘اب کیا ہے۔۔؟ ‘‘ ایلی نے کہا۔۔‘‘لیکن جاہ کو پتا نہ چلے‘‘۔۔
‘‘اچھا تو کل ہم پھر آئیں گے۔۔شاید کچھ ہو سکے۔۔‘‘
‘‘بھگوان کرے۔۔‘‘ بخشی بولا اور وہ دونوں رخصت ہو گئے۔۔
اگلے روز وہ دونوں اسے باغ لے گئے اور وہاں بیٹھ کر ایلی نے مختصر طور پر موٹے موٹے واقعات انہیں سنا دئیے اور ان کی واپسی پر سفید منزل انہیں دکھا دی۔۔
 

سارا

محفلین
اللہ ہو اکبر

بخشی اور بخاری سے مل کر ایلی کو ایک ان جانی تسلی ہو گئی۔۔حالانکہ انہوں نے اس کی امداد کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔۔لیکن بخشی اور بخاری دو عجیب شخصیتیں تھیں۔۔ان کے پاس بیٹھ کر محسوس ہوتا تھا۔۔جیسے اپنوں کے پاس ہو۔۔بخاری کی باتیں تلخ تھیں۔۔لیکن اس کے خشک رویہ سے محبت اور ہمدردی گویا رستی تھی۔۔بخشی کی باتیں مٹھاس بھری تھیں اور وہ یوں جذبات سے سرشار رہنے کا عادی تھا۔۔جیسے بھیگا ہوا کبوتر ایلی نے عجیب سی تسلی محسوس کی تھی۔۔نہ جانے کیسے ایلی کو یقین ہو چکا تھا کہ وہ دوستوں سے گھرا ہوا ہے۔۔پکڑے جانے یا قید ہو جانے کی فکر سے تو ایلی آزاد تھا۔۔بلکہ ویسے ہی جیسے اس روز سلگے ہوئے سگریٹ کے لیے وہ سادی کے زینے میں پنچ گھنٹے بیٹھا رہا تھا۔۔البتہ اسے ایک ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ سوموار کو رات کے دو بجے مقررہ جگہ پہنچ نہ سکے۔۔گویا اس وقت اس کا مقصد حیات صرف یہ تھا کہ رات کے دو بجے وہاں پہنچ جائے اس کے بعد کیا ہو گا۔۔کیسے ہو گا اس کے متعلق اس نے کچھ نہ سوچا تھا۔۔وہ اس کے متعلق سوچنا نہیں چاہتا تھا۔۔اس کے بعد چاہے کچھ ہو جائے پڑا ہو۔۔
سوموار کے روز بخشی اور بخاری دونوں بار بار ایلی کے پاس آئے اور اسے موہوم سی تسلی دے کر پھر چلے گئے۔۔ان کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ انتظام میں مصروف ہیں۔۔ایلی کے پاس آ کر بھی وہ الگ ہو کر آپس میں بحث کرتے لڑتے جھگڑتے اور پھر کہیں چلے جاتے۔۔
شام کے وقت وہ دونوں ایلی کو باہر لے گئے۔۔
پارک میں پہنچ کر وہ ایک بینچ پر بیٹھ گئے بخاری نے ایلی کے دونوں شانے پکڑ لیے۔۔
‘‘دیکھو بھائی جو کچھ ہم سے ہو سکا ہم نے کر دیا ہے۔۔اب غور سے سن لو اور اچھی طرح سمجھ لو۔۔
رات کو تم اکیلے جاؤ گے لیکن ہم تمہارے بلکل قریب ہوں گے۔۔فکر نہ کرنا۔۔اگر کوئی مشکل پڑی تو۔۔۔۔۔۔۔
اگر بات بن گئی تو تم ۔۔۔۔۔۔اسے لے کر ناؤ گھر کی طرف نہ آنا بلکہ اس سے متضاد سمت کی گلی سے ہوتے ہوئے سڑک پر پہنچ جانا۔۔سڑک وہاں سے چالیس پچاس قدم دور ہے ۔۔وہاں تمہارے لیے ایک موٹر کھڑی ہو گی یہ موٹر تمہیں سیدھی کراچی لے جائے گی۔۔اگر تم کراچی بخیر و عافیت پہنچ گئے تو پھر اللہ مالک ہے۔۔‘‘
عین اس وقت قریب کی مسجد سے مؤذن للکارا۔۔‘‘اللہ اکبر۔۔‘‘
 

سارا

محفلین
ایلی کی نس نس میں ایک برقی رو سی دوڑ گئی۔۔اس نے پہلی مرتبہ حیرت سے بخشی بخاری کی طرف دیکھا اور محسوس کیا۔۔جیسے وہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہوں جو اللہ واسطے اس کی امداد کر رہے ہوں بے مقصد بے لاگ امداد۔۔اللہ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے دل میں پہلی مرتبہ ایک گونج سی پیدا ہوئی۔۔اس کی آنکھوں میں شدت تاثر سے آنسو آ گئے۔۔
‘‘میں میں ‘‘ایلی نے شکر گزاری سے ان کی طرف دیکھا۔۔‘‘یعنی۔۔‘‘ وہ بولا۔۔اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔۔بخاری ہنس پڑا۔۔‘‘ ہم یہ کام تمہارے لیے نہیں کر رہے۔۔‘‘ اس نے کہا۔۔‘‘ اس میں احسان مندی یا شکر گزاری کا کوئی موقعہ محل نہیں۔۔‘‘بخاری نے ایک دبی دبی آہ بھری اور پھر گلو گیر آواز میں بولا۔۔‘‘جو خود روشنی سے محروم کر دیے گئے ہوں وہ دوسروں کو راہ دکھانے میں مسرت محسوس کرتے ہیں۔۔‘‘
ایلی نے حیرت سے بخاری کی طرف دیکھا اس نے محسوس کیا جیسے اس کے پہلوؤں ایک لامتنائی خلا ہو جیسے دنیا کی تمام نعمتیں اور مسرتیں پر نہ کر سکتی ہوں۔۔اللہ ہو اکبر مؤذن اذان ختم کر رہا تھا۔۔
اللہ ہو اکبر ایلی کے دل کی گہرائیوں سے آواز آئی۔۔سامنے بخاری مسکرانے کی شدید کوشش کر رہا تھا۔۔قریب ہی بخشی کی آنکھوں میں بوندا باندی ہو رہی تھی۔۔
تمام تفصیلات سمجھا کر وہ دونوں ایلی کو سفید منزل کی طرف لے گئے اور عملی طور پر اسے سمجھانے لگے۔۔‘‘یہ گلی ہے۔۔ادھر سے تمہیں آنا ہے۔۔اس طرف کو۔۔یہاں موٹر کھڑی ہو گی عین اس جگہ اور ہم تمہارے ساتھ ساتھ رہیں گے۔۔پاس نہیں بلکہ قریب یہ نہ سمجھنا کہ تم اکیلے ہو۔۔‘‘
تمام تفصیلات سمجھانے کے بعد جب وہ ناؤ گھر پہنچے تو ساڑھے نو بجے تھے۔۔وہ سیدھے اوپر نیم چھتی کی طرف چل دئیے تا کہ جاہ بھا اور پال کو ان کی آمد کا علم نہ ہو۔۔

حد ہو گئی

جب وہ نیم چھتی میں پہنچے تو دروازے میں جمال کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔جمال کو دیکھ کر ایلی کا دل بیٹھ گیا۔۔جمال کو دیکھتے ہی یہ احساس اس کے رگ و پے میں سرایت کر گیا کہ وہ مجرم ہے۔۔اس نے جمال کو دھوکا دیا ہے۔۔احساس گناہ سے اس کی گردن لٹک گئی۔۔
ایلی نے اس احساس سے مخلصی پانے کی شدید کوشش کی مگر ناکام۔۔وہ احساس اس شدت سے اس پر طاری ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ اس دہاڑے میں اس کی شخصیت بہہ گئی۔۔۔۔۔۔۔وہ جمال کے روبرو کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔۔اس کی طرف نگاہ بھر کر دیکھ نہیں سکتا تھا۔۔
پھر اس نے اپنا دل کڑا کر لیا۔۔اور پتھر بن کر کھڑا ہو گیا اس ڈر کے مارے کہیں جمال کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے کے لیے منتیں کرنا نہ شروع کر دے۔۔
جمال ایلی کی طرف بڑھا۔۔‘‘ایلی سب ٹھیک ہے نا؟ ‘‘
ایلی نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
‘‘بخشی بخاری جی کیا حال ہے جاہ سے ملنے آئے تھے کیا۔۔‘‘جمال نے ان سے بات کی۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘بخشی نے کہا پھر وہ دونوں خاموش ہو گئے۔۔
‘‘ان کا حال سناؤ ایلی۔۔‘‘اس نے اشارتاً پوچھا۔۔
‘‘ٹھیک ہیں۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘کوئی آیا تھا ؟ ‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
‘‘خط بھی نہیں ؟‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
‘‘پیغام ؟‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
‘‘تو بات ختم ہو گئی۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘
جمال مایوس ہو گیا اور برساتی کے باہر کوٹھے پہ ٹہلنے لگا۔۔
بخاری ایلی کے قریب تر ہو گیا۔۔‘‘یہ تمہارا ساتھی تھا ؟‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘ایلی بولا۔۔
‘‘ساتھی کو اپنے خلاف کر لینا دانشمندی نہیں۔۔‘‘
ایلی خاموش رہا۔۔
‘‘اسے بتا دینا چاہیے۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔
‘‘لیکن میں۔۔۔۔۔۔کیسے بتاؤں۔۔‘‘
‘‘اس سے بات چھپی نہ رہ سکے گی۔۔‘‘بخاری بولا۔۔
‘‘ہوں۔۔‘‘ایلی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔اس میں اتنی جرات نہیں تھی کہ جمال کے روبرو اقبال جرم کرے۔۔کچھ دیر کے بعد جمال مڑا۔۔‘‘ایلی انہوں نے بلایا تو نہیں تھا ؟‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘بلایا تھا ؟ ‘‘جمال نے دہرایا۔۔
‘‘بلایا ہے۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘کب ؟ ‘‘
‘‘آج رات کے دو بجے۔۔‘‘
‘‘آج۔۔‘‘ جمال کا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔‘‘دو بجے ؟‘‘ حیرت سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔
‘‘ہاں دو بجے۔۔‘‘
‘‘دفتعاً جمال نے محسوس کیا کہ وہ بخشی کے سامنے ہی باتیں کیے جا رہا ہے۔۔‘‘اوہ۔۔‘‘اس نے اس کی طرف دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کی۔۔
‘‘جمال بھئی۔۔‘‘ بخاری نے پہلی مرتبہ جمال سے بات کی۔۔‘‘الیاس آج جا رہا ہے۔۔‘‘
‘‘جا رہا ہے۔۔‘‘کہاں۔۔؟‘‘
‘‘اس لڑکی کو ساتھ لے کر جا رہا ہے۔۔‘‘
‘‘کیا مطلب۔۔تم جا رہے ہو ایلی ؟ ‘‘ وہ ایلی سے مخاطب ہوا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘ایلی نے سر ہلا دیا۔۔
‘‘کس کے ساتھ ؟‘‘
‘‘چھوٹی کے ساتھ۔۔‘‘
‘‘چھوٹی کے ساتھ۔۔‘‘وہ حیرت سے سر کھجانے لگا۔۔‘‘حد ہو گئی۔۔‘‘ اس نے صحن میں ایک چکر کاٹا۔۔
‘‘چھوٹی نے بلایا ہے کیا ؟‘‘ جمال نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘حد ہو گئی‘ حد ہو گئی۔۔‘‘ وہ دیوانہ وار صحن میں گھومنے لگا۔۔
‘‘کہاں جاؤ گے ؟‘‘ جمال پھر رک کر پوچھنے لگا۔۔
‘‘پتہ نہیں۔۔حد ہو گئی۔۔‘‘جمال چلایا۔۔
بخشی اور بخاری چپ چاپ دیوار کے قریب کھڑے تھے ایلی زینے کے پاس تیوری چڑھائے جمال کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
جمال کوٹھے پر دیوانہ وار گھوم رہا تھا۔۔‘‘حد ہو گئی۔۔‘‘ وہ اپنے آپ چلا رہا تھا۔۔‘‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔عجیب بات ہے۔۔کیسے ہو سکتا ہے ؟۔۔‘‘
دفتعاً جمال رکا۔۔‘‘خط آیا تھا کیا ؟‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘اسی نے ہاتھ ؟ ‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
‘‘رومی ٹوپی والا لایا تھا ؟ ‘‘
‘‘نہیں ؟ ‘‘
‘‘تو پھر ؟‘‘
‘‘ڈاک سے۔۔‘‘
‘‘اوہ۔۔ڈاک سے۔۔‘‘ جمال پھر مضطربانہ طور پر ٹہلنے لگا۔۔پھر رکا۔۔‘‘ اگر اگر میں میں یعنی۔۔‘‘ اس نے ملتجی نگاہوں سے ایلی کی طرف دیکھا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا اور لفافے سمیت سادی کا خط جمال کی طرف بڑھا دیا۔۔
جمال نے لپک کر وہ خط ایلی کے ہاتھ سے لے لیا۔۔پتہ دیکھا پھر بے صبری سے رقعہ نکالا اور روشنی تلے کھڑا ہو کر اسے پڑھنے لگا۔۔
دیر تک وہ وہاں کھڑا رہا۔۔نہ جانے کتنی مرتبہ خط پڑھا ہو گا۔۔پھر گویا اس کے جسم کا تناؤ ٹوٹ گیا ہاتھ لٹکنے لگے گال ڈھلک گئے۔۔‘‘حد ہو گئی۔۔‘‘ اب اس نے اور انداز سے کہا۔۔‘‘اچھا بھائی۔۔‘‘ وہ ایلی کے قریب آ گیا۔۔‘‘تمہیں مبارک ہو۔۔‘‘ اس نے خط واپس دیتے ہوئے کہا۔۔
‘‘جمال صاحب۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔‘‘ آپ تو انہیں جانتے ہیں۔۔کیا وہ آئی گی ؟ ‘‘
‘‘آئے گی ؟‘‘ جمال نے دھرایا۔۔
 

سارا

محفلین
مطلب ہے کیا وہ بات کی پکی ہے۔۔‘‘بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘مجھے نہیں معلوم۔۔‘‘جمال بولا۔۔‘‘ ایلی کو معلوم ہے۔۔میں تو اسی کے سہارے۔۔‘‘ اس نے ایلی کی طرف اشارہ کیا۔۔اس کی آنکھیں پر نم ہو گئیں۔۔بخشی گھبرا کر سی سی کرنے لگا جیسے اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہو۔۔
‘‘مجھے تو کچھ علم نہیں۔۔میں تو میں تو۔۔‘‘جمال بولا۔۔‘‘ میں تو حیران ہوں۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔‘‘
بخاری بت بنا کھڑا تھا۔۔
ایلی احساس ندامت سے بھیگا ہوا تھا۔۔
بخشی چپ چاپ ظلم سہے جا رہا تھا۔۔
جمال کبھی سوچ میں پڑ جاتا۔۔کبھی سر لٹکا دیتا کبھی مسکرانے کی کوشش کرتا کبھی سر کھجاتا اور اپنے آپ سے کہا۔۔‘‘حد ہو گئی۔۔‘‘ پھر دفتعاً ایلی کو دیکھ کر اسے نجانے کیا ہوا بھاگ کر وہ ایلی سے لپٹ گیا۔۔
‘‘ایلی تم کمال ہو۔۔‘‘تمہارا جواب نہیں تم نے حد کر دی۔۔تم ہمیشہ حد کرتے ہو۔۔لیکن یار تم نے یہ کیسے کر دیا۔۔مجھے بڑی خوشی ہے ایلی۔۔بڑی خوشی ہے۔۔مجھے تم پر یہی امید تھی۔۔‘‘جذبات کی شدت کی وجہ سے وہ رک گیا۔۔ایلی کی گردن لٹک گئی۔۔اس نے محسوس کیا جیسے وہ واقعی مجرم ہو۔۔
‘‘آپ کو نہیں معلوم۔۔‘‘وہ بخشی بخاری سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔۔‘‘ایلی نے شیر مارا ہے۔۔شیر ببر۔۔آسمان کا تارا توڑ لایا ہے۔۔یہ جادوگر ہے۔۔جادوگر۔۔اس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔۔میں اس کے جادو سے واقف ہوں۔۔‘‘
بخشی۔۔بخاری حیرت سے جمال کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔
‘‘اور وہ۔۔‘‘ جمال ہنسنے لگا۔۔‘‘وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں۔۔وہ معمولی لڑکی نہیں۔۔
 

سارا

محفلین
اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔۔کون ہے جو اسے روک سکے کون ہے جو اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا سکے۔۔‘‘جمال ہنسنے لگا اس کی ہنسی میں ہسٹیریا کا عنصر تھا بخشی بخاری چپ چاپ کھڑے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔
گھڑی نے بارہ بجا دئیے۔۔
‘‘اچھا تو۔۔‘‘ جمال چلایا۔۔‘‘ میرا دوست آج جا رہا ہے وہ کہتے ہیں نا کیا کہتے ہیں وہ۔۔باسلامت روی۔۔مجھے یاد نہیں رہا۔۔‘‘ وہ بولا۔۔
‘‘اچھا۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔‘‘وقت کم ہے۔۔ ہم ذرا موٹر والے کو دیکھ آئیں جب تک تم تیاری کرو ایلی۔۔۔‘‘
‘‘تیاری۔۔‘‘ ایلی نے دہرایا۔۔‘‘ میں کیا تیاری کروں گا ؟ ‘‘
‘‘کوئی چیز ویز۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
‘‘میرے پاس کچھ بھی نہیں۔۔‘‘
‘‘جمال صاحب آپ ایلی کے ساتھ جائیں گے۔۔میرا مطلب ہے صرف اسے لانے کے لیے۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔
‘‘ہاں ہاں۔۔‘‘ جمال چلانے لگا۔۔‘‘میں ساتھ جاؤں گا۔۔میں اس کا ساتھی ہوں۔۔ اس نے میرا ساتھ دیا تھا۔۔اب میں اس کا ساتھ دوں گا۔۔میں انہیں خود موٹر میں بٹھاؤں گا۔۔کیوں ایلی مجھے ساتھ لے چلو گے نا ؟ ‘‘
ایلی ڈرتا تھا کہ بخشی بخاری کے جانے ک بعد وہ جمال کے ساتھ اکیلا نہ رہ جائے اس لئے وہ نیچے اتر گیا۔۔
‘‘میں ذرا جاہ اور پال سے مل لوں۔۔‘‘وہ بولا۔۔
جاہ اپنی چارپائی پر پڑا سو رہا تھا۔۔ایک ساعت کے لیے ایلی ہچکچایا۔۔پھر اسے خیال آیا کہ شاید پھر کبھی ملاقات نہ ہو۔۔
‘‘جاہ جاہ۔۔‘‘ ایلی نے اسے جھنجھوڑا۔۔
جاہ نے کروٹ لی۔۔‘‘جاہ۔۔‘‘ وہ چلایا۔۔‘‘ جاہ نے سر اٹھایا۔۔‘‘ہوں؟ ‘‘
‘‘میں جا رہا ہوں۔۔‘‘ایلی بولا۔۔
‘‘اچھا۔۔‘‘ وہ نیند میں بولا اور اپنا دایاں ہاتھ بڑھا دیا۔۔‘‘ خدا حافظ۔۔‘‘
ایلی نے جاہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بے پناہ پیار سے اسے سہلانے لگا۔۔لیکن جاہ پھر سو گیا تھا۔۔
پال ابھی پورے طور پر نہیں سویا تھا۔۔‘‘ کہاں جا رہے ہو ؟‘‘ اس نے پوچھا۔۔
‘‘گھر جا رہا ہوں۔۔‘‘
‘‘تو جاؤ۔۔میں سمجھا شاید سات سمندر پار جا رہے ہو۔۔‘‘پال بولا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘ ایلی نے کہا۔۔‘‘سات سمندر پار جا رہا ہوں۔۔وہیں گھر بناؤں گا۔۔‘‘پال اٹھ بیٹھا اور پھر مذاق میں ایلی سے لپٹ گیا۔۔
‘‘اس وقت کون سی گاڑی جائی گی ؟ ‘‘ بھا نے پوچھا۔۔
‘‘جائے گی۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘کوئی سپیشل ہی ہو سکتی ہے۔۔‘‘ بھا نے کہا۔۔
‘‘ہاں سپیشل ہی ہے۔۔‘‘
‘‘اب یہ بھی پوچھو بھا کہ سپیشل کے کون سے ڈبے میں بیٹھو گے ؟ ‘‘ پال بولا۔۔
‘‘اس سے پہلے توکبھی ایلی یوں مل کر نہیں گیا۔۔‘‘بھا نے کہا۔۔
ایلی نے محسوس کیا کہ اگر کچھ دیر کے لیے وہاں رکا تو وہ سب جاگ پڑیں گے اور باتیں شروع ہو گئیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘اچھا تو خدا حافظ۔۔‘‘ وہ اٹھا اس کی آواز گلوگیر تھی۔۔

اٹیچی
عین پونے دو بجے جمال اور ایلی اس کھڑکی کے پاس جا کھڑے ہوئے وہ دونوں چپ چاپ کھڑے تھے۔۔گلی ویران تھی۔۔قبرستان کے پرلے سرے پر کوئی فقیر گدڑی میں لپٹا پڑا تھا۔۔۔۔۔ایلی کا دل دھک دھک کر رہا تھا دیر تک وہ کھڑے رہے۔۔وہ پندرہ منٹ پندرہ گھنٹوں سے زیادہ طویل ہو گئے تھے۔۔
قریب ہی کسی گھڑی نے دو بجائے جمال بولا۔۔‘‘ کیا دو بج گئے‘ واقعی دو بج گئے۔۔کیوں ایلی سنا تم نے‘‘۔۔
‘‘ایلی دو ہی بجے ہیں کیا ؟ ‘‘ ایلی نے کوئی جواب نہ دیا۔۔
دیر تک وہ دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔۔
پھر سفید منزل سے یوں آواز سی آئی جیسے کوئی ٹرنک کھینچ رہا ہو۔۔وہ چوکنے ہو گئے۔۔
پھر خاموشی چھا گئی۔۔
پھر زینے میں پاؤں کی چاپ سنائی دی۔۔
‘‘وہ۔۔وہ۔۔‘‘جمال بولا۔۔
ایلی نے آہستہ سے کھڑکی کو انگلی سے بجایا۔۔
اندر سے دروازے کی چٹخنی کھلنے کی آواز آئی۔۔
وہ دونوں لپک کر دروازے کے مقابل جا کھڑے ہوئے۔۔دروازے میں کوئی سیاہ نقاب میں ملبوس کھڑا تھا۔۔
‘‘سادی ؟ ‘‘ ایلی نے پوچھا۔۔
‘‘جواب میں اس نے لوہے کا ایک اٹیچی آگے بڑھا دیا۔۔
‘‘یہ کیا ہے ؟ ‘‘ایلی نے دبی زبان میں پوچھا۔۔
‘‘میرا زیور ہے۔۔‘‘ سادی نے جواب دیا۔۔
‘‘اونہوں۔۔‘‘ ایلی بولا۔۔‘‘اسے واپس رکھ آؤ۔۔‘‘
‘‘کیوں ؟۔۔‘‘
‘‘یہ میں ساتھ نہیں لے جاؤں گا۔۔‘‘
‘‘یہ تو پاگل ہے۔۔‘‘جمال بولا۔۔‘‘لاؤ مجھے دو۔۔‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے اٹیچی اٹھا لیا۔۔
‘‘نہیں سادی۔۔‘‘ ایلی دروازے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔‘‘یہ ہمارے ساتھ نہیں جائے گا۔۔
دھڑ اڑ اڑا۔۔۔۔ڑام
سفید منزل سے ایسی آواز آئی جیسے کوئی بڑا سا ٹرنک کسی نے اٹھا کر فرش پر دے مارا ہو۔۔
‘‘ہائے اللہ۔۔‘‘ سادی نے ہاتھ سینے پر رکھ لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘باجی۔۔‘‘۔۔۔۔۔وہ بولی۔۔۔
پھر سفید منزل میں کہرام محچ گیا۔۔
چار ایک مردان کی طرف لپکے۔۔وہ ایلی کے قریب آئے اور پھر نہ جانے کیوں اسے چھوڑ کر انہوں نے جمال کو دبوچ لیا۔۔سادی نے چیخ ماری اور بیہوش ہو ک اندر گر پڑی۔۔
ایلی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔کہ کیا ہو رہا ہے۔۔نیچے گلی میں وہ جمال کو پیٹ رہے تھے اوپر کوئی کراہ رہی تھی‘ کوئی بین کر رہی تھی۔۔بند کھڑکیاں کھل رہی تھیں۔۔پھر ایلی چلانے لگا۔۔
‘‘میں ہوں میں میں ہوں میں‘ ادھر دیکھو ادھر دیکھو میں ادھر ہوں۔۔‘‘لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے باری باری اس نے ہر شخص کو شانے سے جھنجھوڑا۔۔‘‘یہ نہیں میں ہوں۔۔اسے چھوڑ دو۔۔میں ہوں میں۔۔‘‘ لیکن کسی نے اس کی طرف توجہ نہ دی وہ سب دیوانہ وار جمال سے کشتی لڑنے میں مصروف تھے۔۔
‘‘کون ہے کون ہے۔۔کیا ہوا۔۔‘‘وہ شخص ایلی کی طرف لپکے۔۔
‘‘میں ہوں میں۔۔‘‘وہ چلایا۔۔
 

سارا

محفلین
اچھا تو تم ہو۔۔‘‘ان دونوں نے اسے بازؤوں سے پکڑ کر گھسیٹنا شروع کر دیا۔۔
پھر وہ دونوں ایلی کو کسی تنگ جگہ میں ٹھونس رہے تھے۔۔
ہوا کے چار ایک جھونکے لگے تو ایلی نے دیکھا کہ وہ موٹر پر سوار ہے اور اس کے پاس بخشی اور بخاری بیٹھے ہیں۔۔
‘‘نہیں نہیں۔۔‘‘ وہ انہیں دیکھ کر چلایا۔۔‘‘ مجھے جانے دو۔۔مجھے جانا ہے۔۔‘‘ وہ چلاتا گیا لیکن گاڑی فراٹے بھرتی چلتی رہی۔۔
‘‘یہ تم کیا کر رہے ہو۔۔‘‘ ‘‘نہیں نہیں میں نہیں جاؤں گا۔۔مجھے جانا ہے۔۔مجھے چھوڑ دو۔۔‘‘
‘‘ روک لو۔۔روک لو۔۔‘‘ ایلی چیخ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیر تک وہ چلاتا رہا پھر دفتعاً بخاری بولا۔۔۔‘‘ گاڑی روک لو۔۔‘‘
گاڑی رک گئی۔۔
‘مجھے جانا ہے بخاری جی مجھے جانا چاہیے مجھے جانا ہو گا۔۔‘‘ ایلی کے سر پر گویا جنون سوار تھا۔۔
‘‘لیکن۔۔‘‘ بخشی بولا۔۔
‘‘لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔ اگر میں نہ گیا تو زندگی بھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ رک گیا۔۔۔۔۔۔
‘‘زندگی بھر۔۔۔۔۔‘‘ اس نے پھر ناکام کوشش کی۔۔
‘‘موڑ لو۔۔‘‘ بخاری نے ڈرائیور سے کہا۔۔
موٹر واپس جا رہی تھی۔۔وہ تینوں خاموش تھے۔۔
ایلی کو کچھ احساس نہ تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔۔اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کیوں واپس جا رہا ہے۔۔واپس جا کر اسے کیا کرنا ہے۔۔اسے اس وقت یہ بھی خیال نہ آیا کہ سادی خطرے میں تھی۔۔اسے یہ بھی احساس نہ تھا کہ جمال کو چھڑانا اس کا اخلاقی فرض تھا۔۔اس وقت فرض اور اخلاق ایلی کے لیے دو مہمل لفظ تھے۔۔اسے صرف ایک خیال تھا کہ سادی کیا کہے گی کہ ایلی بھاگ گیا سفید منزل سے دور ہی انہوں نے اسے موٹر سے اتار دیا۔۔
‘‘اچھا بھائی۔۔‘‘بخاری نے کہا‘‘ خدا حافظ۔۔‘‘
ایلی نے اس کی بات نہ سنی اور دیوانہ وار سفید منزل کی طرف بھاگا۔۔
گلی میں کوئی نہیں تھا لیکن سفید منزل کے اردگرد کے سبھی مکانات میں بتیاں جل رہی تھیں اور زیر لبی باتیں سنائی دے رہی تھیں۔۔
سفید منزل کا پھاٹک نما صدر دروازہ بند تھا۔۔ اندر سے آوازیں آ رہی تھیں کوئی کسی کو ڈانٹ رہا تھا۔۔ایلی نے دونوں ہاتھوں سے پھاٹک بجانا شروع کر دیا۔۔
‘‘دروازہ کھولو۔۔ دروازہ کھولو۔۔‘‘ وہ رعب سے نہ جانے کسے ڈانٹ رہا تھا۔۔جیسے کوئی سورما سردار فاتح کی حیثیت سے قلعے میں واپس آیا ہو۔۔
اس کی دستک کا کسی نے جواب نہیں دیا۔۔
اس نے دروازے پر دو ہٹر مارنے شروع کر دئیے اندر باتوں کا سلسلہ یوں کا توں جاری تھا۔۔
‘‘میں ہوں میں‘‘ اس نے پھر دستک دی۔۔میں ہوں میں۔۔الیاس ہوں۔۔ایلی میں واپس آ گیا ہوں۔۔مجھ سے بات کرو۔۔دروازہ کھولو۔۔‘‘
اس وقت اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیا کہہ رہا ہے۔۔اسے یہ بھی احساس نہ ہوا کہ اردگرد کے مکانات کے لوگ کھڑکیاں کھول کھول کر باہر جھانک رہے تھے۔۔اندر سے کنڈی کھلنے کی آواز آئی۔۔
‘‘کون ہے ؟ ‘‘ ایک دبلے پتلے شخص نے پورا دروازہ کھولے بغیر درز سے باہر جھانکا۔۔
‘‘میں ہوں میں ‘‘ ایلی بولا۔۔‘‘ ایلی جسے تم تلاش کر رہے ہو۔۔وہ ایلی۔۔‘‘
‘‘کون ہے ؟ ‘‘ اندر سے کسی اور شخص کی غصے بھری آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘پکڑ لاؤ اس بدمعاش کو‘‘ وہ گرجا۔۔
دبلے پتلے آدمی نے ایلی کا بازو پکڑ کر اسے یوں اندر گھسیٹ لیا جیسے تمباکو کی بوری ہو۔۔
‘‘بدمعاش‘‘ وہ دانت پیسنے لگا اور پھر اسے ایک کمرے میں دھکا دے کر باہر سے کنڈی لگا دی۔۔

چور
چند ہی ساعت میں کسی نے کنڈی کھولی ایک اجنبی نوجوان اندر داخل ہوتے ہوئے چلایا۔۔۔
کون ہے تو ؟ ‘‘
میں الیاس ہوں ؟‘‘
جسے تم تلاش کو رہے ہو۔۔میں واپس آ گیا ہوں۔۔وہ غلط آدمی ہے جسے تم نے پکڑا ہوا ہے۔۔مجھ سے بات کرو۔۔‘‘
نووارد نے غصے سے ہاتھ اٹھایا۔۔میں تمہاری ہڈی پسلی توڑ دوں گا۔۔‘‘
ایلی چپ چاپ کھڑا رہا۔۔‘‘توڑ دیجئے۔۔‘‘وہ بولا۔۔
تم نے کوئی دھوکا یا فریب کیا تو یاد رکھو میرے سرہانے تلے پستول پڑا ہے۔۔‘‘
‘‘میں کب کہتا ہوں کہ میں نے احسان کیا ہے آپ پر۔۔‘‘ایلی نے غصے سے بچھڑ کر کہا۔۔
‘‘تو کس پر احسان کیا ہے۔۔‘‘نوجوان چلایا۔۔
‘‘کسی پر بھی نہیں‘‘۔۔
‘‘تم پہلے کبھی آئے اس گھر میں ؟ ‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
‘‘کیا تمہیں معلوم ہے یہ گھر کس کا ہے مجھے جانتے ہو ؟‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘
نوجوان خاموش ہو گیا اور ایک سگریٹ سلگا کر پینے لگا۔۔
ایلی غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
وہ ایک خوبصورت جوان تھا۔۔درمیانہ قد بھرا بھرا جسم گدے سے ہاتھ پاؤں۔۔۔سفید رنگ۔۔فراخ ماتھے پر تیوری تھی۔۔خمدار ہونٹوں پر مسکراہٹ دبی ہوئی تھی۔۔اس نے انگریزی طرز کا سوٹ پہن رکھا تھا۔۔
وہ کمرا نہایت مختصر تھا۔۔دیواروں پر ہلکا گلابی پینٹ کیا ہوا تھا۔۔پلنگ پر جدید طرز کی چادر بچھی ہوئی تھی۔۔سرہانے کا غلاف ہم رنگ تھا۔۔تپائی پر ایک دو کتابیں پڑی تھیں۔۔پانی کے لیے ایک کانچ کی صراحی تھی۔۔کارنس پر دو ایک چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔۔
پلنگ پر لیٹے ہوئے سگریٹ کے کس لگاتے ہوئے نوجوان کبھی کبھی آنکھ بچا کر ایلی کی طرف دیکھتا اور پھر یوں چھت کو کھورنے لگتا جیسے خوفناک ارادے قائم کرنے میں شدت سے مصروف ہو۔۔
دفتعاً اوپر سے چیخوں کی آواز سنائی دی کوئی چلا رہی تھی۔۔کوئی ٹین کے ڈبے بجا رہا تھا۔۔کوئی کراہ رہی تھی۔۔پھر کوئی قہقہ مار کر ہنس رہی تھی۔۔
نوجوان چھلانگ مار کر اٹھا۔۔دروازے میں کھڑے ہو کر اس نے اوپر جنگلے کے طرف دیکھا اور پھر رعب سے للکارا۔۔؛؛کیا ہو رہا ہے۔۔‘‘
آوازیں بدستور جاری رہیں۔۔
پھر وہ ایلی کی طرف مڑا خبردار ‘‘نوجوان چلایا۔۔‘‘ اگر بھاگنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اور پھر قریب ہی زینے میں داخل ہو گیا۔۔
 

سارا

محفلین
بن باس
ایلی اکیلا رہ گیا صدر دروازے سے ملحقہ کمرے میں سے چار ایک شخص باہر نکل کر ڈیوڑھی میں کھڑے ہو گئے۔۔ایلی غور سے ان آوازوں کو سن رہا تھا۔۔جو اوپر سے آ رہی تھیں۔۔لیکن نہ تو باجی اور نہ سادی کی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔۔وہ حیران ہو رہا تھا کہ اوپر صورت حال کیا ہے۔۔بہرحال صورت حال تسلی بخش نہیں معلوم ہوتی تھی۔۔نہ جانے کیوں وہ اس صورت حال پر خوشی محسوس کر رہا تھا کہ اوپر حالات تسلی بخش نہیں معلوم ہوتے تھے۔۔
خیال آیا وہ مڑا اوپر والے زینے کے مقابل میں ایک دروازہ تھا۔۔ہوں اس نے سوچا تو یہ ہے وہ کمرہ جس میں ہم ملا کرتے تھے۔۔دروازہ بند تھا۔۔لیکن وہ محسوس کر رہا تھا۔۔جیسے کھلا ہو۔۔سامنے دو پاٹ پڑے تھے۔۔اس کے قریب ہی کاٹھ کباڑ والا زینہ تھا۔۔سلاخوں والی کھڑکی کے قریب ایک ان سلگا سگریٹ پڑا تھا۔۔
پھر باجی دبے پاؤں زینے سے اتر رہی تھی۔۔‘‘خدا کے لئے۔۔‘‘وہ بولی۔۔‘‘آپ اب جائیں یہاں سے۔۔‘‘
‘‘چلا جاؤں گا چلا جاؤں گا۔۔گھبراتی کیوں ہیں آپ اب جانا ہی ہے نا۔۔‘‘
‘‘نہیں نہیں۔۔‘‘ اوپر کوئی چیخ کر بولی۔۔
وہ چونکا۔۔اوپر دیکھنے لگا۔۔
کوئی رو رہی تھی۔۔
پھر دفتعاً نوجوان سیڑھیوں سے نکل کر اندر داخل ہوا۔۔‘‘ آپ ؟‘‘ اس نے ایلی کی طرف دیکھ کر کہا اور رک گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘‘تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘کچھ دیر کے بعد نوجوان نے غصے سے ایلی کی طرف دیکھا۔۔تم نے میری زندگی حرام کر دی ہے۔۔‘‘اس نے زور سے دروازے پر لات ماری۔۔‘‘ تم نے وہ جرم کیا ہے کہ میں اگر تم کو قتل بھی کر دوں تو کم ہے‘‘
‘‘ہاں ‘‘ ایلی نے کہا۔۔‘‘میں نے چوری کرنے کی کوشش کی ہے۔۔‘‘
‘‘بکو نہیں۔۔‘‘ نوجوان کی آنکھیں انگاروں کی طرح روشن ہو گئیں۔۔‘‘میں تمہاری ہڈی پسلی توڑ کر رکھ دوں گا۔۔‘‘ وہ جوش میں ایلی کی طرف لپکا۔۔اس نے دونوں ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔۔ایلی چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔۔قریب آ کر نوجوان نے اپنی باہیں ایلی کے گرد حمائل کر دیں اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔۔نوجوان کی کراہیں سن کر اوپر خاموشی طاری ہو گئی۔۔
پہلے تو ایلی حیران کھڑا رہا۔۔پھر اسے وہی خشبو سی محسوس ہوئی جو سادی کے لباس میں ہوتی تھی اور کمرے کی فضا میں اڑا کرتی تھی۔۔وہ نوجوان کے قریب تر ہو گیا۔۔اس کا جی چاہا اس کا دامن پکڑے اور اسے اپنی آنکھوں پر ملے۔۔
دیر تک وہ دونوں بغل گیر رہے۔۔
خوش شکل جوان نے آنکھیں پونچھیں اپنا آپ قابو کر کے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو پلنگ پر بیٹھ گیا۔۔
‘‘مجھے ساری بات بتا دیجئے۔۔‘‘اس نے ایلی سے کہا۔۔اس کا انداز بلکل بدلا ہوا تھا۔۔
‘‘ساری بات؟ ‘‘ ایلی نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا۔۔
‘‘مجھ سے کوئی بات نہ چھپائیے۔۔‘‘نوجوان نے منت کی۔۔
‘‘لیکن۔۔‘‘ ایلی بولا‘‘ میں تو چور ہوں چوری کے لئے آیا تھا۔۔‘‘
نوجوان خاموش ہو گیا۔۔
‘‘ایک بات پوچھوں۔۔‘‘کچھ دیر بعد نوجوان نے بات کی۔۔
‘‘فرمائیے۔۔‘‘
‘‘اگر ہم پولیس بلوا دیتے تو آپ وہی بیان دیتے۔۔‘‘
‘‘بے شک۔۔‘‘ ایلی نے کہا۔۔
نوجوان پھر سوچ میں پڑ گیا۔۔
‘‘آپ نے اغوا کا فیصلہ کیسے کیا۔۔‘‘نوجوان نے پوچھا۔۔
ایلی خاموش رہا۔۔
کیا یہ تجویز آپ کی طرف سے تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘نوجوان رک گیا۔۔
 

سارا

محفلین
میری طرف سے۔۔‘‘ ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘سچ کہہ رہے ہیں آپ‘‘ نوجوان نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘ ایلی بولا۔۔
آپ کا مقصد اسے گمراہ کر کے خراب کرنا تھا۔۔‘‘
‘‘یہ غلط ہے۔۔‘‘ ایلی نے غصے سے نوجوان کی طرف دیکھا۔۔
‘‘تو کیا مقصد تھا۔۔‘‘نوجوان نے پوچھا۔۔
‘‘ظاہر ہے۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘ہمیں بلیک میل کرنا۔۔ہوں۔۔‘‘ نوجوان کو پھر سے غصہ آ گیا۔۔
‘‘یہ الزام ہے۔۔‘‘ایلی نے دانت پیسے۔۔
‘‘اوہ‘‘ نوجوان پھر جلال میں آ گیا۔۔‘‘دور ہو جائیے میری نگاہوں سے میں آپ کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا۔۔ہماری زندگی میں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔۔جائیے جائیے۔۔‘‘
ایلی جوں کا توں بیٹھا رہا۔۔
‘‘آپ نے ہمیں وہ دکھ پہنچایا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘نوجوان کی آنکھیں چھلکنے لگیں۔۔لیکن یاد رکھئے اگر آپ نے پھر کسی قسم کا رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘جاؤ۔۔‘‘
ایلی پھر بھی بیٹھا رہا۔۔
کچھ دیر بعد نوجوان پھر لپک کر باہر نکلا‘‘ محمد علی۔۔‘‘ اس نے کسی کو آواز دی۔۔‘‘باہر نکال دو اسے۔۔‘‘
پتلا دبلا شخص صدر دروازے سے نکل کر لپک کر آیا اور ایلی کا ہاتھ کھینچنے لگا۔۔پھر اس نے صدر دروازے کی بھاری چٹخنی کھولی اور ایلی کو باہر دھکیل کر اندر سے کنڈی لگا دی۔۔
باہر صبح کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔۔
کھڑکیوں سے لوگ سر نکال کر دیکھ رہے تھے۔۔وہ اس کی طرف اشارے کر رہے تھے۔۔
‘‘کون ہے ؟ ‘‘
‘‘کدھر ہے ؟ ‘‘
ایلی چپ چاپ سر جھکائے یوں چل رہا تھا۔۔ جیسے رام باس کو جا رہے ہوں۔۔

سادی
بہتا تنکا

سفید منزل سے آنے کے بعد ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے وہ لکڑی کا ایک چھوٹا سا ٹکرا ہو جو جہاز کے پاش پاش ہو جانے کے بعد طوفان میں بہتا ہوا ایک ویران ساحل پر آ لگا ہو۔۔
لاہور کی وہ ہما ہمی گویا معدوم ہو چکی تھی۔۔عمارتوں کو وہ پھیلاؤ سمٹ کر بے معنی حقیر ڈھیر بن گیا تھا۔۔جسے چاروں طرف سے پھیلے نیلے آسمان نے گھیر لیا تھا سڑکوں پر دھول اڑتی تھی۔۔مکانات گڈ مڈ ہو رہے تھے۔۔جیسے دفتعاً زندگی سے حرکت مفقود ہو گئی ہو اور چادر پر ایک ساکن تصویر رہ گئی ہو۔۔۔
سارا دن وہ نیم چھتی میں بیٹھ کر اونگھتا شام کو سوچتا کیا کروں کدھر جاؤں۔۔
اس کی اس تواریخی واپسی کے بعد صرف ایک دن کے لیے ناؤ گھر میں ہنگامہ سا ہوا تھا۔۔نہ جانے کیسے لیکن بھا جاہ اور پال کو اس رات کے ہنگامے کا علم ہو چکا تھا۔۔ممکن ہے بخشی بخاری نے بات کہہ دی ہو یا خون بلغم کے لیب کے اس ڈاکٹر نے انہیں قصہ سنا دیا ہو جو سفید منزل کے قریب ہی رہتا تھا۔۔یا شاید بھا نے ہنگامہ سن کر خود جا کر تحقیق کی ہو بہرحال اس روز وہ تینوں دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے تھے۔۔
بڑا ہنگامہ ہوا۔۔‘‘بھا نے کہا‘‘ سارے محلے والے جانتے ہیں۔۔‘‘
‘‘ہوں۔۔‘‘جاہ نے منہ بنایا۔۔
‘‘جبھی کل رات ہم سے بغل گیر ہو رہا تھا۔۔‘‘پال بولا۔۔
‘‘ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘بھا بولا۔۔‘‘میں نے بھی کہا بارہ بجے کون سی گاڑی جاتی ہے۔۔‘‘
‘‘مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ ایلی چھپا رستم ہے‘‘جاہ نے کہا‘‘انسان کو سمجھنا کتنا مشکل ہے۔۔ایک طرف تو وہ پایاب کنارہ اور دوسری طرف یہ عمق‘‘ وہ فلسفیانہ انداز میں مسکرایا۔۔اس کی مسکراہٹ میں تحقیر کی جھلک تھی۔۔
‘‘پال ہنسنے لگا‘‘ بھئی عشق و محبت کے دن ہیں۔۔‘‘
‘‘ہم پر تو نہ آئے یہ دن‘‘ جاہ نے کہا ایک ذرا سی راہ و رسم ہوئی تھی۔۔لیکن یار یہ کام اپنے بس کا نہیں۔۔کون سارا وقت ضائع کرے۔۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔۔
 

سارا

محفلین
لیکن کیا واقعی وہ جا رہے تھے؟‘‘ پال نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں ہاں‘‘ بھا نے کہا۔۔
حیرت ہے۔۔‘‘ایلی پر کوئی اس قدر مفتون ہو جائے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ ہنسنے لگا‘‘ ہاں بھئی ہوئی ہم پر ہوتی تو کوئی بات بھی تھی۔۔اور پھر اس کا گھرانہ۔۔۔ کوئی معمولی گھرانہ نہیں۔۔‘‘
انصار منصر۔۔‘‘پال نے پوچھا وہ کون ہے۔۔‘‘
‘‘امیر تو خیر نہیں مگر بڑا مہذب متمدن گھرانا ہے اور منصر کی قابلیت کا بڑا چرچا ہے اصلیت کا تو علم نہیں مجھے شاید واقعی قابل ہو۔۔ویسے اونچے ہوٹلوں میں بیٹھنے والا آدمی ہے۔۔‘‘
پھر تو بڑا آدمی ہوا۔۔‘‘پال تمسخر سے بولا جاہ ہنسا۔۔باقی اللہ جانے۔۔‘‘
‘‘ایلی سے پوچھیں تو ہی‘‘ بھا نے کہا۔۔‘‘
‘‘فضول‘‘ جاہ بولا کس بات کو اس نے خود ہم سے جان بوجھ کر راز میں رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر لوگوں کے پرائیویٹ معاملات میں دخل دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
جمال نے پہلے روز تزکرہ چھیڑا تھا۔۔
‘‘یار مجھے خواہ مخواہ پٹوا دیا۔۔‘‘وہ بولا‘‘ میں چیختا چلاتا رہا کہ میں نہیں ہوں لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی۔۔اور پھر اندر لے جا کر پھر سے پٹائی شروع کر دی پھر دھونس جمانے لگے میں نے ہزار بار کہا کہ حضور میں نہیں ہوں۔۔آپ گلط آدمی کو پکڑ لائے ہیں لیکن وہ میری بات ہی نہیں سنتے تھے وہ تو شکر ہے تم واپس آ گئے اور تمہاری آواز سن کر میں نے شور مچا دیا وہ ہے وہ الیاس۔۔اگر تم نہ آتے تو نہ جانے کیا ہوتا۔۔
یہ قصہ سنانے کے بعد وہ الیاس سے پوچھتا رہا کہ اس کے ساتھ سفید منزل والوں نے کیا سلوک کیا۔۔ایلی نے مختصر سی بات بتا کر قصہ ختم کر دیا۔۔
دو دن تو ایلی چپ چاپ اس وسیع ویرانے کو حیرت سے گھورتا رہا جو اس کے اردگرد پھیلا ہوا تھا۔۔تیسرے روز اس دھندلکے میں روشنی کی ایک کرن دکھائی دی ڈاک سے ایلی کے نام منصر کا ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ از راہ کرم مجھے شام کے وقت میرے دفتر میں ملیئے۔۔نیچے دفتر کا مفصل پتہ تحریر تھا۔۔
خط موصول ہونے کے بعد ایلی کے گردو پیش پھر سے استوار ہو گئے چیزیں پھر سے اپنے آصلی روپ میں اجاگر ہو گئیں۔۔آسمان سمٹا شہر پھیل گیا۔۔نہ جانے کیوں بلایا ہے ایلی نے سوچا شاید کیس پولیس کے حوالے کرنے کا ارادہ ہو۔۔یا شاید پھر سے تحقیق کرنی ہو۔۔چاہے کچھ بھی ہو۔۔چاہے اس ملاقات کی نوعیت ضرر رساں ہو۔۔پھر بھی ملاقات تو ہو گی۔۔چاہے منفی ہی سہی ایک تعلق تو ااستوار ہو گا۔۔اور پھر منصر کا قرب اس کے گدے سے ہاتھ پاؤں اس کے ہونٹوں کا خم۔۔اس کا ذہانت بھرا حسیں چہرا۔۔۔۔۔ایلی بے حد خوش تھا۔۔۔

انصار منصر
شام کے وقت جب وہ دفتر پہنچا تو منصر نے اس کی آمد کو خاص اہمیت نہ دی۔۔
‘‘بیٹھئے۔۔‘‘وہ بولا ذرا میں کام ختم کر لوں۔۔سگریٹ پیجئے۔۔اس نے پیکٹ ایلی کی طرف بڑھا دیا اور یوں کام میں منہک ہو گیا جیسے اسے خصوصی طور پر بلایا ہی نہ گیا ہو۔۔
دیر تک ایلی وہاں بیٹھا رہا وہ حیرت اور احترام بھری نظروں سے منصر کو دیکھتا رہا۔۔پھر منصر اٹھا۔۔
آپ کو زیادہ دیر کے لیے انتظار تو نہیں کرنا پڑا ؟ ‘‘منصر نے اس کے قریب آ کر بڑے اخلاق سے کہا ایلی اس کے رویے پر حیران تھا۔۔
‘‘آئیے‘‘ منصر نے کہا‘‘ اب چلیں۔۔‘‘
لیکن‘‘ ایلی نے کہا آپ نے مجھے بلایا تھا۔۔‘‘
‘‘ہاں ہاں ‘‘منصر بولا چلیے نا گھومیں پھریں گے۔۔
ایلی نے حیرت سے منصر کی طرف دیکھا۔۔
 

سارا

محفلین
کسی جگہ بیٹھ کر بات کریں گے۔۔‘‘منصر نے پینترا بدلا۔‘‘
منصر نے ایلی کو اپنے موٹر سائیکل کے پیچھے سوار کر لیا اور وہ دونوں چل پڑے۔۔
سٹفلز ہوٹل میں پہنچ کر منصر نے سرسری طور پر کہا۔۔
میں نے سوچا آج شام اکھٹی بسر کریں۔۔آپ تو سارا دن مطالعہ کرتے ہوئے تھک جاتے ہوں گے شام کو ذرا سی تفریح ہی سہی۔۔‘‘
ایلی سوچ رہا تھا کہ کہاں وہ باہر نکال دو اس بدمعاش کو۔۔اور کہاں یہ شام اکھٹی بسر کرنے کی تجویز اور حیرت کی بات یہ تھی کہ دو گھنٹے اکھٹے رہنے کے بعد منصر نے اشارتاً بھی کسی ایسی بات کا ذکر نہ کیا تھا جو گزشتہ واقعہ سے متعلق ہو۔۔وہ نہایت بے تکلفی اور گرم جوشی سے ایلی سے باتیں کر رہا تھا۔۔جیسے دونوں بہت پرانے دوست ہوں۔۔
انصار منصر کی شخصیت کو دیکھ کر ایلی بھونچکا رہ گیا۔۔وہ ایک خوبصورت اور پیارا جوان تھا۔۔اس کا لباس سادا ہونے کے باوجود نفیس تھا۔۔جس میں رنگوں کا حسین امتزاج تھا۔۔اس کی حرکات میں لے تھی۔۔باتوں میں مزاح کی جھلک تھی۔۔مزاج رنگین تھا اور شعر و سخن ادب اور آرٹ سے لگاؤ تھا اور اس کی علمی معلومات بہت وسیع تھیں۔۔
منصر نے جب ایلی کو ناؤ گھر کے دروازے پر موٹر سائیکل سے اتارا تو وہ کہنے لگا اگر اعتراض نہ ہو۔۔میرا مطلب ہے اگر آپ کا کوئی پروگرام نہ ہو اور تعلیم کا حرج نہ ہو تو کل شام کو دفتر آ جائیے گا۔۔‘‘
اس کے بعد ایلی کا معمول ہو گیا کہ سارا دن وہ کتاب کے سامنے رکھ کر شام کے خواب دیکھتا اور شام کو منصر کے دفتر میں پہنچ جاتا اور پھر جب منصر کام سے فارغ ہوتا تو وہ اس کے موٹر سائیکل پر یوں بٹھاتا جیسے شاہی تخت پر بیٹھا ہو۔۔شاہ کا جلوس سڑکوں پر گھومتا۔۔لوگ حیرت سے اس کی طرف دیکھتے اور ادب سے صف آرا ہو جاتے کتو بیرے تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے ورنش بجا لاتے۔۔جب وہ سٹفلز ہوٹل میں پہنچتے تو بیرے تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے۔۔
اگرچہ منصر کی عادت تھی کہ وہ عالمانہ باتیں کرنے سے احتراز کرتا تھا پھر بھی کوئی نہ کوئی بات چلتے چلتے منصر کے منہ سے نکل جاتی جسے ایلی یوں حفظ کر لیتا جیسے وہ قران کی آیت ہو۔۔عالمانہ بات چھوڑئیے منصر کوئی بھی ایسی بات کرنے سے احتراز کرتا تھا۔۔جس سے اس کی برتری ثابت ہو۔۔یا جو ایلی کو احساس کمتری دلائے۔۔عجیب بات تھی یہ کہ منصر نے کبھی ایلی کو
 

سارا

محفلین
اس حقیقت کا احساس نہ دلایا گیا تھا کہ وہ سادی کا بھائی ہے یا اسے اس گھرانے سے کوئی تعلق ہے جہاں ایلی پر چوری کا الزام لگایا گیا تھا۔۔منصر نے اس دوران میں التزاماً اپنے گھر کے متعق صرف ایک بات کی تھی اور وہ بھی سرسری طور پر کہنے لگا۔۔
الیاس صاحب آپ سفید منزل کی طرف کبھی نہ جائیے گا۔۔ورنہ بڑی قباحتیں اور پیچیدیاں پیدا ہو جائیں گی اور ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ دک گیا اور پھر معنی خیز مسکراہٹ سے کہنے لگا ‘‘مجھے یقین ہے کہ آپ ایسی حماقت نہیں کریں گے لہذا جملہ مکمل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔‘‘ اس کے علاوہ ایک لوگ انجانے میں منصر کے منہ سے گھر کی بات نکل گئی تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ سادی بیمار ہے اور کسی سپیشلسٹ کے زیر علاج ہے۔۔اس پر ایلی چونکا تھا۔۔اس کا جی چاہتا تھا کہ منصر سے پوچھے کہ اسے کیا تکلیف ہے اور اب کیا حال ہے۔۔لیکن منصر نے موضوع بدل دیا تھا اور ایلی میں پوچھنے کی جرات نہ ہوئی تھی پھر کچھ دیر بعد وہ منصر میں اس حد تک جذب ہو کر رہ گیا تھا کہ وہ یہ بھول چکا تھا کہ سادی بیمار ہے۔۔
پھر شام گزارنے کے بعد رات کے گیارہ بجے جب منصر نے اسے اپنے موٹر سائیکل سے اتارا تھا تو ناؤ گھر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دفتعاً ایلی کو یاد آیا تھا کہ سادی بیمار ہے۔۔وہ تڑپ کر مڑا تھا کہ منصر سے پوچھے لیکن منصر جا چکا تھا۔۔چند ایک روز کے بعد منصر نے خود ناؤ گھر میں آنا شروع کر دیا تھا۔۔وہ کبھی اوپر نہ آیا تھا۔۔شام کے وقت وہ ناؤ گھر کے نیچے ہارن بجاتا اور ایلی فوراً نیچے اتر آتا۔۔روز موٹر سائیکل کو ناؤ گھر آتے دیکھ کر بھا جاہ اور پال حیرانی سے ایلی کو طرف دیکھتے تھے اور جمال تو اسے دیکھ کر یوں کھل جاتا جیسے خربوزہ مٹھاس کی وجہ سے پھٹ جاتا ہے۔۔
‘‘یار ایلی تم کمال ہو۔۔‘‘وہ چلاتا ‘‘ یار تم تو منزل تک پہنچ کر رہے۔۔اب کیا ہے اب تو سب رام ہو گئے ہیں۔۔۔کیوں۔۔‘
لیکن ایلی کو نہ جانے کیا ہوا تھا کہ وہ جمال سے اجتناب کرنے لگا تھا۔۔اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ جمال کے روبرو ایلی احساس جرم محسوس کرتا تھا۔۔جیسے اس نے جمال کے سفید رنگ اور سنہرے بالوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا ہو جیسے اس نے شکار کرنے کے لئے سنہری دانا پھینکا ہو ۔۔اسی وجہ سے وہ اس سے زیادہ بات نہ کرتا بلکہ کوشش کرتا کہ اس کی بات کاٹ دے۔۔
نیم چھتی سے نیچے تو ایلی جاتا ہی نہ تھا۔۔اگر کبھی جاتا بھی تو وہ کوشش کرتا کہ جاہ سے دوچار نہ ہو۔۔لیکن کبھی کھبار بات جاہ تک پہنچ ہی جاتی اور وہ منہ بنا کر کہتا۔۔
‘‘ہاں بھئی آج کل ایلی صاحب اونچی ہواؤں میں اڑتے ہیں۔۔ہم رینگنے والے لوگ ان کی نگاہوں میں کہاں سماتے ہیں۔۔‘‘
اور یہ ایک حقیقت تھی جب سے ایلی منصر سے واقف ہوا تھا اس کے دل میں جاہ کے لئے وہ جذبہ احترام نہ رہا تھا۔۔وہ محسوس کرنے لگا جیسے وہ کتابی دنیا میں محصور ہو وہ اس رنگینی سے بےگانہ ہو جو زندگی کی جان ہو اس کی شحصیت میں کتابی علم کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا۔۔
کبھی کھبار جب وہ منصر کے پاس ہوتا تو اسے خیال آتا کہ اگر میں بی- اے نہ کر سکا تو کیا ہوگا یہ لوگ کیا سمجھیں گے شاید وہ ایک انڈر گریجویٹ کو در خور اعتنا نہ سمجھیں۔۔اس روز گھر آ کر سنجیدگی سے کتابیں کھول کر بیٹھ گیا۔۔لیکن کتاب کے صفحات سے سادی جھانکتی۔۔‘‘میں بیمار ہوں۔۔‘‘منصر ہنستا‘‘آپ مجھ سے بات کریں الیاس صاحب۔۔براہ راست اس سے بات نہ کرنے کا آپ نے وعدہ کیا ہے۔۔‘‘سادی چلاتی۔۔اونہوں۔۔ان کا آپ سے تعلق صرف میری وجہ سے ہے ان کی مہربانیاں میری وجہ سے ہیں۔۔ان میں نہ کھو جائیے گا۔۔یہ صرف آپ کی توجہ کو جذب کرنا چاہتے ہیں تا کہ مرکز ٹوٹ جائے۔۔‘‘
ایلی کتاب بند کر دیتا۔۔پھر اسے محسوس ہوتا کہ زینے میں شہزاد کھڑی حرماں بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔۔وہ مڑتا۔۔ شہزاد آنکھیں جھکا لیتی اور زیر لب کہتی ‘‘نہیں میں نے کچھ نہیں کہا‘‘ اور پھر سیڑھیاں اترنا شروع کر دیتی۔۔

امتحان
ایک روز جب منصر اور ایلی ہوٹل میں بیٹھے تھے تو منصر نے غیر از معمول بیرے کو آرڈر دیتے ہوئے کہا ‘‘دو چھوٹا‘‘ ایلی چونکا۔۔دو چھوٹا اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا تھا۔۔اس سے پہلے تو منصر نے کھبی دو کا آرڈر نہ دیا تھا۔۔شاید بے خبری میں۔۔۔۔لیکن منصر تو بے خبری میں بھی ہوشمندی کا مظاہرہ کرتا تھا۔۔اس میں عقل اور جذبے کی عجیب سی آمیزش تھی۔۔اس میں شک نہیں کہ جذبہ حاوی رہتا تھا لیکن اظہار کرنا منصر کے نزدیک سستا پن تھا۔۔اس کا وقار اس کی اجازت نہ دیتا تھا۔۔
بیرے نے دونوں چھوٹے میز پر رکھ دیئے۔۔منصر نے سگریٹ پھینکتے ہوئے تعجب سے میز کی طرف دیکھا۔۔
 

سارا

محفلین
ارے کیا میں نے دو منگا لیے اچھا‘‘ وہ ہنسنے لگا ‘‘تو لیجئے‘‘۔۔پھر دفتعاً اس نے بات بدلی۔۔
چلو کیا ہے آپ کوئی مولانا تو ہے نہیں‘ آئیے میرے ساتھ شامل ہو جائیے۔۔‘‘
‘‘میں نے آج تک۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ایلی نے معذرت کے لئے منہ کھولا۔۔
‘‘اوہ‘‘ وہ اک انداز محبوبیت سے بولا‘‘خدارا اب مسائل بیان کرنے نہ شروع کر دینا۔۔‘‘
‘‘لیکن۔۔۔۔۔۔۔‘‘ایلی نے پھر کوشش کی۔۔
‘‘آخر یہ لیکن ایک نہ ایک دن تو ٹوٹے گا ہی۔۔چلیئے آج ہی سہی۔۔‘‘مجھے معلوم ہے کہ آپ نے کھبی۔۔۔۔۔۔۔ہاں ہاں اب کیا پردہ ہے۔۔‘‘
اب کیا پردہ ہے۔۔اب کیا پردہ ہے سڑک پر موٹر بھونکنے لگی۔۔اب کیا پردہ ہے ہوٹل کے سازندے نے وائلن پر دہرایا۔۔ہاہاہاہا۔۔پاس بیٹھا ہوا ایک موٹا سکھ ہنسنے لگا ‘‘۔۔سب پردے ہٹا دیتی ہے۔۔کیا چیز ہے۔۔‘‘
دفتعاً ایلی کو خیال آیا کہ شاید منصر سوچی سمجھی سکیم کے مطابق اسے پلا رہا ہے۔۔پلانا چاہتا ہے تا کہ۔۔۔۔۔۔۔اس کا دل ڈوب گیا۔۔شاید وہ ایلی سے سادی کے متعلق تفصیلات جاننے کا خواہش مند ہے۔۔وہ ڈرتا تھا کہ اگر اس نے انکار پر اصرار کیا تو منصر سمجھے گا کہ وہ اپنا راز محفوظ کرنے کے لیے انکار کر رہا ہے اس سے ثابت ہو گا کہ راز کا وجود ہے۔۔ایلی نے اپنا آپ پتھر بنانے کی شدید کوشش کی۔۔اس نے اپنے تمام تر عزم کو للکارا کوئی بات زبان پر نہ آئے کوئی ایسی بات جس سے سادی پر حرف آئے۔۔سادی کی عزت کا سوال ہے۔۔پردہ جوں کا توں قائم رہے گا۔۔یہ دو گھونٹ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بگاڑ سکتے۔۔ایلی نے چھوٹا اٹھا لیا۔۔اس کا ہاتھ ذرا نہ کانپا۔۔
اور وہ اسے یوں غٹ غٹ پی گیا جیسے چھوٹا نہیں بلکہ شربت کا گلاس ہو۔۔ایک ساعت کے لیے منصر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا پھر دفتعاً مڑ کر چلایا بیرا دو چھوٹا اور۔۔‘‘
چار چھوٹے نگلنے کے بعد ایلی نے محسوس کیا کہ اس کے اندر آگ لگی ہے۔۔باہر ہوٹل پر ایک سرخ دھندلکا چھائے جا رہا تھا۔۔اور وہ پورے عزم سے اپنے آپ کو پتھر بنانے میں مصروف تھا۔۔
‘‘آپ کا امتحان کب ہو رہا ہے ؟ ‘‘منصر نے پوچھا۔۔
ایلی کا جی چاہا کہہ دے کہ امتحان تو ہو رہا ہے ممتحن سامنے بیٹھا ہے۔۔
پندرہ روز کے بعد ہو گا‘‘ وہ بولا‘‘ مشن کالج میں سنٹر بنا ہے۔۔‘‘
اس کے بعد منصر نے کئی ایک بار کہا کوئی بات کیجئے الیاس صاحب۔۔کچھ کہیئے۔۔
پھر اس نے خود کہنا شروع کر دیا۔۔‘‘آپ نے وہ شعر سنا ہے؟‘‘
نہ پوچھ حال میں وہ چوب خشک صحرا ہوں
لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا
کچھ دیر تک وہ اسے گنگناتا رہا۔۔پھر بولا‘‘ مجھے شعر بے حد پسند ہیں۔۔اور میں محسوس کرتا جیسے مجھ میں سینکڑوں اشعار بے تاب ہوں اگرچہ میں آج تک اپنے خیال کو شعر کا عملی جامہ نہ پہنا سکا۔۔ایک عظیم کیفیت کو چند الفاظ میں کہہ دینا بڑی بات ہے۔۔ہم تو بہت سارے الفاظ میں بھی نہیں کہہ سکتے۔۔آپ کو کون سا شعر پسند ہے ؟ ‘‘ اس نے پوچھا۔۔
ایلی کو اس وقت کوئی شعر یاد نہ آرہا تھا۔۔
پھر دفتعاً منصر نے بات کا رخ بدلا۔۔‘‘ہاں تو الیاس صاحب ذرا اس واقعے کی تفصیلات تو بتائیے جو ہماری ملاقات کا موجب ہوا۔۔میں صرف اس لیے پوچھ رہا ہوں۔۔‘‘وہ بولا‘‘ کیونکہ میرے دل میں بے لاگ استفسار پیدا ہوا ہے کسی خاص مقصد کے تحت نہیں پوچھ رہا اور نہ ہی آپ کے بتانے پر کسی قسم کے نتائج پیدا ہوں گے۔۔‘‘
ایلی نے شدت سے پتھر بننے کی کوشش کی وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔‘‘دراصل بات وہی تھی جو میں نے آپ کو بتا دی تھی۔۔‘‘ایلی نے کہا‘‘ میں نے کوئی تفصیل چھپائی نہیں۔۔‘‘
‘‘ہوں‘‘ منصر نے کہا۔۔‘‘پھر بھی۔۔‘‘
‘‘آپ پوچھیئے کون سی خصوصی تفصیل۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
‘‘کیا ادھر سے ابتدا ہوئی تھی؟ ‘‘منصر نے کہا‘‘یا آپ کی طرف سے۔۔‘‘
‘‘ادھر سے نہیں‘‘ ایلی نے کہا۔۔
‘‘تو آپ نے ہی تحریک شروع کی تھی۔۔‘‘
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘اور ادھر سے کیا ردعمل ہوا۔۔‘‘
‘‘اظہار نفرت۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
منصر ہنسنے لگا۔۔‘‘آپ کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں۔۔‘‘
‘‘مجھے کال کلوٹے کا خطاب دیا گیا۔۔‘‘
 

سارا

محفلین
ہوں۔۔‘‘ تو کیا آخری واقعہ کے متعلق وہ تجویز آپ ہی کی تھی؟‘‘
‘‘ہاں ‘‘
‘‘اس سے آپ کا مقصد کیا تھا۔۔‘‘
‘‘جذبہ اور کیا۔۔‘‘میں نے سوچا نہیں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘آپ نے یہ نہ سوچا کہ کسی کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔۔‘‘
‘‘نہیں ایلی نے کہا۔۔‘‘
‘‘اور آپ کی تجویز منظور کیسے کر لی گئی ؟‘‘
میں نے خودکشی کی دھمکی دی تھی۔۔شاید اس لئے۔۔‘‘
منصر قہقہ مار کر ہنسا۔۔
‘‘اور وہ زیور۔۔کیا آپ کے کہنے پر لایا گیا تھا۔۔‘‘
‘‘نہیں۔۔بلکہ اگر وہ اٹیچی نہ ہوتا تو ہم جا چلے ہوتے۔۔‘‘
‘‘کیسے۔۔‘‘
‘‘میں نے اسے ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا تھا۔۔‘‘
‘‘پھر آپ موقعے سے بھاگ کیوں گئے تھے ؟ ‘‘
‘‘مجھے میرے دو دوست زبردستی گھسیٹ کر لے گئے تھے۔۔‘‘
‘‘ہوں۔۔‘‘وہ قہقہ مار کر ہنسا آپ بھی خوب ہیں الیاس صاحب۔۔‘‘
‘‘کچھ دیر بعد اس نے پوچھا اگر آپ لوگ چلے جاتے تو کیا کرتے۔۔‘‘
‘‘شادی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔
‘‘ہوں۔۔‘‘منصر نے ایک بھرپور نگاہ ایلی پر ڈالی۔۔
آپ کو امداد دینے والا کوئی تھا۔۔میرا مطلب ہے جہاں سے امداد کی توقع لگائی جا سکے۔۔‘‘
‘‘نہیں ایلی نے کہا۔۔‘‘
‘‘آپ کے والدین زندہ ہیں۔۔‘‘
‘‘جی۔۔‘‘
‘‘تو ظاہر ہے وہ آپ کی مدد کریں گے۔۔‘‘
‘‘اونہوں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘کیوں۔۔منصر نے پوچھا۔۔
‘‘والد صاحب کی تین بیویاں ہیں۔۔‘‘
‘‘ہوں۔۔اور آپ کی اپنی والدہ۔۔‘‘
‘‘وہ ان کی پہلی بیوی ہیں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘ایلی اٹھ بیٹھا اس کا ضبط ختم ہو چکا تھا ہوٹل کا وہ کمرہ لٹو کی طرح گھوم رہا تھا۔۔میز ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے۔۔وہ محسوس کر رہا تھا کہ اب وہ کسی نالی میں گر کر بے ہوش ہو جائے گا۔۔
منصر بار بار اسے کہہ رہا تھا ک کچھ کھائے نا لیکن تلے ہوئے آلوؤں کے علاوہ کچھ کھانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔۔
‘‘بیٹھئے نا ‘‘منصر نے کہا۔۔
‘‘میری طبیعت ٹھیک نہیں۔۔ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘چلیئے میں آپ کو ٹھیک کر دوں۔۔‘‘منصر نے ایلی کو سائیکل پر بٹھا لیا۔۔ایلی نے مضبوطی سے منصر کو پکڑ لیا۔۔اور پھر ایلی کو اس وقت ہوش آیا جب سائیکل رک چکا تھا۔۔اس نے سمجھا ناؤ گھر آ گیا وہ بھونکچا رہ گیا۔۔شاید نشے کی وجہ سے اسے ناؤ گھر کا چھوٹا سا دروازہ پھاٹک دکھائی دے رہا تھا۔۔
‘‘آئیے۔۔‘‘منصر نے آ کر اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھ دیا۔۔
ارے۔۔‘‘حیرت سے اس نے منصر کی طرف دیکھا۔۔وہ دونوں سفید منزل میں داخل ہو رہے تھے۔۔
‘‘ایک بات کہوں۔۔‘‘منصر نے ہنس کر ایلی سے کہا۔۔‘‘پہلے تو ہم نے آپ کی بات تسلیم کر لی تھی لیکن اگر اب آپ کہیں کہ آج آپ کا پینے کا پہلا موقع تھا۔۔‘‘تو وہ رک گیا۔۔‘‘ بات قابل قبول نہیں۔۔‘‘
‘‘بیٹھئے منصر نے کہا۔۔ایلی نے کمرے کی طرف دیکھا یہ وہی کمرہ تھا جہاں وہ چند روز پہلے چور کی حیثیت سے داخل ہوا تھا۔۔اور آج۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن آج تو اسے اپنی حثیت کا علم نہ تھا۔۔وہ محسوس کر رہا تھا کہ واقعات پراسرار طور پر رخ بدل رہے تھے نہ جانے کیا ہونے والا ہے نہ جانے کیا ہو گا۔۔ایلی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔منصر نے کئی بار اسے تاکیدا ً کہا تھا۔۔‘‘الیاس
 
Top