قیصرانی
لائبریرین
اجراہوگیا۔اورچندہی دنوں میں کالج میں شکنتلاکے کھیل کی ریہرسل شروع ہوگئی۔
شبھ لگن
ایلی کوموسیقی سے بے دلچسپی تھی۔گانے کی آوازسن کراس کے دل میں چوہے سے دوڑے لگتے۔دل بیٹھ جاتاایک رنگین اداسی اسے چاروں طرف سے گھیرلیتی۔جب سے جب سے شکنتلاکی ریہرسل شروع ہوئی تھی،اس کے لئے بورڈنگ میں جانامشکل ہوگیاتھا۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ عام لڑکوں کوریہرسل دیکھنے کے لئے نہیں چناگیاتھا۔اس لئے جب ریہرسل شروع ہوتی تووہ ہال سے باہردروازے کے شیشے سے لگ کردیکھتارہتااورجب سازندے حمدکی دھن بجاتے تواس پرعجیب کیفیت طاری ہوجاتی۔چندیوم میں ایلی کوتین چارمرتبہ ریہرسل سنتے پکڑلیاگیااورآخرکارڈرامے کے انچارج اسے پرنسپل کے پاس لے گیا۔پرنسپل نے پہلے تواسے ڈانٹاڈپٹا۔پھردفعتاًنہ جانے اسے کیاسوجھی بولا۔’’ہوں اگرتمہیں ڈرامے میں دلچسپی ہے توعملی طورپرہماری مددکیوں نہیں کرتے۔‘‘
’’عملی طورپر‘‘ایلی سوچنے لگا۔
’’تم گاسکتے ہو؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔
’’جی نہیں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’ناچ سکتے ہو؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’یہ اچھی دلچسپی ہے۔‘‘وہ ہنسنے لگے’’گانہیں سکتے۔ناچ نہیں سکتے مگرڈارمے سے دلچسپی ہے۔‘‘
نتیجہ یہ ہواکہ ایلی کوپروفیسرانچارج کے حوالے کردیاگیاجومناسب کام کرسکتاہو،اس سے لیاجائے اورایلی کوریہرسل کے دوران ہال میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی۔
جب ’’حمد‘‘کی مشق شروع ہوتی اورمیراثی طبلے پرہاتھ چلاتے توایلی کادل ڈوب جاتااوراس کے جسم پربیربہوٹیاں رینگنے لگتیں۔خاص طورپرجب ربابیوں کاوہ چھوٹاسالڑکانوراپنی بیٹھی بیٹھی سی آوازمیں ’’توجگ کاہے۔‘‘کہتاتواس کادل دھک سے رہ جاتاوہ سب کچھ بھو ل جاتا۔تمام تلخ یادیں محوہوجاتیں یہاں تک کہ وہ بائیسکل والاواقعہ بھی بھول جاتاجب وہ کپڑوں کی گٹھڑی کے بل کھولنے سے قاصررہاتھا۔اس وقت اسے شہزادکاچھم سے آنابھی بھول جاتا۔
پہلی مرتبہ اسے احساس ہواکہ موسیقی اسے تلخ یادوں سے آزادکرسکتی ہے۔خصوصاًجب نورکیسی شبھ لگن سے بہارآئی گاتاتوایلی یہ بھی بھول جاتاکہ وہ ایلی ہے کہ وہ علی احمد کابیٹاہے اورعلی احمدکوٹین کاسپاہی بننے سے دلچسپی ہے اسے سبھی کچھ بھول جاتااوروہ حیرانی سے اس سانورے سے چھوٹے سے نورکی طرف ٹکٹکی باندھ کردیکھتا۔دیکھتے چلاجاتا۔اس وقت نورکے چہرے کے گردایک ہالاسانمودارہوتاآنکھوں میں چمک لہراتی۔بازورقص کرنے لگتے۔اس وقت اسکی آنکھیں باتیں کرتیں اس کے چتون اظہارسے چھلکتے۔ان کاپیغام کس قدرحسین ہوتا۔
نورکودیکھ کرپہلی مرتبہ ایلی کونزہت کی عظمت کااحساس ہوا۔اس کاگیت سن کراس نے محسوس کیاجیسے واقعی بہارآگئی ہواوروہ شبھ لگن جس کی وجہ سے بہارآئی تھی۔نوربذات خودہو۔
اس کے بعدایلی کئی ایک دن شبھ لگن اوربہارمیں کھویارہا۔انتظارکرتے کرتے وہ تھک جاتا۔لیکن کالج کاوقت ختم ہونے میں نہ آتا۔خداخداکرکے ریہرسل کاوقت ہوتااورنورٹھمکتاہواہال میں داخل ہوتااورایلی کے لئے بہارآتی۔
معصوم فاحشہ
لیکن چندہی دن کے بعدایلی پریہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اس پتلے دبلے سانورے لڑکے میں دوشخصیتیں کام کررہی ہیں۔دومختلف متضادشخصیتیں ۔ایک وہ نورجوگاتے وقت اس میں بیدارہوتا۔وہ نورجس کی حرکات میں حسن کی جھلک دکھائی دیتی۔جس کے گلے میں سے گویاپگھلی ہوئی چاندی کاایک فوارہ چھوٹتا۔لیکن یونہی وہ گاناختم کردیتاتواس کی آنکھوں میں عریانی بھراپیغام جھلکتااوراس کی حرکات سے ستے پن کامظاہرہ ہوتا۔
نورکی چال توبالکل ان عورتوں کی طرح تھی۔جوکٹڑارنگین میں دوسرے درجے کے چوباروں میں بیٹھتی تھیں۔نورکی ان باتوں کو دیکھ کرایلی کودکھ سامحسوس ہوتااورجلدہی کسی اوربات کی توجہ منعطف کرلیتاتاکہ خیال بٹ جائے۔مگر اس کے باوجوداس کے دل میں کانٹاساچبھارہتا۔پھروہ شدیدکوشش سے تصورکے زورپراس نورکوگانے والے نورمیں بدل دیتااوریوں وہ عریاںمنظرشبھ لگن میں تبدیل ہوجاتااوربہارآجاتی۔
جب آصف کوایلی کی اس نئی دلچسپی کاعلم ہواتووہ بہت ہنساکہنے لگا’’اچھابھئی آج دیکھیں گے تمہارانور۔‘‘اس شام کوآصف گال ہتھیلی پررکھے بیٹھانورکاگاناسنتارہا حتیٰ کہ اس کی آنکھیں شفاف پانی کی مچھلیوں میں بدل گئیں اس کے ہونٹوں کی وہ تمسخرآمیزسلوٹ دورہوگئی اورپاؤں انجانے میں تال دینے لگے۔
اس کے بعدآصف اورایلی فارغ وقت میں نورکولے کرآموں والی کوٹھی کے قریب نہرکے کنارے چلے جاتے۔ایلی کسی پیڑتلے بیٹھ جاتا۔آصف ندی میں پاؤں لٹکالیتااورنورگاتااوراس شبھ لگن میں ایلی کی نگاہوں تلے گھنگھریالی لٹ لہراتی اورآصف کی آنکھیں جھیلوں میں تیرتیں اورسوکھے ہوئے درختوں پرہربادل یورش کرتی اورندی کاپانی ناچتااورآسمان پرندے رقص کرتے۔
گانے کے اختتام پرنورکی آنکھ میں وہ نورانی چمک بجھ جاتی ایک رنڈی کپڑے اتارنگلی ہوکران کے روبروآکھڑی ہوتی اورنمائش کرنے میں مصروف ہوجاتی۔ہونٹ جونکوں کی طرح ان کی طرف بڑھتے اوردونوں گھبراکروہاں سے چل دیتے اورسوچتے کہ کس طرح اس سے اپناپیچھاچھڑائیں اس وقت انہیں یہ فکردامن گیرہوجاتاکہ کوئی انہیںنورکے ساتھ دیکھ نہ پائے۔لیکن جونہی وہ نورسے جداہوتے تووہ اس خیال میںکھوجاتے۔شبھ لگن پھرکب آئے گا۔
اتفاق سے ایک روزشیخ ہمدم بھی آگئے اوران تنیوں نے مل کرشبھ لگن منائی لیکن شیخ عمدم خاموش ہوگئے اورپھراپنے مخصوص اندازمیں کہنے لگے:’’یہ سب ٹھیک ہے ۔الیاس صاحب!لیکن امرتسرکے ربابیے لڑکے سے نہر کے کنارے پرگاناسننااورپھرماشااللہ گانے والے جناب نورصاحب ہوں بات ذراخطرناک ہے۔‘‘
’’خطرناک ہے۔‘‘ایلی کی سمجھ نہ آیاکہ آخربات خطرناک کیوں تھی ۔اس میں خطرے کی کیابات تھی۔نوران کے ساتھ بے حدمانوس ہوچکاتھااوراب تواس پرواضح ہوچکاتھاکہ ان کامقصدموسیقی کے سواکچھ نہیں اوراس کاپاؤں ٹھمکانا‘آنکھیں مٹکانااورہونٹ نکالناقطعی طورپربے کاتھا۔ایلی نے اب سے پہلے کبھی اتنے چھوٹے بچے کوایسی عریاں حرکات کرتے ہوئے نہیں دیکھاتھا۔
نورچندایک روزکے لئے توان کامنہ تکتارہاپھرجب اسے یقین ہوگیاکہ اس کایہ نیاتعلق اپنی نوعیت کابالکل انوکھاتعلق ہے تووہ حیران رہ گیا۔یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔سمجھ میں آتی توبھی اسے یقین نہیں پڑتاتھا۔پھرنہ جانے اسے کیاہواکہ ایک روزپھوٹ پھوٹ کررونے لگا۔
’’خداکے لئے مجھے بچالو۔مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔میں یہ زندگی بسر نہیں کرناچاہتا۔‘‘اس کی آنکھوں میں آنسوتیررہے تھے۔پتلے پتلے ہونٹ لرزرہے تھے اوروہ امیدبھری نگاہوں سے ایلی اورآصف کی طرف دیکھ رہاتھا۔ندی کے کنارے پرسوکھے ہوئے درخت جوشبھ لگن سے ہرے ہوچکے تھے۔پھرسے سوکھ گئے۔ ندی کے پانی کی روانی تھم گئی۔جیسے وہ ایک جوہڑبن گئی ہواوران کے اردگردایک وسیع ویرانہ پھیلاہواتھا۔
بیگانے دوست
ایک روزآصف بھاگابھاگاایلی کے پاس آیااوراس کارنگ زردہورہاتھا۔
’’ایلی‘‘وہ بولا۔’’وہ ۔وہ سفینہ پھریہاں آرہی ہے۔اگروہ آگئی توپھرمیں کیاکروں گا۔چلوہم امرتسرسے بھاگ چلیںایلی۔‘‘
’’لیکن جائیں کہاں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’کہیں بھی ۔‘‘اس نے آہ بھرکرکہا۔
’’نہیں آصف۔‘‘ایلی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔’’اگروہاں بھی لڑکیوں نے تمہیں سلام کرنے شروع کردیئے تو۔‘‘
’’تو۔تو۔‘‘آصف سوچنے لگا۔’’تومیں کیاکروں ۔‘‘اس نے بے بسی سے ہاتھ چلایا۔
’’تم ان کی شکایت کرناچھوڑدو۔‘‘ایلی نے سوچ کرکہا’’شکایتوں کی وجہ سے وہ چڑجاتی ہیں۔ضدپیداہوتی ہے ۔ تم خودانہیں سلام کرناشروع کردوتاکہ وہ خودتمہاری شکائتیں کریں۔‘‘
’’میری شکائتیں۔‘‘آصف گھبراکربولا۔’’نہیں نہیںیہ میں برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘
’’اگرتم انہیں سلام کرناشروع کردوگے توان کابرتاؤمحبوب کاساہوجائے گا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’اوروہ تم سے دوربھاگنے لگیں گی۔انہیں دوربھگانے کی یہی ایک ترکیب ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘آصف نے تالی بجائی۔’’کیایہ چلے گی۔پھرتوبہت اچھاہے۔‘‘
آصف سمجھ رہاتھاکہ ایلی اسے مشورہ دے رہاتھا۔حالانکہ درحقیت مشورے کے پردے میں وہ اپنی مشکل بیان کررہاتھاوہ محسوس کررہاتھاکہ کوئی لڑکی ایسی نہ تھی جوصبح سویرے اٹھ کراسے سلام کرتی ہو۔کوئی بھی تونہ تھی جو اس کے لئے بیقرارہو۔بلکہ قریب آکربھی وہ گٹھڑی کی طرح سمٹ جاتی تھیںاورکوشش کے باوجودبھی کھل نہ سکتی تھیں۔
’’لیکن لیکن آصف ۔‘‘ایلی نے کہا’’ایساکویں ہوتاہے اگرتم ان کی تلاش میں سرگردان ہوجاؤ تووہ دوربھاگتی ہیں اوراگرتم ان سے دوربھاگوتووہ تمہاراپیچھاکرتی ہیں۔‘‘
’’ہاں ‘‘آصف گنگنایا‘’’مگرمیں ان کی تلاش میں کیسے کھوجاؤں۔‘‘
اس کے برعکس ایلی سوچ رہاتھاکہ وہ انہیں اپنی تلاش میں کیسے سرگرداںکرے۔کس طرح انہیں تلاش پرمائل کرے۔
وہ دونوں بہترین دوست تھے لیکن ایک دوسرے سے اس قدرقریب ہونے کے باوجودایک دوسرے سے کس قدر دورتھے۔کس قدربیگانہ ۔ان کی مشکلات ایک دوسرے سے کس قدرمختلف اورمتضادتھیں۔
’’اچھا۔‘‘آصف نے کہا۔تومجھے بتاؤکہ میں کس طرح ان پرظاہرکروں کہ میں ان کامتلاشی ہوں۔‘‘
’’تم صبح اٹھ کران کوسلام کرناشروع کردو۔‘‘ایلی نے سوچتے ہوئے کہا۔’’اورکبھی کبھی دوپہریاشام کوکوشش کرکے کوٹھے یاکھڑی سے اسے دیکھ لیاکرو۔‘‘
’’اچھا۔میں کوشش کروں گا۔‘‘آصف بولا۔
اورایلی نے دل میں سوچااچھامیں کوشش کروں گاکہ کسی کواپنے لئے سرگرداں کروں۔مائل جستجوکروں۔
وہ کوچہ
ایلی اب محسوس کرنے لگاتھاجیسے وہ سمندرمیں بہتاہواتنکاہو۔خصوصاًجب وہ اس کوچے میں جاتاتویہ احساس اس کی رگ وپے میںبس جاتا۔وہاں پہنچ کروہ محسوس کرنے لگتاجیسے زندگی ایک گرداب ہوجس میں افرادکی چھوٹی چھوٹی قندیلیں اپنی اپنی دھن میں سلگ رہی ہوں اورگرداب کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ دیوانہ وارگھوم رہی ہوں۔
جب کبھی شام کے وقت ایلی آغاسے ملنے ان کے یہاں جاتاتوآغاایلی کولے کرڈیوڑھی کے باہرکھڑے ہوجاتے تاکہ کٹڑے میں چلتے پھرتے لوگوں کاتماشاکرسکیں۔کٹڑے میں لوگ پان کھاتے،سگریٹ کے کش لیتے اورنگاہوں کی انگلیوں سے چوباروں میں بیٹھی ہوئی رقاصاؤں کوچھیڑتے۔اشارے کرتے۔تماشین تانگوں پربیٹھ کرچوباروں کی طرف گرم نگاہیں ڈالتے ہوئے گزجاتے۔مزدوروں کے گروہ کوچے میں ٹہلتے ۔تاجرنگاہیں جھکائے قدم اٹھاتے ہوئے نکل جاتے ۔شوقین مزاج دوکانداروں کی نگاہیں گاہکوں اوررقاصوں کے درمیان یوں گھومتیں جیسے گھڑی کاپنڈولم چلتاہے۔
ہرچندگھنٹوں کے بعدکٹڑے میں کوئی ایساشخص بھی آنکلتاجیسے دیکھ کرلوگوں کی نظروں چوباروں سے ہٹ کراس کی طرف منعطف ہوجاتیں۔بازارمیں ایک مدھم سی سرگوشی ابھرتی۔
’’کون ہے۔‘‘
’’ہائیں یہ ہے وہ۔‘‘
’’یارانہ ہے اس سے کیا؟‘‘
اوروہ سرگوشی برف کی گیندکی طرح لڑھکتی ۔لڑھکتے جاتی۔حتیٰ کہ ساراکٹڑااس کی لپیٹ میں آجاتا۔رقاصائیں بھی اپنے بے نیازانہ اندازکوچھوڑکربچوں کی طرح بازارکی طرف دیکھنے لگتیں اورچندساعت کیلئے انہیںیادنہ رہتاکہ وہ دیکھنے کے لئے نہیں بلکہ اپناآپ دکھانے کے لئے وہاں بیٹھ ہیں۔اس وقت رقاصاؤں میں نسائیت کی جھلک نمودارہوجاتی اورمحسوس ہونے لگتاکہ وہ گڑیاںنہیں بلکہ جیتی جاگتی عورتیں ہیں۔
لکھنؤ الہ آبادیامدارس کاکوئی مشہورسازندہ آجاتایاکوئی پیرانوکھالباس پہنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کٹڑے میں داخل ہوتا۔وہاں مشہورڈاکواورلیٹرے آیاکرتے تھے۔کروڑپتی اورگویے تواکثرآتے۔لیکن کٹڑے میں سب سے زیادہ دھوم انسپکٹررؤف کی تھی۔
انسپکٹررؤف
اگرانسپکٹررؤف آجاتاتوفوراًبازارپرسناٹاچھاجاتا۔پنواڑی سہم کرپیچھے ہٹ جاتے۔دوکاندارچوباروں کی طرف دیکھناموقوف کردیتے ۔راہ گیرنگاہیںجھکالیتے ۔ادھرچوباروں میں سرخی بھرے چہرے زردپڑجاتے۔نگاہوں میں شوخی کی جگہ گھبراہٹ دوڑجاتی ۔رقاصائیں یوں چپ چاپ گردن جھکائے بیٹھ جاتیں جیسے طبیعت ناسازہو۔
اس زمانے میں کٹڑے پررؤف کی حکومت تھی۔وہ کٹڑااس کی ریاست تھی۔جب شام کے وقت وردی پرسیٹی پیٹی لگائی۔سرپرطرے دارپگڑی باندھے اپنے باڈی گارڈکے ساتھ وہ کٹڑے میں نکلتاتوایک سرگوشی ابھرتی اورتیزی سے یہاں سے وہاں تک دوڑجاتی اوراپنے عقب میں بھیانک خاموشی چھوڑجاتی۔
پنواڑی چوباروں کی طرف تاڑنے کاشغل چھوڑکرشدت سے پان بنانے میں مصروف ہوجاتے۔دوکان پرکھڑے شوقین نظریں لڑانے کاخیال موقوف کردیتے۔جنرل مرچنٹس کے سلیزمین حساب کتاب کے رجسٹرکھول کرمصروف ہوجاتے۔
انسپکٹررؤف کی آمد کی خبرسن کرچوباروں میں سازندوں کے ہاتھ لرزکرممنوع سروں پرجاپڑے دکھ بھری سروں پرقیام لمبے ہوجاتے۔سارنگیاں ناچناچھوڑکرروناشروع کردیتیںاورمسکراتی ہوئی رقاصائیں گھبراکرگاناچھوڑدیتیں اورکھوئے ہوئے اندازمیں پان لگانے بیٹھ جاتیں۔
انسپکٹررؤف تمہیدکے طورکٹڑے کے دوتین چکرلگاتے ۔پھرکسی چوبارے کی دروازے پراپنے سپاہی کومتعین کردیتے اورخودسیڑھیاں چڑھ کراوپرجاپہنچتے۔ان کے سیڑھیاں چڑھتے ہی وہ طلسم گویاٹوٹ جاتا۔اس وقت کوئی پنواڑی نعرہ لگاتا’’علی ‘‘اس کاوہ نعرہ کن بن کرکٹڑے میں گونجتااورکٹڑے میں رکی ہوئی زندگی پھرسے حرکت میں آجاتی۔تماش بینوں کی نگاہیں بے باکی سے کھڑکیوں پرمنڈلاناشروع کریتیں۔پنواڑیوں کی دوکانوں پرکھڑے شرفاپھرسے رقاصاؤں کوتاڑنے لگتے۔رقاصاؤں کے ہونٹوں پرایک بارپھرتبسم لہراتااوران کے دل سے بوجھ اترجاتا۔
البتہ جس چوبارے پرانسپکٹررؤف چڑھ جاتے تھے وہاں لوگ کی حالت بد سے بدترہوجاتی۔محفل برخواست ہوجاتی۔سیٹھ اورتاجرچپکے سے نیچے اترآتے۔میراثی ہاتھ دھرکربیٹھ جاتے۔
پھراگررؤف کے حکم کے مطابق وہاں راگ رنگ ہوتابھی توسارنگیاں گانے کی بجائے بین کوتین طبلہ سرپیٹتا۔پھرکچھ دیرکے بعدچوبارے سے انسپکٹررؤف کے دھاڑنے کی آوازیں آتیں جوسارے کٹڑے میں گونجتیں۔وہ نشے میں چیختاچلاتااوردھمکیاں دیتا۔غلیظ گالیاں دیتااورپھرایسے لگتاجیسے چوبارے میں دنگافسادہورہاہو۔وہ بالآخربتیاں بجھ جاتیں اورسکوت چھاجاتااورکٹڑے والے محسوس کرتے جیسے اس گہری خاموشی سے کراہوں کی آوازآرہی ہو۔
انسپکٹررؤف کے علاوہ کوئی دوسری شخصیت جوکٹڑے پراثراندازہوتی تھی،پیرسبزپوش کی تھی۔جب بھی وہ کٹڑے میں داخل ہوتے توایک تعجب اورخاموشی بھری سرگوشی بلندہوتی۔پنواڑی پان لگاناچھوڑدیتے۔تماش بینوں کی نگاہیںچوباروں سے ہٹ کرپیر صاحب کے چہرے اور لباس پرمرکوزجاتیں۔سیزمین دوکان کے اندرونی حصے سے دوڑکرباہرآکھڑے ہوتے اوررقاصائیں جنگلوں پرکھڑی ہوکرنیچے دیکھنے لگ جاتیں۔
پیرصاحب کے سبزریشمیں پیراہن پران کی لابنی سیاہ زلفیں لٹکتیں ان کے سرپرریشمیں سبزرومال عربی اندازسے بندھاہوتااوران کاحسین نسائی چہرہ چمکتااوررسیلی سیاہ آنکھیں جھکی رہتیں۔ان کے خدوخال ستواں تھے۔ان کی آنکھیں دیکھنے والی نہیں بلکہ دکھنے والی تھیںاورانہیں دیکھ کرمحسوس ہوتاتھا۔جیسے کوئی حسین عورت جوگی لباس پہنے چوبارے سے اترکرتفریحاًکٹڑے کے بازارمیں گھوم کراپنی نمائش کررہی ہو۔
آنچل اورگٹھڑیاں
اس کوچے کودیکھ کرنہ جانے ایلی کوکیاہوجاتا۔اس کے جسم پرچیونٹیاں رینگنے لگتیں اورپھرایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی اوراس کاجی چاہتاکہ وہ وہیں کھڑادیکھتارہے ۔دیکھتارہے۔
اب اس کے لئے آغاکے ملاقاتی کمرے میں بیٹھناناممکن ہوچکاتھا۔جب بھی وہ وہاں بیٹھتاتواسے محسوس ہوتاکہ کوئی اس پرہنس رہاہے۔اس کامذاق اڑارہاہے۔ایک رنگین آنچل لہراتااورکوئی ہنستاجیسے مذاق اڑاتا۔ایلی گھبراکراٹھتااورزینے کی طرف بھاگتازینے میں کھڑی نیم کے ہونٹوں پرپراسرارتبسم ہوتا’’آگئے ،آگئے ۔‘‘وہ آنکھیں مٹکاکرکہتی ۔ایلی کواس کی آوازمیں بلاکاطنزمحسوس ہوتاپھروہ باہرنکل جاتااوربازارکے کسی کونے میںکھڑاہوکرلوگوں کی طرف دیکھنے میں کھوجاتا۔
کالج میںجب آصف مسکراکراس کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا’’ایلی تسلیم۔‘‘توایک ریشمیں گٹھڑی دھم سے ان کے درمیان آگرتی اوراس کارازکھول دیتی۔وہ محسوس کرتاکہ آصف اس کے رازسے واقف ہے ۔ وہ جانتاہے کہ ایلی ایک ریشمیں گٹھڑی کھولنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا۔
پھرشام کودودونوں آموں کی کوٹھی قریب نہرکے کنارے نورسے ملتے اورنورکسی پیڑکے نیچے بیٹھ کرگاتااورشبھ لگن سے بہارآجاتی۔لیکن سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ نورکے لئے شہرسے اتنی دورچل کرآموں کی کوٹھی تک پہنچنامشکل تھااورنورکوگھرسے بلاناممکن نہ تھا۔کیونکہ نورمحلے کے لڑکوں سے اس قدرخوف زدہ تھاکہ اسے یہ گوارانہ تھاکہ کوئی جاکرگھرسے اسے بلائے ۔نورسے ایک جگہ مقررکرلی جاتی اورایلی مقرروقت پروہاںجاکرنورکواپنے بائیسکل پربٹھاکربورڈنگ میں لے آتا۔ایلی کویہ احساس نہ تھاکہ نورکویوں بائیسکل پرلاناخطرے سے خالی نہیں۔اسے معلوم نہ تھاکہ نورکویوںبائیسکل پرلاناخطرے سے خالی نہیں اسے معلوم نہ تھاکسی لڑکے سے دوستی کی وجہ سے عداوت بھی پیداہوسکتی ہے۔
ایک روزجب ایلی سفیدچوک میں کھڑانورکاانتظارکررہاتھاتوایک پہلوان قسم کاشخص آگیااوربڑی بے تکلفی سے بولا۔’’دیکھ بابوتونورکاپیچھاچھوڑدے ورنہ خون بہہ جائے گااورتیری کھلڑی اترجائے گی۔‘‘یہ کہہ کراس نے غصے میں نل پرایک گھونسہ مارا۔پانی کاایک فوارہ چھوٹااورایلی کے کپڑے بھیگ گئے۔
اس روزآصف اورایلی تن تنہانہر کے کنارے خاموش بٹیھے رہے حتیٰ کہ سورج کی سرخ دھاریاں دھندلی پڑگئیں۔اوردورشہرکی بتیاں روشن ہوکرناچنے لگیں۔مگرشبھ لگن سے بہارنہ آئی۔دیرتک وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے۔
پھرایلی نے کہا۔’’آصف میراجہاں جی نہیں لگتا۔‘‘
’’توپھرمیں علی پورسے ہوآؤں کیا۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’اس سے کیاہوگا۔‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘ایلی بولاشاید۔‘‘
’’اچھا۔‘‘آصف نے آہ بھری۔’’لیکن میں کہاں جاؤں۔‘‘
’’کیوں ۔تم تویہاں خوش ہو۔‘‘
’’ہاں خوش ہوں۔بڑاخوش ہوںلیکن ۔‘‘آصف نے آہ بھری’’لیکن کیا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’معلوم نہیں۔‘‘آصف نے سرجھکالیاایسے معلوم ہوتاہے جیسے اب یہ شہرویران ہوگیاہے۔جیسے کچھ باقی نہیںرہاجیسے کچھ کھوگیاہے۔‘‘
’’اب تووہ یہاں نہیں۔اب توتمہیں کوئی تنگ نہیں کرتی۔‘‘ایلی نے طنزاًکہا۔’’ہاں۔‘‘آصف نے آہ بھری۔’’اب مجھے کوئی تنگ نہیں کرتی۔‘‘
’’پھربھی تم اداس ہو۔عجیب بات ہے۔‘‘ایلی بولا۔
’’ہاں۔‘‘آصف نے اثبات میں سرہلایا۔’’عجیب بات ہے۔اچھاتم ہوآؤ علی پورسے۔‘‘اس نے آہ بھری۔’’کاش کہ میرابھی کوئی علی پورہوتا۔‘‘
اس روزوہ دونوں دیرتک اندھیرے میں نہرکے کنارے بیٹھے رہے حتیٰ کہ اللہ دادلکڑی اٹھائے ان کی تلاش میں آپہنچا۔
’’ارے یہاں بیٹھے ہوتم دونوں۔‘‘وہ چلایا۔’’اورمیں سمجھاشایدنہر میں ڈوب گئے جوابھی تک نہیںآئے۔’’ہاں ۔‘‘وہ انہیں خاموش دیکھ کرچلایا’’کیاکررہے ہومیاں۔یوں چپ چاپ بیٹھنے سے مطلب چلوایلی چلو۔‘‘
رات کے وقت لیٹے ہوئے ایلی نے شدت سے محسوس کیا جیسے شبھ لگن گزرگئی اوربہارکے بعدچاروں طرف خزاں کی ویرانی چھاگئی ہو۔چاروں طرف ایک لٹی ہوئی دنیاتھی۔دورندی کادھارااداس آوازمیں گنگتارہاتھا۔لہریں ہچکیاں لے رہی تھی۔درخت شائیں شائیں بھررہے تھے۔رسوئی میں راموبھدی آوازمیں کچھ گنگنارہاتھااورچاروں طرف گپ اندھیرالہریں ماررہاتھا۔
اس کاخیال نیم کی طرف منعطف ہوگیا۔ایک گٹھڑی سی لپٹ گئی۔ایک قہقہہ بلندہوااورزرداداس چہرے ستونوں کی اوٹ سے نکل کرجھانکنے لگے۔بڑی بڑی سیاہ آنکھیں تمسخرسے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
گھبراکراس نے باورچی خانے کے نل کوگھورناشروع کردیا۔۔۔کتناغلیظ نل ہے۔اس نے جھرجھری لی۔نہ جانے راموکہاں ہے کس کام میں لگاہے۔شایدبرتن صاف کررہاہو۔شایدرسوئی میں بیٹھاہو۔اسکی نگاہیں پھرنل پررک گئی۔اگراس کے گرداینٹوں کاچبوترابنادیاجائے تواس کی نگاہ میں نل کے گردایک صاف ستھراچبوترہ بن گیا۔’’اوربابو۔‘‘ایک بدمعاش اس کی طرف لپکا‘‘کھلڑی اترجائے گی تیری۔ہاں۔‘‘ایلی نے گھبراکرآنکھیں بندکرلیں۔اسے محسوس ہونے لگاکہ نل سے چھینٹے اڑرہے ہیں اوروہ شرابورہوچکاتھا۔
جاوید اقبال
شبھ لگن
ایلی کوموسیقی سے بے دلچسپی تھی۔گانے کی آوازسن کراس کے دل میں چوہے سے دوڑے لگتے۔دل بیٹھ جاتاایک رنگین اداسی اسے چاروں طرف سے گھیرلیتی۔جب سے جب سے شکنتلاکی ریہرسل شروع ہوئی تھی،اس کے لئے بورڈنگ میں جانامشکل ہوگیاتھا۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ عام لڑکوں کوریہرسل دیکھنے کے لئے نہیں چناگیاتھا۔اس لئے جب ریہرسل شروع ہوتی تووہ ہال سے باہردروازے کے شیشے سے لگ کردیکھتارہتااورجب سازندے حمدکی دھن بجاتے تواس پرعجیب کیفیت طاری ہوجاتی۔چندیوم میں ایلی کوتین چارمرتبہ ریہرسل سنتے پکڑلیاگیااورآخرکارڈرامے کے انچارج اسے پرنسپل کے پاس لے گیا۔پرنسپل نے پہلے تواسے ڈانٹاڈپٹا۔پھردفعتاًنہ جانے اسے کیاسوجھی بولا۔’’ہوں اگرتمہیں ڈرامے میں دلچسپی ہے توعملی طورپرہماری مددکیوں نہیں کرتے۔‘‘
’’عملی طورپر‘‘ایلی سوچنے لگا۔
’’تم گاسکتے ہو؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔
’’جی نہیں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’ناچ سکتے ہو؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’یہ اچھی دلچسپی ہے۔‘‘وہ ہنسنے لگے’’گانہیں سکتے۔ناچ نہیں سکتے مگرڈارمے سے دلچسپی ہے۔‘‘
نتیجہ یہ ہواکہ ایلی کوپروفیسرانچارج کے حوالے کردیاگیاجومناسب کام کرسکتاہو،اس سے لیاجائے اورایلی کوریہرسل کے دوران ہال میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی۔
جب ’’حمد‘‘کی مشق شروع ہوتی اورمیراثی طبلے پرہاتھ چلاتے توایلی کادل ڈوب جاتااوراس کے جسم پربیربہوٹیاں رینگنے لگتیں۔خاص طورپرجب ربابیوں کاوہ چھوٹاسالڑکانوراپنی بیٹھی بیٹھی سی آوازمیں ’’توجگ کاہے۔‘‘کہتاتواس کادل دھک سے رہ جاتاوہ سب کچھ بھو ل جاتا۔تمام تلخ یادیں محوہوجاتیں یہاں تک کہ وہ بائیسکل والاواقعہ بھی بھول جاتاجب وہ کپڑوں کی گٹھڑی کے بل کھولنے سے قاصررہاتھا۔اس وقت اسے شہزادکاچھم سے آنابھی بھول جاتا۔
پہلی مرتبہ اسے احساس ہواکہ موسیقی اسے تلخ یادوں سے آزادکرسکتی ہے۔خصوصاًجب نورکیسی شبھ لگن سے بہارآئی گاتاتوایلی یہ بھی بھول جاتاکہ وہ ایلی ہے کہ وہ علی احمد کابیٹاہے اورعلی احمدکوٹین کاسپاہی بننے سے دلچسپی ہے اسے سبھی کچھ بھول جاتااوروہ حیرانی سے اس سانورے سے چھوٹے سے نورکی طرف ٹکٹکی باندھ کردیکھتا۔دیکھتے چلاجاتا۔اس وقت نورکے چہرے کے گردایک ہالاسانمودارہوتاآنکھوں میں چمک لہراتی۔بازورقص کرنے لگتے۔اس وقت اسکی آنکھیں باتیں کرتیں اس کے چتون اظہارسے چھلکتے۔ان کاپیغام کس قدرحسین ہوتا۔
نورکودیکھ کرپہلی مرتبہ ایلی کونزہت کی عظمت کااحساس ہوا۔اس کاگیت سن کراس نے محسوس کیاجیسے واقعی بہارآگئی ہواوروہ شبھ لگن جس کی وجہ سے بہارآئی تھی۔نوربذات خودہو۔
اس کے بعدایلی کئی ایک دن شبھ لگن اوربہارمیں کھویارہا۔انتظارکرتے کرتے وہ تھک جاتا۔لیکن کالج کاوقت ختم ہونے میں نہ آتا۔خداخداکرکے ریہرسل کاوقت ہوتااورنورٹھمکتاہواہال میں داخل ہوتااورایلی کے لئے بہارآتی۔
معصوم فاحشہ
لیکن چندہی دن کے بعدایلی پریہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اس پتلے دبلے سانورے لڑکے میں دوشخصیتیں کام کررہی ہیں۔دومختلف متضادشخصیتیں ۔ایک وہ نورجوگاتے وقت اس میں بیدارہوتا۔وہ نورجس کی حرکات میں حسن کی جھلک دکھائی دیتی۔جس کے گلے میں سے گویاپگھلی ہوئی چاندی کاایک فوارہ چھوٹتا۔لیکن یونہی وہ گاناختم کردیتاتواس کی آنکھوں میں عریانی بھراپیغام جھلکتااوراس کی حرکات سے ستے پن کامظاہرہ ہوتا۔
نورکی چال توبالکل ان عورتوں کی طرح تھی۔جوکٹڑارنگین میں دوسرے درجے کے چوباروں میں بیٹھتی تھیں۔نورکی ان باتوں کو دیکھ کرایلی کودکھ سامحسوس ہوتااورجلدہی کسی اوربات کی توجہ منعطف کرلیتاتاکہ خیال بٹ جائے۔مگر اس کے باوجوداس کے دل میں کانٹاساچبھارہتا۔پھروہ شدیدکوشش سے تصورکے زورپراس نورکوگانے والے نورمیں بدل دیتااوریوں وہ عریاںمنظرشبھ لگن میں تبدیل ہوجاتااوربہارآجاتی۔
جب آصف کوایلی کی اس نئی دلچسپی کاعلم ہواتووہ بہت ہنساکہنے لگا’’اچھابھئی آج دیکھیں گے تمہارانور۔‘‘اس شام کوآصف گال ہتھیلی پررکھے بیٹھانورکاگاناسنتارہا حتیٰ کہ اس کی آنکھیں شفاف پانی کی مچھلیوں میں بدل گئیں اس کے ہونٹوں کی وہ تمسخرآمیزسلوٹ دورہوگئی اورپاؤں انجانے میں تال دینے لگے۔
اس کے بعدآصف اورایلی فارغ وقت میں نورکولے کرآموں والی کوٹھی کے قریب نہرکے کنارے چلے جاتے۔ایلی کسی پیڑتلے بیٹھ جاتا۔آصف ندی میں پاؤں لٹکالیتااورنورگاتااوراس شبھ لگن میں ایلی کی نگاہوں تلے گھنگھریالی لٹ لہراتی اورآصف کی آنکھیں جھیلوں میں تیرتیں اورسوکھے ہوئے درختوں پرہربادل یورش کرتی اورندی کاپانی ناچتااورآسمان پرندے رقص کرتے۔
گانے کے اختتام پرنورکی آنکھ میں وہ نورانی چمک بجھ جاتی ایک رنڈی کپڑے اتارنگلی ہوکران کے روبروآکھڑی ہوتی اورنمائش کرنے میں مصروف ہوجاتی۔ہونٹ جونکوں کی طرح ان کی طرف بڑھتے اوردونوں گھبراکروہاں سے چل دیتے اورسوچتے کہ کس طرح اس سے اپناپیچھاچھڑائیں اس وقت انہیں یہ فکردامن گیرہوجاتاکہ کوئی انہیںنورکے ساتھ دیکھ نہ پائے۔لیکن جونہی وہ نورسے جداہوتے تووہ اس خیال میںکھوجاتے۔شبھ لگن پھرکب آئے گا۔
اتفاق سے ایک روزشیخ ہمدم بھی آگئے اوران تنیوں نے مل کرشبھ لگن منائی لیکن شیخ عمدم خاموش ہوگئے اورپھراپنے مخصوص اندازمیں کہنے لگے:’’یہ سب ٹھیک ہے ۔الیاس صاحب!لیکن امرتسرکے ربابیے لڑکے سے نہر کے کنارے پرگاناسننااورپھرماشااللہ گانے والے جناب نورصاحب ہوں بات ذراخطرناک ہے۔‘‘
’’خطرناک ہے۔‘‘ایلی کی سمجھ نہ آیاکہ آخربات خطرناک کیوں تھی ۔اس میں خطرے کی کیابات تھی۔نوران کے ساتھ بے حدمانوس ہوچکاتھااوراب تواس پرواضح ہوچکاتھاکہ ان کامقصدموسیقی کے سواکچھ نہیں اوراس کاپاؤں ٹھمکانا‘آنکھیں مٹکانااورہونٹ نکالناقطعی طورپربے کاتھا۔ایلی نے اب سے پہلے کبھی اتنے چھوٹے بچے کوایسی عریاں حرکات کرتے ہوئے نہیں دیکھاتھا۔
نورچندایک روزکے لئے توان کامنہ تکتارہاپھرجب اسے یقین ہوگیاکہ اس کایہ نیاتعلق اپنی نوعیت کابالکل انوکھاتعلق ہے تووہ حیران رہ گیا۔یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔سمجھ میں آتی توبھی اسے یقین نہیں پڑتاتھا۔پھرنہ جانے اسے کیاہواکہ ایک روزپھوٹ پھوٹ کررونے لگا۔
’’خداکے لئے مجھے بچالو۔مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔میں یہ زندگی بسر نہیں کرناچاہتا۔‘‘اس کی آنکھوں میں آنسوتیررہے تھے۔پتلے پتلے ہونٹ لرزرہے تھے اوروہ امیدبھری نگاہوں سے ایلی اورآصف کی طرف دیکھ رہاتھا۔ندی کے کنارے پرسوکھے ہوئے درخت جوشبھ لگن سے ہرے ہوچکے تھے۔پھرسے سوکھ گئے۔ ندی کے پانی کی روانی تھم گئی۔جیسے وہ ایک جوہڑبن گئی ہواوران کے اردگردایک وسیع ویرانہ پھیلاہواتھا۔
بیگانے دوست
ایک روزآصف بھاگابھاگاایلی کے پاس آیااوراس کارنگ زردہورہاتھا۔
’’ایلی‘‘وہ بولا۔’’وہ ۔وہ سفینہ پھریہاں آرہی ہے۔اگروہ آگئی توپھرمیں کیاکروں گا۔چلوہم امرتسرسے بھاگ چلیںایلی۔‘‘
’’لیکن جائیں کہاں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’کہیں بھی ۔‘‘اس نے آہ بھرکرکہا۔
’’نہیں آصف۔‘‘ایلی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔’’اگروہاں بھی لڑکیوں نے تمہیں سلام کرنے شروع کردیئے تو۔‘‘
’’تو۔تو۔‘‘آصف سوچنے لگا۔’’تومیں کیاکروں ۔‘‘اس نے بے بسی سے ہاتھ چلایا۔
’’تم ان کی شکایت کرناچھوڑدو۔‘‘ایلی نے سوچ کرکہا’’شکایتوں کی وجہ سے وہ چڑجاتی ہیں۔ضدپیداہوتی ہے ۔ تم خودانہیں سلام کرناشروع کردوتاکہ وہ خودتمہاری شکائتیں کریں۔‘‘
’’میری شکائتیں۔‘‘آصف گھبراکربولا۔’’نہیں نہیںیہ میں برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘
’’اگرتم انہیں سلام کرناشروع کردوگے توان کابرتاؤمحبوب کاساہوجائے گا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’اوروہ تم سے دوربھاگنے لگیں گی۔انہیں دوربھگانے کی یہی ایک ترکیب ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘آصف نے تالی بجائی۔’’کیایہ چلے گی۔پھرتوبہت اچھاہے۔‘‘
آصف سمجھ رہاتھاکہ ایلی اسے مشورہ دے رہاتھا۔حالانکہ درحقیت مشورے کے پردے میں وہ اپنی مشکل بیان کررہاتھاوہ محسوس کررہاتھاکہ کوئی لڑکی ایسی نہ تھی جوصبح سویرے اٹھ کراسے سلام کرتی ہو۔کوئی بھی تونہ تھی جو اس کے لئے بیقرارہو۔بلکہ قریب آکربھی وہ گٹھڑی کی طرح سمٹ جاتی تھیںاورکوشش کے باوجودبھی کھل نہ سکتی تھیں۔
’’لیکن لیکن آصف ۔‘‘ایلی نے کہا’’ایساکویں ہوتاہے اگرتم ان کی تلاش میں سرگردان ہوجاؤ تووہ دوربھاگتی ہیں اوراگرتم ان سے دوربھاگوتووہ تمہاراپیچھاکرتی ہیں۔‘‘
’’ہاں ‘‘آصف گنگنایا‘’’مگرمیں ان کی تلاش میں کیسے کھوجاؤں۔‘‘
اس کے برعکس ایلی سوچ رہاتھاکہ وہ انہیں اپنی تلاش میں کیسے سرگرداںکرے۔کس طرح انہیں تلاش پرمائل کرے۔
وہ دونوں بہترین دوست تھے لیکن ایک دوسرے سے اس قدرقریب ہونے کے باوجودایک دوسرے سے کس قدر دورتھے۔کس قدربیگانہ ۔ان کی مشکلات ایک دوسرے سے کس قدرمختلف اورمتضادتھیں۔
’’اچھا۔‘‘آصف نے کہا۔تومجھے بتاؤکہ میں کس طرح ان پرظاہرکروں کہ میں ان کامتلاشی ہوں۔‘‘
’’تم صبح اٹھ کران کوسلام کرناشروع کردو۔‘‘ایلی نے سوچتے ہوئے کہا۔’’اورکبھی کبھی دوپہریاشام کوکوشش کرکے کوٹھے یاکھڑی سے اسے دیکھ لیاکرو۔‘‘
’’اچھا۔میں کوشش کروں گا۔‘‘آصف بولا۔
اورایلی نے دل میں سوچااچھامیں کوشش کروں گاکہ کسی کواپنے لئے سرگرداں کروں۔مائل جستجوکروں۔
وہ کوچہ
ایلی اب محسوس کرنے لگاتھاجیسے وہ سمندرمیں بہتاہواتنکاہو۔خصوصاًجب وہ اس کوچے میں جاتاتویہ احساس اس کی رگ وپے میںبس جاتا۔وہاں پہنچ کروہ محسوس کرنے لگتاجیسے زندگی ایک گرداب ہوجس میں افرادکی چھوٹی چھوٹی قندیلیں اپنی اپنی دھن میں سلگ رہی ہوں اورگرداب کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ دیوانہ وارگھوم رہی ہوں۔
جب کبھی شام کے وقت ایلی آغاسے ملنے ان کے یہاں جاتاتوآغاایلی کولے کرڈیوڑھی کے باہرکھڑے ہوجاتے تاکہ کٹڑے میں چلتے پھرتے لوگوں کاتماشاکرسکیں۔کٹڑے میں لوگ پان کھاتے،سگریٹ کے کش لیتے اورنگاہوں کی انگلیوں سے چوباروں میں بیٹھی ہوئی رقاصاؤں کوچھیڑتے۔اشارے کرتے۔تماشین تانگوں پربیٹھ کرچوباروں کی طرف گرم نگاہیں ڈالتے ہوئے گزجاتے۔مزدوروں کے گروہ کوچے میں ٹہلتے ۔تاجرنگاہیں جھکائے قدم اٹھاتے ہوئے نکل جاتے ۔شوقین مزاج دوکانداروں کی نگاہیں گاہکوں اوررقاصوں کے درمیان یوں گھومتیں جیسے گھڑی کاپنڈولم چلتاہے۔
ہرچندگھنٹوں کے بعدکٹڑے میں کوئی ایساشخص بھی آنکلتاجیسے دیکھ کرلوگوں کی نظروں چوباروں سے ہٹ کراس کی طرف منعطف ہوجاتیں۔بازارمیں ایک مدھم سی سرگوشی ابھرتی۔
’’کون ہے۔‘‘
’’ہائیں یہ ہے وہ۔‘‘
’’یارانہ ہے اس سے کیا؟‘‘
اوروہ سرگوشی برف کی گیندکی طرح لڑھکتی ۔لڑھکتے جاتی۔حتیٰ کہ ساراکٹڑااس کی لپیٹ میں آجاتا۔رقاصائیں بھی اپنے بے نیازانہ اندازکوچھوڑکربچوں کی طرح بازارکی طرف دیکھنے لگتیں اورچندساعت کیلئے انہیںیادنہ رہتاکہ وہ دیکھنے کے لئے نہیں بلکہ اپناآپ دکھانے کے لئے وہاں بیٹھ ہیں۔اس وقت رقاصاؤں میں نسائیت کی جھلک نمودارہوجاتی اورمحسوس ہونے لگتاکہ وہ گڑیاںنہیں بلکہ جیتی جاگتی عورتیں ہیں۔
لکھنؤ الہ آبادیامدارس کاکوئی مشہورسازندہ آجاتایاکوئی پیرانوکھالباس پہنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کٹڑے میں داخل ہوتا۔وہاں مشہورڈاکواورلیٹرے آیاکرتے تھے۔کروڑپتی اورگویے تواکثرآتے۔لیکن کٹڑے میں سب سے زیادہ دھوم انسپکٹررؤف کی تھی۔
انسپکٹررؤف
اگرانسپکٹررؤف آجاتاتوفوراًبازارپرسناٹاچھاجاتا۔پنواڑی سہم کرپیچھے ہٹ جاتے۔دوکاندارچوباروں کی طرف دیکھناموقوف کردیتے ۔راہ گیرنگاہیںجھکالیتے ۔ادھرچوباروں میں سرخی بھرے چہرے زردپڑجاتے۔نگاہوں میں شوخی کی جگہ گھبراہٹ دوڑجاتی ۔رقاصائیں یوں چپ چاپ گردن جھکائے بیٹھ جاتیں جیسے طبیعت ناسازہو۔
اس زمانے میں کٹڑے پررؤف کی حکومت تھی۔وہ کٹڑااس کی ریاست تھی۔جب شام کے وقت وردی پرسیٹی پیٹی لگائی۔سرپرطرے دارپگڑی باندھے اپنے باڈی گارڈکے ساتھ وہ کٹڑے میں نکلتاتوایک سرگوشی ابھرتی اورتیزی سے یہاں سے وہاں تک دوڑجاتی اوراپنے عقب میں بھیانک خاموشی چھوڑجاتی۔
پنواڑی چوباروں کی طرف تاڑنے کاشغل چھوڑکرشدت سے پان بنانے میں مصروف ہوجاتے۔دوکان پرکھڑے شوقین نظریں لڑانے کاخیال موقوف کردیتے۔جنرل مرچنٹس کے سلیزمین حساب کتاب کے رجسٹرکھول کرمصروف ہوجاتے۔
انسپکٹررؤف کی آمد کی خبرسن کرچوباروں میں سازندوں کے ہاتھ لرزکرممنوع سروں پرجاپڑے دکھ بھری سروں پرقیام لمبے ہوجاتے۔سارنگیاں ناچناچھوڑکرروناشروع کردیتیںاورمسکراتی ہوئی رقاصائیں گھبراکرگاناچھوڑدیتیں اورکھوئے ہوئے اندازمیں پان لگانے بیٹھ جاتیں۔
انسپکٹررؤف تمہیدکے طورکٹڑے کے دوتین چکرلگاتے ۔پھرکسی چوبارے کی دروازے پراپنے سپاہی کومتعین کردیتے اورخودسیڑھیاں چڑھ کراوپرجاپہنچتے۔ان کے سیڑھیاں چڑھتے ہی وہ طلسم گویاٹوٹ جاتا۔اس وقت کوئی پنواڑی نعرہ لگاتا’’علی ‘‘اس کاوہ نعرہ کن بن کرکٹڑے میں گونجتااورکٹڑے میں رکی ہوئی زندگی پھرسے حرکت میں آجاتی۔تماش بینوں کی نگاہیں بے باکی سے کھڑکیوں پرمنڈلاناشروع کریتیں۔پنواڑیوں کی دوکانوں پرکھڑے شرفاپھرسے رقاصاؤں کوتاڑنے لگتے۔رقاصاؤں کے ہونٹوں پرایک بارپھرتبسم لہراتااوران کے دل سے بوجھ اترجاتا۔
البتہ جس چوبارے پرانسپکٹررؤف چڑھ جاتے تھے وہاں لوگ کی حالت بد سے بدترہوجاتی۔محفل برخواست ہوجاتی۔سیٹھ اورتاجرچپکے سے نیچے اترآتے۔میراثی ہاتھ دھرکربیٹھ جاتے۔
پھراگررؤف کے حکم کے مطابق وہاں راگ رنگ ہوتابھی توسارنگیاں گانے کی بجائے بین کوتین طبلہ سرپیٹتا۔پھرکچھ دیرکے بعدچوبارے سے انسپکٹررؤف کے دھاڑنے کی آوازیں آتیں جوسارے کٹڑے میں گونجتیں۔وہ نشے میں چیختاچلاتااوردھمکیاں دیتا۔غلیظ گالیاں دیتااورپھرایسے لگتاجیسے چوبارے میں دنگافسادہورہاہو۔وہ بالآخربتیاں بجھ جاتیں اورسکوت چھاجاتااورکٹڑے والے محسوس کرتے جیسے اس گہری خاموشی سے کراہوں کی آوازآرہی ہو۔
انسپکٹررؤف کے علاوہ کوئی دوسری شخصیت جوکٹڑے پراثراندازہوتی تھی،پیرسبزپوش کی تھی۔جب بھی وہ کٹڑے میں داخل ہوتے توایک تعجب اورخاموشی بھری سرگوشی بلندہوتی۔پنواڑی پان لگاناچھوڑدیتے۔تماش بینوں کی نگاہیںچوباروں سے ہٹ کرپیر صاحب کے چہرے اور لباس پرمرکوزجاتیں۔سیزمین دوکان کے اندرونی حصے سے دوڑکرباہرآکھڑے ہوتے اوررقاصائیں جنگلوں پرکھڑی ہوکرنیچے دیکھنے لگ جاتیں۔
پیرصاحب کے سبزریشمیں پیراہن پران کی لابنی سیاہ زلفیں لٹکتیں ان کے سرپرریشمیں سبزرومال عربی اندازسے بندھاہوتااوران کاحسین نسائی چہرہ چمکتااوررسیلی سیاہ آنکھیں جھکی رہتیں۔ان کے خدوخال ستواں تھے۔ان کی آنکھیں دیکھنے والی نہیں بلکہ دکھنے والی تھیںاورانہیں دیکھ کرمحسوس ہوتاتھا۔جیسے کوئی حسین عورت جوگی لباس پہنے چوبارے سے اترکرتفریحاًکٹڑے کے بازارمیں گھوم کراپنی نمائش کررہی ہو۔
آنچل اورگٹھڑیاں
اس کوچے کودیکھ کرنہ جانے ایلی کوکیاہوجاتا۔اس کے جسم پرچیونٹیاں رینگنے لگتیں اورپھرایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی اوراس کاجی چاہتاکہ وہ وہیں کھڑادیکھتارہے ۔دیکھتارہے۔
اب اس کے لئے آغاکے ملاقاتی کمرے میں بیٹھناناممکن ہوچکاتھا۔جب بھی وہ وہاں بیٹھتاتواسے محسوس ہوتاکہ کوئی اس پرہنس رہاہے۔اس کامذاق اڑارہاہے۔ایک رنگین آنچل لہراتااورکوئی ہنستاجیسے مذاق اڑاتا۔ایلی گھبراکراٹھتااورزینے کی طرف بھاگتازینے میں کھڑی نیم کے ہونٹوں پرپراسرارتبسم ہوتا’’آگئے ،آگئے ۔‘‘وہ آنکھیں مٹکاکرکہتی ۔ایلی کواس کی آوازمیں بلاکاطنزمحسوس ہوتاپھروہ باہرنکل جاتااوربازارکے کسی کونے میںکھڑاہوکرلوگوں کی طرف دیکھنے میں کھوجاتا۔
کالج میںجب آصف مسکراکراس کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا’’ایلی تسلیم۔‘‘توایک ریشمیں گٹھڑی دھم سے ان کے درمیان آگرتی اوراس کارازکھول دیتی۔وہ محسوس کرتاکہ آصف اس کے رازسے واقف ہے ۔ وہ جانتاہے کہ ایلی ایک ریشمیں گٹھڑی کھولنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا۔
پھرشام کودودونوں آموں کی کوٹھی قریب نہرکے کنارے نورسے ملتے اورنورکسی پیڑکے نیچے بیٹھ کرگاتااورشبھ لگن سے بہارآجاتی۔لیکن سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ نورکے لئے شہرسے اتنی دورچل کرآموں کی کوٹھی تک پہنچنامشکل تھااورنورکوگھرسے بلاناممکن نہ تھا۔کیونکہ نورمحلے کے لڑکوں سے اس قدرخوف زدہ تھاکہ اسے یہ گوارانہ تھاکہ کوئی جاکرگھرسے اسے بلائے ۔نورسے ایک جگہ مقررکرلی جاتی اورایلی مقرروقت پروہاںجاکرنورکواپنے بائیسکل پربٹھاکربورڈنگ میں لے آتا۔ایلی کویہ احساس نہ تھاکہ نورکویوں بائیسکل پرلاناخطرے سے خالی نہیں۔اسے معلوم نہ تھاکہ نورکویوںبائیسکل پرلاناخطرے سے خالی نہیں اسے معلوم نہ تھاکسی لڑکے سے دوستی کی وجہ سے عداوت بھی پیداہوسکتی ہے۔
ایک روزجب ایلی سفیدچوک میں کھڑانورکاانتظارکررہاتھاتوایک پہلوان قسم کاشخص آگیااوربڑی بے تکلفی سے بولا۔’’دیکھ بابوتونورکاپیچھاچھوڑدے ورنہ خون بہہ جائے گااورتیری کھلڑی اترجائے گی۔‘‘یہ کہہ کراس نے غصے میں نل پرایک گھونسہ مارا۔پانی کاایک فوارہ چھوٹااورایلی کے کپڑے بھیگ گئے۔
اس روزآصف اورایلی تن تنہانہر کے کنارے خاموش بٹیھے رہے حتیٰ کہ سورج کی سرخ دھاریاں دھندلی پڑگئیں۔اوردورشہرکی بتیاں روشن ہوکرناچنے لگیں۔مگرشبھ لگن سے بہارنہ آئی۔دیرتک وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے۔
پھرایلی نے کہا۔’’آصف میراجہاں جی نہیں لگتا۔‘‘
’’توپھرمیں علی پورسے ہوآؤں کیا۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’اس سے کیاہوگا۔‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘ایلی بولاشاید۔‘‘
’’اچھا۔‘‘آصف نے آہ بھری۔’’لیکن میں کہاں جاؤں۔‘‘
’’کیوں ۔تم تویہاں خوش ہو۔‘‘
’’ہاں خوش ہوں۔بڑاخوش ہوںلیکن ۔‘‘آصف نے آہ بھری’’لیکن کیا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’معلوم نہیں۔‘‘آصف نے سرجھکالیاایسے معلوم ہوتاہے جیسے اب یہ شہرویران ہوگیاہے۔جیسے کچھ باقی نہیںرہاجیسے کچھ کھوگیاہے۔‘‘
’’اب تووہ یہاں نہیں۔اب توتمہیں کوئی تنگ نہیں کرتی۔‘‘ایلی نے طنزاًکہا۔’’ہاں۔‘‘آصف نے آہ بھری۔’’اب مجھے کوئی تنگ نہیں کرتی۔‘‘
’’پھربھی تم اداس ہو۔عجیب بات ہے۔‘‘ایلی بولا۔
’’ہاں۔‘‘آصف نے اثبات میں سرہلایا۔’’عجیب بات ہے۔اچھاتم ہوآؤ علی پورسے۔‘‘اس نے آہ بھری۔’’کاش کہ میرابھی کوئی علی پورہوتا۔‘‘
اس روزوہ دونوں دیرتک اندھیرے میں نہرکے کنارے بیٹھے رہے حتیٰ کہ اللہ دادلکڑی اٹھائے ان کی تلاش میں آپہنچا۔
’’ارے یہاں بیٹھے ہوتم دونوں۔‘‘وہ چلایا۔’’اورمیں سمجھاشایدنہر میں ڈوب گئے جوابھی تک نہیںآئے۔’’ہاں ۔‘‘وہ انہیں خاموش دیکھ کرچلایا’’کیاکررہے ہومیاں۔یوں چپ چاپ بیٹھنے سے مطلب چلوایلی چلو۔‘‘
رات کے وقت لیٹے ہوئے ایلی نے شدت سے محسوس کیا جیسے شبھ لگن گزرگئی اوربہارکے بعدچاروں طرف خزاں کی ویرانی چھاگئی ہو۔چاروں طرف ایک لٹی ہوئی دنیاتھی۔دورندی کادھارااداس آوازمیں گنگتارہاتھا۔لہریں ہچکیاں لے رہی تھی۔درخت شائیں شائیں بھررہے تھے۔رسوئی میں راموبھدی آوازمیں کچھ گنگنارہاتھااورچاروں طرف گپ اندھیرالہریں ماررہاتھا۔
اس کاخیال نیم کی طرف منعطف ہوگیا۔ایک گٹھڑی سی لپٹ گئی۔ایک قہقہہ بلندہوااورزرداداس چہرے ستونوں کی اوٹ سے نکل کرجھانکنے لگے۔بڑی بڑی سیاہ آنکھیں تمسخرسے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
گھبراکراس نے باورچی خانے کے نل کوگھورناشروع کردیا۔۔۔کتناغلیظ نل ہے۔اس نے جھرجھری لی۔نہ جانے راموکہاں ہے کس کام میں لگاہے۔شایدبرتن صاف کررہاہو۔شایدرسوئی میں بیٹھاہو۔اسکی نگاہیں پھرنل پررک گئی۔اگراس کے گرداینٹوں کاچبوترابنادیاجائے تواس کی نگاہ میں نل کے گردایک صاف ستھراچبوترہ بن گیا۔’’اوربابو۔‘‘ایک بدمعاش اس کی طرف لپکا‘‘کھلڑی اترجائے گی تیری۔ہاں۔‘‘ایلی نے گھبراکرآنکھیں بندکرلیں۔اسے محسوس ہونے لگاکہ نل سے چھینٹے اڑرہے ہیں اوروہ شرابورہوچکاتھا۔
جاوید اقبال