علی پور کا ایلی(جاوید اقبال) 306- 335

قیصرانی

لائبریرین
اجراہوگیا۔اورچندہی دنوں میں کالج میں شکنتلاکے کھیل کی ریہرسل شروع ہوگئی۔
شبھ لگن
ایلی کوموسیقی سے بے دلچسپی تھی۔گانے کی آوازسن کراس کے دل میں چوہے سے دوڑے لگتے۔دل بیٹھ جاتاایک رنگین اداسی اسے چاروں طرف سے گھیرلیتی۔جب سے جب سے شکنتلاکی ریہرسل شروع ہوئی تھی،اس کے لئے بورڈنگ میں جانامشکل ہوگیاتھا۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ عام لڑکوں کوریہرسل دیکھنے کے لئے نہیں چناگیاتھا۔اس لئے جب ریہرسل شروع ہوتی تووہ ہال سے باہردروازے کے شیشے سے لگ کردیکھتارہتااورجب سازندے حمدکی دھن بجاتے تواس پرعجیب کیفیت طاری ہوجاتی۔چندیوم میں ایلی کوتین چارمرتبہ ریہرسل سنتے پکڑلیاگیااورآخرکارڈرامے کے انچارج اسے پرنسپل کے پاس لے گیا۔پرنسپل نے پہلے تواسے ڈانٹاڈپٹا۔پھردفعتاًنہ جانے اسے کیاسوجھی بولا۔’’ہوں اگرتمہیں ڈرامے میں دلچسپی ہے توعملی طورپرہماری مددکیوں نہیں کرتے۔‘‘
’’عملی طورپر‘‘ایلی سوچنے لگا۔
’’تم گاسکتے ہو؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔
’’جی نہیں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’ناچ سکتے ہو؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’یہ اچھی دلچسپی ہے۔‘‘وہ ہنسنے لگے’’گانہیں سکتے۔ناچ نہیں سکتے مگرڈارمے سے دلچسپی ہے۔‘‘
نتیجہ یہ ہواکہ ایلی کوپروفیسرانچارج کے حوالے کردیاگیاجومناسب کام کرسکتاہو،اس سے لیاجائے اورایلی کوریہرسل کے دوران ہال میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی۔
جب ’’حمد‘‘کی مشق شروع ہوتی اورمیراثی طبلے پرہاتھ چلاتے توایلی کادل ڈوب جاتااوراس کے جسم پربیربہوٹیاں رینگنے لگتیں۔خاص طورپرجب ربابیوں کاوہ چھوٹاسالڑکانوراپنی بیٹھی بیٹھی سی آوازمیں ’’توجگ کاہے۔‘‘کہتاتواس کادل دھک سے رہ جاتاوہ سب کچھ بھو ل جاتا۔تمام تلخ یادیں محوہوجاتیں یہاں تک کہ وہ بائیسکل والاواقعہ بھی بھول جاتاجب وہ کپڑوں کی گٹھڑی کے بل کھولنے سے قاصررہاتھا۔اس وقت اسے شہزادکاچھم سے آنابھی بھول جاتا۔
پہلی مرتبہ اسے احساس ہواکہ موسیقی اسے تلخ یادوں سے آزادکرسکتی ہے۔خصوصاًجب نورکیسی شبھ لگن سے بہارآئی گاتاتوایلی یہ بھی بھول جاتاکہ وہ ایلی ہے کہ وہ علی احمد کابیٹاہے اورعلی احمدکوٹین کاسپاہی بننے سے دلچسپی ہے اسے سبھی کچھ بھول جاتااوروہ حیرانی سے اس سانورے سے چھوٹے سے نورکی طرف ٹکٹکی باندھ کردیکھتا۔دیکھتے چلاجاتا۔اس وقت نورکے چہرے کے گردایک ہالاسانمودارہوتاآنکھوں میں چمک لہراتی۔بازورقص کرنے لگتے۔اس وقت اسکی آنکھیں باتیں کرتیں اس کے چتون اظہارسے چھلکتے۔ان کاپیغام کس قدرحسین ہوتا۔
نورکودیکھ کرپہلی مرتبہ ایلی کونزہت کی عظمت کااحساس ہوا۔اس کاگیت سن کراس نے محسوس کیاجیسے واقعی بہارآگئی ہواوروہ شبھ لگن جس کی وجہ سے بہارآئی تھی۔نوربذات خودہو۔
اس کے بعدایلی کئی ایک دن شبھ لگن اوربہارمیں کھویارہا۔انتظارکرتے کرتے وہ تھک جاتا۔لیکن کالج کاوقت ختم ہونے میں نہ آتا۔خداخداکرکے ریہرسل کاوقت ہوتااورنورٹھمکتاہواہال میں داخل ہوتااورایلی کے لئے بہارآتی۔
معصوم فاحشہ
لیکن چندہی دن کے بعدایلی پریہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اس پتلے دبلے سانورے لڑکے میں دوشخصیتیں کام کررہی ہیں۔دومختلف متضادشخصیتیں ۔ایک وہ نورجوگاتے وقت اس میں بیدارہوتا۔وہ نورجس کی حرکات میں حسن کی جھلک دکھائی دیتی۔جس کے گلے میں سے گویاپگھلی ہوئی چاندی کاایک فوارہ چھوٹتا۔لیکن یونہی وہ گاناختم کردیتاتواس کی آنکھوں میں عریانی بھراپیغام جھلکتااوراس کی حرکات سے ستے پن کامظاہرہ ہوتا۔
نورکی چال توبالکل ان عورتوں کی طرح تھی۔جوکٹڑارنگین میں دوسرے درجے کے چوباروں میں بیٹھتی تھیں۔نورکی ان باتوں کو دیکھ کرایلی کودکھ سامحسوس ہوتااورجلدہی کسی اوربات کی توجہ منعطف کرلیتاتاکہ خیال بٹ جائے۔مگر اس کے باوجوداس کے دل میں کانٹاساچبھارہتا۔پھروہ شدیدکوشش سے تصورکے زورپراس نورکوگانے والے نورمیں بدل دیتااوریوں وہ عریاںمنظرشبھ لگن میں تبدیل ہوجاتااوربہارآجاتی۔
جب آصف کوایلی کی اس نئی دلچسپی کاعلم ہواتووہ بہت ہنساکہنے لگا’’اچھابھئی آج دیکھیں گے تمہارانور۔‘‘اس شام کوآصف گال ہتھیلی پررکھے بیٹھانورکاگاناسنتارہا حتیٰ کہ اس کی آنکھیں شفاف پانی کی مچھلیوں میں بدل گئیں اس کے ہونٹوں کی وہ تمسخرآمیزسلوٹ دورہوگئی اورپاؤں انجانے میں تال دینے لگے۔
اس کے بعدآصف اورایلی فارغ وقت میں نورکولے کرآموں والی کوٹھی کے قریب نہرکے کنارے چلے جاتے۔ایلی کسی پیڑتلے بیٹھ جاتا۔آصف ندی میں پاؤں لٹکالیتااورنورگاتااوراس شبھ لگن میں ایلی کی نگاہوں تلے گھنگھریالی لٹ لہراتی اورآصف کی آنکھیں جھیلوں میں تیرتیں اورسوکھے ہوئے درختوں پرہربادل یورش کرتی اورندی کاپانی ناچتااورآسمان پرندے رقص کرتے۔
گانے کے اختتام پرنورکی آنکھ میں وہ نورانی چمک بجھ جاتی ایک رنڈی کپڑے اتارنگلی ہوکران کے روبروآکھڑی ہوتی اورنمائش کرنے میں مصروف ہوجاتی۔ہونٹ جونکوں کی طرح ان کی طرف بڑھتے اوردونوں گھبراکروہاں سے چل دیتے اورسوچتے کہ کس طرح اس سے اپناپیچھاچھڑائیں اس وقت انہیں یہ فکردامن گیرہوجاتاکہ کوئی انہیںنورکے ساتھ دیکھ نہ پائے۔لیکن جونہی وہ نورسے جداہوتے تووہ اس خیال میںکھوجاتے۔شبھ لگن پھرکب آئے گا۔
اتفاق سے ایک روزشیخ ہمدم بھی آگئے اوران تنیوں نے مل کرشبھ لگن منائی لیکن شیخ عمدم خاموش ہوگئے اورپھراپنے مخصوص اندازمیں کہنے لگے:’’یہ سب ٹھیک ہے ۔الیاس صاحب!لیکن امرتسرکے ربابیے لڑکے سے نہر کے کنارے پرگاناسننااورپھرماشااللہ گانے والے جناب نورصاحب ہوں بات ذراخطرناک ہے۔‘‘
’’خطرناک ہے۔‘‘ایلی کی سمجھ نہ آیاکہ آخربات خطرناک کیوں تھی ۔اس میں خطرے کی کیابات تھی۔نوران کے ساتھ بے حدمانوس ہوچکاتھااوراب تواس پرواضح ہوچکاتھاکہ ان کامقصدموسیقی کے سواکچھ نہیں اوراس کاپاؤں ٹھمکانا‘آنکھیں مٹکانااورہونٹ نکالناقطعی طورپربے کاتھا۔ایلی نے اب سے پہلے کبھی اتنے چھوٹے بچے کوایسی عریاں حرکات کرتے ہوئے نہیں دیکھاتھا۔
نورچندایک روزکے لئے توان کامنہ تکتارہاپھرجب اسے یقین ہوگیاکہ اس کایہ نیاتعلق اپنی نوعیت کابالکل انوکھاتعلق ہے تووہ حیران رہ گیا۔یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔سمجھ میں آتی توبھی اسے یقین نہیں پڑتاتھا۔پھرنہ جانے اسے کیاہواکہ ایک روزپھوٹ پھوٹ کررونے لگا۔
’’خداکے لئے مجھے بچالو۔مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔میں یہ زندگی بسر نہیں کرناچاہتا۔‘‘اس کی آنکھوں میں آنسوتیررہے تھے۔پتلے پتلے ہونٹ لرزرہے تھے اوروہ امیدبھری نگاہوں سے ایلی اورآصف کی طرف دیکھ رہاتھا۔ندی کے کنارے پرسوکھے ہوئے درخت جوشبھ لگن سے ہرے ہوچکے تھے۔پھرسے سوکھ گئے۔ ندی کے پانی کی روانی تھم گئی۔جیسے وہ ایک جوہڑبن گئی ہواوران کے اردگردایک وسیع ویرانہ پھیلاہواتھا۔
بیگانے دوست
ایک روزآصف بھاگابھاگاایلی کے پاس آیااوراس کارنگ زردہورہاتھا۔
’’ایلی‘‘وہ بولا۔’’وہ ۔وہ سفینہ پھریہاں آرہی ہے۔اگروہ آگئی توپھرمیں کیاکروں گا۔چلوہم امرتسرسے بھاگ چلیںایلی۔‘‘
’’لیکن جائیں کہاں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’کہیں بھی ۔‘‘اس نے آہ بھرکرکہا۔
’’نہیں آصف۔‘‘ایلی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔’’اگروہاں بھی لڑکیوں نے تمہیں سلام کرنے شروع کردیئے تو۔‘‘
’’تو۔تو۔‘‘آصف سوچنے لگا۔’’تومیں کیاکروں ۔‘‘اس نے بے بسی سے ہاتھ چلایا۔
’’تم ان کی شکایت کرناچھوڑدو۔‘‘ایلی نے سوچ کرکہا’’شکایتوں کی وجہ سے وہ چڑجاتی ہیں۔ضدپیداہوتی ہے ۔ تم خودانہیں سلام کرناشروع کردوتاکہ وہ خودتمہاری شکائتیں کریں۔‘‘
’’میری شکائتیں۔‘‘آصف گھبراکربولا۔’’نہیں نہیںیہ میں برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘
’’اگرتم انہیں سلام کرناشروع کردوگے توان کابرتاؤمحبوب کاساہوجائے گا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’اوروہ تم سے دوربھاگنے لگیں گی۔انہیں دوربھگانے کی یہی ایک ترکیب ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘آصف نے تالی بجائی۔’’کیایہ چلے گی۔پھرتوبہت اچھاہے۔‘‘
آصف سمجھ رہاتھاکہ ایلی اسے مشورہ دے رہاتھا۔حالانکہ درحقیت مشورے کے پردے میں وہ اپنی مشکل بیان کررہاتھاوہ محسوس کررہاتھاکہ کوئی لڑکی ایسی نہ تھی جوصبح سویرے اٹھ کراسے سلام کرتی ہو۔کوئی بھی تونہ تھی جو اس کے لئے بیقرارہو۔بلکہ قریب آکربھی وہ گٹھڑی کی طرح سمٹ جاتی تھیںاورکوشش کے باوجودبھی کھل نہ سکتی تھیں۔
’’لیکن لیکن آصف ۔‘‘ایلی نے کہا’’ایساکویں ہوتاہے اگرتم ان کی تلاش میں سرگردان ہوجاؤ تووہ دوربھاگتی ہیں اوراگرتم ان سے دوربھاگوتووہ تمہاراپیچھاکرتی ہیں۔‘‘
’’ہاں ‘‘آصف گنگنایا‘’’مگرمیں ان کی تلاش میں کیسے کھوجاؤں۔‘‘
اس کے برعکس ایلی سوچ رہاتھاکہ وہ انہیں اپنی تلاش میں کیسے سرگرداںکرے۔کس طرح انہیں تلاش پرمائل کرے۔
وہ دونوں بہترین دوست تھے لیکن ایک دوسرے سے اس قدرقریب ہونے کے باوجودایک دوسرے سے کس قدر دورتھے۔کس قدربیگانہ ۔ان کی مشکلات ایک دوسرے سے کس قدرمختلف اورمتضادتھیں۔
’’اچھا۔‘‘آصف نے کہا۔تومجھے بتاؤکہ میں کس طرح ان پرظاہرکروں کہ میں ان کامتلاشی ہوں۔‘‘
’’تم صبح اٹھ کران کوسلام کرناشروع کردو۔‘‘ایلی نے سوچتے ہوئے کہا۔’’اورکبھی کبھی دوپہریاشام کوکوشش کرکے کوٹھے یاکھڑی سے اسے دیکھ لیاکرو۔‘‘
’’اچھا۔میں کوشش کروں گا۔‘‘آصف بولا۔
اورایلی نے دل میں سوچااچھامیں کوشش کروں گاکہ کسی کواپنے لئے سرگرداں کروں۔مائل جستجوکروں۔
وہ کوچہ
ایلی اب محسوس کرنے لگاتھاجیسے وہ سمندرمیں بہتاہواتنکاہو۔خصوصاًجب وہ اس کوچے میں جاتاتویہ احساس اس کی رگ وپے میںبس جاتا۔وہاں پہنچ کروہ محسوس کرنے لگتاجیسے زندگی ایک گرداب ہوجس میں افرادکی چھوٹی چھوٹی قندیلیں اپنی اپنی دھن میں سلگ رہی ہوں اورگرداب کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ دیوانہ وارگھوم رہی ہوں۔
جب کبھی شام کے وقت ایلی آغاسے ملنے ان کے یہاں جاتاتوآغاایلی کولے کرڈیوڑھی کے باہرکھڑے ہوجاتے تاکہ کٹڑے میں چلتے پھرتے لوگوں کاتماشاکرسکیں۔کٹڑے میں لوگ پان کھاتے،سگریٹ کے کش لیتے اورنگاہوں کی انگلیوں سے چوباروں میں بیٹھی ہوئی رقاصاؤں کوچھیڑتے۔اشارے کرتے۔تماشین تانگوں پربیٹھ کرچوباروں کی طرف گرم نگاہیں ڈالتے ہوئے گزجاتے۔مزدوروں کے گروہ کوچے میں ٹہلتے ۔تاجرنگاہیں جھکائے قدم اٹھاتے ہوئے نکل جاتے ۔شوقین مزاج دوکانداروں کی نگاہیں گاہکوں اوررقاصوں کے درمیان یوں گھومتیں جیسے گھڑی کاپنڈولم چلتاہے۔
ہرچندگھنٹوں کے بعدکٹڑے میں کوئی ایساشخص بھی آنکلتاجیسے دیکھ کرلوگوں کی نظروں چوباروں سے ہٹ کراس کی طرف منعطف ہوجاتیں۔بازارمیں ایک مدھم سی سرگوشی ابھرتی۔
’’کون ہے۔‘‘
’’ہائیں یہ ہے وہ۔‘‘
’’یارانہ ہے اس سے کیا؟‘‘
اوروہ سرگوشی برف کی گیندکی طرح لڑھکتی ۔لڑھکتے جاتی۔حتیٰ کہ ساراکٹڑااس کی لپیٹ میں آجاتا۔رقاصائیں بھی اپنے بے نیازانہ اندازکوچھوڑکربچوں کی طرح بازارکی طرف دیکھنے لگتیں اورچندساعت کیلئے انہیںیادنہ رہتاکہ وہ دیکھنے کے لئے نہیں بلکہ اپناآپ دکھانے کے لئے وہاں بیٹھ ہیں۔اس وقت رقاصاؤں میں نسائیت کی جھلک نمودارہوجاتی اورمحسوس ہونے لگتاکہ وہ گڑیاںنہیں بلکہ جیتی جاگتی عورتیں ہیں۔
لکھنؤ الہ آبادیامدارس کاکوئی مشہورسازندہ آجاتایاکوئی پیرانوکھالباس پہنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کٹڑے میں داخل ہوتا۔وہاں مشہورڈاکواورلیٹرے آیاکرتے تھے۔کروڑپتی اورگویے تواکثرآتے۔لیکن کٹڑے میں سب سے زیادہ دھوم انسپکٹررؤف کی تھی۔
انسپکٹررؤف
اگرانسپکٹررؤف آجاتاتوفوراًبازارپرسناٹاچھاجاتا۔پنواڑی سہم کرپیچھے ہٹ جاتے۔دوکاندارچوباروں کی طرف دیکھناموقوف کردیتے ۔راہ گیرنگاہیںجھکالیتے ۔ادھرچوباروں میں سرخی بھرے چہرے زردپڑجاتے۔نگاہوں میں شوخی کی جگہ گھبراہٹ دوڑجاتی ۔رقاصائیں یوں چپ چاپ گردن جھکائے بیٹھ جاتیں جیسے طبیعت ناسازہو۔
اس زمانے میں کٹڑے پررؤف کی حکومت تھی۔وہ کٹڑااس کی ریاست تھی۔جب شام کے وقت وردی پرسیٹی پیٹی لگائی۔سرپرطرے دارپگڑی باندھے اپنے باڈی گارڈکے ساتھ وہ کٹڑے میں نکلتاتوایک سرگوشی ابھرتی اورتیزی سے یہاں سے وہاں تک دوڑجاتی اوراپنے عقب میں بھیانک خاموشی چھوڑجاتی۔
پنواڑی چوباروں کی طرف تاڑنے کاشغل چھوڑکرشدت سے پان بنانے میں مصروف ہوجاتے۔دوکان پرکھڑے شوقین نظریں لڑانے کاخیال موقوف کردیتے۔جنرل مرچنٹس کے سلیزمین حساب کتاب کے رجسٹرکھول کرمصروف ہوجاتے۔
انسپکٹررؤف کی آمد کی خبرسن کرچوباروں میں سازندوں کے ہاتھ لرزکرممنوع سروں پرجاپڑے دکھ بھری سروں پرقیام لمبے ہوجاتے۔سارنگیاں ناچناچھوڑکرروناشروع کردیتیںاورمسکراتی ہوئی رقاصائیں گھبراکرگاناچھوڑدیتیں اورکھوئے ہوئے اندازمیں پان لگانے بیٹھ جاتیں۔
انسپکٹررؤف تمہیدکے طورکٹڑے کے دوتین چکرلگاتے ۔پھرکسی چوبارے کی دروازے پراپنے سپاہی کومتعین کردیتے اورخودسیڑھیاں چڑھ کراوپرجاپہنچتے۔ان کے سیڑھیاں چڑھتے ہی وہ طلسم گویاٹوٹ جاتا۔اس وقت کوئی پنواڑی نعرہ لگاتا’’علی ‘‘اس کاوہ نعرہ کن بن کرکٹڑے میں گونجتااورکٹڑے میں رکی ہوئی زندگی پھرسے حرکت میں آجاتی۔تماش بینوں کی نگاہیں بے باکی سے کھڑکیوں پرمنڈلاناشروع کریتیں۔پنواڑیوں کی دوکانوں پرکھڑے شرفاپھرسے رقاصاؤں کوتاڑنے لگتے۔رقاصاؤں کے ہونٹوں پرایک بارپھرتبسم لہراتااوران کے دل سے بوجھ اترجاتا۔
البتہ جس چوبارے پرانسپکٹررؤف چڑھ جاتے تھے وہاں لوگ کی حالت بد سے بدترہوجاتی۔محفل برخواست ہوجاتی۔سیٹھ اورتاجرچپکے سے نیچے اترآتے۔میراثی ہاتھ دھرکربیٹھ جاتے۔
پھراگررؤف کے حکم کے مطابق وہاں راگ رنگ ہوتابھی توسارنگیاں گانے کی بجائے بین کوتین طبلہ سرپیٹتا۔پھرکچھ دیرکے بعدچوبارے سے انسپکٹررؤف کے دھاڑنے کی آوازیں آتیں جوسارے کٹڑے میں گونجتیں۔وہ نشے میں چیختاچلاتااوردھمکیاں دیتا۔غلیظ گالیاں دیتااورپھرایسے لگتاجیسے چوبارے میں دنگافسادہورہاہو۔وہ بالآخربتیاں بجھ جاتیں اورسکوت چھاجاتااورکٹڑے والے محسوس کرتے جیسے اس گہری خاموشی سے کراہوں کی آوازآرہی ہو۔
انسپکٹررؤف کے علاوہ کوئی دوسری شخصیت جوکٹڑے پراثراندازہوتی تھی،پیرسبزپوش کی تھی۔جب بھی وہ کٹڑے میں داخل ہوتے توایک تعجب اورخاموشی بھری سرگوشی بلندہوتی۔پنواڑی پان لگاناچھوڑدیتے۔تماش بینوں کی نگاہیںچوباروں سے ہٹ کرپیر صاحب کے چہرے اور لباس پرمرکوزجاتیں۔سیزمین دوکان کے اندرونی حصے سے دوڑکرباہرآکھڑے ہوتے اوررقاصائیں جنگلوں پرکھڑی ہوکرنیچے دیکھنے لگ جاتیں۔
پیرصاحب کے سبزریشمیں پیراہن پران کی لابنی سیاہ زلفیں لٹکتیں ان کے سرپرریشمیں سبزرومال عربی اندازسے بندھاہوتااوران کاحسین نسائی چہرہ چمکتااوررسیلی سیاہ آنکھیں جھکی رہتیں۔ان کے خدوخال ستواں تھے۔ان کی آنکھیں دیکھنے والی نہیں بلکہ دکھنے والی تھیںاورانہیں دیکھ کرمحسوس ہوتاتھا۔جیسے کوئی حسین عورت جوگی لباس پہنے چوبارے سے اترکرتفریحاًکٹڑے کے بازارمیں گھوم کراپنی نمائش کررہی ہو۔
آنچل اورگٹھڑیاں
اس کوچے کودیکھ کرنہ جانے ایلی کوکیاہوجاتا۔اس کے جسم پرچیونٹیاں رینگنے لگتیں اورپھرایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی اوراس کاجی چاہتاکہ وہ وہیں کھڑادیکھتارہے ۔دیکھتارہے۔
اب اس کے لئے آغاکے ملاقاتی کمرے میں بیٹھناناممکن ہوچکاتھا۔جب بھی وہ وہاں بیٹھتاتواسے محسوس ہوتاکہ کوئی اس پرہنس رہاہے۔اس کامذاق اڑارہاہے۔ایک رنگین آنچل لہراتااورکوئی ہنستاجیسے مذاق اڑاتا۔ایلی گھبراکراٹھتااورزینے کی طرف بھاگتازینے میں کھڑی نیم کے ہونٹوں پرپراسرارتبسم ہوتا’’آگئے ،آگئے ۔‘‘وہ آنکھیں مٹکاکرکہتی ۔ایلی کواس کی آوازمیں بلاکاطنزمحسوس ہوتاپھروہ باہرنکل جاتااوربازارکے کسی کونے میںکھڑاہوکرلوگوں کی طرف دیکھنے میں کھوجاتا۔
کالج میںجب آصف مسکراکراس کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا’’ایلی تسلیم۔‘‘توایک ریشمیں گٹھڑی دھم سے ان کے درمیان آگرتی اوراس کارازکھول دیتی۔وہ محسوس کرتاکہ آصف اس کے رازسے واقف ہے ۔ وہ جانتاہے کہ ایلی ایک ریشمیں گٹھڑی کھولنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا۔
پھرشام کودودونوں آموں کی کوٹھی قریب نہرکے کنارے نورسے ملتے اورنورکسی پیڑکے نیچے بیٹھ کرگاتااورشبھ لگن سے بہارآجاتی۔لیکن سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ نورکے لئے شہرسے اتنی دورچل کرآموں کی کوٹھی تک پہنچنامشکل تھااورنورکوگھرسے بلاناممکن نہ تھا۔کیونکہ نورمحلے کے لڑکوں سے اس قدرخوف زدہ تھاکہ اسے یہ گوارانہ تھاکہ کوئی جاکرگھرسے اسے بلائے ۔نورسے ایک جگہ مقررکرلی جاتی اورایلی مقرروقت پروہاںجاکرنورکواپنے بائیسکل پربٹھاکربورڈنگ میں لے آتا۔ایلی کویہ احساس نہ تھاکہ نورکویوں بائیسکل پرلاناخطرے سے خالی نہیں۔اسے معلوم نہ تھاکہ نورکویوںبائیسکل پرلاناخطرے سے خالی نہیں اسے معلوم نہ تھاکسی لڑکے سے دوستی کی وجہ سے عداوت بھی پیداہوسکتی ہے۔
ایک روزجب ایلی سفیدچوک میں کھڑانورکاانتظارکررہاتھاتوایک پہلوان قسم کاشخص آگیااوربڑی بے تکلفی سے بولا۔’’دیکھ بابوتونورکاپیچھاچھوڑدے ورنہ خون بہہ جائے گااورتیری کھلڑی اترجائے گی۔‘‘یہ کہہ کراس نے غصے میں نل پرایک گھونسہ مارا۔پانی کاایک فوارہ چھوٹااورایلی کے کپڑے بھیگ گئے۔
اس روزآصف اورایلی تن تنہانہر کے کنارے خاموش بٹیھے رہے حتیٰ کہ سورج کی سرخ دھاریاں دھندلی پڑگئیں۔اوردورشہرکی بتیاں روشن ہوکرناچنے لگیں۔مگرشبھ لگن سے بہارنہ آئی۔دیرتک وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے۔
پھرایلی نے کہا۔’’آصف میراجہاں جی نہیں لگتا۔‘‘
’’توپھرمیں علی پورسے ہوآؤں کیا۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’اس سے کیاہوگا۔‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘ایلی بولاشاید۔‘‘
’’اچھا۔‘‘آصف نے آہ بھری۔’’لیکن میں کہاں جاؤں۔‘‘
’’کیوں ۔تم تویہاں خوش ہو۔‘‘
’’ہاں خوش ہوں۔بڑاخوش ہوںلیکن ۔‘‘آصف نے آہ بھری’’لیکن کیا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’معلوم نہیں۔‘‘آصف نے سرجھکالیاایسے معلوم ہوتاہے جیسے اب یہ شہرویران ہوگیاہے۔جیسے کچھ باقی نہیںرہاجیسے کچھ کھوگیاہے۔‘‘
’’اب تووہ یہاں نہیں۔اب توتمہیں کوئی تنگ نہیں کرتی۔‘‘ایلی نے طنزاًکہا۔’’ہاں۔‘‘آصف نے آہ بھری۔’’اب مجھے کوئی تنگ نہیں کرتی۔‘‘
’’پھربھی تم اداس ہو۔عجیب بات ہے۔‘‘ایلی بولا۔
’’ہاں۔‘‘آصف نے اثبات میں سرہلایا۔’’عجیب بات ہے۔اچھاتم ہوآؤ علی پورسے۔‘‘اس نے آہ بھری۔’’کاش کہ میرابھی کوئی علی پورہوتا۔‘‘
اس روزوہ دونوں دیرتک اندھیرے میں نہرکے کنارے بیٹھے رہے حتیٰ کہ اللہ دادلکڑی اٹھائے ان کی تلاش میں آپہنچا۔
’’ارے یہاں بیٹھے ہوتم دونوں۔‘‘وہ چلایا۔’’اورمیں سمجھاشایدنہر میں ڈوب گئے جوابھی تک نہیںآئے۔’’ہاں ۔‘‘وہ انہیں خاموش دیکھ کرچلایا’’کیاکررہے ہومیاں۔یوں چپ چاپ بیٹھنے سے مطلب چلوایلی چلو۔‘‘
رات کے وقت لیٹے ہوئے ایلی نے شدت سے محسوس کیا جیسے شبھ لگن گزرگئی اوربہارکے بعدچاروں طرف خزاں کی ویرانی چھاگئی ہو۔چاروں طرف ایک لٹی ہوئی دنیاتھی۔دورندی کادھارااداس آوازمیں گنگتارہاتھا۔لہریں ہچکیاں لے رہی تھی۔درخت شائیں شائیں بھررہے تھے۔رسوئی میں راموبھدی آوازمیں کچھ گنگنارہاتھااورچاروں طرف گپ اندھیرالہریں ماررہاتھا۔
اس کاخیال نیم کی طرف منعطف ہوگیا۔ایک گٹھڑی سی لپٹ گئی۔ایک قہقہہ بلندہوااورزرداداس چہرے ستونوں کی اوٹ سے نکل کرجھانکنے لگے۔بڑی بڑی سیاہ آنکھیں تمسخرسے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
گھبراکراس نے باورچی خانے کے نل کوگھورناشروع کردیا۔۔۔کتناغلیظ نل ہے۔اس نے جھرجھری لی۔نہ جانے راموکہاں ہے کس کام میں لگاہے۔شایدبرتن صاف کررہاہو۔شایدرسوئی میں بیٹھاہو۔اسکی نگاہیں پھرنل پررک گئی۔اگراس کے گرداینٹوں کاچبوترابنادیاجائے تواس کی نگاہ میں نل کے گردایک صاف ستھراچبوترہ بن گیا۔’’اوربابو۔‘‘ایک بدمعاش اس کی طرف لپکا‘‘کھلڑی اترجائے گی تیری۔ہاں۔‘‘ایلی نے گھبراکرآنکھیں بندکرلیں۔اسے محسوس ہونے لگاکہ نل سے چھینٹے اڑرہے ہیں اوروہ شرابورہوچکاتھا۔

جاوید اقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
رینگتی دیواریں
اگلے روزایلی گاڑی میں علی پورجارہاتھا۔
بخارکی وجہ سے اس کی کنپٹیاں تھرک رہی تھیں۔دل میں دھنکی بج رہی تھی۔گاڑی ہرے بھرے کھیتوں میں جارہی تھی۔یہاں وہاں سبزگٹھڑیاں پڑی تھیں۔
ایک گٹھڑی قریب آتی۔دفعتاً اس میں سے دوحنامالیدہ ہاتھ ایلی کی طرف لپکتے اورپھرشمیم کی ہنسی کی آوازسنائی دیتی۔’’ہی ہی ہی‘‘علی احمدقہقہہ مارتے۔’’کشمیرکے سیبوں پرپلی ہے ہاں۔‘‘
دوسری گٹھڑی کے پٹ کھل جاتے۔بھووں کے عین درمیان ایک تارہ چمکتا۔جیسے وہ روشن بندی ہو۔پھرسیاہ جھیلوں میں دودئیے روشن ہوجاتے۔
’’رے رے رے۔‘‘ارجمندچھاتی پیٹتا۔’’جب سے اس پنڈوراکی گٹھڑی کے پٹ کھلے ہیں ایک قیامت لوٹ پڑی محلے پر۔‘‘
لڑھکتی ہوئی ایک اورگٹھڑی قریب آجاتی اورکھلنے کی بجائے مزیدلپٹے جاتی۔پٹ اوربھی بندہوجاتے۔پھرچاروں طرف سے حسین چہرے جھانکتے۔ایک قہقہہ ابھرتا۔’’بے چارہ بے چارہ۔‘‘
ایلی چونک جاتا۔وہ اپنے آپ کوجھنجھوڑتا۔لیکن گذشتہ خفت کااحساس اس کے دل پرمسلط ہوجاتا۔پھرسبزگٹھڑی قریب آکرکہتی۔
’’اسے بھول جاؤایلی۔بھول بھول جاؤ۔میری طرف دیکھو۔میری طرف۔‘‘
گھبراکروہ لاحول پڑھنے لگتا۔’’یہ میں کیاسوچ رہاہوں!یہ کیسے ہوسکتاہے؟‘‘پھرشریف اس کی طرف دیکھ کرمسکراتا۔’’تم امتحان میں پاس ہوگئے ہوایلی۔تم میں جرات ہے۔جاذبیت ہے۔‘‘’’ہاں ہاں‘‘شہزادکہتی۔’’اب توایلی سے ڈرآنے لگاہے۔‘‘اوروہ گھبراکرپیچھے ہٹتی اوردفعتاًایلی دیکھتاکہ وہ اس پرجھک گئی ہے اورسیاہ جھیلوں پرکنول سے دیئے روشن ہوگئے ہیں۔
جب وہ محلے میں پہنچاتوشام پڑچکی تھی۔بڑی ڈیوڑھی ویران پڑی تھی چوگان میں کوئی نہ تھا۔چپکے سے وہ گھرکی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
گھر پرخاموش چھائی ہوئی تھی۔صرف دادی اماں کے کمرے میں مٹی کادیاجل رہاتھا۔وہ چپکے سے دروازے میں جاکھڑاہوا۔دادی اماں کاتخت جہاں وہ نمازپڑھاکرتی تھی،خالی پڑاتھا۔دادی اماں چارپائی پربے حس وحرکت پڑی تھی اورسیدہ اس کے اوپرجھکی ہوئی تھی۔حمیدہ اوررشیدہ چپ چاپ ایک کونے میں سہمی ہوئی بیٹھی تھیں۔
دیر تک وہ چپ چاپ کھڑارہا۔پھراس نے آہستہ سے آوازدی۔’’دادی اماں‘‘سید ہ نے مڑکراس کی طرف دیکھااورہونٹوں پرانگلی رکھ کرچپ رہنے کااشارہ کیادادی اماں میں حرکت پیداہوئی۔اس نے نحیف ونزارآوازمیں کہا۔’’ایلی ہے اچھااچھا۔‘‘اورپھرخاموش ہوگئیں۔
اس پرایلی سیدہ سے چمٹ گیا۔’’تم اس طرح سے کیوں بیٹھی ہو۔دادی اماں کوکیاہے وہ لیٹی ہوئی کیوں ہیں۔بولتی کیوں نہیں۔بولو۔بولو۔تم سب خاموش کیوں ہو۔‘‘سیدہ نے ایلی کے منہ پرہاتھ رکھ دیا۔اوراشارے سے بولی۔’’چل کمرے میں یہاں نہیں۔‘‘
جب وہ کمرے میں پہنچاتووہاں ماں کودیکھ کراوربھی گھبراگیا۔
’’ایلی آیاہے۔‘‘ہاجرہ چلائی۔’’کب آیاتو۔‘‘
’’دادی اماں کوکیاہواہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’اس کی حالت اچھی نہیں۔‘‘
’’بیمارہے؟‘‘
’’ڈاکٹروں نے جواب دے دیاہے۔توجاادھر فرحت کی طرف۔ادھرسوجاکے ۔یہاں ہم جوہیں۔‘‘
’’لیکن مجھے دادی اماں۔‘‘
’’اسے اپناہوش نہیں ۔بہت تکلیف میں ہے جاشاباش۔‘‘ہاجرہ نے منت کی ۔’’سیدہ‘‘وہ اس کے داخل ہونے چلاکربولا۔جواب میں سیدہ نے ہونٹوں پرانگلی رکھ کراشارہ کیا۔
’’شورنہ مچاہوش آتاہے تووہ مچھلی کی طرح تڑپتی ہے۔تین دن ہوچکے ہیں۔بڑے عذاب میں مبتلاہے۔اللہ اس کی مشکل آسان کرے۔‘‘سیدہ نے آنسوپونچھتے ہوئے کہا۔
’’آؤایلی ۔‘‘ہاجرہ بولی۔’’آؤادھر چلیں ۔‘‘اوروہ دونوں چپ چاپ فرحت کے گھرکی طرف چل پڑے۔
’’تیری دادی کی حالت اچھی نہیں۔کیامعلوم کب آنکھیں بندکرلے۔‘‘ہاجرہ نے کہا۔
’’لیکن ۔‘‘ایلی نے پوچھا۔’’کیابیماری ہے؟‘‘
’’بیماری؟اب میں اس کاکیاجواب دوں۔‘‘ہاجرہ مسکرائی۔’’عمرکاتقاضہ ہے آخرایک نہ ایک دن جاناہی ہے سب کو۔‘‘
ایلی خاموش ہوگیا۔وہ جانتاتھاکہ دادی بہت ضعیف ہے لیکن اس کے مرنے کے متعلق اسے کبھی خیال نہ آیاتھااوراب اس کے دل پرچوٹ لگی تھی۔
’’سب انتظامات کرچکی ہے اپنے ہاتھوں سے وہ‘‘۔ہاجرہ نے کہا۔’’کپڑالتاغریبوں کوبانٹ چکی ہے۔قل کے لئے چنے منگواکررکھ لئے ہیں۔کل خودہی ختم دیا۔کفن کاکپڑابھی منگواکررکھاہواہے۔بس اب توگھڑی پل کی بات ہے۔جبھی تومیں رات کوادھرہی رہتی ہوں۔لیکن ایلی توادھرفرحت ہی کی طرف سوئیو۔میں تمہیں وہاں چھوڑکرواپس آجاؤںگی۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ایلی خاموش ہوگیا۔
’’تودادی کے پاس سوکرکیاکرے گا۔‘‘ہاجرہ نے کہا۔’’اسے تواپناہوش نہیں اس کاسانس بگڑتاہے۔توبڑی تکلیف ہوتی ہے اسے۔توکیاخدمت کرے گااس کی۔اس نے توکبھی کسی سے خدمت نہیں کرائی آج تک۔‘‘
ایلی نے محسو س کیاجیسے وہ علی پورنہیں بلکہ امرتسر ہی میں ہو۔چاروں طرف اداسی ہوئی تھی۔محلے کے اونچے لمبے مکانات خاموش کھڑے تھے۔نانک چندی اینٹوں کی دیواریں رینگ رہی تھیں۔دیواروں پرچمکاڈریں منڈلارہی تھیںوہ یوں چیخ رہی تھیںجیسے اس کی بیچارگی پرقہقہے لگارہی ہوں۔کھڑکیاں ویران پڑی تھیں۔جن پرسیاہ تیلیوں کے پردے جھول رہے تھے دورکچی حویلی میں کڑی لال ٹین سرجھکائے سوچ رہی تھی۔
فرحت کی طرف جاتے ہوئے ایلی محسوس کررہاتھاجیسے علی پورایک ویرانہ ہواس کے گردایک دھندلی اورلٹی ہوئی دنیاتھی۔جس میں کوئی بات بھی جاذب نظرنہ تھی وہ محسوس کررہاتھاجیسے جینے کے لئے کوئی جوازباقی نہ رہاہو۔جیسے زندگی اپنی تمام رنگینی اوردلچسپی کھوچکی ہو۔
گلال پچکاری
ہائیں۔وہ گھبراکررک گیااس کے روبروچوبارے میں شہزادبیٹھی اس کی طرف دیکھ کرمسکرارہی تھی۔تخت پرسینے کی مشین پڑی تھی۔جس کے ایک جانب دوبلوریں پاؤں قرینے سے رکھے تھے۔سیاہ جالی کے ڈوپٹے سے دوسفید بازونکل کر مشین کوتھامے ہوئے تھے۔ریشمیں ملبوس کے اوپرایک متبسم چہرہ،دونوکیلی آنکھیں اوران پرپیشانی کاسیاہ تل۔گھبراکرایلی نے نگاہ جھکالی۔
شہزادکے سرخ حنامالیدہ ہاتھوں نے جیسے اس کے منہ پرطمانچہ ماردیا۔سرخ بوندیاں ناچنے لگیں۔ایلی لڑکھڑاگیا۔
’’توآگیاایلی؟‘‘شہزادنے مسکراکرپوچھا۔دادی کی بیماری کی خبر سن کرآیاہے؟‘‘
’’نہ ۔نہ نہیں تو۔‘‘ایلی نے اپنے آپ کوسنبھالنے کی کوشش کی ۔’’آپ یہاں ہیں۔‘‘دفعتاً اس غیرمتحرک تصویر میں جنبش ہوئی۔ایک چمک لہرائی چبھتی ہوئی چمک’’ہاں۔‘‘شہزادمشین چلاتے ہوئے بولی۔’’اب کی بارمیں ان کے ساتھ نہیں گئی۔ میں نے کہاکچھ دیریہاں رہ لوں بیٹھ جاتو۔‘‘
’’کھڑاکیوں ہے تو؟‘‘
ایلی بیٹھ گیااورشہزادکی طرف دیکھ کرسوچنے لگا۔شہزادسراٹھاکردیکھتی تواس کے ہونٹوں پرایک مسکراہٹ چمکتی عجیب سی مسکراہٹ ایسے محسوس ہوتاکہ کہ گلال بھری پچکاری چل گئی ہوجیسے شہزادبہت قریب آگئی ہوبہت قریب ۔اتنی قریب کہ قرب کی وجہ سے ایلی کے بند بندمیں بتیاں سی روشن ہوگئی ہوںجیسے اس نے نہ جانے کیاپالیاہولیکن شہزادآنکھیں جھکالیتی توایلی محسوس کرتاجیسے گھٹاٹوپ اندھیراچھاگیاہوچاروں طرف ویرانی اوراداسی چھاجاتی اس وقت ایلی کوشہزادکے حنامالیدہ ہاتھوں سے گھن آنے لگتی اس وقت محسوس کرتاجیسے وہ ننگاہو۔جیسے اس کاوجودباعث ننگ ہو۔احسان ندامت سے اس کاسرجھک جاتااوروہ دل ہی دل میں لاحول پڑھنے لگتا۔لیکن اس کے باوجوداس کے دل میں شدت سے آرزوپیداہوتی کہ شہزادایک بارپھرنگاہ اٹھاکردیکھے۔اس منورپیشانی سے بجلی چمکے چھوٹی چھوٹی بتیاں یوں روشن ہوجاتیں جیسے گلال بھری پچکاری چل گئی ہواورشہزادکے حنامالیدہ ہاتھوں کی پچکاری سے گلال کی پھوارپڑے ۔شہزادکااندازعجیب ساتھا۔جب وہ مسکراتی توفضامیں اثبات کی پھلجھڑیاں چل جاتیں۔لیکن جب وہ سنجیدہ ہوجاتی توبے نیازی کادبیزپردہ پڑجاتااورپھروہ گویاایلی کی موجودگی اورگویاوجودسے بھی بے تعلق ہوجاتی۔نہ جانے یہ کیاسحرتھایوں لمحہ بھرمیں اس قدرقریب آجاتااورپھردوسرے لمحے میں جیسے کوسوں دورہو۔
ایلی اکثرسوچتاتھاکہ وہ خصوصی مسکراہٹ کیاتھی جوقرب کااحساس دیتی تھی۔نہ جانے اس کی مسکراہٹ میں کیاجادوتھا۔جیسے کوئی ان جانی شبھ لگن آگئی ہو۔اس نے کئی باررفیق کی بیوی کے ہونٹوں پروہ مسکراہٹ دیکھی تھی مگررفیق پراس کاذرابھی اثرنہ ہوتاتھا۔گلال کی اس پچکاری تلے کھڑے ہوکر بھی وہ ویسے ہی خشک رہتااورپھرتیوری چڑھاکرخشک آوازمیں اسے ڈانٹتا’’ڈوپٹہ سنبھالو۔سرننگاہواجارہاہے۔‘‘اورپھرباہر نکل جاتا۔
کئی بارشریف کے پاس بیٹھے ہوئے اس نے محسوس کیاتھاکہ شہزادکی آنکھوں میں وہی تبسم کی لہر چمک رہی ہے اوراس نے محسوس کیاتھاجیسے شہزادواضح الفاظ میں اپنے خاوندسے کچھ کہہ رہی ہو۔جیسے دورکھڑے رہنے کے باوجوداس کے قریب آگئی ہو۔اس کی گودمیں بیٹھ گئی ہو۔شریف اس کے جواب میں گھورتاتونہیں تھا۔لیکن اس کی آنکھوں مسرت کی جگہ اداسی جھلکتی حسرت اوراداسی،اورپھرشہزاداس کی حسرت بھری اداسی کومحسوس کرکے چونکتی۔وہ بتی بجھ جاتی،اورگھٹاٹوپ اندھیراچھاجاتا۔ایسی چمک اس نے مردوں کی آنکھوں میں کبھی نہ دیکھی تھی۔ہاں عورتوں کی آنکھوں میں کئی باردیکھی تھی،لیکن عورتوں میں نہ جانے کیاہوتاتھا۔نہ جانے وہ نگاہ کیاتھی،مسکراتی تووہ ویسے بھی تھیں لیکن ہرمسکراہٹ میں وہ بات پیدانہ ہوتی تھی۔
شہزاداکثرمسکرامسکراکرایلی سے باتیں کیاکرتی تھی۔لیکن اس کے باوجودایلی کومحسوس ہوتاجیسے وہ مسکراہٹ محض سطحی ہو لیکن شریف کی طرف دیکھ کرمسکراتی توایلی تڑپ اٹھتا۔وہ مسکراہٹ عام مسکراہٹ سے کس قدرمختلف ہوتی تھی۔ایلی کوجی چاہتاکہ کوئی اس کی طرف بھی وہی مسکراہٹ لہرائے۔ویسی ہی مسکراہٹ سے دیکھے۔ان دنوں ایلی کی سب سے بڑی آرزواورحسرت وہ مسکراہٹ تھی۔
ایلی کے جسم کابندبنداس نگاہ کابھوکاتھااورپھرشہزادسے’’میرے ایسے نصیب کہاں‘‘۔وہ سوچتاکہ شہزادمیری طرف وہ نگاہ ڈالے ۔پھربھی کبھی کبھاروہ محسوس کرتاکہ وہ گلال بھری پچکاری چلاہی چاہتی ہے اورشہزاداوروہ شرابورہواہی چاہتاہے۔لیکن دفعتاًنہ جانے کیاہوجاتا۔بات بگڑجاتی،گلال کی جگہ دوایک پھول پتیاں برستیں اورپھرمطلع غبارآلودہوجاتا۔پھول پتیوں کاکیاتھاوہ توہرتبسم پراڑاکرتی تھیں۔
کچھ دیرایلی شہزادکے سامنے بیٹھارہا۔پھراس کے لئے وہاں بیٹھے رہناناممکن ہوگیا۔شہزادنہ جانے کہاں تھی۔اس کے چہرے پرایک وقارتھی۔بے حسی تھی۔
ایلی اٹھ بیٹھا۔’’اچھااب میں جاتاہوں فرحت انتظارکررہی ہوگی۔‘‘
’’اچھاتومل آاسے ۔‘‘اس نے سراٹھائے بغیرکہا۔’’لیکن چائے یہاںپینانیچے جانوبنارہی ہے۔‘‘
’’اچھاتومیں ابھی۔‘‘یہ کہہ کروہ فرحت کی طر ف چل پڑا۔
احساس عظمت
نیچے صفدراندھیری کوٹھری کے ساتھ والاکمرہ صاف کررہاتھا۔
’’ہائیں ایلی ہے۔‘‘صفدراسے دیکھ کرچونکا’’چھٹی لے کرآئے ہو؟‘‘
’’دادی اماں ۔‘‘صفدرنے دانت پیسے۔’’وہ نہیں مرے گی وہ کبھی نہیں مرے گی وہ مرے تومیں پارٹی دوں گا۔ضروردوں گاایمان سے مذاق نہیں۔‘‘
ایلی کوصفدرکی بات اچھی نہ لگی۔
’’آؤ۔آؤ۔بیٹھ جاؤایلی۔‘‘صفدرنے اس کابازوپکڑلیا۔’’بیٹھ جاؤ۔‘‘
ایلی بہت خوش تھاکہ محلے کاایک بڑالڑکااسے اتنی اہمیت دے رہاتھااورپھروہ لڑکاجیسے تھیٹرکی پارسی لڑکی سے عشق تھا۔
’’تم مجھ سے کبھی ملتے ایلی۔میرے پاس بھی آکربیٹھاکرو۔اوروں کے پاس بیٹھتے ہوتوہمارے پاس بیٹھنے میں کیاحرج ہے۔‘‘
ایلی کوصفدرکی باتیں سمجھ میں نہ آرہی تھیں نہ جانے کیاکہہ رہاتھاوہ اس کے بازوعجیب اندازسے پھیلے ہوئے تھے۔دائیں بازوپرنیلے حروف میں کچھ کھداہواتھا۔شایداس پارسن کانام ہوایلی کوجی چاہتاتھاکہ وہ ان نیلے حروف کے متعلق صفدرسے پوچھے لیکن اس میں ہمت نہ پڑی۔
اگرچہ صفدراس وقت کمرے کی صفائی کرنے میں مشغول تھا۔لیکن کبھی کبھاروہ رک جاتااوراس کی آنکھوں میں چمک لہراتی۔سرخ بوندیاں اڑتیں۔لیکن جلدہی وہ چمک ماندپڑجاتی اورمحرومیت کے بادل چھاجاتے وہ ایک آہ بھرتا۔اس کے ہونٹوں میں وہی جنبش ہوتی۔’’حافظ خداتمہارا۔‘‘کی جنبش پھروہ تڑپ تڑپ کرمڑتااورایلی سے کہتا’’ایلی تم شریف کے پاس بیٹھاکرتے ہو۔لیکن میرے پاس تم کبھی میرے پاس تم کبھی نہیں آئے۔کبھی نہیں۔حالانکہ ہم دونوں کارشتہ زیادہ قریب ہے۔اچھا۔اچھاآج چائے اکٹھے پئیں گے۔‘‘
عین اس وقت چوبارے سے شہزادکی آوازآئی۔’’ایلی‘‘۔شہزادکی آوازسن کرصفدرچونک پڑااس کی آنکھوں میں چمک لہرائی اورایلی نے محسوس کیاجیسے اس کابندبندرقص کررہاہو۔
’’ایلی چائے تیارہے آؤ بھی نا۔‘‘شہزادکی آوازگونجی۔
شہزادکی آوازسن کرسبھی چونک جاتے تھے۔نہ جانے اس کی آوازمیں کیااثرتھا۔اس کی آوازمحلے والیوں کی آوازسے قطعی طورپرمختلف تھی جسے سن کریوں محسوس ہوتاجیسی ویرانی میں کوئی اڑتاہواپنچھی تان اڑاگیاہو،یاجیسے گھورگھٹامیں سورج کی کوئی کرن چمک گئی ہو۔اس کی آوازسن کرمحلے کے بزرگ بھی چونک پڑتے تھے اورپھرکسی سے پوچھتے۔’’یہ شہزادہے نا؟‘‘
صفدرنے ایلی کی طرف محروم نگاہ سے دیکھا۔’’ہاں بھئی۔‘‘وہ بولا’’اب میں کیاکہہ سکتاہوں۔کچھ بھی نہیں۔کون کچھ کہہ سکتاہے۔‘‘اس نے ایلی سے یااپنے آپ سے کہا’’اچھا۔‘‘
وہ بولا’’کبھی توہم دونوں اکٹھے چائے پئیں گے۔‘‘
ایلی صفدرکے کمرے سے باہرنکلاتوفرحت کھڑیتھی۔’’ایلی توکب آیا؟مجھے توپتہ ہی نہیں تھاکہ توآیاہے۔‘‘وہ حسرت بھری مسکراہٹ سے بولی۔’’اگرمیں شہزادکی آوازنہ سنتی تومجھے معلوم ہی نہ ہوتاکہ توآیاہے چلو شکرہے کہ ہم تیرانام توسن لیتے ہیں شہزادکی زبان ہی سے سہی۔چائے توہمارے یہاں بھی تیارہے۔‘‘
’’مگر۔۔‘‘اس نے شہزادکے چوبارے کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھ کرکہا’’تجھے فرصت مل جائے توآئیوآئے گانا۔ضرورآنا۔‘‘فرحت کی آنکھوں میں نمی نمی سی دیکھ کرایلی لرزگیا۔وہ حیران تھاکہ وہ سب ایلی کی طرف سے اس قدرمایوس کیوں تھے۔وہ سوچ رہاتھاکہ ان کی ان کہی شکایات کاکیاجواب دے مگران جانے میں ایلی میں ایک احساس برتری لہریں لے رہاتھا۔اسے اپنی عظمت کااحساس ہواجارہاتھااگرچہ اس کی سمجھ میں نہ آرہاتھاکہ وہ احساس عظمت کس وجہ سے ہے اوروہ سب اس سے مایوس کیوں تھے اوران کااندازحسرت زدہ کیوں تھا۔یہ سوچتاوہ شہزادکی طرف چل پڑا۔
بے نیازدرزن
جب وہ داخل ہواتوشہزاداسی طرح بیٹھی مشین چلارہی تھی اوراس کی نگاہ ریشمیں کپڑے پرجمی ہوئی تھی۔
’’آگئے تم۔‘‘اس نے نگاہ اٹھائے بغیرکہا۔’’دیکھوتوکب سے چائے پڑی ٹھنڈی ہورہی ہے۔‘‘
میزپرچائے کے برتن رکھے ہوئے تھے۔چندایک ساعت توایلی منتظررہاکہ ابھی شہزادآنکھ اٹھاکراس کی طرف دیکھے گی لیکن وہ جوں کی توں کام کرتی رہی۔آخروہ سوچنے لگاکہ آنکھ اٹھاکردیکھنانہ سہی لیکن اٹھ کرچائے توبنائے گی مگرجلدہی اس کی غلط فہمی دورہوگی۔
’’اب پی بھی لوناچائے۔‘‘وہ بولی ۔’’مجھے بھی ایک پیالہ بنادو۔‘‘ایلی کے تمام سہانے خیال صابن کے بلبلوں کی طرح پھوٹ گئے۔
اس نے محسوس کیاجیسے گردوپیش دھندلارہے ہوں۔جیسے وہ گراجارہاہو۔بلندیوںسے نیچے کی طرف لڑھک رہاہووہ احساس برتری کافورہوچکاتھا۔وہ سوچنے لگا’’میں چائے کابھکاری تونہیںجومیزپررکھی ہے۔‘‘اس کاجی چاہاکہ اٹھ کربھاگ جائے اوراپنے آپ کو برتراوربے نیازدرزن سے محفوظ کرلے،لیکن اٹھ کربھاگنے کی بھی ہمت نہ تھی۔پھردفعتاًاسے یادآیاکہ اس نے کہاتھاکہ میرے لئے بھی بنادوایک پیالہ،ڈوبتے کوتنکے کاسہارامل گیا۔میرے لئے بھی بنادو۔اس ایک فقرے میں جادوتھاکتنی اچھی ہے شہزاد۔۔وہ محسوس کرنے لگااورپھرچائے بنانے میں مصروف ہوگیا۔
اگلے روزصبح سویرے ہی شہزادچھم سے آنمودارہوئی۔’’چلوایلی۔‘‘وہ بولی۔’’میں کب سے انتظارکررہی ہوں۔چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔‘‘
’’یہاںجو بنی ہوئی ہے۔‘‘فرحت بولی۔’’دونوں بیٹھ کریہیں کیوں نہیں پی لیتے۔‘‘فرحت کے اندازمیں طنزتھی۔
’’یہاں نہیں۔‘‘شہزادتن کربولی۔‘‘چائے کامزااکیلے میں آتاہے۔‘‘
’’توجبھی ایلی کوبلانے آئی ہو۔‘‘فرحت نے پھروارکیا۔
’’ہاں ۔‘‘شہزادنے قہقہہ لگایا۔
’’مجھے بھی ساتھ لے چلو۔‘‘فرحت بولی۔
’’نہ بھائی۔‘‘شہزادنے جواب دیا۔
’’معلوم ہوتاہے کہ شریف جاتے ہوئے ایلی کوتمہیں سونپ گیاہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘شہزادمسکرائی۔‘‘وہ کہہ گئے ہیں ایلی کوچائے پرضروربلایاکرنا۔‘‘
’’اوہ‘‘فرحت شہزادکی دلیر ی پرگھبراگئی اورایلی چپ چاپ شہزادکے پیچھے پیچھے چل پڑا۔جب وہ شہزادکے چوبارے میں پہنچے توشہزادحسب معمول مشین کے سامنے بیٹھ کر بولی۔
’’ایک پیالہ مجھے بھی بنادو۔‘‘اورخودکام میں مصروف ہوگئی۔
دیرتک وہ چپ چاپ بیٹھاچائے پیتارہااورشہزادکپڑے سینے میں مہنمک رہی۔چائے پی کرجب وہ نیچے اتراتواندھیری کوٹھڑی میں صفدرکھڑاحسرت سے اس کی طرف دیکھ رہاتھا۔اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے جیسے ’’حافظ خداتمہارا۔گنگنانابھول چکے ہوں۔ایلی کودیکھ کر اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ہونٹوں پرایک حسرت بھری مسکراہٹ آگئی۔نہ جانے وہ کیوں اس کی طرف حسرت سے دیکھتے تھے۔اس کاجی چاہاچلاکرکہے۔’’نہیں۔نہیں۔میں نے خوداپنے ہاتھ سے چائے بناکرپی ہے۔میرے ساتھ میزپرکسی نے چائے نہیں پی۔‘‘لیکن اس میں اتنی جرات نہ تھی۔چوگان میں عورتوں نے اس کی طرف معنی خیزنگاہوں سے دیکھا۔
’’اے ہے۔‘‘ایک بولی ’’ایلی آیاہے۔‘‘
’’میں کہہ رہی ہوں۔یہ کیاگورکھ دھندہ ہے۔‘‘چاچی بولی۔’’دادی تیری اس طرف بیمارپڑی ہے۔بہن تیری ادھر تواس ڈیوڑھی سے باہرنکل رہاہے۔‘‘
’’ہائے چاچی۔‘‘دوسری نے کہا۔’’آج کل کے لڑکے گھرپرکہاں بیٹھتے ہیں۔‘‘
’’نہ لڑکی۔‘‘چاچی نے پنترابدلا۔’’ہماراایلی ایسانہیں۔ہوگاکوئی کام آخرپڑجاتاہے اوروہ لڑکی ۔‘‘اس نے کان سے منہ لگاکرکچھ کہااورہنسنے لگی۔
’’دیکھ لوزمانے کے رنگ ہیں چاچی۔‘‘
’’یہی تودیکھ رہی ہوں۔توبہ کیازمانہ آیاہے مگرہماراایلی ایسانہیں۔‘‘
کیاکروں
پھررضاآگیا۔۔’’ٹھیک ہے بابواب کیوں ہمارے پاس آنے لگے تم۔اب توبس چوباروں میں بیٹھ کرچائے اڑتی ہے۔لوگ بلابلاکرپلاتے ہیں۔مگربابوجب اونچے چوباروں سے کوئی گرے توہڈی پسلی ایک ہوجاتی ہے ہاں۔‘‘اس نے اپنی لنگڑی ٹانگ دکھاتے ہوئے کہا۔
’’یقین نہ آئے تویہ دیکھ لو۔‘‘
’’بکواس بندکرو۔‘‘ایلی نے مذاق میں ٹالنے کی غرض سے کہا۔
’’کیسے کروں بند۔‘‘رضاہنسنے لگا’’اپناتوکام ہی بکناہے۔سناامرتسروالوں کاکیاحال ہے۔اب تومزے ہیںنا۔‘‘
رضااسے چھیڑنے لگا۔
’’بیٹھ جا۔‘‘بولا’’بیٹھ جامیاں ۔‘‘
’’اونہوں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’کیوں ؟‘‘
بیٹھنے کوبھی نہیں چاہتاچل کہیں گھومیں پھریں ۔واہ دل خوش کردیارضانے لاٹھی پکڑی اورچل پڑا۔دیرتک دونوں فصیل سے باہرگھومتے رہے پھرایک درخت تلے بیٹھ گئے۔
’’رضا۔ایلی بولا؟‘‘’’میراجی نہیں لگتا۔‘‘
’’جی لگ جائے بابوتوپھربھی لگتا‘‘۔
’’کیامطلب ؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’سارے محلے میں تیری تسلیم کی باتیں ہورہی ہیں۔‘‘
’’لیکن رضاتسلیم تومیرے سامنے نہیں آتی کئی جتن کردیکھے۔‘‘
’’تسلیمین سامنے نہیں آیاکرتیںایلی۔سامنے آکھڑی ہوں توپھربات ہی کیاہے۔‘‘رضانے کہا۔یہ توہوتاہی ہے۔‘‘پھرایلی امرتسرکی باتیں سناتارہااوررضاقہقہے مارکرہنستارہا۔
سیرکرکے جب وہ واپس آئے تورضاسے رخصت ہوکرایلی دادی اماں کی طرف گیادروازے میں ہاجرہ کھڑی تھی۔’’تویہاں کیاکررہاہے۔‘‘وہ بولی۔‘‘جافرحت کی طرف دوڑجایہاں سے۔‘‘’’کیوں؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’کہاجوہے تم سے ۔‘‘بولی ۔’’وہ اسی طرح بے ہوش پڑی ہے۔آنکھیں کھولنے کی سکت نہیں رہی۔اس کے پاس بیٹھ کراپنادل براکرے گاتو۔جافرحت تیراانتظارکررہی ہوگی۔‘‘
وہ چپ چاپ فرحت کی طرف چل پڑا۔
شام کوجب وہ شہزادکے چوبارے میں پہنچاتوچوبارے سے ملحقہ چھپ پرپانچ چھ چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں اورفرحت اورشہزادچارپائی پربیٹھی باتیں کررہی تھیں۔
’’توآگیاایلی۔‘‘فرحت اس کی طرف دیکھ کرمسکرائی۔’’اچھاکیاتونے کہ چلاآیا۔دادی اماں کی حالت اچھی نہیں۔نہ جانے کب۔‘‘
۔۔وہ رک گئی۔’’اماں توکئی راتوںسے ادھرہی رہتی ہیں‘آج کی رات۔شایدمجھے بھی جاناپڑے اسی لئے میں نے یہاں چارپائیاں بچھوادی ہی ںتاکہ بچے اکیلے نہ رہیں۔ ٹھیک ہے ناشہزاد۔‘‘وہ ہے تیری چارپائی ایلی وہ کونے والی۔‘‘
٭٭٭

جاوید اقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
شہزاد

سانپ اورسپیرا
رات کوشہزادکی طرف دیکھے بغیرایلی اپنی چارپائی پرچپ چاپ لیٹ گیااورسوچ میں غرق ہوگیا۔صحن میں چاندی۔چنکی ہوئی تھی روپہلی چاندنی میں شہزادکے دوبلوریں پاؤں کہیں رکھے ہوئے تھے اورسیاہ جالی داردوپٹے میں اس کی دودھیاپیشانی پرایک سیاہ بیربہونی چمٹی ہوئی تھی۔دونوکیلی آنکھیں ڈول رہی تھیں۔گھبراکرایلی نے دیوارکی طرف منہ موڑلیااورکسی اوربات کے متعلق سوچنے کی کوشش کرنے لگا۔
کچھ دیرکے بعددادی اماں کی طرف سے ہاجرہ نے فرحت کوآوازدی۔’’ادھرآنا۔جلدی۔‘‘
’’خداخیرکرے ۔‘‘فرحت نے گھبراکرکہااورملحقہ کوٹھاپھلانگ کردادی کی طرف چلی گئی۔فرحت کے جانے کے بعددیرتک خاموشی چھائی رہی۔نہ جانے شہزادبیٹھی کیاکررہی تھی۔
ایلی نے شہزادکی طرف نہ دیکھنے کاعزم کررکھاتھامگراس کے باوجوداس کی نگاہوں تلے سیاہ جالی دارڈوپٹے کاپلواڑرہاتھا۔شفاف پیشانی پرسیاہ بیربہوٹی رینگ رہی تھی۔ہرپانچ منٹ کے بعداسے احساس ہوتاکہ وہ شہزادکے متعلق سوچ رہاہے پھروہ گھبراکراپنی توجہ کسی اورطرف مبذول کرنے کی کوشش میں لگ جاتا۔
’’سوگئے ایلی۔‘‘قریب ہی شہزادکی آوازسن کروہ چونک پڑااورگھبراکراٹھ بیٹھا’’نہیں توجاگ رہاہوں۔‘‘
’’اوہ۔۔میں سمجھی سوگیاہے۔لیکن یوں چپ کیوں پڑاہے تو‘‘وہ بولی ’’اورکیااٹھ کرناچوں ۔‘‘ایلی نے جل کرکہا۔
وہ بچوں کی طرح ہنسنے لگی’’ناچ تجھے کون منع کرتاہے۔‘‘
’’اکیلے میں توناچا بھی نہیں جاتا۔‘‘وہ بولا۔
’’توکیااکیلاہے۔‘‘شہزادنے اشارتاً‘‘اسے امرتسریاددلانے کی کوشش کی۔
’’اکیلاہی توہوں۔‘‘ایلی نے لمبی آہ بھری۔
وہ قہقہہ مارکرہنس پڑی۔‘‘اوہ میں سمجھی امرتسریادآرہاہے تجھے۔‘‘
’’امرتسر؟‘‘۔وہ گھبراگیا۔
’’تسلیم۔‘‘شہزادنے جھک اسے آداب کیااورپھرہنسنے لگی۔
ایلی کامنہ فق ہوگیا۔نہ جانے کیوں وہ سمجھتاتھاکہ شہزادامرتسراورتسلیم کے متعلق کچھ نہیں جانتی۔
’’کبھی تسلیم سے ملاقات بھی ہوئی ہے؟‘‘شہزادنے اس کے قریب آکرپوچھااورپھراس کی چارپائی پربیٹھ گئی۔
ایلی کے جسم پرچیونٹیاں رینگنے لگیں اسے محسوس ہونے لگاجیسے گرمی کی ایک لہراس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ان جانااضطراب اس پرچھائے جارہاتھا۔ایک سرخ دھندلکااس کی کنپٹیوں میں تھرک رہاتھا۔صحن میں زردچاندنی اورگدرے سایوں کی عجیب سی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں۔پاس ہی چوبارے میں اندھیرارینگ رہاتھا۔مسجد کے گنبدکے اوپرچمگادڑیں چیخ رہی تھیں۔
’’یادآتی ہے تمہیں۔‘‘شہزادنے ایلی کی طرف دیکھ کرپوچھا’’جبھی یوں چپ چاپ پڑارہتاہے تو۔‘‘
’’نہیں تو۔‘‘وہ وبولا۔
شہزاداپنے حنامالیدہ ہاتھوںسے کھیل رہی تھی۔سفیدہاتھوں پرحنائی رنگ اسے صاف دکھائی دے رہاتھا۔
’’نہیں۔نہیں۔‘‘وہ بولا
’’اچھا۔‘‘وہ ہنسی ’’اگر وہ یادبھی نہیں آتی توپھرفائدہ ہی کیاہوا؟‘‘
’’فائدہ۔۔‘‘اس نے شہزادکی اڑتی ہوئی لٹ کی طرف دیکھا۔
’’اچھی محبت ہے یہ۔‘‘وہ بولی۔
’’ایلی کاجی چاہتاتھاکہ اٹھ کربھاگ جائے وہ قرب نہ جانے کیاکررہاتھاجیسے اسے چھیڑرہاہو۔اس کی قوت عمل دھندلائی جارہی تھی،نہ جانے قرب کی وجہ سے یاکسی ان کہے ڈرسے جواس کی نسوںمیںدھنکی کی طرح بج رہاتھا۔وہ محسوس کررہاتھاکہ اگراس نے بات کرنے کی کوشش کی تواس کی آوازکی لرزش رازفاش کردے گی۔
’’میں پانی پی لوں۔‘‘ایلی نے گھبراکرکہا۔
’’میں پلاتی ہوں تمہیں پان۔‘‘شہزاداٹھ کھڑی ہوئی۔
ایلی کابھاگ جانے کایہ بہانہ بھی بے کارہوکررہ گیا۔اس نے چاروں طرف دیکھاگھڑے کے پاس شہزادگلاس میں پانی ڈال رہی تھی۔اس کے گردچاندنی اوراندھیرے کی بساط بچھی ہوئی تھی اوراس بساط پرملکہ بیٹھی تھی۔اس کے سرپراڑتے ہوئے بالوں کاتاج تھا۔’’یہ لو۔‘‘شہزادکاحنامالیدہ ہاتھ اس کی طرف بڑھا۔ناگ نے پھن اٹھایا۔ایلی جھجک کرپیچھے ہٹا۔
’’لوبھی‘‘ہاتھ اورقریب آگیاایلی کاجی چاہتاکہ پانی کے گلاس کی بجائے اس کاہاتھ پکڑے اورپھر پھر۔۔مگرپھرکے متعلق اسے کچھ معلوم نہ تھا۔۔ایک سرخ دھندلکا۔۔چیخ چیخ ۔۔ایک چمگادڑکہیں قریب سے ایلی کی طرف لپکی۔ وہ گھبراکرپیچھے ہٹا۔شہزادنے گلاس چھوڑدیاایلی شرابورہوگیا۔شہزادکی سریلی ہنسی سے فضاگونجنے لگی۔
’’بالکل ہی مجنوں بن گئے۔‘‘وہ چلائی۔’’لاؤ میں پونچھ دوں۔‘‘وہ ہنستی ہوئی آگے بڑھی۔سرخ ناگ پھن پھلائے پھراس کی طرف لپکابوکاایک ریلاآیا۔پھرنہ جانے کیاہوا۔سرخ دیوانگی اس پرمسلط ہوگئی۔اس نے لپک کراس رنگین سانپ کوہاتھوں میں پکڑلیا۔جسے وہ سپیراہو۔اسے اپنی طرف کھینچا۔نہ جانے محض جنون کی وجہ سے۔محبت سے۔نفرت سے یااس خوف کی وجہ سے جواس پرمسلط ومحیط تھا۔اس کی دیوانگی اوربھی شدیدہوگئی۔اس نے ایک تازہ جھٹکادے کردیوانہ واراسے اپنی طرف کھینچا۔یوں بے دردی سے کھینچا۔جیسے شہزادمحض ایک رنگین گڑیاہو۔شایدوہ اسے دانتوں سے کاٹناچاہتاتھاتاکہ کاٹے اورجانے سے پہلے اس کی گردن چبالے اوراپنے آپ کومحفوظ کرے لیکن اس کے گرم لمس سے ایلی کے ہونٹ جلنے لگے اوران جانے میں اس نے اسے دیوانہ وارچومناشروع کردیا۔شہزادچارپائی پریوں گرچکی تھی جیسے ایک بارپھر مونگیاگٹھڑی میں تبدیل ہوگئی ہو۔
’’ایلی تم ۔۔؟‘‘وہ ہونک رہی تھی۔
ایلی کی نگاہ میں وہ زردچاندنی سرخ ہوئی جارہی تھی۔جیسے فضامیں گلال کی پچکاریاں چل رہی ہوں۔
عین اس وقت ملحقہ کوٹھے سے پاؤں کی چاپ سنائی دی۔فرحت چلاتی ہوئی آرہی تھی۔۔’’تم سوگئے کیا؟‘‘
فرحت کی آوازسن کروہ خونین طلسم ٹوٹ گیا۔ایلی کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔گٹھڑی لپک کرکھڑی ہوگئی اورایلی لیک یوں چپ چاپ پڑگیا۔جیسے عرصہ درازسے سورہاہو۔
’’تم آبھی گئی۔‘‘شہزادنے کہا۔
’’اماں نے بھیج دیا۔‘‘فرحت بولی۔
’’کیاحال ہے اب۔‘‘
’’اچھانہیں۔شایدآج کی رات۔‘‘
’’بیچاری کی جان چھٹے۔‘‘
’’میںسمجھی تم سوچکے ہوگے۔‘‘فرحت نے کہا۔
’’نہیں تو۔‘‘شہزادبولی۔’’ابھی توجاگ رہے ہیں۔‘‘
’’اورایلی غالباًسوچکاہے۔‘‘فرحت نے ایلی کی طرف دیکھ کرکہا۔
’‘ابھی توباتیں کررہاتھا۔مجھ سے۔‘‘شہزادکی آوازمیں کسی قسم کی لرزش نہ تھی ۔وہ یوں کوٹھے پرادھرادھر گھوم رہی تھی جیسے کچھ ہواہی نہ ہو۔
اگر۔لیکن
ایلی پسینے میں شرابورتھا۔اسے اپنے کئے پرپشیمانی ہورہی تھی۔میں نے کیاکردیا۔کیوں کیا۔اگرشہزادنے فرحت سے کہہ دیاتو۔اگراس نے شریف کوبتادیاتووہ کیاکہے گا۔مجھ سے نفرت کرنے لگے گا۔دونوں مل کرتمسخرسے ہنسیں گے۔اس تمسخرکومحسوس کرکے اس کاسانس رک گیا۔
لیکن شہزادکسی کونہ بتائے ۔شایدوہ اس رازکوچھپالے۔ابھی تک تواس نے فرحت سے اس بارے میں بات نہ کی تھی۔شایدوہ موقعہ کی تلاش میں تھی کب ایلی کہیں جائے اوروہ ایلی کی حماقت کاقصہ بیان کرے۔فرحت اورہاجرہ سن کرکیاکہیں گی۔کہیں گی۔آخربیٹاکس کاہے۔اس خیال پراس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
لیکن شہزادکارویہ بے نیازی اوربے پروائی کامظہرتھا۔جیسے کچھ ہواہی نہ ہو۔اس کے اس رویے کی وجہ سے ایلی کے دل میں امیدکی کرن روشن ہوگئی۔شایدوہ کسی کونہ بتائے۔لیکن پھراسے خیال آتااگرنہ بھی بتائے توبھی وہ اپنے دل میں اسے ذلیل سمجھے گی۔اس کی اس مذہوم حرکت پررنجیدہ ہوگی۔ممکن ہے اب کبھی اس کے قریب نہ آئے اورآئے بھی تونفرت سے ناک سکیڑلے۔کیاوہ ہمیشہ کے لئے شہزادکی چھم سے محروم ہوجائے گا۔کیاوہ اسے دیکھ کرکبھی نہ مسکرائے گی۔اس کی آنکھوں میں ننھی بتیاں روشن نہ ہوں گی اوروہ گلال بھری پچکاری ۔۔نہیں نہیں۔اس سے توبہترہے کہ شہزادفرحت سے شکایت کردے۔ہاجرہ سے کہدے۔شریف سے کہہ دے۔جس سے جی چاہے کہہ دے مگراپنااندازنہ بدلے ہاں ہاں۔میں اس سے معافی مانگ لوں گا۔ہاتھ جوڑدوں گااورجب وہ معاف کردے گی تومنت کرکے کہوں گا۔’’میری ایک بات مان لوخداکے لئے۔صرف ایک بات۔اپنے ہاتھوں پرمہندی نہ لگایاکرواوراگراسے کے بغیرچارہ نہ ہوتواپناہاتھ میرے اس قدرقریب نہ لایاکرو۔‘‘
چارپائی پرپڑے پڑے وہ سوچ رہاتھا۔اس کے سرپراندھیرے کاایک بڑاٹکڑامنڈلارہاتھااورشیش محل کی سب سے اونچی منزل مٹیالی چاندنی میں اپنی بے نورکھڑکیوں سے اس کی طرف گھوررہی تھی۔قریب ہی شہزادفرحت سے باتیں کرتے ہوئے ہنس رہی تھی۔
شہزادکی ہنسی سن کروہ چونک پڑا۔وہ ہنس کیوں رہی تھی۔وہ باتیں کیوں کررہی تھی۔جیسے کچھ ہواہی نہ ہو۔شایدوہ اس کی اس حرکت کودرخوراعتنانہ سمجھتی ہو۔اس خیال پرکانپ گیا۔اگراس نے اس بات کواہمیت نہ دی تو۔۔اس کے ماتھے پرپسینہ آگیااوراضطراب میں کروٹیں بدلنے لگا۔
’’لویہ اوردیکھو۔‘‘شہزادہنسی۔’’ویسے سویاہواہے لیکن کروٹیں لئے جارہاہے۔‘‘
فرحت نے سنجیدگی سے کہا۔’’معلوم ہوتاہے کہ تم نے کبھی خیال نہیں کیاسوتے میں ہمیشہ کروٹیں لیتاہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘شہزادکی آوازمیں طنزتھی۔سوتے میں جاگتے کی سی حرکتیں کرتاہے اورجاگتے میں سوتے کی سی ۔عجیب بات ہے۔‘‘
فرحت شہزادکی بات سمجھ نہ سکی۔البتہ ایلی کی پیشانی پرچندقطرے نمودارہوئے اورسوچنے لگاکہ شہزادکی آوازمیں کتنی طنزتھی۔ضروراس نے اس حرکت کابراماناتھا۔ضروربراماناہوگا۔اب کیاہوگا۔کیاوہ اس گھرمیں آنے سے محروم کردیاجائے گا۔ساتھ ہی اسے خیال آتاکہ شکرہے اس نے کچھ تومانااسے اچھانہ سہی براسہی درخواعتناتوسمجھا۔اگروہ کچھ بھی نہ سمجھتی۔۔اس خیال پراسے خوشی توہوتی،مگروہی فکرسوہان روح ہوجاتا۔نہ جانے وہ کیاکرے گی۔
آہستہ آہستہ فرحت اورشہزادکی آوازیں مدھم پڑتی گئیں اوران کی باتوں میں وقفے بڑھتے گئے حتیٰ کہ چاروں طرف سناٹاچھاگیا۔
وہ چونک کرجاگ پڑا۔اس نے مڑکرچوری چوری فرحت اورشہزادکی چارپائیوں کی طرف دیکھاانہیں چپ چاپ پڑے دیکھ کروہ پانی پینے کے بہانے اٹھ بیٹھا۔فرحت چارپائی کے ایک پہلو پرسمٹی ہوئی پڑی تھی۔اس سے پرے شہزادچارپائی پریوںبچھی ہوئی تھی جیسے پلنگ پوش بچھاہوتاہے اس کے ہونٹوں پرمبہم سی مسکراہٹ تھی۔ایک ہاتھ ساتھ والی چارپائی پراپنی ننھی بچی صبیحہ پرپڑاتھا۔جیسے تھپکتے تھپکتے سوگئی تھی۔ایلی نے شدت سے محسوس کیاکہ کاش وہ صبیحہ ہوتااورشہزادکاہاتھ اسے تھپکتا۔
دفعتاًاس نے محسوس کیاجیسے وہ ہاتھ اسے تھپک رہاہواس کے بدن میں چیونٹیاں چلنے لگیں۔سرخ ناگ پھن اٹھاکراس کی طرف لپکا۔ایلی کسی شدیدجذبہ سے متاثرہوکرشہزادکی طرف بڑھا۔اس کاجی چاہتاکہ اس رنگین پھن سے لپٹ جائے اورپھرڈسے جانے کے بعداس خوابیدہ حسینہ پرگرکرڈھیرہوجائے۔لیکن عین اس وقت فرحت نے کروٹ لی اورگھبراکررک گیااورپھرچپ چاپ اپنی چارپائی پرجالیٹا۔
ندامت یاڈر
اگلے روزایلی سارادن اس کوشش میں لگارہاکہ شہزادکے روبرونہ جائے۔وہ شہزادسے ڈرتاتھا۔صبح سویرے ہی اٹھ کروہ باہرنکل گیااورکوٹلی جاکرقبرستان اورتالاب کے گردبے مصرف گھومتارہا۔واپس آکرچپکے سے اندھیری ڈیوڑھی سے گزرکرسیدھافرحت کے گھرآپہنچاحالانکہ وہ عام طورپرہمیشہ شہزادکے مکان سے گزرکرفرحت کی طرف آیاکرتاتھا۔پھرجب دوپہرکووہ گھربیٹھافرحت سے باتیں کرنے میں منہمک تھاتوسیڑھیوں سے طبلے کی تھاپ سنائی دی۔وہ خاموش ہوگیا۔اسے بھول گیاوہ کہہ رہاتھا۔کیاکہناچاہتاتھا۔فرحت اورہاجرہ حیرانی سے اس کی طرف دیکھنے لگیں۔وہ اٹھ بیٹھا’’اچھامیں ہوآؤں۔‘‘چھم سے شہزاداس کے قریب آرکی۔ایلی نے نگاہیں جھکالیں۔
’’ایلی ہے ۔‘‘شہزادنے لاپروائی سے کہا’’نظرہی نہیں آیاآج کہاں رہا۔‘‘وہ ہنسی اورفرحت کی طرف دیکھنے لگی۔
ایلی چپکے سے وہاں سے سرک گیا۔
چوگان ویران پڑاتھا۔چھوٹے چھوٹے بچے جوچوگان میں کھیل رہے تھے،مٹی کے پتلے معلوم ہورہے تھے۔پرانی حویلی کی خمیدہ لال ٹین کمر پردونوں ہاتھ رکھے اسے گھوررہی تھی۔کیپ کی کھڑکی کی چق لٹی لٹی دکھائی دے رہی تھی۔کنوئیں کے پاس رہنے والی کشمیرن یوں بولی بیٹھی تھی جیسے کسی نے چوکی پرزردرنگ کے گوشت کاڈھیرلگارکھاہو۔
پھروہ دادی اماں کے پاس جابیٹھا۔مگروہ خاموش چارپائی پرپڑی تھی۔’’توآگیا۔‘‘سیدہ نے اس کی طرف دیکھا۔’’نہیں نہیں۔‘‘وہ چلائی۔’’جا۔جاکرکھیل۔یہاں نہ بیٹھ بیمارکے پاس نہیں بیٹھاکرتے۔‘‘کچھ دیرتک وہ وہاں بیٹھارہاپھرگھبراکرباہر نکل آیا۔چاروں طرف ویرانی چھائی تھی۔
شام کوجب وہ فرحت کے ساتھ شہزادکے کوٹھے پرسونے کے لئے گیاتواس نے جھکی جھکی آنکھوں سے محسو س کیاکہ شہزادمسکرارہی ہے۔اس کی مسکراہٹ میں طنزکی دھارتھی۔نفرت بھری مسکراہٹ۔
’’توابھی یہیں ہے ایلی؟‘‘۔۔وہ بولی۔‘‘میں سمجھی چلاگیاہے واپس امرتسر۔‘‘
’’نہیںتو۔‘‘شہزادکی طرف دیکھے بغیراس نے جواب دیا۔
’’کیاہواہے تجھے؟‘‘۔۔وہ بولی ۔
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ایلی نے اس کی طرف دیکھے بغیرجواب دیااورچپکے سے چارپائی پرلیٹ گیا۔
مہرسکوت
اگلے روزوہ بہت دیرسے بیدارہوا۔اس نے کوٹھے پرچاروں طرف دیکھا۔فرحت جاچکی تھی۔شہزادکی چارپائی خالی پڑی تھی ۔صرف صبیحہ پڑی سورہی تھی۔موقعہ کوغنیمت جان کروہ جلدی سے اٹھاتاکہ شہزادکے آنے سے پہلے ہی فرحت کی طرف چلاجائے۔جب وہ دروازے میں داخل ہواتوکسی نے زورسے اس کی قمیض پکڑلی۔’’کہاں جاتاہے تو؟۔۔آادھرچائے پی کے جانا۔شہزادکودیکھ اسے پسینہ آگیا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
’’ادھرآکربات کرنا۔‘‘وہ گھسیٹ کراپنے کمرے میں لے گئی اورکرسی پربٹھاکرخودبے نیازی سے میزپرچائے کے برتن رکھنے میں مصروف ہوگئی جیسے ایلی سے کوئی واسطہ ہی نہ ہوجیسے وہ اسے پکڑکرلائی نہ ہو۔
دیرتک وہ یوں ہی چپ چاپ بیٹھارہا۔پھروہ اس کے سامنے آبیٹھی۔
’’پی چائے۔‘‘وہ یوں گھورکربولی جیسے بچے کودواپلارہی ہو۔‘‘’’پی سانپ سونگھ گیاہے تجھے کیا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘وہ بولا‘‘سانپ سونگھ گیاہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘و ہ ہنسی ۔’’پھرتوتوبڑڈھیٹ ہے کہ اب تک اچھابھلاچلتاپھرتاہے۔‘‘
’’لوگ نہ جینے دیتے ہیں نہ مرنے ۔‘‘و ہ بولا۔
’’اتنی سی پرواکرتاہے تولوگوں کی۔‘‘
وہ لاجواب ہوگیا۔دیرتک کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔
وہ سنجیدہ ہوگئی ۔’’ایلی۔‘‘وہ بولی۔‘‘ وہ کیاحماقت تھی۔مجھے تجھ سے ایسی توقع نہ تھی۔ایلی۔‘‘اس نے آہستہ سے کہا’’تجھے شرم نہ آئی۔‘‘
ایلی کی ناک پرپسینہ آگیااس کی آنکھیں اوربھی جھک گئیں سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ کیاجواب دے۔’’اورپھرتوایسی بات کرے۔توایلی۔‘‘وہ بولی’’کوئی اورکرتاتومجھے افسوس نہ ہوتا۔‘‘
ایلی کے دل میں آیاکہ اٹھ کربھاگ جائے مگراس میں ہمت نہ تھی پھراس نے سوچاکہ پاؤں پرگرکرمعافی مانگ لے لیکن پاؤ ں پرگرنابھی تومشکل تھا۔اس نے شہزادکے پاؤں کے طرف دیکھاکتنے خوبصورت تھے۔جیسے سنگ مرمرکے بنے ہوئے ہوں۔
شہزادنے کروٹ سی لی اوراس کاایک بازوکرسی سے نیچے لٹکنے لگا۔’’مجھے تم سے ایسی توقع نہ تھی۔‘‘اس نے اپنی بات دہرائی۔اس رنگین ناگ نے پھن اٹھایا۔ایلی کی نگاہیں اوپراٹھ گئیں۔اس کے چہرے کی زردی سرخی میں بد ل گئی۔۔وہ اٹھ کرشہزادکی طرف لپکااوراس کے لٹکتے بازوسے یوں لپٹ گیا۔جیسے کوئی نیولاسانپ سے لڑرہاتھا۔
اس نے شہزادکوچپ کرنے کے لئے اس کے منہ پرہاتھ رکھ دیاپھرنہ جانے کیامحسوس کرکے وہ شہزادکے بلوریں پاؤں سے لپٹ کراپنے ہونٹ ان سے ملنے لگا’’شہزاد۔شہزاد‘‘وہ گنگنایا۔’’مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘
لیکن ایلی دیوانہ واراس کے پاؤں سے لپٹارہا۔آہستہ آہستہ شہزادکی آوازمدھم پڑتی گئی۔
’’مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔مجھے تم سے۔۔۔‘‘
ایلی کی آوازبلندہوتی گئی۔حتیٰ کہ ایلی نے بڑھ کرشہزادکے لبوں پرمہرسکوت لگادی۔اس گٹھڑی کے پٹ ازسرنوبندہوگئے۔اس کی آنکھیں جھک گئیں۔مثرگان نے ان سیاہ شراروں کوڈھانپ لیااوراس کے بازوفضامیں معلق ہوکررہ گئے۔
ممکن ہے۔شاید
ایلی نے جواب میں یہ بات صرف اس لئے کہی تھی کہ اس کے علاوہ اورکوئی جواب دیناممکن نہ تھا۔معافی مانگ لینے کاامکان توتھا۔مگر اس میں اس کی بے عزتی تھی اگروہ معافی مانگ لیتاتواس کامطلب ہوتاکہ وہ حرکت اس نے کسی مذہوم خیال سے کی تھی۔سستی عیش وعشرت کے خیال سے یارنگین وقت کٹی کے لئے۔اس کے علاوہ اس نے محسوس کیاتھاکہ اگرمعافی مانگ لی توشہزادسے ہمیشہ کے لئے دورہوجائے گا۔کس منہ سے اس کے روبروجایاکرے گا۔بے شک اسے شہزادسے بے پناہ دلچسپی تھی۔شہزادکودیکھ کروہ مضطرب ہوجایاکرتاتھا۔مگریہ اضطراب بے نام اوربے مقصدتھا۔اس نے کبھی شعوری طورپرشہزادسے محبت کرنے کی آرزومحسوس نہ کی تھی۔نہ ہی اس نے کبھی سوچاتھاکہ شہزادسے وہ اس قسم کاتعلق پیداکرسکتاہے۔الٹاوہ تواسے اس قدربلنداورعظیم ہستی سمجھتاتھاکہ اس کے قرب کی آرزودل میں

جاوید اقبال
 
Top