علی پور کا ایلی(جاوید اقبال)276- 305

قیصرانی

لائبریرین
ہی نہ ہوباہرمحلے والیوں کاجھمگھٹالگ گیا۔
’’ایلی‘‘۔علی احمد نے آوازدی۔’’ایلی بھئی یہ راجوتم سے ملنے آئی ہے۔ہی ہی ہی کہتی تھی کہ علی پوردیکھوں گی۔اب یہ کام تمہاراہے ایلی کواسے گھماؤپھراؤ۔ایلی توعلی پورکے چپے چپے سے واقف ہوانا۔ہی ہی ہی ۔کیوں ایلی۔اچھاتوہاجرہ کہاں ہے اسے راجوسے ملائیں ۔‘‘
’’سیدہ ۔کیاکررہی ہے ۔تو۔ادھرآناادھردیکھ یہ راجوتجھ سے ملنے آئی ہے اورتووہاں چولہے کے پاس بیٹھی ہے۔ یہ دولت پورکے رہنے والے ہیں۔راجپوت ہیں۔ اپنی دوکانیں ہیں۔زمینیں ہیںسبھی جانتے ہیں انہیں وہاں دولت پورمیں مشہورخاندان کے ہیں۔راجپوت وہاں عزت والے سمجھے جاتے ہیں۔آجاؤ۔آجاؤبیٹھ جاؤ۔سیدہ راجویہ سیدہ ہے میری بہن کی بیٹی۔میری بیٹی ہی سمجھو۔اپنے یہاںہی رہتی ہے۔اورکہوسیدہ کیاحال چال ہے۔ہاجرہ نہیں آئی۔وہ شمیم کیاہوئی۔سفرکی وجہ سے تھک کرجاپڑی ہوگی اپنے کمرے میں ہی ہی ہی۔اچھابھائی سیدہ ذراچلم میں دوکوئلے تورکھ دینا۔واقعی سفرمیں انسان تھک جاتاہے۔‘‘
وہ مسلسل بولتے گئے جیسے خاموشی سے ڈرتے ہوں جیسی آواز کے تنکے کاسہارالے کرڈوبنے سے بچناچاہتے ہوں اورپھرہربات پران کاقہقہہ گونجتارہاکھوکھلاکھسیانہ قہقہہ جیسے وہ راجوکولانے پرمعذرت کررہے ہوں۔علی احمد‘‘بڑھیانے جواب دیا’’ذرادم کی تکلیف ہے ۔رک جاتاہے۔‘‘
’’پھرتوبہت تکلیف ہوئی۔‘‘
’’اب یہی کچھ ہوناہے نا۔کچھ وقت بیت گیاکچھ بیت جائے گامگر علی احمدیہ توکیالے آیاہے۔‘‘دادی اماں نے آہستہ سے کہا۔
’’اوہواماں۔‘‘وہ ہنسے ’’بہت دبلی ہوگئی ہو۔کوئی دواداروکررہی ہو۔‘‘ علی احمدکویوں بات بدلتے دیکھ کروہ مسکراکربولی ’’علی احمدتیری عادت نہ بدلی اوردواکاکیاپوچھتے ہو۔اب تودعاکرو۔‘‘
’’نہیں نہیں۔‘‘وہ بولے’’میں ڈاکٹرکوبلاؤں گااس سے پوچھوں گا۔‘‘اورپھرراجوکے پاس یوں جابیٹھے جیسے وہ خودمریض ہوں اورڈاکٹران کی طرف دیکھ کرمسکرانے لگی اورپھرعلی احمدکے کمرے کادروازہ بندہوگیا۔
گورودیومہاراج
راجوکے آنے پرایک دن محلے میں یہی شغل رہاایک مسکراکرپوچھتی ’’علی احمدیہ توکیالے آیاہے۔‘‘
علی احمدمسکراکرجواب دیتے ’’چچی یہی تومجھے تم سے پوچھناہے یہ میں کیالایاہوں۔خسارہ کاسودانہیں۔‘‘
دوسری پوچھتی’’ علی احمدیہ کیالے آیاتودیکھنے میں توکچھ بھی نہیں۔‘‘
علی احمدہنس کرکہتے ’’ہاں بہن دیکھنے میں کچھ نہیں۔‘‘
پھرکوئی محلے والاچلاتا۔’’علی احمداب تمہارے دن نہیںرہے۔‘‘
’’ہاں بھئی صاحب۔‘‘وہ ہنستے ’’جبھی توراتیں منارہاہوں۔‘‘
ایلی جوراجوکودیکھ کرحیران تھااس میں وہ بات ہی نہ تھی۔کوئی بھی توبات نہ تھی اس میں۔بالکل چلاہواپٹاخہ نہ جانے کیاہوگیاتھااسے۔جیسے کچھ ہوگیاہو۔
اگلے روزجب ایلی نے ارجمندسے بات کی تووہ قہقہہ مارکرہنسنے لگا۔’’بھئی وا ہ ایلی تم تیلی کے تیلی ہی رہے صرف علی احمدہی سیانے آدمی ہیں باقی تو سب الوکے پٹھے رہتے ہیں۔یہاں وہ ہاتھی کے دانت نہیں پالتے جوکھانے کے نہیں بلکہ دکھانے کے ہوں سمجھے میاں۔پیٹ کی بھوک آنکھیں سیراب کرنے سے نہیں مٹتی۔سمجھے مگرتم کیاسمجھوگے۔تم توہوئے تیلی کے تیلی۔مطلب یہ ہے بیٹاوہ کہاہے سیانوں نے کہ عورت دیکھنے کے لیے نہیںلائی جاتی گھرمیں۔پھرصورت پرکیاجاتا۔تمہارے اباتوگردویومہاراج ہیں۔دھن ہیں گردویومہاراج وہ انکراینڈی سیکھ رکھاہے کہ واہ وا۔یوں اڑی چلی آتی ہیںجیسے شمع پرپروانہ آتاہے۔آہاکیاگرسیکھ رکھاہے تمہارے ابانے بیٹااپنے اباکی قدرومنزلت اس خاکسارسے پوچھو۔اپنے خادم سے پوچھو۔خاکسارپرانی کھلاڑی ہے۔خاکسارنے یہ کھیل ڈسپنری کی میزوں پرسیکھاتھااورآج اتنے سال کے بعدجب خاکسارشاہ کاکوگیااورجناب یوں سمجھولوکہ ایک طرف شاہ گاؤں ہے اوردوسری طرف کاکوگاؤں اوردرمیان میں بروزے کی فیکٹری ہے جہاں خاکسارسٹورکیپرہے ۔ادھرسے شاہ کی شہزادیاں آتی ہیںاورادھرسے کاکو کی کراریاں۔خاکسارایک نظرادھررکھتاہے۔دوسری ادھر۔ اس قدرچاق وچوبندرہنے کے باوجودنتیجہ کیاہے۔بالکل فیل۔چھ ماہ میں صرف دوپھنسی تھیں اوروہ بھی سمجھ لومجبوری سے۔لیکن تمہارے ابا۔سبحان اللہ گرودیوجی مہاراج وہ انکراینڈی چلاتاہے بڈھاکہ دولت پورسے علی پورچلی آتی ہیں۔واہ وا۔بیٹابڑے ہوکرفخرکیاکروگے اس بڈھے کے کارناموں پر۔مگریاراس سے وہ نسخہ تولے لوجووہ استعمال کرتاہے۔ بیٹاہمارایہ کام کروگے توسداسکھی رہوگے۔‘‘
اب تومحلے کے سبھی لوگ اس بارے میں ایلی سے کچھ نہ کچھ کہنے کے لیے بے تاب ہورہے تھے۔
ایک کہتا’’میاں ایلی مبارک ہو۔‘‘
دوسراکہتا’’کہونئی ماں پسندآئی۔‘‘
تیسراکہتا’’کیوں ایلی تم کب تک دیکھتے رہوگے میاں اب توتمہارے دن آگئے۔‘‘
کوئی کہتی ’’ایلی تیرے اباکاچناؤکیساہے۔‘‘
ایک بولتی ’’ایلی تونہ اس راہ پرپیلوچھوڑاس کو۔اس نے تواپنی جندگی تباہ کرلی۔‘‘
پھراتفاق سے محلے میں دوایک شادیوں کااہتمام شروع ہوگیااورلوگوں کی توجہ علی احمداورراجوسے ہٹ کرشادیوں کی طرف مبذول ہوگئی۔
٭٭٭

سفینہ اورنور
میراثین
انہی دنوں علی پورمیں میراثنوں کاایک نیاٹولہ آیاتھا۔ان میں ایک میراثن زہرہ غضب کی رسیلی تھی۔جب وہ گاتی اس کاحلیہ ہی بدل جاتا۔اس پرایک عجیب کیفیت چھاجاتی ایسی کیفیت کہ دیکھنے والے مبہوت ہوکررہ جاتے۔
محلے کہ جوان بیچارے انتظارمیں رہتے تھے کہ کوئی بہانہ ہاتھ آئے تووہ میراثنوں کوبلائیں اورچھت پرچاندی بیٹھ کرزہرہ کوگاتے دیکھیں۔
کوٹھے پرایک طرف عورتیں بیٹھ جاتیں۔درمیان میں میراثنوں کے لئے جگہ مقررکردی جاتی۔دوسری طرف محلے کے جوان بیٹھ کرزہرہ کی طرف متبسم نگاہوں سے دیکھتے ۔جب وہ عورتوں کی طرف دیکھتی تواس کے چہرے پرمردنی چھائی ہوتی۔لیکن جب وہ جوانوں کی طرف آنکھ اٹھاتی تودفعتاًگویاسوکھاہواپھول ازسرنوتازہ ہوجاتااس پرجوانوں کے ہاتھ چپ چاپ جیبوں میں کچھ ٹٹولنے لگتے۔زہرہ کے ساتھیوں کے چہروں پرمسرت کی لہردوڑجاتی اوران کی تانوں میں جوش پیداہوجاتا۔
محلے کی عورتیں میراثنوں کوپسندنہ کرتی تھیں اگرچہ وہ اس بات کوتسلیم کرنے پرمجبورتھیں کہ ان کے آنے سے محلے میں رونق کی لہر دوڑجاتی ہے اورتقریب میں چہل پہل پیداہوجاتی ہے۔مگرنوجوانوںکامسکرامسکراکرزہرہ کی طرف دیکھنااورروپے پرروپے دیتے جاناانہیں بے حدناپسندتھا۔
محلے میں صرف چندایک لڑکیاں ایسی تھیں جومحلے کی عام عورتوں کے برعکس ایسے مواقع پرخوش دکھائی دیاکرتی تھیں ان میں شہزادپیش پیش تھی۔ڈھولک کی آوازسن کراس کی آنکھوں میں گلابی چھینٹے اڑنے لگتے شانوں پرریشمیں ڈوپٹے کاسنبھالنامشکل ہوجاتا۔بازویوں بات بات پرلہراتے جیسے کتھاکلی کے مندرااداکررہی ہو۔اس کی آوازبھی بدل جاتی تھی۔گلے کے سرچڑھ جاتے اوربات میں تھا۔لوچ پیداہوجاتا۔
ہرنی ہے ہرنی
شہزادکی اس بات پرمحلہ والیوں میں چہ میگوئیاں ہوتی ۔دبی دبی آوازیں سنائی دیتیں۔
’’آخرخاندان کااثر نہیں جاتابہن۔‘‘
’’خودبھی توگاتی ہے۔سناتھا۔جب دولہن بن کرآئی تھی خوداپنے بیاہ پرگانے لگی تھی۔توبہ ذرانہ جھجھکی۔‘‘
’’میں کہتی ہوں چاچی یہ چیزیں خون میں ہوتی ہیں ہاں کہے دیتی ہوں۔‘‘
’’ابھی تودیکھتی جاؤچاچی۔ابھی دیکھاکیاہے۔‘‘
’’نہ اللہ نہ کرے۔اب توخدااٹھاہی لے تواچھاہے بہن۔‘‘
’’ہے اوروہ میراثن توبہ یوں دیکھتی ہے ۔جیسے آنکھوں کی جگہ میخیں ہوں۔بس گاڑدیتی ہے نگاہیں۔‘‘
’’آج کل کے نوجوانوں کوتویہی پسندہے بہن۔‘‘
’’توبہ وہ توان میخوں پربچھے جاتے ہیں۔‘‘
جب سے شہزادمحلے میں آئی تھی۔محلہ والیاں اسے حیرانی سے دیکھتی تھیں اورمنہ میں انگلی ڈال کرکھڑی کھڑی رہ جاتیں۔مگرشہزادنے کبھی اس تفیصل کواہمیت نہ دی تھی۔اسے محسوس ہی نہ ہواتھا کہ وہ اس کی طرف حیرانی سے دیکھتی ہیں اوراس کی حرکات کابغورجائزہ لیتی ہیں۔
وہ چلتے چلتے چاچی کی طرف دیکھ کرشورمچادیتی۔’’سناچاچی کس کاانتظارکررہی ہے۔فکرنہ کرواب آتے ہی ہوں گے ۔چچا۔‘‘اورپیشتراس کے کہ چاچی جواب دیتی وہ اس کے پاس سے نکل جاتی اورکسی اورسے جاکربات کرنے لگتی۔
’’باباعمروہیں۔سلام کہتی ہوںبابا۔نمازپڑھ کرآئے ہو۔یہ کس وقت کی نمازہوئی ۔دن میں نونمازیں پڑھتے ہوکیا۔‘‘اورپیشتراس کے باباکچھ کہیں وہ کسی بچے سے بات شروع کردیتی۔
’’شہزادکی عادتیں انوکھی تھیںجومحلے والیوں کی نگاہوں میں کھٹکتیں مگر اس کی ہنس مکھ طبیعت کی وجہ سے ۔

جاوید اقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
رفیق اورسکینہ
محلہ والیاں خاموش رہتی تھیں۔پھربھی دبی دبی رہنے کے باوجودبات نہ دبی اورمحلہ والیوں کی شرگوشیاں جاری رہیں۔’’ہرنی ہے ہرنی۔‘‘وہ اسے دیکھ کرکہتیں ۔’’کلیلس بھرتی ہے۔‘‘شایدسرگوشیوں میں لذت پیدانہیں ہوتی۔
اس لئے آہستہ آہستہ ان سرگوشیوں میں شہزادکے ساتھ رفیق کانام شامل کرلیاگیااورمحلے والیاں رفیق کی طرف مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔شایدرفیق کی طرف انگلیاں نہ اٹھتیں مگرمشکل یہ تھی کہ رفیق کی شادی ہوچکی تھی اوروہ بچپن ہی سے سکینہ کاخاوندبن چکاتھاجو اس کی ہرحرکت پرکڑی نگاہ رکھتی تھی اوراس کی ہرجنبش میں مقصدڈھونڈتی تھی۔رفیق کی آنکھوں میں بونداباندی ہوتی دیکھ کراس کے کپڑوں میں عطرکی خوشبومحسوس کرکے وہ ایک گہری سوچ میں پڑجاتی۔
رفیق اورسکینہ ایک قدامت پسندگھرانے کے افرادتھے۔ خاوندبیوی ہونے کے باوجودایک دوسرے سے آزادانہ طورپرمل نہ سکتے تھے۔ایک دوسرے سے بات کرنے کے لئے بھی انہیں بہانوں کاسہارالیناپڑتاتھااورپھرموقعہ اورمحل کودیکھناپڑتا۔رفیق کورومال دھلواناہوتاتووہ اسے دھوڈالناآج۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ سکینہ کی طرف قطعی طورپرنہ دیکھتااورچولہے کے قریب بیٹھی ہوئی،سکینہ ہنڈیامیں جھانکتے ہوئے گنگناتی’’رکھ دیجئے۔‘‘پھررفیق رومال کوجھاڑکریوں گرادیتاجیسے مداری تماشادکھارہاہو۔پھروہ باہرنکل جاتااورسکینہ لمباگھونگٹ سنبھالے آتی اورگراہوارومال اٹھالیتی اوراس سمت قطعی طورپرنہ دیکھتی۔جس سمت کورفیق گیاہوتا۔ان حالات میں سکینہ اپنے شوہرکونیچی نظروں سے دیکھنے کے سوااورکرہی کیاسکتی تھی۔اس کے برعکس رفیق شہزادسے سراٹھاکرملتاتھا۔اگرچہ بات عزت سے کرتاتھا۔لیکن اس کابہانے بہانے شہزادسے ملنا’’چچی کچھ منگواناتونہیں۔میں بازارجارہاہوں۔چچی ایسے اچھے چاول آئے ہیں۔بنواری لال کی دوکان پرمنگوانے ہیں کیا۔چچی چائے سستی ہوگئی ہے۔چچی بڑااچھاکپڑامنڈی میں آیاہے۔‘‘
دن میں رفیق دوبارشہزادکی طرف جاتااورپھردیرتک آہستہ آہستہ اس سے باتیں کرتارہتااورباتوں کے دوران میں سی سی کرنے کے علاوہ جھجکتااورگھبراگھبراکرادھرادھردیکھتا۔اس وقت اس کی آنکھوں سے پھلجھڑیاں چلتیں اورکانوں پرسرخ چیونٹیاں رینگتیں۔
رفیق کی بیوی سکینہ اسے شہزادکی طرف آتے دیکھ کراپنے لمبے گھونگٹ سمیت کوٹھے پرچڑھ آتی اوران کی طرف کھڑکی چھت یاطاق سے چوری چوری جھانکتی۔انہیں قریب قریب کھڑے دیکھ کررفیق کے متعلق نہ جانے کیاکیااندازے لگاتی۔پھراکیلے میں بیٹھ کرآنسوبہاتی اورمحلے والیاں اسے اداس دیکھ کرچہ میگوئیاں کرتیں اوران کی سرگوشیوں میں رفیق اورشہزادکے نام سنائی دیتے۔
ایلی نے بھی کئی ایک بارانہیں یوں قریب کھڑے باتیں کرتے ہوئے دیکھاتھااورخواہ مخواہ اس کے دل میں بھی جلن پیداہوئی تھی۔پھرتنہائی میں بیٹھ کرسوچتارہاتھا’’رفیق اثر پیداکرسکتاہے توکیاہے۔‘‘اس نے لاحول پڑھ کراس خیال کودل سے نکال دیاتھا۔لیکن یہ تواس زمانے کی بات تھی جب اسے تسلیم سے محبت نہ ہوئی تھی۔اب توجب بھی شہزادکی طرف دیکھتاتواس کی نگاہوں میں شہزادکے خدوخال دھندلے پڑجاتے اوراس رنگین دھندلکے میں سفیددھبے چمکتے اورگنگھریالے بالوں کی لٹ لہراتی اوروہ محسوس کرتاجیسے وہ شہزادنہیں بلکہ تسلیم ہوجیسے تسلیم نے بھیس بدل رکھاہو۔
ڈبل اینٹ
علی پورکے ان مشاغل میں ایلی کی چھٹیاں گویاچشم زون میں ختم ہوگئیں ۔اوروہ علی پورسے امرتسرچلاآیاکالج جانے سے پہلے آصف کے گھرگیااوردیرتک اسے آوازیں دیتارہابالآخران کانوکرنیچے آیا۔’’آصف صاحب ہیں۔‘‘اس نے پوچھا۔’’جی میں دیکھتاہوں۔‘‘وہ بولا’’آپ کانام کیاہے؟‘‘آصف نے توکبھی ایسانہ کیاتھا۔جب بھی ایلی اس تنگ گلی میں کھڑاہوکرآوازدیتاتوکھڑکی سے آصف جھانکتااورمسکراکرکہتا’’آیاابھی۔‘‘اس سے پہلے تونوکرنے کبھی نیچے آکرنہ کہاتھا’’جی میں دیکھتاہوں۔آپ کانام کیاہے۔‘‘
نوکردوسری بارآیا’’جی آئیے۔‘‘وہ بولا۔وہ اسے بیٹھک میں لے گیا۔’’بیٹھے وہ ابھی آتے ہیں۔‘‘وہ بیٹھک بہت ہی مختصرساکمرہ تھاجس کے کونے میں پلنگ پڑاتھااوردوسری جانب ایک میزاوردوکرسیاں رکھی ہوئی تھی،دوبڑی کھڑکیاں اورروشندان گلی میں کھلتے تھے۔ایلی نے آصف کی بیٹھک کودیکھ کرمحسوس کیاجیسی وہ بدلی بدلی سی ہو۔پہلے تواس میں اتنااندھیرانہ ہوتاتھانہ ہی وہ اس قدرویران تھی۔پہلے روشندانوں میں شیشے لگے ہوئے تھے لیکن اب ان پرٹاٹ لگاکربندکردیاگیاتھا۔
کچھ دیرکے بعدآصف داخل ہوااس کاچہرہ زردتھاآنکھیں روئی روئی نظرآتی تھیں اوراندازمیں جھجک تھی۔ایلی طرف دیکھ کراس نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن اس کی مسکراہٹ بے حداداس تھی۔
’’تم آگئے ۔‘‘وہ بولا’’میں محسوس کررہاتھاکہ تم کبھی نہیں آؤ گے اورکالج ہمیشہ بندپڑارہے گااور۔۔اور۔۔’’اس کی آنکھیں بھرآئیں۔
’’تم بیمارہوکیا؟‘‘ایلی نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
’’نہیں ۔ہاں بیماری سمجھ لو۔‘‘وہ بولا۔
’’کیاتکلیف ہے۔؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’تکلیف ۔‘‘آصف مسکرایا’’تکلیف نہیں روگ لگاہے۔‘‘وہ ایلی کے قریب ترہوکرزیرلب باتیں کررہاتھا۔جیسے اپنی آوازسے ڈررہاہو۔
’’آخربات بھی توبتاؤنا؟‘‘ایلی نے چیخ کرکہا۔
آصف گھبراگیا۔’’خداکے لئے آہستہ بولو۔کوئی سن نہ لے۔‘‘
’’کون سن رہاہے تمہاری بات۔‘‘ایلی نے پوچھا
’’سن رہاہے۔سن رہاہے۔‘‘ اس نے روشن دانوں کی طرف اشارہ کیا۔
عین اس وقت گلی میں کسی نے قہقہہ لگایا۔ایلی چونکا:’’یہ کون ہنس رہی ہے؟‘‘
چلویہاں سے چلیں ۔وہ گھبراکربولا:’’لیکن ایسے نہیں تم پہلے جاؤ میں آجاؤں گا۔بازارمیں ملوں گا۔جلدی کرو جلدی۔‘‘
اس کارنگ ہلدی کی طرف زردہورہاتھا۔’’کھڑکی کھول دو۔‘‘قریب سے پھروہ عجیب وغریب آوازآئی۔
’’یہ ہے کون؟‘‘ایلی نے پوچھا۔آصف کاچہرہ اوربھی زردپڑگیا۔ہونٹ کانپنے لگے۔’’خداکے لیے بازارمیں میراانتظارکرنا۔شایدمجھے دیرہوجائے۔‘‘
عین اس وقت ایک ڈبل اینٹ روشندان کے ٹاٹ سے ٹکراکردھڑام سے گلی میں گری۔
باہرنکلتے ہوئے ایلی نے چوری چوری ایک نظرمقابل کے چوبارے پرڈالی۔کھڑکی میں کوئی کھڑاتھا۔اس کے سیاہ لمبے بال کھلے ہوئے تھے اورچہرہ سرخ ہورہاتھا۔
’’اس سے کہوباہر نکلے۔‘‘وہ چلائی۔
ایلی ڈرکربھاگاکہ کوئی اینٹ اس کے سرپرنہ گرجائے۔
کوئی نہیںکسی سے نہیں
بازارمیں وہ دیرتک ٹہلتارہامگرآصف نہ آیااس کاجی چاہتاتھاکہ پھرسے گلی میں داخل ہوجائے اورجاکراسے آوازدے مگرجرأت نہ پڑتی تھی۔نہ جانے وہ اینٹ کس نے ماری تھی نہ جانے وہ ڈانٹ کیوں رہی تھی۔نہ جانے وہ کون تھی اورحالات کیاتھے۔دیرتک وہ کھڑاسوچتارہااورپھران جانے میں اس نے اپنارخ آغاکے گھرکی طرف موڑلیااورپھرجواس نے نگاہ اٹھاکردیکھاتووہ تسلیم کی سیڑھیوں میں کھڑاتھا۔غیرازمعمول اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔لیکن گھرگویاویران پڑاتھاکوئی آوازنہیں آرہی تھی ڈیوڑھی زینہ اوربیٹھک سب ویران پڑے تھے۔اس نے پھردروازہ کھٹکھٹایا۔دورسے پاؤں کی چاپ سنائی دی۔اس کادل دھڑکنے لگا۔
’’کو ن ہے؟‘‘تسلیم کی آواز سن کراس کے اوسان خطاہوگئے۔دروازے میں تسلیم کاسفیدڈوپٹہ لہرایااورپھرایک گھنگھریالی لٹ جھلکی۔
’’تسلیم۔‘‘ایلی نے زیرلب کہا۔
’’اوئی اللہ۔‘‘وہ چلاپیچھے ہٹ گئی اورپھرہنسنے لگی۔
’’گھرکوئی نہیں۔‘‘وہ ہنستی ہوئے بولی۔اس کی ہنسی میں واضح اشارہ تھا۔
’’مجھے کوئی نہیں سے ملتاہے۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’کوئی نہیں۔کسی سے نہیں ملتے ۔‘‘وہ پھرہنسی۔
’’ہاں ہاں۔‘‘ایلی نے کہا۔’’میں کسی سے نہیں ہوں۔‘‘
’’پڑے ہو۔‘‘وہ تنک کربولی۔’’ہم کیاکریں۔‘‘
’’یہی توتمہیں بتانے آیاہوں۔‘‘وہ بولا۔کہ تم کیاکرو۔‘‘
’’نہ جی۔‘‘ وہ کہنے لگی۔’’ہمیں نہ بتائیے کچھ ۔ہم نہیں سنتے ایسی ویسی بات۔کہوکام کیاہے؟‘‘
’’کام وہ آن پڑاہے۔‘‘ایلی گنگنانے لگا’’خداکے لئے ذرادروازے میں توآؤ۔‘‘
’’نہ میں نہیں آتی۔‘‘
’’ضروری بات ہے۔‘‘وہ منتیں کرنے لگا۔
’’پڑی ہو۔‘‘وہ بولی۔
ایلی نے دروازہ کھول دیا۔’’اچھاتومیں آتاہوں۔‘‘خداکے لئے ۔خداکے لئے۔‘‘وہ چلائی ۔’’وہ آنے ہی والے ہیں۔‘‘
’’توپھروعدہ کروکہ تم مجھ سے ملوگی۔‘‘ایک فاتح کی طرح باچھیں کھل گئیں۔
’’ملنے سے مطلب !‘‘وہ بولی۔
’’تمہیں دیکھناہے۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’دیکھناہے۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسی ’’دیکھ کرکیالیں گے۔‘‘
’’کیالینے دینے کے بغیردیکھانہیں جاسکتا۔‘‘
’’بس جی بس۔‘‘وہ چڑکربولی۔’’اب جانے دوورنہ ۔‘‘
’’ورنہ ۔‘‘وہ چلایا۔’’میں اندرآرہاہوں۔۔۔۔۔۔۔
’’نہیں نہیں۔‘‘اس نے منت کی ۔
توپھرملنے کاوعدہ کروجلدی ۔‘‘
’’ملوں گی،ملوں گی۔‘‘
’’کب؟‘‘
’’کہہ جودیاملوں گی۔جاؤنااب۔جاؤبھی۔‘‘وہ چڑکربولی۔
ایلی سیڑھیاں اترتے ہوئے سوچنے لگا۔اگروہ اوپرسے ایک ڈبل اینٹ مارے یاپتھرہی سہی توزندگی کتنی دلفریب ہوجائے۔وہ چاہتاتھاکہ کچھ ہوجائے کوئی شرارت ۔کوئی شرارت۔کوئی حرکت جس سے زندگی زندگی بن جائے چاہے جو کچھ بھی ہویہ سوچتاہواوہ چپ چاپ آموں کی کوٹھی کی طرف طرف چل پڑا۔

جاوید اقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
پٹھو
جونہی وہ بورڈنگ میں پہنچا۔اللہ دادنے لپک کراسے پکڑلیااوراسے شانوں پراٹھاکرناچنے لگا۔ایلی نے شورمچایا۔ٹانگیں چلائیں۔لیکن بے کار۔اللہ دادنے اسے اٹھائے رکھا۔’’شفیع اوشفیع اب بن گئی بات۔اب تووہ باؤنڈری لگائیں گے کہ یہ مہاشے یادکریں گے۔‘‘شفیع کوتلاش کرنے کے بعدوہ دونوں ویسے ہی ایلی کواٹھائے ہوئے جلوس کی صورت میں ہرکمرے میں گھومنے لگے۔
’’لوبھئی ہوجاؤتیارہرنام سیاں اورگوبندرام ذراآجاؤمیدان میں ہماراپٹھوبھی پہنچ گیاہے وہ باؤنڈری لگے کی کہ یادرکھوگے۔‘‘
ہرنام سنگھ نے انہیں دیکھ کرمونچھ مروڑی ’’واہ گرو۔‘‘وہ دھاڑنے لگا۔’’وہ ہتھ دکھاؤں گا کہ یادکروگے۔۔۔‘‘
اللہ دادنے طنزبھراقہقہہ لگایا’’توآجاؤمیدان میں میرے یار۔‘‘
پھروہ رام گوپال کے کمرے میں جاگھسے ’’نکل آبے رامو۔‘‘اللہ دادچلایا’’دیکھیں گے آج تیرے ہاتھ ابے مسلوں کے سامنے کیاٹھہروگے تم۔آدم خورہوتے ہیں ہاں۔
رام گوپال نے ایک نعرہ لگایاجسے کاتی ماتابجرنگ بلی اورچھلانگ مارکرباہرنکل آیا۔
یونہی جلوس بڑھتاگیا۔وہ ہرکمرے میں داخل ہوتے اورپھرباہرنکل کرنعرے لگاتے اورلڑکوں کونکال کرآگے چل پڑتے۔سب سے آخرمیں وہ بنگالی سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں پہنچے۔
’’علی ۔۔مولاعلی‘‘اللہ دادنے نعرہ لگایا۔بنگالی بابوگھبراکرباہر نکل آیااورلڑکوں کے جلوس کودیکھ کراس کی گھبراہٹ نے مضحکہ خیزصورت اختیارکرلی۔
’’ارے یہ کیاگڑبڑہے بھئی۔‘‘بنگالی بولا۔
’’باہرنکلئے صاحب۔‘‘لڑکے ایک زبان ہوکرچلائے وقت ہوچکاہے وہ مقابلہ ہوگاآج کہ رہتی دنیاتک یادرہے گا۔‘‘
’’وہ ہاتھ دکھاؤں گاصاحب کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔‘‘رام گوپال چلایا۔
’’واہ گرو۔‘‘ہرنام سنگھ کی آوازگونجی۔
’’علی ۔حیدر‘‘اللہ دادچیخنے لگا۔
’‘شورنہ مچاؤ۔‘‘بنگالی بابومسکرانے لگا’’چلوہم آتاہے۔‘‘لڑکے جانے لگے تواس نے انہیں روک لیا۔
’’ٹھہرو‘‘
’’ہاں بھئی۔‘‘بنگالی سپرنٹنڈنٹ نے کہا’’تم سب کورولوں کاکھبرہے۔‘‘
’’مسلمانوں کوگوشت منگانے کی اجازت دی جائے۔‘‘شفیع بولا۔
’’نو۔نو۔نہیں نہیں۔‘‘چاروں طرف سے آوازیں بلندہوئیں۔’’نہیں نہیں۔‘‘سپرنٹنڈنٹ نے کہا۔اس کی اجازت نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’کچھ پروا نہیں۔‘‘اللہ دادبولا’’لیکن ہم تین مسلمان ہیں۔ہم مل کرمقابلہ کریں گے۔ہماراحساب اکٹھارکھاجائے۔بعدمیں اسے تین پرتقسیم کردیاجائے۔‘‘
’’نو۔نو۔‘‘لڑکے چلائے۔
’’اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘سپرنٹنڈنٹ بولا’’ہرے۔ ہرے۔‘‘شفیع اوراللہ دادچیخنے لگے۔
’’آدھ گھنٹے کے بعدمقابلہ شروع ہوجائے گااب تیاری شروع کرو۔‘‘بنگالی بابونے کہا۔
مقابلہ
سپرنٹنڈنٹ کی اس بات پرنعروں اورچنگھاڑوں کے بعدجلوس بکھرگیا۔اللہ دادایلی کوشانوں پراٹھائے ہوئے اپنے کمرے میں آیا۔
’’ابے کیسامقابلہ ہوگا۔مجھے بتاؤ توسہی۔‘‘ایلی نے اللہ دادسے پوچھا۔
’’ہائیں تمہیں معلوم نہیںکیا۔‘‘اللہ دادنے غصے میں دھم سے ایلی کوچارپائی پرپھینک کرپوچھا۔
’’ارے بدھوآج مسلمانوں کے امتحان کادن ہے۔آج انہیں کفارکونیچادکھاناہے۔بیٹاآج تمہیں ہماری لاج رکھنی ہے ۔اگرمسلمانوں کے ہوتے ہوئے’’پیٹو‘‘کاخطاب کسی اورکومل گیاتوبھئی کسی کومنہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔‘‘اللہ داد بولا۔
’’اتناکھاؤ آج۔اتناکھاؤکہ اس اسلامی پیٹ کے صحرامیں بندوکے پھلکے ریت کے ذرے بن جائیں ۔‘‘شفیع نے اپناادبی اندازدکھایا۔
’’ارے چھوڑویہ صحرادہرا۔‘‘اللہ دادبولا’’یوں کہہ کراتناکھاؤاتناکھاؤکہ میزسے اٹھانے کے لئے چارآدمی بلانے پڑیں۔یہ بنگالی بابوکیایادکرے گاسالاکہ مسلے کبھی آکرٹھہرے تھے بورڈنگ میں۔‘‘
کالج کے بورڈنگ کی رسم کے مطابق ہرسال ایک مرتبہ کھانے کامقابلہ ہواکرتاتھا۔شام کے کھانے پرباہرمیزیں لگادی جاتیں ۔تمام امیدواراپنی اپنی جگہ بیٹھ جاتے۔درمیان میں سپرنٹنڈنٹ کی کرسی رکھ دی جاتی تاکہ وہ فیراورفاؤل کافیصلہ کرسکے۔
کچن میں اس روزدوچاراچھے اچھے سالن پکائے جاتے۔اتنی مقدارمیں پکائے جاتے کہ امیدواروں کے لئے کافی ہوں کیونکہ مقابلے کے روزہرامیدوارکوئی ساسالن طلب کرسکتاتھا۔جب مقابلہ شروع ہوجاتاتوہرامیدوارکے پاس دوریفری کھڑے ہوجاتے جوپھلکوں کی تعدادگنتے جاتے اورہرنئے پھلکے پرآوازدیتے ’’رام گوپال بارہواں۔‘‘لیناسیاں پندرہواں۔‘‘اوردرمیاں میں بیٹھے ہوئے منشی ہرامیدوارکے نام کے سامنے تعدادلکھتے جاتے۔ان ریفریوں کے ساتھ مختلف پارٹیوں کے لڑکے کھڑے رہتے تاکہ تعدادلکھنے والے شرارت نہ کریں اورہربے ضابطی پرسپرنٹنڈنٹ کوپکاراجاتا۔’’پوائنٹ آف شکایت لالہ جی۔‘‘جولڑکااس مقابلے میں سب سے زیادہ پھلکے کھاتااسے ’’پیٹو‘‘کاخطاب دیاجاتااورگلے میں ہارڈال کراس کاجلوس نکالاجاتا۔جس کی ساتھ مناسب قسم کے نعرے لگائے جاتے۔
مقابلے کے دن کے لئے باورچی بندوپہلے ہی پھلکے پکارکھتاتاکہ پھلکوں کی کمی کی وجہ سے میچ میں خلل نہ پڑجائے پھرمقابلے کے وقت بندو۔رامو‘ہرنامہ اورکرشارسوئی میں بیٹھ کر پکے ہوئے پھلکے سینکنے میں مصروف ہوجاتے اوررامو۔کھمیااوربڈھاچوکیدارباہرمیزوں پرچیزیں مہیاکرنے کے لئے تیاررہتے۔
مقابلہ شروع ہوا۔رسوئی کی کھڑکیو ں اوردروازے سے پھلکوں کی بوچھاڑشروع ہوگئی اورایلی کویوں محسوس ہونے لگاجیسے رسوئی اورمیزوں کے درمیاں سفیدکبوتراڑرہے ہوں۔’’بندوپھلکا‘‘ہرنام سنگھ چیختا’’آٹھ‘‘اس کے سرپرکھڑاریفری چلاتااورپھرادھرسے رام گوپال شورمچادیتا۔’’بندوادھر‘‘پندرہ‘بندو’’پھلکی‘‘اللہ دادچیختاساتھ ہی شفیع اورایلی چیخنے لگتے۔’’پھلکاری پھلکاری۔‘‘ستاسٹھ ۔ستاسٹھ ۔‘‘کی آوازسن کررام گوپال چونک جاتا۔ارے پھردفعتاًاسے یادآتاکہ اللہ دادشفیع اورایلی کے پھلکوں کاحساب اکٹھاہورہاہے اورستاسٹھ کامطلب تھاستاسٹھ بٹاتین یعنی بائیس فی کس۔اسی قسم کی چاروں طرف سے آوازیں آرہی تھیں۔چاروں طرف سے شاباش رام گوپال اشکے اوے ہرنامے۔علی حیدرکے نعرے گونج رہے تھے اورہرلحظہ سکوربڑھتاجارہاتھا۔مقابلے میں صرف سات امیدوارتھے۔رام گوپال،ہرنام سنگھ،امرت لال،گوچرن سنگھ،ان کے علاوہ مسلمانوں کاایک گروپ تھا۔جس میں اللہ دادشفیع اورایلی تھے۔صحن میں پانچ چھ میزیں لگی ہوئی تھیں۔ہرمیزپرامیدواروںکے سروں پرریفری اورلڑکے کھڑے گنتی میں مشغول تھے۔درمیان میں چھ لڑکے؟کی حیثیت سے حساب کتاب لکھنے میں مصروف تھے۔جن کے پاس ہی آرام کرسی پربنگالی بابوسپرنٹنڈنٹ جج کی حیثیت سے بیٹھے تھے۔
تین پیٹو
’’ایک توستاون۔‘‘مسلمانوں کے گروپ کے ریفری نے آوازدی۔
’’علی حیدر۔‘‘اللہ دادچلایا۔’’بندوچٹنی۔‘‘
’’پوائنٹ آف آرڈر۔‘‘رام گوپال کھڑاہوگیا۔’’سپرنٹنڈنٹ صاحب اللہ دادصرف چٹنی کھارہاہے۔‘‘
’’علی حیدر۔‘‘اللہ داددہاڑنے لگا۔چاروں طرف شورمچ گیا۔
’’ٹھہرو،ٹھہرو۔‘‘بیزجی بولے۔’’چٹنی پرکوئی پابندی نہیں۔‘‘
’’علی حیدر۔‘‘اللہ دادغرایااوررام گوپال میزسے اٹھ کراندرچلاگیا۔اس کے جانے کے بعدشفیع اوراللہ داددیر تک چنگھاڑتے رہے پھرآہستہ آہستہ گوچرن نے بھی ہاتھ روک لیااورسب سے آخرمیں ہرنام سنگھ کی طبیعت مالش کرنے لگی’’علی حیدر۔‘‘تینوں مسلمان ہیروایک ستاون پراٹھ بیٹھے اوربورڈنگ والوں پرگویااوس پڑگئی۔
’’اجی یہ فاؤل ہے یہ مسلے چٹنی سے روٹی کھاتے رہے ہیں یہ اصول کے خلاف ہے‘‘لیکن ان کی ہربات پراللہ داد’’علی حیدر‘‘کانعرہ لگاکران کامنہ چڑاتااوربیزجی مسکراکرکہتے ’’چٹنی کھانااصولوں کے خلاف نہیں۔‘‘اوراللہ دادپھرسے تازہ دم ہوکرچنگھاڑتا۔’’علی حیدر‘‘
پیٹوکالقب توانہوں نے حاصل کرلیا۔لیکن رات بھران تنیوں کی بری حالت رہی۔چارپائیوں پرپڑے وہ دیرتک کروٹیں بدلتے رہے اورپھراللہ داداٹھ بیٹھااورکان پرہاتھ رکھ کرگانے لگااورپھردفعتاًچلاکربولا۔
’’ارے یارو۔کیوں اپنے آپ کودھوکادے رہے ہو۔نیندتوآج تمہارے باپ کوبھی نہیں آئے گی۔بیکارپڑے ہو۔آؤ چلوامرودوں کے باغ سے امرودتوڑکرلائیں۔بڑے ہاضم ہوتے ہیں۔تمہاری قسم۔‘‘
صبح سویرے اللہ دادنے پرنسپل کے نام ایک درخواست لکھی کہ حضورچھٹی لینے کانہ توہماراارادہ ہے ۔اورنہ چھٹی میں کوئی دلچسپی ہے ازراہ چارآدمی بھیج دیجئے جوہمیں اٹھاکرکالج لے آئیں۔
دوپہرکے وقت پرنسپل اپنی لینڈومیں آیااس کے ساتھ آصف تھا’’ہیلو‘‘پرنسپل بولا۔مبارک ہوتمہیں ۔پیٹوبولوکیاحال چال ہے تمہارا۔‘‘اللہ داد نے ہاتھ جوڑے ’’حضورآپ کادیاسب کچھ ہے صرف اتنی ارج ہے کہ چاردن کے لئے چارآدمی مقررکردیئے جائیں جوہمیں اٹھاکرگھماپھرالایاکریں۔‘‘پرنسپل نے ایک قہقہہ لگایااورپھر’’شابش ویل ڈن‘‘کہتاہوارخصت ہوگیا۔
اداس شام
پرنسپل کے جانے کے بعدآصف نے ایلی کواشارہ کیا۔ذرایہاں تک چلنامیرے ساتھ۔اس وقت اللہ اورشفیع اپنی ہی دھن میں لگے ہوئے تھے۔اس لئے ایلی چپکے سے آصف کے ساتھ چل پڑا۔آصف کارنگ زردہورہاتھا۔اس کے ہونٹوں پرمسکراہٹ توتھی مگرمسکراہٹ میں تازگی نہ تھی۔اسے ملتے ہی ایلی نے ایک سانس میں کئی سوال کرڈالے۔
’’کل تم کیوں نہ آئے وہ کون تھی جس نے ڈبل اینٹ ماری تھی۔وہ تمہیں گھورتی کیوں تھی۔تم سہمے ہوئے کیوں ہو۔کیاہے تمہیں آصف بولوبھی نا۔‘‘
لیکن آصف چپ چاپ کھڑاتھااس کے ہونٹوں پرکھسیانی مسکراہٹ تھی اوررنگ زردہورہاتھا۔پھرایلی بھی خاموش ہوگیااوردیرتک وہ درختوں تلے خاموش بیٹھے رہے ۔ہرچندمنٹ کے بعدآصف ایلی کی طرف دیکھ کربے بسی بھرے اندازسے مسکرادیتا۔
آخربولا۔کہنے لگا’’ایلی اگرمیں زہرکھالوں توتم براتونہ مانوگے۔‘‘
’’زہر۔‘‘ایلی نے پوچھا’’آخرکیوں؟‘‘
’’یہ نہ پوچھو۔‘‘آصف نے کہا’’اب زندگی بیکارہے۔بے عزتی کی زندگی سے مرجانابہترہے۔‘‘
’’اگرمیں کہوں کھالوتوکیاکھالوگے تم۔‘‘ایلی نے شرارت سے پوچھا’’ہاں ۔‘‘وہ بولا’’کھالوں گا۔‘‘
ایلی سوچ میں پڑگیا۔آصف چپ چاپ نہرکے پانی کوگھورنے لگا۔دورکوئی رہٹ رورہاتھا۔سامنے ندی کاپانی گویاچلتے چلتے رک گیاتھا۔اردگردپھیلے ہوئے کھیتوں میں پودے سرجھکائے کھڑے تھے اوروہ دونوں خاموش بیٹھے تھے۔
وہ یونہی خاموش بیٹھے رہے ۔حتیٰ کہ سورج مغرب میں جاڈوبااورآسمان پرسرخ دریاں پھیل گئیں اوررہٹ روروکرچپ ہوگیا۔کتنی اداس شام تھی وہ ۔
ایلی اٹھ بیٹھا’’نہیں‘‘وہ بولا’’ابھی تم زہرنہ کھاؤ۔‘‘
’’کیوں ۔‘‘آصف نے پوچھا’’کیوں نہ کھاؤں۔‘‘
’’بس ابھی نہیں کہہ جودیاہے میں نے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘آصف نے آہ بھری۔’’پھرمیں کیاکروں۔‘‘
’’انتظارکرو۔‘‘ایلی بولا۔
اچھاکہہ کرآصف خاموش ہوگیااورپھربورڈنگ میں جانے کی بجائے شہرکوچل پڑا’’میں اب چلتاہوں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ایلی بولا‘‘کل پھرملیں گے۔۔۔۔۔
ساری رات ایلی سوچتارہاکہ آصف زہرکھانے پرکیوں آمادہ تھاوہ کونسی بات تھی جس کی وجہ سے دکھی تھا۔وہ لڑکی کون تھی وہ چلاکیوں رہی تھی اس روزکیاآصف کواس سے محبت تھی۔پھراس نے آصف کی بیٹھک پراینٹ کیوں پھینکی تھی اورچلاکرکیوں کہاتھا۔سامنے بلاؤاسے اگرانہیں محبت تھی تو۔لیکن محبت ایسے تونہیں کی جاتی محبت تھی توپھرزہرکھانے کی کیاضرورت تھی۔انہیں خیالات میں کھویاہواوہ سوچتے سوچتے سوگیا۔

جاوید اقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
آصف
آصف ایک خاموش اورشرمیلانوجوان تھا۔نہ جانے اس کی بے پناہ جاذبیت کاکیارازتھا۔شایداس کی وجہ اسکی خاموشی اورشرمیلاپن ہویاشایداس کاسفیدرنگ جھکی جھکی آنکھیں اوررخساروں پرجھلکتی ہوئی سرخی کواس سے کوئی تعلق ہوبہرصورت یہ امرمسلمہ ہے کہ محلے کی لڑکیاں اس کے لئے بے قراررہتی تھیں۔قرب وجوارمیں رہنے والیاں باربارکوٹھے پرچڑھتیں کہ شایدایک نظرآصف کودیکھنانصیب ہوجائے۔کئی گھنٹوں کوٹھے پرٹہلتی رہیتں یاجب کالج جانے یاوہاں سے لوٹنے کاوقت ہوتاتووہ گلی کی کھڑکیوں میں کھڑی ہوتیں۔کئی ایک اسے چھپ کردیکھتیں۔کئی ایک ایسی بھی تھیں جوبے پروائی کے پردے میں اپنی نمائش کرتیں کہ ایک نظرآصف انہیں دیکھ لے اورچندایک تودیوانہ وارچقیں اٹھالیتیں یاکھڑکیوں سے لٹکتیں شوخ لڑکیوں نے کئی باراعلانیہ طورپراسے سلام بھی کئے تھے۔اس کے علاوہ اعلانیہ بات بھی کی تھی۔مگرگلی میں چلتے ہوئے آصف نے کبھی گردن نہ اٹھائی تھی۔وہ چپ چاپ زمین پرنظریں گاڑے جلدی جلدی گلی میں سے گزرجانے کی کوشش کرتاتھا۔
کوٹھے پراس کارویہ مختلف ہوتاتھااوراوپرچڑھتے ہی نیچی نظرسے چھتوں کاجائزہ لیتااگرکوئی بزرگ صورت مردیاعورت قرب وجوارمیں نہ ہوتے تو وہ لڑکی پربھرپورنظرڈالتااورپھرچپکے سے سامنے سے ہٹ جاتاغالباًاس کی یہ بھرپورنظراس کی تمام ترمشکلات کی وجہ تھی۔
اسے لڑکیوں سے دلچسپی ضرورتھی ۔لیکن اس ہروقت یہ ڈرلگارہتاکہ لوگ کیاکہیں گے۔والدین کیاسمجھیں گے نہ جانے والدین کوخوشی کرنے کے لئے یااپنے زہدوتقویٰ کارعب جمانے کے لئے۔یاشایداس کی یہ وجہ ہو کہ وہ اپنی برتری کاعملی طورپراظہارکرناچاہتاہو۔چاہے اس کی وجہ سے کچھ بھی ہواورہواکثرکوٹھے سے اترکرماں کی طرف جاتااورکسی نہ کسی لڑکی کی شکایت کرتا’’دیکھ لوماں آج اس نے مجھے سلام کیاہے۔‘‘اوراس کی ماں نہ جانے کس غلط فہمی یاحمایت کی وجہ سے جھٹ نوکرکوبھیج کرلڑکی کے والدین تک شکایت پہنچادیتی۔
ایسی شکایت محلے کی کئی ایک لڑکیوں کے والدین تک پہنچ چکی تھی اوروہ سب آصف کی اس عادت سے نالاںتھیں۔والدین توپہلے ہی اپنی بچیوں کی معصومیت پریقین رکھنے کے خوہشمندہوتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اپنی اولادبے حدمعصوم اورپاکبازہے البتہ دوسروں کے بچے انہیں گمراہی کی طرف راغب کرنے پرادھارکھائے بیٹھے ہیں۔آصف کی ان شکایات کانیتجہ یہ ہوا کہ لڑکیوں نے آنسوبہابہاکروالدین کویقین دلادیاکہ ان کاقصورنہیں اورمحلے والوں کے دلوں میں آصف کے خلاف بغض پیداہوگیا۔
اگلے روزجب وہ کالج میں ملے توآصف کے چہرے پرحقیقی انبساط کی جھلک تھی اوراس کے تبسم میں شگفتگی تھی۔ایلی کو دیکھ کرحسب معمول اس کی طرف بڑھااورہاتھ اٹھاکراس کی طرف دیکھ کربولا’’تسلیم۔‘‘ایک ہی نظرمیں ایلی کومحسوس ہوگیاکہ یہ آصف کل والاآصف نہیںتھاوہ آصف جوتین گھنٹے یوں چپ چاپ بیٹھارہاتھاجیسے پتھرکابناہو۔
’’زہرتونہیں کھالیاتم نے۔‘‘ایلی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘وہ وبولا‘‘تم نے جوکہاتھاانتظارکرو۔‘‘
’’توانتظارکررہے ہو۔‘‘ایلی نے اسے چھیڑا۔
’’نہیں ۔‘‘وہ بولا‘‘اب اس کی ضرورت نہیں۔آؤتنہائی میں گھومیں یہاں لڑکے آجاتے ہیں۔اکیلیمیں بتاؤں گاتمہیں۔‘‘اوروہ دونوں میدان کی طرف نکل گئے۔
سفینہ
آصف نے بات شروع کی۔’’اس لڑکی نے مجھے بہت تنگ کیاہے ایلی ۔‘‘آصف نے مسکراتے ہوئے کہا’’وہی جو اس روزمقابل کے چوبارے میں کھڑی تھی۔جس روزتم آئے تھے۔جس نے روشن دان پراینٹ پھینکی تھی۔پھرنہ جانے اسے کیاہوگیاہے۔ایلی کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔وہ عام لڑکیوں کی طرح کوٹھے پرچڑھ کرہمارے گھر کی طرف جھانکاکرتی تھی۔میں نے دوایک مرتبہ اماں کی معرفت شکایت بھی بھجوائی۔لیکن اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔الٹااس نے گھنٹوں اعلانیہ کوٹھے پرٹہلناشروع کردیا۔سارادن کوٹھے پردھوپ میں کھڑی رہتی ۔
خیروہ دن بھی گزرگئے پھرگرمیاں آئیں توہم کوٹھے پرسونے لگے۔ان کے کوٹھے پرہماری طرح پردے بہت چھوٹے چھوٹے ہیں۔صبح سویرے وہ اٹھ بیٹھتی اورآنکھوں پرہاتھ رکھے ہمارے کوٹھے کی طرف منہ کرکے بیٹھ رہتی۔ جب تک میں نہ جاگتاوہ اسی طرح بیٹھی رہتی پھرجب میں بیدارہوجاتاتووہ منہ سے ہاتھ ہٹاتی اورمجھے سلام کرکے مسکراتی۔ایسے معلوم ہوتاجیسے اس نے صبح سویرے مجھے دیکھنے اورسلام کرنے کی قسم کھارکھی تھی۔مجھے دیکھنے سے پہلے وہ منہ سے ہاتھ نہ ہٹاتی تاکہ کوئی اس کے روبرونہ آئے۔گھروالوں نے اس بات پراسے ماراپیٹا۔مگراپنی ہٹ سے بازنہ آئی۔آخرگھروالے ہارگئے۔
اس کی یہ کیفیت دیکھ کرمیرے تواوسان خطاہوجاتے ہیں۔محلے والے کیاکہیں گے۔میں سوچتارہتا۔محلے کے لوگوں کودیکھ کرسرجھکالیتا۔مجھے شرم محسوس ہوتی۔ایسے محسوس ہوتاجیسے وہ مجھ پرہنس رہے ہوں۔میرامذاق اڑارہے ہوں۔لیکن اب۔اب نہ جانے اسے کیاہوگیاہے ۔گویاوہ اپنے بس میں نہیں رہی اب اسے ہسٹریاکادورہ پڑتاہے یاوہ پاگل ہوچکی ہے۔ چندایک دن سے اس کی آنکھیں سرخ ہیں۔منہ سوجاہواہے اوراسے قطعی پروانہیں کہ وہ کیاکررہی ہے اسے کسی بڑے چھوٹے کی پروانہیں۔وہ کوٹھے پرچڑھ کرباآوازبلندمیرانام لے لے کرپکارتی ہے۔آوازیں دیتی ہے۔آصف آصف جی۔لوگ سن کرہنستے ہیں۔میرامذاق اڑاتے ہیں۔پھروہ مقابل کے چوبارے میں آجاتی ہے اورکھڑکی میں کھڑے ہوکرباآوازبلندباتیں کرتی ہے۔اگرمیں سامنے نہ جاؤں توپتھرپھینکتی ہے۔‘‘آصف نے آہ بھری اس کی آنکھیں ڈبڈباگئیں اوروہ خاموش ہوگیا۔ایلی یہ روئیدادسن کرخوشی کی ایک لہر محسوس کررہاتھا۔کتناخوش نصیب ہے اف۔وہ سوچ رہاتھا۔جسے کسی کی محبت حاصل ہے۔جسے دیکھنے کے لئے کوئی منہ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہتی ہے۔اس کی سمجھ نہ آرہاتھاکہ آصف اس بات پرآبدیدہ کیوں ہورہاتھا۔اس بات پرزہرکھانے کاکیامطلب۔
’’اور۔اور۔‘‘آصف نے پھربات شروع کی۔’’اس نے اپنانام بدل لیاہے۔اب وہ سفینہ کی بجائے اپنے آپ کو آصفہ کہتی ہے۔آصفہ توبہ کتنی جرات ہے۔لیکن اب وہ چلی گئی ہے۔‘‘آصف نے کہا’’اس کے والدین زبردستی اسے لے گئے ہیں۔ نہ جانے کہاں۔تاکہ بدنامی نہ ہو۔اللہ کرے وہ کبھی واپس نہ آئے۔
’’کیاواقعی اسے تم سے محبت ہے۔‘‘ایلی نے حسرت ناک اندازسے پوچھا۔
آصف ہنسنے لگا’’مجھے کیامعلوم۔‘‘وہ بولاکہ محبت کیاہوتی ہے اگریہی محبت ہے تواللہ بچائے توبہ کتنی بدنامی ہوئی ہے۔کتنی رسوائی۔’’کیاتمہیں بھی اس کاخیال ہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘وہ متبسم نگاہوں سے ایلی کودیکھنے لگا۔اس کی نگاہ میں تسخیرکی مسرت تھی۔
’’کیاوہ خوبصورت ہے آصف؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’خوبصورت ‘‘آصف سوچنے لگااورپھرہنس کربولا’’یہ سبھی خوبصورت دکھائی دتی ہیں۔‘‘
اس روزایلی آصف کی باتوں کے متعلق سوچتارہا۔کس قدرعجیب باتیں تھیں آصف کی۔شریف سے کس قدرمختلف۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ آخرمحبت کے متعلق ہرایک کانظریہ مختلف کیوں تھااورمحبت کی حقیت کیاتھی۔وہ تواس بات پرفخرکیاکرتاتھاکہ اسے تسلیم سے محبت ہے اورمحلے والوں کے سامنے اسے تسلیم کرنے میں ذرانہ ہچکچاتاتھا۔لیکن آصف۔
دن بھرایلی بورڈنگ میں بیٹھے ہوئے سوچتارہا۔اس کے سرپرآموں کے درختوںکی ٹہنیاں ہوامیں جھولتی رہیں۔کھیت گویابال پھیلائے سوگ مناتے رہے اوردوررہٹ کراہتارہا۔یونہی دوپہرسے شام ہوگئی اورمغرب میں بادل کسی ان جانے غم سے سلگنے لگے۔آگ کے شعلے لپکنے لگے۔ایک اضطراب ۔دکھ بھری بے قراری۔خاموش غم فضاسے چھنتارہا۔
بادلوں کے ان ٹکڑوں میں تسلیم اس کی طرف دیکھ کرمسکرارہی تھی۔اس کی لٹیں الجھی ہوئی تھیں۔پھردفعتاًایک حرکت سی ہوئی اورتسلیم نے گول مٹول صورت اختیارکرلی۔جیسے گٹھڑی ہو۔پھرسبزگٹھڑی کے پٹ کھل گئے اورچھم سے کسی نے جھانکا۔’’مجھے تم نے ڈرآتاہے ایلی۔‘‘ایک متبسم آوازسنائی دی اورپٹ پھرسے بندہوگئے۔وہ چونک پڑا۔توبہ ہے۔وہ زیرلب بولااورکسی اوربات کے متعلق سوچنے لگا۔لیکن جلدہی ایک بدلی نے کرشن کنہیاکاروپ دھارلیا۔ٹک ٹک قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ دوبڑی بڑی سیاہ کشتیاں ڈول رہی تھیں۔دورکوئی بانسری بجارہاتھا۔کتنی اداس تھی۔وہ شام۔اداس اورخاموشی۔
پگلی بہن
اگلے روزتسلیم کے گھرجاتے ہوئے وہ سوچ رہاتھااگرتسلیم کوبھی کچھ ہوجائے توجیسے آصفہ کوہواتھااوروہ کھڑکی سے چق اٹھاکرسامنے آکھڑی ہوجیسے اس روزآصفہ کھڑی تھی اورپھراسی طرح کہے’’تم سامنے کیوں نہیں آتے توکیازندگی بن جائے۔یاجب وہ وہاں پہنچے توتسلیم آنکھوں پرہاتھ رکھے بیٹھی ہواسے دیکھ کرہاتھ اٹھاکرمسکرائے ’’سلام‘‘اورپھرہنس کراندربھاگ جائے ۔صرف ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ۔روزنہ سہی صرف ایک بار۔صرف ایک بارصرف ایک بارکاوردکرتاوہ ان کے گھرپہنچ گیااوروہاں پہنچ کردفعتاًاسے خیال ہواکہ وہ منزل پرپہنچ چکاہے۔مگرمنزل ویران پڑی تھی۔کھڑکیاں بندتھی۔سیڑھیاں خالی تھیں۔دیر تک وہ وہاں کھڑامایوس ومحروم نگاہوں سے دیکھتارہا۔پھراس کاجی چاہاکہ چپکے سے لوٹ آئے اورنہروالی کوٹھی میں آموں کے درختوں تلے بیٹھ کرجی بھرکرروئے۔حتیٰ یا کہ اس کے جسم کے بندبندمیں وہ چلچلاتاہوادردختم ہوجائے جوان دنوں وہ محسوس کرنے لگاتھا۔
’’ہائیں۔‘‘تم ایلی۔‘ حنی اسے دیکھ کرچلایا۔’’یہ کیاصورت بنارکھی ہے۔جیسے پٹ کے آئے ہو،آؤ۔آؤ۔تمہارادل بہلاؤں۔اس کے پاس جاکرسب دکھ بھول جاتے ہیں۔نہیں نہیں گھبراؤنہیں۔اس کے یہاں کوئی نہیں آتاجاتا۔اس نے دھندہ چھوڑرکھاہے۔کیسے کرے دھندہ۔ہمارے عشق میں مری جارہی ہے اورایلی ایمان سے وہ توازلی طورپرگھریلوعورت ہے خالص پدمنی۔اس کے پاس بیٹھ کرایسے محسوس کرتاہوں۔جیسے ماں کی گودمیںبیٹھاہوں اتناآرام وسکون ملتاہے وہاں،آؤ۔آؤلے چلوں تمہیں۔‘‘
’’آہاایلی۔‘‘آغابال بناتاہواباہرنکلا۔’’بھئی اب توآتے ہی نہیں تم اس طرف۔کون سے نئے مشاغل پیداکرلئے ہیں اوروہاں۔‘‘
’’کیوں ایلی چلوگئے؟‘‘حئی نے آغاکی بات کوکاٹ کرکہا۔
’’نہ ۔نہ بھئی۔‘‘آغا نے حئی نے کہا’’اس پرتوکرم ہی کر۔‘‘اس پرحئی منہ بناکرچل پڑااورایلی آغاکے ساتھ اکیلارہ گیا۔لیکن اسکا جی چاہتاتھاکہ حئی اسے وہاں لے جائے جہاں ماں کی آغوش کاساسکون میسرہوتاہے۔جہاں وہ ہوجومحبت کے لئے دھندہ چھوڑنے کی جرات رکھتی ہے۔جوروپوں کوجھنکارکومحبت پرقربان کرسکتی ہے۔
’’کس سوچ میں کھوئے ہوئے ہوآج؟‘‘آغابولا’’بہت اداس ہو۔‘‘
جواب میں ایلی ہنس دیا’’نہیں تواداس تونہیں۔‘‘اس نے اہ بھرکرکہا۔
توکوئی بات سناؤ۔‘‘آغانے کہا۔
’’کوئی بات ہوبھی۔‘‘
’’اوہ ۔۔‘‘آغامسکرادیااورپھردانت صاف کرنے لگا۔
ایلی نے چوری چوری اوپرکی طرف نظردوڑائی مگروہاں کوئی پلودکھائی نہ دے رہاتھا۔نہ جانے اس قدرخاموشی کیوں چھائی ہوئی تھی۔
’’حئی کی بات سنی تم نے ؟‘‘آغانے بات شروع کی’’حدہوگئی اس کانام الماس ہے۔نئی نئی آئی ہے۔یہاں اچھی خاصی ہے ۔نوجوان ہے۔نہ جانے حئی نے کیاکردیاہے۔بیچاری نے دھندہ چھوڑرکھاہے۔اس کے جواری میراثی بھوکے مررہے ہیں اورحئی کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں۔لیکن یہ کسی سے ڈرے۔توبہ کرو۔ڈرتواس کی گھٹی ہی میں نہیں۔سارادن وہاں جاکربیٹھ رہتاہے۔وہ اس کی جرابیں دھوتی ہے پتلونیں استری کرتی ہے۔چائے بنابناکرپلاتی ہے۔عجیب جذبہ ہے محبت کا۔‘‘آغاہنسنے لگا۔دھندہ کرنے والیوں کی بھی نہیں چھوڑتا۔کوئی معصوم نہیں ہے وہ اناڑی نہیں۔سب کچھ سمجھتی ہے ۔جانتی ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔حئی محض وقت کٹی کررہاہے۔پھربھی وہ فریب کھائے جاتی ہے۔عجیب بات ہے۔‘‘آغاہنسنے لگا۔’’آؤآج تمہیں سیرکرالائیں،آؤ۔‘‘
جب وہ چلنے لگے تودفعتاًاوپر سے نیم کی آوازآئی’’بھائی جان میں آرہی ہوں۔‘‘
’’توپھرمیں کیاکروں۔‘‘آغانے ہنس کرکہا۔
’’میں آجورہی ہوں۔‘‘وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے بولی۔
’’خواہ مخواہ ۔مجھ سے کام ہے کیا۔‘‘
’’نہیں تو۔‘‘وہ دروازے میں کھڑی ہوگئی۔
’’توپھرمیں کیاکروں ۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘وہ ہنسنے لگی۔
’’توپھرچلاکیوں رہی تھی تو۔‘‘
’’بس چلارہی تھی۔یونہی۔‘‘
’’اچھاشورنہ مچاہم جارہے ہیں۔آؤایلی ۔‘‘
آغابات کررہاتھاتوچھوٹی نیم اس کی پشت کے پیچھے سے یوں ہونٹ ہلارہی تھی جیسے کچھ کہہ رہی ہوجیسے کوئی پیغام دے رہی ہو۔لیکن ایلی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
جب آغاچلنے لگاتووہ پھرچلائی۔’’کہتی ہوں کوٹھے پربلارہے ہیں آپ کو۔‘‘
’’بلارہے ہیں کیوں۔‘‘
’’کیامعلوم ۔‘‘وہ پھرہونٹ ہلاکرایلی کواشارہ کرنے لگی۔
’’اس وقت نہیں۔ہم جارہے ہیں۔‘‘آغانے گھورکرکہا۔
’’اچھاتواچھے بھائی جان ہمیں ایک پان لے دو۔‘‘
’’اوہ۔تویہ بات ہے۔‘‘آغاہنسنے لگا۔’’خودلے لینایہ لوپیسے ۔‘‘
’’ہم توپان لیں گے پیسے نہیں۔‘‘وہ لاڈسے بولی۔
’’پاگل ہوگئی ہے کیا۔‘‘آغاہنسا۔
’’ہاں۔‘‘نیم نے سنجیدگی سے کہا’’پاگل ہوگئی ہوں۔‘‘
آغاقہقہہ مارکرہنس پڑا۔’’یہ بہنیں بھی بہت مہنگی پڑتی ہیں۔اچھامیں لاتاہوں پان۔تواب بھاگ نہ جائیو۔‘‘
’’نہیں بھاگتی۔‘‘وہ مسکرائی۔
آغاباہرنکلاتووہ ایلی کے قریب ترہوکربولی’’اپنابائیسکل نہ لے جانایہیں چھوڑجانااورکل شام کوتین بجے آکرکہنابائیسکل دو۔‘‘اس نے ایلی کی طرف یوں دیکھا۔جیسے وہ ایک بچہ ہو۔اس روزپہلے دن ایلی نے محسوس کیاکہ وہ ننھی سی معصوم بچی ایک مکمل عورت تھی جس کے پلومیں کئی آغوش مادرچھپی ہوئی تھیں۔یہ کہہ کروہ اوپرکی طرف بھاگی۔
’’ہائیں۔‘‘ایلی چلایا’’اوروہ پان۔‘‘
’’پان۔‘‘وہ ہنسی ۔’’میں نہیں کھاتی پان وان۔نہ بھئی۔‘‘
عین اس وقت آغاداخل ہوا۔’’ہائیں چلی گئی اوریہ پان۔‘‘اس نے پھرقہقہہ لگایا’’ہی ہی ہی۔یہ بہنیں بالکل ہی پگلی ہوتی ہیں۔‘‘اوروہ پان منہ میں ڈال کرہنسنے لگا۔
’’سائیکل لے لوچلیں۔‘‘آغانے ایلی سے کہا۔
’’نہیں ۔‘‘ایلی نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔’’یہاں ہی پڑارہے گاکل لے لوں گاکسی وقت۔’’اچھایوں ہی سہی۔‘‘آغانے بے پرواہی سے کہااوروہ دونوں چل پڑے۔

جاوید اقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
اتنی ساری
اس روزجب ایلی بورڈنگ میں پہنچاتووہ بے حد تھکاہواتھا۔کئی دنوں سے ایک بے نام سادرداس کے بندبندمیںچیونٹیوں کی طرح رینگ رہاتھا۔وہ محسوس کرنے لگاتھاجیسے اس کاوجودایک تکلیف دہ چیزہو۔اسکے گردنیلاآسمان روزبروزپھیکاپڑتاجاتاتھااوردنیایوں دکھائی دینے لگی تھی جیسے ایک ویرانہ ہو۔طویل وعریض ویرانہ ۔بے مقصدپھیلاؤ۔ایک اذیت دہ ٹھہراؤچاروں طرف ٹھاٹھیں مارتھا۔اس صحرامیں وہ خودایک ناؤ تھا۔جس کے گردریت کی لہریں بھتنوں کی طرح ناچ رہی تھیں۔
جب بھی ایلی کی توجہ اپنی جانب مبذول ہوتی وہ اس ٹھہراؤکوشدت سے محسوس کرتالیکن جب اس کی توجہ ریت کی لہروں کی طرف منعطف ہوتی تواسے حرکت کااحساس ہوتا۔جب وہ بستر پرلیٹاتواس کاخیال نیم کے پیغام پرمرکوزہوگیا۔نہ جانے نیم کامطلب کیاتھا۔مطلب تھا بھی یامحض تفریح یاکچھ اورپھربائیسکل رکھنے سے کیامقصدہوسکتاہے اوراسے واپس لانے کی سکیم سے کیافائدہ پہنچ سکتاہے۔دیرتک وہ اس پگلی لڑکی کی باتوں پرغورکرتارہا۔لیکن گتھی نہ کھلی ۔وہ سوچ سوچ کرہارگیا۔حتیٰ کے اس کی آنکھ لگ گئی۔
اگلے روزکئی دفعہ اسے خیال آیاکہ سائیکل وقت مقررہ پرلانے کی آخرکیاضرورت ہے۔کسی وقت بھی لے آؤں گا۔کیافرق پڑتاہے۔پھراس کے ذہن میں امیدکی ایک کرن روشن ہوجاتی۔شایدفرق پڑجائے پھرجلدہی وہ کرن بجھ جاتی اورگھٹاٹوپ اندھیراچھاجاتا۔لیکن اس کشمکش کے باوجودوہ مقررہ وقت پرآغاصاحب کے گھرجاپہنچا۔وہاں پہنچ کراس نے چوبارے کی کھڑکیوں پرنگاہ دوڑائی۔سیڑھیوں کی طرف مکان گویاویران پڑاتھا۔بے دلی سے اس نے دروازہ کھٹکھایا۔
’’کون ہے؟‘‘بڑھیانے آوازدی۔
’’میں ہوں ایلی‘‘وہ چلایا۔
’’کوئی گھرمیں نہیں ہے نہ آغاہے نہ حئی۔‘‘بڑھیانے رونے کے اندازمیں کہا۔
’’اپناسائیکل لینے آیاہوں۔‘‘وہ بولا
’’سائیکل؟‘‘بڑھیاخاموش ہوگئی۔ پھرمدھم سی سرگوشی سنائی دی۔’’سائیکل ساتھ والے گھر میں کھڑاہے۔یہ جوادھرہے ۔پنواڑی کے پیچھے والاسمجھ گیانا۔لے لے جاکرادھرسے۔‘‘
یہ انتہاتھی۔اتنی بے رخی تواجنبی کے ساتھ بھی نہیں برتی جاتی۔خیربڑھیاکی عادت ہی ایسی تھی۔لیکن وہ نیم کیاہوئی۔کم ازکم اسے توموجودرہناچاہیے تھا،کچھ دیرتووہ ڈیوڑھی میں کھڑاسوچتارہا۔اس امیدپرکہ شایدابھی دروازہ کھل جائے اورنیم جھانکے۔لیکن دروازہ بندہی رہا۔پھروہ مایوس ہوگیا۔اورسوچنے لگا۔اب کون پتہ لگائے کہ وہ مکان کونساہے۔جس میں بائیسکل پڑاہے۔چھوڑوبائیسکل لیکن اس نے محسوس کیاکہ وہ تھکاہواہے اوراتنی دورآموں کی کھوٹھی تک واپس پیدل جانا۔اس خیال پروہ پنواڑی کی دوکان پرجاکھڑاہوا۔’’کیوں صاحب۔‘‘وہ بولا’’آپ کے پچھلے مکان کی طرف کونساراستہ جاتاہے۔‘‘
’’یہ ہے۔‘‘پنواڑی نے قریب ہی ایک ڈیوڑھی کی طرف اشارہ کیا۔
’’انہوں نے کہاہے۔میرابائیسکل وہاں رکھاہے۔اس مکان میں کون رہتاہے؟‘‘اس نے پنواڑی سے ملتجیانہ اندازسے پوچھاپنواڑی نے غورسے ایلی کی طرف دیکھاپھربولا‘‘کوئی نہیں رہتاخالی پڑاہے۔‘‘
جھجکتے ہوئے اس نے ڈیوڑھی سے اندرجھانکا۔اندرکوئی دکھائی نہ دیا۔آوازتک بھی نہ آرہی تھی ۔پھرجرات کرکے وہ اندرداخل ہوگیا۔صحن کے عین درمیان میں سائیکل کھڑاتھا۔اورمکان ویران پڑاتھا۔
مکان کے درمیان ایک وسیع صحن تھا۔جس کے اردگردچاروں طرف دالان بنے ہوئے تھے۔جن میں بہت سے دروازے اورفراخ کھڑکیاںتھیں۔وہ چپ چاپ سرجھکائے سائیکل کی طرف بڑھااوراسے سٹینڈسے اتارنے لگا۔جب وہ اسے گھسیٹنے لگاتودفعتاًچاروں طرف دالانوں سے کئی ایک جوان لڑکیاں جھانکنے لگیں۔وہ سب ہنس رہی تھیں۔مسکرارہی تھیں۔پھروہ سب دالانوں سے نکل کرباہر صحن میں آگئیں اورآن کی آن میں اس صحن میں رنگین آنچل لہرانے لگیں۔
بیچارہ
’’لے جاؤبائیسکل‘‘ا یک پتلی لمبی لڑکی آگے بڑھ کربولی۔
’’کھڑے کیادیکھ رہے ہو؟‘‘دوسری نے کولہوں پرہاتھ رکھ کراسے ڈانٹااورپھرہنس پڑی۔
’’یہ ہے کون؟‘‘ایک اورچمک کربولی۔
’’پوچھونیم سے۔‘‘عقب سے ایک شوخ آوازآئی اورکھلکھلاکرہنسی۔
چاروں طرف سے ان لڑکیوں نے گویاایلی پریورش کردی۔خوشبوکاایک ریلاآیاکئی ایک اڑتے ہوئے آنچل ۔اس کی طرف لپکے جیسے کالے ناگ زبانیں نکالے جھپٹ رہے ہوں۔زن سے بالی کاسرجسم سے الگ ہوکرفضامیں اڑاجیسے بارودکابناہواہو۔رنگین خوشبودارآنچل شعلوں کی طرح اسے چاٹنے لگے۔اس کے اوسان خطاہوگئے۔آنکھوں کے تلے دھندچھاگئی۔گورے چٹے متبسم چہرے ۔سیاہ ڈولتی آنکھیں۔لہراتی ہوئی چوٹیاں اس سے ٹکرائیں۔پھردفعتاًنیم نیم کاشوربلندہوااوروہ سب بھاگیں اورایک مقام پریوں گڈمڈہوگئیں۔جیسے جمناسٹک گروپ دفعتاً ایک نئی ترتیت میں تشکیل ہوجاتاہے۔‘‘’’نیم نیم‘‘وہ کسی پرجھکی ہوئی چلارہی تھیں۔پھروہ کسی کوگھسٹیتی ہوئی ایلی کی طرف بڑھیں اورایلی رنگین آنچلوں،گوری گوری بانہوں،ریشمی چوڑیوں اڑتی ہوئی خوشبودارلٹوں اوردلنوازقہقہوں کے انبارمیں دب گیا۔
’’پکڑلو۔پکڑلوایس۔‘‘وہ ایلی کوللکاررہی تھیں’’سنبھالواپنی پیاری کواب پکڑبھی لونا۔‘‘کئی ایک گوری بانہیں اس کی طرف لپکیں اوربالآخردوبازواس کے ہاتھوں میں تھمادئیے گئے۔ایک قہقہہ گونجااورپھرسب ہنستی ہوئی اس زینے کی طرف بھاگیں جوصحن کے ایک کونے سے کوٹھے کی طرف چلاگیاتھا۔زینے پررنگین آنچل لہرائے قہقہوں کی آوازیں گونجیں اورپھرخاموشی چھاگئی۔ایلی نے دیکھاکہ وہ سفیدسفیدبازوتھامے تن تنہاکھڑاہے اورفرش پررنگین کپڑوں کی ایک گٹھڑی پڑی ہے۔اس کی سمجھ میں نہ آتاتھا ان سفیدبازوؤں کوکیاکرے اوراس گٹھڑی کوکس طرح کھولے’’نیم نیم‘‘اس نے بازوؤں کوجھنجھوڑا۔’’نیم ادھردیکھو۔‘‘اس نے گٹھڑی کوکھولنے کی کوشش کی مگرگٹھڑی اوربھی سمٹ گئی۔وہ اس بندگٹھڑی سے گویاکشتی لڑنے میں مصروف ہوگیا۔مگراس کی کوشش کانیتجہ صرف یہ ہواکہ گٹھڑی کے پلواورپھی لپٹ گئے۔حتیٰ کہ وہ بازوبھی کہیں گم ہوگیااوروہ گٹھڑی اس کے قدموں میں کپڑوں کاایک ڈھیرسابن کررہ گئی۔’’نیم نیم‘‘وہ چلایامگرکوئی جواب نہ ملا’’نیم۔‘‘اوپرسے بڑھیاکی آوازسنائی دی۔اس نے گھبراکراوپر کی طرف دیکھا۔تڑپ کروہ گینداس کے ہاتھوں سے پھسل کرنکل گئی۔ایک ساعت کے لئے زینے میں رنگین پلولہرایاپھرکوٹھے سے ایک سرخ چہرے نے اس کی طرف مڑکردیکھا۔جیسے وہ باغات کابناہواہوپھراس مکان پرموت کاسکوت چھاگیا۔دالانوں کے خاموش کونے گویاباہر نکل آئے اوراس پرہنسنے لگے۔اس کاتمسخراڑانے لگے۔’’تم تم‘‘اورکوٹھے کے پردے جھک جھک کراس کی طرف دیکھنے لگے’’بیچارہ۔بیچارہ۔‘‘
دفعتاًاس نے محسوس کیاکہ اس کارازکھل چکاہے۔وہ سب جان گئی ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں۔ایک گٹھڑی تک کونہیں کھول سکتا۔دوبازوؤں کونہیں سنبھال سکتا۔بیچارہ اس نے محسوس کیاکہ وہ سب دالانوں کی دیواروں کے پیچھے کھڑی اس پرہنس رہی ہیں۔اوراوپرکوٹھے پرنیم مایوس ومحروم کھڑی ہے۔اوراس کاچہرہ جذبہ تحقیرسے سرخ ہورہاہے۔صحن میں پڑاہواسائیکل سرک کرپرے ہٹ ہٹ گیا۔جیسے وہ اپناآپ اس کے حوالے کرنے کے لئے تیارنہ ہو۔ایلی کی پیشانی پرپسینہ آگیااوروہ سائیکل اٹھاکربھاگا۔بورڈنگ کی طرف جاتے ہوئے رہ رہ کر اسے اپنی بزدلی اورحماقت کااحساس ہوتااورمحسوس کرتاکہ وہ کچھ بھی نہیں۔اتنااچھاموقعہ ملنے کے باوجودوہ کچھ نہ کرسکا۔وہاں اتنی لڑکیاں تھیں۔مگروہ کسی کی طرف آنکھ اٹھاکربھی نہ دیکھ سکاحتیٰ کہ وہ نیم کی شکل بھی نہ دیکھ سکا۔اس کے دل میں اس واقعے کی یادکانٹابن کرچبھنے لگی اس طرح وہ واقعہ اس کے لئے تلخ اورخوشگوارواقعہ بن گیا۔’’بیچارہ۔بیچارہ۔بیچارہ۔‘‘
سائیکل کافری ویل چلارہاتھااورسڑک پردھندلی اشکال اس کامنہ چڑارہی تھیں۔
اس واقعہ کے بعدمدت تک ایلی کے آغاکی گھرجانے کی جرات نہ ہوئی۔جب بھی آغاکے مکان کے متعلق اسے خیال آتاوہ محسوس کرتاکہ اس کارازفاش ہوچکاہے،اس کوچے کی تمام نوجوان لڑکیاں چوباروں میں کھڑی اس پرہنس رہی ہیں۔اس پرانگلیاں اٹھارہی ہیں’’وہی ہے وہی۔‘‘اس خیال کے آتے ہی اسے پسینہ آجاتا۔
کھلاڑی
پھراتفاق سے کالج میں ایک نئی تحریک شروع ہوگئی،جس نے ایلی کی توجہ کوجذب کرلیا۔یہ تحریک ایک ڈرامہ کھیلنے کی تحریک تھی۔مگراس تحریک کی ابتداانوکھی تھی اوراس کی تمام ترذمہ داری اللہ دادپرعائد ہوتی ہے۔
اللہ دادفطری طورپرایک مسخرہ واقع ہواتھااور اس کامذاق اس قدرسنجیدگی کاپہلولئے ہوتاکہ انسان کوبے اختیارہنسی آجاتی مثال کے طورپرکالج میں اس کاداخلہ بھی انوکھے اندازسے ہواتھا۔ایک روزچادرباندھے ایک تھیلاسی قمیض پہنے اورشانے پرایک بڑاسارومال ڈالے وہ کالج کی کمپاؤنڈمیں کھڑاحسرت سے لڑکوں کی طرف دیکھ رہاتھاکہ اتفاق سے پرنسپل اس طرف سے گزراپرنسپل اسے کھڑادیکھ کرسمجھاکہ کوئی جاٹ کالج کی حدودمیں آگھساہے۔پرنسپل اس کے قریب آکھڑاہوا۔اس پروہ جھجک محسوس کئے بغیر وہیں کھڑارہا۔
’’اے چودھری۔‘‘پرنسپل نے کہا’’یہاں کیاکررہاہے تو؟‘‘
’’میں۔‘‘وہ چونکا۔’’دیکھتانہیں کہ کھڑاہوں۔کچھ بھی تونہیںکررہا۔‘‘یہ کہہ کروہ پھر لڑکوں کودیکھنے لگاجوکمپاؤنڈمیں کرکٹ کھیل رہے تھے۔
’’کسی سے ملے گاکیا؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔
’’اونہوں بھئی۔دیکھ رہے ہیں۔کرکٹ کایہ کھیل۔‘‘
کرکٹ کالفظ سن کرپرنسپل چونکا۔‘‘پڑھے لکھے ہوکیا؟‘‘
’’اورتوکیاویسے ہی کھڑے ہیں۔‘‘وہ بولا
’’یہاں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں۔‘‘پرنسپل بولا۔’’یہ کالج گراؤنڈہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘وہ بولا’’اجازت نہیں توچلے جاتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کروہ پھلانگ کرکالج کی چاردیواری پرچڑھ گیااوردیوارپربیٹھ کرکرکٹ دیکھنے لگا۔
اس پرپرنسپل کوبے حدطیش آیااوراس نے قریب جاکرکہا’’اب دیوارپربیٹھ گئے۔‘‘
’’تم نے جو کہاکہ گراؤنڈمیں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں۔اب کیایہاں بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں۔‘‘وہ تنک کربولا۔
پرنسپل کواس کی دہقانیت پرہنسی آگئی۔بولا’’تم اس کھیل کوسمجھتے ہوکیا۔‘‘
’’سمجھتے۔‘‘ اس نے پرنسپل کی طرف دیکھا۔’’ہم نے اس کھیل کوکھیل کھیل کرچھوڑدیاہے ۔ اب کسی زمانے میںکھیلاکرتے تھے۔‘‘
’’کہاں کھیلاکرتے تھے؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔
’’مدرسے میں اورکہاں۔‘‘
’’اچھاتومدرسے میں پڑھتے رہے ہو۔‘‘
’’ہاں‘‘وہ بولا’’دس پاس کی ہیں۔‘‘
’’اوراب کیاکرتے ہو۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’کرکٹ کھیلوگے آؤ تمہیں کھلائیں۔‘‘
اللہ دادنے سمجھاکہ وہ مذاق کررہاہے۔کہنے لگا’’واہ کھڑاہونے تودیتے نہیں اورکہتے ہوکہ کرکٹ کھلائیںگے۔‘‘
پرنسپل قہقہہ لگاکرہنسنے لگااوراسے پکڑکرٹیم میں لے گیا۔’’لوبھئی ایک نیاپلیئر لائے ہیں ہم۔‘‘وہ بولا۔اللہ دادنے گینداٹھالیااوربائیں ہاتھ سے بال کرناشروع کردیاایک ہی اوورمیں اس نے کالج کے دوبہترین کھلاڑیوں کی وکٹیں اڑادیں توپرنسپل نے واہ واکاشورمچادیاپھرپرنسپل اسے اپنی لینڈومیں بٹھاکرگھرلے گیااوراگلے ہی روزاسے کالج میں داخل کرلیاگیا۔اس کی تمام فیسیں معاف کردی گئیںبلکہ پورفنڈمیں سے اس کے لئے کتابیں خریدی گئیں اورایک جوڑاکپڑوں کابناکردیاگیاتاکہ وہ مناسب کپڑے پہن کرکالج آسکے۔
مسخرا
ایک روزاللہ دادبرآمدے کے کونے پرکھڑانہ جانے کیاسوچ رہاتھاکہ گیارہوں کاکوئی چھوٹاسالڑکابھاگتاہواادھرآنکلااوراللہ دادسے ٹکراکرگرپڑا۔اللہ داد نے لپک کراسے اٹھایا۔’’نہ بیٹا۔‘‘وہ بزرگانہ اندازمیں بولا‘‘اندھادھندبھاگانہیں کرتے۔‘‘اللہ دادنے اس کے کپڑے جھاڑے اورپھراس کامنہ چوم کرکہا:’’نہ برخودارایسے نہیں کیاکرتے۔‘‘اس پراردگردکھڑے سب لڑکوں نے تالیاں پیٹ دیں اورہنگامہ برپاکیا۔اس شوراورہنگامے کی وجہ سے اس لڑکے نے جاکرپرنسپل سے رپورٹ کردی۔اس رپورٹ پرپرنسپل غصے میں آگیااوراس نے اللہ دادکوفوراًدفترطلب کیا۔’’اللہ دادتمہارے خلاف شکایت پہنچی ہے ہمیں۔‘‘انہوں نے غصے میں کہا:’’جی کیسی شکایت؟‘‘اللہ دادنے معصومیت سے پوچھا۔
’’کیایہ درست ہے تم نے گوبندکامنہ چوماہے؟‘‘وہ طیش میں بولے۔’’جی ہاں۔‘‘اللہ دادنے سرجھکالیا۔
’’ہوں ۔‘‘پرنسپل غرایا۔’’توتمہیں اس سزاملنی چاہیے۔‘‘
’’غلطی ہوگئی مجھ سے جناب۔‘‘اللہ دادبولا۔
ممکن ہے اللہ دادکایہ قصوربھی معاف کردیاجاتااوراسے آئندہ کے لئے سرزنش کردی جاتی۔لڑکوں کاخیال تھاکہ ایساہی ہوگاکیونکہ ہربات میںپرنسپل اللہ دادکی رعایت کیاکرتے تھے۔بلکہ ایک روزاللہ دادکی شرارت پرتوپرنسپل صاحب نے اعلانیہ قہقہہ مارکرکہہ دیاتھا:’’اللہ دادکومعاف نہ کروں تواورکیاکروں اگرجرمانہ کردوں تووہ جرمانہ بھی کالج کے کسی فنڈسے ہی اداکرناپڑے گا۔بھئی اس کے پاس کچھ ہوبھی۔‘‘پرنسپل کی یہ بات سچی تھی۔اللہ دادکے پاس کچھ بھی تونہ تھا۔
لیکن اس روزپرنسپل بے حدغصے میں تھے۔اس لئے انہوں نے اس کی اس بدتمیزی پراسے پانچ روپے جرمانہ کردیا۔اللہ دادنے توجرمانہ ادانہ کیا۔بہرحال دفترنے جرمانے کی ادائیگی کے لئے تقاضہ جاری رکھا۔حتیٰ کہ اللہ دادکواحساس ہوگیاکہ اسے یہ جرمانہ اداکرناہی ہوگا۔
ایک روزوہ شفیع سے کہنے لگا’’یارشفیع اب تو اس جرمانے کاکچھ کرناہی ہوگا۔‘‘
’’کرناکیاہے؟‘‘شفیع بولا’’پانچ روپے دے دواورکیا۔‘‘
’’اچھابھئی۔‘‘اللہ دادنے کہا۔’’تومجھے دس روپے قرض کے طوردے دے یار۔‘‘
’’ہاں یاردس ہی دے دو۔‘‘ا س نے کہا۔’’یاتویہ زائدپانچ اصل کوبھی واپس لے آئے اورنہیں تودسوں ہی گئے۔یہ جواکھیل ہی دیکھوں ۔‘‘
اگلے روزاکاؤنٹنٹ نے پرنسپل سے جاکرشکایت کی اللہ دادپانچ کی بجائے دس روپے جرمانہ اداکرنے پرمصرہے یہ ایک عجیب وغریب شکایت تھی۔
اللہ دادکوطلب کیاگیا۔’’یہ کیاحماقت ہے؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔’’جرمانہ توتمہیں پانچ روپے ہواہے اورتم دس اداکررہے ہویہ کیاحماقت ہے۔‘‘
اللہ دادنے سرجھکالیا۔’’نہیں حماقت نہیں جی۔‘‘وہ بولا۔’’توپھرکیاہے؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔
’’صاحب پانچ روپے توجرمانہ دیاہے اورپانچ روپے جمع کرادئیے ہیں۔‘‘
’’کیامطلب ؟‘‘پرنسپل نے پوچھا۔
’’جی کسی وقت پانچ روپے ہوتے ہیںکسی وقت نہیں ہوتے اوربرخورداروں کاکیااعتبارنہ جانے کب آکرالجھ جائیں۔‘‘
اللہ دادنے یہ بات ایسی سنجیدگی اورمعصومیت سے کہی کہ پرنسپل قہقہہ مارکرہنس پڑے۔’’تومطلب یہ ہے کہ پانچ ایڈوانس کے طورپردے رہے ہو۔ہاہاہا۔‘‘وہ ہنسے۔’’حدہوگئی۔اللہ دادتمہیں توتھیٹرکامسخراہوناچاہیئے خواہ مخواہ کالج میں پڑھ کروقت گنوارہے ہو تم۔ہی ہی ہی۔‘‘
’’حضورمیراکیاہے۔آپ نے کالج میں داخل کرلیاتوکالج میں داخل ہوگیا۔تھیٹرمیں داخل کردیتے توٹھیٹرمیں داخل ہوجاتا۔میراکیاہے۔‘‘
’’اچھاتوتمہیں تھیٹرمیں داخل کرادیںگے۔‘‘پرنسپل ہنستاہواچلاگیا۔
نتیجہ یہ ہواکہ ایک تواللہ دادکاجرمانہ معاف کردیاگیااوردوسرے کالج کی مجلس تمثیل کا


جاوید اقبال
 
Top