علی زریون

جو اِسم و جسم کو باہم نِبھانے والا نہیں
میں ایسے عشق پہ ایمان لانے والا نہیں

میں پاؤں دھو کے پئیوں یار بن کے جو آئے
منافقوں کو تو میں منہ لگا نے والا نہیں

نزول کر مرے سینے پہ اے جمال ِ شدید
تری قسم میں ترا خوف کھانے والا نہیں

بس اِتنا جان لے اے پُر کشش کے دل تجھ سے
بہل تو سکتا ہے پر تجھ پہ آنے والا نہیں

یہ میری آنکھ میں بھڑکے تو پھر ہٹاؤں گا
ابھی میں آگ سے نظریں ہٹانے والا نہیں

تجھے کسی نے غلط کہہ دیا میرے بارے
نہیں میاں میں دِلوں کو دُکھانے والا نہیں

ہے ایک رمز جو تجھ پر عیاں نہیں کرنی
ہے ایک شعر جو تجھ کو سنانے والا نہیں

فقیر قول نبھاتا ہے پریم کرتا ہے
فقیر کوئی کرامت دِکھانے والا نہیں

سن اے قبیلہء ِ کوفی دِلاں مُکرر سن
علی کبھی بھی حزیمت اُٹھانے والا نہیں
 
Top