علیم خان موجودہ حالات میں تحریک انصاف کے بہترین امیدوار ثابت ہو سکتے ہیں
تحریک انصاف نے لاہور کے حلقہ این اے 122 میں سردار ایاز صادق کے مقابلے کے لئے اپنی پارٹی کے سینئر رہنما عبدالعلیم خان کو نامزد کر دیا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے کے لئے ان سے بہتر کوئی امیدوار نہیں، گزشتہ انتخابات میں انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے پارٹی کے لئے بہت کام کیا، پارٹی کے لئے ہمیشہ دل کھول کر فنڈز دئیے۔ اس حلقے میں عام انتخابات 2013)ء( میں خود عمران خان امیدوار تھے اور سردار ایاز صادق سے ہار گئے تھے، جس کے خلاف انہوں نے انتخابی عذر داری کی، جس کا فیصلہ الیکشن ٹربیونل کی جانب سے 22 اگست کو یہ آیا ہے کہ حلقے میں دوبارہ انتخاب ہوگا۔ عمران خان پہلے ہی قومی اسمبلی کے رکن ہیں، اس لئے دوبارہ امیدوار بننے کی چنداں ضرورت نہ تھی تاہم انہوں نے چیلنج دیا تھا کہ اگر وزیراعظم نواز شریف ان کے مقابلے پر آئیں تو پھر وہ خود مقابلہ کریں گے، یہ شرط کئی لحاظ سے بے تکی ہے، ایک تو اس لئے کہ نواز شریف اور عمران خان دونوں ہی پہلے سے قومی اسمبلی کے رکن ہیں، اس لئے اس طرح کی چیلنج بازی کی حیثیت محض لفظی جنگ سے زیادہ نہیں تھی، جو اب علیم خان کی نامزدگی کے ساتھ ہی ختم بھی ہوگئی ہے۔ اس حلقے میں اب سردار ایاز صادق اور علیم خان کے ساتھ ساتھ بیرسٹر عامر پیپلز پارٹی کی جانب سے امیدوار ہیں، پیپلز پارٹی کے میدان میں آنے سے مقابلہ دلچسپ ہوگا۔ بلاول بھٹو خود ان ضمنی انتخابات میں پارٹی کی انتخابی مہم کی نگرانی کر رہے ہوں گے، جب سے وہ پارٹی چیئرمین بنے ہیں، یہ غالباً ان کا لاہور میں پہلا انتخابی معرکہ ہوگا اس لاہور کا جسے مرحوم سلمان تاثیر لاڑکانہ بنانے کی خواہش رکھتے تھے اور اس کے لئے کوشش بھی کر رہے تھے کہ اپنے ہی گارڈ کی گولیوں کا نشانہ بن کر اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے، زندہ رہتے تو لاہور کو لاڑکانہ بنانے کی ان کی تگ و تاز جاری رہتی، مرحوم، مسلم لیگ (ن) کو جی ٹی روڈ کی پارٹی کہا کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی 2013ء کا الیکشن جیتے گی اور 2018ء تک برسراقتدار رہے گی، ان کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہوسکی، ویسے انسان کی ساری خواہشیں کب پوری ہوتی ہیں۔
بات ہو رہی تھی علیم خان کی امیدواری کی جنہیں عمران خان نے بہترین امیدوار قرار دیا ہے، ویسے دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں واقعی وہ پارٹی کے لئے بہترین امیدوار ہیں، الیکشن میں اخراجات بھی بہت ہوتے ہیں اور وہی امیدوار جیت سکتا ہے جو ان اخراجات کا بوجھ اٹھا سکتا ہو، علیم خان کی شہرت تو یہی ہے کہ وہ پارٹی کے لئے فنڈز فراخ دلی سے دیتے ہیں جن کا عمران خان کو بھی اعتراف ہے، اب اگر ان کو خود الیکشن لڑنا ہے تو ظاہر ہے اپنے اخراجات بھی تو کریں گے۔
ہمارے ہاں انتخابات میں اخراجات کی ایک حد مقرر ہے لیکن ہر امیدوار اس حد کو عبور کر جاتا ہے، البتہ جب اخراجات کے گوشوارے داحل کئے جاتے ہیں تو کھینچ تان کر ان اخراجات کو مقررہ حدود کے اندر ہی رکھا جاتا ہے، یہ انتخابی اخراجات کا ایک ادنیٰ سا کرشمہ ہے۔ کبھی امیدواروں پر اس حوالے سے آئین کی دفعہ 62 اور 63 کا اطلاق ہو تو شاید ہی کوئی امیدوار سچ کے ترازو میں تل سکے۔
تحریک انصاف کی جاری سیاسی جدوجہد کا بنیادی نعرہ یہ ہے کہ وہ نیا پاکستان بنائے گی جس میں نظریاتی کارکنوں کو اعلیٰ مقام دلایا جائے گا، اللہ کرے ایسا ہی ہو، لیکن نظریاتی سیاسی کارکنوں کو ہمیشہ دولت مند رہنماؤں نے پچھلی صفوں میں دھکیلا ہے، اور یہ کلچر ہر سیاسی جماعت میں ہے۔ تحریک انصاف اگر کسی ایسے نظریاتی سیاسی ورکر کو ٹکٹ دیتی تو عین ممکن تھا وہ اپنی انتخابی مہم ہی نہ چلا پاتا، کیونکہ آج کے الیکشنوں کی مہم پیسے کے بغیر نہیں چلتی، اور تحریک انصاف کو اس حلقے کا الیکشن جیتنے کا چیلنج درپیش ہے، اس لئے کسی نظریاتی کارکن کو ٹکٹ دینے کا رسک نہیں لیا جاسکتا تھا۔ علیم خان کی نامزدگی تو اپنی جگہ درست فیصلہ ہے۔ البتہ انہیں متوسط طبقے کا فرد قرار دے کر اس طبقے کا دائرہ کار کروڑ بلکہ ارب پتیوں تک وسیع کر دیا گیا ہے۔ جو متوسط طبقے کے لئے خوشی کی بات یوں ہے کہ اب ان کے طبقے میں ارب پتیوں کے نام بھی آئیں گے، علیم خان منتخب ہوکر متوسط طبقے کی نمائندگی کریں گے یا خوشحال طبقے کی، یہ تو خود وہ جانیں، البتہ متوسط طبقہ ایک ارب پتی کو اپنے درمیان پاکر ضرور خوش ہوسکتا ہے ، اور اپنے دل کو پشاوری کرسکتا ہے، سنا ہے وہ اپنے علاقے میں غریبوں کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ اب جواب میں وہ انہییں ووٹ دے کر ان کا خیال رکھیں گے لیکن ایک مشکل شاید انہیں پارٹی کے اندر در پیش ہو، عمران خان نے تھوڑا عرصہ پہلے خود کہا تھا کہ لاہور میں ان کی جماعت چھ حصوں میں تقسیم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ چھ کے چھ دھڑے علیم خان کی حمایت میں سرگرم ہوں گے اور یک سو ہوکر ان کی انتخابی مہم میں ان کے ساتھ چلیں گے۔ اس کا اندازہ تو چند دن بعد ہو جائے گا لیکن اگر پارٹی کی یہ دھڑے بندی ختم نہ ہوئی اور سارے دھڑے علیم خان کی حمایت میں اکٹھے نہ ہوئے تو ان کی جیت مشکل ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر عامر کو جو ووٹ پڑیں گے، اس کا اثر بھی بالآخر علیم خان پر پڑے گا کیونکہ اگر پیپلز پارٹی اپنا امیدوار کھڑا نہ کرتی تو فائدہ علیم خان کو ہوتا۔ بہرحال تحریک انصاف نے تو اپنا بہترین امیدوار حلقے کے ووٹروں کے روبرو پیش کر دیا ہے اور انہیں متوسط طبقے کا فرد بھی قرار دے دیا ہے۔ اب یہ ووٹروں پر منحصر ہے کہ وہ انہیں منتخب کرکے سرخرو کرتے ہیں یا مایوس کر دیتے ہیں۔ مقابلہ بہرحال کانٹے دار ہوگا۔ علیم خان ہار بھی گئے تو متوسط طبقے کے لئے خوشی کے چند ایام تو دے ہی جائیں گے۔
تحریک انصاف نے لاہور کے حلقہ این اے 122 میں سردار ایاز صادق کے مقابلے کے لئے اپنی پارٹی کے سینئر رہنما عبدالعلیم خان کو نامزد کر دیا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے کے لئے ان سے بہتر کوئی امیدوار نہیں، گزشتہ انتخابات میں انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے پارٹی کے لئے بہت کام کیا، پارٹی کے لئے ہمیشہ دل کھول کر فنڈز دئیے۔ اس حلقے میں عام انتخابات 2013)ء( میں خود عمران خان امیدوار تھے اور سردار ایاز صادق سے ہار گئے تھے، جس کے خلاف انہوں نے انتخابی عذر داری کی، جس کا فیصلہ الیکشن ٹربیونل کی جانب سے 22 اگست کو یہ آیا ہے کہ حلقے میں دوبارہ انتخاب ہوگا۔ عمران خان پہلے ہی قومی اسمبلی کے رکن ہیں، اس لئے دوبارہ امیدوار بننے کی چنداں ضرورت نہ تھی تاہم انہوں نے چیلنج دیا تھا کہ اگر وزیراعظم نواز شریف ان کے مقابلے پر آئیں تو پھر وہ خود مقابلہ کریں گے، یہ شرط کئی لحاظ سے بے تکی ہے، ایک تو اس لئے کہ نواز شریف اور عمران خان دونوں ہی پہلے سے قومی اسمبلی کے رکن ہیں، اس لئے اس طرح کی چیلنج بازی کی حیثیت محض لفظی جنگ سے زیادہ نہیں تھی، جو اب علیم خان کی نامزدگی کے ساتھ ہی ختم بھی ہوگئی ہے۔ اس حلقے میں اب سردار ایاز صادق اور علیم خان کے ساتھ ساتھ بیرسٹر عامر پیپلز پارٹی کی جانب سے امیدوار ہیں، پیپلز پارٹی کے میدان میں آنے سے مقابلہ دلچسپ ہوگا۔ بلاول بھٹو خود ان ضمنی انتخابات میں پارٹی کی انتخابی مہم کی نگرانی کر رہے ہوں گے، جب سے وہ پارٹی چیئرمین بنے ہیں، یہ غالباً ان کا لاہور میں پہلا انتخابی معرکہ ہوگا اس لاہور کا جسے مرحوم سلمان تاثیر لاڑکانہ بنانے کی خواہش رکھتے تھے اور اس کے لئے کوشش بھی کر رہے تھے کہ اپنے ہی گارڈ کی گولیوں کا نشانہ بن کر اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے، زندہ رہتے تو لاہور کو لاڑکانہ بنانے کی ان کی تگ و تاز جاری رہتی، مرحوم، مسلم لیگ (ن) کو جی ٹی روڈ کی پارٹی کہا کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی 2013ء کا الیکشن جیتے گی اور 2018ء تک برسراقتدار رہے گی، ان کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہوسکی، ویسے انسان کی ساری خواہشیں کب پوری ہوتی ہیں۔
بات ہو رہی تھی علیم خان کی امیدواری کی جنہیں عمران خان نے بہترین امیدوار قرار دیا ہے، ویسے دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں واقعی وہ پارٹی کے لئے بہترین امیدوار ہیں، الیکشن میں اخراجات بھی بہت ہوتے ہیں اور وہی امیدوار جیت سکتا ہے جو ان اخراجات کا بوجھ اٹھا سکتا ہو، علیم خان کی شہرت تو یہی ہے کہ وہ پارٹی کے لئے فنڈز فراخ دلی سے دیتے ہیں جن کا عمران خان کو بھی اعتراف ہے، اب اگر ان کو خود الیکشن لڑنا ہے تو ظاہر ہے اپنے اخراجات بھی تو کریں گے۔
ہمارے ہاں انتخابات میں اخراجات کی ایک حد مقرر ہے لیکن ہر امیدوار اس حد کو عبور کر جاتا ہے، البتہ جب اخراجات کے گوشوارے داحل کئے جاتے ہیں تو کھینچ تان کر ان اخراجات کو مقررہ حدود کے اندر ہی رکھا جاتا ہے، یہ انتخابی اخراجات کا ایک ادنیٰ سا کرشمہ ہے۔ کبھی امیدواروں پر اس حوالے سے آئین کی دفعہ 62 اور 63 کا اطلاق ہو تو شاید ہی کوئی امیدوار سچ کے ترازو میں تل سکے۔
تحریک انصاف کی جاری سیاسی جدوجہد کا بنیادی نعرہ یہ ہے کہ وہ نیا پاکستان بنائے گی جس میں نظریاتی کارکنوں کو اعلیٰ مقام دلایا جائے گا، اللہ کرے ایسا ہی ہو، لیکن نظریاتی سیاسی کارکنوں کو ہمیشہ دولت مند رہنماؤں نے پچھلی صفوں میں دھکیلا ہے، اور یہ کلچر ہر سیاسی جماعت میں ہے۔ تحریک انصاف اگر کسی ایسے نظریاتی سیاسی ورکر کو ٹکٹ دیتی تو عین ممکن تھا وہ اپنی انتخابی مہم ہی نہ چلا پاتا، کیونکہ آج کے الیکشنوں کی مہم پیسے کے بغیر نہیں چلتی، اور تحریک انصاف کو اس حلقے کا الیکشن جیتنے کا چیلنج درپیش ہے، اس لئے کسی نظریاتی کارکن کو ٹکٹ دینے کا رسک نہیں لیا جاسکتا تھا۔ علیم خان کی نامزدگی تو اپنی جگہ درست فیصلہ ہے۔ البتہ انہیں متوسط طبقے کا فرد قرار دے کر اس طبقے کا دائرہ کار کروڑ بلکہ ارب پتیوں تک وسیع کر دیا گیا ہے۔ جو متوسط طبقے کے لئے خوشی کی بات یوں ہے کہ اب ان کے طبقے میں ارب پتیوں کے نام بھی آئیں گے، علیم خان منتخب ہوکر متوسط طبقے کی نمائندگی کریں گے یا خوشحال طبقے کی، یہ تو خود وہ جانیں، البتہ متوسط طبقہ ایک ارب پتی کو اپنے درمیان پاکر ضرور خوش ہوسکتا ہے ، اور اپنے دل کو پشاوری کرسکتا ہے، سنا ہے وہ اپنے علاقے میں غریبوں کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ اب جواب میں وہ انہییں ووٹ دے کر ان کا خیال رکھیں گے لیکن ایک مشکل شاید انہیں پارٹی کے اندر در پیش ہو، عمران خان نے تھوڑا عرصہ پہلے خود کہا تھا کہ لاہور میں ان کی جماعت چھ حصوں میں تقسیم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ چھ کے چھ دھڑے علیم خان کی حمایت میں سرگرم ہوں گے اور یک سو ہوکر ان کی انتخابی مہم میں ان کے ساتھ چلیں گے۔ اس کا اندازہ تو چند دن بعد ہو جائے گا لیکن اگر پارٹی کی یہ دھڑے بندی ختم نہ ہوئی اور سارے دھڑے علیم خان کی حمایت میں اکٹھے نہ ہوئے تو ان کی جیت مشکل ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر عامر کو جو ووٹ پڑیں گے، اس کا اثر بھی بالآخر علیم خان پر پڑے گا کیونکہ اگر پیپلز پارٹی اپنا امیدوار کھڑا نہ کرتی تو فائدہ علیم خان کو ہوتا۔ بہرحال تحریک انصاف نے تو اپنا بہترین امیدوار حلقے کے ووٹروں کے روبرو پیش کر دیا ہے اور انہیں متوسط طبقے کا فرد بھی قرار دے دیا ہے۔ اب یہ ووٹروں پر منحصر ہے کہ وہ انہیں منتخب کرکے سرخرو کرتے ہیں یا مایوس کر دیتے ہیں۔ مقابلہ بہرحال کانٹے دار ہوگا۔ علیم خان ہار بھی گئے تو متوسط طبقے کے لئے خوشی کے چند ایام تو دے ہی جائیں گے۔