علا مہ ڈاکٹر محمد اقبال کی نظم شکوہ اور جواب شکوہ ...چاہیے

فاروقی

معطل
کیا کسی دوست کو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی نظم شکوہ اور جواب شکوہ کے کسی لنک کا پتا معلوم ہو تو ہم سے شیعر کرے.....ہم اس کے شکر گزار ہوں گے ..........و السلام
 

فاروقی

معطل
جواب شکوہ


دل سے جو بات نکلتي ہے اثر رکھتي ہے
پر نہيں' طاقت پرواز مگر رکھتي ہے
قدسي الاصل ہے' رفعت پہ نظر رکھتي ہے
خاک سے اٹھتي ہے ، گردوں پہ گزر رکھتي ہے
عشق تھا فتنہ گرو سرکش و چالاک مرا
آسماں چير گيا نالہ بے باک مرا
پير گردوں نے کہا سن کے' کہيں ہے کوئي
بولے سيارے' سر عرش بريں ہے کوئي
چاند کہتا تھا' نہيں! اہل زميں ہے کوئي
کہکشاں کہتي تھي' پوشيدہ يہيں ہے کوئي
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
تھي فرشتوں کو بھي حيرت کہ يہ آواز ہے کيا
عرش والوں پہ بھي کھلتا نہيں يہ راز ہے کيا!
تا سر عرش بھي انساں کي تگ و تاز ہے کيا!
آگئي خاک کي چٹکي کو بھي پرواز ہے کيا!
غافل آداب سے سکان زميں کيسے ہيں
شوخ و گستاخ يہ پستي کے مکيں کيسے ہيں!
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھي برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک' يہ وہي آدم ہے!
عالم کيف ہے' دانائے رموز کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے
ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سليقہ نہيں نادانوں کو
آئي آواز' غم انگيز ہے افسانہ ترا
اشک بے تاب سے لبريز ہے پيمانہ ترا
آسماں گير ہوا نعرئہ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دل ديوانہ ترا
شکر شکوے کو کيا حسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر ديا نبدوں کو خدا سے تو نے
ہم تو مائل بہ کرم ہيں' کوئي سائل ہي نہيں
راہ دکھلائيں کسے' رہر و منزل ہي نہيں
تربيت عام تو ہے' جوہر قابل ہي نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کي' يہ وہ گل ہي نہيں
کوئي قابل ہو تو ہم شان کئي ديتے ہيں
ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھي نئي ديتے ہيں
ہاتھ بے زور ہيں' الحاد سے دل خوگر ہيں
امتي باعث رسوائي پيغمبر ہيں
بت شکن اٹھ گئے' باقي جو رہے بت گر ہيں
تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں
بادہ آشام نئے ، بادہ نيا' خم بھي نئے
حرم کعبہ نيا' بت بھي نئے' تم بھي نئے
وہ بھي دن تھے کہ يہي مايہ رعنائي تھا
نازش موسم گل لالہ صحرائي تھا
جو مسلمان تھا' اللہ کا سودائي تھا
کبھي محبوب تمھارا يہي ہرجائي تھا
کسي يکجائي سے اب عہد غلامي کر لو
ملت احمد مرسل کو مقامي کو لو!
کس قدر تم پہ گراں صبح کي بيداري ہے
ہم سے کب پيار ہے! ہاں نيند تمھيں پياري ہے
طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاري ہے
تمھي کہہ دو يہي آئين و فاداري ہے؟
قوم مذہب سے ہے' مذہب جو نہيں' تم بھي نہيں
جذب باہم جو نہيں' محفل انجم بھي نہيں
جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئي فن' تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن، تم ہو
بجلياں جس ميں ہوں آسودہ' وہ خرمن تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کي تجارت کرکے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے
صفحہ دہرئے سے باطل کو مٹايا کس نے؟
نوع انساں کو غلامي سے چھڑايا کس نے؟
ميرے کعبے کو جبينوں سے بسايا کس نے؟
ميرے قرآن کو سينوں سے لگايا کس نے؟
تھے تو آبا وہ تھارے ہي' مگر تم کيا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو!
کيا کہا ! بہر مسلماں ہے فقط وعدہ حور
شکوہ بے جا بھي کرے کوئي تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاطر ہستي کا ازل سے دستور
مسلم آئيں ہوا کافر تو ملے حور و قصور
تم ميں حوروں کا کوئي چاہنے والا ہي نہيں
جلوئہ طور تو موجود ہے' موسي ہي نہيں
منفعت ايک ہے اس قوم کي' نقصان بھي ايک
ايک ہي سب کا نبي' دين بھي' ايمان بھي ايک
حرم پاک بھي' اللہ بھي' قرآن بھي ايک
کچھ بڑي بات تھي ہوتے جو مسلمان بھي ايک
فرقہ بندي ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کي يہي باتيں ہيں
کون ہے تارک آئين رسول مختار؟
مصلحت وقت کي ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کي آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟
ہوگئي کس کي نگہ طرز سلف سے بيزار؟
قلب ميں سوز نہيں' روح ميں احساس نہيں
کچھ بھي پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں
جاکے ہوتے ہيں مساجد ميں صف آرا' تو غريب
زحمت روزہ جو کرتے ہيں گوارا ، تو غريب
نام ليتا ہے اگر کوئي ہمارا' تو غريب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئي تمھارا' تو غريب
امرا نشہ دولت ميں ہيں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بيضا غربا کے دم سے
واعظ قوم کي وہ پختہ خيالي نہ رہي
برق طبعي نہ رہي، شعلہ مقالي نہ رہي
رہ گئي رسم اذاں روح بلالي نہ رہي
فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالي نہ رہي
مسجديں مرثيہ خواں ہيں کہ نمازي نہ رہے
يعني وہ صاحب اوصاف حجازي نہ رہے
شور ہے، ہو گئے دنيا سے مسلماں نابود
ہم يہ کہتے ہيں کہ تھے بھي کہيں مسلم موجود!
وضع ميں تم ہو نصاري تو تمدن ميں ہنود
يہ مسلماں ہيں! جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہود
يوں تو سيد بھي ہو، مرزا بھي ہو، افغان بھي ہو
تم سبھي کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھي ہو!
دم تقرير تھي مسلم کي صداقت بے باک
عدل اس کا تھا قوي، لوث مراعات سے پاک
شجر فطرت مسلم تھا حيا سے نم ناک
تھا شجاعت ميں وہ اک ہستي فوق الادراک
خود گدازي نم کيفيت صہبايش بود
خالي از خويش شدن صورت مينايش بود
ہر مسلماں رگ باطل کے ليے نشتر تھا
اس کے آئينہء ہستي ميں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمھيں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا
باپ کا علم نہ بيٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل ميراث پدر کيونکر ہو!
ہر کوئي مست مے ذوق تن آساني ہے
تم مسلماں ہو! يہ انداز مسلماني ہے!
حيدري فقر ہے نے دولت عثماني ہے
تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحاني ہے؟
وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم
تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم
چاہتے سب ہيں کہ ہوں اوج ثريا پہ مقيم
پہلے ويسا کوئي پيدا تو کرے قلب سليم
تخت فغفور بھي ان کا تھا، سرير کے بھي
يونہي باتيں ہيں کہ تم ميں وہ حميت ہے بھي؟
خودکشي شيوہ تمھارا، وہ غيور و خود دار
تم اخوت سے گريزاں، وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلي کو، وہ گلستاں بہ کنار
اب تلک ياد ہے قوموں کو حکايت ان کي
نقش ہے صفحہ ہستي پہ صداقت ان کي
مثل انجم افق قوم پہ روشن بھي ہوئے
بت ہندي کي محبت ميں برہمن بھي ہوئے
شوق پرواز ميں مہجور نشيمن بھي ہوئے
بے عمل تھے ہي جواں ، دين سے بدظن بھي ہوئے
ان کو تہذيب نے ہر بند سے آزاد کيا
لا کے کعبے سے صنم خانے ميں آباد کيا
قيس زحمت کش تنہائي صحرا نہ رہے
شہر کي کھائے ہوا ، باديہ پيما نہ رہے
وہ تو ديوانہ ہے، بستي ميں رہے يا نہ رہے
يہ ضروري ہے حجاب رخ ليلا نہ رہے!
گلہ جور نہ ہو ، شکوئہ بيداد نہ ہو
عشق آزاد ہے ، کيوں حسن بھي آزاد نہ ہو!
عہد نو برق ہے ، آتش زن ہر خرمن ہے
ايمن اس سے کوئي صحرا نہ کوئي گلشن ہے
اس نئي آگ کا اقوام کہن ايندھن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پيراہن ہے
آج بھي ہو جو براہيم کا ايماں پيدا
آگ کر سکتي ہے انداز گلستاں پيدا
ديکھ کر رنگ چمن ہو نہ پريشاں مالي
کوکب غنچہ سے شاخيں ہيں چمکنے والي
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالي
گل بر انداز ہے خون شہدا کي لالي
رنگ گردوں کا ذرا ديکھ تو عنابي ہے
يہ نکلتے ہوئے سورج کي افق تابي ہے
امتيں گلشن ہستي ميں ثمر چيدہ بھي ہيں
اور محروم ثمر بھي ہيں، خزاں ديدہ بھي ہيں
سينکڑوں نخل ہيں، کاہيدہ بھي، باليدہ بھي ہيں
سينکڑوں بطن چمن ميں ابھي پوشيدہ بھي ہيں
نخل اسلام نمونہ ہے برومندي کا
پھل ہے يہ سينکڑوں صديوں کي چمن بندي کا
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تيرا
تو وہ يوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تيرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھي ويراں تيرا
غير يک بانگ درا کچھ نہيں ساماں تيرا
نخل شمع استي و درشعلہ دود ريشہ تو
عاقبت سوز بود سايہ انديشہ تو
تو نہ مٹ جائے گا ايران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہيں پيمانے سے
ہے عياں يورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کشتي حق کا زمانے ميں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے
ہے جو ہنگامہ بپا يورش بلغاري کا
غافلوں کے ليے پيغام ہے بيداري کا
تو سمجھتا ہے يہ ساماں ہے دل آزاري کا
امتحاں ہے ترے ايثار کا، خود داري کا
کيوں ہراساں ہے صہيل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے
چشم اقوام سے مخفي ہے حقيقت تيري
ہے ابھي محفل ہستي کو ضرورت تيري
 
Top