علامہ دہشتناک : صفحہ 96 ، ص 7 : پینتالیسواں (آخری) صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

زھرا علوی

محفلین
گیارہ افراد ایک قطار میں دوڑے جا رہے تھے۔ اس طرح کہ ایک کے پیچھے ایک تھا اور یہ لمبی سی قطار کہیں سے بھی ٹیڑھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس قطار میں عورتیں بھی تھیں اور مرد بھی۔

سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ اوائل جنوری کی یخ بستہ ہوا ہڈیوں میں گھستی محسوس ہو رہی تھی۔!

سب سے آگے ایک قد آور جسیم آدمی تھا۔ عمر چالیس اور پچاس کے درمیان رہی ہو گی اور چہرہ ڈاڑھی مونچھوں سے بے نیاز۔ البتہ سر پر گھنے اور لمبے لمبے بال لہرا رہے تھے۔ آنکھوں میں بے پناہ توانائی ظاہر ہوتی تھی۔

سڑک سے وہ بائیں جانب والے میدان میں اُتر گئے۔ اور پھر انہوں نے دائرے کی شکل میں دوڑنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ دائرے میں بھی تنظیم اس حد تک برقرار رہی تھی کہ وہ کہیں سے بھی غیر متوازن نہیں معلوم ہوتا تھا۔
"ہالٹ۔!" قد آور آدمی نے زور سے کہا۔
اور وہ سب رُک گئے۔ لیکن دائرہ بدستور برقرار رہا۔

"ڈیس پریس!" قد آور آدمی کی آواز پھر بلند ہوئی اور وہ سب تتر بتر ہو کر گھاس میں بیٹھ گئے۔

سبھی گہرے گہرے سانس لے رہے تھے۔ قد آور آدمی جہاں تھا وہیں کھڑا رہا اس کی ظاہری حالت سے کوئی تبدیلی نہیں دکھائی دیتی تھی۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا نہ چہرے پر تھکن کے آثار تھے اور نہ سینہ دھونکتی کی طرح چل رہا تھا۔ قطعی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس نے بھی دوسروں کی طرح یہ مسافت دوڑتے ہی ہوئے طے کی ہے۔!

پروف ریڈنگ اول مکمل: زھرا
 

جیہ

لائبریرین
صفحہ 96

اور جوزف سے بولی تھی۔ "چپکے سے بستر کے نیچے رکھ لو۔"
"یہ کیا ہے؟"
"تمہاری دو بوتلیں اسی میں الٹ لائی ہوں۔ صاحب کو نہ معلوم ہونے پائے۔"
جوزف نے بوتل اسی کے ہاتھ سے جھپٹ کر چادر میں چھپائی تھی اور پھر اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔
"میں نے سلیمان سے کہا تھا کہ بے موت مر جائے گا کالیا بھیا کوئی تدبیر کرو۔"
"ٹم میرا سسٹر ہے ٹم میرا بیٹی ہے۔" جوزف نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ دو موٹے موٹے قطرے اس کی آنکھوں سے ڈھلک گئے تھے۔
"ابے ۔۔۔ ابے یہ کیا؟" سلیمان بولا۔
"سلیمان بھائی میرے کو معافی ڈو۔"
"ابے کاہے کی معافی؟"
"میں ٹم پر جوگسا کرٹا۔"
"ابے چل سب ٹھیک ہے۔ بہت بڑا ہے دل میرا۔۔۔ لیکن بیٹا ذرا ذرا سی پینا۔۔۔ اور بڑی احتیاط سے ورنہ اگر بھانڈا پھوٹ گیا تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔"
"ہم چوری چوری پیئے گا۔ ذرا سی پیئے گا۔"
گل رخ میز پر پھل رکھ رہی تھی۔ جوزف نے اس کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔
تکیہ آنسوؤں سے بھیگتا رہا۔

پروف ریڈنگ اول مکمل : زہرا
بار دوم: جویریہ
 

جیہ

لائبریرین
صفحہ نمبر سات


گیارہ افراد ایک قطار میں دوڑے جا رہے تھے, اس طرح کہ ایک کے پیچھے ایک تھا اور یہ لمبی سی قطار کہیں سے بھی ٹیڑھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس قطار میں عورتیں بھی تھیں اور مرد بھی۔

سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ اوائلِ جنوری کی یخ بستہ ہوا ہڈیوں میں گھستی محسوس ہو رہی تھی۔

سب سے آگے ایک قد آور جسیم آدمی تھا۔ عمر چالیس اور پچاس کے درمیان رہی ہو گی اور چہرہ ڈاڑھی مونچھوں سے بے نیاز۔ البتہ سر پر گھنے اور لمبے لمبے بال لہرا رہے تھے۔ آنکھوں میں بے پناہ توانائی ظاہر ہوتی تھی۔

سڑک سے وہ بائیں جانب والے میدان میں اُتر گئے اور پھر انہوں نے دائرے کی شکل میں دوڑنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ دائرے میں بھی تنظیم اس حد تک بر قرار رہی تھی کہ وہ کہیں سے بھی غیر متوازن نہیں معلوم ہوتا تھا۔
"ہالٹ۔" قد آور آدمی نے زور سے کہا۔
اور وہ سب رُک گئے لیکن دائرہ بدستور بر قرار رہا۔

"ڈیس پریس" قد آور آدمی کی آواز پھر بلند ہوئی اور وہ سب تتر بتر ہو کر گھاس میں بیٹھ گئے۔

سبھی گہرے گہرے سانس لے رہے تھے۔ قد آور آدمی جہاں تھا وہیں کھڑا رہا اس کی ظاہری حالت سے کوئی تبدیلی نہیں دکھائی دیتی تھی۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ نہ چہرے پر تھکن کے آثار تھے اور نہ سینہ دھونکی کی طرح چل رہا تھا۔ قطعی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس نے بھی دوسروں کی طرح یہ مسافت دوڑتے ہی ہوئے طے کی ہے۔

پروف ریڈنگ اول مکمل: زھرا
بار دوم:جویریہ
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

گیارہ افراد ایک قطار میں دوڑے جا رہے تھے , اس طرح کہ ایک کے پیچھے ایک تھا اور یہ لمبی سی قطار کہیں سے بھی ٹیڑھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس قطار میں عورتیں بھی تھیں اور مرد بھی۔

سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ اوائلِ جنوری کی یخ بستہ ہوا ہڈیوں میں گھستی محسوس ہو رہی تھی۔

سب سے آگے ایک قد آور جسیم آدمی تھا۔ عمر چالیس اور پچاس کے درمیان رہی ہو گی اور چہرہ ڈاڑھی مونچھوں سے بے نیاز۔ البتہ سر پر گھنے اور لمبے لمبے بال لہرا رہے تھے۔ آنکھوں میں بے پناہ توانائی ظاہر ہوتی تھی۔

سڑک سے وہ بائیں جانب والے میدان میں اُتر گئے اور پھر انہوں نے دائرے کی شکل میں دوڑنا شروع کر دیا تھا۔ ۔ ۔ دائرے میں بھی تنظیم اس حد تک بر قرار رہی تھی کہ وہ کہیں سے بھی غیر متوازن نہیں معلوم ہوتا تھا۔
"ہالٹ۔ " قد آور آدمی نے زور سے کہا۔
اور وہ سب رُک گئے لیکن دائرہ بدستور بر قرار رہا۔

"ڈیس پریس" قد آور آدمی کی آواز پھر بلند ہوئی اور وہ سب تتر بتر ہو کر گھاس میں بیٹھ گئے۔

سبھی گہرے گہرے سانس لے رہے تھے۔ قد آور آدمی جہاں تھا وہیں کھڑا رہا اس کی ظاہری حالت سے کوئی تبدیلی نہیں دکھائی دیتی تھی۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ نہ چہرے پر تھکن کے آثار تھے اور نہ سینہ دھونکی کی طرح چل رہا تھا۔ قطعی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس نے بھی دوسروں کی طرح یہ مسافت دوڑتے ہی ہوئے طے کی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

اور جوزف سے بولی تھی۔ "چپکے سے بستر کے نیچے رکھ لو۔ "
"یہ کیا ہے ؟"
"تمہاری دو بوتلیں اسی میں الٹ لائی ہوں۔ صاحب کو نہ معلوم ہونے پائے۔ "
جوزف نے بوتل اسی کے ہاتھ سے جھپٹ کر چادر میں چھپائی تھی اور پھر اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔
"میں نے سلیمان سے کہا تھا کہ بے موت مر جائے گا کالیا بھیا کوئی تدبیر کرو۔ "
"ٹم میرا سسٹر ہے ٹم میرا بیٹی ہے۔ " جوزف نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ دو موٹے موٹے قطرے اس کی آنکھوں سے ڈھلک گئے تھے۔
"ابے۔ ۔ ۔ ابے یہ کیا؟" سلیمان بولا۔
"سلیمان بھائی میرے کو معافی ڈو۔ "
"ابے کا ہے کی معافی؟"
"میں ٹم پر جوگسا کرٹا۔ "
"ابے چل سب ٹھیک ہے۔ بہت بڑا ہے دل میرا۔ ۔ ۔ لیکن بیٹا ذرا ذرا سی پینا۔ ۔ ۔ اور بڑی احتیاط سے ورنہ اگر بھانڈا پھوٹ گیا تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔ "
"ہم چوری چوری پیئے گا۔ ذرا سی پیئے گا۔ "
گل رخ میز پر پھل رکھ رہی تھی۔ جوزف نے اس کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔
تکیہ آنسوؤں سے بھیگتا رہا۔
 

الف عین

لائبریرین
اس میں تقدیم و تاخیر کا مجھ کو درست علم نہیں۔ سکینڈ صفحات دیکھ کر درست کر لیں۔ میں نے بھی ایک صفحے کو 7 اور دوسرے حص؁ کو 96 لکھا تھا، جیسا جوجو نے مجھ کو بھیجا تھا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top