سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
صفحہ : 40 - 41
صرف یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ تم ابھی کچی ہو۔ میری تنظیم میں نہ کوئی کسی کا باپ ہے نہ بیٹا ہے اور نہ بھائی وہ صرف تنظیم کے لئے ہے۔ صرف تنظیم کا بیٹا ہے دوسرے غیر ذہین آدمیوںکا فنا کردنے پر تمہیں کوئی اعتراض نہیں۔ بس تمہارا باپ ان کے زمرے میں نہ آتا ہو۔!“
”میں تنظیم کے لائق نہیں ہوں۔!“ وہ آہستہ سے بولی۔
”لہزا جب چاہو ہمارا ساتھ چھوڑ سکتی ہو۔ نہ میں کسی کو بلاتا ہوں۔ اور نہ کسی کے ساتھ چھوڑنے کی پرواہ کرتا ہوں۔ اب تم جاسکتی ہو۔!“
وہ اٹھی تھی اور تیزی سے باہر نکل گئی تھی۔ علامہ مسکراتا رہا تھا۔ اور پھر اونچی آواز میںبولا تھا۔”اب آجاؤ۔!“
بائیں جانب کا دروازہ کھلا اور پیٹر کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا۔!“
“تم نے سنا۔!“ علامہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
پیٹر نے سر کو اثباتی جنبش دی تھی۔!
لیکن فی الحال اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔ ۔ ۔ پولیس شاہ دار اتک جا پہنچی ہے۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ شیلا کے چچا سے کسی نے براہِ راست اس سلسلے میں گفتگو کی تھی۔!“
”کس سلسلے میں۔“
”شاید تم کنفیوز ہو گئے ہو۔ !بیٹھ جاؤ۔ کیا تمہیں یاد نہیں کہ شیلایاسمیں کو شاہ ارالے جانے کے بہانے کیمپنگ کے لئے لائی تھی۔“
”مجھے یاد ہے جناب۔ شاید میں شچ مچ کنفیوز ہو گیا تھا۔!“
“میں یہ کہہ رہا تھا کہ اس کے چچا نے لاعلمی ظاہر کی ہوگی۔ کیونکہ وہ سر ے سے وہاں گئی ہی نہیں تھی ۔ لیزا اب شیلا سے دوبارہ گفتگو ہو گی“
”اور وہ بتادےگی۔“
”اس سے پہلے ہی تمہیں یہ کام کرنا ہوگا۔!“
”کیا کام۔!“
”شیلا کو پاگل ہوجانا چاہئے ! اسی طرح پولیش ہم سے دور رہ سکتی ہے۔ وہ سمجھے گی کہ شیلا نے جوابدہی سے بچنے کے لئے پاگل پن کا دھونگ رچایا ہے۔!“
”لیکن وہ پاگل کس طرح ہوگی جناب۔!“
”آج شام کلب میںسب کچھ ہوجائے گا۔!“
”لیکن پولیس طبعی معائنہ تو کراسکے گی۔!“
”اسے جو چیز شراب میں دی جائے گی اس کا اثر سسٹم پر دریافت نہ کیا جاسکے گا۔ اسی بنا پر تو پولیس باور کرے گی کہ وہ بن رہی ہے۔!
”آپ ذہانت کا سرچشمہ ہیں جناب۔!“
”پھر وہ زندگی بھر جاگتی رہے گی۔ لیکن ہوش میں نہ ہوگی۔ ! اور یہ زہر تم ہی اس کی شراب میں ملاؤگے۔!“
علامہ نے میز کی دراز سے ایک چھوٹی سی شیشی نکالی تھی۔
”آج ہی یاکبھی نہیں!“ پیڑ نے شیشی کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہاں
”یقین کرو۔ ۔ ۔ اس گروپ میں تمہارے علاوہ مجھے اور کوئی بھی ذہین نہیں معلوم ہوتا۔“
علامہ اس کی ہتھیلی پر شیشی رکھتا ہوا بولا۔
پیٹر پلکین چھپکائے بغیر اس کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔!
”اس کا طریقہ استعمال بھی سن لو۔“ علامہ نے کہا اور میز کی دوسری دراز کھول کر ایک بڑی سی انگشتری نکالی۔۔ ۔ ۔ ۔!“
”یہ انگشتری ۔ ۔ ۔ ذرا اپنی کرسی اور قریب لاؤ۔ ۔ ۔ یہ دیکھو ۔ ۔ ۔ نگینہ ۔ ۔۔ اس طرح اپنی جگہ سے ہٹا ہے۔ اس خالی جگہ میںوہ سیال بھرا جائیگا۔ ۔ ۔ اس طرح نگینہ دوبارہ اپنی جگہ پر آئے گا۔ انگشتری پہن لی گئی۔ ۔ ۔ انگشتری والا ہاتھ تم کسی بہانے سے اس طرح اس کے گلاس پر رکھو گے۔ ۔ ۔ ۔ اور بیچ کی انگلی سے اس طرح جگہ پر دباؤ ڈالو گے سارا سیال گلاس میں ٹپک جائے گا۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ اسے یا پاس بیٹھے ہوئے کسی فرد کو احساس تک نہ ہو سکے گا کے کب کیا ہوگیا۔!“
اس نے انگشتری بھی پیٹر کے حوالے کی تھی اور پیٹر نے ایک بار پھر اس کا طریق استعمال سمجھاتھا۔
”لیکن جناب!“ اس نے کچھ دیر بعد کہا۔ ” یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی کہ ہم نے کیمپنگ کی تھی اور اس میں کون کون شریک تھا“