علامہ دہشتناک : صفحہ 16-17 : پانچواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



2mc7hcj.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا

صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ
صفحہ کی دوسری پروف ریڈنگ
صفحہ کی تیسری/ آخری پروف ریڈنگ


شکریہ
 

ابو کاشان

محفلین
"تمھاری دانست میں کیا وجہ ہو سکتی ہے۔!"
"آپ عام طور پر خود کو مذہبی آدمی ظاہر کرتے ہیں۔"
"ہمیں کیڑوں مکوڑوں کے درمیان رہ کر ہی زندگی بسر کرنی چاہئے۔!"
"یہ میں بھول گئی تھی۔!" یاسمین کے لہجے میں کسی قدر تلخی پیدا ہو گئی۔!
"حالانکہ ہمیں اپنا مشن ہر وقت یاد رکھنا چاہئے۔!"
یاسمین کچھ نہ بولی۔ بدستور سر جھکائے بیٹھی رہی۔ اُس نے یہ گفتگو علامہ سے آنکھیں ملا کر نہیں کی تھی۔ اس سے آنکیں ملا کر گفتگو کرنا آسان بھی نہیں تھا۔۔۔۔مقابل کی زبان لڑکھڑاجاتی تھی اور اگلا جملہ ذہن سے محو ہو جاتا تھا۔ اس سے پوری بات اسی طرح کی جاسکتی تھی کہ اس کی آنکھوں میں نہ دیکھا جائے۔
"مذہب!" وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔ "محض بعض رسوم کی ادائیگی ہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔لٰہذا اسے کیڑوں مکوڑوں ہی کے لئے چھوڑ دو۔!"
"مم۔۔۔۔میں سمجھتی ہو جناب!"
"میں نے ابتدا میں لوگوں کو مذہب کی حقیقی روح سے روشناس کرانا چاہا تھا لیکن انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں شایدکسی نئے مذہب کی داغ بیل ڈالنا چاہتا ہوں مجھ پر کفر بکنے کا الزام لگایا گیا تھا۔۔۔۔لٰہذا میں نے مذہب کو بریانی کی دیگ میں دفن کر دیا۔"
یاسمین کچھ نہ بولی۔۔۔۔وہ کہتا رہا۔"میرے بس سے باہر تھا کہ وہ غلاظتوں کے ڈھیر لگاتے رہیں اور میں ان میں دفن ہوتا چلا جاؤں۔ نہ وہ مذہب کی حقیقی روح تک پہنچنے کے لئے تیّار ہیں اور نہ کوئی نیا نظریہءِ حیات اپنانے پر آمادہ۔۔۔۔لٰہذا ان کیڑوں مکوڑوں کو فنا کر دینا ہی میرا مشن ٹھرا۔"
"میں اپنی غلطی پر نادم ہوں جناب!" وہ گھگھیائی۔
"غلطی نہیں میرے بارے میں غلط فہمی کہو۔!"
"جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ہاں۔ بعض اوقات مجھے اظہار ِخیال کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔"
"اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمھارے ذہن میں ابھی تک کھچڑی پک رہی ہے۔ نہ مذہب کی طرف سے مطمئن ہو اور نہ میرے مشن پر یقین رکھتی ہو۔!
"میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔"
"فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔جاؤ آرام کرو۔!"۔۔۔۔۔وہ اٹھ گئی۔

:)

فون کی گھنٹی بجی تھی اور کیپٹن فیاض نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا تھا۔دوسری طرف سے جانی پہچانی سی نسوانی آواز آئی تھی۔!"مم میں ایک دشواری میں پڑ گئی ہوں کیپٹن۔!"
"آپ کون ہیں!" فیاض نے پیشانی پر بل ڈال کرپوچھا۔
"ڈاکٹر زہرہ جبیں"
"اوہ۔۔۔ہلوڈاکٹر۔۔۔۔کیا پریشانی ہے۔۔۔۔!"
"شش شاید۔۔۔۔میں گرفتار کر لی جاؤں۔۔۔!"
"خیریت۔۔۔۔"
"ایسی ہی کچھ بات ہے! کیا آپ میری ڈسپنسری تک آ سکیں گے۔!"
"میں پہنچ رہا ہوں لیکن بات کیا ہے۔!"
"دواخانہ بند کر کے سیل کیا جا رہا ہے اور تفتیش کرنے والے آفیسر کے تیور اچھے نہیں ہیں۔!"
"کیا کوئی مریض غیر متوقّع طور پر مر گیا ہے۔! "
"ایسی ہی کچھ بات ہے۔!"
"اچھا میں آرہا ہوں۔۔۔۔ویسے وارنٹ کے بغیر تمہیں کوئی گرفتار نہیں کر سکتا۔کیا آفیسر کے پاس وارنٹ موجود ہیں؟"
"میں نہیں جانتی۔ لیکن خدا کے لئے آپ جلد پہنچئے۔!"
"میں آرہا ہوں۔" فیاض نے کہا اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو جانے کی آواز سن کر خود بھی ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔پھر وہ اٹھ کر آفس سے باہر آیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی محکمہءِسراغ رسانی کے دفاتر کے کمپاؤنڈ سے سڑک پر نکل آئی۔
ڈاکٹر زہرہ جبیں اس کی خاص دوستوں میں سے تھی۔ خوش شکل اور پُر کشش عورت تھی۔
عمر تیس سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس وقت چالیس سے بھی متجاوز لگ رہی تھی۔فیاض کو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شاندار !

آپ نے صفحہ تحریر بھی کر لیا !

آپ چاہیں تو مزید صفحات کا انتخاب کر سکتے ہیں تحریر اور / یا پروف ریڈ کرنے کے لیے ۔
 

ماوراء

محفلین
پہلی پروف ریڈنگ : مکمل : ماوراء

"تمھاری دانست میں کیا وجہ ہو سکتی ہے۔!"
"آپ عام طور پر خود کو مذہبی آدمی ظاہر کرتے ہیں۔"
"ہمیں کیڑوں مکوڑوں کے درمیان رہ کر ہی زندگی بسر کرنی چاہئے۔!"
"یہ میں بھول گئی تھی۔!" یاسمین کے لہجے میں کسی قدر تلخی پیدا ہو گئی۔!
"حالانکہ ہمیں اپنا مشن ہر وقت یاد رکھنا چاہئے۔!"
یاسمین کچھ نہ بولی۔ بدستور سر جھکائے بیٹھی رہی۔ اُس نے یہ گفتگو علامہ سے آنکھیں ملا کر نہیں کی تھی۔ اس سے آنکیں ملا کر گفتگو کرنا آسان بھی نہیں تھا۔۔۔مقابل کی زبان لڑکھڑاجاتی تھی اور اگلا جملہ ذہن سے محو ہو جاتا تھا۔ اس سے پوری بات اسی طرح کی جاسکتی تھی کہ اس کی آنکھوں میں نہ دیکھا جائے۔
"مذہب!" وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔ "محض بعض رسوم کی ادائیگی ہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔لٰہذا اسے کیڑوں مکوڑوں ہی کے لئے چھوڑ دو۔!"
"مم۔۔۔۔میں سمجھتی ہو جناب!"
"میں نے ابتدا میں لوگوں کو مذہب کی حقیقی روح سے روشناس کرانا چاہا تھا لیکن انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں شایدکسی نئے مذہب کی داغ بیل ڈالنا چاہتا ہوں مجھ پر کفر بکنے کا الزام لگایا گیا تھا۔۔۔۔لٰہذا میں نے مذہب کو بریانی کی دیگ میں دفن کر دیا۔"
یاسمین کچھ نہ بولی۔۔۔۔وہ کہتا رہا۔"میرے بس سے باہر تھا کہ وہ غلاظتوں کے ڈھیر لگاتے رہیں اور میں ان میں دفن ہوتا چلا جاؤں۔ نہ وہ مذہب کی حقیقی روح تک پہنچنے کے لئے تیار ہیں اور نہ کوئی نیا نظریہ حیات اپنانے پر آمادہ۔۔۔۔لٰہذا ان کیڑوں مکوڑوں کو فنا کر دینا ہی میرا مشن ٹھہرا۔"
"میں اپنی غلطی پر نادم ہوں جناب!" وہ گھگھیائی۔
"غلطی نہیں میرے بارے میں غلط فہمی کہو۔!"
"جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ہاں۔ بعض اوقات مجھے اظہار ِخیال کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔"
"اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمھارے ذہن میں ابھی تک کھچڑی پک رہی ہے۔ نہ مذہب کی طرف سے مطمئن ہو اور نہ میرے مشن پر یقین رکھتی ہو۔!
"میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔"
"فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔جاؤ آرام کرو۔!"۔۔۔۔۔وہ اٹھ گئی۔



فون کی گھنٹی بجی تھی اور کیپٹن فیاض نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا تھا۔دوسری طرف سے جانی پہچانی سی نسوانی آواز آئی تھی۔!"مم میں ایک دشواری میں پڑ گئی ہوں کیپٹن۔!"
"آپ کون ہیں!" فیاض نے پیشانی پر بل ڈال کرپوچھا۔
"ڈاکٹر زہرہ جبیں"
"اوہ۔۔۔ہلوڈاکٹر۔۔۔۔کیا پریشانی ہے۔۔۔۔!"
"شش شاید۔۔۔۔میں گرفتار کر لی جاؤں۔۔۔!"
"خیریت۔۔۔۔"
"ایسی ہی کچھ بات ہے! کیا آپ میری ڈسپنسری تک آ سکیں گے۔!"
"میں پہنچ رہا ہوں لیکن بات کیا ہے۔!"
"دواخانہ بند کر کے سیل کیا جا رہا ہے اور تفتیش کرنے والے آفیسر کے تیور اچھے نہیں ہیں۔!"
"کیا کوئی مریض غیر متوقع طور پر مر گیا ہے۔! "
"ایسی ہی کچھ بات ہے۔!"
"اچھا میں آرہا ہوں۔۔۔۔ویسے وارنٹ کے بغیر تمہیں کوئی گرفتار نہیں کر سکتا۔کیا آفیسر کے پاس وارنٹ موجود ہیں؟"
"میں نہیں جانتی۔ لیکن خدا کے لئے آپ جلد پہنچئے۔!"
"میں آرہا ہوں۔" فیاض نے کہا اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو جانے کی آواز سن کر خود بھی ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔پھر وہ اٹھ کر آفس سے باہر آیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی محکمہ سراغ رسانی کے دفاتر کے کمپاؤنڈ سے سڑک پر نکل آئی۔
ڈاکٹر زہرہ جبیں اس کی خاص دوستوں میں سے تھی۔ خوش شکل اور پُر کشش عورت تھی۔
عمر تیس سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس وقت چالیس سے بھی متجاوز لگ رہی تھی۔فیاض کو
 

جیہ

لائبریرین
پہلی پروف ریڈنگ : مکمل : ماوراء

"تمھاری دانست میں کیا وجہ ہو سکتی ہے۔!"
"آپ عام طور پر خود کو مذہبی آدمی ظاہر کرتے ہیں۔"
"ہمیں کیڑوں مکوڑوں کے درمیان رہ کر ہی زندگی بسر کرنی چاہئے۔!"
"یہ میں بھول گئی تھی۔!" یاسمین کے لہجے میں کسی قدر تلخی پیدا ہو گئی۔!
"حالانکہ ہمیں اپنا مشن ہر وقت یاد رکھنا چاہئے۔!"
یاسمین کچھ نہ بولی۔ بدستور سر جھکائے بیٹھی رہی۔ اُس نے یہ گفتگو علامہ سے آنکھیں ملا کر نہیں کی تھی۔ اس سے آنکیں ملا کر گفتگو کرنا آسان بھی نہیں تھا۔۔۔مقابل کی زبان لڑکھڑاجاتی تھی اور اگلا جملہ ذہن سے محو ہو جاتا تھا۔ اس سے پوری بات اسی طرح کی جاسکتی تھی کہ اس کی آنکھوں میں نہ دیکھا جائے۔
"مذہب!" وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔ "محض بعض رسوم کی ادائیگی ہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔لٰہذا اسے کیڑوں مکوڑوں ہی کے لئے چھوڑ دو۔!"
"مم۔۔۔۔میں سمجھتی ہو جناب!"
"میں نے ابتدا میں لوگوں کو مذہب کی حقیقی روح سے روشناس کرانا چاہا تھا لیکن انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں شایدکسی نئے مذہب کی داغ بیل ڈالنا چاہتا ہوں مجھ پر کفر بکنے کا الزام لگایا گیا تھا۔۔۔۔لٰہذا میں نے مذہب کو بریانی کی دیگ میں دفن کر دیا۔"
یاسمین کچھ نہ بولی۔۔۔۔وہ کہتا رہا۔"میرے بس سے باہر تھا کہ وہ غلاظتوں کے ڈھیر لگاتے رہیں اور میں ان میں دفن ہوتا چلا جاؤں۔ نہ وہ مذہب کی حقیقی روح تک پہنچنے کے لئے تیار ہیں اور نہ کوئی نیا نظریہ حیات اپنانے پر آمادہ۔۔۔۔لٰہذا ان کیڑوں مکوڑوں کو فنا کر دینا ہی میرا مشن ٹھہرا۔"
"میں اپنی غلطی پر نادم ہوں جناب!" وہ گھگھیائی۔
"غلطی نہیں میرے بارے میں غلط فہمی کہو۔!"
"جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ہاں۔ بعض اوقات مجھے اظہار ِخیال کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔"
"اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمھارے ذہن میں ابھی تک کھچڑی پک رہی ہے۔ نہ مذہب کی طرف سے مطمئن ہو اور نہ میرے مشن پر یقین رکھتی ہو۔!
"میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔"
"فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔جاؤ آرام کرو۔!"۔۔۔۔۔وہ اٹھ گئی۔



فون کی گھنٹی بجی تھی اور کیپٹن فیاض نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا تھا۔دوسری طرف سے جانی پہچانی سی نسوانی آواز آئی تھی۔!"مم میں ایک دشواری میں پڑ گئی ہوں کیپٹن۔!"
"آپ کون ہیں!" فیاض نے پیشانی پر بل ڈال کرپوچھا۔
"ڈاکٹر زہرہ جبیں"
"اوہ۔۔۔ہلوڈاکٹر۔۔۔۔کیا پریشانی ہے۔۔۔۔!"
"شش شاید۔۔۔۔میں گرفتار کر لی جاؤں۔۔۔!"
"خیریت۔۔۔۔"
"ایسی ہی کچھ بات ہے! کیا آپ میری ڈسپنسری تک آ سکیں گے۔!"
"میں پہنچ رہا ہوں لیکن بات کیا ہے۔!"
"دواخانہ بند کر کے سیل کیا جا رہا ہے اور تفتیش کرنے والے آفیسر کے تیور اچھے نہیں ہیں۔!"
"کیا کوئی مریض غیر متوقع طور پر مر گیا ہے۔! "
"ایسی ہی کچھ بات ہے۔!"
"اچھا میں آرہا ہوں۔۔۔۔ویسے وارنٹ کے بغیر تمہیں کوئی گرفتار نہیں کر سکتا۔کیا آفیسر کے پاس وارنٹ موجود ہیں؟"
"میں نہیں جانتی۔ لیکن خدا کے لئے آپ جلد پہنچئے۔!"
"میں آرہا ہوں۔" فیاض نے کہا اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو جانے کی آواز سن کر خود بھی ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔پھر وہ اٹھ کر آفس سے باہر آیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی محکمہ سراغ رسانی کے دفاتر کے کمپاؤنڈ سے سڑک پر نکل آئی۔
ڈاکٹر زہرہ جبیں اس کی خاص دوستوں میں سے تھی۔ خوش شکل اور پُر کشش عورت تھی۔
عمر تیس سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس وقت چالیس سے بھی متجاوز لگ رہی تھی۔فیاض کو

پہلی پروف ریڈنگ : مکمل : ماوراء
بار دوم: جویریہ مسعود

"تمہاری دانست میں کیا وجہ ہو سکتی ہے۔!"
"آپ عام طور پر خود کو مذہبی آدمی ظاہر کرتے ہیں۔"
"ہمیں کیڑوں مکوڑوں کے درمیان رہ کر ہی زندگی بسر کرنی چاہئے۔!"
"یہ میں بھول گئی تھی۔!" یاسمین کے لہجے میں کسی قدر تلخی پیدا ہو گئی۔
"حالانکہ ہمیں اپنا مشن ہر وقت یاد رکھنا چاہئے۔!"
یاسمین کچھ نہ بولی۔ بدستور سر جھکائے بیٹھی رہی۔ اُس نے یہ گفتگو علامہ سے آنکھیں ملا کر نہیں کی تھی۔ اس سے آنکیں ملا کر گفتگو کرنا آسان بھی نہیں تھا۔۔۔ مقابل کی زبان لڑکھڑاجاتی تھی اور اگلا جملہ ذہن سے محو ہو جاتا تھا۔ اس سے پوری بات اسی طرح کی جاسکتی تھی کہ اس کی آنکھوں میں نہ دیکھا جائے۔
"مذہب!" وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔ "محض بعض رسوم کی ادائیگی ہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ لٰہذا اسے کیڑوں مکوڑوں ہی کے لئے چھوڑ دو۔!"
"مم۔۔۔۔ میں سمجھتی ہو جناب!"
"میں نے ابتدا میں لوگوں کو مذہب کی حقیقی روح سے روشناس کرانا چاہا تھا لیکن انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں شایدکسی نئے مذہب کی داغ بیل ڈالنا چاہتا ہوں، مجھ پر کفر بکنے کا الزام لگایا گیا تھا۔۔۔۔ لہٰذا میں نے مذہب کو بریانی کی دیگ میں دفن کر دیا۔"
یاسمین کچھ نہ بولی۔۔۔۔ وہ کہتا رہا۔ "میرے بس سے باہر تھا کہ وہ غلاظتوں کے ڈھیر لگاتے رہیں اور میں ان میں دفن ہوتا چلا جاؤں۔ نہ وہ مذہب کی حقیقی روح تک پہنچنے کے لئے تیار ہیں اور نہ کوئی نیا نظریۂ حیات اپنانے پر آمادہ۔۔۔۔ لہٰذا ان کیڑوں مکوڑوں کو فنا کر دینا ہی میرا مشن ٹھہرا۔"
"میں اپنی غلطی پر نادم ہوں جناب!" وہ گھگھیائی۔
"غلطی نہیں، میرے بارے میں غلط فہمی کہو۔!"
"جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ ہاں۔ بعض اوقات مجھے اظہارِ خیال کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔"
"اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہارے ذہن میں ابھی تک کھچڑی پک رہی ہے۔ نہ مذہب کی طرف سے مطمئن ہو اور نہ میرے مشن پر یقین رکھتی ہو۔"!
"میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔"
"فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جاؤ آرام کرو۔!"۔۔۔۔۔ وہ اٹھ گئی۔

فون کی گھنٹی بجی تھی اور کیپٹن فیاض نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا تھا۔ دوسری طرف سے جانی پہچانی سی نسوانی آواز آئی تھی۔!" مم میں ایک دشواری میں پڑ گئی ہوں کیپٹن۔!"
"آپ کون ہیں!" فیاض نے پیشانی پر بل ڈال کرپوچھا۔
"ڈاکٹر زہرہ جبیں"
"اوہ۔۔۔ ہیلو ڈاکٹر۔۔۔۔کیا پریشانی ہے۔۔۔۔؟"
"شش شاید۔۔۔۔ میں گرفتار کر لی جاؤں۔۔۔!"
"خیریت۔۔۔۔؟"
"ایسی ہی کچھ بات ہے! کیا آپ میری ڈسپنسری تک آ سکیں گے۔!"
"میں پہنچ رہا ہوں لیکن بات کیا ہے؟"
"دوا خانہ بند کر کے سیل کیا جا رہا ہے اور تفتیش کرنے والے آفیسر کے تیور اچھے نہیں ہیں۔!"
"کیا کوئی مریض غیر متوقع طور پر مر گیا ہے؟"
"ایسی ہی کچھ بات ہے۔!"
"اچھا میں آرہا ہوں۔۔۔۔ ویسے وارنٹ کے بغیر تمہیں کوئی گرفتار نہیں کر سکتا۔کیا آفیسر کے پاس وارنٹ موجود ہیں؟"
"میں نہیں جانتی۔ لیکن خدا کے لئے آپ جلد پہنچئے۔!"
"میں آرہا ہوں۔" فیاض نے کہا اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو جانے کی آواز سن کر خود بھی ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ پھر وہ اٹھ کر آفس سے باہر آیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی محکمہ سراغ رسانی کے دفاتر کے کمپاؤنڈ سے سڑک پر نکل آئی۔
ڈاکٹر زہرہ جبیں اس کی خاص دوستوں میں سے تھی۔ خوش شکل اور پُر کشش عورت تھی۔
عمر تیس سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس وقت چالیس سے بھی متجاوز لگ رہی تھی۔ فیاض کو
 

الف عین

لائبریرین
تیسری اور آخری پروف ریڈنگ: ا ع

تمہاری دانست میں کیا وجہ ہو سکتی ہے۔!"
"آپ عام طور پر خود کو مذہبی آدمی ظاہر کرتے ہیں۔"
"ہمیں کیڑوں مکوڑوں کے درمیان رہ کر ہی زندگی بسر کرنی چاہئے۔!"
"یہ میں بھول گئی تھی! " یاسمین کے لہجے میں کسی قدر تلخی پیدا ہو گئی۔
"حالانکہ ہمیں اپنا مشن ہر وقت یاد رکھنا چاہئے۔!"
یاسمین کچھ نہ بولی۔ بدستور سر جھکائے بیٹھی رہی۔ اُس نے یہ گفتگو علامہ سے آنکھیں ملا کر نہیں کی تھی۔ اس سے آنکیں ملا کر گفتگو کرنا آسان بھی نہیں تھا۔۔۔ مقابل کی زبان لڑکھڑاجاتی تھی اور اگلا جملہ ذہن سے محو ہو جاتا تھا۔ اس سے پوری بات اسی طرح کی جاسکتی تھی کہ اس کی آنکھوں میں نہ دیکھا جائے۔
"مذہب!" وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔ "محض بعض رسوم کی ادائیگی ہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ لٰہذا اسے کیڑوں مکوڑوں ہی کے لئے چھوڑ دو۔!"
"مم۔۔۔۔ میں سمجھتی ہو جناب!"
"میں نے ابتدا میں لوگوں کو مذہب کی حقیقی روح سے روشناس کرانا چاہا تھا لیکن انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں شایدکسی نئے مذہب کی داغ بیل ڈالنا چاہتا ہوں، مجھ پر کفر بکنے کا الزام لگایا گیا تھا۔۔۔۔ لہٰذا میں نے مذہب کو بریانی کی دیگ میں دفن کر دیا۔"
یاسمین کچھ نہ بولی۔۔۔۔ وہ کہتا رہا۔ "میرے بس سے باہر تھا کہ وہ غلاظتوں کے ڈھیر لگاتے رہیں اور میں ان میں دفن ہوتا چلا جاؤں۔ نہ وہ مذہب کی حقیقی روح تک پہنچنے کے لئے تیار ہیں اور نہ کوئی نیا نظریۂ حیات اپنانے پر آمادہ۔۔۔۔ لہٰذا ان کیڑوں مکوڑوں کو فنا کر دینا ہی میرا مشن ٹھہرا۔"
"میں اپنی غلطی پر نادم ہوں جناب!" وہ گھگھیائی۔
"غلطی نہیں، میرے بارے میں غلط فہمی کہو۔!"
"جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ ہاں۔ بعض اوقات مجھے اظہارِ خیال کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔"
"اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہارے ذہن میں ابھی تک کھچڑی پک رہی ہے۔ نہ مذہب کی طرف سے مطمئن ہو اور نہ میرے مشن پر یقین رکھتی ہو۔"!
"میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔"
"فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جاؤ آرام کرو۔!"۔۔۔۔۔ وہ اٹھ گئی۔

فون کی گھنٹی بجی تھی اور کیپٹن فیاض نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا تھا۔ دوسری طرف سے جانی پہچانی سی نسوانی آواز آئی تھی۔!" مم میں ایک دشواری میں پڑ گئی ہوں کیپٹن۔!"
"آپ کون ہیں!" فیاض نے پیشانی پر بل ڈال کر پوچھا۔
"ڈاکٹر زہرہ جبیں"
"اوہ۔۔۔ہیلو ڈاکٹر۔۔۔۔کیا پریشانی ہے۔۔۔۔؟"
"شش شاید۔۔۔۔ میں گرفتار کر لی جاؤں۔۔۔!"
"خیریت۔۔۔۔؟"
"ایسی ہی کچھ بات ہے! کیا آپ میری ڈسپنسری تک آ سکیں گے۔!"
"میں پہنچ رہا ہوں لیکن بات کیا ہے؟"
"دوا خانہ بند کر کے سیل کیا جا رہا ہے اور تفتیش کرنے والے آفیسر کے تیور اچھے نہیں ہیں۔!"
"کیا کوئی مریض غیر متوقع طور پر مر گیا ہے؟"
"ایسی ہی کچھ بات ہے۔!"
"اچھا میں آ رہا ہوں۔۔۔۔ ویسے وارنٹ کے بغیر تمہیں کوئی گرفتار نہیں کر سکتا۔کیا آفیسر کے پاس وارنٹ موجود ہیں؟"
"میں نہیں جانتی۔ لیکن خدا کے لئے آپ جلد پہنچئے۔!"
"میں آ رہا ہوں۔" فیاض نے کہا اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو جانے کی آواز سن کر خود بھی ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ پھر وہ اٹھ کر آفس سے باہر آیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی محکمہ سراغ رسانی کے دفاتر کے کمپاؤنڈ سے سڑک پر نکل آئی۔
ڈاکٹر زہرہ جبیں اس کی خاص دوستوں میں سے تھی۔ خوش شکل اور پُر کشش عورت تھی۔
عمر تیس سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس وقت چالیس سے بھی متجاوز لگ رہی تھی۔ فیاض کو
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ابو کاشان ایک کام تو مکمل ہو گیا ہے اب باقی بھی مکمل کرو جلدی سے میں نے کچھ صفحے لکھنے ہیں ان کو پڑھ لو پھر باقی جیہ آپی اور اعجاز صاحب پڑھ لے گے شکریہ
 

ابو کاشان

محفلین
پہلی پروف ریڈنگ : مکمل : ماوراء
بار دوم: جویریہ مسعود

"تمہاری دانست میں کیا وجہ ہو سکتی ہے۔!"
"آپ عام طور پر خود کو مذہبی آدمی ظاہر کرتے ہیں۔"
"ہمیں کیڑوں مکوڑوں کے درمیان رہ کر ہی زندگی بسر کرنی چاہئے۔!"
"یہ میں بھول گئی تھی۔!" یاسمین کے لہجے میں کسی قدر تلخی پیدا ہو گئی۔
"حالانکہ ہمیں اپنا مشن ہر وقت یاد رکھنا چاہئے۔!"
یاسمین کچھ نہ بولی۔ بدستور سر جھکائے بیٹھی رہی۔ اُس نے یہ گفتگو علامہ سے آنکھیں ملا کر نہیں کی تھی۔ اس سے آنکیں ملا کر گفتگو کرنا آسان بھی نہیں تھا۔۔۔ مقابل کی زبان لڑکھڑاجاتی تھی اور اگلا جملہ ذہن سے محو ہو جاتا تھا۔ اس سے پوری بات اسی طرح کی جاسکتی تھی کہ اس کی آنکھوں میں نہ دیکھا جائے۔
"مذہب!" وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔ "محض بعض رسوم کی ادائیگی ہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ لٰہذا اسے کیڑوں مکوڑوں ہی کے لئے چھوڑ دو۔!"
"مم۔۔۔۔ میں سمجھتی ہو جناب!"
"میں نے ابتدا میں لوگوں کو مذہب کی حقیقی روح سے روشناس کرانا چاہا تھا لیکن انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں شایدکسی نئے مذہب کی داغ بیل ڈالنا چاہتا ہوں، مجھ پر کفر بکنے کا الزام لگایا گیا تھا۔۔۔۔ لہٰذا میں نے مذہب کو بریانی کی دیگ میں دفن کر دیا۔"
یاسمین کچھ نہ بولی۔۔۔۔ وہ کہتا رہا۔ "میرے بس سے باہر تھا کہ وہ غلاظتوں کے ڈھیر لگاتے رہیں اور میں ان میں دفن ہوتا چلا جاؤں۔ نہ وہ مذہب کی حقیقی روح تک پہنچنے کے لئے تیار ہیں اور نہ کوئی نیا نظریۂ حیات اپنانے پر آمادہ۔۔۔۔ لہٰذا ان کیڑوں مکوڑوں کو فنا کر دینا ہی میرا مشن ٹھہرا۔"
"میں اپنی غلطی پر نادم ہوں جناب!" وہ گھگھیائی۔
"غلطی نہیں، میرے بارے میں غلط فہمی کہو۔!"
"جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ ہاں۔ بعض اوقات مجھے اظہارِ خیال کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔"
"اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہارے ذہن میں ابھی تک کھچڑی پک رہی ہے۔ نہ مذہب کی طرف سے مطمئن ہو اور نہ میرے مشن پر یقین رکھتی ہو۔"!
"میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔"
"فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جاؤ آرام کرو۔!"۔۔۔۔۔ وہ اٹھ گئی۔

فون کی گھنٹی بجی تھی اور کیپٹن فیاض نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا تھا۔ دوسری طرف سے جانی پہچانی سی نسوانی آواز آئی تھی۔!" مم میں ایک دشواری میں پڑ گئی ہوں کیپٹن۔!"
"آپ کون ہیں!" فیاض نے پیشانی پر بل ڈال کرپوچھا۔
"ڈاکٹر زہرہ جبیں"
"اوہ۔۔۔ ہیلو ڈاکٹر۔۔۔۔کیا پریشانی ہے۔۔۔۔؟"
"شش شاید۔۔۔۔ میں گرفتار کر لی جاؤں۔۔۔!"
"خیریت۔۔۔۔؟"
"ایسی ہی کچھ بات ہے! کیا آپ میری ڈسپنسری تک آ سکیں گے۔!"
"میں پہنچ رہا ہوں لیکن بات کیا ہے؟"
"دوا خانہ بند کر کے سیل کیا جا رہا ہے اور تفتیش کرنے والے آفیسر کے تیور اچھے نہیں ہیں۔!"
"کیا کوئی مریض غیر متوقع طور پر مر گیا ہے؟"
"ایسی ہی کچھ بات ہے۔!"
"اچھا میں آرہا ہوں۔۔۔۔ ویسے وارنٹ کے بغیر تمہیں کوئی گرفتار نہیں کر سکتا۔کیا آفیسر کے پاس وارنٹ موجود ہیں؟"
"میں نہیں جانتی۔ لیکن خدا کے لئے آپ جلد پہنچئے۔!"
"میں آرہا ہوں۔" فیاض نے کہا اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو جانے کی آواز سن کر خود بھی ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ پھر وہ اٹھ کر آفس سے باہر آیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی محکمہ سراغ رسانی کے دفاتر کے کمپاؤنڈ سے سڑک پر نکل آئی۔
ڈاکٹر زہرہ جبیں اس کی خاص دوستوں میں سے تھی۔ خوش شکل اور پُر کشش عورت تھی۔
عمر تیس سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس وقت چالیس سے بھی متجاوز لگ رہی تھی۔ فیاض کو

مندرجہ بالا میں کن کن اصولوں کی بنیاد پر غلطیاں نکالی گئی ہیں۔
مثلاً :
"یہ میں بھول گئی تھی۔!" یاسمین کے لہجے میں کسی قدر تلخی پیدا ہو گئی۔
"مذہب!" وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔

میں کیا غلطی تھی؟

تاکہ آئندہ خیال رکھا جا سکے۔
 

جیہ

لائبریرین
تمہاری کو تمھاری ٹائپ کیا گیا تھا
لہٰذا کو لٰہذا
نظریۂ کو نظریہ
ہیلو کو ہلو
دوا خانہ کو دواخانہ
اظہارِ خیال کو اظہار ِ‌خیال
زیادہ کو زیادہ ٹائپ کیا گیا تھا

باقی غلطیاں جو کہ بہت عام ہیں وہ یہ ہیں
؟ کی جگہ !‌ ٹائپ کرنا، فقرے کی آخر میں سپیس دے فل سٹاپ ٹائپ کرنا اور اگلا فقرے کو فل سٹاپ کے بعد سپیس نہ دے کر شروع کرنا
ایک اہم غلطی یہ ہے کہ "اور" سے پہلے بے جا طور پر فل سٹاپ لگانا
 

ابو کاشان

محفلین
تمہاری کو تمھاری ٹائپ کیا گیا تھا
لہٰذا کو لٰہذا
نظریۂ کو نظریہ
ہیلو کو ہلو
دوا خانہ کو دواخانہ
اظہارِ خیال کو اظہار ِ‌خیال
زیادہ کو زیادہ ٹائپ کیا گیا تھا

باقی غلطیاں جو کہ بہت عام ہیں وہ یہ ہیں
؟ کی جگہ !‌ ٹائپ کرنا، فقرے کی آخر میں سپیس دے فل سٹاپ ٹائپ کرنا اور اگلا فقرے کو فل سٹاپ کے بعد سپیس نہ دے کر شروع کرنا
ایک اہم غلطی یہ ہے کہ "اور" سے پہلے بے جا طور پر فل سٹاپ لگانا

تمہاری کو تمھاری ٹائپ کیا گیا تھا۔ Accepted
لہٰذا کو لٰہذا Accepted
نظریۂ کو نظریہ Accepted
ہیلو کو ہلو ۔ صفحہ میں یہی لکھا تھا
دوا خانہ کو دواخانہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ دو الگ الگ الفاظ ہیں۔
اظہارِ خیال کو اظہار ِ‌خیال Accepted
زیادہ کو زیادہ ٹائپ کیا گیا تھا مجھے معلوم نہیں تھا ز اور ذ کا فرق

باقی غلطیاں جو کہ بہت عام ہیں وہ یہ ہیں
؟ کی جگہ !‌ ٹائپ کرنا(من و عن تحریر کیا تھا اس لئے، صفحہ میں یہی لکھا تھا)، فقرے کی آخر میں سپیس دے فل سٹاپ ٹائپ کرنا(ایسا کہیں ہے تو نہیں، ماوراء اور اعجاز انکل سے پوچھئےکہیں آپ کے براؤزر میں مسئلہ تو نہیں۔میں BBC AisaType Font استعمال کرتا ہوں۔اور محفل کے بکس میں ہی تحریر کرتا ہوں۔) اور اگلا فقرے کو فل سٹاپ کے بعد سپیس نہ دے کر شروع کرنا (کہیں کہیں ایسا ہے۔)
ایک اہم غلطی یہ ہے کہ "اور" سے پہلے بے جا طور پر فل سٹاپ لگانا (سمجھ نہیں آیا۔)

تحریر کے اصول و ضوابط ارسال کریں تاکہ پروفریڈنگ میں آسانی رہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

ابو کاشان ، میں ایک ٹیوٹوریل لکھ رہی ہوں مفصل پروف ریڈنگ پر جس میں کوشش ہے کہ تمام ممکنہ نکات شامل کیے جاسکیں ۔ آپ کی اور جویریہ کی پروف ریڈنگ پر یہ گفتگو بہت مفید ہے اور مذکورہ ٹیوٹوریل کے لیے بہت کار آمد ہے ۔ آپ کے ذہن میں جو بھی ممکنہ نکات ہوں یہاں درج کرتے رہیے ۔ شکریہ

میری کوشش ہے کہ میں جلد از جلد یہ ٹیوٹوریل مکمل کر سکوں ۔ یہ بھی واضح کر دوں کہ اس کھیل میں تحریر اور پروف ریڈنگ میں کسی بھی ٹیم / اراکین کے اسکور کی بنیاد ٹیم / ٹیم اراکین کی دلچسپی ، فعالیت وغیرہ پہلی ترجیح پر ہیں اور پہلی پروف ریڈنگ کی اغلاط نسبتاً ثانوی حیثیت پر ہیں ۔

۔
 

جیہ

لائبریرین
ہیلو کو ہلو ۔ صفحہ میں یہی لکھا تھا

ابو کاشان صاحب ، ضروری نہیں کہ اصل مسودہ میں کتابت اور ٹائپنگ درست ہو۔ ان سے بھی لکھنے میں اور پروف میں غلطیاں رہ جاتی ہیں۔ ہیلو کو عام طور پر ہیلو ہی لکھا جاتا ہے اسی وجہ سے میں نے میں نے "ہلو" کو "ہیلو" سے بدل دیا

دوا خانہ کو دواخانہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ دو الگ الگ الفاظ ہیں۔

جی بالکل دوا خانہ ایک مرکب لفظ ہے اس کے دونوں حصوں کو الگ الگ ہی لکھنا چاہئے


(؟ کی جگہ !‌ ٹائپ کرنا(من و عن تحریر کیا تھا اس لئے، صفحہ میں یہی لکھا تھا

بات یہ ہے جب کوئی سوالیہ فقرہ ہو تو ؟ ٹائپ کرنا چاہیے ۔ اصل کتاب میں ! ٹائپ کیا گیا یہ بالکل غلط ہے

)فقرے کی آخر میں سپیس دے فل سٹاپ ٹائپ کرنا(ایسا کہیں ہے تو نہیں، ماوراء اور اعجاز انکل سے پوچھئےکہیں آپ کے براؤزر میں مسئلہ تو نہیں۔میں Bbc Aisatype Font استعمال کرتا ہوں۔اور محفل کے بکس میں ہی تحریر کرتا ہوں۔ ( اور اگلا فقرے کو فل سٹاپ کے بعد سپیس نہ دے کر شروع کرنا (کہیں کہیں ایسا ہے۔)

سادہ سی بات ہے جب فقرہ ختم ہو تو فوراً بعد فل سٹاپ ٹائپ کرکے سپیس دے کر اگلا فقرہ شروع کریں۔

ایک اہم غلطی یہ ہے کہ "اور" سے پہلے بے جا طور پر فل سٹاپ لگانا (سمجھ نہیں آیا۔)

فل سٹاف (جسے ہم اردو میں وقفہ اور عربی میں وقفِ تام کہتے ہیں) اس وقت لکھتے ہیں جب فقرہ پورا ہوجائے۔ جب کوئی لفظ "اور" لاتا ہے تواس کا مطب ہے کہ کہنے والے کی بات ختم نہیں ہوئی (یعنی ابھی فقرہ مکمل نہیں ہوا )اور وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہے۔ لہذا یہ اصول یاد رکھیں کہ "اور" سے پہلے فل سٹاپ لگانا غلط ہے اسی طرح "لیکن" اور "مگر" سے پہلے بھی فل سٹاپ نہ لگائیں
 

ابو کاشان

محفلین
فل سٹاف (جسے ہم اردو میں وقفہ اور عربی میں وقفِ تام کہتے ہیں) اس وقت لکھتے ہیں جب فقرہ پورا ہوجائے۔ جب کوئی لفظ "اور" لاتا ہے تواس کا مطب ہے کہ کہنے والے کی بات ختم نہیں ہوئی (یعنی ابھی فقرہ مکمل نہیں ہوا )اور وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہے۔ لہذا یہ اصول یاد رکھیں کہ "اور" سے پہلے فل سٹاپ لگانا غلط ہے اسی طرح "لیکن" اور "مگر" سے پہلے بھی فل سٹاپ نہ لگائیں

اصل مِیں مَیں " اور " کو سمجھ رہا تھا۔
اب خیال رکھوں گا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




پانچواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

پانچواں : 16 - 17 | ٹیم ؟ | ابو کاشان | ماوراء | جویریہ | الف عین | 100%







 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top