علامہ دانش کے کارنامے (۵۔سونٹے والا بھوت)

سونٹے والا بھوت
معراج
ہم برما کے سفر سے واپس لوٹے تو میز پر کچھ خطوط پڑے ہوئے تھے۔ علامہ نے ان خطوط کو پڑھا۔ ایک خط ان کے مطلب کا نکل آیا۔ یہ کسی جن بھوت کے متعلق تھا۔ اتفاق سے علامہ دانش ان دنوں بھوتوں میں بہت دلچسپی لے رہے تھے۔ علامہ نے کہا، "ایک اور سفر کی تیاری کیجیے۔ اب ہمیں جنوبی افریقہ سے دعوت نامہ ملا ہے۔"
مرشد نے کہا، "جی بہت خوب! ارشاد فرمائیے۔"
علامہ بولے، "افریقہ کے جنوب مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ بہت سے جزیرے ہیں۔ ان میں سے بہت سے بالکل ویران اور غیر آباد ہیں۔ وہاں گھاس پھونس، سبزہ یا کسی قسم کی نباتات نہیں اگتی۔ وہاں سیل، پنگوئن، سمندری جانور اور پرندے رہتے ہیں۔ یہ جزیرے ڈوبتے اور ابھرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے اس علاقے میں جہاز رانی بےحد دشوار ہے۔ ان میں سے ایک جزیرہ والی رُو ہے۔ اس میں بےشمار غار ہیں۔ یوں سمجھو کہ جیسے اس جزیرے میں غاروں کا چھتا بنا ہوا ہے۔ اس سے پانچ میل دور ایک اور جزیرہ ہے۔ اس کا نام ریک ہے۔ یہاں ایک کمپنی نے اپنا ڈپو بنا رکھا ہے۔ اس کمپنی کے جہاز وہاں ٹھہرتے ہیں۔
جزیرہ والی رُو پہلے اچھا خاصا آباد تھا لیکن اب وہاں ایک بھوت نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کا قد بہت بڑا ہے، شکل بےحد خوفناک ہے اور جسم پر لمبے لمبے بال ہیں۔ وہ بہت زور زور سے چیختا چنگھاڑتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چھلانگیں لگاتا رہتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک موٹا سا سونٹا ہے۔ دن کے وقت وہ بھوت کہیں غائب رہتا ہے۔ رات ہوتے ہی وہ چیختا چنگھاڑتا ہوا باہر نکل آتا ہے۔ لوگوں میں اس کی موجودگی سے بےحد دہشت پھیلی اور وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے گئے۔ حکومت جنوبی افریقہ نے ہم لوگوں سے کہا ہے کہ ہم تحقیقات کریں۔"
میں نے ہنس کر کہا، "اس دفعہ ایک چیختے چنگھاڑتے بھوت سے ہمارا واسطہ پڑا ہے۔"
مرشد نے پوچھا، "وہاں جہاز اتارنے کے لیے کوئی مناسب جگہ بھی ہے یا نہیں؟"
علامہ بولے، "میرا خیال ہے وہاں جہاز اتارنا کافی مشکل کام ہوگا۔ جزیرے پر بےشمار پرندے ہیں۔ ان میں سے بعض تو اچھے خاصے بھاری بھرکم اور موٹے تازے ہیں۔ ان میں سے اگر ایک پرندہ بھی جہاز سے ٹکرا جائےتو تباہی یقینی سمجھو۔"
ہم جزیرہ والی رو میں پہنچے۔ کپتان مرشد نے بہت مہارت اور ہوشیاری سے جہاز کو پانی میں اتارا۔ پھر وہ اسے چلاتا ہوا خشکی تک لے گیا۔ ہم جزیرے کا جائزہ لینے کے لیے چل پڑے۔ ہم میں آزونا اور مرشد تو مسلح تھے۔ علامہ دانش کا وہی حلیہ تھا۔ ان کے سر پر عمامہ، پاؤں میں فل بوٹ تھے اور برساتی کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ کندھے پر کیمرا لٹکا ہوا۔
علامہ نے حکم دیا، "بھوت پر ہرگز گولی مت چلانا۔ میں اسے زندہ پکڑنا چاہتا ہوں۔ اگر ہم اسے پکڑ نہ سکے تو میں اس کی ایک تصویر ضرور اتارنا چاہتا ہوں۔"
جزیرے پر پرندوں نے انڈے دے رکھے تھے۔ ہم بہت احتیاط سے قدم رکھتے ہوئے ان کے گھونسلوں کے پاس سے گزرے۔ اگر غلطی سے کسی پنگوئن کے پاس قدم جا پڑتا تو وہ ٹھونگ مار کر بوٹی ہی نوچ لیتا۔
میں فطرتاً بزدل نہیں ہوں لیکن ایسی ویران و سنسان جگہ پر دل گھبرانے لگا۔ جب ہم قبرستان کے پاس سے گزرے تو ہم نے دیکھا کہ قبریں کھلی پڑی ہیں۔ مردوں کی ہڈیاں، ڈھانچے اور کھوپڑیاں ادھر ادھر بکھری ہوئی پڑی تھیں۔ یہ سب اسی مردم خور بھوت کی کارستانی تھی۔ یہ دیکھ کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ آزونا تو تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میں نے مرشد کی طرف دیکھا۔ وہ نہ جانے کس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ البتہ علامہ ڈھانچوں اور کھوپڑیوں کی کھٹاکھٹ تصویریں اتاررہے تھے۔
مرشد نے کہا، "یہاں جو کچھ ہے، وہ ہم دیکھ چکے۔ اب ہمیں جزیرے کی دوسری جگہوں کا جائزہ لینا چاہیے۔"
کافی دیر تک ہم نے کوئی نئی چیز نہیں دیکھی۔ ایک سیل میرے قریب آیا۔ اس کا ارادہ مجھ پر حملہ کرنے کا تھا۔ اگر اس جزیرے پر سیل کا شکار منع نہیں ہوتا تو میں اسے گولی مار دیتا۔
ایک پہاڑی کا چکر کاٹ کر ہم دوسری طرف پہنچے۔ ایک تنگ کھاڑی دور تک چلی گئی تھی۔ ہم نے جو کچھ وہاں دیکھا، وہ ہم الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے۔ وہ جگہ مذبح خانہ بنہ ہوئی تھی۔ ہر طرف خون بکھرا پڑا تھا۔ ساحل کی ریت خون سے سےخ ہورہی تھی۔ پہاڑی پر خون ہی خون تھا۔ ساحل کے ساتھ ساتھ سمندر کا پانی بھی خون سے لال ہورہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہاں خون کی ہولی کھیلی گئی ہو، لیکن خون کس کا تھا؟ دور و نزدیک کوئی زندہ یا مردہ چیز نہیں تھی۔ ہمیں وہاں صرف ایک جاندار مخلوق نظر آئی اور وہ تھی شارک۔ یہ شارکیں وہاں کافی تعداد میں موجود تھیں۔ پانی میں تیرتی ہوئی شارکوں کے پر دور دور تک نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا، "آپ نے پکنک کے لیے بہت خوب جگہ منتخب کی۔"
مرشد ہنس کر بولا، "نہانے کے لیے تو اس سے بہتر جگہ مل ہی نہیں سکتی۔ ایک غوطہ لگاؤ اور عدم آباد پہنچ جاؤ۔"
علامہ نے شارکوں کے دانت دیکھے تو ان کا رنگ بھی زرد پڑ گیا۔ وہ پریشان ہو کر بولے، "اللہ جانے یہاں کیا ہورہا ہے؟"
مرشد بولا، "بھوت اپنی سفاکی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایک بھوت اتنا قتل و خون نہیں کر سکتا۔"
یہ کہہ کر مرشد دو تین قدم آگے بڑھا۔ اس نے تازہ تازہ خون مین انگلی ڈبو کر اسے سونگھا۔ وہ کچھ نہیں بولا اور نہ ہم نے کچھ پوچھنا مناسب سمجھا۔ کہنے سننے کے لیے اب اور کیا باقی رہ گیا تھا؟ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اسی وقت جہاز میں بیٹھ کر واپس ہو چکا ہوتا۔ اس بھوت سے نمٹنا میرے بس کی بات نہین تھی۔
جب ہم جہاز پر پہنچے تو شام کا دھندلکا چھا رہا تھا۔ کپتان مرشد کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ مرشد نے کہا، "سب لوگ جہاز میں سوار ہوجائیں، ہمیں اسی وقت واپس چلنا ہے۔"
میں نے خوش ہو کر کہا، "بھئی واہ! تم نے تو میرے دل کی بات کہہ دی۔"
مرشد نے گھور کر میری طرف دیکھا اور بولا، "اس خوش فہمی میں مت رہو کہ ہم واپس جا رہے ہیں۔"
میں نے حیران ہو کر پوچھا، "کیا مطلب؟"
مرشد نے کہا، "میں جہاز کو یہاں سے اڑا کر لے جاؤں گا اور اسے جزیرے کے نزدیک ہی اتار کر واپس آجاؤں گا۔"
علامہ جزبز ہو کر بولے، "آخر اس کا مطلب؟"
کپتان مرشد نے کہا، "میں اس بھوت کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سیر و تفریح کے لیے یہاں آئے تھے اور دن بھر پکنک منا کر واپس چلے گئے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم یہاں آئے تو جہاز کے شور کی وجہ سے بھوت چوکنا ہوگیا۔ ممکن ہے کہ وہ کسی غار میں ہو اور ہماری سب حرکات دیکھ رہا ہو۔ جب وہ دیکھ لے گا کہ جہاز واپس چلا گیا ہے تو اسے اطمینان ہوجائے گا۔ وہ اپنے غار سے باہر نکلے گا اور بےفکر ہو کر گھومنے پھرنے لگے گا۔ بس میں یہی چاہتا ہوں۔"
علامہ خوش ہو کر بولے، "بھئی بہت خوب!"
مرشد نے اس منصوبے پر عمل کای اور جہاز کو دور لے جا کر پانی میں اتارا اور اسے چلاتا ہوا جزیرے کے نزدیک جھاڑیوں مین لے گیا اور اسے وہاں چھپا دیا۔ ہم چھپتے چھپاتے گاؤں میں داخل ہوئے۔ پہلے یہاں کافی رونق رہتی ہوگی۔ اب مکان خالی اور ویران پڑے تھے۔ ہم ایک ایسے کمرے میں چھپ گئے، جس میں چاروں طرف کھڑکیاں لگی ہوئی تھیں۔
رات کے پہلے وقت میں خاصا اندھیرا تھا، جب چاند نکل آیا تو ہر چیز صاف دکھائی دینے لگی۔ کوئی بارہ بجے کا عمل ہوگا کہ کپتان مرشد بہت آہستہ سے بولا، "وہ دیکھو، بھوت اس چوٹی پر کھڑا ہے۔"
ہم نے دیکھا، پہاڑی کی چوٹی پر ایک لمبا تڑنگا بھوت کھڑا تھا۔ اس کے سارے جسم پر لمبے لمبے بال تھے اور ہاتھ میں ایک موٹا سا سونتا تھا۔
علامہ نے آہستہ سے کہا، "آؤ اسے جا کر پکڑ لیں۔"
مرشد نے کہا، "کیا آپ نے اس کے ہاتھ مین سونٹا نہیں دیکھا؟ وہ سونٹا مار کر بھیجا نکال دے گا اور اگر ہم نے اسے گولی ماری تو قتل کے الزام میں دھر لیے جائیں گے۔"
تھوڑی دیر بعد وہ بھوت چلتا ہوا پہاڑی کی دوسری طرف چلا گیا اور ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
علامہ ہاتھ ملتے ہوئے بولے، "افسوس وہ بچ کر نکل گیا۔"
کپتان مرشد نے کہا، "آپ سب میرے پیچھے پیچھے آئیے۔ خبردار کوئی شور نہ ہو۔"
ہم چھپتے چھپاتے ہوئے اس طرف چلے جہاں بھوت گیا تھا۔ اس پہاڑی کے پیچھے ایک اور پہاڑی تھی۔ ہم نے اسے پار کیا۔ اس کے پیچھے تیسری پہاڑی تھی۔ ہم نے اسے بھی پار کیا۔ آہستہ آہستہ چلتے بلکہ رینگتے ہوئے ہمیں تین گھنٹے لگ گئے۔
اس تیسری پہاڑی کی چوٹی بہت اونچی تھی۔ نیچے ایک میدانی علاقہ تھا۔ ہم نے چوٹی سے جھک کر دیکھا۔ وہاں آگ جل رہی تھی۔ ہم حیران رہ گئے۔ مرشد نے پوچھا، "علامہ صاحب! کیا بھوت پریت آگ بھی جلاتے ہیں؟"
علامہ چڑ کر بولے، "مجھے کیا معلوم؟ آج تک کسی بھوت سے میرا واسطہ نہیں پڑا۔"
مرشد ہنکارا بھر کر بولا، "ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھوت آگ جلانا جانتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کے علاوہ بھی وہ بہت کچھ جانتا ہے۔"
میں نے پوچھا، "آخر بھوت کو آگ جلانے کی کیا ضرورت تھی؟"
مرشد ہنس کر بولا، "میرا خیال ہے کہ وہ آگ پر بھون بھون کے تکے کباب کھاتا ہے۔ ذرا صبح ہوجائے تو اس کی مزاج پرسی کرتے ہیں۔"
آزونا ستاروں کی طرف دیکھ کر بولا، "صبح ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہے۔"
دن نکلنے تک ہم اسی جگہ بیٹھے رہے۔ ہم نے پھر جھانک کر دیکھا۔ میں نے کچھ لوگوں کے بولنے کی آوازیں سنیں۔ کچھ دیر بعد چھے سات آدمی ایک چھوٹی سی کشتی کھیتے ہوئے ساحل پر آئے۔ میں نے مرشد کی طرف دیکھا۔ وہ یوں اطمینان سے بیٹھا ہوا تھا کہجیسے اسے سب باتوں کا پہلے سے علم تھا۔
وہاں کوئی گڑبڑ ضرور تھی لیکن کیاِ؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ وہ لوگ ایک غار میں گئے اور وہاں سے کسی چیز کے بنڈل اٹھا کے لائے اور انہیں ایک جگہ ڈھیر کردیا۔
علامہ نے پوچھا، "یہ لوگ کون ہیں؟"
کپتان مرشد کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ وہ بالا، "یہ لوگ سیل کے شکاری ہیں اور سیل کا ناجائز شکار کرتے ہیں۔"
علامہ نے پوچھا، "تمہارا مطلب ہے کہ ان بنڈلوں میں کھالیں ہیں؟"
مرشد نے کہا، "آپ جانتے ہیں کہ اس علاقے میں سیل کا شکار کرنا منع ہے۔ یہ لوگ ایک جزیرے سے یہاں شکار کھیلنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ سونٹے والا بھوت ان کا کارندہ ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ لوگوں کو خوفزدہ کر کے یہاں سے دور رکھے۔ جب میں نے خون دیکھا تو مجھے اسی وقت شبہ ہوگیا تھا کہ یہاں سیل کو زبح کیا جاتا ہے۔ اگر سیل کو گولی مارتے تو سیل کی کھال میں سوراخ ہوجاتا اور وہ بےکار ہوجاتی۔ اس لیے اسے سونٹے مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس کی کھال اتار کرگوشت سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ اسی لیے اس جگہ شارک مچھلیاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔"
یہ کہہ کر مرشد تیزی سے پہاڑی سے نیچے اترنے لگا۔ وہ سیدھا اس جگہ پہنچا جہاں شکاریوں کی کشتی کھڑی تھی۔ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور کشتی کے پیندے پر دے مارا۔ اس میں ایک بڑا سوراخ ہوگیا۔ کشتی فوراً ہی پانی میں ڈوب گئی۔ اس نے خوشی سے چہک کر کہا، "لیجیے ان کا کھیل ختم ہوا۔ اب وہ جزیرے پر قیدی ہیں۔"
کچھ دیر بعد شکاری، کھالوں کے بنڈل اٹھا کر کشتی کی طرف لے چلے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس جگہ لے گئے جہاں کشتی موجود تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ کشتی غائب ہے تو انہوں نے بہت شور مچایا۔ انہوں نے ڈوبی ہوئی کشتی کو باہر نکالا۔ جب انہوں نے دیکھا کہکشتی کے پیندے میں سوراخ ہے تو انہیں یقین ہوگیا کہ جزیرے پر کوئی اور بھی موجود ہے۔ انہوں نے ریوالور نکال لیے اور ہماری تلاش میں ادھر ادھر چل دیے۔
ہم نے بہت ہوشیاری سے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔ مرشد نے اونچی آواز میں کہا، "اپنے ہتھیار پھینک دو، تم ہمارے گھیرے میں ہو۔"
یہ کہتے ہی اس نے ایک ہوائی فائر بھی داغ دیا۔ وہ لوگ دھماکے سے اچھل ہی پڑے۔ انہوں نے مجبور ہو کر اپنے ہتھیار پھینک دیے اور ہاتھ اونچے کر کے کھڑے ہوگئے۔
ادھر ہمارے افریقی ملازم آزونا نےوائرلیس کے زریعہ سے جنوبی افریقہ کی حکومت کے بحری افسروں سے رابطہ قائم کیا۔ انہوں نے فوری طور پر دو موٹر لانچیں روانہ کردیں۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد ہم نے ان مجرموں کو جرم کے ثبوت یعنی کھالوں کے بنڈلوں سمیت پولیس کے حوالے کر دیا۔
ان میں سے ایک سرکاری گواہ بن گیا۔ اس نے ساری حقیقت کا انکشاف کردیا۔ ان نے کہا، "دوسرے جزیرے پر جہازراں کمپنی نے جو ڈپو بنا رکھا تھا، وہ صرف حکومت کو دھوکا دینے کے لیے تھا۔ ورنہ وہ کمپنی دو سال سے سیل کا ناجائز شکار کر رہی تھی۔ اگر علامہ دانش دخل اندازی نہ کرتے تو یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا۔"
ان لوگوں نے بہت سوچ سمجھ کے منصوبہ بنایا تھا۔ جزیرے پر رہنے والوں کی موجودگی میں سیل کا شکار کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے جزیرے کے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر بھگا دینے کا منصوبہ بنایا۔ اس کام کے لیے انہوں نے ایک لمبا تڑنگا حنشی ملازم رکھا۔ اسے بالوں والا لباس پہنایا۔ وہ دن بھر کسی غار میں چھپا رہتا اور رات کے وقت باہر نکلتا۔ اسے حقیقی رنگ دینے کے لیے وہ ٹیپ ریکارڈر سے چیخوں اور چنگھاڑوں کی بہت خوفناک آوازیں نکالتا۔
یہ تھی اس سونٹے والے بھوت کی حقیقت، جسے جان کر علامہ دانش کو بہت مایوسی ہوئی۔ کپتان مرشد بھی اتنا ہی رنجیدہ اور مایوس تھا۔ حکومت نے ہمارے اس کارنامے کی تعریف کی اور ہمیں انعام و کرام سے نوازا۔ علامہ دانش کو ملک کا سب سے بڑا قومی اعزاز اسٹار آف افریقہ میرا مطلب ہے ستارہ افریقہ عطا کیا گیا۔ اس کے ساتھ ایک لاکھ روپے کا انعام بھی تھا۔
مجھے، آزونا اور مرشد کو بھی حکومت نے انعامات عطا کیے۔ علامہ آج بھی کسی بھوت پریت سے ملنے کے لیے اتنے ہی آرزومند ہیں۔
 
Top