علامہ دانش کے کارنامے (۴ ۔ چمکنے والے پھول)

علامہ دانش کے کارنامے
معراج
ہمدرد نونہال (اکتوبر ١٩٨٧ ء)
Xc7pT.png
۴ ۔ چمکنے والے پھول

علامہ دانش سے بہت دنوں تک ملاقات نہیں ہوئی۔ ہم ان سے ملنے اور کوئی نیا معرکہ سرانجام دینے کے لئے بے تاب تھے۔ علامہ کے پاس نت نئی خبروں کا ذخیرہ رہتا تھا، لیکن وہ کسی مہم پر جانے سے پہلے اس خبر کے متعلق پوری تحقیق کرکے معلومات ضرور حاصل کیا کرتے ۔ آخر ایک دن علامہ ہمارے دفتر میں پہنچے۔ ہم نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ علامہ نے اپنا بیگ کھول کر ایک اخبار کا تراشہ نکالا اور بولے، "برما کے شمال مشرقی حصے میں جنگل کے اندر ایک جھیل ہے، جس کے درمیان ایک ٹاپو (جزیرہ) ہے۔ اس جزیرے میں ایسے پھول کھلتے ہیں، جن کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ یہ پھول رات کے وقت چمکتے ہیں اور ان سے اچھی خاصی روشنی خارج ہوتی ہے۔"
کپتان مرشد نے مسکرا کر کہا، "آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ہم نے تو کبھی نہیں سنا کہ پھولوں سے روشنی نکلتی ہو۔"
علامہ سنجیدگی سے بولے، "شروع میں تو مجھے بھی اس بات پر یقین نہیں آیا۔ میں نے حکومت برما سے خط و کتابت کی۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔" علامہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئے اور کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ پھر بولے، "رات کے وقت جگنو کو چمکتے ہوئے آپ نے دیکھا ہے۔ کچھ مچھلیاں بھی چمکنے کی خاصیت رکھتی ہیں۔ بعض پودے ایسی گیسیں خارج کرتے ہیں، جو ہوا میں ملنے سے چمک پیدا کرتی ہیں۔ بعض سبزیوں میں فاسفورس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، چنانچہ جب وہ سبزیاں گلتی سڑتی ہیں تو ایسی گیسیں خارج کرتی ہیں، جن میں فاسفورس کی کچھ مقدار ہوتی ہے۔ یہ فاسفورس ہوا میں جلتا ہے تو روشنی پیدا ہوتی ہے۔"
میں نے کہا، "کیا اس قسم کی روشنی کے لئے فاسفورس کی موجودگی ضروری ہے؟"
علامہ سر ہلا کر بولے، "بالکل صحیح، دراصل فاسفورس کے معنی ہیں، 'میں چمکتا ہوں'۔ ایسی روشنی کے لئے فاسفورس کی موجودگی یقینی بات ہے۔ میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ پودے فاسفورس کی گیس خارج کرتے ہیں یا پھر ان کے پھولوں میں فاسفورس کی مقدار موجود ہے۔
آزونا قہوہ لے آیا، ہم قہوہ پینے میں مصروف ہو گئے۔
اگلے ہفتے ہم برما پہنچے۔ برما کے جنگلوں میں بہت سی جھیلیں ہیں۔ ان میں صحیح جھیل کا تلاش کرنا بےحد دشوار ثابت ہوا۔ وہاں کے لوگ بےحد وہمی اور ڈرپوک نکلے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ جب ہم جھیل کے نزدیک پہنچتے تو لوگوں کی زبان گنگ ہوجاتی۔ وہ ہمیں کچھ بتانے سے بچتے اور ڈرے سہمے ہوئے رہتے۔ جب ہم جھیل سے بہت دور نکل جاتے تو ہمیں جھیل کے بارے میں سنی سنائی باتیں بتاتے۔ ہم بہت دقت اور دشواری کے بعد اس جھیل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ جھیل کے آس پاس دور دور تک کوئی شخص نظر نہیں آتا تھا۔ وہاں مکانات تو موجود تھے، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہاں لوگ آباد تھے لیکن جب پھولوں سے روشنی نکلنے لگی تو وہ اسے روحوں کا کارنامہ سمجھ کر خوف زدہ ہو گئے اور وہاں سے بھاگ گئے۔
جھیل کے درمیان ایک ٹاپو تھا۔ اس میں ایک ٹوٹا پھوٹا مندر تھا۔ شاید یہاں بھی خوب چہل پہل رہتی ہوگی لیکن اب ویرانی کا دور دورہ تھا۔
ہم نے ایک مناسب جگہ دیکھ کر جہاز کو جھیل میں اتارا۔ میں جھیل کی خوبصورتی کو کیسے بیان کروں۔ نیلگوں پانی میں ابھرا ہوا جزیرہ انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑا ہوا نظر آتا تھا۔ جزیرے میں سبزہ بہت تھا۔ طرح طرح کے پھولدار پودے تھے۔ ناریل کے درخت جھرمٹ کی شکل میں جگہ جگہ تھے۔ شاید آپ اس منظر کو بہت خوبصورت اور دلکش سمجھتے ہوں گے۔ ذرا مجھ سے پوچھ کر دیکھئے تو میں بتاؤں کہ اس خوبصورتی کے ساتھ مچھروں کی کثرت، خون چوسنے والی جونکیں، زہریلی مکڑیاں اور خوف ناک سانپوں کے علاوہ بے شمار کیڑے مکوڑے بھی تھے۔ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا تھا، لیکن ہم تحقیق کے شوق میں نکلے تھے۔ ہمیں اپنی جان کی کوئی فکر اور پروا نہیں۔
مرشد نے کہا، "مجھے تو یہاں وہ پھول نظر نہیں آئے۔"
علامہ بولے، "یہ پھول رات کو چمکتے ہیں، اس لئے دن میں نظر نہیں آتے۔"
میں نے اکتا کر کہا، "میں بہت تھک گیا ہوں، میں جہاز پر واپس جاکر کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔"
آزونا اور مرشد نے بھی میری بات کی تائید کی۔ ہم سب جہاز پر واپس پہنچے۔ ہم نے چائے پی۔ کچھ دیر آرام کیا پھر رات کا اندھیرا چھانے لگا۔ آزونا کھانا لے آیا۔ ہم سب کھا پی کر فارغ ہوئے۔ علامہ اپنی کوئی داستان دھرانے لگے۔ اس دلچسپ گفتگو میں خاصی رات بیت گئی۔
علامہ دانش بولے، "پھولوں کی روشنی دیکھنے کے لئے یہ وقت بہت اچھا ہے۔"
کپتان مرشد نے کہا، "معاف کیجئے گا۔ شاید آپ بھول گئے ہیں کہ یہ جنگل جہاں دن کے وقت خاموشی طاری رہتی ہے، رات کے وقت کچھ قسم کے جانور ، سانپ، چھپکلیاں اور دوسرے حشرات (کیڑے مکوڑے) کھانے پینے کی تلاش میں باہر نکلتے ہیں۔ مجھے رات کی تاریکی میں جنگل کی سیر کرنے کا شوق نہیں۔"
میں نے بھی کپتان مرشد کی تائید کی اور کہا، "ممکن ہے کوئی اس اندھیرے میں سانپ یا بچھو پر پاؤں رکھ دے یا کہیں سے کوئی تیندوا نکل آئے۔ ان دریاؤں میں مگرمچھ بھی پائے جاتے ہیں۔"
علامہ فکر مند ہو کر بولے، "پھر کیا کیا جائے؟ تم ہی کوئی ترکیب بتاؤ۔"
کپتان مرشد نے کہا، "اس وقت تو سب لوگ سوجائیں۔ دن نکلنے سے ایک گھنٹہ پہلے ہم جزیرے پر چلیں گے۔ ایک گھنٹے میں ہم کافی گھوم پھر لیں گے۔ اس کے بعد سورج نکل آئے گا تو ہم اپنا کام ختم کرکے واپس لوٹیں گے۔"
سب نے اس بات کو پسند کیا۔ ہم سب سوگئے۔ صبح ہونے سے ٹھیک ایک گھنٹے پہلے الارم بجنے لگا۔ ہم سب اس مہم پر چل دئیے۔ سب سے آگے کپتان مرشد تھا۔ اس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی۔ اس کے پیچھے ہم سب تھے۔ ہر ایک کے پاس ضروری سامان تھا۔ راستے میں کوئی خاص بات پیش نہیں آئی۔ چوہے اور دوسرے جنگلی جانور ہمارے قدموں کی چاپ سن کر جھاڑیوں میں گھس جاتے۔ آخر ہم اس ویران مندر تک جا پہنچے۔ اچانک کپتان مرشد ٹھہر گیا اور غور سے مندر کی طرف دیکھنے لگا۔ کوئی بات ضرور تھی جو اس کی سمجھ نہ آ رہی تھی۔ ہم نے بھی مندر کی طرف دیکھا۔ وہاں عجیب ہی منظر تھا۔ مندر عجیب سی روشنی میں نہایا ہوا تھا۔ یہ پراسرار روشنی کنول کے ان پھولوں سے نکل رہی تھی، جو مندر کے آس پاس اگے ہوئے تھے۔
یہ پھول بھی انوکھے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ پھول شفاف کاغذ کے بنے ہوئے ہوں اور ان کے اندر دور کہیں بلب روشن ہو۔ جن سے نیلی پیلی شعاعیں پھوٹ رہی ہوں۔ ان پھولوں کی ہر پتی سے روشنی خارج ہو رہی تھی۔ ان کی ٹہنیاں اور ڈنٹھل نظر نہیں آ رہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ پھول ہوا میں تیر رہے ہوں۔
علامہ دانش نے جب یہ منظر دیکھا تو ان کے منہ سے خوشی کی آواز نکلی۔ وہ دوڑتے ہوئے پھولوں کے پاس پہنچے۔ انہوں نے پھولوں کو پکڑا اور انہیں غور سے دیکھنے لگے۔ پھر انہوں نے پھولوں کو سونگھا۔ اچانک وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہٹے۔ پھولوں سے عجیب طرح کی بدبو نکل رہی تھی۔ یہ سڑے ہوئے انڈوں کی طرح تھی، بلکہ اس سے بھی زیادہ بری۔ اس بدبو سے مجھے متلی ہونے لگی۔ ایسی بدبو مردم خور (انسانوں کو کھانے والے) پودوں اور صراحی دار پودوں سے آتی ہے۔
جونہی علامہ دانش کی طبیعت ٹھیک ہوئی وہ پھر ان پھولوں کے پاس جا پہنچے اور ان کا مطالعہ کرنے لگے۔ میں، آزونا اور مرشد تو دور دور سے ہی ان پھولوں کا نظارا کرتے رہے۔ ہم پھولوں کے پاس جاکر کیا کرتے؟ کچھ دیر بعد اس روشنی کو دیکھ دیکھ کر طبیعت اکتا گئی۔ بدبو کی وجہ سے مجھے متلی ہونے لگی، لیکن علامہ کے ذوق و شوق کا وہی عالم تھا۔ وہ اس اہم دریافت پر کوئی تقریر فرما رہے تھے۔ انہوں نے ایک پھول توڑا، اس کی روشنی اچانک جاتی رہی۔ انہوں نے ٹارچ کی روشنی میں پھول کا معائنہ کیا۔ اس کی پتیاں گندے اور ردی کاغذ جیسی تھیں۔ علامہ نے نفرت سے کہا، "اس پودے کے چپچپے عرق سے میرے ہاتھ خراب ہو گئے ہیں۔ آزونا ذرا پانی لاؤ تاکہ میں اپنے ہاتھ دھو سکوں۔"
ہم نے ٹارچ کی روشنی میں دیکھا۔ علامہ کے ہاتھوں پر گاڑھا، سرخ اور چپچپا عرق لگا ہوا تھا۔ میں تو یہ سمجھا کہ علامہ کا ہاتھ زخمی ہوگیا ہے۔ علامہ بھی یہ دیکھ کر گھبرا گئے۔ انہوں نے جلدی جلدی گھاس اور پتوں سے یہ عرق پوچھا اور ہاتھوں کو صاف کیا۔
کپتان مرشد نے تجویز پیش کی کہ ہمیں جو دیکھنا تھا وہ دیکھ لیا، اب ہمیں واپس جہاز پر جانا چاہئے۔ سورج نکلنے کے بعد ہم دوبارہ یہاں آ جائیں گے۔
علامہ دانش بولے، "میں خالی ہاتھ واپس جانا پسند نہیں کرتا۔ میں کچھ پودے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ پھولوں کے چمکنے کا راز پودے کی جڑوں میں پوشیدہ ہے۔"
علامہ دانش کی بات ہمیں ٹھیک معلوم دی۔ ہم نے چاقو سے زمین کھودنی شروع کی، لیکن پودوں کی جڑیں تو بہت گہری تھیں۔
اب اچھا خاصا اجالا ہوگیا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ پھولوں کی چمک بھی ماند پڑتی جا رہی تھی۔ علامہ دانش بہت غور سے اس تبدیلی کو دیکھ رہے تھے۔ جوں ہی سورج نکلا، پھول مرجھا گئے کچھ پھول تو جھڑ کر گر پڑے۔
آزونا جہاز سے بیلچہ اور کدال لے آیا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس لوٹا اور زمین کھودنے لگا۔ وہ بہت دیر تک کھدائی کرتا رہا لیکن ان پودوں کی جڑیں بہت گہرائی تک چلی گئی تھیں۔
ہم اس صورتحال سے تنگ آچکے تھے۔ آزونا نے پوری قوت سے زمین میں بیلچہ مارا اور مٹی کی کافی مقدار نکال کر باہر پھینکی۔ یہ ٹھیک ہمارے قدموں کے پاس گری۔ جوں ہی یہ مٹی زمین پر گری، اس میں حرکت ہونے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے مٹی میں جان پڑ گئی ہو۔ ہم نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ بےشمار کیڑے ہیں، سرخی مائل بھورے رنگ کے۔ نہ جانے ان میں کس غضب کی طاقت تھی۔ یہ اپنے بدن کو سکیڑ کر ہوا میں چھلانگ لگاتے اورپانچ چھ فیٹ تک اچھلتے۔ ایک کیڑے نے کپتان مرشد کو کاٹ لیا۔ ایک قدر شناس کیڑا علامہ کی ناک سے چپک گیا۔ وہ چیخ مارکر دوڑے لیکن تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ علامہ اسی کیڑے کو ہاتھ میں پکڑے اس کا معائنہ فرمارہے تھے۔ ادھر آزونا نے ایک زوردار چیخ ماری۔ میں نے اسے کھینچ کر گڑھے سے باہر نکالا۔ اس کے پیچھے پیچھے سینکڑوں، ہزاروں کیڑوں کا ایک چشمہ بہتا ہوا چلا آرہا تھا۔ ہم پوری تیز رفتاری سے دوڑے۔ علامہ ابھی تک کیڑوں کے اس سیلاب کا مشاہدہ کررہے تھے۔ کپتان مرشد نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، "دوڑئیے اپنی جان کو بچانے کے لئے دوڑئیے۔ ورنہ یہ کیڑے ہمیں چٹ کرجائیں گے۔"
علامہ اور مرشد بھی ہمارے پیچھے پیچھے تیز رفتاری سے دوڑنے لگے۔ ہم نے پیچھے مڑکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ کیڑوں کی فوج بھی اسی تیز رفتاری سے ہمارے پیچھے چلی آرہی تھی۔ یہ دیکھ کر ہمارے اوسان خطا ہوگئے۔ ہم پھر اندھا دھند بھاگنے لگے۔ ذرا غور فرمائیے۔ ہم کس چیز سے ڈر کر بھاگ رہے تھے۔ وہ نہ خونخوار جانور تھا نہ دشمن کی فوج۔ یہ تو حقیر اور بے حقیقت کیڑے تھے۔
جب ہم پانی کے پاس پہنچے تو ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جلدی سے جہاز پر سوار ہوگئے۔ کپتان مرشد نے جہاز کا انجن چلایا اور اسے کنارے سے کافی دور لے گیا۔ ہم نے دیکھا کہ کیڑوں کی فوج پانی کے پاس جاکر ٹھہر گئی۔ کچھ دیر بعد دور دور تک کیڑے ہی کیڑے نظر آنے لگے۔
کپتان مرشد نے کہا، "علامہ صاحب، اب آپ ان پودوں کی جڑیں حاصل نہ کرسکیں گے۔"
علامہ افسوس سے بولے، "شاید تم ٹھیک ہی کہتے۔ ان لاتعداد کیڑوں سے نمٹنا ہمارے لئے مشکل، بلکہ ناممکن ہے۔"
ہم برما کے دارالحکومت رنگون گئے۔ وہاں ایک سرکاری افسر نے ہمیں بتایا کہ بہت عرصے پہلے یہ جزیرہ آباد تھا۔ پھر نہ جانے کہاں سے بہت سے مگرمچھ ادھر آگئے اور جزیرے کے لوگوں کو ہڑپ کرنے لگے۔ ایک پجاری نے مگرمچھوں کو پکڑنے کے لئے ایک گہرا گڑھا کھودا اور اس میں ایک بیل باندھ دیا۔ مگرمچھ اس گڑھے میں اترنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ گڑھا ان مکروہ صورت جانوروں سے بھر گیا۔ پجاری نے باہر نکلنے کا راستہ بند کردیا۔ وہ مگرمچھ گڑھے میں پھنس کر رہ گئے اور کچھ دن بعد وہیں مر کھپ گئے۔ ان کے مردہ جسموں سے سڑاند پھوٹنے لگی۔ لوگ اس بدبو سے گھبرا گئے اور جزیرہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد لوگوں میں یہ بعد مشہور ہوگئی کہ جزیرے میں روحیں رہتی ہیں۔
ہم اس مہم سے ناکام لوٹے۔ راستے میں علامہ دانش نے بتایا، "ان مگرمچھوں کے جسم گل سڑ کر کھاد بن گئے۔ اس میں فاسفورس کی بہت مقدار شامل تھی۔ یہی فاسفورس پھولوں میں چمکتا تھا۔ گلنے سڑنے کے عمل سے یہ لا تعداد کیڑے بھی پیدا ہوگئے۔"
میں نے کہا ، "مردہ مگرمچھوں، ان کیڑوں اور پھولوں میں کیا تعلق تھا؟ یہ بات میری سمجھ میں تو آئی نہیں اور وہ کنول کے پھول ٹوٹ تے ہی کیوں مرجھا جاتے تھے؟"
علامہ مسکرا کر بولے، "یہ معمّا تو ابھی تک میں بھی حل نہیں کرسکا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی اور سائنس دان اس راز کو حل کر لے۔"
٭٭٭
 
Top