علامہ اقبال کا شکوہ ، تیسرا بند

السلام علیکم​
علامہ اقبال کے شکوے کے اگلے بند کے ساتھ حاضر ہوں پسند فرمائیں۔​
3PP.jpg
تشریح
یا اللہ تیری ذات ازل سے موجود ہے(اور ہمیشہ رہے گی) مگر تیری وحدانیت کا پیغام ابھی دنیا میں تیری کسی بھی مخلوق کے ذریعے عام نہیں ہوا تھا( کہ اللہ نے انسان کو تشکیل دے کر اسی وجہ سے افضل مخلوق قراردیا اور فرشتوں کو آدم علیہ اسلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا کیوں کہ اللہ نے انہیں وہ علم سکھایا جو فرشتے نہیں جانتے تھے)۔اے سب سے مہربان اور شفیق ذات! یہ بھی ترا انصاف ہے کہ تیری وحدانیت کی خوشبو(ملت اسلامیہ) تب تک دنیا میں نہ آئی جب تک تیری بادِ نسیم(اسلام کی روح) نہ تھی۔اور اسی مقصد کے لیے تو نے توحید پرستوں کو دنیا میں ممتاز کیا جیسے ہم جو تیرے محبوب صلٰی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام لیوا جو تیرے اور تیرے رسولصلٰی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اطاعت گزار بنکر ملت اسلامیہ کو پھیلائیں تاکہ تیرا نام بلند ہو جس میں ہماری دلی تسلی تھی چاہئے گنوار اور جاہل ہمیں دیوانے کہتے(کافروں نے رسول کریمصلٰی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور انکی نئی امت کو ایسے ہی الفاظ سے بدنام کیا تھا)۔ یہاں علامہ اقبال توحید پرستوں کی افضلیت بتا رہے ہیں جن کا سلسلہ حضرت آدم علیہ اسلام سے شروع ہوا تھا اور جنوں نے ازل سے توحید کی شمع کو روشن کیا اور منور کرتے رہے اور جن کے وارث مسلمانِ عالم ہیں۔مراد ہے کہ اے اللہ ترے نام دنیا میں قائم ودوام رکھنے میں ہم مسلمان سر فرست ہیں۔
افتخار حسین کھوکھر
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب تحریر و تشریح
مگر آخری مصرعے میں موجود
"ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی ؟"
سوالیہ نشان مستور رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top