کمال احمد قادری
محفلین
علامہ اعظمی کے لطائف
معزز و مکرم احباب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ مزاح انسانی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ ہر شخص کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح سے فرحت طبع یا اپنے احباب و اقارب کے لیے مزاح کرتا ہے، یہاں تک کہ ہمارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی مزاح فرمایا۔ جیسا کہ ایک موقع پر ایک بوڑھی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: تم جنت کے بارے میں کیوں سوال کرتی ہو کوئی بوڑھی جنت میں نہیں جائے گی۔ یہ سن کر وہ بڑھیا غمگین ہوئی تو آپ نے تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بوڑھی عورتوں کو جوان کرکے جنت میں داخل کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے واقعات ہیں جن میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاح فرمایا۔
ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ مزاحیہ باتیں فرحت طبع کے لیے کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ مزاح میں بھی شرعی امور کا پاس و لحاظ ہو کہ مزاح میں، یا کسی بھی صورت میں شرع شریف کی مخالفت یا اس کا استخفاف ہرگز روا نہیں۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ لڑی بھی ہے۔ علامہ اعظمی صاحب کا نظریہ تفریح طبع اور خوش مزاجی میں دوسرے لوگوں سے بہت مختلف تھا۔ جیسا کہ بہت سے لوگ تفریحات اور مزاح کو بالکل اپنی شان کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ لیکن علامہ صاحب اپنی تصنیفات میں بھی لطائف کو خاص جگہ دیے کرتے تھے اور دوران تدریس بھی لطائف سنایا کرتے تھے۔
لطائف ارسال کرنے سے قبل مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کا مختصر تعارف بھی عرض کردوں تاکہ لڑی کے لطائف کا لطف دوبالا ہوجائے۔
علامہ اعظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نام عبد المصفی محمد ہے۔ آپ گھوسی ضلع مئو میں پیدا ہوئے۔ اس وقت گھوسی ضلع اعظم گڑھ کا حصہ تھا اسی نسبت سے اعظمی کہلائے۔ ابتدائی تعلیم وطن ہی میں ہوئی۔ مدرسہ حافظیہ سعیدیہ علی گڑھ یوپی سے سے فضیلت کی دستار سے نوازے گئے۔
تدریس: فراغت کے بعد منصب تدریس پر فائز ہوئے، ساتھ ہی فتوی نویسی کی خدمت بھی انجام دیتے تھے۔
ذوق سخن: زمانہ طالب علمی سے ہی شعر و شاعری کا ذوق تھا، نعت، قومی نظمیں اور غزل میں بھی طبع آزمائی کی۔لیکن کوئی مجوعہ کلام مطبوعہ نہیں۔
ایک اچھے مقرر اور واعظ بھی تھے اور تقاریر کی کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔ مختلف علوم دینیہ پر دسترس حاصل تھا۔ کچھ تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں
تصنیفات: (1) معمولات الابرار بمعانی الآثار (تصوف) (2) موسم رحمت (متبرک راتوں اور مبارک ایام کے فضائل میں۔۔۔ پہلی تصنیف) (3) اولیاء رجال الحدیث (4) مشائخ نقشبندیہ (5) روحانی حکایات (6) سیرت المصطفی ( سیرت نبوی پر مختصر مگر جامع کتاب) (7) جنّتی زیور ( دختران اسلام کے لیے ایک مکمل تربیتی کورس۔ ہمارے یہاں تو شاید کوئی گھر ہو جہاں یہ کتاب نہ پائی جاتی ہو۔)
(کرامات صحابہ)
(9) قیامت کب آئے گی)
معزز و مکرم احباب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ مزاح انسانی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ ہر شخص کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح سے فرحت طبع یا اپنے احباب و اقارب کے لیے مزاح کرتا ہے، یہاں تک کہ ہمارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی مزاح فرمایا۔ جیسا کہ ایک موقع پر ایک بوڑھی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: تم جنت کے بارے میں کیوں سوال کرتی ہو کوئی بوڑھی جنت میں نہیں جائے گی۔ یہ سن کر وہ بڑھیا غمگین ہوئی تو آپ نے تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بوڑھی عورتوں کو جوان کرکے جنت میں داخل کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے واقعات ہیں جن میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاح فرمایا۔
ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ مزاحیہ باتیں فرحت طبع کے لیے کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ مزاح میں بھی شرعی امور کا پاس و لحاظ ہو کہ مزاح میں، یا کسی بھی صورت میں شرع شریف کی مخالفت یا اس کا استخفاف ہرگز روا نہیں۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ لڑی بھی ہے۔ علامہ اعظمی صاحب کا نظریہ تفریح طبع اور خوش مزاجی میں دوسرے لوگوں سے بہت مختلف تھا۔ جیسا کہ بہت سے لوگ تفریحات اور مزاح کو بالکل اپنی شان کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ لیکن علامہ صاحب اپنی تصنیفات میں بھی لطائف کو خاص جگہ دیے کرتے تھے اور دوران تدریس بھی لطائف سنایا کرتے تھے۔
لطائف ارسال کرنے سے قبل مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کا مختصر تعارف بھی عرض کردوں تاکہ لڑی کے لطائف کا لطف دوبالا ہوجائے۔
علامہ اعظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نام عبد المصفی محمد ہے۔ آپ گھوسی ضلع مئو میں پیدا ہوئے۔ اس وقت گھوسی ضلع اعظم گڑھ کا حصہ تھا اسی نسبت سے اعظمی کہلائے۔ ابتدائی تعلیم وطن ہی میں ہوئی۔ مدرسہ حافظیہ سعیدیہ علی گڑھ یوپی سے سے فضیلت کی دستار سے نوازے گئے۔
تدریس: فراغت کے بعد منصب تدریس پر فائز ہوئے، ساتھ ہی فتوی نویسی کی خدمت بھی انجام دیتے تھے۔
ذوق سخن: زمانہ طالب علمی سے ہی شعر و شاعری کا ذوق تھا، نعت، قومی نظمیں اور غزل میں بھی طبع آزمائی کی۔لیکن کوئی مجوعہ کلام مطبوعہ نہیں۔
ایک اچھے مقرر اور واعظ بھی تھے اور تقاریر کی کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔ مختلف علوم دینیہ پر دسترس حاصل تھا۔ کچھ تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں
تصنیفات: (1) معمولات الابرار بمعانی الآثار (تصوف) (2) موسم رحمت (متبرک راتوں اور مبارک ایام کے فضائل میں۔۔۔ پہلی تصنیف) (3) اولیاء رجال الحدیث (4) مشائخ نقشبندیہ (5) روحانی حکایات (6) سیرت المصطفی ( سیرت نبوی پر مختصر مگر جامع کتاب) (7) جنّتی زیور ( دختران اسلام کے لیے ایک مکمل تربیتی کورس۔ ہمارے یہاں تو شاید کوئی گھر ہو جہاں یہ کتاب نہ پائی جاتی ہو۔)
(کرامات صحابہ)
(9) قیامت کب آئے گی)
آخری تدوین: