علاقائی زبانیں ایک گلدستے کے پھول

زاہد حسن

ایک مشہور لوک گیت ہے جس کے شروع کے بول کچھ یوں ہیں:
’’میری مندری دے جا ماہیا میں وختاں نال بنائی آ
ایہہ مندری میری لے گیا چڑا، لاہور دیاں مینڈھیاں
پُشور دا کڑا، جالندھروں گُت کرائی آ، میری مندری دے جا ماہیا۔‘‘

لوک گیت کسی بھی خطّے کے لوگوں کے قدیم شعور کا لازمی جزو ہوتے ہیں. جن میں اس خطّے کے لوگوں کے رسم و رواج، بول چال، رہت بہت، موسموں، فصلوں، پہناوے، درختوں اور پرندوں کے مابین سانجھ کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں اس لوک گیت میں، لاہور، پشاور، اور جالندھر ہی سانجھے نہیں. مینڈھیاں، کڑا، گُت، مندری اور چڑا بھی مُشترک ہیں۔ اس لسانی اشتراک کو دیکھنے کے لیے اُس وقت کے تہذیبی و تمدنی اور ثقافتی معاملات کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی علاقائی زبانیں یہ لفظ علاقائی زبانین چونکہ کانفرنس میں ایک موضوعی علامت کے طور پر موجود ہے۔ اس لیے برت رہا ہوں ورنہ میرا تو یقین یہ ہے کہ ہماری زبانیں علاقائی نہیں، قومی حیثیت کی حامل ہیں کہ ہم اپنی شناخت علاقے سے بڑھ کر قوم کی حیثیت سے رکھتے ہیں یہ لفظ ’’علاقائی‘‘ بھی اُن قوتوں کا ایجاد کردہ ہے جنھوں نے ہمیں بانٹنے اور تقسیم کرنے کی کوشش کی۔

خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زبانیں ایک گُلدستے میں سجے خوبصورت پھولوں کے مانند ہیں. یہاں کے لوک گیت، لوک کہانیاں، لوک داستانیں اور کلاسیکی و صوفی شاعری بہم مربوط وہم آہنگ ہیں۔ ہیر رانجھا کی داستان اگر پنجاب کے نگر نگر میں مشہور ہے. تو سسّی پنوں کی داستان، سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں گائی اور پڑھی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر بردا پشاوری اور سچل سر مست کی شاعری وادیء سندھ کے ہر علاقے میں زبان زدِ عام ہے. تو احمد علی سائیں کے بیت پنجاب بھر کے عُشاق اپنی باتوں اور ملاقاتوں میں دہراتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے ماہرین لسانیات ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر قائم یہ ہزاروں سال کی تہذیب اپنے اندر لسانی سطح پر لفظی اور معنوی وحدت رکھتی ہے۔۔۔ آج ان زبانوں میں موجود اشتراکات پر کام کر کے اور انھیں سامنے لا کر اس میں مزید نکھار، وسعت اور وحدت پیدا کی جاسکتی ہے۔

سن ۱۹۴۰ء میں یعنی آج سے ٹھیک ستّتر (۷۷) برس قبل دانشور اور ماہرِ لسانیات ڈاکٹر بنارسی داس جین نے اپنی تصنیف ’’پنجابی زبان تے اوہدا لٹریچر‘‘میں ایک جگہ لکھا ہے۔
’’جس طرح انسانوں کے خاندان ہوتے ہیں۔ کسی خاندان کے جتنے منکھ ہوتے ہیں۔ وہ سبھی کے سبھی ایک دادے کی اولاد ہوتے ہیں. اسی طرح زبانوں کے بھی خاندان ہوتے ہیں۔۔۔ ایک خاندان کی جتنی زبانیں ہوتی ہیں. وہ سبھی ایک پرانی زبان سے نکلی ہوتی ہیں۔ ان میں ایک دوسرے سے ملتی جُلتی بہت سی باتیں پائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر کی زبانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ماہرینِ لسانیات نے اُنھیں کئی خاندانوں میں بانٹا ہے. سب سے مشہور خاندان انڈویورپین ہے. جس میں ایشیا اور یورپ کی بہت سی زبانیں شامل ہیں. مثلاً سنسکرت، فارسی، لاطینی، یونانی، جرمن، انگریزی وغیرہ۔ انڈویورپین کے علاوہ سامی (semitic) خاندان مشہور ہے۔ ان میں عربی، عبرانی اور سریانی وغیرہ زبانیں شامل ہیں۔ جہاں تک پنجابی کا تعلّق ہے. اسے ماہرین نے انڈویورپین خاندان کی آریا زبان بتایا ہے۔‘‘

جہاں تک پنجابی زبان کی بولیوں یا ڈائیسلکٹس کا تعلّق ہے اسے سات بڑے حصّوں یا خاندانوں میں بانٹا گیا ہے۔
۱۔ ماجھی: جو لاہور، امرت سر اور گورداس پور میں بولی جاتی ہے۔
۲۔ دوآبی: جو جالندھر، کپور تھلہ اور ہوشیار پور میں بولی جاتی ہے۔
۳۔ یوادھی: جو حصار، انبالہ، کلیر، نالندہ گڑھ اور پٹیالہ میں بولی جاتی ہے۔
۴۔ مالوی: جو فیروز پور، لدھیانہ، فرید کوٹ، مالیر کوٹلہ، پٹیالہ، نابھہ ، کلیر میں بولی جاتی ہے۔
۵۔ مغربی پنجابی:جو گجرات، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، راوی پار لاہور، منٹگمری یعنی ساہیوال اور بہاولپور میں بولی جاتی ہے۔
۶۔ بھٹیانی: اسے حصا اور بیکانیر کے راٹھے فیروز پور کے باگڑی اور راٹھور بولتے ہیں۔ جن کی تعداد دیگر بولیاں، بولنے والوں سے نسبتاً کم ہے۔
۷۔ ڈوگری: جو جموں اور کانگڑے میں بولی جاتی ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ پنجابی ایک وسیع و عریض خطّے کی زبان ہے. جس کی حدیں دِلّی سے لے کر خیر پُور سندھ اور پشاور سے لے کر جموں کشمیر تک پھیلی ہوئی ہیں اسی لیے تو چکوال کے مولوی محمد سلیمان نے ’’معراج نامہ کلاں‘‘ (۱۸۹۹ء) میں کہا تھا:
پشاور تھیں جمنا تائیں، چنبہ تھیں ڈیرہ
بولی سمجھن لوک پنجابی سچّا سخن ایہہ میرا

تاہم پنجابی کے بہت بڑے محقّق محمد آصف خاں کے کہنے کے مطابق:
’’بول چال کی زبان کے مقامی نام بہت سے ہیں، سندھ میں اس کو سرائیکی، پشاور میں ہند کو، جموں میں پہاڑی اور گوجری دلی کے قرب و جوار میں بوادھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کئی اور نام ہیں جیسے لہندی، ملتانی، ریاستی، پوٹھوہاری،دھنی، ماجھی، مالوی، دوآبی وغیرہ۔‘‘

اس رنگا رنگی کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ سب جگہوں پر بولی جانے والی بولیوں میں کی جاری شاعری میں ایک معاری لہجہ موجود تھا۔ جو پشاور سے لے کر رحیم یار خان تک قبول کیا گیا تھا۔ اور جس میں اب شعوری کوششوں کے ساتھ تبدیلی کا عمل جاری ہے۔۔۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کم و بیش پُورے پنجاب میں سبھی مذاہب کے ماننے والے لوگ موجود تھے. تاہم سکھ مذہب سے تعلّق رکھنے والی زیادہ آبادی مرکزی پنجاب میں موجود تھی اسی لیے مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ان کی لکھی گئی نثر بھی مرکزی پنجابی کے لہجہ اور محاورہ میں لکھی گئی۔ جب کہ شفقت تنویر مرزا صاحب کے کہنے کے مطابق پنجابی شاعری کے ساتھ ساڑھے سات سو برس کی لسانی روایت میں لہندی(مغربی) اور چڑھدی (مشرقی) پنجابی ایک دوسرے میں اس طرح پیوست تھیں. کہ انھیں کسی بھی اصول، ضابطے اور رواج کے مطابق الگ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ثبوت یہ ہے کہ آخری بڑے شاعرخواجہ غلام رسول (ہوشیارپور) میاں محمد بخش (میر پور) اور خواجہ فرید (ڈیرہ غازی خان)ایک دوسرے سے اتنے دور ہوتے ہوئے پنجابی کو کسی تعلیمی سطح پر نہ پڑھنے کے باوجود لسانی اعتبار سے اپنی اپنی شاعری میں ایک دوسرے کے بڑے قریب نظر آتے ہیں۔‘‘

میاں محمد بخش کے لفظوں میں اگر کہا جائے تو:
؂ شاعربہت پنجاب زمین وچ ہوئے دانش والے
مرزا صاحب نے پنجابی کو کسی تعلیمی سطح پر نہ پڑھنے کی بات کی ہے تو آپ کے علم میں یہ بات لانی بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ انڈین ایجوکیشن کمیشن (۱۸۸۲ء) مانسٹفورڈ ریفارم (۱۹۱۹ء) اور سارجنٹ سکیم (۱۹۴۷ء) میں بھی نظامِ تعلیم میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی مخالفت نہیں ملتی۔ ۱۹۴۷ء سے اب تک پاکستان میں کم و بیش پانچ تعلیمی کمیشن کمیٹیاں بٹھائی گئیں، جیسے تعلیمی کانفرنس ۱۹۴۷ء فضل الرحمن کمیشن، شریف کمیشن ۱۹۵۹ء، نئی تعلیمی پالیسی ۱۹۷۲ء قومی تعلیمی پالیسی ۱۹۷۹ء۔۱۹۷۸ء پریذیڈنٹ ٹاسک فورس۔ ان کی رپورٹیں بنانے اور پالیسیاں تیار کرنے میں بڑے بڑے ماہرین لسانیات موجود تھے۔ ان کی رپورٹس میں مادری زبان میں تعلیم دینے کی مخالفت نہیں کی گئی۔ بلکہ آخری دو رپورٹوں میں تو پہلی سے تیسری جماعت تک مادری زبان میں تعلیم دینے پر زور دیا گیا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ سب ممکن نہیں ہوپایا۔ احمد علی سائیں کے لفظوں میں اس میں شاید ہماری اپنی ہی کوتاہی شامل ہے:
ہیسیں جدوں کجھ ہون جوگا، تدوں ہوون دی تنوں نہ سار آئی
رہیا سانبھدا غیر زراعتاں نوں، اپنا فصل سنبھالن توں عار آئی
بے پرواہی وچ جھلیا اجاڑ بیٹھایں، تیرے عمل دی جو کشتکار آئی
ہن کیوں خزاں چ کرنایں تلاش سائیاں، پہلے سانبھیانہ جدوں بہار آئی

(گندھارا ہند کو بورڈ کے زیرِ تمام منعقدہ ’’چھٹی عالمی ہند کو کانفرنس ، پشاور‘‘ 8تا 10دسمبر 2017ء میں پڑھا گیا)

http://haalhawal.com/Story/23106
 
Top