عقیدت توڑ آئ ہوں عبادت چھوڑ آئ ہوں

عقیدت توڑ آئ ہوں عبادت چھوڑ آئ ہوں
محبت میں وفاؤں کی روایت چھوڑ آئ ہوں
کسی نے خواب کے بدلے میں حرمت مانگ لی مجھ سے
میں زندہ آنکھ میں مرتی وہ حسرت چھوڑ آئ ہوں
یہ ایسے زخم تھے مجھکو جو اپنی جا ں سے پیارے تھے
سدا رستے رہیں ، بھرنے کی نیت چھوڑ آئ ہوں
خودی کو بیچ دیتی تو مسرت مل بھی سکتی تھی
اٹھا کے درد کی گھٹری میں راحت چھوڑ آئ ہوں
خدایا تو تو لوگوں کی طرح قیمت نہ لے مجھ سے
اٹھا کے بدنصیبی کو میں نعمت چھوڑ آئ ہوں
لگی تھی آگ جب دل میں تو دامن کو بچاتی کیا
بہت انمول رشتوں کی بھی قربت چھوڑ آئ ہوں
اٹھا لائی ہوں خوابوں کے سبھی ٹکرے میں آنچل میں
بس اپنے خون سے لکھ کر عبارت چھوڑ آئ ہوں
کبھی ایسا بھی تھا اس شخص کی مجھکو ضرورت تھی
مگر رو رو منانے کی وہ عادت چھوڑ آئ ہوں,,,
فوزیہ شیخ
 
Top