عظیم منصوبے کا ڈبہ گول کیسے ہوا؟

جاسم محمد

محفلین
عظیم منصوبے کا ڈبہ گول کیسے ہوا؟
12/02/2019
اظہر سید



اسکیم تو یہ بنائی تھی کہ شہباز شریف سے ڈیل ہو گی، جماعت میں چوہدری نثار کا بھی ایک گروپ ہو گا۔ شہباز شریف کو مرکز میں وزارت عظمیٰ مل جائے گی، پنجاب میں ملغوبہ ہو گا۔ چینی شہباز شریف کے مرید ہیں۔ سی پیک کی سرمایہ کاری ہو گی۔ نہ نواز شریف ہو گا نہ مریم نواز شریف۔ گلیاں سنجیاں ہوں گی اور مرزا یار اکیلا پھرے گا۔

مرزا یار پہلے بھی تو پھرتا رہا ہے کبھی جنرل ایوب کے دور میں کبھی جنرل یحیی کے دور میں کبھی جنرل ضیا الحق اور کبھی جنرل مشرف کے دور میں۔ برا ہو نواز شریف کا اڑ گیا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے لگا۔ برا ہو چینیوں کا اپنی سرمایہ کاری روک دی۔ برا ہو شہباز شریف کا وزارت عظمی چھوڑ دی، بھائی سے بغاوت نہیں کی۔ نہ جماعت ٹوٹی نہ گروپ بنے۔

برا ہو نئے فخر کا، عجلت میں آپریشن کرنا پڑا۔ صرف پنجاب دینا تھا، مرکز بھی دینا پڑ گیا۔ انتخابات میں وہ ڈھنڈیا مچی ساری جیت کا مزا کرکرا ہو گیا۔ انگلیاں اٹھنے لگیں، آوازیں بلند ہونے لگیں۔ برا ہو منظور پشتین کا پختون قوم پرستی کو طاقت مل گئی۔ برا ہو سانحہ ساہیوال کا ساکھ داؤ پر لگ گئی۔ برا ہو پروفیسر ارمان کے قتل کا وہ بھی متھے لگ گیا۔ برا ہو نئے حکمرانوں کا، کوئی پروگرام ہی نہیں تھا۔ انتہائی اعلی نسل کے نکمے نکلے معیشت کا بھٹہ ہی بٹھا دیا۔

برا ہو ملک ریاض کا چکمہ دیا۔ پیسے لے کر آتا ہوں پانچ سو ارب کا وعدہ کیا۔ باہر جا کر کینسر میں مبتلا ہو گیا۔ دسمبر 2019 سے پہلے واپس آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اب کیا ہو گا؟ شہباز شریف نے نرمی ظاہر کی، حمزہ شہباز پتلی گلی سے نکل گیا۔ اب کیسے کسی کو دباؤ میں لائیں گے۔ نرمی کا جو جھانسا دیا، پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سربراہی دے دی۔ اب کمیٹی کی سربراہی واپس لیتے ہیں تو بھی مشکل نہیں لیتے تو بھی مسئلہ۔

برا ہو آصف علی زرداری کا سوچا تھا ڈیل اور ڈھیل کے چکر میں دو تین ارب ڈالر اس سے اور دو تین ارب ڈالر شہباز شریف سے، نواز شریف سے مل جائیں گے افسوس کچھ ہاتھ نہیں آیا نہ زرداری قابو میں آیا نہ شہباز شریف اور نہ ملک ریاض۔ کاش یہ پیسے دے دیتے، انہیں بدنام بھی کرتے اور اپنے نئے فخر کو ہیرو بھی بنا لیتے اور مزے ہی مزے ہوتے۔ مرزا یار ایک دفعہ پھر مزے مزے پھرتا۔

ہوا یہ کہ معیشت تباہ ہو گئی۔ حصص بازار ویران ہو گیا۔ برآمدات، ترسیلات زر سمیت کوئی معاشی ہدف حاصل ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ شرح سود بڑھ گئی، بجٹ خسارہ بڑھ گیا۔ کاروبار ختم ہو گئے۔ رئیل اسٹیٹ میں سناٹے چھا گئے۔ آٹو کی صنعت تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی۔ عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے ملکی معیشت کی ریٹنگ خراب کر دی۔ نوٹ نہ چھاپیں تو کیا کریں۔ محصولات میں پورے تین سو ارب روپیہ کے خسارے کا خدشہ ہے۔ ترقیاتی پروگرام میں تعطل کرنا۔ مجبوری ہے لیکن یہ کیا اس مجبوری کی وجہ سے تمام بڑی صنعتوں کی شرح نمو ہی متاثر ہو گئی ہے۔ روپیہ کی قدر میں 40 فیصد کمی ہو گئی۔ بجٹ کی ساری جمع تفریق براہ راست متاثر ہو گئی۔

آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں تو کیا کریں۔ ادائیگیوں کے توازن کے لئے دوست ملکوں نے صرف ٹھینگا دکھایا ہے اور جو پیسے دیے ہیں، وہ تو تین ماہ کے تجارتی خسارے کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ ملایشیا والوں نے پام آئل ادھار نہیں دیا۔ قطر والے ایل این جی ادھار دینے سے منکر ہیں۔ ترکی والوں سے تین ارب ڈالر کی امید تھی، انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ چینی چاہتے تو در در رسوا نہ ہونا پڑتا لیکن توبہ ہے، صاف انکار کر دیا۔

مسلہ اصل میں یہ ہے آئی ایم ایف پروگرام سے پہلے ایک بڑی ریٹنگ ایجنسی نے ملکی معیشت کی ریٹنگ کی ایسی تیسی کر دی ہے۔ اب آئی ایم ایف والے عجیب و غریب شرائط رکھ رہے ہیں۔ کہتے ہیں، دفاعی بجٹ کم کرو اور روپیہ کی قدر بھی۔ نئے ٹیکس لگانے اور تمام اقسام کی سبسڈی ختم کرنے کے مطالبات بھی کر رہے ہیں۔

کاش نواز شریف ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ نہ لگاتا۔ کاش شہباز شریف ہاتھ آجاتا۔ کاش چینی سرمایہ کاری نہ روکتے۔ کاش شریف خاندان، زرداری اور ملک ریاض سے سات آٹھ ارب ڈالر مل جاتے۔ جو تحفہ قوم کو دیا ہے، اسے ایک ہفتہ میں عدم اعتماد کی تحریک سے فارغ کر دیں لیکن کوئی ضد تو چھوڑے۔
 

فرقان احمد

محفلین
کسی حد تک تو صداقت ہو گی باقی سب افسانے معلوم ہوتے ہیں۔ دراصل تحریکِ انصاف کو اقتدار میں آنے کی جلدی تھی، مناسب ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا۔ خان صاحب کے بارے میں یہ امکان موجود تھا کہ وہ وزیراعظم بن سکتے ہیں تو پھر منصوبہ بندی کس قدر ہو سکتی تھی؟ کچھ بھی غیر متوقع نہ تھا۔ یہ تو ہو کر ہی رہنا تھا۔ اب خان صاحب کو پانچ سال دینے کے لیے سبھی تیار ہیں تاہم اس وقت بھیک مانگنے کی حد تک پارٹی اپنی بھرپور آنیاں جانیاں دکھا رہی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ اتنے گھمبیر چھ ماہ یا ایک سال میں حل ہونے سے رہے۔ ہر ایک کی نظریں خان صاحب پر جمی ہیں اور خان صاحب کا یہ عالم ہے کہ ان کو بار بار یقین دلانا پڑتا ہے کہ وہ اب کنٹینر سے اتر چکے ہیں اور سچ مچ کے وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں۔ اب اقتدار میں آئے ہیں تو آٹے دال کا بھاؤ بھی خوب معلوم ہو گیا! ہم تو اپنے احباب سے یہی کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت سے بہت زیادہ بہتری کی توقع نہ رکھی جائے کیونکہ انہیں پچھلی حکومت کی نسبت زیادہ بڑے مسائل درپیش ہیں۔
 
Top