عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۹۴
میں فوراً بول اتھا۔ "کون ننگ خاندان؟"
خدا کی پناہ! میرا یہ کہنا تھا کہ وہ پھٹ پڑے۔ "بدمعاش۔ بدتمیز۔ گردن زنی! کیا تیری موت آئی ہے؟"
میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا "خدا کے واسطے مجھے کچھ تو بتائیے۔۔۔"
"حرامزادے ناشدنی، بتاؤں تجھے۔ پھر بلاؤں پہلوان کو۔ چپ بدتمیز ناہنجار، عذر گناہ بدتر از گناہ۔ تو یہ سمجھتا ہے کہ تیرے سیاہ اعمالنامے سے کوئی واقف ہی نہیں ہے۔ عذر کرتا ہے! اپنی بدمعاشی پر بجائے ندامت کے پاجی پن کرتا ہے۔ تو نے ایسی خطا کی ہے کہ تجھے جیتا نہ چھوڑا جائے اور ۔۔۔"
میں تنگ آ گیا اور گھبرا کر میں نے کہا۔ "میں بالکل بے قصور ہوں۔ بے گناہ ہوں۔ مجھے معلوم تو ہو کہ میں نے کیا خطا کی ہے۔"
جواب میں غضب ناک ہو کر انہوں نے مجھے چانٹے اور تھپڑ مارنے شروع کئے اور بے حد غصہ ہو کر بولے۔ "ازلی۔ اگر ایک حرف تو نے منہ سے نکالا تو سمجھ لے کہ تیری موت ہے۔ تو نے ہماری عزت لی۔ آبرو لی۔ تو سمجھتا ہے کہ ہم بے وقوف ہیں کچھ جانتے ہی نہیں کل رات کو میرے بھائی نے جب وہ رات کو سینما دیکھ کر واپس آ رہا تھا خود اپنی آنکھوں سے تجھے دیکھا۔ جب تو تختہ پر ہو کر اپنے مکان نیں جا رہا تھا اور تو ہے کہ ہمیں بیوقوف بناتا ہے۔ پھر اس سے پہلے کی حرکتیں بھی سب آشکارا ہو چکی ہیں۔ بس۔ اب چپ رہ۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ تو نے ہماری عزت میں بٹہ لگایا۔ ہم طے کر چکے تھے کہ تجھے اور تیرے ساتھ اس ناشاد و نامراد ننگ خاندان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ یہ سب کچھ طے ہو چکا تھا۔ لیکں نہیں اب ہم ایسا نہ کریں گے۔ ہم نے یہ طے کیا ہے کہ اب اس ننگ خاندان کو شرع کے مطابق تیرے ہی سر تھوپیں۔ بس یہی علاج ہے کہ ابھی ابھی تیرا اس کے ساتھ نکاح کر دیں اور دونوں کو گھر سے نکال دیں۔ جاؤ کم بختو جہنم میں۔ ہمیں صورت نہ دکھانا۔ بولو کیا جواب دیتے ہو۔ اگر یہ بات منظور ہے تو خیر ورنہ تمہاری جان کی خیر نہیں۔"
میں نے کہا، "حضرت۔۔۔"
"بہ۔ بہ بس بس۔" سر ہلا کر وہ بولے۔ "میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔ مرے پہ درے۔ تو وہ مضمون کرنا چاہتا ہے۔ بدمعاش۔ ازلی۔ موذی۔ بدکردار۔ ناہنجار۔ فاسق۔ مردود۔"
آپ خود غور فرمائیں کہ میں کس مخمصے میں تھا۔ کیا معاملہ ہے اور یہ کون لڑکی ہے اور یہ مصیبت کیا ہے۔ پوچھتا ہوں تو بتاتے نہیں۔ مارنے کو دوڑتے ہیں۔ عذر کرتا ہوں تو کاٹے کھاتے ہیں۔ بولنے نہیں دیتے۔ مرتا کیا نہ کرتا "بیچارگی" والا مضمون تھا۔ میں عذر کرنے پر اور اپنا


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۹۵
خواب والا قصہ سنانے پر تلا ہوا تھا اور وہ اس پر تلے ہوئے تھے کہ میں جلدی سے ہاں کہوں۔ نوبت بہ این جا رسید کہ انہوں نے پہلوان کو آواز جو دی تو میں نے ان کے پیروں پر سر رکھ دیا کہ جو حضور کہیں مجھے سب منظور ہے۔ واقعی میں سخت خطاوار ہوں۔ پاجی ہوں، کمینہ ہوں۔ ناشدنی اور ناہنجار وغیرہ وغیرہ سب ہوں اور اس لائق ہوں کہ میری بوٹی بوٹی کر دی جائے۔ چنانچہ جب میں نے یہ رویہ اختیار کیا اور مردہ بدست زندہ ہونا قبول کیا تو وہ حضرت ذرا انسانیت پر آئے۔ اس خونی پہلوان کی نگرانی میں مجھے سپرد کر کے چلے گئے لیکن بہت جلد وہ واپس آئے اور مجھے اب لے جا کر دوسرے کمرہ میں بٹھایا۔ کوئی پندرہ بیس منٹ بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ ایک اجڑے سے قاضی صاحب آئے۔ ان کے سوال و جواب پر مجھے ایک نامعلوم خاتون حمید جہاں بنت احمد اللہ خاں صاحب مرحوم کو بعوض پندرہ ہزار روپے مہر کے اپنے نکاح میں برضا و رغبت لینا پڑا۔ میرے صیاد خود اس معاہدہ کے گواہ و شاہد تھے۔ بات چیت کا ذکر تک نہ ہوا۔ ایک خاموشی تھی۔ نکاح کے بعد ہی کوئی پندرہ منٹ بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ مجھ سے نیچے چلنے کو کہا گیا۔ مکان کے دروازے پر آیا تو ایک بند گاڑی کھڑی تھی اور اس میں کوئی برقعہ پوش خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ ایک چھوٹا سا ٹرنک اور ایک بستر اور ایک لوٹا تھا۔ ان ہی بڑے میاں نے چلتے وقت مجھے آگاہ کیا کہ اگر کہیں پھر میں اس شہر کے گرد و نواح میں بھی نظر پڑ گیا تو میری جان کی خیر نہیں۔ پہلوان صاحب میرے ستھ گئے کہ اپنے سامنے ہم دونوں کو کہیں دور کا ٹکٹ دلا کر دفان کر دیں۔ میں گاڑی میں برقعہ پوش کے سامنے بیٹھ گیا۔ پہلوان صاحب گاڑی کے اوپر بیٹھ گئے اور گاڑی چل دی۔ مگر گاڑی بمشکل دس قدم ہی چلی ہو گی کہ اس کا پٹ کھل گیا۔ بجلی کی طرح تڑپ کر پہلوان صاحب کود کر نیچے آئے۔ گاڑی رکی اور پہلوان نے آنکھیں نکال کر مجھے چاقو دکھایا اور کہا کہ مار ڈالوں گا اگر بھاگنے کی کوشش کی۔ میں نے نہایت نرمی سے کہا کہ میں ہرگز کہیں نہیں بھاگتا۔ دروازہ از خود کھل گیا۔ پہلوان نے اس کے جواب میں بہ نظر احتیاط دروازہ بند کیا اور میری طرف کی کھڑکی کھول کر پائیدان پر کھڑے ہو گئے اور اسی صورت میں گاری روانہ ہوئی۔
قصے کواس طرح مختصر سمجھئے کہ اسٹیشن آیا۔ نہ تو میرے پاس ٹوپی تھی اور نہ جوتا تھا اور نہ کوڑی پاس تھی۔ مگر میری نادیدہ زوجہ محترمہ نے ٹرنک میں سے ایک بھاری گڈی نوٹوں کی نکال کر دی۔ میں ایک سو کا نوٹ نکالا۔ میری بیگم صاحبہ نے علیحدہ زنانہ ڈرجہ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور واقعہ ہے کہ میں انہیں چھوڑ کر بھاگ جانے کے خطرناک مسئلہ پر غور کر رہا تھا اور وہ مجھے مشکوک نظروں سے دیکھ کر شاید میرے دل کا حال جان گئی تھیں۔ چنانچہ سیکنڈ کلاس کے دو ٹکٹ لئے گئے۔ ہم دونوں بیٹھے ہی تھے کہ دو مسافر اور آئے تو بیگم صاحبہ پھر اتھ کھڑی ہوئیں۔

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۹۶
میں نے وجہ پوچھی تو میرے کان میں انہوں نے کہا "فرسٹ کلاس۔" قصہ مختصر یہاں سے اتر کر میں نے فرسٹ کلاس میں انہیں بٹھایا۔ پہلوان صاحب نے دوڑ کر ٹکٹ بدلوائے۔ یہاں تنہائی تھی۔ میں نے اسٹیشن سے ایک گاندھی کیپ خریدی اور ایک چپل لی۔ جوتا ملا نہیں۔ گاڑی نے سیٹی دی۔ میں آ کر بیٹھ گیا۔ گاڑی چل دی۔
گاڑی اسٹیشن کے باہر بھی نہ ہوئی تھی کہ میری بیوی صاحبہ نے قدرے بدتمیزی اور بےباکی سے اپنا نقاب الٹ کر روئے روشن دکھاتے ہوئے کہا "یہ تم ہو" اور میرے منہ سے حیرت اور استعجاب کے عالم میں نکلا۔ "جنت!"۔۔۔
اب سوال یہ تھا کہ جنت نے مجھے سومنو مبولزم کے ذریعہ زیادہ دق کیا یا میں نے اسے زیادہ دق کیا۔ جوان بھتیجی کو ایک نہیں دس دفعہ چچی نے راتوں کو تنہائی میں مکان کی ویران چھتوں پر گھومتے دیکھا اور پکڑا مگر معمہ حل نہ ہوا۔ بالاخر چچا نے مجھے تختے سے واپس آتے دیکھا اور ادھر جنت کو چھت پر سے اترتے دیکھا۔ دوسرے ہی روز مجھے گھات لگا کر پکڑ لیا۔ چھوٹے چچا میری اور جنت کی جان لینے کو تیار تھے۔ بڑے چچا نے کہا۔ "نہین بدچلن لڑکی کا کوئی اور علاج نہیں۔" اور یہ علاج آپ نے دیکھ لیا۔

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۹۷
جنم قیدی
اے ری سکھی سیاں ارہر میں جھانکیں
شام کا سہانا وقت تھا۔ خوبصورت گدھے ریشمی کھیتوں میں کلیلیں کر رہے تھے۔ ان کی سریلی آوازوں کا پرکیف نغمہ ہوا میں ایک ارتعاش اور ترنم پیدا کر رہا تھا۔ گوبر اور سڑے ہوئے پتوں کی بھینی بھینی بدبو سے ہوا میں گرمی سی تھے۔ کیا ہی خوبصورت منظر تھا۔ ادھر کوڑے کے ڈھیر لگے ہیں۔ ادھر گوبر کے اونچے اونچے ٹیلے پہاڑوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ سامنے کچھ خوبصورت بھینسیں کیچڑ کے ملائم اوور کوٹ پہنے ٹہل رہی ہیں۔ ان کے بچے بھی کیچڑ کی خوبصورت جاکٹیں اور شلواریں پہنے ٹہل رہے ہیں۔ کیا ہی پرفضا اور روح پرور سماں ہے۔
سامنے ارہر کے سرسبز کھیت تھے۔ میری گاڑی کے پہئے کی سی خوبصورت آنکھیں اس مخملی کیچڑ کی طرف متوجہ تھیں جو میں اپنی نازک انگلیوں سے، ہاں نازک انگلیوں سے، یعنی ان انگلیوں سے جن پر چکی کے ملائم دسٹے کی رگڑ سے گٹے پڑ گئے ہیں وہ انگلیاں جن پر ناخن کا گول تاج ہے، وہ ناخن جن کے کناروں میں گائے کا گوبر ٹھنس کر اس طرح وہیں کا وہیں رہ گیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ناخن کے تاج پر سینگ کی گوٹ لگی ہے، ہاں تو میں اپنی انہیں حسین انگلیوں سے تال میں سے مخملی کیچڑ نکال نکال کر ایک ٹوکری میں رکھ رہی تھی کہ میری نظر ارہر کے کھیت کی طرف کسی سرسراہٹ کی وجہ سے متوجہ ہوئی۔ کچھ شبہ سا وہا کہ کوئی گائے یا بھینس یا کتا ہے مگر وہاں کچھ بھی نہ تھا۔
میں پھر اپنے دلچسپ کام کی طرف متوجہ ہو گئی۔ ایک دم سے میری کمر پر کوئی تین پاؤ وزنی مٹی کا ڈھیلا اس زور سے آ کر لگا کہ ٹوٹ کر کھیل کھیل ہو گیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ غور سے دیکھا کہ کون ہے؟ موٹی موٹی اٹھارہ انیس گالیاں دیں نامعلوم ڈھیلا پھینکنے والے کو نہایت ہی کھری کھری سنائیں مگر وہاں تو کوئی نہ تھا۔ میں پھر اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔
لیکن تھوڑی ہی دیر بعد کنوئیں کے رہٹ چلانے کا موٹا سا ڈنڈا میری اس نازک کمر پر آ کر
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 188 تا 197 ایم ایس ورڈ کی فائل منسلک ہے۔
 

Attachments

  • Azeem Baig P188 to 197.ZIP
    24.9 KB · مناظر: 2

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 396​
میں بیعانے کی رجسٹری کرالوں۔ اپنے مختار عام سے کہہ دوں گا۔"​
(5)​
مکان کا سودا سات ہزار پر میں نے بڑی دقت سے کرا دیا۔ روپیہ بھی ادا ہو گیا۔ مگر پانچویں روز رجسٹری شدہ دستاویز اور اس کا انگریزی ترجمہ جو میرے پاس پہنچا تو میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے۔ کیونکہ آپ یقین کریں کہ یہ تو سب میرے نام تھا۔ گویا میں نے خرید کیا ہے۔ اب میں کچھ سوچ میں پڑ گئی۔ کہیں یہ حضرت میرے اوپر عاشق تو نہیں ہو گئے۔ کہیں مجھ سے یہ شادی وغیرہ کے متمنی تو نہیں۔ معاً مجھے خیال گزرا کہ ہو نہ ہو ایسا ہی ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو بڑی مصیبت کا سامنا ہوگا۔ محسن ایک بہترین دوست ہے لیکن اس سے زائد کے مستحق اور نہ موزوں، کم از کم میرے لیے۔ اس معاملے پر سوچتی رہی۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں یہ خیالات دور ہو گئے کیونکہ اگر ان کا ایسا خیال ہوتا تو ناممکن تھا کہ ان کی حرکات و سکنات و عادات سے معلوم نہ ہو جاتا۔ کب کا علم ہو جاتا۔ کتنی بے تکلفی ہے۔ اگر یہ خیالات ہوتے تو ان کا چھپانا امر محال تھا۔ وجہ یہ کہ نہ تو ان کا کوئی دوست ہے اور نہ ساتھی۔ لہذا جو دم بھی میری معیت میں گزرتا ہے۔ وہ ان کو غنیمت معلوم ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب اپنا اطمینان کر چکی تو میں نے کس کر ایک خط مسٹر محسن کو لکھا اور صاف صاف لکھا کہ اس دستاویز کی تنسیخ کراؤ۔ انہوں نے زبانی جواب بجھوا دیا کہ شام کو ملوں گا تب بات چیت ہوگی۔​
شام کو وہ آئے تو بخدا میں پھٹ پڑی۔ جو منہ میں آیا وہ سنا ڈالا۔ مگر وہ بیٹھے داڑھی کریدا کئے۔ جواب دیا تو نہایت مختصر۔ یعنی یہ کہا " تمہی نے تو کہا۔"​
بگڑ کر میں نے کہا۔ " تو میں نے یہ کہا تھا کہ میرے نام سے خرید لینا۔"​
" تو پھر میں نے تو یہی بہتر سمجھا۔"​
"آخر کیوں بہتر سمجھا۔" میں نے برا مانتے ہوئے کہا۔ "مسٹر محسن اس کےمعنی یہ ہوئے کہ آپ تمام تعلقات منقطع کرنے پر تیار ہیں۔"​
"یا الہٰی۔" انہوں نے بھی تیز ہو کر کہا۔" آخر مصیبت کیا ہے۔ کیا تمہیں اندیشہ ہے کہ تم میرا روپیہ مار لوگی۔ کیا تمہارا ارادہ ہے کہ کسی آئندہ وقت میں کہہ دو گی کہ یہ مکان محسن کا نہیں میرا ہے۔ ہرگز نہیں۔ تو پھر کیا مصیبت ہے۔ تمہیں مکان پسند تھا۔ لہذا موجود ہے۔ جب جی چاہے روپیہ ادا کر دینا۔ کاغذات میں تمہارے حوالے کردوں گا۔ ادھر لاؤ کاغذ۔ ورنہ یہ لو کاغذ اور قلم اور لکھو جو میں لکھواؤں۔"​
میں نے کاغذ قلم لیا اور پوچھا۔ " کیا لکھوں۔"​
وہ بولے ۔ " لکھو، یہ مکان جو میرے نام رجسٹری ہوا ہے اور جو فلاں فلاں شخص سے یہ​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 397​
قیمت سات ہزار خریدا گیا ہے۔ یہ مکان دراصل میں نے نہیں خریدا ہے۔ بلکہ مسٹر محسن نے خریدا ہے اور اپنے روپے سے خریدا ہے اور مکان انہیں کا ہے۔ میرا نام رجسٹری میں محض اس وجہ سے ڈال دیا گیا ہے کہ مکان مجھے پسند ہے اور اگر کبھی میرے پاس روپیہ ہوا تو میں اسی قیمت پر مسٹر محسن سے خرید لوں گی۔"​
یہ عبارت لکھ کر انہوں نے کہا دستخط کرو۔ پھر خود ہی تصدیق کر دی اور کاغذ تہہ کرکے جیب میں رکھ لیا اور مجھ سے کہنے لگے کہ " بس اب تو ٹھیک ہے۔"​
میں نے کہا۔ " ہاں یہ ٹھیک ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر پھر بھی۔۔۔"​
بات کاٹ کر وہ بولے۔" اب پھر بھی وغیرہ کو جانے دو۔ معاملہ صاف ہو گیا۔ کاغذ خواہ اپنے پاس رکھو یا مجھے دے دو۔ بلکہ اپنے ہی پاس رہنے دو۔ میرےپاس تمہاری یہ تحریر آ گئی۔"​
میں اب راضی ہوگئی اور وہ سمجھانے لگے کہ تم یورپین ہو اور تعلیم یافتہ ہو کر اس قسم کی باتیں کرتی ہو۔ جب تمہارا ارادہ تھا اور مکان موقع سے مل رہا تھا تو میرے نام سے خریداری کرانا فضول تھا۔ مکان میرا ہے اور کرایہ تم مجھے ماہ بہ ماہ دیتی رہنا۔ پھر کہنے لگے کہ مکان چونکہ میرا ہے لہذا میں کیوں نہ اس میں ترمیم کراؤں۔ بلکہ تمہاری سہولت کے موافق کروادوں۔ میں نے کہا یہ تو بہت بہتر ہے۔ مکان والا مرمت نہیں کراتا تھا۔ بڑا پریشان کرتا تھا۔ فرش جگہ جگہ سے خراب ہے۔​
چنانچہ دوسرے ہی روز مکان کی مرمت اور ترمیم کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ اب انہوں نے کیا کیا کہ اپنے مکان کی آرائش کا سامان تمام خریدنا شروع کیا۔ خوبصورت اور قیمتی شیشے لگائے گئے۔ غسل خانہ اور دوسرے مقامات پر چینی کے فرش کا انتظام کیا۔ بڑے بڑے چینی کے حوض غسل خانہ میں مع آبگرے کے فٹ کئے جانے لگے۔ میں کیسے بولتی، پرائے مکان کے معاملے میں۔ پھر بڑی بڑی قیمتی تصویریں لگائی گئیں اور دس روپیہ کرایہ زائد کرنے پر یہ طے ہوا کہ سامان فرش فروش میں اپنا سب نیلام کردوں۔ مع پرانے فرنیچر کے اور اسٹول سے لے کر مسہری تک دکاندار کی ہو جائے۔ سودا اچھا تھا میں نے منظور کر لیا کہ اس طرح سامان نیلام کر دینے سے یک مشت رقم بھی کچھ مسٹر محسن کے قرضے کی طرف پہنچ جائے گی۔ سارے مکان کے لیے بالکل نیا اور بہترین فرنیچر منگا کر لگایا گیا۔ ہر قسم کی میزیں الماریاں آئینے وغیرہ سب آ گئے۔ جب سب درست ہو گیا تو ایک روز مسٹر محسن آئے اور بولے کہ دس روپیہ کرایہ اور بڑھنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ یہ میری حیثیت سے باہر ہو جائے گا۔ آپ سے کس نے کہا تھا کہ یہ سب ترمیمیں کیجئے۔ چنانچہ مسٹر محسن بھی مذاق ہی کر رہے تھے۔ لیکن مکان میرا دیکھنے سا تعلق رکھتا تھا۔​
اب یہاں میں یہ بھی ذکر کردینا چاہتی ہوں کہ عوام نہ معلوم میرے اور محسن کے بارے​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ398​
میں کیا کیا خرافات بکتے تھے۔ مگر میں نے کبھی اس طرف توجہ تک نہ کی۔ نہ ضرورت تھی کیونکہ اس قسم کے خرافات کی طرف توجہ کرنا بالکل فضول تھا۔​
(6)​
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں ایک مریضہ کو دیکھنے چکر والی سڑک کی طرف گئی۔ انہوں نے بلایا تھا۔ انہیں کا موٹر تھا۔ موٹر تیزی سے جا رہا تھا۔ راستے میں وہ زمین پڑتی تھی جو میں نے جانسن ہسپتال کے لیے سوچ رکھی تھی۔ قدرتی امر ہے کہ اس زمین پر ضرور نظر پڑ جاتی تھی۔ شام کے کوئی چار بجے کا وقت تھا۔ میرا آنا اس طرف ایک مدت سے نہیں ہوا تھا۔ میں سناٹے میں آ گئی، کیا دیکھتا ہوں کہ سینکڑوں مزدور لگے ہیں اور ایک عالی شان عمارت نہیں بلکہ عمارتوں کا سلسلہ موجود ہے۔ مجھے اس قدر صدمہ ہوا کہ جیسے کسی نے سچ مچ میری اپنی زمین چھین لی ہو اور میرے ساتھ جو آدمی تھا اس سے پوچھا کہ یہ مکانات کون بنوا رہا ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ شاید سرکاری ہسپتال بن رہا ہے۔ میں عمارتوں کو اچھی طرح سے دیکھ بھی نہ سکی۔​
مکان پر آئی تو مجھے اتنا صدمہ تھا کہ مضمحل ہو گئی۔ ٹھنڈی سانس میں نے بھری کہ افسوس یہ سب روپے کے کھیل ہیں۔ میں نے ایسی جگہ منتخب کی تھی کہ ہسپتال کے لیے بہترین جگہ تھی۔ مگر یہ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ ہسپتال کیسا بن رہا ہے۔ سننے میں بھی نہ آیا۔​
میں اسی فکر میں مستغرق بیٹھی تھی کہ مسٹر محسن آگئے۔ میں مالش کے لیے اٹھی تو میرے رنجیدہ چہرے کو دیکھ کر انہوں نے وجہ پوچھی۔ میں نے اول چاہا کہ ٹال دوں مگر پھر میں نے بتا دیا۔ وہ کہنے لگے کہ تم بھی عجیب آدمی ہو۔ ترکیب میں بتا سکتا ہوں۔ کرو نہ کرو تمہیں اختیار ہے۔ میں نے کہا وہ کیا۔ تو بولے مجھ سے قرض لے کر سب عمارتیں وغیرہ خرید لو۔ فیس میں منہا کرتی رہنا۔"​
مجھے ایک دم ہنسی آئی او رمیں نے کہا۔" بہت بہتر ہے۔ آپ گورنمنٹ کو لکھ کر مجھے دلا دیجئے۔ میں فیس میں آپ کا قرضہ ادا کردوں گی۔"​
وہ بولے۔ " تو کیا واقعی دلا دوں؟"​
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ " اور کیا؟ لکھو بس آج ہی جا کر۔"​
"پھر تم اگر راضی نہ ہوئیں تب؟"​
میں نے کہا۔" مجھ سے تحریر لے لو۔۔۔"​
"تحریر اور قسم دونوں۔۔۔۔ لکھو ایک تحریر اور قسم کھاؤ تو میں کل ہی تمہیں دلا دوں۔" ہنس کر بولے۔" لو قلم دوات۔"​
میں نے اس دلچسپ مذاق کو نبھایا اور وہ بولتے گئے اور میں لکھتی گئی۔ میں نے بائبل کی​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 399​
قسم اور اپنی عزت و حرمت کی قسم کھا کر لکھا کہ مسٹر محسن مجھے یہ ہسپتال اگر قرض میں دلا دیں تو میں بخوشی لے لوں گی اور قرضہ فیس میں منہا ہوتا رہے گا۔"​
یہ لکھ کر میں نے مسٹر محسن کو دیا اور ان کی داڑھی دار بشاش صورت دیکھ کر جو مجھے ہنسی آئی ہے تو میں بے دم ہو گئی۔" معاف کرنا مسٹر محسن۔" میں نے کہا۔ " مجھے آج آپ کے اس "قرض اور فیس" اور " قرض اور فیس سے ادائیگی" کے لطیفے پر اتنی ہنسی آ رہی ہے کہ بیان نہیں کر سکتی۔ بہتر ہے آپ مجھے کوئی پورا کا پورا ملک دلا دیں اور اس کی قیمت فیس میں کٹتی رہے گی۔ اب میں نے بھی سوچ لیا ہے کہ انکار نہ کروں گی۔"​
"انکار کیسے کر سکتی ہو۔" وہ بولے ۔" میرے پاس تحریر ہے ۔"​
میں جلدی سے مالش کی بیگار ٹالنے لگی اور میں نے کہا کہ چلو آج ٹہلنے اسی طرف ہو آئیں۔ دیکھیں کہ کیسا ہسپتال بن رہا ہے۔ محسن صاحب نے پہلے تو ٹالا مگر جب میں نے اصرار کیا تو راضی ہو گئے۔​
(7)​
ہم دونوں وہاں پہنچے۔ ایک ہی نظر میں مجھے کچھ شبہ سا ہوا۔ ایں! دونوں بنگلے۔ اب میں جس عمارت اور جس کمرے کو دیکھتی ہوں بالکل میرا نقشہ تھا۔ میں نے کہا مسٹر محسن یہ کیا معاملہ ہے۔ مغرب کا وقت تھا اور کوئی نہ تھا۔ سب راج مزدور جا چکے تھے۔ ہسپتال کے کمرے جو دیکھے تو میں ہکا بکا کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔​
مسٹر محسن نے کہا ۔" کیوں؟ اس قدر کیوں گھبرا رہی ہو؟" میں نے کہا ۔" یہ کیا معاملہ ہے کہ آپریشن تھیٹر، گیلریاں، ڈسپنسنگ روم وغیرہ وغیرہ سب میرے نقشے کے مطابق ہیں۔"​
وہ بولے ۔" تو آخر تعجب کونسا ہے۔ کوئی اپنا نقشہ کمپنی سے آپ نے رجسٹر تو کرا نہیں لیا تھا۔ ہسپتالوں کے نقشے ایک سے ہوتے ہیں۔ جس فرم سےآپ نے اپنا نقشہ منگا یا ہو گا۔ اسی فرم سے اس ہسپتال کا نقشہ بھی آیا ہوگا۔ یہ تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔"​
میں نے کہا۔" مگر میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے۔ میں تو صدمے سے نڈھال ہوئی جا رہی ہوں کہ ہائے میری تمناؤں کا یوں خون ہو رہا ہے۔ میرے۔۔۔"​
بات کاٹ کر مسٹر محسن بولے ۔" عجیب شخص ہو تم۔ آخر خرید تو رہی ہو نا تم قرض۔ تم کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ ہو بہو نقشہ مل گیا۔ اور اس سے زیادہ کیا چاہتی ہو؟"​
میں نے غور سے مسٹر محسن کی طرف دیکھا۔ سنجیدگی کے ساتھ مذاق کرنا شاید اس داڑھی دار شخص کا حصہ تھا۔ میں نے تیز ہو کر کہا۔" بھلے مانس۔ میرا خواب خیال ہو کر رہ گیا اور تمہیں اپنی سوجھی ہے۔ بڑے دھنا سیٹھ بنتے ہو، لاؤ دلاؤ قرض اس ہسپتال کو۔ میں تو صدمے میں​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 400​
مری جا رہی ہوں۔"​
تیز ہو کر وہ بولے۔" تو لے بھی لو تم۔ بس لے لو۔ اپنا سمجھو۔ قرض رہا۔ کل میں تمہیں دلا دوں گا۔"​
"فضول وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ۔" میں نے کہا۔" مجھے صدمہ ہو رہا ہے اور میں اب اس جگہ ایک منٹ نہیں ٹھہر سکتی۔"​
یہ کہہ کر میں چلی اور مسٹر محسن میرے ساتھ ہنستے ہوئے آئے۔ انہوں نے بہت روکا کہ اچھی طرح دیکھ تو لو۔ مگر میں نے سڑک پر آکر دم لیا۔​
ہم دونوں ساتھ ساتھ آئے۔ مکان پر آکر میں نے چائے تیار کرائی۔ مسٹر محسن تھوڑی دیر باتیں کرکے چلے گئے۔ لیکن مجھے رات بھر اس کا صدمہ رہا۔​
دوسرے دن مسٹر محسن آئے اور مجھ سے کہا کہ گھبراؤ مت ہسپتال جلد تمہیں قرض میں مل جائے گا۔ میں نے کہا کہ اب یہ مذاق ختم کرو۔ چنانچہ یہ مذاق ختم ہوا اور میں نے اس ہسپتال کا ذکر تو بڑی بات ہے، خیال تک چھوڑ دیا۔ کسی سے دریافت تک نہ کیا۔ بات آئی گئی ہو گئی اور کچھ عرصہ بعد اس کا خیال بھی جاتا رہا۔​
اس بات کو کافی عرصہ گزر چکا تھا مگر مسٹر محسن ہنوز زیر علاج تھے۔ ان کا روز ایک ہی معمول تھا۔ ایک روز شام کو ایک موٹر آکر رکا اور اس میں سے وہ اترے۔ مجھ سے خوش ہو کر بولے۔ "دیکھو موٹر لیا ہے۔" میں موٹر دیکھنے آئی۔ بالکل نیا موٹر تھا۔ کس قدر خوبصورت تھا۔ کہنے لگے۔ ساڑھے تین ہزار میں آج ہی لیا ہے۔ میں نے اس کی بہت تعریف کی تو مسکرا کر بولے کہ " لے لو اسے تم۔۔۔ قرض۔۔۔ فیس میں چکا دینا اسے بھی۔"​
میں نے بھی ہنس کر کہا " ضرور" پھر میں نے کہا کہ " جب تک اس پر سیر نہ کی جائے کیا پتہ چلے ۔" وہ بولے۔" اسی وجہ سے تو میں لایا ہوں۔ آؤ چلو نا گھوم آئیں۔" میں نے کہا۔" بہت ٹھیک۔" جلدی سے گئی اور دم بھر میں آگئی۔ ہم دونوں موٹر میں آکر بیٹھ گئے اور ڈرائیور نے بغیر پوچھے کہ کہا ں جانا ہے، موٹر کو زور سے چھوڑ دیا۔​
موٹر پوری رفتار سے چکر والی سڑک پر جا رہا تھا۔ ہسپتال پر آیا۔ میں نے اپنے خواب کو مکمل صورت میں دیکھا۔ مسٹر محسن نے ڈرائیور کو اشارہ کیا اور وہ ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ مسٹر محسن نے کہا۔" ایک دفعہ تو اس کو اور دیکھ لو۔" میں اتری اور میں نے اب اس کو غور سے دیکھا۔ کمرے کمرے کا معائنہ کیا۔ صفائی ہو کر قلعی ہو چکی تھی اور ہسپتال بالکل تیار تھا۔ میں نے محسن صاحب سے کہا کہ " یہ کیا معاملہ ہے۔ اب تک اس ہسپتال کا کہیں ذکر تک سننے میں نہیں آیا۔" محسن صاحب نے کچھ اور ہی بات کہی وہ یہ کہ انہوں نے گفت و شنید کرکے سب معاملہ​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 401​
طے کر لیا ہے۔ اتنے میں ایک چوکیدار برابر سے آیا اور اس نے جھک کر مودبانہ سلام کیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ " تم کس کے نوکر ہو؟"
اس کے جواب میں چوکیدار نے کہا۔" حضور آپ ہی کا ملازم ہوں۔"​
اس چوکیدار کی تمیز کو پسند کرتے ہوئے میں نے کہا۔" مگر تم کس کے نوکر ہو۔ یہ ہسپتال کس کا ہے۔"​
چوکیدار نے اسی مودبانہ لہجہ میں کہا۔" حضور میں آپ کا ہی نمک خوار ہوں اور یہ سب آپ کا ہی ہے۔"​
"بدتمیز" میں نے ایک دم سے بگڑ کر کہا۔" گستاخ تم مذاق کرتے ہو۔ ہم پوچھتے ہیں تم کس کے نوکر ہو؟"​
گھبرا کر چوکیدار نے ہاتھ جوڑ کر مسٹر محسن کی طرف اشارہ کرکے کہا۔" حضور مالک آپ کےساتھ ہی ہیں۔ ہسپتال بھی انہی کا ہے اور میں بھی انہی کا اور میں تو حضور آپ سب کا نمک خوار ٹھہرا۔"​
میں نے مسٹر محسن کی طرف دیکھا اور اس نے سامنے والے درخت کی طرف۔ ایک دم سے جیسے واقعات بجلی بن کر میرے سامنے کوند گئے۔ میں سناٹے میں آ گئی۔ اس قدر گھبرائی کہ بیان سے باہر۔ کس مشکل سے میں نے اپنے شبے کی تصدیق مسٹر محسن سے کی۔​
نظریں نیچی کرکے میں نے مسٹر محسن سے کہا۔" آپ نے مجھ سے دو دن کے لیے نقشہ لیا تھا۔۔۔ یہ آپ نے بنوایا ہے؟"​
" آپ قرض لے لیجئے گا۔" مسٹر محسن نے اپنی داڑھی کریدتے ہوئے کہا۔ " فیس میں ادا ہوتا رہے گا۔"​
"مسٹر محسن" میں نے تیز ہو کر کہا۔" اس سے آپ کا کیا مطلب ہے۔۔۔ کیا آپ نے مجھے ذلیل کرنے کا ارادہ کیا ہے؟۔۔۔ آپ نے آخر یہ کیوں بنوایا؟۔۔۔ کتنا روپیہ اس میں لگا ہے؟"​
"بیالیس ہزار۔" مسٹر محسن بولے۔​
"بیالیس ہزار!" میں نے چوٹ کھا کر کہا۔" پھر اب۔۔۔ میں تو ہرگز اس کو نہ لوں گی۔"​
"میں خود ڈاکٹری پڑھنے جانے والا ہوں۔" مسٹر محسن نے کہا۔" اور پھر آپ لے لیجئے نا اس کو قرض۔۔۔ آپ تو وعدہ کر چکی ہیں۔۔۔ وہ قسمیہ تحریر۔"​
میں یہ سن کر بے قابو ہوگئی۔ سیدھی دوڑتی ہوئی موٹر پر پہنچی۔ مسٹر محسن بھی آکر بیٹھ گئے۔ میں نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا اور رومال مٹھی میں لے کر یکسوئی سے دوسری طرف دیکھنے لگی۔ موٹر روانہ ہوگئی۔​
"قرض لے لیجئے اور آپ سب فیس میں ادا کرتی رہیے گا۔" مسٹر محسن نے کہا۔ مگر میں​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 402​
خاموشی رہی۔ بالکل خاموش۔ مکان کے سامنے موٹر رکا اور میں بغیر اس کا انتظار کیے کہ مسٹر محسن اتر کر موٹر کا دروازہ کھولیں۔ تیزی سے خود اتر کر ڈرائنگ روم میں سیدھی چلی گئی۔ خدا کی پناہ! مجھے کس قدر زبردست صدمہ پہنچا تھا۔ میں صوفے پر کونے میں منہ دے کر بیٹھ گئی۔ میں نے بہت ضبط کیا تھا۔ مگر بیکار تھا۔ رومال سے منہ چھپا کر میں صدمے سے نڈھال ہو گئی۔​
میں نے کچھ آہٹ سنی۔ دیکھا تو مسٹر محسن داخل ہوئے۔ سامنے آکر بیٹھ گئے۔ مجھے وہ غور سے دیکھتے رہے۔ میں نے ہمت کرکے اور کچھ غصے سے مسٹر محسن کی طرف دیکھ کر کہا۔​
"آپ نے میرے ساتھ بہت زیادتی کی۔ آپ نے ہسپتال کیوں بنوایا؟"​
وہ بولے۔" میری دانست میں ہر شخص کو اختیار حاصل ہے کہ اپنی زمین پر جی چاہے اس کا ہسپتال بنوائے اور جی چاہے پاگل خانہ بنوائے۔ لیکن میں نے اس خیال سے بنوایا کہ آپ کو قرض دے دوں گا۔ اب تک قرض آپ کو دیتا چلا آیا ہوں کہ مجھ سے آپ سے دشمنی پیدا ہو جائے۔ "قرض مقراض محبت است۔" چنانچہ یہی توقع لگی ہوئی ہے کہ یہ قینچی جلدی چلے۔ اب میں جاتا ہوں، کل کاغذات یعنی دستاویزات بھیج دوں گا اور آپ بیالیس ہزار روپیہ کی رسید لکھ دیجئے گا کہ میں نے مسٹر محسن سے یہ روپیہ قرض لیا ہے اور فیس میں ادا کردوں گی۔ اب میں جاتا ہوں۔۔۔۔ مگر ہاں کبھی آپ نے یہ بھی غور کیا کہ وہ بڈھا جھوٹا نکل گیا۔ بے ایمان۔"​
"کون بڈھا؟" میں نے پوچھا۔​
"وہی " انہوں نے اس خوبصورت چوکھٹے کی طرف اشارہ کیا جس پر لکھا تھا کہ " قرض مقراض محبت است" پھر بولے۔" اس نے ٹھگ ہم دونوں کو۔۔۔ اچھا میں جاتا ہوں۔۔۔ خدا حافظ۔"​
یہ کہہ کر مسٹر محسن جیسے غائب ہو گئے۔ میں عجیب پس و پیش میں پڑ گئی۔ یا اللہ ا ب میں کیا کروں۔ میں بڑی دیر تک سوچتی رہی۔ ایک دم سے مجھے خیال آیا۔ کرسی دیوار کے نزدیک کرکے میں نے اس خوبصورت چوکھٹے کو اتارا۔ اس کو میز پر رکھ کر ایک بڑی سی ہتھوڑی لائی اور یہ کہہ کر زور سے اس پر ہتھوڑی ماری کہ " غلط بالکل غلط" بلکہ " قرض بنیاد محبت است۔"​
ادھر ہتھوڑی لگنے کے ساتھ زور سے میں نے بلند آواز سے یہ کہا اور ادھر ایک دم سے کمرے میں مسٹر محسن داخل ہوئے اور انہوں نے کہا۔" بالکل سچ کہتی ہو!"​
آئینہ کھیل کھیل پڑا تھا۔ ہتھوڑی میرے ہاتھ میں تھی اور سامنے مسٹر محسن کھڑے تھے۔ میں جیسے عرق عرق ہو گئی، اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچی۔​
اس کے بعد پھر کیا ہوا؟ اس سوال کا جتنا پوچھنا فضول ہے اس سے زیادہ بتانا۔ سوائے اس کے کہ " قرض بنیادِ محبت است۔"​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ403​
فرزندِ سرحد
افغانستان اور ہندوستان کی سرحد جہاں ملتی ہے وہاں دونوں ملکوں کے بیچ میں آزاد علاقہ ہے کہ جس کو علاقہ غیر کہتے ہیں۔اس علاقے پر نہ تو انگریزوں کی حکومت ہے اور نہ افغانوں کی بلکہ یہ علاقہ صحیح معنوں میں آزاد ہے۔اس علاقے کا ہر شخص اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے اور اپنے فعل کا خود ذمہ دار اور مختار ہے۔ اس علاقے میں اسی کی چلتی ہے جس کے بازوؤں میں زور ہے اور "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" والی کہاوت یہیں صادق آتی ہے۔ اگر تم کمزورہو اور تمہیں کسی نے مارا تو کوئی پولیس کا تھانہ نہیں جہاں رپٹ لکھائی جائے۔ اگر بس چلے تو تم اپنے دشمن کو مار ڈالو اس کے دوست اور عزیز اگر اتنے ہیں کہ تم سے بدلے کی ہمت رکھتے ہیں تو تمہاری خیر نہیں ورنہ کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔​
اسی آزاد علاقے کا ذکر ہے کہ اس میں گل محمد خان نامی ایک نوجوان رہتا تھا اور اس کے پڑوس میں ایک مرغی کے چوزے پر لڑائی ہو گئی۔سوال یہ تھا کہ گل محمد کو کیا اختیار حاصل تھا کہ اس نے پڑوسی کے چوزے کی دم اکھاڑ لی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ گل محمد ادھر سے اپنا خنجر لے کر دوڑا اور ادھر سے پڑوسی رائفل لے کر دوڑا، گو کہ گولی گل محمد خان کی ران میں لگی مگر اس نے اپنا خنجر اپنے دشمن کے سینے میں قبضے تک اتار دیا۔ گل محمد بالکل اکیلا تھا یعنی اس کا کوئی قریبی رشتہ دار یا عزیز نہ تھا یہ محض اپنی قوت بازو پر نازاں تھا حالانکہ کم عمر تھا مگر چھ فٹ کا قد تھا اور دیو کی سی طاقت رکھتا تھا۔ چونکہ پڑوسی کے عزیز و اقارب بہت سے تھے، وہ سب کے سب اس کے گھر پر چڑھ آئے۔ رات کو اندھیرے میں نہ معلوم کس طرح یہ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر میں سے زخمی ران پر پٹی باندھ کر بھاگا۔ ایک عرصے تک چھپا چھپا رہا، یہاں تک کہ پشاور کے مشن ہسپتال تک پہنچا، وہاں اس کا زخم اچھا ہو گیا۔اس کے بعد وہ اپنے علاقے میں واپس نہ ہو سکا مبادا اس کے دشمن اس کو مار ڈالیں۔ کچھ دن پشاور میں ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا لیکن آخر کار لاہور کے ایک بڑے انگریزی ہوٹل میں ایک جان پہچان کے ذریعے سے اس کا ٹھکانا ہو گیا کہ مسافر جو آتے ان کا اسباب اٹھا کر ہوٹل سے گاڑی پر لے جاتا یا گاڑی سے ہوٹل کے​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 404​
میں لے جاتا اور اسی پر گزر اوقات کرتا۔​
بہرام جی بمبئی کے ایک لکھ پتی سیٹھ تھے اور علاوہ اور کاروبار کے لکڑی کی بھی تجارت کرتے تھے۔ جمرود کے علاقے سے لکڑی خریدتے تھے۔ اسی سلسلے میں پشاور سے لاہور آئے تھے اور اسی ہوٹل میں مقیم تھے۔ گل محمد خان کی وہ مزدوری ادا کر رہے تھے، دو چار آدمی اور بھی کھڑے تھے کہ دیکھتے دیکھتے ایک دم سے ایک خونی بیل نے احاطے میں گھس کر ان لوگوں کی طرف حملہ کیا۔ اور تو سب بھاگ گئے مگر بہرام جی اور اس کی بڑی لڑکی لڑکھڑا کر گر پڑی، شاید ایک ہی ٹکر میں وہ بیل ان کا خاتمہ کر دیتا مگر گل محمد خان نے دوڑ کر سیٹھ اور ان کی لڑکی کو اس طرح بچایا اور ہمت کرکے بیل کے اس زور سے سیدھے ہاتھ سے مکا مارا کہ شاید بیل کی آنکھ پھوڑ ڈالی اور وہ بری طرح بھاگا۔ بہرام جی جب کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھے اور اپنی لڑکی کو صحیح و سالم پایا تو ذرا ہوش بجا ہوئے۔ لڑکی سہمی ہوئی کھڑی تھی، چہرہ زرد تھا۔ اس نے اپنے باپ کے کندھے کو پکڑ کر سہارا لیا۔ گل محمد خان اس طرح کھڑا تھا جیسے کچھ ہو ا ہی نہیں۔ وہ اپنی مزدوری مانگ رہا تھا ۔ اس نے کہا:" چار آنے دے دیجئے۔"​
بہرام جی کی لڑکی نے باپ سے کہا کہ " اس نے میری جان بچائی ہے۔ اس کو کچھ انعام دینا چاہیے۔"​
سیٹھ نے بھی کہا:" ہاں دینا چاہیے" اور پانچ روپے کا ایک نوٹ یہ کہہ کر حوالے کیا کہ " لو یہ تمہارا انعام ہے۔"​
گل محمد خان نے منہ بگاڑ کر کہا:" ہم نے تمہیں انعام کےلیے نہیں بچایا تھا، ہم انعام نہیں لیں گے۔ ہماری مزدوری لاؤ۔"​
سیٹھ بہرام جی نے شاید یہ خیال کرکے کہ پانچ روپے بہت کم ہیں، نوٹ واپس لے کر دس روپے کا نوٹ دیا۔ گل محمد خان نے نوٹ کو غصہ سے زمین پر پھینک دیا اور تھوک کر نہایت ہی غصہ سے کہا:" ہم انعام نہیں لیتے، ہم نے انعام کے لالچ سے نہیں بچایا، ایک مرتبہ کہہ چکے ہماری مزدوری لاؤ۔"​
سیٹھ نے تعجب سے لڑکی کی طرف دیکھا اور لڑکی نے سیٹھ کی طرف۔ نوٹ اٹھا لیا اور گل محمد خان کو پیسے دے کر رخصت کیا۔ باپ اوربیٹی دونوں کمرے پر آئے وہاں سیٹھانی سے سارا قصہ بیان کیا۔ گل محمد خان کی طبیعت پر سب کو تعجب تھا۔ وہ غریب معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پاس ٹھیک سے کپڑے بھی نہیں تھے، مگر پھر بھی اس نے انعام نہ لیا۔​
بمبئی میں سیٹھ لوگ عموماً پشاوریوں اور سرحدیوں کو دربان کے طور پر ملازم رکھتے تھے۔ علاوہ وفادار ہونے کے ان کی سخت مزاجی اور کرختگی ان کو اس کام کے لیے اور بھی موزوں بنا​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 405​
دیتی تھی۔ بہرام جی کا عرصے سے خیال تھا کہ اپنے دفتر کے لیے کوئی پٹھان تلاش کرے، یہاں گل محمد خان موجود تھا۔ اس سے بہتر دوسرا شخص ملنا نا ممکن تھا۔گل محمد سے جب اس معاملے پر بلا کر گفتگو کی تو وہ راضی ہوگیا، طے یہ ہوا کہ دفتر ہی پر دن رات رہنا ہوگا، روپیہ روز تنخواہ مقرر ہوئی اور ایک آنہ روز چائے حقہ وغیرہ کے لیے۔ خان بھائی راضی ہو گئے۔​
بمبئی پہنچ کر گل محمد خان کے ٹھاٹھ بدل گئے۔ کوئی ڈیڑھ انچ موٹے چمڑے کی ایک چپل پہنے اور ایک ثابت مگر میلی شلوار اور ایک سیاہ رنگ کی واسکٹ پہنے اور سر پر ساڑھے تین گز کا چوخانے کا صافہ پشاوری کلاء کے اوپر باندھے، ایک مونڈھے پر بیٹھے بیڑی پیتے رہتےتھے۔ مونڈھا سیٹھ بہرام جی کے صدر دفتر کے آگے پڑا رہتا تھا۔ گل محمد خان کی طبیعت ہی میں سختی اور تلخ مزاجی موجود تھی، اگر بیڑی بجھ جاتی یا دیا سلائی نہ جلتی تو خان کو جلال آ جاتا۔ایک روز یہ بیٹھے ہوئے دیا سلائی جلا رہے تھے کہ کسی نے آ کر ان سے پوچھا کہ کیا بجا ہوگا۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ اس زور سے اس کے گال پر تھپڑ مارا کہ اس کا منہ پھر گیا۔اسی طرح ایک آدمی نے ان سے دیا سلائی مانگی، اسے بھی سزا دی۔ ہر وقت یہ معلوم ہوتا تھا کہ خان صاحب کی منہ میں کونین گھلی ہوئی ہے۔ تھوڑے ہی دنوں میں آس پاس کے لوگ جان گئے کہ یہ آدمی نہیں بلکہ جن ہے۔بہرام جی اپنے دربان کے خونخواری سے مطمئن تھے کیونکہ ان کو واقعی ایسا ہی شخص چاہیے تھا جو ایسی ہی سختی کرتا رہے کہ کسی چور بدمعاش کی دفتر کی طرف رخ کرنے کی ہمت ہی نہ پڑے۔​
ایک روز کا ذکر ہے کہ خان صاب بیٹھے ہوئے تھے کہ سیٹھ نے ان کو آواز دی۔ سیٹھ نے ان کو طلب کرکے کہا:" ہم نے تم کو کیا اس لیے رکھا ہے کہ جس کا جی چاہے دفتر میں گھس آئے اور ہمیں تنگ کرے۔"​
واقعہ یہ ہے کہ ایک نوجوان متلاشی روزگار سیٹھ جی کے دفتر میں موقع پا کر گھس آیا۔ گل محمد خان پانی پینے میں لگا تھا اس نے دیکھا نہیں۔سیٹھ جی نے بہت کچھ کہا کہ ہمارے دفتر میں کوئی جگہ نہیں مگر غرض باؤلی ہوتی ہے وہ اس وقت تک نہ گیا جب تک سیٹھ کا اس نے کافی وقت نہ خراب کر لیا۔​
گل محمد خان نے اس کو دفتر میں جاتے تو نہیں دیکھا تھا مگر نکلتے دیکھا تھا وہ خونی باز کی طرح دفتر سے نکل کر جھپٹا اور اگلے موڑ پر ٖغریب امیدوار کی گردن دابی۔ مارے غصے کے گل محمد کا چہرہ آگ ہو رہا تھا۔ وہ گھسیٹ کر سیٹھ کے سامنے اس کو لے آیا اور مارنا شروع کیا۔ ہائیں ہائیں کر کے سیٹھ نے اس کو چھڑایا اور بڑی مشکل سے قصہ رفع دفع ہوا۔ اب گل خان کا قاعدہ ہو گیا کہ دفتر کے دردازہ پر ایسا پہرہ رکھتا تھا کہ مجال نہ تھی کوئی گھس تو جائے۔ سیٹھ جی اس بات سے​
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۳۸۶
"قرض مقراض محبت است؟"
(۱)
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں چھاؤنی سے اپنے گھر کی طرف چلی آ رہی تھی کہ میں نے دیکھا ایک بڑے میاں کرسی پر ایک بڑی بھاری یعنی کوئی ڈیڑھ گز کی مصنوعی قینچی لیئے دونوں ہاتھوں سے ہنس ہنس کر اور اچھل اچھل کر قینچی کے دونوں پھل چلا چلا کر چلّا رہے ہیں۔ قرض مقراض محبت است۔ ان کے ارد گرد مجمع والے ہنس رہے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چلائے :
"مس صاحبہ ذرا ادھر تشریف لایئے گا۔"
میں نے ان کے دلچسپ اور تمسخر آمیز چہرہ کو دیکھا۔ کس طرح بڑے میاں شگفتہ ہو رہے تھے، مجھے ان کی صورت دیکھ کر بڑی ہنسی آئی کیونکہ وہ باتیں کرنے میں بھی قینچی کے بڑی بڑی مصنوعی پھلوں کو حرکت دے رہے تھے۔ میں ان کے پاس مسکراتی ہوئی پہنچی اور میں نے کہا "فرمائیے۔ ارشاد"
"کیا میں آپ کا نام معلوم کر سکتا ہوں؟" بری میاں نے بیحد شگفتہ اور مجسم لطیفہ بن کر پوچھا۔
میں نے نام بتایا اور کہا۔ "میرا نام مس ای جانسن ہے۔"
"شکریہ شکریہ" بڑی میاں نے قینچی کے پھلوں کو ہلاتے ہوئے کہا۔ "غالباً مس صاحبہ آپ کسی اسکول میں ۔۔۔"
"جی نہیں" میں نے کہا۔ "میں لیڈی ڈاکٹر ہوں، فرمائیے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔"
"اوہو ہو" بڑے میاں اپنے چہرے پہ ایک زلزلہ پیدا کر کے بولے۔ "او ہو۔ بس کچھ نہ پوچھئے بیماروں کا حال۔ ایک سے ایک بے ایمان بھرا پڑا ہے۔ فیس کو کہتے ہیں کہ کل دیے جائیں گے۔ دوا کے دام کہتے ہیں کہ مہینے پر دیں گے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ہماری لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کے پاس کوئی خزانہ تو ہے نہیں۔ کوئی لاٹری تو نکل نہیں آئی ہے۔ آخر دنیا کے کام چلانا ہیں مگر لوگ ہیں کہ نہیں مانتے۔ مروت اور کام بگاڑ دیتی ہے۔ غریب اپنی غربت کا بہانہ کرتے ہیں اور


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۳۸۷
امیر اپنی فرصت کا نتیجہ یہ کہ دواؤں کے دام آج آتے ہیں نہ کل۔"
اتنا کہہ کر بڑے میاں میری طرف مخاطب ہو کر بولے۔ "کیوں مس صاحبہ میں غلط تو نہیں کہا۔"
مجھے ہنسی آئی کیونکہ اس سے زیادہ صحت اور صفائی کے ساتھ شاید میرے حالات کوئی آئینہ نہ کر سکتا ہو گا، چنانچہ میں نے کہا۔ "بڑے میاں آپ کا فرمانا بالکل درست ہے۔ مگر آخر اس کا علاج۔"
"اوہو" بڑے میاں نے کہا۔ "بس علاج ہی کے تو دام مانگتا ہوں۔ اس کا میرے پاس شرطیہ علاج ہے۔ مگر ساڑھے سات روپے خرچ کرنا پڑیں گے اور وہ بھی ابھی، اور علاج لے لیجیے۔"
یہ کہہ کر ایک کوبصورت بکس کی طرف انہوں نے ہاتھ بڑھایا۔ جو برابر ایک اونچی سی میز پر رکھا تھا اور بولے۔ "پھر لطف یہ کی اگر پسند آئے تو لے لیجئے ورنہ کوئی زبردستی نہیں۔"
یہ کہہ کر بڑے میاں نے صندوق کھولا اور اس میں ایک چوکھٹا نکالا جس میں منہ دیکھنے کے آئینہ میں بڑی صفائی سے یہ عبارت تحریر تھی۔ "قرض مقراض محبت است" میں چوکھٹے کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ بڑے میاں بولے کہ "بس اس کو آپ لے جائیے اور کمرے میں لگا دیجئے۔ کم از کم تھوڑی بہت تو ضرور اس سے بچت ہو گی۔"
میں نے اس تجویز کو پسند کیا اور جیب سے دس کا نوٹ نکال کر دیا۔ وہ بولے کہ میرے پاس بقیہ دام نہیں۔ برابر ایک ہندوستانی جنٹلمین کھڑے تھے، ان سے دام پوچھے تو انہوں نے اپنا بٹوا دیکھا اور کہا میرے پاس بھی نوٹ ہے پانچ روپے کا۔
بڑے میاں تو مسخرہ پن کر ہی رہے تھے۔ انہوں نے کہا نوٹ مجھے دیجئے۔ انہوں نے نوٹ بڑے میاں کو دیدیا اور بڑے میاں نے اس کے جواب میں ایک اور ویسا ہی چوکھٹا نکال کر انکو دے دیا اور پانچ کا نوٹ مجھے دیکر بولے۔ "آپ کو بجائے ساڑھے سات کے پانچ روپیہ میں ملے گا۔" پھر جنٹلمین کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ "آپ کو بھی ڈھائی روپے کا فائدہ رہا۔ میرے پاس صرف دس پہنچے۔ اور مفت میں پانچ کا نقصان مجھے رہا۔"
لوگ یہ لطیفہ سن کر ہنس دیئے۔ تو بڑے میاں بولے۔ "اجی حضرات آپ ہنستے کیا ہیں۔ یہ دونوں ایسے تو نہیں جو میرا ڈھائی روپیہ مار لیں۔"
"مگر مجھے تو اس کی ضرورت نہیں۔" ان ہندوستانی جنٹلمیں نے کہا۔
"ارے" بڑے میاں نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ "مسٹر آپ بھی عجیب آدمی ہیں! اجی حضرت آپ ضرورت کو دیکھتے ہیں کہ نفع ہو؟ اور پھر آپ نہ لیں گے تو ادھر آپ کا ڈھائی روپیہ

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۳۸۸
کا نقصان ہو گا اور مس صاحبہ کو الگ ڈھائی روپیہ دینا پڑے گا۔ کیونکہ ایک کے دام ساڑھے سات روپیہ ہیں اور دو کی قیمت صرف دس۔"
لوگ بڑے میاں کے اس لطیفہ پر ہنسنے لگے۔ دو چار آدمیوں نے اور خریداری کی۔ اور میں وہاں سے چلتی بنی۔ اس فریم کو میں نے اپنے کمرہ میں لگا دیا۔ جہاں میرض بیٹھے تھے۔ تاکہ ہر کس و ناکس کی اس پر نظر پڑتی رہے۔ بات یہ ہے کہ میرے بڑے اخراجات تھے۔ نیا نیا کام تھا اور آمدنی اور خرچ کا یہ حال تھا کہ مشکل سے کھینچ تان کر گزر ہوتی تھی۔ بلکہ بسا اوقات نادہند مریضوں کی وجہ سے خود قرض دار ہو جانا پڑتا تھا۔
(۲)
ڈاکٹر بیاس شہر کے مشہور سرجن تھے اور پھر میرے تو سب ہی ڈاکٹروں سے ملاقات تھی۔ ان کے ہاں کوئی خاص تقریب تھی جس کے سلسلے میں انہوں نے دوست احباب کے علاوہ ہم پیشہ جماعت کو بھی خاص طور پر مدعو کیا تھا اور مجھ سے خاص طور پر تاکید کر دی تھی۔
میں جو پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں کہ سب ہی ڈاکٹر تو موجود ہیں۔ اس وقت ایک عجیب و غریب درد سر کے مریض کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ یہ شہر کے ایک نہایت ہی متمول نوجوان کا تذکرہ تھا، جن کو یہ درد سر کی عجیب و غریب بیماری تھی۔ پہلے ان کے سر میں کالج میں درد ہوا پھر کام چھوڑ کر بیٹھ رہنے سے بھی درد میں کمی نہ ہوئی۔ اگر کلاس میں جائیں تو درد سر بڑھ جائے اور کھیلنے جائیں تو اور بڑھ جائے۔ مطلب یہ کہ یہ درد سر بھی نرالا تھا۔ کام کرو تو بڑھ جائے۔ آرام کرو تو بڑھ جائے۔ یہاں ان مریض کی دراصل بڑی تعریف ہو رہی تھی کیونکہ وہ قریب قریب سب کا علاج کرا چکے تھے اور ہر ایک کو بھرپور روپیہ کھلا چکے تھے۔ سب کا خیال تھا کہ نہایت ہی خلیق اور نہایت ہی تہذیب یافتہ اور نہایت ہی فراخدلی سے ڈاکٹروں کو اندھا دھند فیس دینے والا مریض ہے۔ جو مانگو وہ دیتا ہے۔ بلکہ زائد دیتا ہے۔
دراصل بات یہ ہے کہ ایسے مریض مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ درد سر کی اصلی وجہ وہم اور بیکاری اور ورزش نہ کرنا اور دن بھر پڑا رہنا تھا۔ کوئی ان کا دوست نہ تھا۔ کوئی قریبی عزیز یا رشتہ دار، مرد یا عورت کوئی نہ تھا۔ غرض ان عجیب و غریب مریض کا ذکر سب ہی نے اپنے اپنے تجربے کے موافق کیا اور سب نے تسلیم کیا کہ انکا درد سر لاعلاج ہے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں ڈریسنگ روم میں تھی کہ کمرے کے باہر سے نوکر نے گھنٹی بجائی، یعنی اطلاع کی کہ کوئی مریض آیا ہے۔ میں نے گھنٹی کی رسید دی یعنی یہ کہ ڈرائنگ روم میں اترواؤ۔ ڈرائنگ روم میں پردے کا پورا انتظام تھا اور ڈولی یا گاڑی پر جو مریضہ آتی اس کو میں اترواتی تھی۔ دواخانہ باہر تھا۔ برآمدے میں۔


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۳۸۹
میں کپڑے وغیرہ پہن کر ڈرائنگ روم میں آئی تو دیکھا کہ ایک شخص اوورکوٹ پہنے گلوبند میں سر اور منہ لپیٹے اس طرف منہ کئے میری بڑی رنگین تصویر کو دیکھ رہا ہے۔ میں سمجھی کہ مریضہ کے کوئی رشتہ دار ہیں، فرش کمرے کا چونکہ ملائم تھا اس وجہ سے میرے آنے کی آہٹ تک ان کو معلوم نہ ہوئی۔ جب میں نے دانستہ طور پر کرسی کھینچی تو یہ میری طرف مڑے۔ انگریزی میں تبادلہ سلام کے بعد میں نے ان سے بیٹھنے کو کہا اور خود بھی بیٹھ گئی۔ اس وقت ان کا منہ اوورکوٹ کے کالر اور گلوبند میں اس طرح چھپا ہوا تھا کہ سوائے ناک کے مشکل سے کوئی خاص حصہ چہرے کا نمایاں تھا۔ یہ بیٹھ گئے، میں منتظر تھی کہ کچھ کہیں، لیکن وہ چپ میز کرید رہے تھے۔ مجھے سخت غصہ آیا اور میں نے کہا :
"فرمایئے کیا کام ہے۔"
وہ : "آپ ڈاکٹر جانسن کی صاحبزادی ہیں؟"
میں : "جی ہاں۔ فرمائیے۔"
وہ : "میں ان سے ملنا چاہتا تھا۔"
اب میں سمجھی کہ یہ دیوانہ ہے۔ میں نے غور سے آنکھوں کو دیکھا۔ مجھے کچھ ہنسی سی آئی اور شرارت سوجھی۔ میں نے بھی نہایت سنجیدگی سے کونے والی میز پر جو چھوٹی سے الماری رکھی تھی اور جس پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا "زہر" اس کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ "میرے والد صاھب سے اگر ملاقات کرنا بے حد ضروری ہو تو اس میں سے آپ کو ایک خوراک لینا پڑے گی۔"
"معاف کیجئے گا۔" انہوں نے کہا۔ "میں ڈاکٹر صاحب سے ملنا چاہتا تھا۔"
"کون ڈاکٹر صاحب۔" میں نے پوچھا۔
انگلی سے انہوں نے باہر کی طرف اشارہ کیا۔ اور بولے "جلدی میں میں نے سائن بورڈ غور سے نہیں پڑھا، جن کا یہ مطب ہے انہی سے ملنا چاہتا ہوں۔"
"مگر یہ مطب تو میرا ہے۔ میں لیڈی ڈاکٹر مس جانسن ہوں۔ آپ کسے دکھانا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی مریضہ ہے تو میں خدمت کے لئے حاضر ہوں۔"
"میں خود مریض ہوں۔"
"معاف کیجئے گا" میں نے کہا۔ "میں وسمجھی کہ کوئی عورت ہے۔ میں صرف عورتوں کا علاج کرتی ہوں۔" وہ بولے۔ "اوہو۔ معاف کیجئے گا ۔ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی۔
چہرہ پر سے اب انہوں نے گلوبند ہٹا دیا تھا۔ اچھی خاصی داڑھی تھی۔ ویسے نوعمر معلوم ہوتے تھے۔ چہرے کا رنگ صاف مگر کچھ زردی مائل سا تھا۔


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۳۹۰
میں نے کہا "کوئی حرج نہیں، جلدی میں شاید آپ نے سائن بورڈ نہیں پڑھا۔"
"جی ہاں" انہوں نے کہا۔ "یہی غلطی ہوئی جلدی میں دیکھا نہیں میں نے۔۔۔ آپ عورتوں کا علاج کرتی ہیں۔۔۔ لیکن کیا آپ اپنے کمپونڈر سے نہ کہہ دیں گی کہ مجھے وہ اس وقت دوا کی ایک خورات بنا دے۔۔۔"
میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا "معاف کیجئے میں صرف عورتوں کا علاج کرتی ہوں۔"
وہ بولے "مگر اس میں شاید کچھ نقصان نہ ہو گا کہ ایک خوراک آپ دوا کی دلوا دیں۔ مجھے بے حد اور سخت ضرورت ہے۔ میری بڑی بری حالت ہے۔"
میں نے کہا "آپ کو کیا دوا چاہیے۔ جو لینا ہو وہ باہر دوا خانے سے لے لیجئے۔ اس میں دریافت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔"
وہ بولے۔ "میں دوا کا نام کیا جانوں۔ آپ کہہ دیجئے کہ کوئی ایسی دوا دے دے جس سے درد سر میں خاص فائدہ ہو۔ میں درد سر کا پرانا مریض ہوں اور آج غیر معمولی طور پر صبح تڑکے مجھے اپنے ایک دوست کو پہنچانے اسٹیشن جانا پڑا۔ تانگے میں درد سر بڑھ جانے کا اندیشہ تھا، لہذا پیدل چلا آ رہا ہوں اور دیکھتا آ رہا تھا کہ کسی ڈاکٹر کا سائن بورڈ نظر پڑ جائے تو دوا لوں۔"
میں نے اشارے سے کہا بیٹھئے۔ کیونکہ میں جان گئی کہ یہ کون حضرت ہیں۔ وہ بیٹھ گئے تو میں نے کہا کہ "جناب کا نام مسٹر محسن تو نہیں ہے۔"
"جی ہاں" انہوں نے تڑپ کر کہا۔ "آپ کو کیسے معلوم ہوا؟"
میں نے اختصار سے ان کو بتایا کہ کس طرح ڈاکٹر بیاس اور دوسرے ڈاکٹر آپ کے درد سر کا ذکر کر رہے تھے۔ اور پھر آپ نے اچھی طرح سمجھایا ہے کہ آپ کا مرض پرانا ہے اور بغیر آپ کا معائنہ کئے ہوئے کوئی دوا دینا اصول کے خلاف ہے۔"
وہ بھولے پن سے بولے۔ "تو آپ میرا معائنہ کر لیں۔"
میں نے کہا "عرض کیا نا کہ میں صرف عورتوں کا علاج کرتی ہوں۔"
"تو پھر مجھے دوا تو آپ کو دینا ہو گی۔"
"میں بغیر دیکھے بھالے دوا نہیں دے سکتی۔"
وہ بولے "تو آپ میرا معائنہ کر سکتی ہیں، میں آپ کو ڈبل فیس دوں گا۔"
"ڈبل فیس۔" میں نے اپنے دل میں کہا بتیس روپے، پھر میں نے کہا کہ اگر یہ شخص مجھے بتیس روپیہ دے تو کیا ہرج ہے، مجھے معلوم ہی ہے کہ بڑا خلیق اور ملنسار آدمی ہے چنانچہ میں نے کہا "بتیس روپیہ ہوں گے۔"
"بہت بہتر۔" انہوں نے کہا۔ "آپ معائنہ کیجئے۔"


 
Top