عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ97​
کہ ان کے بجائے میں آیا ہوں اور خود اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں۔ پیش کار کے پاس جا کر میں نے وکالت نامہ داخل کیا۔ عدالت کے کمرے سے نکلا ہی تھا کہ ایک گنوار نے مجھے سلام کیا، اس طرح کہ جیسے مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہے، اس نے مجھ سے میرے سینئر کے بارے میں پوچھا کہ کیوں صاحب آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کیوں نہیں آئے؟" میں نے اس کے جواب میں اس کا نام لے کر پوچھا کہ تمہارا نام یہ ہے، اس نے کہا ہاں، میں خوش ہوا کہ موکل مل گیا۔ میں نے اس سے کہا کہ " تمہارے مقدمہ میں ، میں آیا ہوں ان کی ججی میں ایک اپیل ہے۔" یہ سن کر اس کمبخت کا گویا دم ہی تو سوکھ گیا نہایت ہی بددل ہو کر اس نالائق نے دو چار آدمیوں کے سامنے ہی کہہ دیا کہ " انہوں نے (یعنی میرے سینئر نے) میرا مقدمہ پٹ کر دیا۔"​
آپ خود ہی خیال کیجیے کہ اس گنوار کے اوپر مجھے کیا غصہ نہ آیا ہوگا۔ میں سخت خفیف سا ہوا اور دل میں ہی میں نے کہا کہ اگر ایسے ہی دو چار اور مل گئے تو پھر بقول منشی جی وکالت تو "بس چل چکی۔"​
میں نے اپنی خفت مٹانے کو ہنسی میں بات ٹالنا چاہی اور کہا۔" کیا فضول بکتا ہے۔" مجھے خیال آیا کہ دس روپے منجملہ بیس کے اسی وقت واپس کردوں تاکہ یہ خوش ہو جائے، چنانچہ میں نے دس روپے کا نوٹ نکال کر اس کو دیا اور کہا کہ باقی میری دس فیس کے ہوئے اور یہ تمہیں واپس کیے جاتے ہیں۔​
میرا روپیہ واپس کرنا گویا اور بھی سقم ہو گیا، گویا ساری قلعی کھل گئی۔ اس نے نوٹ تہہ کرکے اپنی جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔" مجھے دس پانچ روپے کا ٹوٹا پھوٹا وکیل کرنا ہوتا تو میں ان کے پاس کیوں جاتا؟ یہیں کسی کو نہ کر لیتا۔"​
اب تو جناب میں اور بھی گھبرایا، کیا بتاؤں کس قدر اس کم بخت نے مجھے خفیف کیا اور کیسا سب کے سامنے ذلیل کیا۔ مارے غصے کے میں کانپنے لگا مجھے معلوم ہوتا کہ یہ موذی مجھے اس بری طرح بھگو بھگو کر مارے گا تو میں سو روپے فیس پر بھی اس نالائق کے مقدمہ میں نہ آتا، ہائے میں کیوں آیا بس نہ تھا کہ ایک دم سے اڑ کر یہاں سے کسی طرح غائب ہو جاؤں مبادا کہ وہ اسی قسم کے فقرے چست کرے۔ میں اس پیشے کو دل ہی دل میں برا بھلا کہہ رہا تھا اور باہر اس لطیفے پر کچہری کے لوگ ہنس رہے تھے، لا حول ولا قوۃ ایسی بھی میری کبھی کاہی کو ذلت ہوئی ہوگی، اور یہ سب درگت محض دس روپیہ کی بدولت لعنت ہے اس پیشے پر، میں نے اپنے دل میں کہا۔​
جب میں نے دیکھا کہ وہ موذی دور چلا گیا تو پھر برآمدہ میں نکلا۔ دور سے ایک درخت کے​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 98​
نیچے میں نے اس کو کھڑا دیکھا، دو چار آدمی اور تھے۔ اتنے میں اس ظالم نے مجھے دیکھا اور دیکھتے ہی وہیں سے میری طرف اس نے انگلی اٹھائی۔​
آپ کی طرف اگر کوئی دشمن بھری ہوئی بندوق کی نال دکھائے تو آپ کیا کریں گے؟ یقینی آڑ میں چھپ جائیں گے بس پھر میں نے بھی یہی کیا اور فوراً عدالت کے کمرہ میں گھس گیا کیونکہ وہ ناشدنی انگلی میرے لیے کسی طرح بھی بندوق کی نال سے کم نہ تھی پھر تھوڑی دیر بعد نکلا تو پھر اس نے میری طرف انگلی اٹھائی، اب مجھ میں ضبط کی طاقت نہ تھی اور سیدھا اسی کی طرف گیا۔ مارے غصے کے میرا برا حال تھا پہنچتے ہی اس نے میرے تیور بگڑے دیکھے کچھ جھجکا کہ میں نے ڈانٹ کر کہا چپ رہو بدتمیز کہیں کا ایک تو ہم اتنی دور سے آئے آدھی فیس لی اور اس پر تو بدزبانی کرتا ہے۔​
دو ایک عرائض نویسوں نے بھی میری حمایت کی اور اس کو ڈانٹا اور میری قابلیت وغیرہ پر کچھ روشنی ڈالی اور اس کو قائل کیا تو وہ فوراً سیدھا ہو گیا اور پھر معذرت کرنے گا کیونکہ آخر مجھ ہی سے اس کو کام لینا تھا۔ جب وہ راہ راست پر آگیا تو میں نے اس سے کچھ زبانی بھی باتیں دریافت کیں۔ پٹواری سے بھی بات چیت کی۔ بنک کے منشی سے بھی مل لیا اور سب کو ضروری ہدایت بھی کر دی۔ تھوڑی ہی دیر بعد مقدمہ کی پیشی ہوئی میں کبھی اس پیشی کو نہ بھولوں گا۔​
ادھر سے میں وکیل تھا اور ادھر سے ایک موٹے تازے بڑی بڑی مونچھوں والے کالے بجنگ وکیل تھے جن کی گھاٹی اس قدر صاف تھی اور وہ اس تیزی سے بولتے تھے کہ گمان ہوتا تھا کہ کوئی چنے کھا رہا ہے۔ ادھر تو یہ معاملہ اور ادھر میں، سوکھا ساکھا قحط کا مارا معہ مبالغہ مجھ جیسے ان میں سے دس بنتے۔ غل غپاڑہ ویسے تو میں بھی مچا سکتا ہوں، حضرت کہاں ڈفلی اور کہاں ڈھول اور پھر علاوہ اس کے مجھ میں اور ان میں سب سے بڑا ایک اور فرق تھا وہ فرق جو عموماً ہائی کورٹ اور تحصیل کے وکیل میں ہو سکتا ہے۔​
جب مقدمہ پیش ہوا تو میں نے کچھ بن کر نہایت ہی قاعدے سے اپنے موکل کی عذر واری پیش کی مگر خدا وکیلوں کی بدتمیزی سے بچائے وکیل مخالف بار بار خلاف قاعدہ دخل در معقولات کرتے تھے، بے وجہ اور بے بات میرے اوپر خلاف قاعدہ اعتراض کرتے تھے، کئی مرتبہ میں نے عدالت کی توجہ بھی اس طرف دلائی کہ ان کا کوئی حق نہیں اور عدالت نے کہا مگر وہ بھلا کاہے کو سنتے تھے، نہ انہیں عدالت کی جھڑکیوں کا ڈر تھا اور نہ اس کا خیال کہ یہ بات بالکل بے قاعدہ ہے کہ میری تقریر کے دوران میں دخل دیں، انہیں تو بس ایک ہی خیال تھا اور وہ یہ کہ مقدمہ تو ہارنا ہی ہے لاؤ اپنے موکل ہی کو خوش کرلوں تاکہ وہ قائل ہو جائے کہ میرے وکیل نے کوئی​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 99​
کسر نہ اٹھا رکھی۔ غرض وہ مرغے کی سی چونچیں لڑ رہے تھے، کبھی مسل سامنے سے لیے لیتے تھے تو کبھی پھاند پھاند کر مجھے روک دیتے تھے۔​
جس طرح بھی بن پڑا میں نے اپنی تقریر نہایت ہی عمدہ پیرائے سے خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کی اور اب ان کا نمبر آیا انہوں نے اپنی مونچھیں پونچھ کر ذرا گلا صاف کیا گویا بالفاظ کہا​
اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی​
انہوں نے اپنی جوابی تقریر شروع کی، آنکھیں گھما کر اور پیشانی پر بل ڈال کر ریل گاڑی سی چھوڑ دی، جو منہ میں آیا خواہ تعلق یا بے تعلق سب کہہ ڈالا اور پھر اس تقریر کے دوران میں ان کا گردن کو جھٹکا دے کر ایک عجیب انداز سے آگے کو بڑھنا اور پھر گردن ہلاتے ہوئے آنکھیں مٹکاتے ہوئے اور ہاتھ نچاتے ہوئے پیچھے ہٹنا اور پھر جھپٹ کر مسل کو لینا اور تیزی سے ورق کو الٹ پلٹ کرکے اس کے ورق اڑانا، یہ سب ایک تماشا تھا کہ اگر مسٹر السٹن یا جسٹس محمود یاداش بہاری گھوش ہوتے تب بھی اس مقدمے میں میرے خلاف ان کی بولنے کی ہمت نہ پڑتی کیونکہ مقدمہ ہی اس طرف سے کمزور تھا مگر وہ حضرت بھلا کاہے کو رکتے۔ ان کی اس بے تکی اور لغو تقریر سے میرے اوپر یا عدالت کے اوپر تو کوئی اثر نہ پڑ سکتا تھا مگر بدقسمتی سے میرے موکل کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ ناشدنی سخت گھبرایا اور یہ سمجھا کہ وکیل مخالف چونکہ بڑے زور و شور سے مقدمہ لڑ رہا ہے لہذا میری کاہلی سے جیت نہ جائے، چنانچہ اس نے میرے کان میں چپکے سے اپنا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ تم کیوں نہیں لڑتے۔ میں نے اس کی اس بے ہودگی کا کچھ جواب نہ دیا، مجھے کیا معلوم تھا کہ اس کا نتیجہ میرے حق میں برا نکلے گا ورنہ وکیل مخالف کے چپت ہی پڑتا۔​
لیکن میرے موکل نے مجھے پھر آگاہ کیا اور جب کئی مرتبہ مجھے بار بار تنگ کیا تو میں نے اسے جھڑک دیا کہ چپ رہ۔​
اب میری مصیبت آتی ہے تھوڑی ہی دیر بعد جب وکیل مخالف کی دھواں دھار تقریر پھر زوروں پر آئی تو میرے موکل نے ایک نئی ترکیب نکالی "حضور" کہہ کر، ہاتھ جوڑ کر منصف صاحب کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ منصف صاحب نے وکیل مخالف کو روکا اور میرے موکل سے کہا کیوں؟ اور پھر میری طرف مخاطب ہو کر کہا " یہ کیا کہتا ہے؟" مجھ سے انہوں نے اس وجہ سے پوچھا کہ عموماً موکل ہر بات پر اپنے وکیل کی معرفت عدالت سے کہتا ہے، میں نے لاعلمی ظاہر کی اور موکل سے پوچھا کہ جو کہنا ہو مجھ سے کہو ۔ میری طرف موکل نے بھنا کر دیکھا اور کہا " تم سے نہیں کہنا ہے مجھے تو حضور سے کہنا ہے۔" یعنی عدالت سے۔ منصف صاحب نے اس سے کہا کہ​
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 250
جو میرے اسلام میں شک کرے وہ بقول علماء خود کافر۔ چلئے چھٹی ہوئی۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ میں نے یہ بات پہلے سے کیوں نہ کھول دی۔ بے شک میری خطا ہوئی اور موجود ہوں، جو سزا چاہیں دے لیجئے۔
"تو نے دھوکا دیا ہمیں۔۔۔" خان صاحب نے پھر گرم ہو کر کہا "ہندو بچہ کہیں کا۔"
میں نے کہا "قبلہ عالم مجھے اپنی خطا تسلیم ہے۔ جو کچھ بھی کہئے دھوکا کہہ لیجئے خواہ فریب۔" جھگڑا یوں طے ہونا قرار پایا کہ ہندوستان بھر کے مشہور علماء کو تار دے کر پوچھا جائے کہ ایسا ایسا معاملہ ہے، آپ کیا فتویٰ دیتے ہیں۔ اورا گر کہیں میرے خلاف فتویٰ آئے کہ کافر نے دھوکہ دے کر لڑکی خراب کی تو میں قتل کر دیا جاؤں گا اور فی الحال زیر حراست سمجھا گیا۔ اپنی بیوی اور سالی کی حراست میں رہا۔
اس حادثہ فاجعہ کی خبر سن کر خان صاحب کے جملہ ہمدرد اور دوست دوڑ پڑے۔ لیکن جو بھی مجھ سے ملا اس نے یہی فیصلہ دیا کہ خطا ضرور میری ہے۔ مگر اب قصہ یوں ختم ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ چنانچہ طور و طویل تار ہندوستان کے جملہ کفر سازی کے کارخانوں کے مشہور مینجروں کو دیئے گئے اور ان سب مولویوں نے یہی لکھا کہ شادی کالعدم نہیں ہوئی اور اگر ایسی صورت میں کوئی اپنے اسلام لانے کا پورا ثبوت بہم پہنچا سکے تو مضائقہ نہیں ہے، یہی کافی ہے کہ نکاح کے وقت اس نے اسلام کا اقرار کیا اور اب بھی مسلمان ہے اور اس کا یہ کہہ دینا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں قطعی کافی ہے اور بمنزلہ تکرار کے ہے۔
جب ہر طرح کا مذہبی اطمینان ہو گیا تو اب خان صاحب نے یہ فرمایا کہ تم دھوکہ باز ہو۔ مجھے یقین نہیں کہ اپنی ہندو بیوی کو چھوڑ چکے۔ لہذا مجھ سے اب ایک تحریر اسٹامپ پر لکھ کر رجسٹری کرائی گئی اور اس میں مین نے یہ لکھ دیا کہ میں عرصہ وا مسلمان ہو چکا ہوں اور میری پہلی بیوی سرلا دیوی جو ہندو ہے، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ میں اس کا شوہر اور نہ وہ میری بیوی۔ اب غور فرمائیے کہ یہاں تو یہ تحریر اور وہاں وہ غریب بے خبر گھر کی مالکہ بنی بیٹھی ہے۔ آپ کہیں گے کہ میں نے ایسی تحریر کیوں لکھی جواب یہ کہ زبردست کا ٹھینگا سر پر! نہ کیسے لکھتا۔ علاوہ اس تحریر کے ساتھ ہی یہ تحریر بھی مجھ سے لکھوا لی کہ میں نے دھوکا دے کر شادی کر لی اور میں گنہگار اور خطاوار اور قابل سزا ہوں اور آپ کو اختیار ہے کہ اس دھوکہ دہی پر مجھے سزا دلوا دیں۔ میں نے یہ بھی بذریعہ اس تحریر کے تسلیم کر لیا کہ فلاں فلاں میں فلاں بات میں نے جھوٹ اور دھوکے سے لکھی اور یہ دھوکا دہی محض عالم کے ساتھ نکاح کرنے کی غرض سے تھی۔ یہ بھی تسلیم کر لیا کہ محض فریب اور دھوکا دینے کی نیت سے میں نے اپنی اصلیت چھپائی اور اپنے دوسرے فرضی عزیزوں کو مسلمان بنایا اور یہ سب فریب دہی میں نے محض عالم
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 251
کے ساتھ نکاح کرنے کے لئے کی اور میں خطاوار اور قصور وار ہوں، نیز توہین اور خرچہ اور نقصان و ایذا رسانی کی تلافی بھی میرے ذمے ہے اور عالم اور ان کے والد کو اختیار ہے کہ جب چاہیں مجھے سزا دلا سکتے ہیں اور تلافی پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔
اور اس تحریر کے بعد ایک دوسری رجسٹری دستاویز کے ذریعہ اپنی جائیداد سکنی لاہور قیمتی پندرہ ہزار بعوض مہر اپنی زوجہ عالم کے حق میں مکفول کی اور وعدہ کیا کہ قبصہ لاہور چل کر دلا دوں گا۔
ایک دوسری دستاویز کے ذریعہ اپنی زوجہ عالم کے حق میں بطور گزر خرچ پانچ سو روپیہ ماہوار لکھے اور اس کی ادائی کی سبیل میں بقیہ جائیداد کو مکفول کیا اور قبضہ اپنی زوجہ عالم کو لاہور چل کر دلا دینے کو کہا۔
تیسری دستاویز کے ذریعہ اپنے خسر صاحب کو اپنا مختار عام مقرر کیا اور اپنی ساری جائیداد منقولہ و غیر منقولہ پر کامل اختیار اور انتظام دے دیا۔
اور اب یہ تمام دستاویزیں لکھ لکھ کر خسر صاحب میرے ساتھ لاہور چلنے کو ہوئے تا کہ میری پہلی بیوی کی مکمل علیحدگی اور جائیداد پر قبضہ کر کے قصہ ختم کر سکیں۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا، اس دستاویزات کو لکھ کر میں قتل ہونے سے بچا۔ دیکھا جائے تو میں نے بھی ستم کیا تھا۔ آگ سے کھیل رہا تھا۔ خان صاحب تو ان دستاویزات کے لکھ دینے سے مجھ سے تو راضی کیا ہوتے لیکن مجھے قتل نہ کرنے پر راضی ہو گئے مگر عالم کا اطمینان بھی تو کرنا تھا۔ انگلش خون میں افغانی آمیزش! اور ادھر پوچھئے تو میں پھر ایک لالہ ٹھیرا۔ مجھے عالم ہی نے بچایا تھا اور سچ پوچھئے تو مجھے عالم ایسی عزیز اور پیاری تھی کہ میں اسے چھوڑنے کا یا اسے رنج پہنچانے کا خیال بھی نہ کر سکتا۔ ایسی غیور اور جانباز۔ لڑکی اور ایسی محبت کرنے والی اور ایسی خوبصورت عورت سے کیسے نہ محبت ہو۔ پھر عالم کی یہ کیفیت کہ سچ پوچھئے تو وہ نہ میری جائیداد چاہتی تھی نہ دستاویزات۔ وہ تو مجھے چاہتی تھی اور اپنے مذہب کو۔ میرا ہندو ہو جانا یا مسلمان نہ ہونا اس کے لئے ایسا تھا کہ دنیا میں کوئی شے اس کی تلافی نہ کر سکتی تھی۔ لہذا عالم کو راضی کرنا دو طرح مجھ سے فرض آیا۔ ایک تو محبت کے لئے اور دوسرے اپنی جان کی حفاظت کے لئے۔
ایک محبت کرنے والی سچی اور پاکباز بیوی کو رضامند کر لینا ایک چھوٹے شوہر کے لئے بہت آسان ہے۔ چنانچہ میں نے عالم کو نہ صرف راضی کر لیا بلکہ اس نے ٹھیکہ لے لیا کہ بشرطیکہ میں ہندو نہ ہو جاؤں یعنی بدستور مسلمان رہوں، میری جان قطعی محفوظ رہے گی۔
اس حادثے کے تیسرے ہی روز لاہور جانا پڑا۔ میری پوزیشن کی نزاکت کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ مگر نہیں واقعات ہی سن لیجئے۔

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 252
خان صاحب مع اپنے دو خطرناک دوستوں کے مع خنجر اور ریوالور کے میرے ساتھ تھے۔ ہم سب مل کر بھر پہنچے۔ یہاں پہنچے جو سہی تو خان صاحب کا پارہ چڑھ گیا۔ کہیں ہندو کا گھر چھپائے چھپتا ہے۔ اور پھر جب میں مسلمان ہو چکا تو یہاں پر "ہندو راج" چہ معنی دارد۔ نوکروں کی دھوتیاں اور گول لوٹے ہی دیکھ کر خان صاحب چمک گئے پھر یہ کیا معاملہ؟ بیوی گھر میں ہے مگر جواب کون دے۔ میں گھر میں جو گیا تو اپنی دل کی کلی یعنی رساکش نمبر 1 کو پھول کی طرح کھلا پایا۔ مگر مجھے محبت جتانے کی فرصت کہاں۔ میں نے دو لفظوں میں مصیبت بیان کی۔ ایک غلطی ہو گئی ہے اور جان جوکھم میں پڑ گئی تو ایسا ایسا کرنا پڑا۔ بڑے خونی سے سابقہ پڑا ہے، اب بہتر ہے کہ مجھے بچاؤ۔ یعنی اس وقت چوں نہ کرو اور عارضی طور پر اپنے میکے چلی جاؤ۔ ہندو بیوی بھی کتنی غریب اور بے کس ہوتی ہے مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ سرلا مجھ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہاں یہ ضرورت نہیں کہ یہ بتاؤں کہ اس کا یہ سن کر حال کیا ہوا۔ اس نے خود گھبرا کر مجھے لعن طعن کی۔ مگر فوراً ہی میری تجویز کے سامنے کس انداز سے سر تسلیم خم کیا ہے کہ میں نے اس کا سر چوم لیا۔ بیچاری حواس باختہ ہو کر گھبرا کر بولی۔ "جائیداد روپیہ سب تمہارا ہے تم نے دے دیا۔ خوب کیا۔ سب دے دو مگر جان چھڑاؤ۔ اب رہ گئے تم۔ تو تم میرے ہو اور میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔" یہ کہہ کر اس نے لپک کر میرا کوٹ پکڑ لیا۔ "میں نہیں جانے دوں گی۔۔۔ نہ جاؤ اس خوفناک پٹھان کے پاس۔۔۔ وہ تمہیں مار ڈالے گا۔۔۔ میں نہیں جانے دوں گی۔۔۔ منیب جی کو بلا لو اور جائیداد وغیرہ کے بارے میں جو جی چاہے کرو۔ کہہ دو ان سے کہ تم جاؤ۔۔۔ " یہ کہہ کر رونا شروع کیا۔
اب باہر عجیب معاملہ۔ منیب جی احمق نے گویا خان صاحب کے غصے پر دھار رکھ دی۔ قصہ کو یوں مختصر کرتا ہوں کہ سرلا لپٹ تجی اور اس نے نہ چھوڑا۔ ادھر خان صاحب بگڑ کھڑے ہوئے۔ نوکروں کی کس کی مجال تھی جو ان کی خونی آنکھوں سے آنکھ ملا سکتا۔ گڑبڑ بڑھی سرلا جان پر کھیل کر لپکی خان صاحب کی طرف ایک لکڑی لے کر جو منہ میں آیا سناتی ہوئی۔ "ٹھیر تو جا کم بخت۔۔۔ آ مجھے مار۔۔۔" اور پہنچے پہنچتے لکڑی جو سنجھبالی ہے تو وہ ایسے بدحواس ہو کر بھاگے ہیں کہ گرتے گرتے بچے۔ مگر اس کے یہ معنی تھوڑی تھے کہ خان صاحب دب گئے، وہ ایک کمزور عورت کے سامنے آنا نہیں چاہتے تھے اور انہوں نے جھٹ میرے لئے ریوالور نکال لیا مجھے مارنے کو اور میں خیریت اسی میں سمجھی کہ سرلا کو جھٹک کر خان صاحب کے پیر پکڑ لوں۔ چیل
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 253
کی طرح جھپٹ کر خان صاحب مجھے باہر لے گئے میرے سالے صاحب بھی آ گئے اور اب "رسا کشی" شباب پر پہنچی مگر خان صاحب کی جیت رہی، مجھ گرفتار کر کے لے گئے۔ غلطی خود ان کی تھی، میں منع کرتا تھا کہ گھر نہ چلئے۔ ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ نہ مانے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں اب بھی قتل نہیں ہوا!
قصے کو مختصر کرتا ہوں۔ خان صاحب نے ایک دعویٰ میری طرف سے سرلا کے خلاف دائر کرایا۔ بابت استقرار حق بدیں امر کہ میں مسمی نور محمد مسلمان ہوں اور سرلا دیوی اب میری بیوی نہیں رہی اور میرا اس سے اب کوئی تعلق نہیں رہا اور نہ میں اس کی کفالت کا ذمہ دار ہوں۔
اس کے جواب میں سرلا نے بھی دعویٰ استقرار حق بدیں امر کہ مسمی شنکر لال حال نور محمد از روئے ہندو دھرم شاشتر میرا جائز شوہر ہے۔ مجھے خرچ وغیرہ دینے سے منکر ہے اور مجھے زوجیت سے اپنی خارج کہتا ہے۔ لہذا ہزار روپیہ ماہوار خرچ گزارہ اور رہائش کو مکان دلایا جائے اور حکم امتناعی دوامی اس امر کا صادر ہو کہ مجھے اپنی زوجیت سے خارج نہ کرے۔
یہ دونوں دعوے سرگرمی سے دائر کر دیئے گئے اور رسا کشی زوروں میں شروع ہو گئی۔ تمام دستاویزات جو "ایکس پور" میں بحق عالم رجسٹری کرائی گئی تھیں، ان کی ازسرنو لاہور میں پھر رجسٹری ہوئی اور جملہ جائیداد غیر منقولہ کے کاغذات اور قبضہ خان صاحب بہ نوک خنجر مجھ سے لے لیا۔ اور دونوں طرف سے مقدمہ کی سر گرمی سے پیروی ہونے لگی۔
آپ کہیں گے کہ میں نے سرلا کے ساتھ ظلم کیا۔ ظلم بے شک کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا قتل ہو جاتا؟ یا عالم کے ساتھ ظلم کرتا۔ آخر کرتا کا؟
مگر اب میری عقلمندی کی تعریف کیجئے کہ ایک طرف تو یہ رسا کشی ہو رہی ہے اور دوسری طرف میں سرلا سے بھی ملتا ہوں اور کیسے کیسے غریب کو سمجھاتا ہوں کہ خدا کی بندی صبر کر، مت گھبرا، میں اول تیرا اور آخر تیرا۔ میں مسلمان نہیں ہوں۔ تو گھبرا مت اطمینان رکھ۔ مگر وہ بیچاری کیا کرے۔ مسلمانوں کو اور پٹھانوں کو سینکڑوں کوسنے دیتی ہے اور روتی ہے اور ہار کر غریب آخر یہی کہتی ہے کہ میں تمہاری لونڈی ہوں مجھے چھوڑنا مت۔ اور میں جواب میں کہتا ہوں کہ نیک بخت تو میری اور میں تیرا۔ ان مقدموں اور جائیداد کے جھگڑوں کو ہونے دے۔ بس میری جان کی خیر منا جو اس خان سے جان بچی تو تیرا ہی ہوں۔
ادھر تو یہ حال اور اوھر والوں کو کچھ اطمینان تو ہوا تھا مگر بہت جلد پتہ چل گیا کہ میں چھپ چھپ کر سرلا سے ملتا ہوں۔ کوئی ثبوت ان کے پاس نہ تھا، لہذا میں انکار کر جاتا۔ اور جانا ثابت ہوتا بھی بہانہ کر دیتا۔ خان صاحب نے اب یہ ترکیب کی تھی کہ مقدمے کی پیشی کے دن مجھے اپنے ساتھ لاہور لاتے تھے ورنہ "ایکس پور" میں اپنے ساتھ رکھتے تھے اور وہ بھی گویا زیرِ
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 254
حوالات۔ لیکن میں نے کئی مرتبہ یہ کیا کہ کلکتے اور دوسری جگہ کا بہانہ کر کے لاہور سرلا کی دلجوئی کے کے سہارا دے کر لوٹ آیا۔ لیکن بات چھپ نہ سکتی تھی اور ایک دفعہ پکڑا گیا۔ خان صاحب نے تو خنجر دکھائے مگر عالم کا مارے رنج و غم کے برا حال ہو گیا۔ خان صاحب نے مجھ سے توبہ نامے اور اقرار نامے لکھائے کہ اب سرلا سے ملنے نہ جاؤں گا اور اگر جاؤں تو جو سزا چاہیں دیں اور جو تاوان چاہیں لیں۔ اور لطف یہ کہ میں نے پھر اقرار ناموں کو توڑ دیا اور پھر نئے لکھے اور پھر انہیں بھی توڑ دیا۔ ہر دفعہ خطا قبول کر کے عالم اور ان کے باپ کے آگے سر جھکا دیتا کہ حاضرہوں۔ جو سزا چاہیں دے لیں۔ سچ من سر خان صاحب کے پیروں میں رکھ رکھ دیتا۔ ان کے ملنے والوں کے آگے ہر دفعہ ہاتھ جوڑتا اور ہر دفعہ وعدے کرتا اور پھر توڑ دیتا۔ دراصل ناممکن تھا کہ میں رساکش نمر 1 کو بالکل ہی چھوڑ دوں۔ ارادہ کرتا، پھر ایک غیبی طاقت سے مجبور ہو جاتا۔ وہ بے قصور تھی۔ وہ بڑی زور و شور سے کھینچنے والی "رساکش" تھی جس نے رسا پہلے پکڑا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میرے پیچھے تج دی تھی۔ خطا میری اور وہ معافی مانگتی! بھلا بتائیے تو میں اس فرشتہ سیرت بیوی کو کیسے چھوڑ دیتا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ کبھی کبھار بی اس سے نہ ملوں اور ادھر خان صاحب اور عالم کا یہ خیال کہ ذرا ڈھیل ڈالی نہیں کہ میں پھر ہندو ہوا۔ بلکہ خان صاب تو کہتے تھے کہ میں مسلمان ہی نہیں۔ اپنے کو کہتے تھے کہ مولویوں کے فتاوے سے مجبور ہوں ورنہ کب کا قتل کر کے قصہ پاک کرتا۔ ایک دفعہ جب میں کئی بار وعدہ خلافی کر چکا تو خان صاحب نے یہ ارادہ کیا کہ طلاق لے لیں۔ مگر یہ سنتے ہی عالم کو غش پر غش آنے لگے اور چھوٹی سالی نے ال رو رو کر برا حال کر لیا۔ دراصل عالم مجھے نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ لہذا یہ خیال ہی ترک کرنا پڑا۔ حالانکہ اگر ایسا کرتے تو میری سب جائیداد مہر اور اقرار ناموں اور تاوان وغیرہ میں ان کو مل سکتی تھی۔ قصہ مختصر جہاں تک میری ذات کا تعلق تھا میں نے سرلا سے ملنا بند نہ کیا اور ہر وعدہ خلافی پر کوئی نہ کوئی نئی تحریر، نئی دستاویز مرتب ہوتی تھی۔ مگر میں تو عہد نامہ توڑنے ہی کے لئے لکھتا تھا۔
اب کچھ مقدمے کا حال سنئے۔ سرلا نے بیان دیئے کہ وہ میری بیوی ہے اور دھرم شاستر کی رو سے شادی شدہ ہےاور مجھے نہیں چھوڑنا چاہتی۔ میں نے یہ بیان دیا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اور اب یہ میری زوجہ نہیں رہی۔
دونوں مقدمے میں ہارا۔ عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ ہندو قانون کی رو سے میاں اور بیوی میں طلاق نہیں ہو سکتی۔ خواہ میاں اپنا مذہب چھوڑ دے یا بیوی اپنا مذہب چھوڑ دے۔ ہندو دھرم شادی کو معاہدہ نہیں مانتا بلکہ فریقین کا تعلق عمر بھر کے لئے مذہب کی بنیاد پر قائم کرتا ہے جو کسی طرح بھی نہیں ٹوٹ سکتا لہذا ہم فیصلہ دیتے ہیں مسماۃ سرلا دیوی مسمی نور محمد سابق سیٹھ شنکر

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 255
لال کی جائز بیوی ہے اور رہے گی اور گزارہ اور رہائش کے لئے مکان پانے کی مستحق ہے۔ گزارہ ہم پانچ سو روپیہ ماہوار مقرر کرتے ہیں اور جس مکان میں وہ رہتی ہے، اس پر تاحیات قابض رہے گی۔ رہ گیا یہ امر کہ ہم نور محمد کو حکم دیں کہ وہ سرلا دیوی کو بطور اپنی زوجہ کے رکھے تو بوجہ تبدیل مذہب ہو جانے کے ہم اس بارے میں کوئی خاص حکم صادر نہیں کرتے اور فریقین کو ان کی مرضی پر چھوڑتے ہیں۔
جو دعویٰ میری طرف سے ہوا تھا وہ مع خرچہ خارج ہوا اور اس میں یہ طے ہوا کہ اس معاملے میں شرع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون ایک مسلمان شوہر ایک ہندو بیوی کا جائز شوہر نہیں ہو سکتا، ناقابل نفاذ ہے۔ لہذا حکم ہوا کہ مسمی نور محمد کی بیوی سرلا دیوی ہے اور بدستور رہے گی۔
ان دونوں مقدمات کی ہم نے ہائیکورٹ تک اپیل کی اور ہار گئے اور معلوم ہوا کہ ہندوستان کے تمام ہائیکورٹوں کا متفق فیصلہ یہی ہے۔
یہ تھا وہ اٹل فیصلہ جس نے طے کر دیا کہ "رسا کشی" زور میں جاری ہے۔ خان صاحب پچھڑ کر رہ گئے۔ عالم پست ہو کر رہ گئیں اور سرلا دیوی اکڑ کر رہ گئیں۔
رو گیا میں، تو حضرت ایک "رسا کسی" کے مضبوط رسے کی طرح تن کر رہ گیا اور دونوں طرف کے "رسا کش" اب لگا رہے ہیں زور ڈٹ ڈٹ کے۔
خان صاحب نے بدحواس ہو کر دو تین دستاویزات لکھوائیں مجھے بھلا کیا انکار ہو سکتا تھا فوراً لکھ دیں۔ یہ تمام دستاویزات ایسی ہیں کہ ان کی خلاف ورزی کر کے میں ایک منٹ جیل سے باہر نہیں رہ سکتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ میں جیل جانے کو تیار ہوں اور خان صاحب مجھے کب کا جیل پہنچا چکے ہوتے جو کہیں عالم بچانے والی بیچ میں نہ ہوتی۔
اب اس کے بعد نوبت یہ پہنچی کہ عالم بھی جزبز رہنے لگیں اور تازہ ترین دستاویزیں ایسی خطرناک تھیں اور خان صاحب کا غصہ اور عالم کی نظریں ایسی ترچھی ہوئی کہ میں نے سرلا سے ہر طرح قطع تعلق کر لیا۔ ایسا کہ خان صاحب اور عالم دونوں راضی ہو گئے اور تمام شبہات رفع ہو گئے اور خود غور کیجئے کہ میں بقول خود خانصاحب کہاں تک وعدہ خلافی کرتا۔ آخرش عالم کی محبت اور خان صاحب خوفناک آنکھ کی چشم پوشی سے شرمندہ ہو کر مسخر ہو گیا اور حلف جو اٹھایا تھا کہ اب کبھی سرلا کی طرف رخ بھی نہ کروں گا۔ اس کا پاس ایسا کیا کہ خود خان صاحب قائل ہو گئے۔ اب میری نگرانی کی چنداں ضرورت نہیں رہی۔
عرض ہے کہ جب معاملات خوشگواری کے اس اطمینان کے درجہ کو پہنچے تو اللہ نے کرم کیا۔ خان صاحب کو خدا نے چاند سا نواسہ عطا فرمایا اور اس بچہ کے چھٹے دن عقیقہ ہوا یعنی سر گھوٹا گیا۔ مگر غور کیجئے کہ سر تو بیٹے کا گھٹے اور اولے پڑیں باپ کے سر پر، یعنی اسی دن شام کو یہ خبر

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 256
پہنچی کہ میری جان سے پیاری سرلا دیوی جی نےبھی کرم فرمایا ہے اور وہ مضمون کو یک نہ شد دو شد اللہ نے ایک چھوڑ دو بیٹے ایک دم سے جو عنایت کئے ہیں تو بدہضمی تو آپ سمجھیں ویسے ہی بری ہوتی ہے اور پھر خوشی کی، نتینہ یہ کہ غنیمت سمجھے جو خان صاحب نے نواسے کو یتیم نہیں کر دیا اور میں بچ گیا اور پھر وہی رسا کشی!
اور اس اب رسا کچی کا کیا حال ہے۔ اس سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ سرلا کے پاس جاتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ تم تو مسلمان ہو، ہرگز ہندو نہیں ہو، اور عالم سے لاکھ کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں خدارا یقین کر مگر وہ نہیں مانتی۔ آپ جانیں عورت ذات چیز ہی ایسی ہے۔ چنانچہ اب تو یہ مضمون ہے۔
عالمِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور سرلا یہ سمجھتی ہے مسلماں ہوں میں
اور میں دل میں ہنستا ہوں اور پریشان ہو کر دل میں کہتا ہوں
چہ تدبیر اے مسلمانان کہ من خود را نمی دائم
نہ ترساؤ یہودی ام نہ گبرم نے مسلمانم
قصہ مختصر رسا کشی جاری ہے۔

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 257
چاول
گذشتہ جولائی کا ذکر ہے کہ ایک عجیب شخص سے ملاقات ہوئی۔ یہ حضرت ایک کمپنی کے ٹریولنگ ایجنٹ ہیں۔ اپنی تجارت کے سلسلے میں یہاں آئے۔ ایک اور صاحب ڈاک بنگلے میں ٹھہرے تھے جن سے ملاقات ہوئی اور ان کی وجہ سے آپ سے بھی تعارف حاصل ہوا۔ میں نے دونوں حضرات کو کھانے پر مدعو کیا، اول تو انہوں نے انکار کیا لیکن بعد میں راضی ہو گئے۔ مگر کہنے لگے "ایک شرط پر۔. میں نے پوچھا تومعلوم ہوا کہ چاول میز پر نہ آئیں۔ میں وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ قسم ہے۔ زیادہ میں پوچھنا بھی نہ چاہتا تھا۔
میں نے اس دعوت میں دو ایک اور احباب کو بھی مدعو کیا۔ اور ان میں سے ایک صاحب اسی روز راستے میں ملے۔ کہنے لگے۔ "مجھے سخت پیچش ہے، میں نہیں آؤں گا۔" لیکن میں نے ان سے وعدہ لے لیا کہ کیا مضائقہ ہے ویسے ہی آ جانا اور وقت کی پابندی کا تقاضا کر دیا۔
چنانچہ یہ حضرت جو پہنچے ہیں تو سب کھانا کھا رہے تھے۔ آپ بھی آ گئے اور آتے ہی میز پر ڈٹ گئے۔ میں سمجھا تھا کہ آپ کھانا کھائیں گے کہ اتنے میں ان کے نوکر نہں جو ساتھ تھے، تولیے میں سے نکال کر ایک پلیٹ چاولوں کی اور دہی کا پیالہ رکھ دیا!
چاول میز پر آنا تھا کہ میرے عجیب و غریب مہمان کی نظر پلٹ پر پڑی۔ ایک دلدوز چیخ اور تڑپ کے ساتھ یہ اپنی جگہ سے اُچھل کر گویا دور گرے۔ ایسے کہ معلوم ہو ان کے گولی لگی اور چکرا کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ساری محفل ایک دم سے برہم ہو گئی اور ہم سب حیران و پریشان ان کے گرد جمع ہوئے۔ بمشکل ان کے ہوش بجا ہوئے تو انہوں نے یہی کہا "ہٹاو۔ ہٹاو اس پلیٹ کو۔" اور یہ کہہ کر بغیر کہے ۔۔۔۔۔ ہوئے جانے لگے۔ روکے نہ رکتے تھے۔ میں نے جب انتہا سے زیادہ خوشامد کی اور معافی مانگی اور اپنی بدقسمتی پر حد سے زیادہ تاسف کیا تو بمشکل رکے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ کھانے کے لئے اب کوئی اصرار نہ کرے۔ بمشکل ان کو راضی کیا۔ چاولوں کی پلیٹ ہٹا دی گئی۔ دراصل بات یہ ہوئی کہ ان پیچش زدہ دوست کو ڈاکٹر نے دہی خشکہ بتایا تھا۔ گھر دیر سے پہنچے۔ ادھر میرا تقاضا تھا کہ وقت پر پہنچنا تکلف برطرف یہ سوچا کہ کھانا کھاتا ہوں تو دیر
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 258
ہو جائے گی لہذا کیوں نہ اپنا کھانا ساتھ ہی لیتا چلوں۔ اب جو کچھ بھی ہوا۔ وہ ہوا لیکن یہ معمہ سمجھ میں نہ آیا کہ آخر چاول دیکھتے ہی ان کی یہ حالت کیسے ہو گئی۔
کھانا تو انہوں نے نہیں کھایا، لیکن ساتھ ضرور بیٹھے رہے۔ لازمی تھا کہ ان سے معافی مانگتے ہوئے اس غیر معمولی بات کا سبب دریافت کا جائے۔ کھانے کے بعد ان کی حالت جب بالکل ٹھیک ہو گئی اور وہ پیشتر کی طرح ہنسنے بولنے لگے تو ہم سب نے ان کو مجبور کیا کہ وجہ بتائیں۔ انہوں نے زیادہ انکار نہیں کیا اور اپنا عجیب و غریب قصہ بیان کیا۔۔۔ جس میں سے چند باتیں چھوڑ کر قصے کے پیرائے میں جس طرح انہوں نے بیان کیا میں آپ کو بتاتا ہوں۔
انہوں نے سگرٹ سلگا کر نہایت ہی آہستہ اور سنجیدہ لہجے میں اپنا قصہ اس طرح شروع کیا۔
(1)
یہ جب کا ذکر ہے کہ میں چھوٹا سا تھا مگر مجھے سب یاد ہے۔ ایسی اچھی طرح گویا کل کی بات ہے اور جب کبھی کسی دلہن کو دیکھتا ہوں تو وہی سین پیش نظر ہو جاتا ہے۔
جس وقت بچوں نے سنا کہ دلہن آ گئی تو برات کی دھماچوکڑی میں ایک عجیب و غریب قابل قدر اضافہ ہو گیا۔ ایک بچے صاحب اپنے والدہ کا دودھ نوش فرما رہے تھے۔ انہوں نے سنا تو وہ بھی لپکیں اور ان بچے صاحب کو اپنے "ڈنر" کے التوا پر سخت غصہ آیا۔ ماں نے بچے کو وہیں چھوڑا جو سہی تو وہ بکھر گیا۔ ایک گھونسا اس کو مار کر وہ اسے اٹھا کر دوڑیں دلہن کی طرف۔ باقی بچے سب کے سب دروازے کی طرف دوڑے، ان میں میں بھی تھا۔ اسی سلسلے میں دو چار بچے واللہ اعلم کس وجہ سے پٹ گئے اور بعض نے یونہی بیزاری ظاہر کر کے رونا شروع کیا۔ ہم سب الگ ہٹا دیئے گئے۔ تب ہم نے دیکھا کہ دلہن اتاری گئی۔ وہ کتنی شرمیلی اور پیاری چیز تھی۔ جھکی نہیں بلکہ گری جا رہی تھی۔ زرق برق لباس میں سے اس کے گورے گورے مہندی سے رنگے ہوئے سرخ ہاتھ دکھائی دے رہے تھے اور خوشبو سے وہ مہک رہی تھی۔ عمر میں میں نے پہلی دفعہ یہ دلہن دیکھی۔
(2)
اسی دلہن کو دیکھنے ہم دوسرے دن گئے۔
کیا دیکھتے ہیں کہ دلہن زرق برق کپڑے پہنے بیٹھی ہے۔ مارے شرم کے جھکی جا رہی ہے۔ دراصل اس پر بڑا سخت وقت تھا۔ اردگرد کی عورتیں رونمائی کر رہی تھیں۔ دلہن کے سامنے ایک ادھیڑ عمر کی بی بی بیٹھی تھیں اور ہر دیکھنے والی کے لئے دلہن کا گھونگھٹ اٹھا دیتی تھیں۔ ایک چاند سا کھل کر چھپ جاتا تھا۔

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 259
آپس میں عورتیں دلہن کی صورت شکل اور بالخصوص اس کی شرم کی تعریف کر رہی تھیں۔ اس وقت ہم دو بچے کھڑے دیکھ رہے تھے۔ میری ساتھی نے کہا۔ "ہماری آپا بھی دلہن بنی تھیں۔" مجھے سخت حیرت ہوئی اور میں نے اس کی بہن کے دلہن بننے کے حادثے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ تو بہت ہی کالی اور بدصورت تھیں۔ دلہن ایسی نہیں ہوتی۔
اس کے بعد ایک بی بی سے ہم نے دلہن دیکھنے کو کہا۔ وہ بہت خوش تھیں اور انہوں نے بڑی خوشی سے دلہن کو دکھایا۔
میں نے مسہری کے پاس آ کر دیکھا۔ دلہن نے اپنی بند آنکھوں کو شرم سے ذرا جنبش دی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ میں نے جھانک کر اسے اچھی طرح دیکھا اور اس کی صورت شکل اس قدر بھولی اور شرمیلی تھی کہ میرے دل پر خاص اثر ہوا۔ مجھے یہ دلہن بے حد پسند آئی۔ اور میں ہٹا ہی ہوں کہ گونگے چچا آ گئے۔ یہ گونگے چچا دولہا کے رشتے کے چچا تھے۔ شادی کے سبب یہ بھی اس وقت نئے کپڑے پہنے تھے۔ یہ بھی دلہن کو دیکھنے آئے اور انگلی اٹھا کر بولے "اپو۔۔۔ پائے۔۔۔ پاء۔۔۔" یعنی ہم بھی دلہن کو دیکھیں گے مگر عورتوں نے انہیں جھڑک کر ہٹا دیا۔ کسی نے خفگی سے بھویں سکیڑیں، کسی نے چہرہ بنایا اور یہ لوٹ گئے نہ یہ سن سکتے تھے اور سوا "ہع۔ ہع" کے کچھ بول سکتے تھے۔
(3)
میں ادھر سے چلا آیا۔ تھوڑی دیر دوسری طرف کھیلتا رہا پھر اندر گیا۔ سب عورتیں اپنے کام میں لگی تھیں اور دلہن برآمدے میں اپنے کمرے کے سامنے اکیلی بیٹھی تھی۔ اس کا خوبصورت چہرہ آدھے کے قریب کھلا تھا اور میں دور ہی سے دیکھ رہا تھا کہ اس نے ایک دم سے اپنا منہ چھپا لیا۔ دیکھتا ہوں تو گونگے چچا، یہ دیوانے سے تو تھے ہی "پا۔۔۔ پاعے۔۔۔ " کہہ کر مسکرائے اور سیدھے چلے دلہن کی طرف۔
اب لطف دیکھئے کہ دلہن کی مسہری کے پاس پہنچ کر آپ نہ صرف بے تکلفی سے بیٹھ گئے، مگر گُڈی مُڑی دلہن کا گھونگھٹ اس آزادی سے اٹھانے لگے جیسے رونمائی کے وقت اٹھایا جا رہا تھا۔۔
دلہن سخت گھبرائی مگر یہ نہ مانے اور دلہن سے بولے۔ "پا۔۔۔ پاء۔۔۔ پاعے۔۔۔۔"
دلہن نے سخت گھبراہٹ میں ادھر ادھر گھونگٹ ہی میں سے غالباً امداد کے لئے دیکھا اور جب یہ نہ مانے تو اس نے "ہوں" کر کے ہاتھ سے ان کو روکا۔ مگر یہ بھلا کاہے کو مانتے خندہ فرما کر "پا۔ پاپاپا۔۔۔ ہے۔۔۔ چ۔۔۔۔" کر کے اور بھی زیادہ منہمک ہوئے۔ چشم زدن میں دلہن دونوں ہاتھوں سے پنجہ لڑانے لگی۔ وہ ان کے دونوں ہاتھ پکڑتی۔ باوجود گھونگٹ نکلا ہونے کے

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 260
مردانہ وار ان کے ہاتھ پکڑتی ہے اور یہ "چ۔۔۔ پا۔۔۔ چ۔۔۔" کر کے چھڑا کر گھونگٹ الٹتے ہیں، کہ میں اتنے میں گھبرا گیا۔ میں نے پکارا۔ "دیکھو، یہ گونگے چچا دلہن کو مار رہے ہیں۔"
میری آواز کے ساتھ ہی "چ۔۔۔ ہع پا ہع۔۔۔" کی آواز عورتوں کے کان میں بھی پہنچ گئی اور وہاں سے دو تین عورتیں اس سین کو دیکھ کر چیختی چنگھاڑتی جوتیاں چھوڑ چھاڑ کے دوڑیں۔ انہوں نے آ کر گونگے چچا کو جھٹک پھینکا۔ دھکے دے کر ایسا غل مچایا کہ بیچارے .ہع۔ ہع" کر کے دھکے کھاتے نکل گئے۔ عورتوں نے بڑی دیر تک غل مچایا۔
(4)
ایک دو روز بعد میں پھر جو پہنچا تو دلہن اپنے کمرے میں تھی۔ میں نے جھانک کے دیکھا تو سچ مچ حیرت کی وجہ سے سکتہ میں رہ گیا۔ وہی شرمیلی دلہن انتہائی، انتہائی شرارت کی تصویر بنی اپنے میاں کی جیب سے نہ معلوم کیا چیز زبردستی چھین رہی تھی اور وہ مارے ہنسی کے بے حال ہو کر چارپائی پر پیچھے ہٹتے ہٹتے لیٹ گئے تھے۔ مگر اس شوخ و شنگ دلہن نے نہ چھوڑا۔ اس کا دوپٹہ بھی سر سے سرگ گیا تھا اور مارے خوشی کے چہرہ چمک رہا تھا۔ دونوں ہنس رہے تھے۔ میں اس شرمیلی دلہن کے اس رویے سے ایسا گھبرایا کہ دلہن نے مجھے دیکھا ہی تھا کہ میں وہاں سے بھاگا۔ میری دانست میں دلہن کو ایسا ہر گز نہ کرنا چاہیے تھا۔ میں اس کی بے باکی پر سخت متحیر تھا۔
(5)
دوسرے ہی دن دبے پاؤں میں پھر جو پہنچا اور جھانک کے اس خوبصورت اور شرمیلی دلہن کو دیکھا کہ اس کا میاں آئینے کے سامنے کرسی پر بیٹھا ہے اور یہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ اس کے کندھے پر ٹھوڑی رکھے آئینے میں دیکھ رہی ہے۔ میں دلہن کے چہرے کی شگفتگی اور انداز کی دلکشی دیکھ کر حیران سا ہو گیا کہ آئینے میں میری اس کی آنکھیں چار ہوئیں، مجھے دیکھتے ہی وہ چونک پڑی اور "کون ہے!" جو کہا تو میں بدحواس ہو کر ایسا بھاگا کہ گھر پر آ کر رکا۔ میں دلہن کے بارے میں قطعی رائے قائم کر چکا تھا کہ یہ بہت ہی بری ہے۔
(6)
تین چار روز ادھر کا رخ نہ کیا۔ پھر جو گیا تو ادھر ادھر گھوم کر دلہن کے کمرے کے پاس جو پہنچا تو دلہن نے مجھے کمرے میں سے دیکھا اس کا روشن اور پرنور چہرہ کھلا ہوا تھا اور اس نے مسکراتے ہوئے مجھے انگلی سے آنے کو اشارہ کیا۔ میں کھڑا دیکھتا رہا۔ وہ برابر اشارہ کرتی رہی حتیٰ کہ میں اس کی طرف گیا۔ مگر کمرے کے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا۔ "اندر آؤ۔" میں نہ گیا۔ تو اٹھی اور ادھر ادھر جھانک کر ایک دم سے لپک کر مجھے پکڑ لیا۔ میں نے زیادہ زور نہ

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 261
لگایا اور شرماتا ہوا گردن نیچی کر کے کھڑا ہو گیا۔ اس نے میرا نام وغیرہ پوچھ کر مجھ سے بار بار آنے کی وجہ دریافت کی اور جب میں کچھ نہ بتا سکا تو مجھ سے کہنے لگی کہ "اب جو تم ادھر آئے تو تمہارے کان کاٹ لوں گی۔ بھاگو یہاں سے۔۔۔ لانا چاقو۔" اور جناب یہ سنتے ہی میں کانوں پر ہاتھ رکھ کر جو بھاگا ہوں تو گھر جا کر دم لیا۔ یہ کوئی لکھنؤ کے رہنے والے لوگ تھے۔ ملازم پیشہ تھے اور اس کے ہفتے ڈیڑھ ہفتے بعد یہ لوگ نہ معلوم کدھر چلے گئے۔ دلہن اور اس کا خیال بچپن کی ایک بھولی بسری یاد ہو کر رہ گئی۔ جب میں نے اس دلہن کو دیکھا ہے اس وقت اس کی عمر تخمیناً سولہ یا سترہ برس کی تھی اور میری عمر شاید پانچ برس کی ہو گی۔
(7)
لیکن ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے کہ ایک عجیب معاملہ پیش آیا۔
اسٹیشن کا نام بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کہاں جا رہا تھا یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ میں بالتفصیل کوئی بات نہ بتاؤں گا۔ ریل گاڑی جو پلیٹ فارم پر آئی ہے تو میں قریب ہی کھڑا تھا۔ گاڑی باوجودیکہ رکنے والی تھی لیکن رفتار پھر بھی تیز تھی۔ مختلف ڈبے سامنے سے گزر رہے تھے۔ تیزی سے انٹر کلاس میرے سامنے سے گزرا۔ کھڑکی میں ایک نو عمر عورت کا چہرہ سیاہ رنگ کے برقعے میں مگر بالکل کھلا ہوا میرے سامنے ہی سے تیزی سے گزرا۔ میرے منہ نے نکلا۔ "ارے!" کیونکہ یہ واقعہ تھا کہ یہ حسین و جمیل چہرہ اسی دلہن کا تھا جسے دیکھے ہوئے آج بیس سال ہو چکے تھے! حالانکہ ایک جھپکی سی میں نے دیکھی لیکن اس چہرے کا حسن و جمال کچھ ایسا تھا کہ بیس برس گزر گئے تھے لیکن میں نے فوراً پہچان لیا۔ میں اس کو ایک عجیب و غریب نظر کی غلطی سمجھا۔ مگر اسی طرف چلا کیونکہ مجھے بھی اسی درجے میں بیٹھنا تھا۔
اس درجے میں چار پانچ مرد بھی تھے اور یہ نو عمر خاتون ایک کونے سے لگی بیٹھی تھی، ایک ٹرنک تھا اور ایک مختصر بستر۔ جس پر وہ اس وقت کونے میں منہ دیئے بیٹھی تھی۔
اندازے سے معلوم کر کے مجھے حیرت ہوئی کہ ان مردوں میں سے کوئی بھی اس کا ساتھی نہیں معلوم ہوتا۔ یہ بھی سمجھ میں نہ آیا کہ مردانہ انٹر میں وہ کیوں بیٹھی تھی۔
(8)
کوئی تین اسٹیشن گزرنے کے بعد ڈبے میں سوا میرے اور اس کے کوئی بھی نہ رہ گیا اور اس دوران میں میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔ کیونکہ اگلے ہی اسٹیشن پر میں نے اتر کر جو اس کو دوبارہ دیکھا تو اور بھی مغالطہ ہوا! وہی نقشہ۔ رنگ و روپ سب سہی معلوم ہوا جو میں نے بیس برس ہوئے دیکھا تھا لیکن عمر اس کی بھی سولہ یا سترہ برس کی تھی اور یہ سبب ہے کہ دونوں

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 262
صورتوں میں کچھ فرق نہ تھا۔
میں جب اکیلا رہ گیا تو میں نے قطعی ارادہ کیا کہ اس سے بات چیت کروں۔ اس نے برقعے سے اپنا چہرہ اچھی طرح چھپا لیا تھا۔ میں بغیر کسی بہانہ تلاش کئے اٹھ کر اس بنچ پر آ گیا جو اس کے سامنے ہی تھی۔ اس نے میری نقل و حرکت کو غالباً خوف سے دیکھا تو میں نے کہا :
"محترمہ آپ گھبرائیں نہیں۔ غالباً میں آپ کو جانتا ہوں۔ معاف کیجئے گا میں آپ کو دیکھ کر سخت حیران ہوں کہ غالباً یہی صورت شکل میں نے اب سے بیس برس پہلے دیکھی تھی۔ وہ غالباً آپ کی والدہ ہوں گی۔۔۔"
اس نے گھبرا کر کہا۔ "آپ میری والدہ کو جانتے ہیں! کون تھیں وہ؟ کہاں ہیں؟۔۔۔"
میں نے واقعہ بتایا کہ مجھے سوا اس کےکچھ یاد نہیں کہ پڑوس میں ایک دلہن کو دیکھنے گیا تھا۔ نہ یہ معلوم کہ اس دلہن کے شوہر کا کیا نام تھا۔ وہ مجسم بے کل ہو گئی۔
"کیا آپ معلوم کر سکتے ہیں؟۔۔۔ کسی طرح معلوم کر سکتے ہیں کہ میرے باپ کا نام ۔۔۔ مطلب یہ کہ جن کو آپ بتاتے ہیں کہ آپ کے پڑوس میں رہتے تھے ان کا نام اور پتہ کیا تھا؟۔۔۔"
میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ " میں آپ کے سوالات سے سوا اس کے کیا سمجھوں کہ آپ۔۔۔ آپ کو خود کیوں نہیں معلوم۔"
اس نے برقعہ کا نقاب ذرا سا ہٹاتے ہوئے ٹھنڈی سانس لے کر کہا :
"جی ہاں۔ مجھے اپنے ماں باپ کا نام نہیں معلوم۔ خود اپنا اصلی نام نہیں معلوم۔ مجھے چھوٹی سے عمر میں گھر سے کوئی فقیر چرا لایا۔ وہ مجھے لئے لئے پھرا جب اس جگہ آیا جہاں سے میں آ رہی ہوں تو مر گیا اور کسی نہ کسی طرح مجھے ایک بیوہ نے لے لیا اور اپنی لڑکی کی طرح پرورش کیا۔ جب میں بڑی ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے ماں باپ نہ معلوم کون ہیں۔ ان بیوہ کا پرسوں انتقال ہو گیا۔ اور ان کے آوارہ بھتیجوں کی کشمکش سے بچنے کے لئے میں وہاں سے بھاگی ہوں۔۔۔ اور اسی وجہ سے مردانہ درجے میں بیٹھی ہوں۔"
"اور آپ کہاں جا رہی ہیں؟"
"ان بیوہ کے ایک دور کے رشتے کے بھائی کے یہاں۔"
"وہاں تو کشمکش نہ ہو گی؟"
خاموش۔ اور پھر اپنا سوال کر دیا۔ "آپ نے بتایا نہیں کہ آپ ان کا نام معلوم کر سکتے ہیں جو آپ کے پڑوس میں رہتے تھے۔ شاید وہی میرے باپ ہوں۔ آپ کا پورا قصہ سن کر تو یہی اندازہ ہوتا ہے۔ کیا آپ اب اگر ان کو دیکھیں تو پہچان لیں۔"

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 263
میں نے جواب دیا۔ "جی نہیں۔ مجھے ان کی صورت شکل کا خیال تک نہیں لیکن نام اور پتہ ان کا غالباً معلوم ہو سکتا ہے۔ میرے والد تو انتقال کر چکے تھے۔ ماموں صاحب کے ساتھ میں رہتا تھا اور اب ماموں صاحب بھی زندہ نہیں اور اس جگہ سے ماموں صاحب بھی سال بھر بعد چلے آئے۔ لیکن میری دانست میں محلے میں جا کر مکان والوں سے پتہ چل سکتا ہے۔"
"تو آپ پتہ لگا سکتے ہیں؟"
"وہاں خاص طور پر جاؤں تو غالباً پتہ چل سکتا ہے۔"
"مگر۔۔۔"
وہ کہتے کہتے رک گئی۔
"میں نے کہا۔ "ممکن ہے مجھے دھوکا ہوا ہو۔۔۔"
گھبرا کر اور ناامید ہو کر اس نے کہا۔ "آپ نے تو کہا کہ آپ کے پڑوس میں۔۔۔"
میں نے کہا۔ "نہیں نہیں۔ یہ میرا مطلب نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ آپ کی صورت شکل میں مجھے دھوکہ ہوا ہو۔"
اس نے گھبرا کر کہا۔ "مگر آپ نے فرمایا کہ بالکل میری ماں سے۔۔۔ مطلب یہ کہ ان کی صورت سے ملتی ہے۔۔۔"
"خیال ہے میرا۔" میں نے کہا۔ "ممکن ہے مجھ سے غلطی ہوئی ہو۔ آپ کی صورت شکل ان سے ملتی جلتی نہ ہو۔۔۔"
"مگر آپ تو کہتے ہیں کہ ان کی صورت مجھے یاد ہے۔۔۔ مگر ہاں بہت دن ہو گئے ہیں۔"
میں نے کہا۔ "ان کی صورت شکل تو ایسی یاد ہے کہ دل پر گویا نقش ہے۔۔۔"
بات کاٹ کر خوش ہو کر وہ بولی "تو پھر تو غلطی نہیں ہو سکتی۔"
میں نے کہا "جہاں تک ان کی صورت کا سوال ہے بے شک غلطی نہیں ہو سکتی مگر۔۔۔"
میں رک گیا۔ غالباً وہ سمجھ گئی۔ مجھے چنداں غرض نہ تھی، لہذا میں بھی چپ ہی رہا۔ مگر حالت اس کی قابل رحم تھی۔ جب میں نہ بولا تو ہار کر وہ خود بولی۔
"آپ کوشش کر دیں۔۔۔ شاید وہ میری ماں ہو جن کو آپ نے دیکھا۔ میں عمر بھر اس احسان کو نہ بھولوں گی۔"
اس کی آواز میں غم تھا۔ میں خود مشکوک تھا۔ ممکن ہے مجھ سے غلطی ہوئی۔ محض ذرا سی مشابہت پر دوڑ پڑنا۔
میں نے کہا۔ "محترمہ۔ محض ذرا سی مشابہت پر دوڑ پڑنا اور وہ بھی محض ایک جھلک دیکھنے کے بعد، میں نہیں کہہ سکتا کہ کہاں تک حق بجانب ہے۔ رہ گیا میری خدمت کا سوال تو میں اس

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 264
کے لئے بھی حاضر ہوں مگر مجھے شبہ ہے کہ ممکن ہے کہ ۔۔۔"
"آپ اپنا شبہ۔۔۔"
میں نے کہا۔ "مجھے خود لحاظ معلوم ہوتا ہے، میں نے آپ کو غور سے نہیں دیکھا ہے۔۔۔"
اس نے غمناک لہجے میں کہا۔ "میں اپنی ماں اور باپ کا پتہ لگانے کےلئے جب بول رہی ہوں۔۔۔" وہ رک گئی۔ پھر اس نے ٹھہر کر کہا۔ "آپ مجھے اچھی طرح دیکھ لیجئے۔" گھٹی ہوئی آواز اور غمناک لہجے میں کہا۔
اب میں اس انتظار میں کہ یہ خود نقاب روئے روشن سے اٹھائیں لیکن زخم پر زخم پہنچانا مناسب نہ معلوم ہوا اور میں یہ کہتے ہوئے۔
"معاف کیجئے گا۔۔۔"
نقاب چہرے سے آہستہ سے ہٹا کر ایک طرف کر دیا۔ ایک دم سے معصوم نظریں جھک گئیں اور میں حیرت زدہ ہو کر رہ گیا۔ ہوبہو وہی تصویر تھی۔ ذرہ بھر فرق نہیں۔ وہی رنگ اور روپ۔ وہی ناک اور نقشہ۔ چہرے کی چمک اور دمک سب کی سب وہی۔ میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ میرے دیکھتے دیکھتے معصوم آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ اور بڑی بڑی مگر شرمیلی پلکوں پر دو موٹے موٹے آنسو لٹکنے لگے۔ میرا دل پگھل گیا۔ میں نے فوراً نقاب چھوڑ دیا اور کہا۔ "میں گارنٹی کرتا ہوں کہ وہ آپ می ماں تھیں، اگر وہ زندہ ہیں تو میں آپ کو ان سے ملانے کا ذمہ لیتا ہوں مگر۔۔۔"
"مگر۔۔۔" اس نے گھبرا کر کہا۔
میں نے کہا۔ "یہ بتائیے آپ جا کہاں رہی ہیں؟ وہاں آپ کو تکلیف تو نہ ہو گی۔"
"میں بتا تو چکی۔" اس نے رک کر کہا۔ "بہت ممکن ہے وہ نہ رکھیں۔"
میں نے کہا۔ "آپ کی شادی ابھی نہیں ہوئی۔۔۔ تو پھر آپ کہاں رہیں گی؟"
اس نے سر کے اشارے سے نفی میں جواب دیا اور کچھ نہ بولی۔
میں نے کہا۔ "میں ڈیڑھ سو روپے کا نوکر ہوں۔ میری شادی بھی ابھی نہیں ہوئی ہے اور آپ خود کہتی ہیں کہ آپ کاکوئی نہیں۔ کیا ہم اور آپ ایک دوسرے کے شریک حیات نہ ہو جائیں۔ پھر آپ میرے ساتھ زیادہ آزادی سے رہ سکتی ہیں۔ ہم دونوں مل کر ڈھونڈ لیں گے۔ یعنی آپ بھی میرے ستھ ہوں تو بہتر ہے۔۔۔"
میں صحیح عرض کرتا ہوں کہ اس نے غور سے میری طرف دیکھا۔ پھر سر جھکا لیا اور کہا۔
"میرا کوئی نہیں ہے۔۔۔" یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور چپ ہو گئی۔
میں جس کام سے جا رہا تھا اس کو ملتوی کیا۔ رخصت کی توسیع کے لئے اگلے اسٹیشن پر تار
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 265
دیا۔ سفر وہیں کا وہیں روک دیا۔ شب کو وہیں ہم دونوں کا عین مسافرت میں ڈاک بنگلے میں نکاح ہو گیا۔ ایک مجسٹریٹ صاحب کو میں نے اپنے کاغذات دکھا کر حال بتا کر اپنی شناخت کے بارے میں مطمئن کر دیا۔ اب میں کیا عرض کروں کہ میری بیوی کا اپنے والدین سے ملنے کے لئے کیا حال ہو رہا تھا۔
اب میں شہر میں پہنچا تو محلے یاد نہیں۔ تانگے والے نے کہا کہاں لے چلوں تو میں نے کہا "جہاں تیرا جی چاہے۔" ہم دونوں میاں بیوی تانگے پر اور اب ہر محلے میں پوچھتے پھرتے ہیں کہ فلاں صاحب یعنی میرے ماموں اب سے بیس برس پہلے تو یہاں نہیں رہتے تھے۔ ہوتے ہوتے آخر کو جب وہ محلہ آیا تو میں نے مسجد دیکھتے ہی پہچان لیا۔ اور تانگہ ادھر ادھر گھمایا تو بچپن میں جن گلیوں میں کھیلا تھا وہ شناخت کر لیں اور چشم زدن میں ہمارا تانگہ اس گھر کے سامنے آ کر رک گیا جس میں اب سے بیس برس پہلے میں نے دلہن کو دیکھا تھا۔
خدا کی پناہ۔ میری بیوی دیوانی ہو گئی مارے خوشی کے اس کا برا حال ہو گیا حالانکہ گھر ملنے سے عزیز کا ملنا لازمی تو نہ تھا۔
دریافت پر معلوم ہوا کہ اس مکان میں کرایہ دار صاحب ہیں اور مالک ماکن "وہاں" رہتے ہیں۔ "وہاں" جو گئے تو معلوم ہوا کہ مالک مکان مر گئے۔ ان کے لڑکے تھے، انہوں نے کہا ہمیں نہیں معلوم۔ ایک پڑوسی کا نام بتایا کہ بڈھے ہیں، ان سے پوچھو۔ پھر واپس لوٹے تو ایک بڑے میاں ملے اور انہوں نے کہا کہ ہاں اس مکان میں اب سے بیس برس پیشتر ایک ڈاک خانے کے انسپکٹر رہتے تھے، ان کی شادی بھی ہوئی تھی مگر نام معلوم نہیں۔ یہاں سے اب ڈاک خانے دوڑے، معلوم ہوا کہ "فرض کیجیے" ان کا نام محمد خاں تھا۔ سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات ہیں۔ اور آج کل لاہور میں ہیں۔ ایک دوسرے کلرک بولے لاہور میں اب نہیں ہیں بلکہ پہلے تھے اور قبل از وقت پنشن لے کر اپنے وطن کے شہر میں ۔۔۔ بیمہ کمپنی کا بزنس کرتے ہیں اور ممکن ہے کہ ان کو تار دیا جائے تو جواب دیں۔ بیمہ کمپنی کا نام نہیں معلوم۔ اتنا ہی کافی تھا۔ وہیں کے وہیں میں نے پنشنر سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات و حال بیمہ ایجنٹ کا پتہ کر کے بذریعہ جوابی تار ان سے پوچھا۔ "کیا آپ کی کوئی لڑکی تو گم نہیں ہوئی تھی۔" تار ارجنٹ دیا اور وہیں کے وہیں بیٹھ کے لگے انتظار کرنے۔
مگر دو تین گھنٹے گزر گئے اور تار کا جواب نہ آیا تب پوسٹ ماسٹر کو جوابی تار دیا کہ جواب دو تار کہاں گیا۔ وہاں سے جواب آیا کہ "وہ صاحب" کوئٹہ میں ہیں لہذا تار ان کو بصیغہ ڈاک بھیجے ہیں۔ ہم نے دوسرا تار دیا کہ جس پتے پر بھیجتے ہو اس سے ہمیں مطلع کرو۔ پتہ معلوم ہوا تو اب ہم نے اسی مضمون کا تار کوئٹے کے پتے پر دیا۔ اور پھر لگے انتظار کرنے۔ اور اسی دن کا ذکر

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 266
ہے کہ دوپہر کے کھانے پر ہمارے سامنے چاول آئے تو میری بیوی نے نفرت سے کہا۔ "ہٹاؤ ان کم بختوں کو۔" میں نے کہا۔ "کیوں؟" تو منہ بنا کر بولی۔ "برے لگتے ہیں مجھے اس وقت۔۔۔ کم بخت کیڑے سے!" اور ایسے برے لگے کہ ہٹا دیئے۔
ہمیں انتظار زیادہ نہ کرنا پڑا۔ تار کا جواب آیا کہ ۔ "ہاں، (یعنی کھو گئی تھی) کہاں ہے اور تم کون ہو؟"
خدا کی پناہ! خوشی کے میری بیوی دیوانی ہو کر مجھ سے چمٹ گئی۔ محبت کے مارے اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر دبا لیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ خوشی کی زیادتی کے سبب اس نے بولا نہ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں محبت اور شکریے کے آنسو تھے۔ وہ میری کتنی شکر گزار تھی! اس کو کتنی خوشی تھی، اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔
میں نے فوراً تار دیا کہ "میں اس لڑکی کا شوہر ہوں اور وہ لڑکی یہاں ہے۔"
یہ تار دے کر ہم ڈاک بنگلہ آئے اور گاڑی کا وقت جو معلوم کیا اور گھڑی جو دیکھی تو کوئٹہ جانے والی گاڑی تیار ہو رہی تھی۔ دس منٹ گاڑی میں باقی تھے ظاہر ہے کہ ہم نے کیا کیا۔ فوراً اسٹیشن روانہ ہو گئے۔ اپنی روانگی کا تار دینا ضروری تھا۔ ڈاک خانہ جا نہ سکتے تھے۔ لہذا اسٹیشن پہنچ کر میں نے تار دیا کہ "ہم آتے ہیں" اور فوراً روانہ ہو گئے۔ میں عرض نہیں کر سکتا کہ میری بیوی کا خوشی کے مارے کیا حال تھا۔ حماقت تو دیکھئے کہ خوشی کی جلدی میں پہلے والے تار میں یہ لکھنا ہی بھول گئے کہ ہم آ رہے ہیں۔
راستے میں کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہ آیا سوائے ایک چھوٹے سے واقعے کے جو کچھ قابل ذکر بھی نہیں۔
ہمیں۔۔۔ اسٹیشن پر گاڑی بدلنا تھی اور آدھ گھنٹےسے زائد انتظار دوسری گاڑی کا کرنا تھا۔ جلدی اس قدر تھی کہ میں نے ایک کنارے بینچ کے پاس ہی ٹرنک اور بستر رکھ اس پر بیوی کو بٹھا دیا اور خود لگا ٹہلنے۔
اسٹیشن پر آپ سمجھیں ہر قسم کے آدمی آتے ہیں۔ میں جو واپس آیا تو میری بیوی نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کر کے دیکھا۔ "دیکھا تم نے اس کم بخت کو بدتمیز کہیں کا" میں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ نہ صرف آس پاس منڈلا رہا ہے بلکہ گھورتا ہے۔ میں نے مزاحاً کہا۔ "ظالم تو چیز ہی ایسی ہے۔" اور پھر ادھر چل دیا۔ مگر اب دور سے جو میں نے دیکھا تو وہی حضرت لوٹے واپس اور پھر نہایت بدتمیزی سے میری بیوی کو اس طرح گھورنے لگے کہ معلوم ہو اخبار پڑھ رہے ہیں اور پھر تھوڑی دور چل کر لوٹے اور پھر دوسری طرف سے واپس ہو کر لوٹے اس طرح کہ مجھے

 
Top