عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۱۸
آتی تو دور منہ پر خول چڑھائے بیٹھی رہتی اور حتی الامکان کوئی چیز تک نہ چھوتی۔ یہ سب کچھ حامد دیکھتا اور محسوس کرتا مگر کیا کہہ سکتا۔ ڈاکٹر اور نرسیں سب اس کے ساتھ اھتیاط برتتے تھے۔ اس کی چھوئی ہوئی چیز گویا زہر تھی۔ وہ پڑا پڑا سوچتا کہ افسوس میرا کوئی ہمدرد اور کوئی ساتھی نہیں۔ مس ینگ دن میں ایک پھیرا کر جاتی کیونکہ اس کو ناچ رنگ سے ہی اب فرصت کہاں تھی۔ حامد کے یار دوست اور احباب جن سے ان کو بڑی امیدیں تھیں آئے لیکن کوئی اس کا ساتھی نہ تھا۔ سب اس کی ہوا سے دور ہی رہتے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ مجھ کو مہلک بیماری ہے۔ اس کو موت کی فکر اور پھر ایک دنیا کی بے رخی مارے ڈالتی تھی۔ وہ دق سے نہین مر رہا تھا۔ روپیہ پیسہ سب کچھ تھا مگر نہ تھا تو کوئی یار غم گسار یا مونس و تیماردار۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کو اس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ ہر شخص اس کو چند روزہ سمجھتا تھا۔ ڈاکٹروں نے اس کے دل بہلانے کا سامان مہیا کیا تھا۔ سیر بینیں، گورکھ دھندے، دلچسپ تصویریں۔ طرح طرح کے پھول۔ رنگین کاغذ اور قینچی بھی رکھی رہتی تھی کہ وہ پھول کاٹ کر اپنا دل بہلاتا رہے۔
بہت جلد وہ ہسپتال کی تنہائی سے تنگ آ کر شہر کے باہر ایک بنگلے میں اتھ آیا۔ مس ینگ سے جب اس نے کہا کہ تم بھی بنگلے میں آ جاؤ مگر بالکل الگ رہو تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ یہ ناممکن ہے۔ تم تو سمجھدار آدمی ہو اور پھر مجھ سے یہ کہتے ہو۔
دو مہینے کے اندر ہی اندر حامد کی حالت بد سے بدتر ہو گئی۔ مس ینگ دو دو دن اور تین تین دن نہ آتی۔ روپیہ کی ضرورت ہی اس کو کھینچ لاتی تھی۔ حامد اسی کو غنیمت خیال کرتا وہ اس کے آگے روتا اور کہتا کہ تھوڑی دیر تو اور بیٹھو۔ مجھ سے کچھ دور رہو۔ مگر کچھ دیر تو مجھ سے باتیں کرو مگر وہ نہ بیٹھتی اور صاف کہہ دیتی کہ چہرے پر خول چڑھا کر بھی زیادہ دیر تک تمہارے کمرے میں رہنا یا ٹھہرنا ڈاکٹر مضر بتاتا ہے۔ غرض حامد کو روتا اور پریشان چھوڑ کر وہ چلی جاتی۔ حامد نوکروں کو بلاتا اور انہی سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ کہتا تھا کاش کے میرا کوئی عزیز ہی ہوتا جو میری تیمارداری کرتا۔ مگر سب کا امتحان ہو چکا تھا۔
عارفہ نے جب سے سنا تھا کہ حامد کو دق ہو گئی ہے تب سے اس کی آنکھوں میں نہ معلوم کیوں نمی آ جاتی تھی۔ وہ حامد سے سخت نفرت کرتی تھی اس کو اس کی ایک ایک بات یاد تھی اور ہر بات تیر کی طرح دل میں اب تک کھٹک رہی تھی۔ اس کو حامد سے ملنے کا خیال تک نہ تھا کیونکہ اس نے ساتھ ہی یہ بھی سُنا تھا کہ مس ینگ کو اب بھی نہیں چھوڑا ہے۔
ہوتے ہوتے اس کو یہ خبر پہنچی کہ حامد کا حال خراب ہے۔ اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ مجھ کو پہنچا دو، میں ایک مرتبہ دیکھ لوں۔ بھائی کو حامد سے سخت نفرت تھی اور اس نے صاف کہہ دیا کہ میں نہیں جاؤں گا میرے دل میں گنجائش نہیں، یہ تمہارے دل میں گنجائش کہاں سے نکل


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۱۹
آئی۔ بس یہ کہنا تھا کہ عارفہ پھوٹ پڑی۔ اس کو تسلیم تھا کہ خود اس کے دل میں حامد کی طرف سے ذرہ بھر گنجائش نہیں۔ ہاں وہ اب بھی اس کی تمام باتوں سے اسی طرح متنفر ہے مگر پھر بھی وہ چاہتی ہے کہ کم از کم ایک مرتبہ حامد کو دیکھ لے۔ اس کی تمام قسمیں کہ مرتے مر جاؤں مگر صورت نہ دیکھوں گی، نہ معلوم کہاں گئیں۔ بھائی نے کہا میں نہیں جاؤں گا۔ لہذا وہ ایک ملازم اور ایک ملازمہ لے کر دہلی چل دی۔
رات کے بارہ بجے ہوں گے سردی کا زمانہ تھا۔ حامد ایک کھڑکی کھولے ہوئے کمرے میں پڑا سو رہا تھا۔ نرس برابر والے کمرہ میں تھی کہ اس کو ملازم نے جگایا۔
بہت اصرار کے بعد نرس نےکہا کہ تم مریض کو صرف دروازہ پر دیکھ سکتی ہو۔ مریض سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں وہ اب ہمارے قبضہ میں ہے اور میں اس کی تیماردار اور ذمہ دار ہوں۔
دروازے کے پاس کھڑے ہو کر عارفہ نے نحیف و ناتواں مریض کو دیکھا۔ اس کا چہرہ زرد تھا اور اس پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ عارفہ کو نہین معلوم تھا کہ باوجود سکت نفرت کرنے کے بھی اس کا دل بیمار شوہر کو اس حالت میں دیکھ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ حامد ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اور اس کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ آگے بڑھی تو نرس نے ہاتھ پکڑا جو اس جھٹک کر چھڑایا۔ نرس مجبور تھی کہ زبردستی روکنے میں کہیں مریض نہ جاگ اتھے۔ حامد کی چارپائی کے پاس وہ جا کر کھڑی ہو گئی اور اس کو غور سے دیکھنے لگی۔
اس کے دیکھتے ہی دیکھتے حامد کے پپوٹوں کا جنبش ہوئی اور اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ عارفہ کو دیکھا جو اس کی طرف دیکھ رہی تھی گویا ایک بجلی سی مریض کے بدن میں دوڑ گئی جس کا اثر چہرہ پر نمودر ہوا مگر حامد سے جنبش ہی نہ کی گئی اور وہ ٹکٹکی باندھے عارفہ کو دیکھ رہا تھا اور عارفہ اس کو دیکھ رہی تھی۔ دیکھتے دیکھتے حامد کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ آہستہ آہستہ آنسو ڈھلک کر اس کے تکیے پر گرنے لگے اور سنگ دل عارفہ کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
"میں تمہیں دیکھنے آئی تھی اور اب جاتی ہوں۔" عارفہ نے نہ معلوم کہاں سے دل مار کر یہ سخت جملہ کہا۔ "عارفہ۔ عارفہ" ہاتھ اٹھا کر حامد نے کہا۔ اس کا ہاتھ مردوں کا سا بے گوشت و پوست معلوم ہوتا تھا اور ہاتھ دیکھ کر عارفہ کا پھر دل پسیج گیا مگر اس نے ضبط کیا اور مڑ کر حامد کر طرف دیکھا۔
دونوں ہاتھ بڑھا کر حامد نے کہا۔ "عارفہ۔۔۔ میں مر رہا ہوں مجھے معاف کر دو۔"
عارفہ تو گویا پارٹ سا کر رہی تھی نہ معلوم وہ اپنے کو کیسے اور کس طرح سنبھالے ہوئے تھی۔ پیمانہ ویسے ہی لبریز ہو چکا تھا اور جذبات کی ماری عارفہ گویا قدرتاً بے اختیار ہو کر "میں


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۲۰
نہیں آتی میں نہیں آتی" تو کہہ رہی تھی مگر ایک عجیب کشش سے حامد کے ہاتھوں میں کھینچ کر چلی آئی اور بالکل ہی بے بس ہو کر اس نے حامد کے سینہ پر سر رکھ دیا۔ حامد نے سینہ سے لگایا اور دونوں کی آنکھوں سے آنسو کے دریا بہہ گئے۔ یہ آج پہلا دن تھا کہ حامد کے ساتھ ایک عزیزہ نے چھوت چھات نہیں برتی اور منہ کا سانس منہ پر لیا۔ رات بھر وہ حامد کے سرہانے بیٹھی رہی۔ دق کے مریضوں والی تھوکنے کی ڈبیا عارفہ نے اگالدان میں ڈال دی اور جب کھانسی اتھی تب عارفہ نے تھوک کپڑے میں لیا۔
صبح دن چڑھے مس ینگ آئی اور عارفہ کو دیکھ کر بھونچکی سی رہ گئی۔ عارفہ نے حامد کی طرف دیکھا او رپھر مس ینگ کی طرف اور اسی طرح حامد نے مس ینگ کی طرف دیکھا اور پھر عارفہ کی طرف۔ حامد پانی پی رہا تھا، پی کر گلاس عارفہ کے ہاتھ میں دیا اور مس ینگ سے بیٹھے کو کہا۔ عارفہ بچا ہوا پانی حامد کا پیتی جاتی تھی اور می ینگ کو جو اس کی طرف تعجب سے دیکھ رہی تھی آنکھوں ہی آنکھوں میں کھائے جاتی تھی۔
"یہ تم منہ پر توبڑا کیسا چڑھائے ہوئے ہو؟" عارفہ نے مس ینگ سے پوچھا جس کے منہ پر دوا میں بھیگا خول چڑھا تھا۔
مس ینگ نے کچھ خفیف ہو کر کہا "اس لئے کہ دق کے جراثیم میرے بدن میں نہ پہنچ جائیں۔" ایک دم سے عارفہ پھٹ پڑی اور جہالت پر اتر آئی "نکل چڑیل یہاں سے جراثیم کی نانی آئی" یہ کہہ کر اس نے حربہ جہالت یعنی جوتا سنبھالا۔
مس ینگ جانتی تھی کہ عارفہ دیہات کی رہنے والی ہے اور اگر چمٹ گئی تو بغیر جہالت کا سبق دیئےنہ مانے گی۔
مس ینگ نے منہ سے چیخ نکالی "مسٹر حامد" مگر حامد صاحب خود نقش جہالت بے پڑے تھے۔ تیزی سے مس ینگ باہر نکلی چلی گئی۔ اتنے میں یہ ہڑبونگ سن کر نرس بھی منہ پر توبڑا کسے ہوئے آئی اور اس کو بھی عارفہ نے آڑے ہاتھوں لیا۔
"نکلو یہاں سے۔" اس نے نرس سے کہا۔
"میں تیمارداری مریض کی کر رہی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کا حکم ہے کہ ۔۔۔۔"
"چولہے میں گئے ڈاکٹر صاحب اور بھاڑ میں گئیں تم۔ نکلو یہاں سے۔"
"میری فیس۔"
"تمہارے گھر بھجوا دی جائے گی۔ یہاں سے تم بھاگو جلدی جاؤ۔"
حامد کے پاس عارفہ جو ان بلاؤں کو دفع کر کے آئی تو اس کے کمزور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۲۱
"کیا تم میرا علاج نہ کراؤ گی۔" حامد نے پوچھا۔ "ڈاکٹر صاحب اب کیا کہیں گے۔"
"ڈاکٹر گئے بھاڑ میں، تم گھر چلو وہاں حکیم چچا کا علاج ہو گا۔ تم جراثیم کے وہم میں گرفتار ہو۔ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی ورنہ تم دن رات وہم میں گھل کر اپنی جان ہلکان کرو گے۔ تمہیں خدا نہ کرے دق ہو۔ تمہارے دشمنوں کو ہو۔ زکام بگڑ گیا پے۔"
حامد نے بھی سوچا کہ مرنا تو ہے۔ علاج سے فائدہ ویسے نہیں ہو رہا ہے۔ پھر کیوں نہ آخری وقت میں بیوی کی خدمت اور محبت کا آرام اٹھائے۔ اس نے اپنے آپ کو خدا پر چھوڑ دیا۔
حامد کو عارفہ اپنے گھر دیہات میں لے آئی۔ باغ میں بڑا سا بنگلہ تھا اس نے حامد کے کہنے سے وہاں لے جا کر رکھا۔ حکیم چچا خطمی اور خبازی اور جوشاندے پلانے لگے۔ دن رات اسی پر بحث ہوئی کہ جراثیم کوئی چیز نہین یہ سب حماقت ہے۔ دراصل خوردبینوں کی خرابی ہے یا پھر ڈاکٹروں کی عقل خراب ہو گئی ہے۔
رفتہ رفتہ خدا کی شان کہ عارفہ کی تیمارداری اور محنت سے فائدہ ہونا شروع ہوا۔ دن بھر اور رات بھری عارفہ چارپائی سے لگی بیٹھی رہتی۔ دن رات اس کا دل بہلاتی اور چوسر اور پچیسی کھلاتی۔ ایک لمحہ سوچنے کا موقعہ حامد کو نہ دیتی جو وہ سوچے کہ مجھے دق ہے۔ مہینہ ہی بھر میں اس کی حالت بدل گئی۔ گرمیوں کا موسم آ رہا تھا حکیم چچا پہاڑ پر لے گئے اور وہاں دو مہینہ گزار کر جو حامد آیا تو تندرست تھا۔ اس نے دہلی جا کر ڈاکٹر صاحب کو دکھایا۔ انہوں نے سر سے پیر تک اس کو دیکھا۔ اس کے تھوک کا معائنہ کر کے کہا کہ دق کے جراثیم اب نہیں ہیں۔ کیا علاج کیا؟ مسکرا کر حامد نے کہا کہ ایک حکیم کا علاج کیا اور جہات سے کام لیا۔ یعنی یہ کہ میرا عقیدہ اب ہو گیا ہے کہ جراثیم کوئی چیز نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کھڑے باتیں ہی کر رہے تھے کہ دوسرے ڈاکٹر آئے اور انہوں نے حامد کو دیکھتے ہی کہا "اچھا آپ ہیں! اب تو آپ اچھے معلوم ہوتے ہیں۔"
"جی ہاں" حامد نے کہا "مجھ کو دق تھی یا نہ تھی مگر وہم ضرور تھا۔ اب نہ میں دق کا قائل ہوں اور نہ آپ کے جراثیم کا۔"
"جراثیم تو ہیں" ڈاکٹر صاحب بولے "آپ انکار ہی نہیں کر سکتے۔"
"اگر ہیں بھی تو آخر میں کیا کروں۔ اب تو انہیں میں نے مار ڈالا۔ کیا یہ ممکن نہیں۔"
"بے شک ضرور ممکن ہے اور ایسا ہی ہوا ہے۔" دونوں ڈاکٹروں نے کہا "کوئی بہت عمدہ دوا آپ نے کھائی ہے۔"
"جی ہاں۔"
"کیا دوا تھی؟"
حامد نے کہا "جہالت مکسچر۔"

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۲۲
بڑے شرم کی بات
اماں جان نے خوشخبری سنائی کہ "افضل آ رہا ہے۔۔۔"
"ارے!" میرے منہ سے نکلا مگر میں چپ ہو کر سیدھی اتھی اور چلی گئی۔ یہ واقعہ تھا کہ بھائی افضل آ رہے تھے۔ کون بھائی افضل؟ بس نہ پوچھئے۔ جب کا ذکر ہے کہ بھائی افضل ہمارے ہاں رہتے تھے۔ بخدا کیا زمانہ تھا۔ بھائی افضل توتلے ہیں۔ ایک علیحدہ صاف ستھری کوٹھڑی تھی۔ جس میں وہ رہتے تھے۔ دلہن کی طرح سجی رکھتی اور اس کو "تمرہ" یعنی کمرہ کہتے اور کوٹھڑی کوئی کہے تو خفا ہوتے۔ طبیعت میں غصہ بے حد تھا اور ان کو ہم سب بہنیں اور بھائی اپنی شرارتوں کا مرکز بنا لیتے اور خوب پٹتے بھی تھے۔ کیا مزہ رہا جب افضل بھائی فیل ہوئے ہیں۔ میں سو رہی تھی کہ رفیق آئی، مارے خوشی کے اس نے دوہتڑ مار کر کہا۔ "ارے مردی افضل بھائی فیل ہو گئے۔۔۔" معلوم ہوا کہ خاتون جو ہنسی تو وہ پٹ گئی اور کانساماں کا لڑکا بھی پٹ گیا اور حامد خاں بھی پٹ گئے۔ بقیہ بچے بھاگ گئے۔
یہ خبر ملنی تھی کہ میں بھی بے تحاشا دوڑی۔ دور سے ایک دروازے سے ہم نے جھانک کر دیکھا۔ مگر اتنے میں افضل بھائی دوسری طرف سے آ گئے اور اپنے عجیب و غریب انداز میں بولے : "تون۔۔۔!" (کون) ہم سب نے ان کی طرف دیکھا۔ بولے "چڑیلوں۔ رونے تا متام ہے۔۔۔ اور توئی ہنسا تو تھوب سمجھ لو۔۔۔ (ہاتھ اٹھا کر بولے) ایتوں ایت تو تتل (قتل) تر دوں دا!"
اور ہمارا یہ حال کہ ادھر انہوں نے "تتل" کرنے کو کہا ہے اور مارے ہنسی کے بے تاب ہو کر ہم سب کی سب بھاگیں اور افضل بھائی لپکے کہ "پترو" (پکڑو)۔
والدہ صاحبہ سے شکایت کی تو وہ ہم سب پر کفا ہوئیں اور انہوں نے جتا دیا کہ "اگر تم ہنسیں تو رہ رنجیدہ ہے اور تم سب کو مارے گا۔"
مگر باوجود اس کے بھلا کون سنتا ہے۔ دوپہر کو جب افضل بھائی غم میں چور پڑے سو رہے تھے تو ہم نے کوئلوں سے ان کےکمرے کے باہر دیواروں پر لکھ دیا "افضل بھائی فیل شد۔ خوب


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۲۳
شد۔۔۔ افضل بھائی فیل شد خوب شد۔" اس خوب شد کے موجد بھی خود افضل بھائی تھی۔ ہم لوگوں میں سے کوئی مارا جائے، کسی کا کوئی نقصان ہو تو بقیہ بچوں کو سکھاتے کہ خوب شد کا ورد کر کے دق کرو۔ چنانچہ یہ خوب شد ان کی ایجاد تھی۔
اب مزہ تو جب آیا ہے کہ افضل بھائی سو کر اٹھے اور "فیل شد خوب شد" پڑھا، سارے گھر میں مارے غصے کے ناچے ناچے پھرے۔ پھر ہم سب کو گرفتار کر کے اپنے کمرہ میں لائے۔ ایک بڑا سا چاقو نکالا۔ کہنے لگے "ایتوں ایت تو تتل تر دوں دا۔۔۔ یہ لتھا تسنے؟۔۔۔ یہ ۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔۔" ہم سب نے لاعلمی ظاہر کی تو قسم کو کہا اور ہم نے قسمیں کھائیں تو کہنے لگے۔ "یوں نہیں۔۔۔ لاؤ ترآن (قرآن) تھاؤ قسم۔"
ویسے جھوٹی قسم تو نہ کھانا چاہیے تھی مگر پھر کرتے بھی کیا۔ سب نے قرآن اٹھا لیا کہ ہم نے نہیں لکھا۔ افضل بھائی جل کر رہ گئے اور کہہ کر نکال دیا۔ "چڑیلوں۔۔۔ تتلو یہاں سے۔ تمہارے سب تے اوپر بجلی درے دی۔۔۔ ترآن تی مار پرے دی۔۔۔" یہ نہیں معلوم کہ قرآن کی مار کی بہ نسبت ان کی مار کا زیادہ خوف تھا۔
نہ ہمارے طبیعت بدلی اور نہ بھائی افضل کی طبیعت بدلی۔ سب بہن بھائی رشتہ دار سہیلیاں ساتھ کی کھیلنے والیاں افضل بھائی کو اپنا سمجھتیں، حتیٰ کہ بعض کی شادی ہو گئی پر افضل بھائی نہ چھوٹے۔ عزیز رشتہ داروں کا ذکر نہیں افضل بھائی سب کے بھائی تھے اور افضل بھائی کی طبیعت بھی کم و بیش وہی رہی۔ وہی ہم تھے اور وہی افضل بھائی تھے۔ اب وہ کوئی تین سال بعد آ رہے تھے۔ اب وہ بالفاظ کود اپنے "داؤں" (گاؤں) میں رہتے تھے۔
دوسرے روز کا ذکر ہے۔ بڑے کمرہ میں بیٹھے سچ مچ بھائی افضل کے ساتھ چائے پی رہے تھے۔ بھائی افضل بہنوں سے مل کر بے حد خوش تھے۔ کتنی بھولی اور مزیدار باتیں تھیں۔ کسی کو بھولے نہیں تھے۔ کسی کا نام بھول گئے تو صورت یاد اور کسی کی صورت اور نام بھول گئے تو شرارت یاد۔ کیا مزے میں سوال کر رہے تھے۔
"تس تس تی سادی ہووئی؟۔۔۔ اور وہ تہاں دئی؟۔۔۔ وہ لمبی نات والی؟ ۔۔۔ اور وہ تہاں ہے؟ ۔۔۔ لاحول بلا تب بت ۔۔۔ اجی۔۔۔ صدار! ۔۔۔ ارے ! سادی ہووئی!۔۔۔ تب؟ ۔۔۔ تے بے ہیں؟۔۔۔ لرتا ہے تے لرتی؟۔۔۔ تھوب! ابھی تل تی بات ہے بادی پھرتی تھی!۔۔۔ وہ تہاں ہے جس نے میری لتری چرائی تھی۔۔۔" وغیرہ وغیرہ۔
غرض اسی قسم کے سوال کر رہے تھے کہ سامنے کے دروازے سے رفیق شیشے میں سے جھانکی۔ افضل بھائی نے دیکھ پاما۔ آہستہ سے اس طرف آنکھ کا اشارہ کر کے ہم سے پوچھا : "تون ہے یہ؟۔۔۔ یہ جھانت تون رہا ےہ؟۔۔۔"
 

شمشاد

لائبریرین
ایم ایس ورڈ فائل عظیم بیگ چغتائی کے افسانے صفحہ 212 تا 223
 

Attachments

  • Azeem Baig P212 to 223.ZIP
    30.1 KB · مناظر: 2

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 224
میں نے مڑ کر دیکھا اور ہنس کر بولی۔ "رفیق ہے۔۔۔ (اور پکاری)۔۔۔ آؤ نا۔ کم بخت۔۔۔"
"ارے!" افضل بھائی احتجاج کے طور پر بولے۔ "پترو اسے دریل تو!۔۔ پردہ ترے دی یہ!۔۔۔ مجھ سے! نالایت تہیں تی۔۔۔ ارے پتر۔۔۔"
مارے ہنسی کے ہمارا برا حال ہو گیا۔ پر رفیق کو ذرا جھجک معلوم ہو رہی تھی۔ میں نے اور حشمت نے اسے گھسیٹ کر اور گرفتار کر کے افضل بھائی کی خدمت میں پیش کر دیا۔
"چریل۔۔۔" افضل بھائی نے کہا۔ "تسم تھدا تی!۔۔۔"
رفیق نے اطمینان کر دیا کہ پردہ کا ارادہ نہیں تھا اور افضل بھائی مطمئن ہوئے۔ ہم دونوں بہنیں صوفے پر بیٹھی تھیں، پاس ہی رفیق کو بٹھایا۔ اتنے میں نہ معلوم کس نے برآمدے سے آواز دی کہ افضل بھائی بولے۔
"تون؟۔۔۔"
جب کوئی نہ بولا تو بولے۔ "اونہہ! تدہر سے آن مرا؟ نہ معلون تون الو ہے یہ۔۔۔ دوھا نہیں تو۔۔۔"
یہ کہہ کر اٹھے اور باہر گئے۔ یہاں جلدی جلدی ہم تینوں بہنیں تجویر کرنے لگیں کہ کوئی حرکت ایسی افضل بھائی کے ساتھ کی جائے جو پرانی باتیں یاد آ جائیں۔ ہم تینوں باتوں ہی میں لگے تھے اور مجھے تو خبر نہیں کون آتا ہے کہ پاؤں کی آہت فرش پر معلوم نہ دی تاوقتیکہ افضل بھائی نے کرسی گھسیٹ کر یہ نہ کیا۔
"ارے بیتھ بھی۔۔۔"
اور میں جو مڑ کر دیکھتی ہوں تو حامد خاں! آنکھیں چار ہوئی تھیں کہ جھک گئیں اور منہ موڑ کر آہستہ سے اٹھتی جو ہوں تو دوپٹے کا آنچل رفیق کے نیچے دبا اور اس کمبخت نے اور بھی زور سے دبا لیا اور میرا دامن الگ پکڑ لیا۔ وہ بھی اس زور سے کہ چھڑائے نہ چھوٹے۔
میں کیا عرض کروں کیسی گھبرائی۔ گھبرا کر اور گھٹ کر بیٹھ گئی اور کم بختی اور شرارت دیکھئے کہ گدگدایا اس بدتمیز نے۔ مگر میرے اوپر شرم کا اس قدر غلبہ تھا کہ ہنسی کہاں۔ رہ گیا غصہ تو وہاں پروا کسے اور یہ ممکن نہیں کہ زور لگا کر میں دوپٹہ چھوڑ کر چلی جاؤں۔ داہنی طرف علیحدہ کو حامد خاں بیٹھے تھے، میری طرف انہوں نے نہیں دیکھا۔ ان کا دل جانتا ہو گا۔ اور افضل بھائی نے ان سے باتیں شروع کر دیں۔
یہ حامد خاں کون تھے؟ میں کیا عرض کروں۔ ذرا سو چئے۔ ساتھ کھیلے۔ پلے۔ بڑھے۔ ساتھ ہی پٹے۔ خود انہی افضل بھائی کے ہاتھوں مگر وقت گزرنے جو لگا تو پہلےبے تکلفی، بتقاضائے عمر،

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 225
جوانی دور ہوئی پھر باتوں میں خاموشی اور تکلف پیدا ہوا۔ پھر والدہ صاحبہ کے سامنے سوائے علیک سلیک کے کچھ نہ رہ گیا۔ نظریں ملتیں تو خود بخود جھک جاتیں۔ پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھنا مارے شرم کے دل میں جرم معلوم ہونے لگا۔ حتیٰ کہ اب یہ تھا کہ ادھر حامد خاں کی آواز ستنی کہ میں آہستہ سے سائے کی طرح اٹھ کر چلی گئی۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ والدہ صاحبہ نے یا والد صاحب نے کہا کہ آؤ، یا اب کی طرح آنے کا پتہ نہ چلا، تو فوراً ہی آہستہ سے اٹھ کر چلی گئی۔ اسے پردہ کہہ لیجئے۔ یہ سب جب سے ہوا جب سے طے ہو گیا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ہیں۔ حامد خاں سے ہمارا کچھ بھی رشتہ نہ تھا۔ رفیق کے چچا کے بیٹے بھائی تھے اور والد صاحب اور ان کے مرحوم سب ایک جدی تھے اور اس نسبت سے دونوں قریبی تھے۔ مرتے وقت ان کے والد نے والد کے سپرد کیا اور قریبی رشتہ دار نہ ہونے کے باوجود ہماری ان کی جائیداد ایک مورث اعلٰی ہونے کی وجہ سے ایک ہی تھی۔ حامد خاں کی والدہ بھی مر چکی تھیں اور کوئی بھائی بہن نہ تھااور وہ اپنے باپ کی جائیداد کے تنہا وارث تھے۔ کچھ عرصے سے علیحدہ ہوئے تھے ورنہ ہمارے یہاں رہتے تھے، لیکن جب پڑھنے کا سلسلہ ہوا باہر رہنے لگے۔ صرف چھٹیوں میں آتے اور زیادہ وقت چھٹیوں کا بھی باہر دوست احباب میں گزارتے یا سیر و شکار میں۔ ایسے کہ عرصے سے ہمارے یہاں سے علیحدہ تھے۔
اب افضل کو دیکھئے، کر رہے ہیں چوطرفہ باتیں۔ بھلا حامد خاں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ فلاں کی شادی ہو گئی اور فلاں کی نہیں ہوئی۔ ان کو معلوم ہی تھا سب۔ پھر میری وجہ سے وہ بھی خاموش تھے۔ میں قدرے مڑی ہوئی بیٹھی تھی اور رفیق نے کہہ دیا کہ "اگر ذرا بھی اٹھی تو بس خیریت نہیں۔۔۔" میں جانتی تھی لہذا چپ۔ اور ادھر بھائی افضل نے ایسی باتیں کرنی شروع کیں کہ خواہ مخواہ ہنسی آئے۔ انتہا یہ کہ حامد خاں کے لئے پیالی میں چائے ڈلوا رہے ہیں رفیق سے اور واللہ اعلم دماغ کہاں ہے۔ اب دماغی کیفیت بھائی افضل کی ملاحظہ ہو کہ رفیق سے پوچھتے ہیں۔
"اور۔۔۔ تیا نام تے۔۔۔ تیرا میاں ترتا تیا ہے؟۔۔۔ نوتر ہے نہیں۔" یہ کم بخت بغیر اٹھے ہوئے میرے دوپٹے کو دبائے چائے دانی سے چائے پیالی میں انڈیل رہی تھیں کہ افضل بھائی کا یہ دلچسپ سوال ہوا۔ حالانکہ اس کی شادی چھوڑ منگنی بھی نہیں ہوئی۔ اسے خود کو جو ہنسی آئی تو چائے پیالی کے بجائے پرچ میں آئی اور چونک کے آپ فرماتے ہیں۔ "ارے۔۔۔ اندھی۔۔۔"
آپا حشمت کے حلق میں چائے کا پھندا پڑا۔ میرے منہ سے دبی زبان سے نکل گیا "گھاس کھودتا ہے۔۔۔" مارے ہنسی کے برا حال تھا کہ آپ گھاس کو سمجھے گارڈ۔۔۔ کہنے لگے۔ "دارو ہے۔۔۔" بہن حشمت بولیں۔ "افضل بھائی تمہیں ہو کیا گیا ہے۔" مگر میری جان چھوٹی۔

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 226
خود رفیق گھبرا کر ہنسی کو ضبط کر کے چلی اور میں اس کے پیچھے اور لپک کے ہم دونوں برابر کے کمرے میں۔ اور وہاں پہنچ کر جو ہم دونوں پر ہنسی کا دورا پڑا ہے تو الامان۔ گھنٹہ بھر تک یہ حالت رہی کہ بھائی افضل کی طرف دیکھا تک نہیں جاتا تھا۔ ایک ہنسی کا سیلاب ہے کہ چلا آتا ہے۔ حتیٰ کہ شام کی تفریح کا پروگرام بگڑ گیا۔ خود افضل بھائی کہنے لگے۔
"تیا کرتیاں ہیں۔ تھد تو تتی ہیں ایت بات۔۔ پھر کوئی بات بھی ہو۔ اتی بری ہو دئیں مدر عقل ندارد!۔۔۔ تبھی تچھ تبھی تچھ!"
اسی روز رات کا ذکر ہے کہ معلوم ہوا کہ حامد خاں اپنی جائیداد کے جھگڑے میں آئے تھے اور آج والد صاحب سے کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ بدمزگی ہو گئی۔ جائیداد میں ان کا سوا پانچ آنہ حصہ ہوتا تھا۔ میرے ساتھ نسبت ہونے سے قبل وہ اپنا حصہ علیحدہ کر کے کھیت دار بٹوارہ اور اس پر قبضہ چاہتے تھے کہ یہ رشتہ قرار پایا اور کم بختی میری ملاحظہ ہو کہ ایک دفعہ جو یونہی ذکر آیا تھا تو میں نے کہا تھا کہ میں جو ہوتی حامد خاں کی جگہ تو اپنا حصہ الگ کر کے علیحدہ رہتی۔ رفیق نے جا کر حامد خاں سے کہہ دیا۔ حامد خاں نے بھی سوچا کہ ہے تو ٹھیک اور انہوں نے سوچا کہ شادی سے پہلے ہی اپنی جائیداد کے مالک و مختار ہو کر علیحدہ ہو جانا ٹھیک ہے اور پھر اس کو وہ میری طرف سے اشارہ بھی سمجھے۔ درحالیکہ میرا کچھ مطلب نہ تھا۔ لیکن مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ رفیق نے ان سے جا کر یہ کہہ دیا اور اب وہ اس میں میری خوشنودی کے متلاشی ہیں۔ لیکن واقع یہ بھی ہے کہ والد صاحب ان پر ضرورت سے زیادہ نگرانی رکھتے تھے۔ یہ نہیں چاہتے تھے کہ جائیداد کے معاملہ میں ذرہ بھر بھی وہ دخل دیں۔ اکثر کاشتکار اور کرایہ دار حامد خاں سے بے جا طور پر شکایت کرتے مگر وہ کچھ دخل نہ دے سکتے۔ گویا ویسے بھی حامد خاں علیحدگی ہی چاہتے تھے۔ پھر کارندوں اور کارپردازوں کے بے جا مظالم یا سختیوں کے حامد خاں خلاف تھے اور ان کی بے ضابطہ حرکتوں سے نالاں تھے اور یہ کارندے حامد خاں کی مطلق پروا نہ کرتے تھے۔ والد صاحب کی جی چاہا جتنا روپیہ ہاتھ اٹھا کر دے دیا۔ اگر کسی کارندے کا جی چاہا اس نے کہہ دیا کہ روپیہ نہیں ہے۔ کیا کسی کی مجال کہ کاغذ دیکھ سکیں۔ ظاہر ہے کہ حامد خاں سے زیادہ ان کو کون عزیز تھا۔ بیٹے کی طرح وہ ان کی نگرانی فرض سمجھتے اور چاہتے یہ تھے کہ بیٹے ہی کی طرح شادی کے بعد بھی گھر پر ہی رہیں اور یہ تمنا کچھ بیجا نہ تھی۔ مگر صورت حال اب دوسری تھی۔ ابتدا یا انتہا اس کی یہ سمجھئے کہ حامد خاں کب سے مجھ سے اکیلے میں ملنے کا موقعہ ڈھونڈ رہے تھے اور جیب میں کوٹھی کا نقسہ لئے پھرتے تھے۔ ادھر مجھ کم بخت کو معلوم تک نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔
افضل بھائی کے آنے سے ان کو موقع مل گیا اور تیسرے روز وہ موقعہ پا کر سیدھے باغ

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 227
میں چلے آئے جہاں افضل بھائی بیڈ منٹن فرما کر ہم لوگوں کا ہنسی کے مارے برا حال کئے دے رہے تھے۔ میں ایک لمبی سی بنچ پر ایک ہاتھ باہر کی طرف رکھے بیٹھی تھی۔ پاس ہی بہن حشمت بیٹھی تھیں کہ پیچھے سے حامد آئے۔ یہ باغ کا وسیع احاطہ زنان خانے ہی میں تھا مگر دوسرا دروازہ باہر بھی تھا جو کھلا رہتا تھا۔ مگر کوئی یہاں نہیں آتا تھا۔ حامد خاں ادھر سے آ گئے۔ میرا چاہنا ہاتھ بنچ کے تکیہ پر اس طرح تھا کہ میں کروٹ سے بیٹھی تھی ۔ پیچھے سے حامد خاں آئے اور کھڑے ہی کھڑے انہوں نے ایک رقعہ میرے ہاتھ میں چپکے سے دیا ایسے کہ میں چونک پڑی۔ ایک دم سے مڑ کر جو دیکھتی ہوں تو حامد خاں! حشمت آپا نے بھی مڑکر دیکھا۔ میں نے گھبرا کر جھٹ سے رقعہ مٹھی میں بند کر لیا۔ حشمت آپا نے کہا۔ "آؤ۔۔۔"
"نہیں نہیں۔۔۔ میں جا رہا ہوں۔" کہہ کر حامد خاں چلائے "میں تو افضل بھائی سے ملنے آیا تھا۔۔۔" افضل بھائی چیختے رہ گئے۔ مگر حامد خاں نے کہا کہ "ابھی آتا ہوں" مگر وہ پھر نہ آئے۔
میں نے یہ رقعہ چھپا لیا۔ حامد خاں کا یہ پہلا خط تھا۔ میں نے پڑھا نہیں لیکن پڑھنے کے لئے بیتاب تھی۔ کچھ عجیب ہی طرح کا احساس تھا۔
مجھ سے نہ رہا گیا اور میں اٹھ کر چل دی یہ کہہ کر کہ ابھی آئی۔ دوڑی ہوا کی طرح اور اپنے کمرے پر پہنچی۔ رقعے کو کھولا۔ بہت مختصر تھا۔ انگریزی میں تھا :
مائی ڈیئر سلیم۔ کل شب کھانے سے قبل مجھ سے تم اسی جگہ ضرور مل لو۔ مجھے تم سے بے حد ضروری کام ہے۔ مجھے امید ہے کہ ناامید نہ کرو گی۔ تمہارا حامد
میں نے فوراً طے کر لیا کہ ملوں گی اور ضرور ملوں گی۔ کیوں نہ ملوں۔ شام کی تفریح کے بعد اور کھانے سے قبل افضل بھائی والدہ صاحبہ کے پاس ہوتے ہیں یا اپنے کمرے میں اور میں اپنی طرف۔ یہی موقعہ ہو سکتا ہے۔ اس خط کو میں نے بار بار پڑھا۔ کسی قدر سادہ اور دلکش تھا۔ ایک چچا ہیں۔ جب میں چھوٹی سی تھی تو انہوں نے مجھے چھیڑنے کو میرا نام سلمیٰ سے سلیم رکھ دیا۔ میں نے کہا میرا نام سلیم نہیں ہے مگر وہ مجھے سلیم کہتے تھے۔ یہ بات بالکل عارضی تھی مگر حامد خاں کو یاد تھی۔ جو انہوں نے سلیم لکھا۔ دراصل یہ بھی میرے گواہوں میں تھے کہ سلیم نہیں ہوں۔ مگر اس وقت انہوں نے خود سلیم لکھا تھا۔ کیا اس لفظ میں کچھ جذبات بھی پوشیدہ تھے؟ میں نہیں کہہ سکتی۔ لیکن میرے لئے اس ایک لفظ میں دفتر تھا۔ ایسا کہ میں دیر تک نہیں بلکہ رات گئے تک اور دن بھر اسی لفظ کے تخیل میں ڈوبی رہی۔ سوچتی اور دل ہی دل میں لفظ دہراتی "سلیم!" معلوم ہوتا کہ لبوں نے بھی اس لفظ کو دہرایا ہے۔ اس خط میں کچھ بھی نہ تھا۔ اگر تھا تو یہی لفظ سلیم جس نے اسے میرے لئے ایک دلچسپ خط بنا دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ایم ایس ورڈ فائل صفحہ 224 تا 227 منسلک ہے۔
 

Attachments

  • Azeem Baig P224 to 227.ZIP
    10.9 KB · مناظر: 3

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ90​
لیے جائیں گے۔"​
تو پھر کیا ہے میں نے اطمینانیہ لہجہ میں کہا۔​
اس کے بعد ہی لالہ جی پر روغن قاز کی خوب ہی مالش کی گئی۔ اس سلسلے میں لالہ جی سے کچھ عجیب ہی طرح کے بڑے گہرے تعلقات قائم ہو گئے کیونکہ لالہ جی مار واڑی تھے اور میں بھی مارواڑی ہوں اور پھر میرے والد صاحب مارواڑ کی اس ریاست میں جہاں لالہ جی لڑکی بیاہی گئی ہے، ملازم ہیں۔​
میرے پیر میں سردی محسوس ہو رہی تھی۔ دو مرتبہ ملازم لڑکے کو آواز دے چکا تھا۔ موزے پلنگ کے پاس کرسی پر پڑے تھے۔ لالہ جی نے منشی جی کی تجویز پر کہا کہ نوکر آپ ہی کا ہے۔ کمرہ بھی برابر ہی تھا مگر وہ مارواڑی ملازم تھا جب وہاں پہنچا تو پکار کر اس نے پوچھا۔" کیا دونوں لاؤں؟"​
لاحول ولاقوۃ میں نے اپنے دل میں کہا یہ لالہ جی کا نوکر بھی عجیب احمق ہے مگر میں خود مارواڑی تھا اور جانتا تھا کہ یہ اس ملک کا رہنے والا ہے جہاں اردو ٹھیک نہیں سمجھتے ہیں مگر پھر بھی اس حماقت پر تو بہت ہی غصہ آیا کیونکہ آپ خود غور کیجئے کہ موزے منگائے اور پوچھتا ہے کہ دونوں لاؤں، پکار کر منشی جی نے کہا۔ "ہاں دونوں۔"​
آپ یقین مانیے کہ وہ کمرے سے بجائے موزوں کے دونوں اگالدان لیے چلا آتا ہے، میں اب اس کی صورت کو دیکھتا ہوں کہ ہنسوں یا روؤں، ابھی ابھی یہ طے کرنے نہیں پایا تھا کہ لالہ جی مراد آبادی قلعی کے اگالدان کو شاید گلدان سمجھ کر دیکھتے ہیں۔ اس کو مٹھی میں اس طرح پکڑتے ہیں جیسے مداری ڈگڈگی کو، یہاں تک بھی غنیمت ہے مگر قسمت تو دیکھئے کہ قبل اس کے کہ منشی جی ان کے ہاتھ سے اگالدان کو لیں اور ملازم کو اس کی غلطی بتائیں لالہ جی نے اس کے اندر جھانک کر دیکھا اور کراہیت مگر نہایت سنجیدگی سے اس کو زمین پر رکھتے ہوئے بولے۔" باسن توگھڑائیں چوکھا ہے مگر کسی "بیٹی رے باپ" نے اس میں تھوک دیا ہے۔"​
انا للہ و انا الیہ راجعون! وہ اپنا ہاتھ پاک کرنے کے لیے زمین پر رگڑ رہے تھے اور میں اپنی قسمت کو رو رہا تھا کہ خدا نے پالا ڈالا تو ایسوں سے کیونکہ "گھڑائیں چوکھا" کے معنی ہیں بہت اچھا اور "بیٹی رے باپ" کے معنی ہیں، بیٹی کا باپ، یعنی پرلے درجے کا احمق اور بدتمیز۔ یہ سب کچھ تھا مگر پانچ سو روپے! مجھے لالہ جی محض انہی روپوں کی وجہ سے پری معلوم ہو رہے تھے اور کیوں نہ ہوں۔​
ادھر لالہ جی گئے اور ادھر منشی جی نے عینک کے اوپر سے میرے اوپر نگاہیں ترچھی ترچھی ڈالیں، بڑے لال پیلے ہو کر انہوں نے کہا:​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 91​
"میں نوکری نہیں کر سکتا۔۔۔ آپ وکالت کر چکے ہیں۔۔۔ کر چکے۔۔۔ بس۔۔۔ بس ہو چکی۔۔۔ دیکھ لیا۔۔۔"​
"نائی رے نائی کتنے بال؟ جو ہیں صاحب جی سامنے آئے جاتے ہیں۔۔۔ کہیں ایسے ہی وکالت ہوتی ہے؟۔۔۔ ادھر پھر۔۔۔" میں نے تنگ آکر کہا۔ تو آخر کیا غضب ہو گیا۔​
جھلا کر منشی جی بولے:" جی ہاں۔۔۔ مارواڑی کا مقدمہ اور آپ بلی کی دم کاٹ رہے ہیں۔۔۔ اور جو وہ دیکھ لیتا تو؟۔۔۔ ہاں۔۔۔ اور یہ! آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ مقدمہ نہیں چل سکتا؟" منشی جی نے یہ جملہ تیز ہو کر کہا۔​
میں:" اس لیے کہ اول تو گواہ ندارد اور پھر دوسرے یہ کہ محض اتنی سی بات پر مقدمہ۔۔۔"​
منشی جی جھلا کر بولے:" بس بس۔۔۔ ہوچکی وکالت۔۔۔ آپ کو کیسے معلوم کہ مقدمہ نہیں چلے گا۔ ہونہہ امتحان کیا پاس کیا کہ سمجھے کہ وکیل ہو گئے، ارے میاں یہاں تو یہ حال ہے کہ نہ معلوم کتنے وکیل بنا دے۔۔۔ ہار ہار کہتا ہوں، اور پھر وہی باتیں۔۔۔ مقدمہ نہ بھی چلے گا تو موکل سے تھوڑی کہہ دیا جاتا ہے کہ تیرا مقدمہ نہیں چلے گا۔"​
میں قائل ہو رہا تھا واقعی میری غلطی تھی۔ منشی جی بزرگ اور ہمدرد تھے۔ قانون دانی سے کچھ نہیں ہوتا۔ بقول ان کے وکالت کے پیچ سیکھنا چاہئیں، یہ وکالت کے پیچ ہیں! یعنی باالفاظ دیگر "مک۔۔۔ کا۔۔۔ ری"​
میں کیا جواب دیتا، قائل تھا، معقول تھا، سر ہلا رہا تھا، ہنسی آ رہی تھی اور دل میں کہہ رہا تھا۔​
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے​
کم بختی تو دیکھیے کہ خانم شیشہ میں سے جھانک رہی تھی اور منشی جی کی باتیں سن کر اکیلی ہی اکیلی ہنس رہی تھی۔ میری نظر جو پڑی تو مجھے بھی بے اختیار ہنسی آئی اور میں ایک دم سے کمرے سے بھاگا۔ خدا معلوم منشی جی کیا بڑبڑائے اتنا ضرور سنا۔۔۔ بدتمیزی۔۔۔ "وکالت نہیں" منشی جی غصے میں آکر چل دیے۔​
میں کھانا کھا ہی رہا تھا کہ ایک مقدمے والے نے پکارا یہ ایک موکل کا لڑکا تھا جس کا آج مقدمہ تھا اور اس نے مجھ سے کہ، باپ نے تاکید کرکے کہہ دیا ہے کہ موٹی والی کتاب ضرور لیتے آنا۔ مقدمہ دیوانی کا تھا، اور مجھے فوجداری کی ایک کتاب کی آج کچہری میں ضرورت تھی چنانچہ میں تعزیرات ہند دے کر روانہ کیا یہ بھی کرنا پڑتا ہے ورنہ موکل صاحب مقدمہ خلاف ہوجانے کی صورت میں تمام الزام دیتے ہیں کہ کتاب موٹی والی کہہ دینے پر بھی نہ لائے خواہ آپ کو کتاب کی ضرورت ہو یا نہ ہو مگر موکل صاحب فرمائیں تو پھر کیسے نہ لے جائیے گا۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 92​
ضرورت پتلی سی کتاب کی ہو مگر آپ کو موٹی کتاب لے جانا پڑے گی۔​
میں اپنی قابلیت پر دل ہی دل میں نازاں تھا اور اس کا سکہ خانم پر بھی بٹھانا چاہتا تھا۔​
"کچھ سنتی ہو" میں نے کہا "میرےساتھیوں میں سے اب تک کسی کو پانچ سو روپیہ کا مقدمہ نہیں ملا" شاید قائل ہو کر خانم اس کے جواب میں مسکرائی اور میں نے اور رعب جمایا۔​
"تم خود دیکھو کہ اتنی جلدی پانچ پانچ سو روپے کے مقدمات آنے لگے ہیں، اب بتاؤ نوکری اچھی یا یہ وکالت"​
خانم اپنی فکر میں تھیں اور بولیں " تو اپنی بات سے نہ پھر جانا آج شام کو کچہری سے آؤ بندے ضرور ساتھ ہوں دام طے کرلینا اور چکا کر لانا اور ۔۔۔" بات کاٹ کر میں نے کہا " لیتا آؤں گا۔۔۔ میں۔۔۔ اور دیکھو جب ایک مقدمہ بڑا آتا ہے یعنی زیادہ فیس کا تو پھر اس کے ساتھ ساتھ بڑے اچھے مقدمے آتے ہیں اور تار سا بندھ جاتا ہے۔"​
خانم نے کہا " تو ضرور لیتے آنا، کل تک تو وہ دے دے گا آخر مارواڑی مہاجن ہے اس کے لیے پانچ سو روپے کون سی بڑی بات ہے۔"​
قاعدے سے تو منشی جی نے اس سے روپیہ وصول کر ہی لیا ہوگا۔ میں نے سوچا کہ بات دراصل جناب یہ ہے کہ میری حیثیت کے نئے وکیل کے پاس اگر پانچ سو روپے کا مقدمہ آ جائے تو اس کو ایسا معلوم دیتا ہے کہ ٹھنڈے پانی سے نہا رہے ہیں، مطلب میرا یہ کہ سانس کچھ اوپر کو کھینچنے لگتی ہے۔ میں نے خانم سے فوراً وعدہ کر لیا تھا کہ کچہری سے واپسی میں ہیرے کے بندے لیتا آؤں گا۔ وہ بندے انہوں نے حال میں بے حد پسند کیے تھے لیکن قاعدے سے اب تک ان کے لیے میری حیثیت کو دیکھتے ہوئے وہ خریدنے کی چیز نہ تھی بلکہ محض دیکھنے کی چیز تھی۔ خانم نے بار بار اصرار سے میں نے کہا۔​
"جان کیوں کھائے جاتی ہو کہتا بھی ہوں کہ لیتا آؤں گا ضرور لیتا آؤں گا ضرور بالضرور اور کچہری سے سیدھا بازار جاؤں گا اطمینان رکھو۔"​
باوجود اس قدر اطمینان دلانے کے بھی خانم مجھے کمرے کے دروازے تک حسب معمول رخصت کرنے جو آئیں تو چلتے چلتے پھر تاکید کر دی۔​
میں کچہری پہنچا۔ راستہ میں جتنے بھی نیم کے درخت ملے ان کی طرف دیکھا تو خانم کی خیالی تصویر ہیرے کے بندے پہنے ہوئے نظر آئی۔ طبعیت آج بے طرح خوش تھی، اپنے کو میں ذرا بڑے وکیلوں میں شمار کر رہا تھا، کچہری پہنچ کر سیدھا منشی جی کے پاس پہنچا، منشی جی نے مجھے دیکھ کر ناک کے نتھنے پھلالیے، میں نے ذرا ادھر ادھر کی کام کی باتیں پوچھیں تو منہ بنا بنا کر جواب دیے۔ مگر مجھے خانم کے بندوں کی جلدی پڑی تھی اور میں نے منشی جی سے آخر کو پوچھ​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 93​
لیا کہ پانچ سو روپے میں لالہ جی کتنے روپے دیے گئے اور کتنے باقی ہیں، کسی نے کہا ہے،​
اے بسا آرزو کہ خاک شد​
آپ مشکل سے اندازہ لگا سکیں گے کہ میرا کیا حال ہوا جب معلوم ہوا کہ مقدمہ پانچ سو کا تو بے شک تھا اور ہے مگر پانچ سو روپے کا نہیں ہے بلکہ دفعہ ۵۰۰ کا (تعزیرات ہند) ہے۔​
صدمہ کی وجہ سے میری گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی اور اس پر منشی جی کا نہایت ہی کرخت اور طنزیہ لہجے میں ریمارک، جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ پانچ سو روپے فیس کے مقدمے آپ کے لیے اب میں ہائیکورٹ سے منگواؤں گا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔​
میرا تمام جوش و خروش رخصت ہو گیا اور ایک عجیب پسپائیت چھا گئی۔ جماہی لے کر سامنے نیم کی طرف دیکھا بجائے خانم کے خیالی تصویر کے دکاندار کی الماری میں بندے مخمل کی ڈبیا میں رکھے اسی طرح چمک رہے تھے۔​
گھر پہنچا تو خانم نے چپکے سے آکر پیچھے سے آنکھیں بند کر لیں اور پھر فوراً ہی میری دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈال کر کہا تمہیں قسم ہے کتنے میں ملے۔ اب آگے جانے دیجیے کہ کس طرح میں نے خانم کو غلط فہمی سے نکال کر سمجھایا اور کیا کیا کوفت ہوئی ہے اور یہ سب کچھ اپنی ہی حماقت سے کیونکہ ذرا غور کرنے پر معلوم ہو گیا کہ اس قسم کے خیالات ہی دل میں مجھے نہ لانا چاہیے تھے۔ لاحول ولا قوۃ۔​
(۲)​
دوسرے تیسرے روز کا ذکر ہے کہ ایک پرلطف ایٹ روم تھا کچھ شناسا اور دوست باہر سے بھی اسی تقریب میں آئے تھے جن کا تعلق کالج سے تھا۔ ان میں سے کچھ وکیل بھی تھے۔ یہاں وکیلوں سے بحث ہے۔ ان میں سے کچھ صاحبان ایسے تھے جن سے میری بڑی بے تکلفی تھی۔ مجھ سے دو تین سال پہلے ایل ایل بی کر چکے تھے فرض کیجیے کہ ان میں سے ایک کا نام "الف" اور دوسرے کا "ب" اور تیسرے کا "ج" تھا۔​
مسٹر الف سے صبح ملاقات ہوئی تھی سخت پریشان تھے۔ وکالت قطعی نہ چلتی تھی کہنے لگے " یار کیا کروں نوکری کی فکر میں ہوں، میں نے کہا "پھر؟" تو بولے " کوئی نوکری بھی نہیں ملتی۔"​
میری حالت پوچھی تو میں نے بھی کہا اور حقیقت بتلا دی کہ " یار جب تک والد صاحب روپے دیتے جائیں گے میں برابر وکالت کرتا جاؤں گا۔"​
اسی طرح "ب" صاحب سے بھی ملاقات ایک اور صاحب کے ہاں ہوئی ان کا پتلا حال تھا بلکہ ان کی جیب سے تو عمدہ عمدہ قسم کے وانٹڈ اشتہارات کی گڈی کی گڈی نکلی چونکہ میرے​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 94​
گہرے دوست تھے دو تین اس میں سے چھانٹ کر مجھے بھی اشتہار دیے اور پھر عرضی کے بارے میں تاکید کی کہ رجسٹری سے بھیجنا۔ آج تک تو عرضیوں میں سے ایک کا بھی جواب نہیں آیا اور خواہ مخواہ رجسٹریوں پر میرے دام گئے۔​
"ج" صاحب سے بھی ملاقات ہوئی اور ان کا بھی یہی حال تھا۔ میری ان تینوں حضرات سے بے تکلفی تھی لہذا مجھے اصلی حالات بتانے میں کسی نے تامل نہ کیا۔​
شام کو ایٹ ہوم کے پر لطف جلسے میں میری قسم کے بہت سے وکیل اپنے اپنے باپوں کی کمائی سے بنوائے ہوئے قیمتی سوٹ زیب تن کیے کیک اور پھل جھاڑ رہے تھے۔ ہم عمر اور ہم خیال اور پھر ہم پیشہ جمع ہوئے تو یہی سوال پیش ہو گیا کہ کہو بھئی کیسے چلتی ہے۔ میں نہیں عرض کر سکتا کہ یہ سوال کس قدر ٹیڑھا ہے۔ آپ کو پہچان بتاتا ہوں کہ نیا وکیل اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اگر ذرا بھی کھانسے یا ادھر ادھر دیکھے تو جو آمدنی وہ اپنی بتائے اس کو بے دھڑک دس پر تقسیم کردیں بالکل صحیح جواب نکل آئے گا۔ نئے وکیل اس سوال سے اس قدر گھبراتے ہیں (خصوصاً میں) کہ اگر وہ سسرال جاتے ہوں تو محض اس سوال سے بچنے کے لیے بطور پیش بندی یہی کہہ دیا جاتا ہے کہ جناب ایک مقدمہ میں جا رہا ہوں۔ آپ ہی بتائیے کہ پھر آخر کیا بتایا جائے۔​
غرض یہی سوال کہ "کیسی چلتی ہے؟" پیش کیا گیا اور مسٹر "ب" کو جواب دینا پڑا۔ مسٹر "ب" نے چہرے کو کسی قدر مٹور کر کے کہا۔" خدا کا شکر ہے اچھا کام چل رہا ہے۔"​
کتنا اوسط پڑ جاتا ہے؟ مسٹر ج نے پوچھا۔​
مسٹر ب نے ذرا گلا صاف کرکے کھانستے ہوئے کہا " کیا اوسط ہوتا ہے۔۔۔ بھئی بات تو یہ ہے کہ نیا کام ہے کچھ بھروسہ نہیں، کسی مہینے میں کم تو کسی میں زیادہ اتنا کہہ کی کچھ سمجھ کر خود ہی کہا۔۔۔ ایک مہینے میں ایسا ہوا کہ صرف بتیس روپے پونے نو آنے آئے۔۔۔!"​
ایک قہقہہ لگا اور ایک صاحب نے زور سے کہا " پونے نو آنے نہ کم نہ زیادہ۔"​
مسٹر ب نے جلدی سے لوگوں کی غلط فہمی سے اس طرح نکالا۔۔۔ ایک میں تو ساڑھے بتیس روپے آئے لیکن دوسرے مہینے میں سترہ روز کے اندر اندر دو سو چھیالیس۔​
مسٹر ج نیز اوروں نے غور سے مسٹر ب کی آمدنی کا معائنہ کرتے ہوئے کہا تو اوسط آپ کا دو سو روپیہ ماہوار کا پڑتا تھا۔"​
مسٹر ب نے نظر نیچی کیے نارنگی کی پھانک کھاتے ہوئے کہا۔" جی مشکل سے۔۔۔ دو سو سے کم ہی سمجھیے بلکہ ایک کم دو سو کہییے" اس طرح سوال سے اپنی جان چھڑا کر اب مسٹر ج کو پکڑا اور کہا " کہو یار تمہارا کیا حال ہے؟"​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 95​
اب مسٹر ج کی طرف سب کی آنکھیں اٹھ گئیں ان کی حالت بھی قابل رحم تھی، ان کو بھی کھانسی آئی اور ان کا بھی اوسط دو سو پونے دو سو کے قریب پڑا۔​
مسٹر الف کا نمبر آیا تو کم و بیش اتنا ہی ان کا بھی حساب پڑتا تھا مگر چونکہ وہ حساب رکھنے کے عادی نہیں تھے لہذا کچھ زیادہ روشنی ڈالنے سے قاصر رہے۔ سب کی بالا تفاق رائے تھی کہ وکالت نہایت عمدہ اور آزاد پیشہ ہے، قطعی ہے بشرطیکہ گھر سے برابر روپیہ آتا رہے، سال دو سال میں ڈیڑھ دو سو کی آمدنی ہونے لگنا دلیل ہے اس یقینی امر کی کہ دس بارہ سال میں کافی آمدنی ہونے لگے گی یعنی ہزار بارہ سو۔​
میرا نمبر آیا تو میں نے مسٹر ب کے عطا کردہ وانٹڈ کے اشتہار نکال کر دکھائے کہ " بھئی میں تو آج کل یہ دیکھ رہا ہوں۔" ناظرین نے ایک قہقہہ لگا یا اور میں چپکے سے مسٹر ب کی طرف دیکھا وہ کچھ بے چین تھے۔​
مسٹر الف و ب و ج کیا بلکہ بڑی حد تک جتنے بھی وہاں وکالت پیشہ تھے انہوں نے خاص دلچسپی کا اظہار کیا اور پھر مسٹر الف و ب و ج نے تو کہا کہ " جی جمے رہو۔ ہم بھی پہلے گھبرا گئے تھے اور تمہاری طرح کہتے تھے کہ نوکری کر لیں گے مگر خبردار نوکری کا بھول کر بھی نام نہ لینا۔"​
واقعی بات بھی ٹھیک تھی، کیوں؟ شاید محض اس وجہ سے کہ وکالت نہایت معزز اور آزاد پیشہ ہے۔​
(۳)​
اسی ایٹ ہوم میں میرے سینئر (Senior)بھی ملے۔ کہنے لگے کہ صبح آنا ایک معمولی سی عذر داری ہے دس بجے کی گاڑی سے چلے جانا شام کی گاڑی سے چلے آنا۔"​
یہ ضلع کی ایک تحصیل کی منصفی کا مقدمہ تھا۔ مقدمہ یا فیس کے بارے میں کیفیت پوچھ نہ سکا میرے سینئر پرانے اور کامیاب وکیل ہیں۔ لمبے چوڑے وجہیہ آدمی، قد آور، دبنگ آواز کے وکیلوں میں نمایاں شخصیت رکھنے والے۔​
چونکہ تحصیلوں کی منصفی میں نئے وکیل کو خصوصاً ذرا ٹھاٹھ سے جانا چاہیے۔ میں نے بھی رات ہی کو ایک عمدہ سا سوٹ نکال کر رکھا۔ صبح خانم سے کہا کہ " چائے کے بجائے پراٹھے اور انڈے کھلواؤ۔" ایک کتاب بھی لے جانا طے ہوا حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔​
مجھے تو افسوس تھا ہی ، خانم سے کہا تو اس کو اور بھی افسوس ہوا کہ جب میں اپنے سینئر کے ہاں سے واپس آیا اور سارا قصہ سناتے ہوئے جلدی جلدی اسٹیشن جانے کی تیاری کی۔ بات افسوس کی دراصل یہ تھی کہ موکل بیس روپے دے گیا تھا۔ سینئر صاحب تو ججی کے ایک اپیل کی​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 96​
وجہ سے نہ جا سکتے تھے لہذا انہوں نے مجھ سے کہا کہ وکالت نامہ موجود ہے اس پر تم بھی دستخط کر دینا اور دس روپے تم لے لینا باقی موکل کو واپس کر دینا۔ میں بھلا ان سے کیسے کہتا کہ جناب یہ آپ کیوں نا حق واپس کرواتے ہیں۔​
میرے اور خانم کے دماغ تو دیکھیے میں سوچ رہا تھا کہ جو کام میرے سینئر کرتے آخر بالکل وہی کام میں کروں گا، وہ خود کرتے تو بیس لیتے جو موکل دے ہی گیا تھا اور مجھ سے کام لے رہے ہیں تو آیا ہوا روپیہ واپس کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ مگر مجھے واپس کرنا ہی تھا۔ روپے فیس کے علاوہ کرایہ وغیرہ کے علیحدہ تھے۔ معاملے کو سینئر صاحب سے خوب سمجھ کر آیا تھا اور پھر آخر کچھ معاملہ بھی تو ہوا ذرا غور تو کیجیے کام ہی کیا تھا۔ قصہ دراصل یہ تھا کہ دو بھائی تھے ایک نے قرض لیا، مہاجن قرقی کرانے آیا تو قرض دار بھائی کے پاس کچھ برآمد نہ ہوا تو اس نے دوسرے بھائی کے بیل خواہ مخواہ قرق کرا لیے۔ اگر دیکھا جائے تو اس معاملہ میں دراصل کسی وکیل کی بھی ضرورت نہ تھی۔ کجا ایک بڑے وکیل کی کیونکہ کو آپریٹو بنک کے رجسٹر موجود تھے اور پھر پٹواری کی فرد جس سے یہ ثابت تھا کہ دونوں بھائیوں کی کھیتی باڑی اور تمام کاروبار الگ ہیں اور ایک بھائی کے قرضے میں دوسرے بھائی کے بیل کسی طور بھی قرق نہیں ہو سکتے۔ اس کی بھی پوری شہادت موجود تھی کہ یہ بیل بنک کے قرضے سے خریدے گئے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود بھی بجائے وکیل بالکل نہ کرنے کے یا میرا سا کوئی تھرڈ کلاس کر لینے کے وہ بھلا مانس سیدھا میرے سینئر کے پاس دوڑا آیا۔​
میں آپ سے کیا عرض کروں کہ تمام نئے وکیلوں کو (خصوصاً مجھے سب سے زیادہ) کتنی بڑی شکایت ہے کہ اہل معاملہ یعنی مقدمہ لڑنے والے ذرا ذرا سے کاموں کے لیے بڑے بڑے وکیلوں کے پاس دوڑتے ہیں ۔ ہم لوگوں کو کوئی مسخرا بھول کر بھی نہیں پوچھتا ورنہ اس سے بہتر کام آدھی سے کم فیس پر دوڑ کر کریں۔ مگر صاحب ہماری کوئی نہیں سنتا جسے دیکھو بڑے وکیلوں کی طرف دوڑا چلا جا رہا ہے، ہم بھی جل کر کہتے ہیں جاؤ ہماری بلا سے تم ایک چھوڑو دس مرتبہ جاؤ دوگنے چوگنے دام بھی دو اور جھڑکیاں کھاؤ وہ علیحدہ۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اس کے علاوہ اور بھلا ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔​
ساڑھے دس بجے کے قریب میں منزل مقصود پر پہنچ گیا اور فوراً اپنے موکل کی تلاش شروع کردی۔​
یہ موکل دراصل میرے سینئر صاحب کا بے حد قائل بلکہ معتقد تھا اور سوچتا تھا کہ خراب مقدمہ بھی وہ درست کر سکتے ہیں، چنانچہ اسی بنا پر وہ ان کے پاس دوڑا آیا تھا، میں نے اس موذی کو کبھی نہ دیکھا تھا ادھر میں اس کی تلاش میں تھا اور ادھر وہ میرے سینئر کا منتظر، اسے کیا معلوم​
 
Top