عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۸۴
سی بنی ہوئی تھی اور دور تک ڈھلوان زمین چلی گئی تھی کہ جس کے اختتام پر شاہی مسجد اور کھنڈروں کا سلسلہ چلا گیا تھا۔ ان کھنڈروں میں خاص چیزیں دو تھیں۔ ایک تو سیاہ باؤلی اور دوسری تاریک سرنگ۔ سرنگ کے بارے میں طے تھا کہ جو اس میں گیا واپس نہ آیا۔ اور باؤلی کے بارے میں طرح طرح کی روایات مشہور تھیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ محبت کی ماری ستی اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ جل مرنے کے بعد اب اسی سیاہ باؤلی میں رہتی تھی اور اسی کی مناسبت سے یہ خوفناک باؤلی ستی کی باؤلی کہلاتی تھی۔
جہاں دن کو جاتے دہشت معلوم دے وہاں اس وقت کیا عالم ہو گا! میں سوچتا رہا۔ سوچتا رہا۔ رات کی اندھیری تھی۔۔۔ تاریکی کے ہیبت ناک دیوتا کا راج تھا۔۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی پروائی ہوا ایک نظام کے ماتحت گویا بہہ رہی تھی۔۔۔ عالم کائنات ایک متزلزل اور تاریک سا خوب۔۔۔ ستی کی باؤلی۔۔۔ کھنڈر۔۔۔ دہشت۔۔۔ ستی۔۔۔ باؤلی۔۔۔ محبت۔۔۔ مگر جنت۔
رات ڈھل چکی تھی۔۔۔ تاریکی۔۔۔ خوفناک تاریکی میں بل کھا کر ایک نور کی سی لرزش پیدا ہوئی۔ ایک مختصر تلاطم۔۔۔ کشمکش۔۔۔ فضا کچھ متزلزل سی ہوئی۔ تاریکی کی خوفناک اور سیاہ چادروں کو لرزش سی ہوکئی۔۔۔ ایک دلربا ترنم کے ساتھ فضا میں حرکت سی ہوئی۔۔۔ آواز آئی۔۔۔ پیچ در پیچ دھوئیں کو آہستہ سے چیر کر ایک مسکراتا ہوا نورانی چہرہ نکلا! دھوئیں کے ہیولے میں رقصاں و لرزاں! چاند کی طرح سیاہ بدلیوں سے آنکھ مچولی۔۔۔ چشم زدن میں اس پاکیزہ اور معصوم چہرہ کے ارد گرد ایک عجیب و غریب دھواں سے پھیلتا ہوا معلوم ہوا۔۔۔
میرے منہ سے دفعتہً نکلا "جنت"، دل مارے خوشی کے بلیوں اچھل رہا تھا۔ میں نے پھر کہا "جنت" اور اٹھ بیٹھا۔۔۔ چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔۔۔ ایک خاموش طلسم تھا کہ چہرے کی سنجیدگی میں آنکھیں نین باز تھیں۔
میں نے پھر کہا۔ "جنت۔۔۔ کھیلو گی نہیں۔"
بجائے جواب ملنے کے چہرے کو حرکت ہوئی جیسے پانی پر ناؤ کو اس وقت حرکت ہوتی ہے جب وہ کنارہ سے روانہ ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ جنت کا چہرہ بالکل اسی خاموشی اور اسی سکون کے ساتھ گویا کہ تاریکی میں آہستہ آہستہ۔۔۔ آہستہ آہستہ بہا جا رہا ہے۔
"کدھر؟" میرے منہ سے عالم بے اختیاری میں نکلا۔ اور ساتھ ہی میں اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔ بستر سے اٹھا۔۔۔ جنت کے خوبصورت اور نورانی چہرہ کے تعاقت میں۔۔۔ چھت پر سے نیچھے آیا۔۔۔ کنڈی کھولی۔۔۔ دروازہ سے باہر نکلا۔۔۔ جنت کا معصوم چہرہ آگے اور میں پیچھے!
سنسان گلیاں منٹوں میں طے ہوئیں۔ اب جنت کا چہرہ آگے اور میں پیچھے۔۔۔ ستی کی باؤلی کی طرف چلا جا رہا تھا! جنت کا چہرہ میری رہنمائی کر رہا تھا وہ بہا چلا جا رہا تھا۔ اور میں اس کے
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۸۵
پیچھے۔
بقول کے جنگل بیابان۔ ہو کا میدان۔ نہ آدم، نہ آدم زاد۔ سوتا سنسار جاگتا پروردگار۔۔۔ اس ہولناک تاریکی میں سیدھا میں ستی کی باؤلی کی طرف جا رہا تھا۔ ناہموار راستہ اور یہ تاریکی! لیکن نہیں میرے لئے راستہ اول تو نیا نہ تھا اور پھر اندھا تھوڑا ہی ہوں۔
دشت و جبل میں اس وقت خوفناک عناصر کا راج تھا۔ اس بلا کی تاریکی میں تیز ہوا دندناتی آتی تھی۔ پہاڑوں کے رخساروں پر طمانچے مارتی ہوئی چیختی چنگھاڑتی اور غصے میں درختوں کے جھونٹے کھسوٹتی ہوئی سنسناتی اور بولتی چلی جاتی تھی! ایک دم سے معلوم ہوتا تھا کہ اندھیرے کا خون آشام دیوتا سانس لے رہا ہے۔ دردناک صدائیں اٹھتی تھیں اور دور تک اندھیرے میں سنسناتی اور تیرتی چلی جاتی تھیں۔ ان کی صدائے بازگشت پہاڑوں اور کھنڈروں میں دیر تک ٹکراتی تھی اور پھر کم ہوتی جاتی تھی کہ پھر اسی رفتار سے ہوا آتی تھی۔ اور صدائیں بلند ہوتی تھیں۔ فضا میں ایک ہیجان سا برپا ہوتا تھا اور پھر اسی طرح کمی ہوتی جاتی تھی۔ یہ خوفناک مد و جزر جاری تھا اور میں جنت کے خوبصورت چہرے کے پیچھے چلا جا رہا تھا۔
میں اسی طرح چلا جا رہا تھا۔ سنسان اور ویران کھنڈروں میں ہوتا ہوا۔ جہاں کوئی جوان آدمی اگر تنہا جائے تو دن کو بھی مارے دہشت کے کلیجہ ہل جائے۔ اور میں خود اگر اکیلا دن کو آتاتو مارے ڈر کے مر جاتا۔
دریچوں میں سے ہوتا ہوا۔ شکستہ دیواروں کو پھاندتا ہوا۔ چبوتروں اور کمروں سے ہوتا ہوا سیدھا میں ستی کی باؤلی کے خوفناک دھانے پر پہنچا۔ جنت کا خوبصورت چہرہ اس داخل ہوا اور اس کے پیچھے میں۔
ایک سیاہ اور تاریک دروازہ تھا۔ جہاں دن کو بھی انتہا درجے کی تاریکی ہوتی تھی۔ میں اس میں داخل ہوا۔ اندر کی فضا متعفن اور نم تھی۔ چمگادڑوں کی بدبو سے دماغ پراگندہ ہوا جا رہا تھا۔ عام باؤلیوں کی طرح اس میں سیڑھیاں نہیں تھیں۔ اس باؤلی پر ایک گنبد تھا۔ دروازے سے داخل ہو کر دو سیڑھیاں تو اترا اور پھر نینی تال کا سا ڈھال چلا گیا تھا۔ چکر کھاتا ہوا۔ گھومتا ہوا۔ رفتہ رفتہ یہ ڈھال بڑھتا گیا تھا۔ مگر میں تو جنت کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ اور جنت کے چہرے نے آہستہ آہستہ اس انتہا سے زیادہ خوفناک تاریک راستہ کے طے کرنا شروع کیا۔ میں اس کے پیچھے۔ ایک چاند تھا کہ خوفناک باؤلی کی خوفناک گہرائی میں اتر رہا تھا! راستہ ختم ہوا۔ جنت کا چہرہ آگے اور میں پیچھے۔ ہم دونوں گویا سطح زمین کے پچاس ہاتھ نیچے پہنچے۔ دشت و جبل ہمارے سر پر تھا کہ جہاں ہم تیز ہوا کو چیخیں مارتے چھوڑ کر آئے تھے۔ یہاں تو ایک ناقابل بیان سکوت نیم شبی تھا۔ جنت کا چہرہ اسی طرح گویا بہتا ہوا باؤلی کے گندے اور خوفناک مگر عمیق پانی پر پہنچا۔ کنارے پر


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۸۶
میں کھڑا تھا اور وہیں سامنے میں نے خوب آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کہ جنت کا چہرہ کنارے ہی پر پانی میں تیر رہا ہےہ۔ میں غور سے دیکھنے کو وہیں کنارے پر بیٹھ گیا۔ مگر جنت کا چہرہ تو معلوم ہوا کہ اور دور ہے، میں اور جھکا اور دور معلوم ہوا۔ میں اور جھکا اور جھکا۔ اور جھکا حتیٰ کہ میں نے گھٹنے وہیں نم اور متعفن زمین پر ٹیک دیئے اور دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر پانی پر جھکا۔ اور جھکا اور جھکا۔ حتیٰ کہ میری ناک سطح آب سے لگی۔ پلکوں میں غلیظ پانی کی کائی چمٹتی معلوم دی اور ناک سے غلیظ پانی بو دماغ میں پہنچی لیکن باوجود اس کے جنت کا چہرہ دور ہی ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ اس خوفناک باؤلی کی گہرائیوں میں پہلے تو ایک نور کا نقطہ سا معلوم ہوا اور پھر وہ بھی معدوم ہو گیا۔ میں نے اپنا سر اونچا کیا۔ اٹھ کر کھڑا ہوا۔ خاموشی اور آہستگی کے ساتھ جس راہ سے آیا تھا۔ اس راہ واپس ہوا۔
پھر وہی خوفناک راستے طے کئے۔ ہوا بدستور دشت و جبل میں چنگھاڑ رہی تھی۔ وہی خوفناک منظر تھا۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کس طرح ان تمام چیزوں سے گونہ بے نیازی کے ساتھ میں اپنی دھن میں گھر کی طرف واپس چلا آ رہا تھا۔
بغیر کہیں رکے ہوئے گھر پر پہنچا۔ ایک عجیب دھن سوار تھی۔ زینے پر چڑھا اور اپنے بستر پر پھر اسی طرح پڑ رہا۔
صبح آنکھ کھلی تو میں نے بوکھلا کر چاروں طرف دیکھا۔ رات کے عجیب و غریب خواب پر غور کرنے لگا۔ عجیب شش و پنج میں پڑ گیا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ خواب تھا یا سچ مچ میں ستی کی باؤلی کی سیر کر آیا۔ کبھی معلوم ہوتا کہ خواب نہیں تھا۔ لیکن ناممکن ہونے کی وجہ سے پھر کہنا پڑتا کہ خواب ہے۔ میں شاید کچھ اور بیٹھا سوچتا رہتا کہ نیچے گھر میں والدہ صاحبہ، والد صاحب اور ملازمہ کے تیزی سے بولنے کی آوازیں آئیں۔ ایسی کہ میں تیزی دے نیچے پہنچا۔
گھر میں اس وقت ایک تہلکہ برپا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ جس کی وجہ سے میں اور بھی حیران ہوا۔ وہ یہ کہ والدہ مصر تھیں کہ انہوں نے رات کو دروازہ بند کر دیا تھا اور والد صاحب فرما رہے تھے کہ یہ قطعی غلط بات ہے اور ہو نہ ہو والدہ صاحبہ نے طے کر لیا ہے کہ اپنی لاپروائی سے جب تک چوروں کو گھر میں نہ گھسا لیں گی اور گھر نہ لٹ جائے گا اس وقت تک چین نہ لیں گی۔ اب بتائیے کہ میں اس دلچسپ اور غیر دلچسپ گتھی کو سلجھاتا اور غالباً مارا جاتا یا پھر اپنی حیرانی دفع کرتا۔
"ہوش میں نہیں ہے لڑکے! ابھی مٹی اور کیچڑ میں گھٹنوں چلنا بند نہیں کیا۔"
میں صحیح عرض کرتا ہوں کہ میں اور بھی حیران رہ گیا۔ یہ واقعہ تھا کہ میرے گھٹنوں پر مٹی اور کائی لگی ہوئی تھی۔ اب میں نے ہاتھوں کو بھی دیکھا۔ نہ صرف مٹی اور کائی لگی ہوئی تھی بلکہ
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۸۷

ستی کی باؤلی کی تعفن تک ہاتھ میں موجود تھی۔
جب والدہ صاحبہ نے ہاتھوں کو بھی دیکھا اور ناک پر بھی مٹی نظر پڑی اور میں نے دیکھا کہ اب انہوں نے مجھے پیٹنے کی تمہید اٹھائی تو گھبرا کر میں نے رات کے عجیب و غریب خواب کا ذکر کیا۔
میرا عجیب و غریب قصہ غور سے سنا گیا۔ رات کو دروازہ کھلا رہ جانے کا معمہ بھی حل ہو گیا۔ والدہ صاحب متفکر اور والد صاحب متوحش سے معلوم ہوئے۔ یقین نہ کرتے اگر میں یہ نہ کہتا کہ میں ضرور ستی کی باؤلی میں گیا ہوں اور اگر یقین نہ ہو تو دیکھ لیجئے وہاں میرے ہاتھوں اور پیروں کے نشانات ضرور بے ہوں گے۔
والد صاحب کے لئے کیا بلکہ ہرکس و ناکس کے لئے یہ بات نہ صرف ناقال اعتبار اور جھوٹی تھی بلکہ ناممکن۔ والد صاحب نے محلہ کے دو ایک دوستوں سے قصہ بیان کیا۔کسی نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ کہا۔ اور طے یہ ہوا کہ چونکہ میرے بیان میں ایک عجیب قسم کی صداقت ہے لہذا کیوں نہ اس کی تصدیق کر لی جائے۔ گھر کی ملازمہ نے اور دوسری عورتوں نے یہ تجویزکیا کہ ضرور بالضرور جنت کے بھیس میں باؤلی والی ستی آئی تھی جو مجھے وہاں رات کو کھینچ لے گئی۔
قصے کو طول دینا نہیں چاہتا۔ مختصر عرض کرتا ہوں۔ مجھے والد صاحب نے ساتھ لیا۔ ان کے دو چار دوست اور کوئی درجن بھر دوسرے بہادر اور محلے کے بیکار لوگ لٹھوں سے مسلح ہو کر اور لالٹینیں اور دیا سلائیاں لے کر موقع پر پہنچے۔ لالٹینیں روشن کی گئی۔ قل ہو واللہ وغیرہ پڑھی گئی اور بہت احتیاط سے سب کے سب باؤلی کے اندر داخل ہوئے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ میرے پیر کے نشانات ملے۔ واپسی میں جوتے میں باؤلی کی کیچڑ لگ گئی تھی اور کیونکہ میرے جوتے میں لوہے کے اسٹار لگے تھے۔ وہ فوراً شناخت کر لئے گئے۔ آہستہ آہستہ اور قرآنی آیات پڑھتے ہوئے سب لوگ اور اندر اترے۔ قدم قدم پر میں کچھ نہ کچھ بتاتا جاتا تھا۔ حتٰی کہ باؤلی کا سیاہ اور خوفناک پانی لالٹینوں کی روشنی میں عجیب منظر پیش کرنے لگا۔ کنارے پر میرے ہاتھوں اور پیروں کے صاف نشانات موجود تھے، صاف ثابت تھا کہ میں سچ مچ عالم خواب میں ایسی اندھیری اور خوفناک رات میں یہاں آیا۔ میں خود انتہا سے زیادہ پریشان اور خوفزدہ تھا۔ میری عمر ہی کیا تھا، بمشکل بارہ برس۔
اب بتائیے کہ اس معمے کا حل سوائے اس کے اور کیا تھا کہ ہو نہ ہو یہ باؤلی والی ستی جنت کے بھیس میں ہمارے ہاں آئی اور عرصے تک رہ کر جس طرح آئی تھی اسی طرح چلی گئی۔ اور اب بقول والدہ صاحبہ "بچے" کی جان کے لالے پڑ گئے!
اب سنئے کہ یہ جنت کون تھی۔ کوئی دو سال پیشتر ہمارے محلے کی ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسجد میں صبح
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے صفحہ 82 تا 87 کی ورڈ فائل منسلک ہے۔​
 

Attachments

  • Azim Baig P 82 to 87.ZIP
    18.5 KB · مناظر: 2

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 112
جوڑ پر میرے ہیرے اور جواہرات کے زیور تھے اور گلے میں پچھتر لاکھ کی قیمت کا وہ مشہور سچے موتیوں کا ست لڑہ ہار تھا جو شہشاہ جہانگیر نے میرے پردادا کو دیا تھا۔ یہ ہار میرے گھٹنے تک آتا تھا اور آج کل کے زمانے میں اس کی قیمت کا اندازہ لگانا ناممکن تھا۔
میں مہارانی کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا، مہارانی گلابی رنگ کے کپڑے پہنے تھیں اور گلابی ہی شال اوڑھے ہوئے تھیں۔ بجلی کی روشنی میں سارا کمرہ جگمگا رہا تھا۔ جتنے جھاڑ فانوس تھے سب روشن تھے اور دن سا ہو رہا تھا۔ میں چپکا بیٹھا اپنے بائیں ہاتھ کو داہنے ہاتھ کی انگلی سے کرید رہا تھا۔ کبھی کبھی نظر اٹھا کر مہارانی کی طرف دیکھ لیتا تھا جو گلابی کپڑوں میں اس طرح لپٹی بیٹھی تھیں کہ سوائے ان کے ہاتھ کی انگلیوں کے کچھ بھی نہ دکھائی دیتا تھا۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ صرف کمرے کی گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز آ رہی تھی۔ مجھ کو نیند سی معلوم ہو رہی تھی کہ گھڑی نے بارہ بجائے۔ مہارانی جیسے کچھ چونک پڑیں۔ میں نے بھی گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر مہارانی کی طرف۔ انہوں نے اپنا دوشالہ اتار کر علیحدہ رکھ دیا۔ اپنا گھونگھٹ ذرا اوپر سرکایا۔ میں نے ایک جھلک ہی ان کے خوبصورت چہرہ کی دیکھی کہ وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میرے پاؤں چھو کر اپنا ہاتھ تین مرتبہ ماتھے پر لگایا اور محبت سے ہاتھ پکڑ کر مسہری پر بٹھایا۔ صراحی سے شراب کا جام انڈیل کر میرے سامنے پیش کیا۔ میں نے ان کی طرف دیکھا، پھر جام کی طرف۔ میں چپ تھا "پی لو" انہوں نے آہستہ سے کہا: "پی لو یہ رسم ہے، تم کو پینا ہے۔" یہ کہہ کر میرے پاس آ کر ہاتھ سے شراب کا جام میرے منھ سے لگا دیا۔دو ایک گھونٹ پئے، مجھ کو شراب سے بے حد نفرت تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ میں نہیں پیتا تو پھر کہا: "پی لو۔" میں پی گیا تو انہوں نے کہا "اب ایک جام مجھے دو۔" خود بھر کر انہوں نے میرے ہاتھ میں دیا اور کہا: "یہ مجھے دو۔" میں نے ان کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہی تھیں، اور میں الو، کاٹھ کا الو! بنا بیٹھا تھا۔ میں نے ہاتھ میں لے کر ان کی طرف بڑھایا تک نہیں۔ انہوں نے میرے پیر چھو کر خود ہاتھ سے لے لیا اور پی کر میرے پیر چھوئے اور جام رکھ دیا۔ میں نے نظر اٹھا کر پھر ان کو دیکھا۔ اب وہ بے حد گستاخی سے مسکرا رہی تھیں۔
"تم چپ کیوں ہو؟" مہارانی نے ہنس کر کہا" "میں تمہاری کون ہوں؟" تم جانتے ہو؟"انہوں نے اسی طرح ہنستے ہوئے کہا: "بولو چپ کیوں ہو؟ جانتے ہو میں کون ہوں؟"
جب انہوں نے بہت مجھے بلایا تو میں نے سر کے اشارے سے کہا ہاں جانتا ہوں۔
"پھر منھ سے بولو۔ بتاؤ کون ہوں۔۔۔ تمہاری مہارانی ہوں۔ کہو۔" "مہارانی" میں نے آہستہ سے کہا۔
اب ان سے ضبط نہ ہو سکا اور ہنس پڑیں۔ میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہا: "تمہیں نیند آ

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 113
رہی ہے۔ سو رہو۔" کہ کہہ کر میرے زیورات ایک ایک کر کے اتارے اور اچکن وغیرہ اتار کر مجھ کس مسہری پر لٹا دیا۔ میں مسہری پر لیٹا تو مجھے چت لٹا کر ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں۔ "تم شرماتے کیوں ہو۔ میں تم کو گدگداتی ہوں۔۔۔" گدگدی سے مجھے ہنسنا پڑا۔ میری شرم انہوں نے اس طرح رخصت کر دی، اور پھر ہم دونوں دو بجے تک باتیں کرتے رہے۔ "کیا پڑھتے ہو؟ کس سے پڑھتے ہو؟ کیا کھیلتے ہو اور کس کے ساتھ کھیلتے ہو؟ کھانا کس وقت کھاتے ہو۔" وغیرہ وغیرہ اور پھر نصیحتیں شروع ہوئیں کہ کیا کرنا چاہیے، پھر میں نے قصہ سنایا کہ کس طرح شادی سے پہلے میں نے اپنی ہوائی بندوق سے فاختہ ماری، اور پھر میں نے اپنے ولایتی کھلونوں کا ذکر کیا اور اگر وہ منع نہ کر دیتیں تو میں ان کو ساتھ لے جا کر اپنی بندوق اور دوسری تمام چیزیں اسی وقت دکھا دیتا۔ انہوں نے کہا صبح دیکھیں گے۔
(2)
بہت جلد مہارانی سے بے تکلیف اور انتہائی دوستی ہو گئی۔ وہ میرے تمام کھیلوں میں شریک ہوتیں۔ رئیسوں اور جاگیرداروں کے ہم عمر لڑکوں کی فوج کی فوج تھی اور مہارانی کے ساتھ عورتوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ قلعہ میں دن رات آنکھ مچولی کھیلی جاتی۔ خوب خوب سوانگ بھرے جاتے اور خوب کھیل تماشے ہوتے۔ مہارانی راجہ بنتی اور میں مہارانی بنتا، قلعے کے اندر ہی اندر تیر کمان کی جھوٹی لڑائیاں ہوتیں، فوج کشی ہوتی، قلعے فتح ہوتے۔ غرض مہارانی میرے تمام بچپنے کے کھیلوں میںوہ دلچشپی لیتیں کہ اب میں جو غور کرتا ہوں تو عقل کام نہیں کرتی کہ کس طرح ان لغویات میں ان کا جی لگتا ہو گا۔
مجھ کو مہارانی سے بہت جلد محبت ہو گی۔ میں دوڑا دوڑا آتا تو ان پر پھاند پڑتا اور وہ مجھے گود میں اٹھا کر گھما کر چکر دے دیتیں، اور میں چلاتا کہ چھوڑو۔ وہ چھوڑ کر گداگدا کر مجھ کو بے حال کر دیتیں۔ غرض میں بیان نہیں کر سکتا کہ اس زمانے میں میرے ساتھ ان کے کیسے دلچسپ تعلقات تھے۔ بہت جلد قلعے سے باہر عالی شان محلوں میں وہ لے گئیں اور ہم دونوں تمام خاندان سے الگ رہنے لگے۔ اگر مجھ کو کوئی ضرورت ہوتی تو مہارانی سے کہتا۔ اگر کوئی شکایت یا تکلیف ہوتی تو مہارانی سے کہتا ریاست کے منتظموں کو وہ بلا کر میرے بارے میں خاص ہدایت کرتیں، اور میرے تمام ذاتی معاملات کے بارے میں دخل دے کر احکام نافذ کرتیں۔
قصہ مختصر وہ میری مہارانی اور میری گارجین یعنی نگہبان دونوں تھیں۔ مجھ کو بیحد چاہتی تھیں، اور میرے دل میں بھی ان کی محبت ایسی بیٹھ گئی کہ بیان نہیں کر سکتا کہ کس طرح وہ میرا ہر دم خیال کرتی تھیں۔ جب میں باہر سے آتا تو چونک سی پڑتیں۔ مارے خوشی کے ان کا خوبصورت چہرہ دمک اٹھتا اور پھول کی طرح کھل جاتیں۔ اگر ذرا دیر کے لیے بھی باہر جا کر واپس

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 114
آؤٕٕں تو مہارانی کو اپنے لیے بے قرار و بے چین پاتا تھا۔ بڑی خندہ پیشانی سے جب وہ کنول کے پھول کی طرح شگفتہ ہو کر میرے استقبال کو بڑھتیں تو اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں وہ ایسی معلوم ہوتیں کہ جیسے چاند ہے اور اس کے ارد گرد تارے چمک رہے ہیں۔ مجھ سے ان کا قد اونچا تھا۔ عورتوں میں وہ کشیدہ قامت بلکہ قدرے بلند قامت تھیں، ان کے اعضاء ہاتھ پیر نہایت متناسب تھے۔ نزاکت کے بجائے ان میں تمام زنانہ حسن کے ساتھ قوت اور طاقت تھی۔ کیونکہ اونچے قد کے ساتھ خدا نے جہاں ان کو حسن دیا تھا وہاں مضبوط اور متناسب اعضاء بھی دیے تھے۔ غرض راجپوتی حسن و تندرستی کا وہ بہترین نمونہ تھیں۔ ان کا صاف و شفاف اور حسین چہرہ چاند کی مانند ہمیشہ پرنور رہتا تھا۔ ان کا رنگ و روپ نہایت ہی گورا چٹا اور بے داغ تھا۔ ان کے بالوں پر ہمیشہ افشاں چھڑکی رہتی تھی۔ ۔۔۔۔۔ اکثر گر کر ان کے چہرے پر آ جاتی اور غازہ کے ساتھ مل کر دھوپ میں ان کے سرخ و سپید چہرے پر آگ سی لگا دیتی اور وہ شعلہ حسن معلوم دیتیں۔ جوں جوں میری عمر بڑھتی گئی میری اور ان کی دوستی اور محبت زیادہ دلچسپ اور زیادہ دل پذیر ہوتی گئی۔ ان کا حسن زیادہ دلکش ہو گیا۔ میرے لیے ان کی جوانی زیادہ پرکیف ہو گئی۔ ان کی مقناطیسی کشش مجھ کو اپنی طرف زیادہ قوت سے کھینچنے لگی۔ ان کی آنکھوں کی چمک جو میرے لیے پہلے معمولی بات تھی اب کچھ اور ہی چیز تھی۔ میں ان کو دیکھ کر مخمور سا ہو جاتا۔ وہ گویا مجھ میں سما جاتیں اور اس کیف و سرور کے عالم میں میں ایک طلسم ہوش ربا کے لاینحل مرحلوں میں الجھ کر رہ جاتا۔ جس کی لوح مجھ کو ڈھونڈے نہ ملتی!
میری عمر پندرہ سولہ برس اور مہارانی کی عمر تیس سال کے قریب تھی اور یہ وہ زمانہ تھا کہ میں مہارانی کے عشق اور محبت میں دیوانہ ہو رہا تھا۔ اگر کوئی میری تمام دولت و حشمت اور ریاست مانگتا تو میں دے دیتا اور فقیر ہونا پسند کرتا، مگر مہارانی کا دل دکھانا پسند نہ کرتا۔ میری زندگی کا واحد مقصد اور مقصود وہی تھیں۔ میں ان کے ساتھ جس عیش و عشرت سے زندگی گزار رہا تھا اس کا اندازہ لگانہ ناممکن ہے۔ دن رات عیش سے گزرتے تھے۔ مہارانی کا گانا خدا کی پناہ، میرا کیا حال ہو جاتا تھا۔ مہارانی گانے میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھیں۔ چاندنی رات جھیل کے کنارے سنگ مرمر کے عالی شان چبوترے پر گانے بجانے کی محفلیں ہوتیں۔ مہارانی خوب خوب گاتیں۔ وہ گاتے گاتے جھومنے لگتیں اور میں بے تاب ہو جاتا، تڑپنے لگتا اور خواصیں بھر بھر کر جام پیش کرتیں، اور مہارانی مجھے اپنے ہاتھ سے جام پہ جام پلاتیں۔ تازہ دم ہو کر وہ پھر نئے سرے سے کوئی نیا راگ گاتیں۔ ان کی پاٹ دار آواز جھیل کے آس پاس کی پہاڑیوں میں گنگناتی اور گونجتی چلی جاتی۔ رات کے بارہ بجے پھر سجی ہوئی کشتیوںمیں بیٹھتے۔ کشتیاں چاندنی رات میں

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 115
پانی کی سطح پر گانے اور ساز کے ساتھ ہلکوری لیتی ہوتیں اور مہارانی کی راگنی اور ان کی بلند اور سریلی آواز پانی کے ساتھ جھنجھناتی معلوم دیتی اور چشم زدن میں ساری جھیل کو نغموں سے معمور کر کے متلاطم کر دیتی۔ ایک تو نشہ جوانی اور پھر سر پر عشق اور پھر دو آتشہ۔ یہ راگ اور یہ سماں اور پھر دل لگا ہوا میرا مہارانی سے اور مہارانی کو مجھ سے۔ بار بار میں چونک پڑتا کہ میں کہاں ہوں، اور میرے گرد و پیش کیا ہو رہا ہے۔ کیا جنت اسی کو نہیں کہتے۔ خوشگوار زندگی ایک عالم خواب معلوم ہوتی تھی۔ میری اور مہارانی دونوں کی محبت اور عشق کا زمانہ شباب پر تھا۔ فکر و رنج تو بڑی چیزیں ہیں، ان کا خیال تک نہ تھا کہ مہارانی کی بھتیجی سے میری شادی کا زمانہ قریب آ گیا۔ اتنا قریب کہ ہم دونوں چونک پڑے۔ جیسے کوئی ایک دم خواب سے چونک پڑتا ہے۔ دنیا کو دیکھئے کہ سب کو یہی معلوم ہوتا تھا کہ اس شادی کا موقع اس سے بہتر کوئی نہیں۔ حالانکہ غور سے دیکھا جائے تو اس سے زیادہ بے موقع بات ہی ہونا ناممکن تھی اور پھر اگر سسرال والے یہ سوچتے اور کہتے تب بھی غنیمت تھا، مگر وہاں تو ریذیٹنٹ سے لے کر ریاست کے ادنیٰ خدمت گزار تک سبھی کی زبان پر تھا کہ ماشاء اللہ مہاراجہ صاحب بہادر جوان ہو گئے اور جونیئر مہارانی کو جلد بیاہ لانا چاہیے۔
جب شادی کا زمانہ قریب آیا تو اس کے ناگوار تذکرے سے بھی کان آشنا ہونے لگے۔ مہارانی سے میرے عشق کا یہ عالم تھا کہ بس یک جان دو قالب تھے۔ اس کا نام ہی دل میں خلش پیدا کرتا تھا۔ مہارانی کا ایک ہی بھائی تھا، ایک ہی اس کی یہ لڑکی تھی۔ کسی نے کہا ہے پھوپھی بھتیجی ایک ذات، چنانچہ مہارانی کو بھی اپنی بھتیجی سے بے حد محبت تھی۔ وہ خود اس ناگوار تذکرے کو چھیڑ کر میرے پہلو میں ایک خنجر سا بھونک دیتی تھیں۔
(3)
ایک روز کا ذکر ہے کہ جھیل کے کنارے گانے بجانے کا پرلطف جلسہ ہو رہا تھا، خواصین زریں ٹوپیاں پہنے گھومر کا ناچ ناچ رہی تھیں۔ مہارانی تال دیتی جاتی تھیں اور مسکرا مسکرا کر تالی کے ساتھ میرے طرف دیکھتی جاتی تھیں۔ کبھی کبھی ناچ کے جھماکے کے ساتھ میری نظر گھومر کے ناچ کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔ ورنہ میں تو کہیں اس سے بہتر ناچ دیکھنے میں مشغول تھا۔ میں مہارانی کی آنکھوں کا رقص دیکھ رہا تھا، پھر اس محبت کا جو ان کے چہرے پر رقص کر رہی تھی اس جس سے ان کے لبوں پر اس طرح لرزش پیدا ہوتی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا کہ مسکراہت ان کے سارے چہرے پر رقص کر رہی ہے۔ گانے میں ناچ کے جھماکے کے ساتھ میں خود بھی تال دینے لگتا تھا۔ غرض ایک عجیب ہی رنگین عالم تھا۔ طبیعت پر کیف و سرور تھی کہ اس وجد کے عالم میں میری شادی کا تذکرہ چھڑ گیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ محفل اس طرح درہم و برہم ہو

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 116
جائے گی۔ اس بے محل تذکرے کی شروعات ایک سہرے سے ہوئی جو گایا جا رہا تھا۔ فوراً ہی سہرے کا ایک مصرع مجھ پر چسپاں کیا جانے لگا۔ نوبت بات چیت تک پہنچی۔
"تم کیا چاہتی ہو؟" میں نے کہا۔
"میں کیا چاہتی ہوں! میں یہ چاہتی ہوں کہ میری بھتیجی کو تم جلد بیاہ لاؤ۔" مہارانی نے بڑی خوشی سے کہا۔
میں ان کے چہرے کی طرف دیکھ کر ان کے دل کو ٹٹولنے کی کوشش کرنے لگا۔ ناچ برابر ہو رہا تھا اور خواصیں تیتریوں کی طرح نشہ میں مست اسی طرح پھپھرا رہی تھیں اور ہم دونوں یہ باتیں کر رہے تھے۔ مجھ کو یہ شبہ ہوا کہ مہارانی کہیں میری محبت کا امتحان تو نہین لے رہی ہیں۔ میں نے ان کے چہرے اور بشرے سے ان کے دل کے حالات معلوم کرنے کی بیکار کوشش کرنے کے بعد کہا: "میں تو اب تمہارا ہو چکا اور تمہاری بھتیجی یہاں آ کر خوش نہیں رہے گی۔"
مہارانی نے کہا: "یہ تمہارا خیال ہے۔ وہ تمہاری ہم عمر ہے، مجھ سے یادہ، مجھ سے کہیں زیادہ حسین اور خوبصورت ہے۔ تمہارا اس کا جوڑ۔۔۔ بس یہی معلوم ہوتا ہے کہ تم دونوں کو خدا نے ایک دوسرے کےلیے پیدا کیا ہے۔دراصل میرا تمہارا جوڑ نہیں۔ دنیا یہی کہتی ہے اور ٹھیک بھی کہتی ہے کیوں کہ تم مجھ سے عمر میں بہت۔۔۔ بہت چھوٹے ہو۔" میں پھر مہارانی کو گھورنے لگا کہ کہیں اپنے ان قدرتی جذبات کو جو ان کی بھتیجی کے خلاف ان کے دل میں ہیں یا ہونا چاہییں ان الفاظ میں چھپانے کی کوشش تو نہیں کر رہی ہیں۔ مجھے کچھ شبہ سا ہوا کہ میں نے چور پکڑ لیا، کیونکہ ایک جھپکی کی طرح ان کے روشن اور منور چہرے پر چشم زدن کے لیے ایک سایہ سا آیا اور چلا گیا۔ جیسے کہ شاید غم کی بدلی کا سایہ تھا کہ ان کے دمکتے ہوئے چہرے پر جھپکی سی دے گیا۔ میں نے ایک لمبی سانس لے کر مہارانی سے کہا: "میرے دل میں کسی اور کے لیے قطعی جگہ نہیں، مجھ کو تم سے بے حد۔۔۔"
"میں جانتی ہوں۔" مہارانی نے بات کاٹ کر کہا: "میں جانتی ہوں کہ تمہیں مجھ سے بے حد محبت ہے اور مجھ کو تم سے بے حد محبت ہے۔ مگر مجھ میں اور تم میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ میرے دل میں بس ایک جگہ ہے۔ میں سینئر مہارانی ہوں اور تم مہاراجہ ہو اور تم کو دوسری شادی تو کرنا ہی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی جتنی چاہو کر سکتے ہو۔"
"میں نہیں کروں گا۔" میں نے تیز ہو کر کہا: "فرض کرو میں تمہاری بھتیجی سے شادی کرنے سے انکار کر دوں۔"
ناچتی کودتی خواصیں ناچتی ناچتی دوسری ناؤ پر پہنچی تھیں۔ انہوں نے شاید دیکھ لیا تھا کہ تخلئے کی ضرورت ہے، کیونکہ ساز والیاں پیشتر ہی سے اشارہ کر کے اٹھ چکی تھیں، ہم دونوں اب اکیلے
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 117
تھے۔
پوری راجپوتی آن بان سے مہارانی نے تن کر ذرا چیں بہ چیں ہو کر کہا: "تم راجپوت ہو، تم خود مختار والی ریاست ہو، تم راجپوت ہو۔ تم۔۔۔ تم ایسا نہیں کر سکتے اور پھر۔۔۔ اور پھر وہ بھی ایسی صورت میں کہ میں تمہارے گھر میں ہوں مین، تمہاری چہیتی مہارانی ہوں، تم ایسا نہیں کر سکتے۔"
"مجھ کو سوائے تمہارے کسی سے محبت نہیں ہو سکتی۔" میں نے کہا۔
مہارانی نے میرے پیر چھو کر پیشانی میں لگاتے ہوئے گویا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: "تو کیا مضائقہ ہے۔ راجپوت مہاراجوں کو راجکماریاں ریاست کے تخت و تاج کا زیور ہوتی ہیں۔ ایک والی ریاست کی بیٹی یا ایک مہاراجہ کی بیٹی کو مہاراجہ ہی کے گھر جانا چاہیے۔ مہاراجہ گنے چنے ہیں اور راجکماریاں بہت زیادہ ہیں۔ میرے بھائی کی بیٹی کسی ایسے ویسے کو نہیں جا سکتی۔ محبت اور چیز ہے اور شادی اور چیز۔ تم کو اگر میری بھتیجی سے محبت نہیں تو نہ ہو، مجھ سے تو ہے۔ بس یہی محبت اس کی ضامن ہے کہ تم شادی ضرور کرو گے۔ تم کو کرنا پڑے گی تم قول ہارے ہو، تم غضب کرتے ہو! بھلا غور تو کرو کہ میری بھتیجی، ایک والی ریاست کی پوتی اور ایک والی ریاست کی لڑکی ایک والی ریاست کو نہ بیاہی جائے، اور وہ بھی میری وجہ سے! ناممکن۔"
میں نے اس لیکچر کو سنا اور سن کر مہارانی کو سر سے پیر تک دیکھ کر کہا:
"تو کیا واقعی تم دل سے چاہتی ہو کہ میں تمہارے اوپر تمہاری بھتیجی کو سوت بنا کر لے آؤں؟ کیا واقعی تم یہ دل سے چاہتی ہو؟"
مہارانی نے کچھ عجیب ہی پیرائے میں کہا: "بیشک میں دل سے چاہتی ہوں اور کیوں نہ چاہوں، میرا ایک ہی بھائی ہے اور ایک ہی بھتیجی ہے۔"
"مگر مجھ کو ذرا بھر اس سے محبت نہ ہو گی۔"
مسکرا کر مہارانی بولیں: "تم ابھی بچہ ہو۔ بچوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ جب دو دل ملیں گےتو آخر کیوں نہ محبت ہو گی۔ خدا نخواستہ تم عورت تھوڑی ہو۔"
میں نے برا مان کر جھنجھلا کر کہا: "تم میری محبت کو ٹھکراتی ہو، کیا میں جھوٹا ہوں؟ کیا میں تم سے نقلی محبت کرتا ہوں؟"
مہارانی نے دو مرتبہ میرے پیر چھو کر ہاتھ اپنی آنکھوں اور ماتھے پر لگایا، اور دانتوں تلے زبان داب کر کہا: "ہرگز نہیں ہرگز نہیں، تم دراصل سمجھتے نہیں۔ تمہاری محبت مجھ سے لڑکپن کی محبت ہے، تم نے تو مجھ سے محبت کا سبق سیکھا ہے۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ ایک عورت کو ایک نو عمر لڑکے ساتھ تو اول و آخر محبت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک لڑکے کا

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 118
بھی یہی حال ہو اور پھر وہ والی ریاست مہاراجہ جو ویسے بھی ایک دل نہیں رکھتے، ان کے دلوں میں؟"
مہارانی نے عجیب انداز سے مسکراتے ہوئے کہا: "ان کے دلوں میں تو کبوتر کی کابک کے سے خانے ہوتے ہیں۔"
مہارانی نے تو یہ مسکرا کر کہا اور ادھر میں تمام قصے چھوڑ کر ان کے حسین چہرے پر غازہ اور افشاں کی بھڑک کو دیکھ رہا تھا۔ ان کی مسکراہٹ نہ معلوم میرے لیے کیا تھی! ان کے چہرے کی دمک اور پھر ان کی غیر معمولی چمک ان کی بری بڑی پلکوں سے گویا چمک کے شرارے نکل رہے تھے۔ یہ سب سحر آفرینی! اور پھر یہ باتیں! میں بے تاب سا ہو گیا اور میں نے ان کا خوبصورت ہاتھ اٹھا کر بے ساختہ چوم لیا اور اس کو اپنے دل پر رکھ کر شکایت کے لہجے میں کہا: "اس دل میں تو بس ایک خانہ ہے اور اس میں صرف تم ہو۔"
"صرف میں؟" دبی ہوئی آواز سے مہارانی پلکیں جھپکا کر کہا:
"تم۔۔۔ تم۔۔۔" آہستہ سے میں نے لمبی لمبی سانسیں لیتے ہوئے کہا: "۔۔۔ میری مہارانی۔۔۔ میرے دل۔۔۔ دل کی ملکہ۔۔۔ دل کی مہارانی۔"
وہ آہستہ آہستہ میری طرف بے بس ہو کر جھکی چلی آئیں۔۔۔ نشہء محبت میں ہم دونوں چور تھے۔ ان کو مجھ سے اور مجھ کو ان سے عشق تھا۔ میں نے ان کے خوبصورت بالوں کو انگلی سے چھیڑا کہ سنہری افشاں کی ان کے چہرے پر بارش سی ہو گئی، وہ مسکرا رہی تھیں۔ میں نے کہا کہ ایک جلسہ اور ہو پھر سوئیں۔ مہارانی کی ایک ہنسی کی آواز سے ایک زندگی سی پیدا ہو گئی۔ چھما چھم اور جھنا جھن کی آواز ان کی تالی بجتے ہی ہونے لگی اور خواصوں کا گھومر ناچ پھر شروع ہو گیا۔
بہت جلد ناچ ختم کر کے مہارانی نے تنہا گانا شروع کیا۔ پہلی ہی لے پر مجھے ایک پھریری سی آئی، پھر جو انہوں نے تان کھینچی اور جو عشقیہ گیت گائے تو مجھے ایسا معلوم ہونے لگا کہ جیسے ان کی پاٹ دار آواز ایک بڑا لکٹری چیرنے کا آرا ہے جو میرے دل کو چیرے ڈال رہا ہے۔ ان کی آواز میں ایک عجیب سوز اور ایک عجیب درد تھا۔ میں پھریری پر پھریری لے رہا تھا اور میری اس کیفیت کو دیکھ کر ان کی آواز کا جھنانا اور بھی زیادہ رقت آمیز ہوتا جا رہا تھا۔ وہ ایسا گیت گا رہی تھیں جو دل پگھلائے دیتا تھا۔ ایک عورت اپنے شوہر کے ہجر میں بے کل تھی۔ میں خاموش ہو گیا اور سر پکڑ کر آنکھیں بند کر کے سننے لگا، ان کی آواز اور بھی رقت آمیز ہو گئی اور میرا دل نہ معلوم کیوں ایسا گھبرایا اور ایسی وحشت طاری ہوئی کہ ایک دم سے گھبرا کر میں نے ہاتھ سے ساز کو روک دیا۔ مہارانی بھی رک گئیں۔ میں نے اشارہ کیا اور تمام خواصیں سایہ کی طرح غائب

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ 119
ہو گئیں۔ میں نے مہارانی کی طرف دیکھا ان کی پلکوں میں دو آنسو تھے۔ میرا دل مسل گیا اور میں نے کہا: "یہ کیا؟" "کچھ نہیں۔" مہارانی نے کہا۔ "کچھ گیت ہی ایسا تھا۔"
"ہاں" میں نے کہا۔ "میں بھی پریشان ہو گیا، اور میرا دل گھبرا گیا۔ اب آرام کرو۔" میں نے انگڑائی لے کر جھیل کے چاروں طرف نظر ڈالی۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ دور تک ہیبت ناک پہاڑیوں کا سلسلہ چلا گیا تھا۔ ایک عجیب سناٹے کا عالم تھا۔ مجھ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ساری جھیل اور پہاڑ گویا سارا سماں رونے کی آوازوں سے معمور تھا جو ابھی ابھی خاموش ہوئی تھیں۔ میں نے دل میں تعجب کیا کہ گانا بھی عجیب جادو ہے۔ درد انگیز اور رقت آمیز گیت نے سارے سماں کو متاثر کر دیا۔
(4)
مہارانی بڑی گرما گرمی سے اپنی بھتیجی کی شادی کی تیاریاں کر رہی تھیں۔ تمام انتظام اور تمام احکام ان ہی کی مرضی کے مطابق جاری ہو رہے تھے۔ لاکھوں روپے کے زیورات اور کپڑے خریدے گئے، اور لاکھوں روپے کا دوسرا سامان خریدا گیا، اور محل کا ایک خاص حصہ سجایا گیا۔ غرض وہ اپنی بھتیجی کی شادی میں اس طرح منہمک تھیں کہ جیسے ایک پھوپھی کو ہونا چاہیے تھا۔ میں ان انتظامات کو دیکھ کر رنجیدہ سا ہو جاتا۔ ان کے اس انہماک سے میرے دل میں چھوٹ سی لگتی تھی۔ میں دراصل ان کی بھتیجی کی طرف سے اپنے دل میں مخالفت پاتا تھا، کیونکہ یہ مجھے گوارا نہ تھا کہ مہارانی کی محبت کا حصہ کسی دوسرے کوبھی ملے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ وہ میرے محبت کی وجہ سے اپنی بھتیجی سے جلنے لگیں۔ کس قدر یہ احمقانہ خیال تھا، مگر اپنے دل کو کیا کروں۔ ان کا اس درجہ شادی میں حصہ لینا میرے لیے مصیبت تھا۔ میں ان سے کہتا تھا کہ "اگر تم بھی مجھ سے میری ہی سی محبت ہے تو تم کو اپنی بھتیجی سے جلنا چاہیے۔"
وہ اس پر مسکراتیں اور کہتیں۔ "سچ کہتے ہو، تمہاری سی محبت مجھے نہیں، کیونکہ جتنا تم مجھ سے محبت کرتے ہو اس سے میں زیادہ کرتی ہوں۔" اور پھر وہ عجیب انداز سے مجھ کو دیکھتیں کہ جیسے ان کو میرے حال پر رحم آ رہا ہے اور وہ میرے ساتھ ہمدردی رکھتی ہیں۔ وہ ہنس کر کہہ دیتیں کہ "ابھی تم ناسمجھ ہو، تم کو اگر مجھ سے محبت ہے، تو میری بھتیجی سے کیوں ڈرتے ہو؟"
ایک روز کا ذکر ہے کہ رات کو کسی غیر معمولی سرسراہٹ سے میری آنکھ کھل گئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے ایک سایہ تھا جو جاگنے کے بعد مگر آنکھ کھلنے سے پیشتر آنکھوں کے سامنے آیا اور چلا گیا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو کچھ نہ تھا۔ مہارانی غافل سو رہی تھیں۔ دوسرے روز بھی ایسا ہی ہوتا اور تیسرے روز بھی ایسا ہی ہوا۔ غرض اکثر ایسا ہوتا اور پھر گھڑی پر نظر پڑتی تو وقت
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے صفحہ 112 تا 119 کی ورڈ فائل منسلک ہے۔
 

Attachments

  • Azeem Baig P112 to 119.ZIP
    18.6 KB · مناظر: 2

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۱۲
دونوں ضدی بھی تھے۔ لڑبھڑ کر خود ہی پھر مل جاتے تھے اور
بڑا مزا اس ملاپ میں ہے جو صلح ہو جائے جنگ ہو کر
اس قسم کی لڑائیاں آپس کی الفت اور محبت کو اور زیادہ دلچسپ بنا دیتی ہیں۔
جنگ سے پہلے میاں بیوی دونوں اور مس ینگ سب مل کر ایک جگہ ناشتہ کرتے تھے اور اب حامد اور مس ینگ ایک ساتھ باہر ناشتہ کرتے تھے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ رات حامد کی ایک جلسے میں کٹی۔ وہ ہمیشہ ایسے جلسوں سے بھاگتا تھا۔ مگر صبح چار بجے آیا تو ایسا پڑ کر سویا کہ نو بجے آنکھ کھلی۔ نہا دھو کر آیا اور ناشتہ کیا تو معلوم ہوا کہ نیند پوری نہیں ہوئی۔ آنکھوں میں کچھ خمار سا تھا۔ مس ینگ جب ناشتہ کرنے آئی تو اخبار لے گئی تھی۔ ملازم کو آواز دے کر حامد نے کہا جاؤ مس صاحب سے ہمارا سلام بولو (یعنی کہو کہ بلاتے ہیں)۔
ملازم نے واپس آ کر کہا کہ آتی ہیں۔ دیر تک وہ انتظار کرتا رہا۔ نوکر سے پھر پوچھا تو اس نے کہا غسل خانے میں تھیں آتی ہوں گی، وہ آرام کرسی پر بیٹھا ہوا سگرٹ پی رہا تھا۔ نہ معلوم کیا کیا خیالات دماغ میں آ رہے تھے کہ اسی سوچ میں اخبار اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔ وہ چونک سے پڑا۔ اونگھ گیا تھا۔ مس ینگ اب بھی نہ آئی تھی۔ اس کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی اور اس عارضی جھپک سے آنکھوں میں اور بھی خماری کیفیت پیدا ہو گئی۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ پھر اسی طرح اخبار پڑھنے لگا۔ یو یوں کہئے کہ اخبار پڑھنے کی کوشش کرنے لگا کہ پھر آنکھوں کے آگے نیند کے تارے نظر آنے لگے کہ۔۔۔ وہ مس ینگ آ گئی۔ وہ مسکراتی ہوئی برآمدہ میں داخل ہوئی۔ حامد نے خندہ پیشانی سے اٹھ کر مصافحہ کیا اور کرسی پر بٹھایا۔ وہ اس کے سرخی مائل سنہری بالوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے بال بھی کس قدر حسین تھے۔ کس قدر باریک تھے!اور دیکھنے سے کس قدر ملائم معلوم ہوتے تھے! گویا ریشم کے سے لچھے تھے،مگر ان میں ایک دلکش۔۔۔ عجیب ہی دلکش خم تھا۔ اس کے سر کی جنبش کے ساتھ ہوا کی معمولی رمق سے اس کے سنہری بالوں کے چھلے کھل کھل کر پھر الجھ جاتے تھے۔ وہ آ کر بیٹھ گئی، اس کے لبوں پر ایک سحر آفریں مسکراہٹ تھی۔ اس کی چمکیلی نیلگوں آنکھوں میں ایک عجیب تڑپ تھی۔ اس نے ذرا بے حجابانہ بے تکلفی سے کہا "مسٹر حامد میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں۔"
"شوق سے کہئے۔ فرمائیے۔"
مس ینگ نے عجیب معشوقانہ ستم گری سے کہا "میں آپ سے اس بارے میں معافی کی خوستگار ہوں۔"
"کس بارے میں؟"


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۱۳
"آپ مردانہ حسن کا جہاں بہترین نمونہ ہیں وہاں آپ اس خوبی سے بھی متصف ہیں کہ نوجوان لڑکیوں کے دل لوٹ لیں۔" مس ینگ نے بے ساختگی سے کہا۔
"میں آپ کا مطلب سمجھے سے قاصر ہوں۔" حامد نے دل میں قدرتاً محظوظ ہو کر کہا "مگر آپ۔۔۔ وہ کس بارے میں ابھی آپ معافی۔۔۔ کے بارے میں۔۔۔"
"جی ہاں۔ یہ اسی کی تمہید تھی جس کے سمجھنے سے آپ قاصر ہیں، مجھ کو افسوس ہے کہ میں نے آپ کی بغیر اجازت کے وہ آپ کا نجومی والا خط پڑھ لیا۔ مگر ایک بات ہے اور وہ یہ کہ اس خط سے چونکہ میرا بھی براہ راست نہ سہی بالواسطہ تعلق ہے لہذا اگر میں نے چوری سے اس کو دیکھ بھی لیا تو کیا مضائقہ ہے۔ مجھے تو اس کے دیکھنے کا حق حاصل تھا۔"
مس ینگ مسکرا رہی تھی اور حامد کچھ مجبوب سا ہو کر اس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ نہ بولا۔
ہنس کر مس ینگ نے پھر کہا "آپ کو تسلیم ہے، خیر شکر ہے کہ آپ کو تسلیم ہے۔ کیا میں مغرب کی رہنے والی گوری چٹی لڑکی نہیں ہوں؟ کیا میری آنکھیں۔۔۔" سحر آفرینی سے مس ینگ نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا "کیا میری آنکھیں نیلگوں نہیں اور پھر میرے بال۔۔۔" کنپٹی پر سے اس نے گھونگرو والے ریشمی بالوں کو انگلی سے کھینچتے ہوئے کہا "۔۔۔ کیا یہ سنہری بال نہیں ہیں۔ کیا ان سنہری بالوں میں سرخی نہیں ہے؟ بلکہ سرخ نہیں ہیں؟"
"بیشک یہ سب باتیں ہیں۔" حامد نے کہا۔
"پھر آخر وہ لڑکی سوا میرے اور کون ہے جس کے ساتھ تمہاری زندگی عیش و آرام سے گزرے گی۔ منجم کی پیشین گوئی کی میں مجسم تکمیل تمہارے سامنے ہوں۔ تمہاری بیوی جاہل ناگن۔۔۔ ناگن۔۔۔ وہ ایک روز تم کو ضرور ڈس لے گی۔ دیکھو تم کیسے مضمحل اور لاغر ہو رہے ہو۔ سانپ کی گرمی! خدا کی پناہ! تمہار بد پیلا ہے۔۔۔ تمہارا چہرہ زرد ہے! مردنی چھائی ہوئی ہے، انسان انسان سے محبت کرتا ہے نہ کہ حشرات الارض سے!"
"مگر میں تم سے شادی نہیں کر سکتا۔" حامد نے سنجیدگی سے کہا۔
"تمہیں کرنی پڑے گی۔" مس ینگ نے دبنگ آواز سےکہا "نوشتہ تقدیر مٹ نہیں سکتا۔ پہچانو یا نہ پہچانو۔ میں وہی لڑکی ہوں جس کا نجومی نے ذکر کیا ہے۔ میرا دل بول رہا ہے میں وہی ہوں۔ میں خود ان گھکوسلوں کی قطعی قائل نہ تھی مگر یہاں تو واقعات قائل کر رہے ہیں۔ دلیل اور حجت کی گنجائس نہیں۔"
"مجھ کو میری بیوی۔۔۔ میری عارفہ بہت محبوب۔۔۔"
"مگر یہ محبت عارضی ہے۔ کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔ تمہارا اس کا جوڑ نہیں وہ جاہل ہے، وہ ضدی ہے۔ وہ زہریلی ناگن ہے۔۔۔"

 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۱۴
"بس خاموش رہو۔۔۔"
"مجھ سے تم نہیں لڑ سکتے۔" اکڑ کر مس ینگ نے کہا "تم میرے غلام ہو۔۔۔ نوشتہ تقدیر۔۔۔ کسی کے مٹائے نہیں مٹتا۔"
"میں اس قسم کی باتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔"
"تم کو ہونا پڑے گا ورنہ یہ رول"۔۔۔ اس نے رول اٹھا کر کہا" ۔۔۔ تمہاری ناک پچکا دے گا۔"
"ہرگز نہیں۔ کم بخت ۔۔۔ بد زبان۔"
"قطعی!" مس ینگ نے ترش رو ہو کر کہا "قطعی!" ۔۔۔ "تم کو میرے ساتھ شادی کرنی پڑے گی اور میں تم کو بندر کی طرح نچاؤں گی۔ تم بندر بن جاؤ گے۔۔۔ تم بندر ہو۔" مس ینگ کے چہرہ پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی اور وہ رول گھما رہی تھی۔
"بندریا دور ہو۔۔۔" یہ کہہ کر حامد نے غصہ میں چاہا کہ ہاتھ پکڑ کر مس ینگ کو کرسی سے اٹھا دے کہ اتنے میں اس کے سگرٹ کا، جو سُلگتے سُلگتے مشکل سے آدھ انچ لمبا رہ گیا تھا، اس کی انگلیوں میں چرکا لگا اور وہ ایک دم سے ہاتھ پٹخ کر کرسی ہی پر گویا اچھل پڑا۔۔۔ ایک دم سے ہڑبڑا کر چونکا۔۔۔ وہ سو گیا تھا اور یہ خواب تھا۔ آنکھیں پھاڑ کر گویا ہوش میں آیا۔ سامنے کیا دیکھتا ہے کہ بڑے ناز و انداز سے خراماں خراماں مس ینگ چلی آ رہی ہے۔ اس نے دل میں اس معمولی مگر مختصر خواب پر لاحول بھیجی اور بڑھ کر مش ینگ سے ہاتھ ملایا اور کرسی پر لا بٹھایا۔ قبل اس کے کہ کچھ بات چیت ہو وہ مس ینگ کو اوپر سے نیچے تک دیکھنے لگا۔
ادھر ادھر کی دلچسپت باتیں ہونے لگیں۔ حامد بار بار مس ینگ کے سرخی مائل بال غور سے دیکھ رہا تھا۔ مس ینگ کے منہ سے پھول جھڑ رہے تھے۔ ہر پھر کر حامد کی بیوی کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ بہت گفت و شنید کے بعد جب حامد نے اچھی طرح اپنی بیوی کی جہالت کا رونا رو لیا تو مس ینگ نے آخر کو کہلوا ہی لیا۔ مس ینگ نے بہت رکتے رکتے لڑکھڑاتی زبان سے کہا کیونکہ وہ نجومی کا خط پورا پورا پڑھ چکی تھی۔ اس نے کہا "جی ہاں۔۔۔ آپ کا خیال صحیح۔۔۔ واقعی بات تہ یہ ہے کہ آپ بیوی کے معاملہ میں بدقسمت ہیں۔"
"کیا آپ کو مجھ سے واقعی ہمدردی ہے؟" حامد نے پوچھا۔
مس ینگ نے اپنی پلکیں اوپر کو کر کے کہا "مجھ کو آپ سے ہمدردی ہے۔"
"پھر اس کا کیا علاج۔ کوئی علاج بتائیے۔" حامد نے کہا۔
"میں اس کا بھلا کیا علاج بتاؤں۔ یہی کہ ان کی تربیت کی فکر کیجئے تعلیم دلوائیے۔"
"آپ علاج بتا سکتی ہیں۔" حامد نے دبی اور کپکپاتی آواز میں کہا "کیونکہ آپ کے بال
 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۱۵
سرخ ہیں۔"
مس ینگ کٹ کر رہ گئی اور اس نے اوپر کو دیکھا اور بڑی مشکل سے کہا۔ "میں نے غلطی کی میں آپ سے معافی چاہتی ہوں کہ میں بغیر آپ کی اجازت کے۔۔۔"
"تم نے اچھا کیا کہ خط پڑھ لیا۔" حامد نے کہا "تم وہی ہو۔ وہی سرخ بالوں والی نیلی آنکھوں والی ہو۔" مس ینگ کا ہاتھ پکڑ کر حامد نے کہا "میں تمہارا ہوں۔ تم وہی سرخ بالوں والی لڑکی ہو۔ تم مجبور ہو۔ تم کو میری زندگی شیریں اور پرکیف بنانا پڑے گی۔"
مس ینگ کی خاموشی سو جواب تھی!!
اس واقعہ کے چوتھے روز حامد کی بیوی اپنے گھر چلی گئی۔ یا یوں کہئے کہ حامد نے اس کو نکال دیا۔ عارفہ نے پہلے تو تیزی دکھائی لیکن پھر شکست کھا گئی اور چاہا کہ شوہر کو راضی کر لے۔ وہ ایسا بگڑا تھا کہ کبھی یہ حال عارفہ نے نہ دیکھا تھا۔ لیکن جوں جوں وہ خوشامد کرتی حامد کا جن اور چڑھتا جاتا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ پرھ عارفہ کو بھی غصہ آ گیا اور وہ بھی کوسنے پیٹنے لگی لیکن پھر ہاری اور پھر خوشامد کی۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ وہ اب سکت و سُست الفاظ کی تاب نہیں رکھتی تو اس کو بھی جنون چڑھ آیا اور جو کچھ اس کے منہ میں آیا اس نے کہہ ڈالا۔ ادھر حامد نے کم بخت۔ بدبخت۔ جاہل۔ ناگن۔ ڈائن کہہ کر اس سے کہا نکل جا گھر سے ابھی نکل جا اور ادھر اس نے قسمیں کھائیں کہ بھول کر تیرے گھر کا رخ نہ کروں گی۔ اگر بھاری مہر میں حامد نہ بندھا ہوتا تو شاید بیوی کو طلاق ہی دے کر نکالتا۔
اس جنگ کے بعدہی دونوں طرف کے عزیز و اقارب دوڑ پڑے۔ حامد کے بزرگوں میں سے اول تو کوئی قریبی عزیز تھا نہیں اور جو تھے ان کو حامد شمار میں نہ لاتا تھا۔ پھر بھی دونوں نے خوب کوشش کی مگر بے سود۔ کیونکہ ادھر تو حامد اکڑا ہوا تھا اور ادھر عارفہ۔ وہ کہتی تھی کہ اس موڈی کا منہ دیکھنا بھی مجھ کو گوارا نہیں۔ ایک ایک لفظ حامد کا اس کو یاد آتا تھا اور اس کے دل میں حامد کی طرف سے اب نفرت اور انتقام کے جذبات مشتعل تھے۔ محبت کا تو پتہ تک نہ تھا۔ وہ حامد کے سنگ دلانہ بلکہ وحشیانہ برتاؤ کو کبھی بھول نہیں سکتی تھی۔ نفرت بڑھتی گئی او روہ بھی اس قدر کہ مس ینگ کی موجودگی اس کے سینہ میں بجائے رقابت کی آگ بھڑکانے کے منافرت کی آنچ مشتعل کرتی تھی اور یہی دراصل میاں اور بیوی کی لڑائی کی انتہا ہے۔
عارفہ کے چلے آنے کے بعد مس ینگ حامد کی توجہات کا مرکز بن گئی۔ تاجر قوم کی تاجر خیالات کی لڑکی نے ہندوستانی سے اگر محبت بھی کی تو تاجرانہ اصول پر۔نکاح کرنے سے اس نے قطعی انکار کر دیا کیونکہ حامد نے عارفہ کو بوجہ ادائے مہر طلاق دینے سے انکار کر دیا تھا۔
مس ینگ بھی حامد کو خوب ملی۔ دن رات حامد اسی فکر میں رہتا تھا کہ کس طرح مس ینگ


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۱۶
کو جائز بیوی بنا لے۔ درپرہ وہ عارفہ کو طلاق دینے کا بھی انتظام کر رہا تھا۔ ادھر عارفہ اس بات کی منتظر تھی کہ حامد مس ینگ سے شادی کرے تو میں مہر کا دعویٰ کر دوں۔
مس ینگ حامد کو قبضے میں کر کے سچ مچ بندر کی طرح نچا رہی تھی۔ حامد کی کوشش تھی کہ عارفہ کے مہر کا روپیہ جمع کروں اور عارفہ سے پیچھا چھڑا کر مس ینگ کو زوجیت میں لے لوں اور ادھر مس ینگ کا یہ ارادہ کہ جب تک بھی دھوپ ہے تاپوں اور پھر کوئی اور میدان دیکھوں۔ وہ بھلا کاہے کو روپیہ جمع ہونے دیتی۔ آج کلکتہ، کل بمبئی، پرسوں نینی تال۔ آج پونا کی دوڑ دیکھی جا رہی ہے تو کل کلکتے کی دوڑ۔ ہزاروں روپے کے جواہرات خرید ڈالے۔ غرض مس ینگ کی حامد ہر جا و بجا خواہش منطور کرتا اور اس کے ساتھ مزے سے زندگی گزار رہا تھا۔ عارفہ کا کبھی اس کو بھول کر بھی خیال نہ آتا۔ دن عید رات شب برات غرض دونوں کی مزے سے کٹ رہی تھی۔
عارفہ کی طبیعت میں اگر کہیں غصہ نہ ہوتا تو شاید وہ یہ صدمہ برداشت ہی نہ کر سکتی۔ بیشک غصہ کا نشہ آدمی کو طاقت بھی دیتا ہے اور گھلا کر مار بھی ڈالتا ہے۔ مگر غصہ اصلی محبت اور صدمے کے جذبے کو ضرور مارتا ہے اور یہ دونوں اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہ نسبت غصے کے کہیں زیادہ مہلک ہیں۔ پھر ایک بات اور بھی تھی وہ یہ کہ عارفہ جاہل تھی اور مس ینگ کو بدچلن اور آوارہ سمجھتی تھی اور حامد کے منہ پر کہہ کر آئی تھی یہ یہ فرنگن کسی کے ساتھ بھاج جائے گی تب خود جھک مار کر میری خوشامد کرو گے۔ یہ خام خیال اس کے لئے باعث تقویت تھا۔ مگر حامد سے تو اس کو ایسی نفرت سی ہو گئی تھی کہ مس ینگ کے بھاگ جانے کے بعد بھی وہ اس وحشی مزاج حامد کی صورت تک دیکھنا گوارا نہ کر سکتی تھی۔ اس کو حامد سے نفرت تھی جو کسی طرح کم ہونے میں نہ آتی تھی۔
گھر پر عارفہ کی دلچسپی کے لئے بن ماں کے بچے موجود تھے جن سے وہ دل بہلایا کرتی تھی۔ بھائی کی اکیلی بہن تھی۔ لہذا بھائی بھی بہن کو بے حد چاہتا تھا۔
دن ایسے گزر جاتے ہیں کہ معلوم ہی نہیں ہوتا۔ عارفہ کو پورے تین سال ہو گئے کہ وہ میاں سے الگ ہوئی تھی۔ اس دوران میں جب کبھی بھی مصالھت کی کوشش کی گئی ناکام رہی بلکہ نتیجہ یہ کہ حامد کی طرف سے وہ وہ باتیں پیش آئیں کہ عارفہ جو دل سے شاید مصالحت بھی چاہتی ہوتی تو اور بگڑ جاتی۔ کوئی بھی عورت میاں کی وہ باتیں نہیں سن سکتی جو وہ اس نیت سے کرتا ہے کہ میں اس عورت سے رہا سہا بھی تعلق چھڑا لوں۔ قصہ مختصر صورت حال بد سے بدتر ہو گئی اور اگر عارفہ کے نام سے حامد کو چڑ تھی تو عارفہ بھی حامد کے نام سے متنفر۔
عارفہ سے علیحدہ ہوئے حامد کو ساڑھے تین سال کے قریب گزر گئے تھے۔


 

شمشاد

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۱۷
تین مہینے سے حامد دہلی کے بڑے ہسپتال کے یورپین وارڈ میں پڑا ہوا تھا۔ اس کو مسلسل بخار کی شکایت رہی۔ پھر زکام اور کھانسی کی عرصے تک شکایت رہی۔ مس ینگ نے کچھ دنوں تک تو بیمار کی طرف توجہ کی پھر اس نے معمول باندھ لیا کہ سینما دیکھنے جو جاتی تو رات کے بارہ ایک بجے تک آتی۔ مس ینگ کو حامد بے حد چاہتا تھا، اور بے دریغ اس کو خرچ کرنے کو روپیہ دیتا تھا۔ وہ دہلی کی اعلٰی ترین یورپین سوسائٹی میں شامل تھی اور ایک دو نہیں بلکہ دس پانچ نوجوانوں سے اس کی گہری دوستی تھی۔
ڈاکٹروں نے تجویز کی کہ حامد کے بلغم کا معائنہ کیا جائے کیونکہ کھانسی عرصے سے تھی۔ معائنہ کے وقت مس ینگ بھی موجود تھی۔ ڈاکٹر نے خوردبین سے دیکھ کر ایک کاغذ پر گویا فتویٰ موت صادر کیا "ٹی۔ بی پریزنٹ ان لارج نمبر" یعنی "دق کے جراثیم (بلغم میں) کثیر تعداد میں موجود ہیں۔"
مس ینگ نے کاغذ کو دیکھا پھر ڈاکٹر کو اور پھر حامد کی طرف۔ مس ینگ سے اجازت لے کر ڈاکٹر نے حامد کو بھی کاغذ دکھا دیا۔ حامد نے مسکرانے کی کوشش کی جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں مگر اس کا چہرہ بھیانک تھا۔
فوراً حامد کو ٹی۔ بی وارڈ (دق وارڈ) میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں حامد نے دیکھا کہ نرسیں اور ڈاکٹر سب منہ اور ناک پر خاص قسم کا خول لگائے گھوم رہے ہیں جس میں آگے باریک کپڑا لگا ہوا ہے۔ یہ کپڑا جراثیم مار ڈالنے والی دوائی سے تر رہتا تھا۔ مس ینگ ڈاکٹر کے خوفناک باتیں سن رہی تھی۔ ڈاکٹر نے اس کو بتایا کہ دق کے مریض کے ساتھ رہنا زیادہ خطرناک ہے بہ نسبت اس کے کہ آدمی گولہ اور گولیوں کی بوچھاڑ میں کھڑا رہے۔ دق کے کیڑے نہ دھوپ میں مرتے ہیں اور نہ پانی میں جوش دینے سے مرتے ہیں۔ گرد و غبار میں آویزاں رہتے ہیں اور سانس کے ساتھ پھیپھڑوں میں داخل ہو کر مریض کو مار ڈالتے ہیں۔ دق کا مرض سخت موذی مرض ہے۔ اس کا کائی علاج نہیں اس سے دور بھاگو۔ مس ینگ یہ لیکچر سن کر اور منہ پر خول چڑھا کر حامد کے پاس آئی۔ حامد نے اس کو مھبت سے ہاتھ بڑھا کر پاس بٹھانا چاہا۔ مگر مس ینگ پر تو خوف غالب تھا۔ وہ سکڑ کر الگ ہو گئی۔ پورا کا پورا لیکچر ڈاکٹر کا مس ینگ نے حامد کے سامنے دہرایا اور اس بات پر زور دیا کہ اب اس کو علیحدہ رہنا چاہیے۔ دور سے بات کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ حامد کی جو حالت ہو گی اس کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ وہ موت کے چنگل میں گرفتار تھا۔ وہ خود جانتا تھا کہ مس ینگ کا علیحدہ ہی رہنا مناسب ہے۔ طے ہو گیا کہ مس ینگ ایک ہوٹل میں مستقل کمرہ لے لے۔
دق کا مریض۔ خدا کی پناہ۔ دن بھر تنہا پڑے رہنا گویا موت کی گھڑیاں گننا ہیں۔ مس ینگ


 
Top