عظیم بیگ چغتائی کے افسانے اسکین 131 تا 140

محمد امین

لائبریرین
270​
کہاں دیکھا تھا۔ وہ خود رک گیا۔ سیاہ خضاب کی ہوئی داڑھی۔ ستواں ناک۔ گورا رنگ۔ آنکھوں میں حیرانی اور پریشانی۔ مجھے دیکھ کر رک گیا۔ میں خود رک گیا اور حواس بجا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا۔ "السلام علیکم۔" میں نے جواب دیا۔​
"آپ کون ہیں؟"​
وہ بولے۔ "میں۔۔۔۔ میں۔ وہ آپ۔۔۔۔۔ اسٹیشن پر۔۔۔۔۔"​
"اوہو۔" میں نے پہچانتے ہوئے کہا۔ "معاف کیجیے گا۔ یہ کہہ کر میں چلا یہ وہ حضرت تھے جو میری بیوی کو گھور رہے تھے۔​
ایک دم سے وہ بولے۔ "سنیے تو۔۔۔۔۔ آپ کا نام کیا ہے؟"​
میں نے بتایا۔ جس کے سنتے ہی وہ دیوانہ وار چمٹ ہڑے۔ "عائشہ کہاں ہے؟"​
میں نے کہا "کون عائشہ؟" اس لیے کہ میری بیوی کا نام عائشہ نہیں تھا۔​
"میری بیٹی۔" انہوں نے کہا۔ "میرا نام محمد خان ہے۔۔۔۔"​
"ارے!" میرے منہ سے نکلا۔ یہ واقعہ تھا کہ یہ میری خسر تھے۔ میں نے سب حال کہا۔ معلوم ہوا کہ بد قسمت باپ نے بیٹی کو دیکھ لیا تھا اور چونکہ بیٹی اپنی ماں کی سچ مچ کی تصویر تھی لہٰذا غیر معمولی شباہت کے سبب بیچارے اپنی بیٹی کو گھور گھور کر دیکھ رہے تھے اور چاہتے تھے کہ اچھی طرح دیکھ لیں اور اپنی بیوی کو شبہ مٹانے کی غرض سے لانے ہی والے تھے کہ میں نے آ کر لتاڑا۔ ان کی بیوی ویٹنگ روم میں بیٹھی تھیں۔​
ہا میرے اللہ! میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ور میں نے اس نا مراد نا شاد لڑکی کا قصۂ غم سنایا، آہ! وہ اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے کسی تڑپتی تھی۔باپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہہ رہا تھا۔ میں نے اس قدر تکلیف دہ باتیں کاہے کو کبھی سنی ہوں گی۔ قبل اس کے کہ قبر پر کے چلوں، انہوں نے مجھ س کہا کہ میں اپنی خوش دامن کے پاس چلوں! کوں؟ وہی دلہن جس کو میں نے بیس برس پہلے دیکھا تھا۔​
میں عرض نہیں کر سکتا کہ میرا کیا حال ہوا اور ان کا کیا حال ہوا۔ میں نے دیکھا کہ چشمِ زدن میں ان کے چہرے پر بڑھاپا آ گیا۔ میں نے یاد دلایا کہ میں کون ہوں اور غم کی ماری نے مجھے بیتاب ہو کر سینے سے لگا لیا، گھنٹوں وہ رویا کیں اور میں تسلی دیتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ میں بغیر اپنی بیٹی کو دیکھے زندہ نہیں رہ سکتی۔ سوال یہ تھا کہ اب کیسی ممکن ہے۔​
رات کا سناٹا۔ ہو کا عالم تھا۔ قدم قدم پر قبریں تھیں اور دور تک میدان چلا گیا تھا۔ فاصلے پر ریلیف والوں کی چہل پہل لالٹینوں کی جنبشوں سے عیاں تھی۔ میں نے تیزی سے مٹی ہٹانا شروع کی۔ بیگار کا کام تھا۔ چشمِ زدن میں مٹی ہٹ گئی اور لکڑیاں ہٹا کر میں نے غار کی طرف​
271​
دیکھا۔ باوجود تعفن کے میں اندر اتر گیا۔ میرے خسر بجلی کی ٹارچ ساتھ لائے تھے۔ وہ میرے ہاتھ میں تھی۔ میں نے قبر کے اندر روشن کی۔ چہرے پر روشنی ہوئی۔ بجلی کی تیز روشنی میں ای کدم سے میں نے اس نازنین کے چہرے پر نظر ڈالی۔ اس کی ناک اور منہ پر چاول سے سفید سفید رکھے دکھائی دئے۔ غور سے جو دیکھتا ہوں تو الامان! میرے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ کیڑے ناک اور منہ میں بجبجا رہے تھے! میں بد حواس ہو کر ایک دم قبر کے باہر اچھلا ہوں کہ ایک چیخ کے ساتھ میری خوش دامن اندر گریں۔ لیکن میں جو سر پر پیر رکھ کر بھاگا ہوں تو میرے خسر نے روکا۔ میرے ہوش بجا نہ تھے اور میں بھاگ آیا اور ایسا بھاگا ہوں کہ پچھلے مہینے جو ذرا ہوش ٹھیک ہوئے تہ اپنے خسر سے ملنے گیا، ان کے وطن میں۔ دیکھوں تو چہرہ ہونق! مجھ سے ملے تو نہ دعا نہ سلام بولے۔ "بل۔۔۔۔ لی!" میں غور سے دیکھا۔ نوکر نے کہا۔ دماغ خراب ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ میری خوش دامن جو قبر میں گریں تو پھر نہ کنلیں۔ مر چکی تھیں۔ اور ماں بیٹیاں ایک ہی قبر میں سو گئیں۔ وہاں سے یہ لوٹے تو دیوانے ہو گئے۔​
میں ٹھنڈی سانسیں لیتا واپس آیا۔ شکر ہے خدا کا زندہ ہوں۔ لیکن حال یہ ہے کہ چاول اگر کھانے میں آ جائیں تو معاً وہی قبر کا سین سامنے آ جاتا ہے۔ منہ سے ایک چیخ نکلتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کیڑے بجبجا رہے ہیں۔ ویسے دماغ ٹھیک ہے۔ دنیا کے کاروبار کرتا ہوں اور میری اس کمزوری کا کسی کو بھی علم نہیں ہے۔ لیکن عرض نہیں کر سکتا۔ اپنی بیوی کی چند روزہ صحبت کی یاد میرے دل سے کبھی محو نہ ہوگی۔ میرا اس کا ساتھ محض چند روزہ رہا لیکن اپنی لا فانی محبت کا نقش میرے دل پر چھوڑ گئی۔ اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے وہ کیسی بیتان تھی اور کیسی بے چین تھی! بس یہ سمجھ لیجیے کہ پانی کے باہر کو کبھی مچھلی دیکھ لیتا ہوں تو وہی حالت پیشِ نظر ہو جاتی ہے اور صدمی مجھے اس کا ہے کہ حیف ڈس حیف وہ ناکام ہو گئی۔ جوانی اور ناکام محبت! میں سر دھنتا ہوں۔ جب اس امر ہر غور کرتا ہوں کہ تقدیر کی خوبی تو دیکھیے کہ ماں باپ اور بیٹی تینوں کے تینوں ماہیٔ بے آب، ایک ہی جگہ جمع تھے اور نہ مل سکے​
272

نیکی جرم ہے

پہلے میں کہتا تھا کہ نیکی کرنا کوئی جرم نہیں لیکن اب کہتا ہوں کہ نیکی کرنا جرم ہے اور وہ بھی قابلِ دست اندازیٔ پولیس۔ لوگ کہتے ہیں کہ تم احمق ہو اور میں کہتا ہوں کہ تم! لہٰذا اب میں اپنا قصہ سنا کر آپ کی عقل کا بھی امتحان لیتا ہوں۔
(1)
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں اسکول سے واپس گھر آ رہا تھا۔ یہ جب کا ذکر ہے کہ میری عمر بارہ یا تیرہ سال کی ہوگی۔ ایک کنویں پر سے گزر ہوا۔ دہ تین عورتیں پانی گھر رہی تھیں۔ آپس میں ہنس بول رہی تھیں۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ ان میں سے ایک عورت پر نظر پڑی۔ اور وہ گڑ کر رہ گئی۔ ایسی کہ رفتار اہستہ پڑ گئی۔ دیکھ تو رہا یوں کنویں کی طرف اور دل آگے کی طرف رہا ہوں۔ ایک دم سے رک گیا۔ کھڑا ہو کر دیکھنے لگا۔ عمر کا یہ پہلا تجربہ تھا، اس سے پہلے کبھی کسی عورت میں مجھے دلچسپی نظر نہیں آئی تھی اور میں حیرت زدہ کھڑا دیکھ رہا تھا۔
قد میں کتنی دلکشی تھی اور ہر جنبش سے ایک سرکشی عیاں تھی۔ سڈول بازو، پھنسی ہوئی نیم آستین سے بغاوت کر رہا تھا۔ اعضاء کی ہر جنبش میں رعنائی کی جلوہ گری اور ایک دلکش لچک تھی۔ رنگ اور روپ میں جوانی چمک رہی تھی۔
میں قریب آیا، پانی پینے کے لیے اور چپ کھڑا دیکھنے لگا۔ اب صرف ایک عورت اور تھی اور میں اور آگے بڑھا۔ میں نے پانی مانگا۔ دوسری عورت اپنا ڈول اٹھا چکی تھی، رسی کا لچھا بنا رہی تھی لہٰذا وہ کچھ نہ بولی اور اپنا گھڑا بھر کر چلتی ہوئی۔ اب میں کھڑا قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنا ٹین کا ڈول بھرا۔ مجھ سے میری ذات پوچھی۔ میں غافل سا اس کے چہرے میں ڈوباہوا دلربا لرزشوں کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے بتایا اور کہا "کائستھ ہوں۔"
میں نے چلو سے پانی پینا شروع کیا مگر نظر اس کے چہرے پر جو کہ قرب تھا۔ اس کے رخسار کے باریک روئیں روشنی میں سنہری رنگ کے ذروں کی طرح لرز رہے تھے۔ میں نے انکار نہیں کیا اور کل ڈول کا پانی خرچ ہوگیا۔ اور میں بدستور چلّو بنائے اسے گھور رہا تھا حالانکہ چلّو

273
اور ڈول خالی! وہ برابر مجھے دیکھ رہی تھی اور پیاس بھر پانی پی کر مجھے انکار کر دینا چاہیے تھا۔ خواہ ہاتھ اٹھا کر خواہ سر سے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ میں کل ڈول پی گیا۔ اس نے میری حماقت کو نا پسند کر کے سر کو صرف جنبش دی۔
میں کچھ بھی نہ بولا اور وہیں کا وہیں کھڑا دیکھتا رہا۔ مجھے ہٹ جانا چاہیے تھا۔ لہٰذا س نے مجھ سے قدرے ترش روئی سے کہا۔ "ہوں! کیا دیکھتا ہے؟"
میں بھلا کیا جواب دیتا۔ کیا کہہ دیتا کہ تیرے چہرے کو دیکھتا ہوں اور چہرے میں جوانی اور رعنائی کی جلوہ آرائی دیکھتا یوں، میں ہٹ آیا تھا۔ بستہ بغل میں لیے کھڑا دیکھتا رہا تھا۔ وہ گھڑے بھر چکی تھی اور ڈول سنبھال کر رسی کا لچھا بان رہی تھی اور میں اس کی کلائی کی جنبش کو دیکھ رہا تھا، رسی کے ہر چکر پر ایک سی حرکت تھی۔ کس قدر دلچسپ کہ اس کلائی کی لچک سے بدن کو ہلکی سے جنبش ہوتی تھی۔ ایسی کہ معلوم ہو کہ دلکشی اور رعنائی کا چھلکتا ہوتا جام ہے۔
جب وہ چلی تو مجھے گویا کھینچتی ہوئی۔ میں اس کے ساتھ پھر واپس اسکول کی طرف چلنے لگا۔ اس کے بائیں ہاتھ کی کلائی کے خم پر نظریں جمائے آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلا۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی اور میں خاموش تھا۔ "تو کہاں جا رہا ہے؟" اس نے مجھ سے پوچھا۔ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا دیکھتا ہے؟" میں نے سادگی سے کہہ دیا "تمہیں دیکھ رہا ہوں" وہ اپنے خوبصورت لبوں کو قدرے حیرت سے جنبش دے کر بولی۔ "مجھے۔۔۔۔۔۔! ہشت ۔۔۔۔۔! بھاگ!"
میں خاموش ہو گیا اور نظریکں نیچی کرلیں اور قدرے پیچھے رہ گیا۔ مگر نہیں۔ میں تو ساتھ ہی چلوں گا۔ اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ وہ مجھے مڑ مڑ کر دیکھتی ہوئی اور میں اس پر نظریں جمائے۔ وہ گھر میں اپنے داخل ہوئی تو میں فاصلہ پر رک گیا۔ وہ غائب ہوگئی اور میں چلنے کو ہوا کہ وہ دروازے پر آئی اور اس نے پھر مجھے کھڑے دیکھا۔ دیکھ کر وہ واپس چلی گئی اور میں تھوڑی دیر انتظار کر کے واپس چلا آیا۔
گھنٹوں اس کے دلربا چہرے کا نقش سامنے رہا، گھنٹوں اس کے بدن کی جنبش سینما کی فلم کی طرح پیشِ نظر رہیں۔ اس کی عمر قریب بیس بائیس سال کی تھی۔
(2)
اس دن سے میرا دستور ہوگیا کہ میں کنویں پر پانی جرور پیتا۔ اسکول کا آخری گھنٹہ بڑی بے صبری سے کٹتا۔ کنویں پر وہ ضرور ملتی۔ اگر نہ ملتی تو میں کچھ دیر ٹھہر جاتا۔ اور بہت جلد میرے دل میں یہ احساس ہونے لگا کہ شاید میرے انتظار میں بیٹھی ہو۔
کبھی کبھار دو چار باتیں ہوئیں۔ یہ ایک اچھے گھرانے کی بیوہ برہمن تھی جو بہت چھوٹی عمر میں بیوہ ہوگئی۔ (آگے کا اسکین میں کٹا ہوا ہے۔)
 

محمد امین

لائبریرین
274​
میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا اور نہ کبھی زیادہ بات چیت کی۔ مگر چپکے چپکے دل میں اس کا نقش برابر گہرا ہوتا چلا گیا۔​
میرا معمول تھا کہ پانی پی کر کھڑا رہتا اور اس پیکرِ جمال کو دیکھتا رہتا۔ وہ جانتی تھی میں اس کا مستقل طور پر "دیکھنے والا" ہوں۔ یہ بھی غالباً جانتی ہی ہوگی کہ دیکھنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔​
دس مہینے اسی طرح گزرے ہوں گے کہ رامجی کے مندر کے میلے پر گیا۔ عورتوں کا بے حد ہجوم تھا۔ شام کے وقت مجمع سے علیحدہ ہو کر میں ایک طرف ہو گیا۔ سامنے دور تک دھندلکے کا سماں تھا اور سورج ڈوب چکا تھا۔ تاریکی بڑھ رہی تھی۔ در اصل میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا تھا اور اس جگہ سے دیکھ رہا تھا کہ سارا میلہ نظر کے سامنے تھا۔ لیکن کوئی نظر نہ پڑا اور اب کوئی امید نہ تھی کہ ساتھی مل جائیں، لہٰذا میں اٹھا اور چلنے کو ہوا کہ بائیں طرف سے ایک آہٹ ہوئی اور کیا دیکھتا ہوں کہ محبوب سامنے تھا۔​
دیکھتے ہی میرا عجیب حال ہوگیا۔ وہ خود رک گئی۔ میں کھڑا ہوگیا۔ دھندلکا تھا لہٰذا ذرا قریب بڑھا۔ وہ بھی قدرے قریب آئی۔ اس نے سر جھکا کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر عجیب تمسخر آمیز انداز سے مسکرا کر دیکھا اور کہا۔ "کیوں جی تم مجھے روز کیوں دیکھتے ہو؟"​
میں نے شرم سے نظریں نیچی کر لیں اور اس نے اور بھی مسکرا کر پھر وہی سوال کیا۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا اور میلے کو شور و غل اور ڈوبتی ہوئی دھندلی سی روشنی میں اس کی چمکیلی آنکھیں اندھیرے میں ایک عجیب رنگینی کے ساتھ تیرتی ہوئی معلوم پوئیں۔ میں نے زور کا ایک سانس لے کر کہا۔ "بائی جی میں تم کو روز دیکھتا ہوں اور جب نہیں دیکھتا تو پریشان رہتا ہوں۔"​
میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی۔ وہ مسکرا کر بولی۔ "کیوں؟"​
میں نے کہا۔ "تم سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔ تم سے بات چیت کرنے کو، تم سے جی چاہتا ہےکہ روز ملوں۔۔۔۔۔"​
اس نے خوش ہو کر کہا۔" پھر تم کیوں نہیں ملتے، تم نے میرا گھر دیکھا ہے۔"​
میں نے کہا۔ "ہاں دیکھا ہے۔ کیا میں وہاں ملنے آ سکتا ہوں؟"​
اس نے کہا "تم ضرور آنا۔"​
اس کے بعد ہم دونوں دور تک سات ساتھ باتیں کرتے چلے گئے اور پھر وہ اپنی ساتھ والیوں کے پاس چلی گئی۔​
دوسرے روز سے میں زیادہ خوش تھا۔ میرا دل کہیں سے کہیں پہنچا۔ یہ معلوم ہوا کہ دل میں امنگ ہے۔ بڑی خوشی سے ہم دونوں ملتے۔ میں اس کے گھر جاتا اور گھنٹوں بیٹھ رہتا۔ پڑھنے​
275​
لکھنے سے جی اچاٹ ہو چکا تھا۔ بائی جی کے مکان پر ایک ماں تھی اور بوڑھا ماموں اور ایک مجھ سے بھی کم عمر بھائی۔​
(3)​
دو مہینے کے اندر اندر ہم دونوں میں گہری محبت ہو گئی مگر ذات پات کے بندھنوں کے سبب زبان بند تھی۔​
ایک دن جب کہ زچ آچکا تھا، میں نے دل کا مطلب کھول دیا۔ وہ جانتی ہی تھی۔ یہ نا ممکن تھا لیکن میں نے ایک دن کہہ دیا کہ "بائی تیرے بغیر میری زندگی مشکل ہے۔"​
وہ جانتی تھی۔ مگر اول تو وہ بیوہ اور پھر وہ برہمن اور میں کائستھ۔ مگر نہیں۔ عشق و محبت کے قوانین اور ہیں۔​
میں نے تجویز کی کہ کیوں نہ ہم دونوں لاہور چلیے چلیں اور وہاں سماج میں داخل ہو کر قاعدے اور قانون کی رو سے شادی کر لیں۔ یہ ممکن ہے اور جائز بھی ہے۔ مگر سوال یہ تھا کہ پھر اپنے شہر میں کیوں کر آئیں گے۔ بھلا کیسے منہ دکھائیں گے۔​
لیکن کچھ دن بعد از خود یہ بھی سوال جاتا رہا۔ عشق و محبت کی ضروریات بھی کوئی چیز ہیں۔ بائی نے اپنے گھر سے اور میں نے اپنے گھر سے روپیہ زیور جو ہاتھ لگا چرا لیا اور اصطلاحِ عام میں ہم دونوں "بھاگ گئے" اور پنجاب پہنج کر ہم نے شادی کر لی۔​
یہ شادی کیسی تھی۔ بس نہ پوچھیے۔ عرصے تک یہی معلوم ہوا کہ شرابِ محبت کے نشے میں طور ہم دونوں ہوا میں جھول رہے ہیں! لیکن افسوس روپیہ ہمارا تُھڑ رہا تھا اور تلاشِ معاش کی خلجان ایک خوفناک بھوت بن کر سامنے آ رہا تھا۔​
تلاشِ معاش کی لیے بہت سرگرداں ہونا پڑا۔ لیکن پھر ایک مہاجن کے لڑکے کو انگریزی پڑھانے کی نوکری مجھے مل گئی اور شریمتی جی کھانا پکانے کا کام کرنے لگیں۔ ہم دونوں بہت خوش تھے اور کبھی بھول کر بھی گھر کا رخ نہ کیا۔​
لیکن بہت کلد دشواریوں کا سامنا ہوا۔ میری عمر ہی کیا تھی۔ نہ تجربہ تھا نہ عقل تھی اور اسی کشمکش میں تنگی ترشی سے دس سال گزر گئے۔ اب اس عرصے کی روئیداد بھی سن لیجیے۔​
سال بھر کے اندر ہی اندر شریمتی جی کا کچھ اور ہی رویہ ہو گیا۔ محبت بدستوور تھی، مگر مجھے پہلے تو جھڑکنا شروع کیا اور پھر مارنا شروع کر دیا۔ ہاتھ کھلنے کی دیر تھی کہ بات بات پر میں پٹنے لگا اور بہت جلد میری حیثیت ایک غلام کی سی ہو گئی اور یہی دستور برابر جاری رہا۔​
پھر ستم تو یہ تھا اس دوران میں روزگار بھی ٹھیک لگ گیا تھا۔ تین بچے بھی ہو گئے تھے اور ظلم یہ کہ بچوں کے سامنے میں پٹتا تھا۔ بچوں نے پہلے تو ڈرنا لیکن بعد میں ہنسنا شروع کیا۔​
276​
ظاہر ہے کہ صورتِ حال کس طرح میرے لیے تکلیف دہ ہو گئی ۔ آپ کہیں گے کہ میں پٹ کیسے گیا۔ عرض ہے کہ کوئی راضی خوشی مار نہیں کھانا۔ کمزور جوتیاں کاھتا ہے ۔دو ایک دفعہ میں نے زور آزمائی کی اور شکست کھائی۔ شریمتی جی کی نہ صرف تندرستی بہت اچھی تھی بلکہ قد اور ہاتھ پیر مجھ سے سوائے کیا ڈیوڑھے تھے۔​
تین سال بعد میرا گھر گھر آنا جانا بھی ہو گیا تھا مگر میں حتیٰ الوسع منہ چھپاتا تھا۔ برادری باہر آدمی کو کون منہ لگاتا ہے۔​
(4)​
جس وقت کا میں ذکر کر رہا ہوں، حالات نا گفتہ بہ ہو چکے تھے۔ روز کی مار پیٹ سے تنگ آ گیا تھا کہ ایک دن محض ذرا دیر سے گھر آنے پر میں اتنا پٹا کہ پڑوسن نے آ کر بچایا۔ ہڈی پسلی میری ایک کر دی گئی اور اس روز مجھے شریمتی جی سے نفرت ہوگئی اور میں ووچ رہا تھا کہ کیا تدبیر کروں۔​
لیکن ابھی سوچنے بھی نہ پایا تھا کہ ایک دن صبح تڑکے مجھے لکڑی اور جوتیوں سے مارا اور بچے قہقہے لگاتے رہے۔ انتہا ہو چکی تھی لہٰذا میں نے کچھ طے کر لیا۔​
ایک خط اپنے بڑے بھائی کو لکھا کہ میرے بچوں کا خیال رکھنا ارو میں اس دنیا سے رخصت ہوتا ہوں اور پھر یہ طے کیا کہ اس ظالم عورت کو قتل کر کے خود بھی اپنے آپ کو آج ہی ہلاک کر دوں گا۔ مگر واہ رے بھائی کہ جگہ سے جنبش تک نہ کی۔​
شام کا جھٹپٹا وقت تھا اور ہمارے گائ کے رہنے کا باڑہ پچھواڑے تھا۔ گائے دوہنے کو شریمتی جی اکیلی آتی جاتی تھی اور یہی موقعہ تھا۔​
قتل کرنا اور پھر وہ بھی بیوی کو ذرا مشکل کام ہے اور ممکن ہے کہ عین موقع پر میں رک جاتا مگر شریمتی جی نے گائے دوہنے جانے سے کچھ ہی قبل مجھے ذرا سی بات پر مار کر اور بھی اندھا کر دیا۔​
دیوار کے پاس کانٹوں کی ایک جھاڑی تھی۔ اس کی آڑ میں چھپ گیا اور جونہی شریمتی جی قریب سے گزری ہیں میں نے بے خبری میں پیچھے سے پشت پر داہنی طرف پھرپور چاقو کا ہاتھ دیا۔ ہی ایک بڑا سا چاقو تھا جو میں نے آج ہی گھر میں دیکھا تھا۔ ان کے منہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ برتن ہاتھ سے گر گیا لیکن انہوں نے مڑ کر میرا مقابلہ کیا۔ میں دو وار اور کیے مگر یہ انہوں نے ہاتھوں پرو روکے لیکن میں نے ان پر اس زور سے حملہ کیا کہ گرا دیا اور گراتے ہی سینے پر چڑھ کر سچ مچ شریمتی جی کو ذبح کرنے لگا اور وہ برابر اپنے دونوں ہاتھوں سے گلا بچا رہی تھیں کہ ان کی آواز سن کر ایک پڑوسی برہمن آ نکلا اور اس نے میرے اوپر حملہ کر کے شریمتی جی کو​
 

محمد امین

لائبریرین
277​
چھڑایا۔ میں نے دیکھا کہ اب معاملہ مغرا۔ لہٰذا میں ن اس مہاراج پر حملہ کیا۔ مگر مہاراج طاقت میں مجھ سے چوگنے تھے۔ میرے چاقو کے دو وار انہوں نے بہادری سے ہاتھوں پر لیے اور تیسرے وار پر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نے نا امید ہو کر دوسرے ہاتھ مین چاقو کے لر اپنا خاتمہ کرنا چاہا اور جب تک مجھے مہاراج پکڑیں میں اپنے گلے کو پوری طرح زخمی کر چکا تھا۔ اتنے میں اور دو چار آدمی آوازیں سن کر دوڑے آئے شریمتی جی پڑی دم توڑ رہی تھیں اور میرا بھی ایک دم سے سر چکرایا اور میں نے اپنے کو گرتے ہوئے محسوس کیا۔​
(5)​
اس کے بعد جب میری آنکھ کھلی ہے تو میں نے اپنے کو ہسپتال میں پایا۔ پولیس والے سرہانے تھے اور بیان کے لیے مصر۔ میں نے بیان دینے سے قطعی انکار کر دیا۔​
اسی ہسپتال کے زنانے وارڈ میں شریمتی جی موت اور زیست کے مراحل طے کر رہی تھیں۔​
میں نے اپنے بیان بعد میں بھی نہ دیے لیکن شریمتی جی نے تیسرے روز بالکل صحیح صحیح بیان دے دیے۔​
میں تو مہینہ بھر کے اندر ہی اندر اچھا پو کر پولیس کی حوالات میں پہنچا۔ لیکن شریمتی جی تین مہینے ہسپتال میں رہیں، اور جب وہ اچھی ہوگئیں تو ہمارا مقدمی عدالت میں آیا۔​
پہلی ہی پیشی پر شریمتی جی سے میری ملاقات ہوئی۔ بس اتنی کہ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ میں نے نظریں نیچی کر لیں۔ وہ گواہ اور مستغیث تھیں اور میں ملزم۔ ہتھکڑی بیڑی پہنے عدالت کے باہر بیٹھا تھا۔ میں جب کبھی بھی سر اٹھا کر دیکھتا شریمتی جی کو اپنی طرف دیکھتا پاتا۔ دن بھر ہم بیٹھے رہے اور مقدمے کی پیشی دوسرے ضروری مقدمات کے سبب نہ ہو سکی۔ شریمتی جی کی آنکھوں سے نفرت اور انتقام کی چنگاریاں سی اڑتی معلوم ہوتی تھیں۔​
دوسرے دن بھی پیشی نہ ہوئی اور شریمتی جی مجھے اسی طرح دیکھتی رہیں۔ آج ان کے ساتھ بڑا لڑکا بھی تھا۔ ماں بیٹے مجھے دور ہی سے دیکھتے رہے۔ میں وقتاً فوقتاً سر اٹھا کر دیکھ لیتا تھا، ورنہ سر جھکائے اپنی قسمت کے نوشتے کا منتظر تھا۔​
دو دن ہمارا مقدمہ ملتوی رہا اور تیسرے دن چالان پیش کر دیا تھا اور میرے خلاف اقدامِ قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔​
کارروائی عدالت کے وکیلِ سرکار کی مختصر تقریر سے شروع ہوئی۔ پہلے گواہ مقدمے کے ہیرو دیوی لال مہاراج پڑوسی تھے۔ انہوں نے بیان دیا کہ کس طرح انہوں نے مجھے شریمتی جی کو قتل کرتے دیکھا۔ آلۂ حرب​
278​
شناخت کر کے بتایا کہ ان کا ہے، جو شریمتی جی ان کی بہن سے مانگ لائی تھیں۔ اسی سے ضربات پہنچائی گئیں اور چھڑوانے لگے تو میں نے ان کو زخمی کیا اور پھر خود کشی کی کوشش کی۔ مجھ سے پوچھا کیا کہ جرح کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔ میں نے جرح کرنے سے انکار کر دیا۔​
دوسری گواہ خود شریمتی جی تھیں۔ عدالت میں وہ داخل ہوئیں تو انہوں نے میری طرف دیکھا۔ چہرے پر ضرورے سے زیادہ سنجیدگی تھی اور ضرورت سے زیادہ مغموم معلوم ہوتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چہرے سے ابھی ابھی آنسو پونچھے ہیں۔ وہ بالکل خاموش گواہی کے لیے بڑھیں اور ان کے بیان شروع ہوئے:​
"ملزم حاضرِ عدالت میرا میاں ہے۔ میری اس کی شادی ہوئی ہے۔ فلاں فلاں تاریخ کو میں زخمی ہوئی۔ حملہ آور میرا شوہر، حاضرِ عدالت، نہیں تھا، بلکہ (دیوی لال کی طرف انگلی اٹھا کر) اس نے مجھے چاقو سے زخمی کیا۔۔۔۔۔۔"​
"ہیں! ہیں!" گھبرا کر وکیلِ سرکار نے کہا۔ "کیا کہا تم نے؟"​
شریمتی جی نے سنجیدگی سے کہا۔ "میں نے یہ کہا کہ مجھے پنڈت دیوی لال نے قتل کرنے کی کوشش کی اور مجھے میرے شوہر ملزم حاضرِ عدالت نے بچانا چاہا تو دیوی لال نے اسے بھی زخمی کیا۔"​
سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پنڈت دیوی لال جی خواپ مخواہ حواس باختہ ہوگئے اور بطورِ احتجاج بوکھلا کر لگے بکنے مگر خاموش کر دیے گئے۔ پھر جرح شروع ہوئی۔ ادھر ادھر کے سوالات پوچھ کر آخر میں مجسٹریڑ نے پوچھا۔​
مجسٹریٹ: "تم نے ہسپتال میں اپنے بیان میں جو یہ بات لکھائی کہ اپنے میاں کو مارتی تھیں، تو کیا یہ بھی غلط ہے؟"​
شریمتی: "بچوں کو مارنے کا لکھایا ہوگا۔ قطعی غلط ہے۔"​
مجسٹریٹ نے شریمتی جی کا بیان لے کر ایشری اور رام پال پڑوسیوں کے بیان لیے، دونوں نے اس کی تصدیق کی کہ جب ہم آئے تو ملزم اور اس کی بیوی بری طرح زخمی تھے اور چاقو دیوی لال کے ہاتھ میں تھا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ پہلے ہی سے تھا یا انہوں نے ملزم کے ہاتھ سے چھینا تھا۔​
مجسٹریٹ نے میرا بیان لیا۔ مجھے جھوٹ سے بھلا کیا تعلق۔ میں نے بھی شریمتی جی کے بیان کی تائید کر دی۔ اس کے بعد پنڈت دیوی لال کی طرف خونی نظر ڈالی اور بیانِ مکرر کے لیے طلب کیا۔ پنڈت جی آنکھیں پھاڑتے قسمیں کھاتے گواہ کے کٹہرے میں آئے اور مجسٹریٹ کے سوالات کا ان کو جواب دینا پڑا۔​
279​
"آلۂ ضرب یعنی چاقو میرا ہے جو ملزم کی بیوی میری بہن سے عاریتاً مانگ کر لائی تھئ۔ میری بیوی مر چکی ہے، دوسری بیوی کی تلاش ہے۔ بیوی ملنے میں دو ہزار روپیہ خرچ کی ضرورت ہے، لڑکی والوں کو دینا پڑتا ہے اسی وجہ سے بغیر بیوی کے بیٹھا ہوں۔ ملزم کی بیوی جس ذات کی ہے، اس میں میری شادی ہو سکتی ہے۔ میں نے ملزم کی بیوی سے کبھی مذاق نہیں کیا اور کبھی اس سے یہ نہیں کہا کہ میری ہوجا۔ میں ذات کا برہمن ہوں۔ ملزم نے بھرپور میرے سینے پر چاقو کے وار کیے مگر ہاتھوں میں سوا معمولی خراش کے اور زخم نہیں آیا اور وہ وار میں نے روک لیے۔ ملزم نے اپنے الٹے ہاتھ سے خود کو زخمی کیا تو میں اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکا حالانکہ وہ میرے قابو میں تھا اور میں اس کا سیدھا ہاتھ پکڑے تھا۔ سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ میں چاقو لیتے وقت بھی میں ملزم سے نہ چھین سکا۔ جو وار اس نے اپنے اوپر کیے وہی وار ملزم میرے اوپر کر سکتا تھا۔ جن میں سے ایک وات ضرور سینے پر پڑ سکتا تھا۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔"​
اس کے بعد ہی مجسٹریٹ نے میرا بیان لیا۔ میں نے شریمتی جی کے بیان کی تصدیق کی۔ مجسٹریٹ نے وکیلِ سرکار سے کہا کہ وجہ ظاہر کرو کہ کیوں نہ مقدمہ عدمِ ثبوت میں خارج ہو۔​
وکیلِ سرکار نے بحث میں کہا کہ ملزم کی بیوی ملزم سے مل گئی ہے اور یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ اپنے میاں سے وقوعے کی تاریخ سے اب تک مل بھی نہیں سکی۔​
مجسٹریٹ نے بحث سماعت کر کے کہا کہ باہر ٹھہریں۔ آدھ گھنٹے بعد مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔ "مقدمہ عدمِ ثبوت میں خارج اور ملزم رہا کیا جائے، پولیس کی تفتیشی کارروائی قابلِ رحم ہے۔ دیوی لال کا معاملہ مقدمۂ ہٰذا میں تنقیح طلب نہیں لہٰذا اس کے بارے میں ہم کوئی ریمارک پاس نہیں کر سکتے۔ مگر اتنا کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ خود پولیس اور دیوی لال کی پوزیشن سخت مشکوک ہے اور پولیس کو واضح رہے کہ مقدمۂ ہٰذا عدمِ وقوعہ میں خارج نہیں ہوا بلکہ عدمِ ثبوت میں خارج ہوتا ہے اور سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ جرم کس نے کیا۔ دیوی لال کا ہمیں یقین نہیں، وہ جھوٹا گواہ ہے اور معاملات سطح پر نہیں ائے۔ امنِ عامہ اور انصاف کی خاطر پولیس اگر چاہے تو دیوی لال کے مقدمے میں تفتیش کر سکی ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ملزم کی مضروب بیوی کا دیدہ و دانستہ ہسپتال میں مجسٹریٹ کے روبرو بیان لینے کے عوض بلا کسی وجہ کے پولیس نے خود ہی بیان لینے پر اکتفا کیا اور دیوی لال دورانِ تفتیش پیش پیش رہا تو پولیس اور دیوی لال دونوں کی پوزیشن قابلِ رحم اور قابلِ تنقید ہو جاتی ہے۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔"​
میں رہا ہو کر شریمتی جی کے بہت دیر بعد گھر پہنچا۔ شریمتی جی پر نظر پڑی، منہ پھلائے بیٹھی تھیں مجھ سے کچھ نہ بولیں۔ مگر چشمِ زدن میں جھپٹ کر وہ میرے اوپر پل پڑیں اور قبل اس کے کہ کچھ کہیں، انہوں نے ایک اڑھائی درجن جوتے میری چاند پر گن دیے اور جوتا پھینک کے چارپائی پر بیٹھ کر اپنا منہ دوپٹے سے چھپا کر جو رونا شروع کیا ہے تو ہچکی بندھ گئی۔ میں نے ہاتھ​
 

محمد امین

لائبریرین
280​
جوڑے، پیر پکڑے، تب جا کر بڑی مشکل سے راضی ہوئیں۔​
(6)​
پنڈت دیوی لال کا حال سنیے۔ پولیس نے ان کو وہیں کا وہیں عدالت میں دھر لیا اور ضمانت پر بھی نہ چھوڑا۔ اچھر ہمارے گھر پر جو لعنت بھیجنے والوں کا ہجوم ہوا تو شریمتی جی نے دروازے بند کر لیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آدھے محلے کے آدمی پنڈت جی کو مجرم کہنے لگے اور ہم نے دروازہ کھول دیا۔​
پولیس نے چالان پیش کر دیا۔ پنڈت جی کے دشمنوں اور مخالفوں نے جو خود ان کی ہی برادری کے تھے اب پوری چشم دید شہادت پیش کر دی ، دو تین آدمیوں نے کہا کہ ہم سے خود شریمتی جی نے شکایت کی تھی کہ دیبی لال مجھے چھیڑتا ہے اور قتل کرنے کو کہتا ہے اور دو تین آدمیوں نے کہہ دیا کہ ہم نے خود اپنی آنکھ سے دیبی لال کو شریمتی جی پر حملہ کرتے دیکھا ۔ نتیجہ یہ کہ پنڈت جی کو سات سال قید سخت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا ہوئی۔ جو باوجود اپیل ہائیکورٹ تک بحال رہی۔ در اصل پنڈت جی نے کام ہی ایسا کیا تھا اور وہ تھے بھی اس کے مستحق۔​
مگر مصیبت تو دیکھیے۔ خطا پنڈت جی کریں اور بھگتیں ہم! شریمتی جی نے جو خبر سنی کے پنڈت دیبی لال کو سزا ہوگئی تو ان کے اوپر بجلی سی گری۔ سکتے میں پڑ گئیں۔ چہرے پر مردنی چھا گئی اور خاموش چہرے پر دو موٹ موٹے آنسو ڈھلک آئے۔ اور یہ تھی پنڈت دیبی لال کی نیکی اور احسان کی اصل قیمت۔ اس دن شریمتی جی نے مارے رنج و غم کے کھانا نہیں کھایا۔ یہاں تک خیر غنیمت تھا۔ لیکن میرے ایک ذرا سے سوال پر جو بگڑیں تو مجھے مارا اور دیبی لال کا حوالہ دے کر خوب مارا۔ اتنا کہ جتنا نہیں چاہیے تھا۔ قصہ مختصر ساری بھڑاس مجھ پر نکال لی۔ اب رہ گئے دینی لال جی تو انہوں نے اپنی نیکی کی سزا پائی۔ وہ تھے بھی اس لائق۔ اب فیصلہ آپ نے ہاتھ ہے۔​
نیتجہ​
دیوی لال جی جیل میں ہیں۔ جرمانے میں گھر کا زیور اسباب نیلام ہوگیا۔ سنتے ہیں کہ جیل کاٹ کر آئیں گے تو برادری سے خارج کیے جائیں گے۔ ہمیں تو اس مقدمے کے اصل نتیجے سے بحث ہے اور وہ یہ کہ:​
"اب خوب پٹتے ہیں اور چوں نہیں کرتے"​
اور بر ملا کہتے ہیں کہ:​
"نیکی کرنا جرم ہے!" اور وہ بھی قابلِ دست اندازیٔ پولیس!!​
281​
رنگروٹ کی بیوی
جنگ کے آخری زمانے میں جو کشمکش میدانِ جنگ پر ہوگی اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ ڈسٹرکٹ رکروٹنگ افسر یعنی ضلع کے سپاہی بھرتی کرنے والے افسر کے یہاں گشتی چٹھی آ گئی کہ کم قد کے سپاہی بھرتی کر لیے جائیں اور یہ واقعہ ہے کہ اس زمانہ میں اکثر ایسے سپاہی بھرتی کر کے بھیجے گئے کہ اگر کوئی آدمی ان کے ایک چانٹا مار دیتا تو غش کھا جاتے۔ یہ سپاہی مختلف چھاؤنیوں میں چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد لڑائی پر بھیج دیے جاتے۔​
رنگروٹ اس طرح پر بھرتی ہوئے تھے کہ زمینداروں اور تعلقہ داروں سے حسبِ حیثیت رنگروٹ طلب کیے ھاتے تھے۔ مگر رنگروٹ نا پید تھے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ رنگروٹ سو روپے فی کس کے حساب سے بھی نہیں ملتے تھے۔ لیکن اس زمانے میں ایک عجیب تجارت ہو رہی تھی یعنی رنگروٹ سپلائی کرنے کے ٹھیکیدار پیدا ہو گئے تھے۔ جب رنگروٹ نہیں ملتے تھے اور زمیندار لوگ گورنمنٹ کی خوشنودی کے لیے رنگروٹ دینا چاہتے تھے تو وہ ٹھیکیداروں کو آرڈر دیتے تھے اور یہ لوگ زمیندار کی طرف سے رنگروٹ داخل کر دیتے تھے۔​
(1)​
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں دفتر میں بیٹھا ہوا روزانہ کا کام کر رہا تھا کہ ایک ٹھیکے دار ایک نوجوان کو لے کر آیا، اس نوجوان کی عمر کوئی اٹھارہ یا بیس برس کی ہوگی۔ چہرے سے شرافت عیاں تھی، معلوم ہوا راجپوت ہے۔ گندمی رنگ تھا اور چھریرا مگر سپاہیانہ بدن تھا۔ ٹھیکے دار نے میرے کان میں چپکے سے کہا کہ یہ رنگروٹ فلاں زمیندار کی طرف سے ہے۔ شاید اس نوجوان لڑکے نے یہ سن لیا، اس نے مشکوک نظروں سے میری طرف دیکھا، پھر ٹھیکے دار کی طرف دیکھا۔ اور مجھ سےکہا " میں از خود اپنی مرضی سے لڑائی پر جانے کے لیے آیا ہوں۔ میں کسی کی طرف سے نہیں جا رہا ہوں اور نہ میں روپے کے لالچ میں ایا ہوں اور نہ روپیہ لینا چاہتا ہوں۔ یہ مجھ کو چالیس روپے دیتے تھے اور کہتے رھے کہ بھرتی ہوتے وقت یہ کہہ دینا کہ فلاں زمیندار کی طرف سے ہم آئے ہیں، میں نے کہ نا منظور کر دیا اور آپ بھی نوٹ کر لیں کہ میں کسی کی طرف​
282​
سے نہیں آیا اور اگر مجھ کو اس میں دھوکہ دیا جائے گا تو میں بھرتی نہیں ہوتا۔"​
یہ بھلا مجھے کس طرح منظور تھا کہ ایسے رنگروٹ کو ہاتھ سے نکل جانے دوں۔ میں نے اس کا اطمینان کرا دیا، خوانچہ والا پاؤ بھر مٹھائی کا دونہ لے کر آیا اور میں نے کہا کہ ایک دونہ مٹھائی کا اور لاؤ۔ لڑکے سے میں نے کہا کہ صبح کا وقت ہے تم مٹھائی کھا لو، کچھ تکلف کے بعد اس نے مٹھائی کھا لی۔ دفتر ایک بڑی کوتھی میں تھا، جس میں متعدد کمروں کے علاوہ زنان خانہ بھی تھا۔ بڑا بھاری صحن تھا اور زنان خانے کی دیوار کے اندر متعدد کمرے ملازمین وغیرہ کے لیے تھے۔ اس زنان خانے میں اب رنگروٹ رکھے جاتے تھے تاکہ وہ باہر کے بھڑکانے والوں سے نہ مل سکیں اور علیحدہ رہیں، میں نے امر سنگھ کو (یہ نام اس نوجوان کا تھا) اندر بھجوا دیا اور جلد سے جلد اسپتال بھیج ک ڈاکٹری معائنہ کرا کر اس کے کاغذات مرتب کر لیے۔ ضلع کے رکروٹنگ افسر کو سپاہی بھرتی کرنے کی اجازت نہیں ہے، قلی البتہ بھرتی کر سکتا تھا۔ دوسرے روز صبح کو رکروٹنگ افسر آنے والا تھا جس کے روبرو بھرتی ہونے والے سپاہی پیش کیا کرتا تھا اور وہ بھرتی کر لیتا تھا۔ اس سلسلے میں بھرتی کا قانون بھی ناظرین کو بتا دینا چاہتا ہوں۔ شپاہی جب بھرتی ہو جاتا ہے اورنشانی ٔ انگوٹھا یا دستخط فارم پُر کر دیتا ہے تو وہ گورنمنٹ سے عہد کر لیتا ہے کہ میں ملازمت سے نہ بھاگوں گا اور جہاں گورنمنٹ بھیجے گی وہاں جاؤں گا اور اگر اس کے خلاف کروں تو سزا دی جائے۔ لہٰذا بعد دستخط کر دینے کے اگر کوئی سپاہی بھاگے تو فوج سے بھاگا کہلاتا ہے اور فوجی قانون کے مطابق اس کو گولی تک سے اڑایا جا سکتا ہے (حالانکہ یہ ہندوستان میں کہیں نہیں ہوا) لہٰذا ہم لوگ بھرتی کرنے والے رنگروٹ کو عوام سے اس وقت تک بچائے رکھتے تھے جب تک وہ بھرتی نہ ہوا ہو۔ بھرتی کرتے وقت کم از کم میرے علم میں کوئی ایسا واقعہ نہیں جہاں رنگروٹوں کو دھوکا دیا گیا ہو۔ اس سے صاف صاف کہہ دیا جاتا تھا اور برضا و رغبت وہ دستخط کرتے تھے۔ میرے ضلع میں اور نیز دوسرے اضلاع میں جہاں تک میرا علم ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ معاہدے کے فارم کو بغیر سمجھائے ہوئے نشانِ انگوٹھا یا دستخط لیے ہوں۔ جنہوں نے ایسا کیا، غلط کیا اور گورنمنٹ کے حکم کے خلاف کیا۔​
(2)​
شام کو رکروٹنگ افسر کا میرے نام تار آگیا کہ رنگروٹ روکے رکھوں۔ میں بجائے کل کے دو روز بعد آؤں گا۔ مجھے گونہ تشویش ہوئی کیوں کہ جب بہت سے رنگروٹ جمع ہو جاتے تھے تو ان کے عزیز و رشتہ دار آ کر ان سے ملنا چاہتے تھے اور اکثر ان کو بہکاتے تھے، ہا اکثر اپنے کسی عزیز کو تلاش کرنے آتے تھے، جو گھر سے لڑ کر چلا آیا کو اور پھر اگر اس کو پا جاتے تو راضی کر کے واپس لے جاتے تھے، یہاں یہ دستور تھا کہ ہر کس و نا کس سے کہہ دیا جاتا کہ یہاں تمہارا
 

محمد امین

لائبریرین
283​
کوئی عزیز نہیں آیا، مگر بعض ایسے ہوتے تھے کہ تاک میں لگے رہتے اور موقعہ پا کر دیکھ لیتے۔​
دوسرے روز صبح کو ایک ٹٹو پر بیٹھے ہوئے ایک زمیندار نما دیہاتی صاحب تشریف لائے۔ حالانکہ حلیہ سے بالکل گنوار معلوم ہوتے تھے، مگر شین قاف ضرورت سے زیادہ درست تھا، بہت جلد معلوم ہوگیا کہ یہ امر سنگھ کے باپ ہیں، زمیندار ہیں اور آنیریری منصفی میں نامزد ہیں۔ امر سنگھ کی اپنی سوتیلی ماں سے ہمیشہ لڑائی رہتی ہے۔ امر سنگھ پڑھنا چاہتا ہے، لیکن سوتیلی ماں پڑھنے نہیں دیتی تھی۔ اس کے گھر کی زمینداری تھوڑی سی تھی اور امر سنگھ کی زادی بڑے گھر میں ہوئی جہاں سوا امر سنگھ کی بیوی کے اور کوئی مالک نہیں۔ امر سنگھ کی بیوی کی بھی اپنے شوہر کی سوتیلی ماں سے نہیں بنتی۔ ابھی حال میں بڑی لڑائی ہوئی، جس میں زیادتی امر سنگھ کی بیوی کی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امر سنگھ کی بیوی اپنے گھر چلی گئی اور امر سنگھ دوسرے ہی روز سےغائب ہے، شاید وہ لڑائی پر جانے کی بیت سے یہاں آیا ہوگا۔ یہ سب سن کر اس کا یہ جواب دیا گیا کہ امر سنگھ یا امر سنگھ کے حلیے کے کسی نوجوان سے لاعلمی ظاہر کی گئی، بلکہ یہ کہا گیا کہ اس عمر کا لڑکا تو یہاں آج پندرہ دن سے نہیں آیا اور اگر آتا بھی تو وہ واپس کر دیا جاتا کیوں کہ اتنی عمر والا لیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ ٹھاکر صاحب نے کہا کہ اگر آیا بھی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ہم راجپوت ہیں، لڑنا مرنا ہمارا کام ہے۔ اگر مجھ سے اجازت لے کر جاتا تو کیا میں منع کر دیتا۔ یہاں ان سے کہا گیا کہ بے شک آپ ایسے ہی ہیں مگر کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ یہاں آیا ہوتا اور آپ ایسے جنگجو اور گورنمنٹ کے خیر خواہ سے اس امر کو خواہ مخواہ چھپایا جاتا۔ ٹھاکر صاحب بے نیل و مرام واپس چلے گئے۔ یہاں تو روز ہی ک دستور تھا کہ ایسے دو چار آدمی آتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ کوئی نئی بات نہ تھے اور آئی گئی ہوگئی۔​
(3)​
اتفاق کی بات ہے کہ شام ہی کو رکروٹنگ افسر صاحب آگئے ان کے روبرو علاوہ رنگروٹوں کے امر سنگھ بھی پیش ہوا اور بھرتی کر لیا گیا۔ وہ پڑھا لکھا تھا، آٹھویں جماعت تک گورنمنٹ اسکول میں پڑھ چکا تھا۔ اس نے معاہدہ کے فارم کو خود غور سے پڑھا اور دستخط کر دیے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس کو معمولی سی حرارت ہو گئی ۔ لہٰذا اور رنگروٹ تو جھانسی بھیج دیے گئے لیکن وہ رہ گیا۔ شام کو سول سرجن صاحب کو بلا کر میں نے اس کو دکھایا، معمولی دوا دے کر چلے گئے، مگر یہ کہہ گئے کہ اسے دو ایک روز سفر نہ کرنا چاہیے۔​
دوسرے دن کا ذکر ہے کہ صبح آٹھ بجے ہوں گےمیں دفتر میں بیٹھا تگھا اور کچھ لوگ جو لاروبار سے آئے تھے ان سے گفتگو کر رہا تھا کہ میری نظر بنگلے کے پھاٹک پر پڑی ۔ ایک سیاہ فام ادھیڑ عمر کے گنوار کے ساتھ کوئی عورت کھڑی تھی۔ میں نے غور بھی نہ کیا کہ اتنے میں کیا دیکھتا​
284​
ہوں کہ وہی گنوار ایک بھرتی کرنے والے سپاہی سے کچھ باتیں کر رہا ہے۔ فوراً میں نے دریافت کیا کہ کیا ہے، سپاہی آگے آہا اور اس نے کہا کہ "یہ نائی ہے اور امر سنگھ کو پوچھتا ہے اور میں نے کہہ دیا کہ ہم نہیں جانتے کون امر سنگھ۔" یہ سن کر میں چپ ہو رہا کہ سپاہی اسے ٹال دے گا اور کام میں لگ گیا۔ میں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ کہاں گیا اور کدھر گیا۔ جب ذرا بھیڑ بھاڑ کم ہوئی اور میں تنہا رہ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی نائی مع اس عورت کے چلا آرہا ہے۔ وہ میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا اور کہا کہ امر سنگھ یہاں ضرور ایا ہے اس کو چھوڑ دیجیے۔ نائی کے ساتھ امر سنگھ کی بیوی تھی۔ یہ نوجوان لڑکی مجھ کو معلوم ہی ہو چکا تھا کہ بڑے زمیندار کی لڑکی ہے۔ اس طرح اس کا نائی کے ساتھ اپنے شوہر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ظاہر کرتا تھا کہ غیر معمولی واقعات گھر پر ضرور واقع ہوئے ہوں گے ۔ ورنہ اودھ کے راجپوت زمینداروں کی لڑکیاں اس طرح نہیں نکلا کرتیں تاوقتیکہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہ ہو گیا ہو۔ لڑکی سفید چادر اڑھے تھی اور آدھے سے زیادہ اپنا منہ چھپائے تھی۔ جتنا چہرہ کھلا تھا اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ کہ کسی اچھے خاندان کی ہے۔ نائی نے نہ معلوم کہاں کہاں کی باتیں اور گھریلو قصے سنا کر کہا کہ امر سنگھ کو چھوڑ دیجیے۔ جب ہر چرح سے نائی کو چپراسی نے منع کر دیا اور وہ نہ مانا تو چپراسی نے اس کو ڈپٹا۔اتنے میں وہ لڑکی میری میز کے سامنے آ کر بیٹھ گئی اور اس نے میرے قدموں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میں نے اپنے پاؤں کچھ اوپر کیے کچھ بوکھلایا پھر کرسی گھسیٹ کر ذرا الگ ہو کر میں نے کہا۔ نیک بخت تو چلی جا تیرا آدمی یہاں نہیں ہے۔ اس نے عجیب معصومیت سے نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا، ایسے کہ میں اپنی دروغ گوئی پر اندر ہی اندر پانی ہوگیا۔ ذرا غور کرنے کی بات ہے کہ میں کسی پر بیٹھا تھا، وہ زمین پر، میں جھوٹ بول رہا تھا، وہ سچ کہہ رہی تھی اور خوشامد کر رہی تھی۔ میں روٹی کمانے کے لیے اس کے شوہر کو لڑائی پر بھجوا رہا تھا اور کوشاں تھا کہ وہ اس سے مل نہ سکے اور وہ اپنے شوہر پر فنا ہونے کو گھر سے نکلی تھی۔ معاً مجھے خیال گزرا کہ میں ذلیل ہوں یا یہ۔ قبل اس کے کہ اس کا تصفیہ میرا ضمیر کرے، سپاہی نے ڈانٹ کر نائی سے کہا کہ تو کیوں نہیں ہٹا لے جاتا۔ یہآں کوئی امر سنگھ نہیں آیا ہے۔ مگر وہ خدا کی بندی بھلا کاہے کو ہٹتی، اس کی آنکھوں میں دو ایک آنسو آ کر رہ گئے، اس نے آنکھیں پونچھیں اور ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئی، وہ زبان سے نہیں بولتی تھی کیونکہ نائی بولتا جا رہا تھا وہ صرف ایکٹنگ کر رہی تھی۔​
فوجی حکم بھی عجیب عجیب آتے تھے۔ منجملہ اور احکام کے یہ بھی تھا کہ اگر دفتر میں کسی سلسلے میں بھی کوئی شخص آئے تو اس کو پاؤ بھر مٹھائی بغیر پوچھے گچھے دے دو۔ اگر ماہوار مٹھائی کا خرچ کم ہوتا تو اعتراض آتا۔ حلوائی کا آدمی تاک میں رہتا تھا، وہ دو دونے لے کر بڑھا اور اس نے نائی کو دے دئے۔ میں نے لڑکی سے کہا نیک بخت تو جا کر کچھ کھا پی لے اور واپس اپنے گھر
 

فہیم

لائبریرین
285​
۔۔۔۔۔۔۔۔​
چلی جا تیرا شوہر یہاں نہیں ہے۔ جب ہر طرح اس کو مایوسی ہوگئی یا یوں کہئے کہ نائی نے اس بیکار بحث کو مٹھائی کی وجہ سے التوا میں ڈالنا ضروری سمجھا تو وہ درخت کے نیچے مع لڑکی کے جا بیٹھا اور مٹھائی کھانے لگا۔ حالانکہ درخت کے نیچے ایک بڑی دری بچھی ہوئی تھی مگر لڑکی دری پر نہ بیٹھی بلکہ زمین پر بیٹھی اور نہ اس نے مٹھائی کھائی۔ دونوں حصوں پر نائی ہاتھ مارتا رہا۔ میں نے کہا کہ لڑکی نے چپراسی سے کہلوایا کہ لڑکی سے کہو دری پر بیٹھ جائے، اور کچھ کھا پی کر جائے۔ سپاہی سے نائی نے کہا کہ لڑخی نے غلے کی قسم سے چیز کھانے اور فرش پر بیٹھنے کی قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک اپنے خاودند کو نہ تلاش کر لاگئی گی، نہ فرش پر سوئے گی اور نہ اناج کی قسم سے کچھ کھائے گی۔ لٰہذا وہ نہیں کھاسکتی۔ مجھ کو سخت تعجب ہوا اور میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ نائی سے باتیں کررہی تھی اور زمین سے تنکا اٹھا کر کرید رہی تھی۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی نظر باغ کی طرف اٹھی، وہ ایسی تڑپ کر اٹھی، گویا بجلی تھی تیر کی طرح ادھر دوڑی، میں نے کھڑے ہو کر یدکھا، سن سے ہوگیا! کیا دیکھتا ہوں امر سنگھ کے ہاتھ میں لوٹا ہے اور اس کی بیوی اس کو پکڑے کھڑی ہے!​
چشم زدن میں ایک ہلڑ سا ہوگیا، ایک آدمی کو میں نے بنگلے کے پھاٹک کی طرف دوڑایا کہ کسی تماشائی کو اندر نہ آنے دے۔ سپاہی اور دوسرے آدمی دوڑ کر وہاں پہنچے۔ میں برآمدے سے باہر نکل کر کھڑا ہوگیا۔ لڑکی کچھ زور زور سے بول رہی تھی۔ ایک ہاتھ امر سنگھ کا اس کی بیوی کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا سپاہی کے ہاتھ میں جو چھڑانا چاہتا تھا۔ امر سنگھ بت کی طرح خاموش تھا، اس کومیرے پاس لائے۔ لڑکی کا پردہ سب رخصت تھا۔ وہ غصہ میں کانپ رہی تھی۔ قریب آکر اس نے ایک نفرت بھری نگاہ میرے اوپر ڈالی۔ میں کٹ ہی تو گیا۔ اس نے میری طرف مخاطب ہوکر کہا۔ میں نہیں چھوڑوں گی۔ میں نے یہاں یہ منظر پیش ہونا مناسب نہ خیال کیا سمجھا بجھا کر بڑی مشکل سے میاں بیوی دونوں کو کوٹھی کے زنان خانہ میں بھیجا اور سب سے کہہ دیا کہ ان دونوں کو چھوڑ دو۔ میں نے دور سے دیکھا کہ وہ امر سنگھ کا ہاتھ اب بھی پکڑے تھی اور نائی بھی کھڑا تھا، وہ اپنے شوہر سے کچھ باتیں کررہی تھی۔ اب میں اس فکر میں تھا کہ اس معاملے کو کس طرح سلجھاؤں۔ امر سنگھ بھرتی ہوچکا تھا، اور بھاگ بھی نہ سکتا تھا۔ اگر بھاگتا بھی تو خود ذمہ دار ہوتا اور سزا کو پہنچتا مگر کچھ میری ذمہ داری بھی تھی۔ اگر کوئی رنگروٹ بھرتی ہورہا ہو یا بھرتی ہوچکا ہو اور اس کے عزیز و اقارب آکر دفتر کے احاطے میں روئیں یا چلائیں تو ا س سے بڑا خراب اثر پڑتا تھا۔ ہر کس و ناکس بلا سوچے سمجھے یہی کہتا کہ دیکھو رنگروٹ زبردستی پکڑ پکڑ کر بھیجے جارہے ہیں۔ اکثر ایس ہوتا کہ رنگروٹ حالانکہ اپنی مرضی سے بھرتی ہوتا مگر خود رونے چلانے لگتا۔ لٰہذا سب یہی کہتے کہ اس کو دھوکے سے بھرتی کرلیا ہے۔ اس سے​
 

فہیم

لائبریرین
286​
……..​
بھرتی کے کام میں بڑا خلل پڑتا تھا۔ بھرتی کی تحریک بدنام تو تھی ہی اور بھی بدنام نہ ہونے کا ڈر تھا۔ لٰہذا محکمے کے یہ احکام تھے کہ اس قسم کے سین دفتر میں یا دفتر کے گرد و پیش ہرگز ہرگز نہ پیش آئیں اور اس کا میں ذمہ دار تھا۔ جب کبھی ایسا موقعہ آتا میرے ہاتھ پیر پھول جاتے۔ اسی طرح یہ بھی احکام تھے کہ سڑک یا اسٹیشن پر بھی اس قسم کا کوئی واقعہ نہ ہونا چاہیے۔ ان سب باتوں پر غور کرنے کے بعد میں امر سنگھ کے پاس پہنچا، اس کی بیوی نے ایک حقارت آمیر نظر میری طرف ڈال کر اپنے خاوند کا کرتہ پکڑلیا، گویا کہ میں اس کو بھگائے لئے جاتا تھا۔ میں نے اس کی بیوی کو مخاطب کرکے کہا کہ اب امر سنگھ بغیر لڑائی پر جائے نہیں رک سکتا۔ اور پھر امر سنگھ سے میں نے کہا کہ۔ تمہیں خود اپنی بیوی کو سمجھانا چاہیے۔ تم خود پڑھے لکھے ہو اور قانون قاعدے سے واقف ہو۔ تم جانتے ہو کہ کسی طرح تم اب نہیں رک سکتے۔ امر سنگھ نے کہا کہ۔ میں ابھی سب سمجھا چکا ہوں اور اس کو بتا چکا ہوں۔ میں نے کہا۔ تو اب پھر یہ کیا کہتی ہیں؟ وہ خود بول اٹھی۔ کہ میں یہ کہتی ہوں کہ میں کوئی قانون قاعدہ نہیں جانتی اور میں آج ہی ان کو گھر لے جاؤں گی، دیکھو تو کون روکنے والا ہے۔ جو روکتا ہے اپنی اور اس کی جان ایک کر دوں گی۔​
اس کی نظروں سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ جو کہہ رہی ہے وہی کرے گی بھی۔ میں نے اس سے نرمی سے کہا کہ تم غلطی پر ہو۔ اگر واقعی اپنے خاوند کو چھڑانا چاہتی ہو تو جو میں بتاؤں وہ کرو۔ اس معصوم نے کہا۔ وہ کیا۔ ادھر میں نے دغا بازی سے کام لیتے ہوئے کہ تم بڑے افسر کو ایک عرضی دو اور اس میں یہ لکھو کہ میرے گھر پر کوئی دوسرا کام سنبھالنے والا نہیں۔ میرے میاں کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے عؤض میں ایک رنگروٹ دوں گی۔ یہ سن کر وہ خوش ہوئی اور امر سنگھ نے مشکوک نگاہوں سے میری طرف دیکھ کر کہا۔ کیا کوئی ایسا قاعدہ ہے؟ میں نے اس کو بھی دھوکا دیتے ہوئے گا کہ کوئی خاص قاعدہ تو نہیں ہے۔ مگر میں سفارش کے ساتھ تمہاری بیوی عرضی آگے بڑھا دوں گا۔ اس نے پھر مجھ سے کہا کہ میں یہ رنگروٹ کہاں سے لاؤں گی۔ وہ بولی۔ دو سو روپیہ خرچ کردوں گی۔ پھر میں نے کہا۔ جب تک تمہاری عرضی کا جواب نہ آئے۔ امر سنگھ یہیں رہے گا اور ویسے بھی اس کو ڈاکٹر نے دو تین روز کے لیے آرام کرنے کو کہا ہے۔​
یہ کہہ کر میں نے دفتر کے رسوئی والے کو کہہ دیا کہ امر سنگھ اور اس کی بیوی کے لیے بہت اچھا کھانا پکائے، مگر اس نے منظور نہ کیا اور آٹا دال لے کر خود پکایا کھایا۔​
287​
۔۔۔۔۔۔۔۔​
(۴)​
جب کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کسی رنگروٹ کے رشتے دار یا عزیز و اقارب دفتر میں اس سے ملنے آتے تھے تو جب وہ رخصت ہوتا تھا تو بہت روتے اور غل مچاتے تھے اور اس کی ترکیب میں نے یہ کی تھی کہ اسٹیشن ماسٹر کو لکھ دیا تھا کہ آج ہمارے رنگروٹ جائیں گے اگر ضرورت ہو تو گاڑی دو تین منٹ تک نہ چھوڑنا۔ ہر جگہ فوجی حکم چل رہا ہوتا تھا اور اسٹیشن ماسٹر میرا حکم نہ ٹال سکتا تھا، ادھر یہ انتظام ہوجاتا تھا اور ادھر کسی رئیس کا موٹر کار منگوالیا کرتا اور ایک دم سے رنگروٹوں کو اس میں بٹھا کر ایسے وقت گھڑی دیکھ کر روانہ کرتا کہ گاڑی چھوٹنے کو ہوتی۔ رنگروٹ فوراً بیٹھ جاتے۔ ایک آدمی جو پہلے سے چلا جاتا تھا فوجی پاس تیار کرالیتا تھا۔ جب تک رنگروٹ کے رشتے دار پہنچیں۔گاڑی چھوٹ جاتی تھی اور اس طرح رونے دھونے کا سین اسٹیشن پر نہ ہونے پاتا تھا۔ عزیز رشتہ دار رو پیٹ کر چلے جاتے تھے۔ میں نے امر سنگھ کے لیے بھی یہی تجویز کیا۔ موٹر کا انتظام کرلیا اور اسٹیشن ماسٹر کو رقعی لکھ دیا۔ اس کا جواب بھی آگیا کہ تین منٹ گاڑی روک لوں گا۔​
شام کو موٹر کار آکر کھڑی ہوگئی۔ امر سنگھ کی بیوی کو شبہ بھی نہ تھا۔ کیونکہ دوپہر ہی کو اس کی طرف سے میں عرضی لکھ چکا تھا۔ پھر بھی وہ امر سنگھ کے ساتھ آنے لگی۔ میں نے کہا کہ میں کچھ باتیں کررہا ہوں۔ ننگے پیر بغیر ٹوپی پہنے اور کوٹ پہنے کہیں وہ بھاگا تھوڑی جاتا ہے۔ یہ کہہ کر میں اس سے باتیں کرنے لگا۔ گھڑی دیکھتا جاتا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ گاڑی چھوٹنے کا وقت گذر گیا تو میں نے بغیر کچھ کہے سنے موٹر میں بٹھا دیا۔ اس غیور نوجوان نے معاملہ سمجھ کر میری طرف دیکھا، عجیب طرح دیکھا۔ وہ گویا اس برتاؤ پر مجھ سے شاکی تھا۔ مگر واہ رے ہمت اور آن کہ چوں تک کی۔ اس کی جگہ شاید میں یا اور کوئی ہوتا تو نہ جاتا۔ مگر وہاں اس کو سوچنے کی مہلت تک نہ ملی، موٹر یہ جا وہ جا۔ میرے کمرے سے غائب ہونے سے اور امر سنگھ کے واپس نہ ہونے سے اس کی بیوی چونک سی پڑی اور چشم زدن میں میں نے دیکھا کہ وہ موٹر کے پیچھے چیختی چلی جارہی ہے۔ بھلا کہاں موٹر اور کہاں ایک پیدل لڑکی۔ موٹڑ وہاں پہنچ بھی گئی، مگر ایک عجیب ہی لطیفہ رہا۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ اب امر سنگھ تو چلا ہی گیا، صرف اس کی بیوی کو بھگتنا رہ جائے گا، اس سے میں کہہ دوں گا کہ تیرا خاوند جھانسی گیا، لٰہذا وہ وہاں چلی جائے گیا اور قصہ ختم ہوجائے گا۔​
تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ موٹر چلا آرہا ہے اور لطف یہ کہ امر سنگھ اور اس کی بیوی مع سپاہیوں کے واپس! میں بہت سٹپٹایا مگر موٹر کا دروازہ کھول کر اردلی اترا اور اس نے مجھ سے​
 

فہیم

لائبریرین
288​
……..​
کہا کہ ٹرین آج ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ ہے اور ابھی آئی بھی نہیں ہے۔ یہ وہاں پہنچ گئی اور قبل اس کے وہ غل مچاتی میں اس کو بٹھا واپس لے آیا اور اس سے کہہ دیا کہ امر سنگھ ہوا کھانے نکالا گیا تھا۔ وہ چپکی غصہ میں اپنے میاں کے کرتے کا دامن پکڑے اندر چلی گئی۔ وہ ضرورت سے زیادہ سمجھ دار اور ہوشیار لڑکی تھی۔ وہ خوب جانتی تھی کہ اس ہوا خوری سے کیا مطلب تھا۔ اب وہ امر سنگھ کا گویا پہرہ دے رہی تھی اور مجھے تو گویا نظروں نظروں میں ہی کھائے جاتی تھی۔ میں نے امر سنگھ کو علیحدگی میں (اسے کمرے میں جس میں وہ تھا اور جس کا ایک دروازہ تھا اور دروازے پر اس کی بیوی تھی) سمجھایا کہ۔ آخر اس کا کیا نتیجہ ہوگا۔ اس نے کہا۔ میں تیار ہوں۔ قول ہار چکا ہوں اور چلنے کو تیار ہوں مگر بیوی آخر بیوی ہی ہے۔ میں سمجھا چکا۔ آپ اور سمجھا لیجئے۔ مگر عورت ذات اور پھر میری بیوی، اس کے ساتھ زبردستی یا ہاتھا پائی نہ ہو۔ میں چلنے کو تیار ہوں، کیونکہ جانتا ہوں کہ اب کوئی دوسری راہ نہیں۔​
اس کو آمادہ پاکر میں چلا آیا۔ کچھ مطمئن سا تھا۔ مگر یہ خوب جانتا تھا کہ اب موٹر والا داؤں بھی چلے گا۔​
آپ کو تعجب ہوگا جب میں آپ سے کہوں کہ یہی موٹر والا داؤں چل گیا۔ ایک موٹر آیا۔ اس میں خود بیٹھا اور امر سنگھ اور اس کی بیوی کو بٹھایا۔ امر سنگھ کی بیوی عرضی کے سلسلہ میں گویا جا رہے تھے۔ موٹر ایک جگہ راستہ میں رک گیا، کچھ بگڑ گیا ہے۔ اب میں اترا۔ ذرا امر سنگھ دیکھنا تو سہی۔ وہ بھی نیچے اتر آیا۔ دوسرا موٹر فوراً آپہنچا۔ امر سنگھ کو اس میں بٹھا کر اور اس کی بیوی کو چلاتا ہوا اور پہلی موٹر میں چھوڑ کر سیدھا اسٹیشن پہنچا۔ گاڑی تیار تھی۔ فوراً روانہ کردیا۔​
اب امر سنگھ کی بیوی سے میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ جھانسی سے اپنے میاں کو چھڑا لا۔ وہ صلواتیں اس نے مجھے سنائیں کہ اب تک یاد ہیں۔ روٹی پیٹتی چلی گئی۔ میں اب مطمئن تھا اور کئی باتوں پر غور کررہا تھا، ایک تو اس عجیب سرد مہری پر جو امر سنگھ اپنی بیوی کے ساتھ میرے سامنے برتنے پر مجبور ہوجاتا تھا اور دوسرے اس باہمت لڑکی پر۔ امر سنگھ کی ظاہرا سرد مہری کی تو شاید یہ وجہ ہو کہ امر سنگھ قبل بھری ہونے کے اور نیز بھرتی ہونے کے وقت پر جو پرشکوہ الفاظ میرے سامنے کہہ چکا تھا وہ ایسے تھے کہ نہ جانے کے خیال ہی سے میرے سامنے امر سنگھ کی آنکھیں نیچی ہوجاتی تھیں۔ وہ چاہتا تھا کہ جو کہا وہ کر دکھاؤں اور کر دکھایا۔​
بات آئی گئی ہوگئی، اور بھرتی کی بھیڑ بھاڑ میں ایسے سینکڑوں ہی واقعے ہوتے رہتے تھے۔ لٰہذا یہ واقعہ کچھ روز بعد خود ہی فراموش ہوگیا۔​
(۵)​
چار مہینہ کا عرصہ گذر چکا تھا۔ میں دفتر میں بیٹھا ہوا سر جھکائے کچھ کاغذات دیکھ رہا تھا کہ​
289​
۔۔۔۔۔۔۔۔​
کوئی سامنے آیا۔ میں نے سر تک نہ اٹھایا اسی طرح مشغول رہا۔ فراغت پا کر سر اٹھا کر جو دیکھتا ہوں تو ایک فوجی وردی پہنے نوجوان سپاہی سامنے کھڑا ہے، فوراً اس نے فوجی طریقہ پر سلام کیا، وہ مسکرا رہا تھا کیونکہ یہ وہی امر سنگھ تھا اور لطف یہ کہ اس کی بیوی بھی اس کے قریب ہی پیچھے کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر بھی مسرت اور مسکراہٹ تھی۔ میں متعجب ہو کر۔ ہیں امر سنگھ! تم یہاں کہاں۔ جواب میں اس نے ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیا۔ میں نے کھولا اور کرسی کے تکیہ پر تعجب سے ٹک گیا۔ کیونکہ یہ کاغذ ڈسچارج سرٹیفیکٹ تھا۔ گھٹنے کی ناقابل تشخیص بیماری کی وجہ سے امر سنگھ ڈسچارج کردیا گیا۔ وہ میرے دفتر میں اپنے ڈسچارج کا اندراج کرانے آیا تھا۔ میں نے امر سنگھ سے پوچھا کہ تمہارے گھٹنے میں کیا تکلیف ہوگئی۔ اس نے کہا۔ صاحب کہاں کی تکلیف اور کیسی بیماری۔ پیشتر سے دوگنا کھاتا ہوں اور چوکنا مضبوط اور چاق و چوبند ہوں۔ میں نے پوچھا۔ پھر یہ کیسے؟ اس نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ یہ مجھے چھڑا لائی۔ ناممکن ہے۔ میں نے کہا۔ آج کل کے زمانے میں ایک ایک رنگروٹ گورنمنٹ ہزاروں خرچ کررہی ہے۔ آخر کیسے چھڑا لائی۔ امر سنگھ نے کہا اسے سے پچھ لیجئے۔ چناچہ اس نے سارا واقعہ شروع سے اخیر تک سنادیا۔​
پہلے تو وہ گھر گئی وہاں سے کافی روپیہ لیا اور اپنے خاندا کی روایات کو ٹھوکر مار کر نائی کو اپنے ساتھ لے کر سیدھی جھانسی پہنچی۔ وہاں معلوم ہوا کہ اس طرف رنگروٹ مہو چھاؤنی بھیجے جاتے ہیں، مہو پہنچی اور ایک پجاری کے یہاں ٹہھر کر نائی کو فوجی کیمپ کی طرف امر سنگھ کو ڈھونڈنے بھیجا۔ اس کی وہاں تک رسائی ناممکن تھی۔ زیادہ سے زیادہ ہ یہ کرسکتا تھا کہ خوانچہ والے، یکے والے، دھوبی، بھنگی، بہشتی سے یہ پوچھ لے کہ امر سنگھ تو یہاں نہیں ہے۔ وہ ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ یہاں ہزاروں لاکھوں سپاہی ہیں، ایک نہیں بلکہ سینکرڑوں امر سنگھ ہیں۔ جب چار چھ دن بڈھے نائی کو گھومتے پھرتے ہوگئے تو خود امر سنگھ کی بیوی تلاش کرنے نائی کو لے کر نکلی، وہ ساتھ ہوتی اور ہرکس و ناکس سے امر سنگھ کا پتہ دریافت ہوتا۔ نہ معلوم کتنے امر سنگھ نکلے۔ فوجی قواعد کے وقت دور سے کھڑی ہوکر ہزاروں رنگروٹوں میں سے اپنے میاں کو پہنچاننے کی کوشش کرتی۔ مگر بے سود۔ لیکن ایک روز اپنے شوہر کو دور سے قواعد کرتے دیکھ ہی لیا۔ نڈر ہو کر وہ دوڑی۔ مگر قبل اس کے کہ وہ مل سکے، سب رنگروٹ بھیڑ کی صورت میں مل کر بھاگتے ہوئے قواعد کرتے نہ معلوم کدھر نکل گئے۔ مگر اب تو اس کو پتہ چل گیا تھا۔ ایک ایک بارک میں اپنا آدمی بھیج کر سراغ لگوایا اور بالآخر پتہ چلا ہی لیا۔ مگر امر سنگھ اب یہاں سے بھاگ نہ سکتا تھا۔ وہ پوشیدہ طور سے اپنی بیوی سے بڑی مشکل سے ملا اور اس نے کہا کہ افسر کمانڈنگ اگر چاہے تو مجھ کو چھوڑ سکتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا اور یہ سیدھی افسر کمانڈنگ کے بنگے پر​
 

فہیم

لائبریرین
کل 2 بجے کی گئی ہوئی لائٹ ساڑھے 9 بجے آئی ہماری۔
میں نے سوچا نپٹا ہی دوں، کیونکہ آج سے روٹین تبدیل ہوچلی ہیں ساتھ میں ٹائٹ بھی :)
 

محمد امین

لائبریرین
ہیں۔۔۔۔ شکریہ میں نے کون سے جو محفل میں آیا میں پوسٹ کیا۔۔۔۔رکو ذرا دیکھتا ہوں۔۔۔ابھی پچھلی باتیں پڑھا رھا تھا
 

فہیم

لائبریرین
السلام علیکم آپی اور صبح بخیر،

کل تو آرام ہی کیا سارا دن تقریباً
لیکن آج دیکھیں 10 سے بھی پہلے آفس پہنچا ہوا ہوں۔
ہمارے کولیگ ایک ہفتے کی چھٹیاں لے کر فیصل آباد نکل گئے کل ہی کل میں۔
اور باس نے فون کرکے حکم نامہ صادر کردیا کہ اب مجھے 10 بجے آفس میں ہونا ہے۔
اب وہ 12 بجے والی کہانیاں فی الوقت ختم ہیں۔


یہ:)
 
Top