عظمت سعید کمیشن براڈ شیٹ سمیت حدیبیہ ملز اور سرے محل کی بھی انکوائری کرے گا

بابا-جی

محفلین
4-A7-C3684-1-FE8-47-EF-AA7-D-C38314-FA3-B1-B.jpg
میں یِہ کہنا چاہتا ہُوں کِہ ہر دِل کی آواز، مریم نواز۔
 

سیما علی

لائبریرین
وزیر اعظم عمران خان کو پھنساتے پھنساتے اس براڈشیٹ سکینڈل میں بھی اپوزیشن خود پھنس گئ
ایک قبا زیر ِ قبا اور ایک چہرہ پہ دوسرا چہرہ

حسن نثار
28 جنوری ، 2021

بہت ہی شانت، نرم و گداز، اجلی، دھلی دھلی کوزی سی صبح ہے اور میں اپنے فیورٹ ٹیرس پر بیٹھا اخبار پڑھتے ہوئے سوچ رہا ہوں....کیا لکھوں؟ گزشتہ چند کالم کچھ سٹریل قسم کے تھے لیکن قصور میرا بھی نہیں کیونکہ ’’پھوڑی‘‘ پر بیٹھ کر مسکرانا مناسب نہیں، صف ِ ماتم پہ تو ماتم ہی اچھا لگتا ہے اور ماتم کا موسم ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ایک عذاب ختم نہیں ہوتا کہ دوسرے کی آمد کا اعلان شروع ہو جاتا ہے۔

ایف نائن پارک اسلام آباد کے بجائے اسلام آباد کلب گروی رکھنے کی بلین ڈالر تجویز پڑھ کے بہت مسرور ہوں کہ ’’تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے‘‘۔ اسلام آباد کلب کے بعد اسلام آباد بھی گروی رکھ دیں تو ’’تبدیلی‘‘ تاریخی قسم کا یوٹرن مکمل کر لے گی لیکن ممکن ہو تو اسلام آباد کے بعد اسلام کو گروی رکھنے سے گریز کریں کہ اس کیلئے ہمارے دیگر ’’برادران‘‘ ہی کافی ہیں جو اوپر نیچے اسرائیلی عشق میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ یوں تو قرضوں کے عوض ہماری آئندہ نسلیں بھی گروی پڑی ہیں کہ پیدا ہونے والا بچہ بھی دو لاکھ کا مقروض ہے سو جو چاہیں گروی یعنی مزید گروی رکھ دیں۔

کون کہتا ہے غلامی اور غلاموں کی نیلامی ختم ہو گئی۔ ہم نے بردہ فروشی کی وہ قسم ’’ایجاد‘‘ کی ہے کہ سیدنا بلالؓ کی روح بھی داد دیتی ہو گی۔ رواج تو یہ تھا کہ غلام پیدا ہونے کے بعد بیچے خریدے جاتے تھے۔ ہم نے پیدائش سے پہلے ان کے بیعانے پکڑ لئے اور ایون فیلڈ، سرے محل میں ’’سرمایہ کاری‘‘ کر دی کیونکہ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ ہند سندھ میں کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ کون احمق کہتا ہے کہ اپنا ملک بیچ بیچ کر بیرونِ ملک اثاثے بنانا جرم ہے۔ بیوقوف سمجھ ہی نہیں رہے کہ یہ بھی ترقی یافتہ دنیا کو ’’فتح‘‘ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو کہ لندن کی ساری یا بیشتر جائیدادیں اگر نظریاتی و انقلابی نواز شریف وغیرہ خرید لیں تو بھلا انگلینڈ کے پلے کیا رہ جائے گا؟ یہ تھی اور ہے نواز شریف اور ان جیسوں کی عظیم اقتصادی پالیسی و حکمت عملی جو بہت سے نالائقوں کو سمجھ نہیں آ رہی لیکن خیر ہے..... یار زندہ صحبت باقی۔ پہلی جلاوطنی نے کیا بگاڑ لیا تھا جو یہ والی بگاڑ لے گی۔

ترقی یافتہ دنیا کو ’’مغلوب‘‘ کرنے کی اس سٹرٹیجی کی کچھ نہ کچھ قیمت تو بہرحال ادا کرنا ہو گی۔ سو اگر رواں سال مہنگائی کی شرح 7.2سے 8.2فیصد رہنے کی توقع ہے اور پٹرول ڈیزل وغیرہ پر او ایم سی ڈیلر مارجن بڑھانے کی سمری بھی تیار ہے تو.....

قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ تھے
قدم بڑھائو عمران خان ہم تمہارے ساتھ ہیں

کتنی دلچسپ دنیا ہے ہم پاکستانیوں یعنی غیوروں، باشعوروں کی کہ حافظ حسین احمد جیسا ذہین شخص بھی کہتا ہے کہ ’’بلاول اور مریم کے ہاتھوں مولانا فضل الرحمٰن کی جیب کٹ گئی۔‘‘ حافظ صاحب سے کوئی پوچھے کہ حضرت! مولانا کی جیب میں اپنا تھا ہی کیا جو جاتا رہا؟ یہ درست کہ دونوں بچوں کو ’’جیب تراشی‘‘ کی تربیت ماہر ترین اساتذہ سے ملی ہے لیکن مولانا کی مقدس جیب میں تو اپنا تھا ہی کچھ نہیں اور یوں بھی کچھ لوگوں کی جیبوں کے اندر جیبیں ہوتی ہیں جیسے اکثر واعظ درست کہتے ہیں کہ ’’اک قبا اور بھی وہ زیرِ قبا رکھتے ہیں‘‘ جیسے ’’ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ‘‘۔

’’اک قبا زیر ِ قبا‘‘..... ’’ایک چہرے پر دوسرا چہرہ‘‘۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اصل نظام جس میں پٹرول، ڈیزل مزید مہنگا ہونے کی نوید مسرت آپ کی منتظر ہے۔ کھوکھر پیلس گرانے کے ڈی سی لاہور کے حکم پر عملدرآمد معطل ہو چکا اور خواجہ آصف عرف خواجہ اقامہ کی جیل میں بی کلاس کیلئے درخواست بھی درِ انصاف پر دستک دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں ’’مظلوم‘‘ کو جیل کی دہلیز پر فوری انصاف مل جانے کی امید ہے۔ درخواست منظوری کے بعد خواجہ کو گھر کا کھانا، ہیٹر اور طبی سہولیات فراہم کر دی جائیں گی۔
ہر قیدی کیلئے گھر کے کھانے کی نوبت اس لئے نہیں آتی کیونکہ اکثر عام قیدیوں کے گھروں میں اتنا کھانا ہوتا ہی نہیں کہ اپنے قیدی کو پہنچا سکیں کہ گھر سے جیل تک کھانا پہنچانے کے اخراجات اور ’’اوور ہیڈز‘‘ علیحدہ۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ پاکستان کی تمام جیلوں کے ان تمام قیدیوں کا سروے کیا جائے جو مختلف قسم کے چوری چکاری، مالی جرائم میں ملوث تھے۔ ان پر عائد الزامات فراڈ+ چوری+ ڈکیتی+ ڈاکہ زنی+ رہزنی وغیرہ سے حاصل شدہ رقوم کا ٹوٹل کر کے کسی بھی مقتدر حرام خور کی دولت سے اس کا موازنہ کریں تو انکشاف یہ ہو گا کہ مرغی چور عام لوگوں مع ڈبل شاہوں کی زندگی بھر کے حرام کا گرینڈ ٹوٹل کسی بھی ایک ’’معزز مقتدر‘‘ حرام خور کی ایک دن کی ’’کمائی‘‘ سے بھی کم ہے۔ تو یہ ہے وہ آدم خور نظام جس کے بارے میں قسم اٹھا کر کہا جا سکتا ہے کہ

’’اک قبا اور بھی یہ زیر ِ قبا رکھتا ہے‘‘

اور اس کے ایک چہرہ پر، دوسرا، تیسرا، چوتھا چہرہ بھی موجود ہے جو سیانوں کو بھی دکھائی نہیں دیتا اور وہ اس فراڈ کو ہی ’’جمہوریت‘‘ سمجھے جا رہے ہیں۔
ایک قبا زیر ِ قبا اور ایک چہرہ پہ دوسرا چہرہ
 

جاسم محمد

محفلین
میں یِہ کہنا چاہتا ہُوں کِہ ہر دِل کی آواز، مریم نواز۔
بابا جی ایک آپ ہی اس ملک کی آخری امید تھے پر آپ نے بھی اچھا نہیں کیا ۔ :ROFLMAO:
ایک قبا زیر ِ قبا اور ایک چہرہ پہ دوسرا چہرہ

حسن نثار
28 جنوری ، 2021

بہت ہی شانت، نرم و گداز، اجلی، دھلی دھلی کوزی سی صبح ہے اور میں اپنے فیورٹ ٹیرس پر بیٹھا اخبار پڑھتے ہوئے سوچ رہا ہوں....کیا لکھوں؟ گزشتہ چند کالم کچھ سٹریل قسم کے تھے لیکن قصور میرا بھی نہیں کیونکہ ’’پھوڑی‘‘ پر بیٹھ کر مسکرانا مناسب نہیں، صف ِ ماتم پہ تو ماتم ہی اچھا لگتا ہے اور ماتم کا موسم ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ایک عذاب ختم نہیں ہوتا کہ دوسرے کی آمد کا اعلان شروع ہو جاتا ہے۔

ایف نائن پارک اسلام آباد کے بجائے اسلام آباد کلب گروی رکھنے کی بلین ڈالر تجویز پڑھ کے بہت مسرور ہوں کہ ’’تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے‘‘۔ اسلام آباد کلب کے بعد اسلام آباد بھی گروی رکھ دیں تو ’’تبدیلی‘‘ تاریخی قسم کا یوٹرن مکمل کر لے گی لیکن ممکن ہو تو اسلام آباد کے بعد اسلام کو گروی رکھنے سے گریز کریں کہ اس کیلئے ہمارے دیگر ’’برادران‘‘ ہی کافی ہیں جو اوپر نیچے اسرائیلی عشق میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ یوں تو قرضوں کے عوض ہماری آئندہ نسلیں بھی گروی پڑی ہیں کہ پیدا ہونے والا بچہ بھی دو لاکھ کا مقروض ہے سو جو چاہیں گروی یعنی مزید گروی رکھ دیں۔

کون کہتا ہے غلامی اور غلاموں کی نیلامی ختم ہو گئی۔ ہم نے بردہ فروشی کی وہ قسم ’’ایجاد‘‘ کی ہے کہ سیدنا بلالؓ کی روح بھی داد دیتی ہو گی۔ رواج تو یہ تھا کہ غلام پیدا ہونے کے بعد بیچے خریدے جاتے تھے۔ ہم نے پیدائش سے پہلے ان کے بیعانے پکڑ لئے اور ایون فیلڈ، سرے محل میں ’’سرمایہ کاری‘‘ کر دی کیونکہ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ ہند سندھ میں کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ کون احمق کہتا ہے کہ اپنا ملک بیچ بیچ کر بیرونِ ملک اثاثے بنانا جرم ہے۔ بیوقوف سمجھ ہی نہیں رہے کہ یہ بھی ترقی یافتہ دنیا کو ’’فتح‘‘ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو کہ لندن کی ساری یا بیشتر جائیدادیں اگر نظریاتی و انقلابی نواز شریف وغیرہ خرید لیں تو بھلا انگلینڈ کے پلے کیا رہ جائے گا؟ یہ تھی اور ہے نواز شریف اور ان جیسوں کی عظیم اقتصادی پالیسی و حکمت عملی جو بہت سے نالائقوں کو سمجھ نہیں آ رہی لیکن خیر ہے..... یار زندہ صحبت باقی۔ پہلی جلاوطنی نے کیا بگاڑ لیا تھا جو یہ والی بگاڑ لے گی۔

ترقی یافتہ دنیا کو ’’مغلوب‘‘ کرنے کی اس سٹرٹیجی کی کچھ نہ کچھ قیمت تو بہرحال ادا کرنا ہو گی۔ سو اگر رواں سال مہنگائی کی شرح 7.2سے 8.2فیصد رہنے کی توقع ہے اور پٹرول ڈیزل وغیرہ پر او ایم سی ڈیلر مارجن بڑھانے کی سمری بھی تیار ہے تو.....

قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ تھے
قدم بڑھائو عمران خان ہم تمہارے ساتھ ہیں

کتنی دلچسپ دنیا ہے ہم پاکستانیوں یعنی غیوروں، باشعوروں کی کہ حافظ حسین احمد جیسا ذہین شخص بھی کہتا ہے کہ ’’بلاول اور مریم کے ہاتھوں مولانا فضل الرحمٰن کی جیب کٹ گئی۔‘‘ حافظ صاحب سے کوئی پوچھے کہ حضرت! مولانا کی جیب میں اپنا تھا ہی کیا جو جاتا رہا؟ یہ درست کہ دونوں بچوں کو ’’جیب تراشی‘‘ کی تربیت ماہر ترین اساتذہ سے ملی ہے لیکن مولانا کی مقدس جیب میں تو اپنا تھا ہی کچھ نہیں اور یوں بھی کچھ لوگوں کی جیبوں کے اندر جیبیں ہوتی ہیں جیسے اکثر واعظ درست کہتے ہیں کہ ’’اک قبا اور بھی وہ زیرِ قبا رکھتے ہیں‘‘ جیسے ’’ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ‘‘۔

’’اک قبا زیر ِ قبا‘‘..... ’’ایک چہرے پر دوسرا چہرہ‘‘۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اصل نظام جس میں پٹرول، ڈیزل مزید مہنگا ہونے کی نوید مسرت آپ کی منتظر ہے۔ کھوکھر پیلس گرانے کے ڈی سی لاہور کے حکم پر عملدرآمد معطل ہو چکا اور خواجہ آصف عرف خواجہ اقامہ کی جیل میں بی کلاس کیلئے درخواست بھی درِ انصاف پر دستک دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں ’’مظلوم‘‘ کو جیل کی دہلیز پر فوری انصاف مل جانے کی امید ہے۔ درخواست منظوری کے بعد خواجہ کو گھر کا کھانا، ہیٹر اور طبی سہولیات فراہم کر دی جائیں گی۔
ہر قیدی کیلئے گھر کے کھانے کی نوبت اس لئے نہیں آتی کیونکہ اکثر عام قیدیوں کے گھروں میں اتنا کھانا ہوتا ہی نہیں کہ اپنے قیدی کو پہنچا سکیں کہ گھر سے جیل تک کھانا پہنچانے کے اخراجات اور ’’اوور ہیڈز‘‘ علیحدہ۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ پاکستان کی تمام جیلوں کے ان تمام قیدیوں کا سروے کیا جائے جو مختلف قسم کے چوری چکاری، مالی جرائم میں ملوث تھے۔ ان پر عائد الزامات فراڈ+ چوری+ ڈکیتی+ ڈاکہ زنی+ رہزنی وغیرہ سے حاصل شدہ رقوم کا ٹوٹل کر کے کسی بھی مقتدر حرام خور کی دولت سے اس کا موازنہ کریں تو انکشاف یہ ہو گا کہ مرغی چور عام لوگوں مع ڈبل شاہوں کی زندگی بھر کے حرام کا گرینڈ ٹوٹل کسی بھی ایک ’’معزز مقتدر‘‘ حرام خور کی ایک دن کی ’’کمائی‘‘ سے بھی کم ہے۔ تو یہ ہے وہ آدم خور نظام جس کے بارے میں قسم اٹھا کر کہا جا سکتا ہے کہ

’’اک قبا اور بھی یہ زیر ِ قبا رکھتا ہے‘‘

اور اس کے ایک چہرہ پر، دوسرا، تیسرا، چوتھا چہرہ بھی موجود ہے جو سیانوں کو بھی دکھائی نہیں دیتا اور وہ اس فراڈ کو ہی ’’جمہوریت‘‘ سمجھے جا رہے ہیں۔
ایک قبا زیر ِ قبا اور ایک چہرہ پہ دوسرا چہرہ
چیخیں!

براڈ شیٹ تحقیقات کیلیے عظمت سعید پر مشتمل ایک رکنی کمیشن کا نوٹیفکیشن جاری
ویب ڈیسک ہفتہ 30 جنوری 2021

2136740-azmat-1611989047-733-640x480.jpg

کمیشن براڈشیٹ اور آئی اے آر کے انتخاب، تقرری اورمعاہدوں کی چھان بین کرے گا، نوٹیفکیشن

اسلام آباد: کابینہ ڈویژن نے براڈ شیٹ کیس کی تحقیقات کے لیے جسٹس (ر) عظمت سعید پر مشتمل ایک رکنی کمیشن کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

جسٹس (ر) عظمت سعید پر مشتمل ایک رکنی کمیشن کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا، وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر کابینہ ڈویژن نے نوٹیفکیشن جاری کیا اور نوٹیفکیشن کے ساتھ ٹی او آرز بھی جاری کردیے گئے ہیں۔

نوٹیفکیشن کے مطابق کمیشن کوتحقیقات کے لیے افسران اور ماہرین پرمشتمل کمیٹیاں بنانے کا اختیار ہوگا، کمیشن براڈشیٹ اور آئی اے آر کے انتخاب، تقرری اورمعاہدوں کی چھان بین کرے گا۔

نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ جسٹس (ر) عظمت سعید پر مشتمل کمیشن 2003 میں براڈشیٹ اور انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری فرمز سے معاہدوں کی منسوخی کی وجوہات کی جانچ کرے گا اور ساتھ ہی 2008 میں براڈ شیٹ کوپاکستان کی ادائیگیوں کی وجوہات اور اثرات کی نشاندہی بھی کرے گا۔

واضح رہے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جسٹس (ر) عظمت سعید کی تعیناتی کی مخالفت کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین


براڈ شیٹ تحقیقات مکمل، 15 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا ریکارڈ غائب ہونےکا انکشاف
ویب ڈیسک پير 22 مارچ 2021

2157470-azmat-1616395732-246-640x480.jpg

براڈشیٹ کی رقم غلط افراد کو کس نے ادا کی، تحقیقاتی کمیشن نے معلوم کر لیا، ذرائع۔ فوٹو:فائل


اسلام آباد: براڈشیٹ کمیشن نے تحقیقات مقررہ وقت پر مکمل کرلیں جب کہ قوم کو اربوں روپے کا چونا لگانے والے براڈشیٹ کمیشن کے ریڈار پر آ گئے ہیں۔

وفاقی کابینہ نے نیب اور براڈ شیٹ کے معاملے پر ریٹائرڈ ججز کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کی منظوری دی تھی، جب کہ براڈشیٹ کمیشن نے تحقیقات مقررہ وقت پر مکمل کرلی ہیں اور کمیشن نے تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم آفس کو بھجوا دی جو جوائنٹ سیکرٹری زاہد مقصود نے وصول کی۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: وزیراعظم کا براڈ شیٹ کیس عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ

ذرائع کا کہنا ہے کہ براڈشیٹ کمیشن رپورٹ اور متعقلہ ریکارڈ 500 صفحات پر مشتمل ہے، رپورٹ کے مطابق قوم کو اربوں روپے کا چونا لگانے والے براڈشیٹ کمیشن کے ریڈار پر آ گئے ہیں، معاہدہ کس نے اور کن وجوہات پر کیا سب سامنے آگیا، براڈ شیٹ کی رقم غلط افراد کو کس نے ادا کی تحقیقاتی کمیشن نے معلوم کر لیا، براڈ شیٹ کمیشن نے 24 گواہان کے بیان ریکارڈ کیے، ایک سابق خاتون لیگل کنسلٹنٹ طلبی کے باوجود کمیشن میں پیش نہ ہوئیں، کمیشن نے 9 فروری کو کام شروع کیا تھا اور آج تحقیقات کے چھ ہفتے مکمل ہوں گے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: عالمی فرم براڈشیٹ کا پاکستان کیخلاف اربوں روپے کا دعویٰ

ذرائع کے مطابق براڈشیٹ کمیشن کو تمام تفصیلات نیب کی دستاویزات سے ملیں، اور تحقیقات میں براڈ شیٹ کمپنی کو 15 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا ریکارڈ غائب ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ براڈشیٹ کمپنی کو 15 لاکھ ڈالر رقم کی غلط ادائیگی کی گئی، غلط شخص کو ادائیگی ریاست پاکستان کے ساتھ دھوکا ہے، ادائیگی کو صرف بے احتیاطی قرار نہیں دیا جا سکتا، وزارت خزانہ، قانون اور اٹارنی جنرل آفس سے فائلیں چوری ہو گئیں، پاکستانی ہائی کمیشن لندن سے بھی ادائیگی کی فائل سے اندراج کا حصہ غائب ہوگیا۔

واضح رہے کہ نیب نے مشرف دور میں بیرون ملک چھپائے گئے پاکستانیوں کے اثاثوں کا پتہ چلانے کیلیے برطانوی لیگل فرم براڈ شیٹ ایل ایل سی کی خدمات حاصل کی تھیں، نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ طے کیا جو 2003 میں ختم کردیا گیا تھا جس پر فرم نے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔ گلوبل آربیٹریشن ریویو کے مطابق فرم کا پاکستان کیخلاف 600 ملین ڈالر کا دعویٰ کیا گیا تھا تاہم ایک سینئر عہدیدارنے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ 340ملین کا دعوی کیا گیا۔
 
Top