عطاء اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب کا مطالعہ

فہد مقصود

محفلین
عطاء اللہ ڈیروی صاحب نے اپنی کتاب "دیوبند اور تبلیغی جماعت کا تباہ کن صوفیت کا عقیدہ" برصغیر کے ایک خاص طبقہ فکر کے علماء کے عقائد کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب میں صرف ان عقائد پر بات ہی نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کی کتابوں سے ثبوت بھی پیش کئے گئے ہیں۔

اس کتاب کی بدولت میرے کتنے ہی شبہات دور ہوئے اور مجھے اپنے عقیدہ توحید کو درست کرنے میں بہت مدد ملی۔

اس کتاب کو کتاب و سنت کی ویب سائٹ سے مفٹ ڈاؤنلوڈ کیا جاسکتا ہے۔
دیوبندی اور تبلیغی جماعت کا تباہ کن صوفیت کا عقیدہ | Deobandi Aur Tableeghi Jamaat Ka Tabah-kun Sufiyat Ka Aqeedah | کتاب و سنت
کتاب و سنت کی ویب سائٹ پر اس کتاب اکا ان الفاظ میں تعارف پیش کیا گیا ہے۔
"اس کتاب میں دیوبندیوں اورتبلیغی جماعت کے صوفی ازم سے مرعوب زدہ ان باطل عقائد کا بیان ہے جنہیں دیوبندی علماء صرف بریلوی حضرات سے منسوب کر کے ان پر نشتر چلاتے ہیں۔ اس کتاب میں دیوبندی و تبلیغی علماء کی کتب سے باحوالہ ثبوت پیش کئے گئے ہیں کہ وہ باطل عقائد جو کہ بریلوی احباب ڈنکے کی چوٹ پر اختیار کئے ہوئے ہیں، کم و بیش سب کے سب کسی نہ کسی طرز پر دیوبندی و تبلیغی علماء بھی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس کتاب سے دیوبندی و تبلیغی جماعت کا دین و مذہب قارئین کے سامنے انشاء اللہ واضح ہو جائے گا۔ بصمیم قلب ہم اللہ تعالٰی سے دعا گو ہیں کہ یہ کتاب ان لوگوں کیلئے راہ ہدایت بن جائے جو صدیوں سے پھیلائی گئی صوفیت کے اندھیروں میں گم ہیں اور ابلیس لعین اور اس کے حواریوں کی چالوں سے کتاب و سنت سے اعراض ہی کو دین سمجھے بیٹھے ہیں۔"

میں یہاں پر اس کتاب سے چند پسندیدہ اقتباسات شامل کروں گا۔ آپ سب شرکاء محفل کو بھی دعوت ہے کہ آئیے میرے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کیجئے۔
 

فہد مقصود

محفلین
عقیدہ وحدت الوجود کی تاریخ:

"ایک اور فتنہ نمودار ہو گیا، یہ عقیدہ وحدت الوجود اور حلول کا عقیدہ تھا۔ ایک شخص حسین بن منصور الحلاج اس امت میں پیدا ہوا جو اس عقیدے کا حامل تھا۔ وہ اپنے آپ کو "انا الحق" یعنی خدا کہنے لگا اور اسی عقیدے کی بنیاد پر اسے سولی چڑھایا گیا۔ اس کے قتل سے فتنہ ختم نہیں ہوا لیکن اس کے ماننے والے اپنا حلیہ بدلنے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے نئی نئی اصطلاحیں جاری کیں، نئے نئے الفاظ وضع کئے جن کے اندر انہوں نے حلاج کے مذہب کو چھپا لیا، انہی اصطلاحوں میں سے وحدۃ الوجود، وحدۃ الشھود، حلول اور ظہور کی اصطلاحیں ہیں۔


آگے عطاء اللہ صاحب لکھتے ہیں:

"۔۔ پھر اپنا کام اعلانیہ طور پر کرنا شروع کر دیا انہوں نے اعلانیہ طور پر اپنے آپ کو خدا نہیں کہا لیکن ایسی اصطلاحیں جاری کیں جن کے توسط سے انہوں نے ربوبیت کا اظہار کیا جیسا کہ ابو یزید بسطامی کا قول : لیس فی جبتی الا اللہ یعنی میرے جبے کے اندر خدا ہی ہے اور انہیں ملحدین کی روش پر چلتے ہوئے متاخرین صوفیاء نے لفظ مظہر ایجاد کر لیا۔ لفظ مظہر بریلویوں اور دیوبندیوں کے مشترک پیر و مرشد حاجی امداد اللہ کے کلام میں بہت ملے گا اور ان کے خلیفہ اور جانشین شیخ اشر علی تھانوی کی کتب اس سے بھری پڑی ہیں۔ لفظ مظہر کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز میں ظہور فرمایا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے روپ میں دنیا کے سامنے آتا رہتا ہے۔ اس گمراہ عقیدے کی وضاحت ہم نے اس کتاب میں کی ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق دنیا کی تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی ایک ایک صفت ہے مگر انسان اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا جامع ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی ایک صفت انسان کے علاوہ باقی مخلوق میں ہوئی تو وہ جزوی خدا ہوئی اور انسان مکمل خدا ہوا کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات موجود ہیں اور حلاج کا یہ قول جس کو حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب نے لکھا ہے کہ میری دو حیثیتیں ہیں ایک ظاہر کی اور ایک باطن کی۔ میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے انہوں نے یہ بات اس سوال کے جواب میں کہی تھی کہ تم اپنے آپ کو خدا کہتے ہو تو نماز کس کی پڑھتے ہو؟ تو انہوں نے یہی مذکورہ جواب دیا تھا۔ ان کا یہ جواب اس عقیدہ کی بنیاد پر ہے کہ انسان کی روح مخلوق نہیں یہ خالق کی تجلی ہے۔ اس لئے یہ انسان خالق و مخلوق کا جامع ہے اس کا ظاہری بدن مخلوق ہے اور اس کی روح خالق کی روح ہے۔"
 

فہد مقصود

محفلین
صوفیاء اس کو روح اعظم بھی کہتے ہیں، اس لئے صوفیاء کے مذہب میں خالق کائنات اگر موجود ہے تو اسی انسان میں موجود ہے اس انسان کے باہر اس کا کوئی وجود نہیں ،اسی عقیدے کو وحدۃ الوجود کہتے ہیں یعنی اس کائنات میں ایک ہی ذات کا وجود ہے اور وہ اللہ کا وجود ہے اس کے علاوہ اس کائنات میں کوئی دوسری چیز موجود نہیں ہے یہاں ظاہر میں جو مخلوق نظر آتی ہے وہ اللہ کا غیر نہیں بلکہ اس کے اسماء وصفات ہیں جیسا کہ اس کتاب میں حاجی امداد اللہ کے کلام میں قرآنی آیت ”اللہ لا الہ الاہو لہ الاسماءالحسنیٰ“ (طہ : ) کی تفسیر و تشریح میں بیان ہوا ہے حاجی امداداللہ نے صاف طور پر بیان کیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ اس لئے ہوا کہ وہ اللہ کا مظہر تھے یعنی اللہ تعالی آدم کی شکل و صورت میں ظاہر ہوا۔

حاجی صاحب نے یہ انکشاف بھی فرمایاکہ بیت اللہ کو بھی اسی لئے طواف کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ کا مظہر ہے یعنی اللہ کی ایک شکل و صورت ہے ، وہ غیر اللہ ہوتا تو کبھی مسجود الیہ نہ ہوتااور دیوبندیہ و بریلویہ کے پیرو مرشد نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ابلیس بھی اللہ کا مظہر ہے یعنی مظہر مضل ہے کیونکہ اللہ تعالی کی دو صفتیں ہیں ایک ہادی دوسری مضل یعنی ہدایت دینے والا اور گمراہ کرنے والا جیسا کہ قرآن میں ہے یضل بہ کثیرا ویھدی بہ کثیرا (البقرۃ ) اس لئے ابلیس اللہ کی صفت مضل کا مظہر ہے اور آدم اس کی صفت ہادی کا مظہر ہے اس لئے نہ آدم اللہ کا غیر ہے اور نہ ابلیس اس کا غیر ہے اس کی وضاحت اس کتاب میں اس واقعہ میں آپ کو ملے گی جو اشرف علی تھانوی صاحب کے کلام سے ہم نے درج کی ہے ۔۔۔۔۔۔
 

فہد مقصود

محفلین
دیوبندیوں کے حکیم الامت سے سوال ہواکہ جناب حلول و ظہور میں کیا فرق ہے؟ فرمایا جیسے انسان آئینہ دیکھتا ہے، آئینہ میں نظر آنے والی اس کی صورت اس کے ظہور کی مثال ہے، حلول کی مثال یہ ہے کہ جیسا کہ پانی میں شکر ملا دی جائے اور یہ شکر پانی میں گھل کر پانی ہو جائے شکر کا وجود باقی نہ رہے، اس مثال میں مولانا اشرف علی تھانوی نے حلاج کے اس قول کا دفاع کیا ہے کہ وہ حلول کا قائل نہ تھا، ظہور کا قائل تھا مگر حلاج اک اپنا قول جو خود اشرف علی صاحب نے ہی نقل کیا ہے کہ میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے اشرف علی صاحب کے قول کی تردید کرتا ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہے کہ وہ رب تعالیٰ کو اپنے اندر موجود مانتا تھا اسی لئے وہ کہتا ہے میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے تو اس کا باطن خدا ہوا۔
 

فہد مقصود

محفلین
حاجی امداد اللہ اور ان کے مریدوں کے عقیدے کی اس بات سے وضاحت ہوتی ہے جو انہوں نے اپنے رسالے ”وحدت الوجود “میں لکھا ہے انہوں نے لکھا ہے وحدت الوجود کی مثال یہ ہے جیسے کسی بڑے درخت کا بیج ہوتا ہے اس بیج کے اندر مکمل طور پر وہ درخت موجود ہوتا ہے مگر نظر نہیں آتا جب اس کو بویا جاتا ہے تو اس سے تمام ٹہنیاں ایسے ہی ظاہر ہوجاتی ہے جب درخت اگتا ہے تو درخت ہی نظر آتا ہے اس کا اصل بیج فناہوکر گم ہوجاتا ہے اسی طرح اس کائنات کی اصل اللہ کی ذات ہے جب اللہ نے کائنات بنائی تو وہ اس کائنات میں مخفی ہوگیا اب یہی مخلوق باقی ہے اس کا اصل ظاہر میں موجود نہیں یعنی اللہ کی ذات اس مخلوق سے باہر موجود نہیں یہ ہے عقیدہ وحدۃ الوجود درخت اور اس کے بیج کی مثال سے اس کا ئنات کا حقیقی وجود اور نعوذ باللہ رب تعالی کا اس میں فنا ہوجانا ثابت ہوتا ہے یہ دہریوں کا عقیدہ ہے جو اس کائنات میں رب کا وجود نہیں مانتے اور یہی عقیدہ فرعون کا تھا۔ شیخ ابن عربی صوفی نے فرعون کو مومن لکھا ہے (فصوص الحکم اردو ص 400)

اس کی دلیل اس نے یہ دی ہے کہ جب اس کائنات میں ہر شخص خدا ہے تو فرعون بادشاہ ہونے کی وجہ سے بڑا خدا ہوا ہمارے زمانے کے صوفیاء جن کے عقائد و نظریات کی وضاحت کے لئے ہم نے یہ کتاب تالیف کی ہے اس ابن عربی کو اپنا امام و پیشوا مانتے ہیں، اس کو شیخ محمد زکریا کاندھلوی اپنی کتاب تبلیغ نصاب و فضائل اعمال میں شیخ اکبر قدس سرہ لکھتے ہیں، جس سے صاف طور پر ثابت ہے کہ یہ صوفیاء تبلیغی جماعت کے قائدین و پیشوا اور دیوبندی علماءو اکابرین، اسی ابن عربی کے دین و مذہب پر ہیں ابن عربی کے مذہب کی نشر و اشاعت حاجی امداد اللہ نے خوب کی ہے اور انہوں نے اپنے رسالے ”وحدۃ الوجود“ میں صاف طور پر لکھا ہے کہ دیو بندی اکابرین و شیوخ اس کے مذہب پر ہیں، اور وحدۃ الوجود کے عقیدہ پر ثابت قدم ہیں مگر چونکہ اس عقیدے کو چھپانا فرض ہے اس لئے وہ بظاہر اس کا انکار کرتے ہیں دیکھئے حاجی امداد اللہ کے رسائل پر مشتمل کتاب (کلیات امدادیہ ص ۹۱۲)۔۔۔
 

فہد مقصود

محفلین
حاجی امداد اللہ صاحب نے رسالہ وحدۃ الوجود -کلیات امدادیہ ص ۱۲۲- میں یہ بھی لکھا ہے کہ وحدۃ الوجود کی مثال اس آہنی سلاخ کی ہے جس کو آگ میں ڈال کر گرم کیا گیا ہو اور بظاہر وہ آگ بن گئی ہو اور اسی اثناء میں وہ نعرہ لگائے کہ میں آگ ہوں حالانکہ وہ فی الحقیقت سلاخ ہی ہے لیکن اس کا اپنے آپ کو آگ کہنا بھی کوئی غلط نہیں ہے میں کہتا ہوں حقیقت میں یہ مثال وحدۃ الشہود کی ہے وحدۃ الوجود کی نہیں۔۔۔

وحدۃ الوجود کی صحیح مثال وہ ہے جو حاجی صاحب نے درخت اور اس کے بیج سے دی ہے ، کیونکہ درخت بن جانے کے بعد بیج خود بخود کالعدم ہوجاتا ہے کسی شکل میں باقی نہیں رہتا بعض لوگوں نے صوفیاء کے اقوال کو جن میں انہوں نے اپنے آپ کو یا اللہ کے سوا کسی اور کو خدا کہا ہے ، وحدۃ الشہود پر محمول کیا ہے یعنی ظاہر میں ان کو وہ چیز خدا نظر آئی اگر چہ حقیقت میں وہ چیز خدا نہیں مخلوق تھی ان کو نظر کا دھوکہ ہوا ہے جیسا کہ آگ بن جانے والا لوہا، ظاہر میں آگ ہی نظر آتا ہے اگر چہ درحقیقت اندر سے وہ لوہا ہی ہوتا ہے اس کو وحدۃ الشھود کہتے ہیں۔۔۔

وحدۃ الوجود پر مبنی صوفیاء کے اقوال کو وحدۃ الشہود پر محمول کرنا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا لینے سے زیادہ کچھ نہیں ہے کیونکہ وحدۃ الوجود صوفیاء کے اقوال و ملفوظات میں واضح اور صاف ہے اس میں کوئی تاویل مفید نہیں ہوسکتی جیسا کہ اس کتاب میں درج اقوال سے معلوم ہوگا۔۔۔
 

فہد مقصود

محفلین
حاجی امداد اللہ نے لکھا ہے خدا کو واحد کہنا توحید نہیں واحد دیکھنا توحید ہے (کلیات امدادیہ ص ۰۲۲) یعنی اللہ تعالی کو وحدہ لا شریک سمجھنا توحید نہیں بلکہ توحید یہ ہے کہ اس کے سوا اس کائنات میں کوئی چیز موجود ہی نہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات میں موجود ہر چیز اللہ کا عکس ہے اسی کا سایہ اسی کا پرتو ہے ہر گز اس کا غیر نہیں اور حاجی صاحب مذکور نے لکھا ہے” معلوم شد کہ درعابد و معبود فرق کردن شرک است “(کلیات ص ۰۲۲)

اور حاجی صاحب نے لکھا ہے مبتدی کو الا اللہ کہتے وقت لا معبود ، متوسط کو لا مقصود یا لا مطلوب ، کامل کو لا موجود اور ہمہ اوست کا تصور کرنا چاہئیے (کلیات ص ۵۱)۔۔۔
 

فہد مقصود

محفلین
'مولانا الیاس صاحب کا خاندان صدیقی شیوخ کا معتبر گھرانہ تھا ''(مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت ص ٤١) اس کتاب میں علی میاں لکھتے ہیں :' مولوی الیاس صاحب نے دس سال مولوی رشید احمد گنگوھی کے پاس بسر کئے ص ٥٣ مولوی رشید احمد صاحب گنگوھی مشہور صوفی بزرگ تھے ان سے ہی مولوی الیاس صاحب نے صوفیت کے سلسلوں پر بیعت کی . کتاب مذکورکے ص ٥٤پر علی میاں لکھتے ہیں مولانا الیاس صاحب ذکر کرتے تو ایک بوجھ محسوس کرتے حضرت (گنگوھی) سے کہا تو حضرت تھرا گئے اور فرمایا مولانا محمد قاسم صاحب نے یہی شکا یت حاجی امداد اللہ صاحب سے فرمائی تو حاجی صاحب نے فرمایا اللہ آپ سے کوئی کام لے گا (کتاب مذکور ص ٥٥ )

علی میاں فرماتے ہیں مولوی الیاس ، عبدالقدوس گنگوھی کے روضہ کے پیچھے ایک بوریہ پر بالکل خاموش دوزانوں بیٹھتے(ص٥٨) اور آپ سیدبدایونی کے مزار کے قریب پہروں خلوت میں بیٹھتے.(ص ٧١) حالانکہ مولوی الیاس صاحب کا یہ عمل استمداد بالقبورہے اورقبر والوں سے فیض حاصل کرنے کا طریقہ صوفیانہ ہے
 

فہد مقصود

محفلین
اس لئے ان کے ہاں قبر والوں سے فیض ملتا ہے دیو بندی جماعت کے حکیم الامت اشرف علی صاحب سے سوال ہوا ! کیا اہل قبور سے فیض حاصل ہوتا ہے؟ مولانا نے کہا ہوتا ہے اور حدیث سے ثابت ہے حدیث شریف میں قصہ ہے ایک صحابی نے قبر پر بھولے سے خیمہ لگالیا دیکھا کہ مردہ بیٹھا ہوا قرآن شریف پڑھ رہا ہے انہوں نے سنا، اور قرآن سننے سے ثواب ہوتا ہے تو یہ فیض اہل قبور سے ہوا(الافاضات الیومیہ ج ٨ ص ٢٢٩) ۔ مولوی اشرف علی صاحب نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ ضعیف ہے حافظ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے (تفسیر ابن کثیر اردو ص ٣ پارہ ٢٩) اور الافاضات الیومیہ ج ٣،ص ١١١ میں ہے مولوی اشرف علی صاحب سے ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت قبروں پر جاکر فیض لیتے ہیں وہاں کس کا اذن ہوگا فرمایا وہاں اذن کی ضرورت نہیں اور الافاضات الیومیہ ج ٩ ص ٤٣ میں یہ بھی ہے کہ مولوی اشرف علی صاحب فرماتے ہیں اس لئے میں جو اس عمل میں مشغول ہوا تو اس مشغولی کی وجہ سے مجھ کو اس قدرظلمت محسوس ہوئی کہ اس ظلمت کی مجھ کو برداشت نہ ہوسکی اور میں پریشان ہوگیا آخر میں نے چاہا کہ اس ظلمت کو کس طرح دور کروں تو سوچا… کچھ عرصہ اہل نور کی صحبت میں بیٹھنا چاہئیے تو اس وقت زندوں میں سے کوئی ایسا نہ ملا کہ اس کے پاس بیٹھتا پھر تین کوس کے فاصلے پر ایک بزرگ کا مزار ہے وہاں گیا تب وہ ظلمت دفع ہوئی.

تبصرہ: شرکاء محفل اور قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ کیسے ضعیف احادیث کی بنیاد پر ایمان کے ستون کھڑے کیے جاتے ہیں!!!! بغیر چھان پھٹک کبھی بھی کسی کی اندھی تقلید نہ کریں۔ آپ سب پڑھے لکھے ہیں اور آپ پر سب سے زیادہ تحقیق کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہر کسی سے سوال کرنے کی عادت بنائیے۔ کوئی حدیث کا پیان کرے آپ اس کا حوالہ پوچھیں اگر نہیں دے سکے تو خود تلاش کریں۔ اب تو انٹرنیٹ پر پوری پوری صحیح احادیث کی آنلائن کتب میسر ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہم سے پوچھ لیا کہ ہم نے جانتے بوجھتے کیوں نہیں دین میں غلط باتیں درست کیں تو ہم سب کیا جواب دیں گے؟؟؟ سوچیں، غور و فکر کریں!!!
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
تین سو اولیاء حرم شریف میں ہر وقت رہتے ہیں
الافاضات الیومیہ ج ٦ ص ١٥٨ میں ہے حاجی صاحب نے فرمایا حرم شریف میں ہر وقت تین سو ساٹھ اولیاء حاضررہتے ہیں مجھ کو ایکبار باطنی اشکال پیش آیا جس سے میں پریشان ہوگیا دل میں کہا کہ تم تین سو ساٹھ کس مرض کی دوا ہو یہ خیال آنا تھا کہ ایک شخص آیا اس نے مجھ پر نظر کی وہ اشکال دور ہوگیا. ان واقعات سے معلوم ہوا جماعت دیو بند یہ قبروں سے فیض حاصل کرنے پر یقین رکھتی ہے اور بیت اللہ میں تین سو ساٹھ اولیاء کا ہر وقت موجودہونا بھی دیو بندی جماعت کے اکابرین کے ایمان میں داخل ہے .قریش مکہ نے بھی تین سو ساٹھ بت بیت اللہ میں گاڑ رکھے تھے دیکھئے دیو بندی عقیدے اور مشرکین مکہ کے عقیدے کے مابین کتنی مشابہت پائی جاتی ہے قریش مکہ نے جو بت بنا رکھے تھے وہ بھی ان کے عقیدے کے مطابق اولیاء ہی کے مجسمے تھے.
 
Top