عشق ہے اور دوبارا بھی تو ہو سکتا ہے

رباب واسطی

محفلین
رنج ، راحت کا اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے
یہ جو طوفاں ہے، کنارا بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے اسے اشک ہی سمجھا جائے
میری پلکوں پہ ستارا بھی تو ہو سکتا ہے
آج جس صورتِ حالات سے دوچار ہیں ہم
اس میں کچھ دوش ہمارا بھی تو ہو سکتا ہے
دل لگاتے ہوئے ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا
دل کے سودے میں خسارا بھی تو ہو سکتا ہے
آج اقرارِ محبّت سے گریزاں ہو مگر
کل یہ الزام گوارا بھی تو ہو سکتا ہے
زندگی بھر میں قمر ایک سے اک بار ہی کیوں
عشق ہے اور دوبارا بھی تو ہو سکتا ہے

قمرؔ زیدی​
 
Top