عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام

Wasiq Khan

محفلین
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
راشد اشرف

ایک صاحب اُڑتی چڑیا کے گنا کرتے تھے پر
خط کا مضموں بھانپ لیتے تھے لفافہ دیکھ کر
ان کو قلمی دوستی کرنے کا چسکہ پڑ گیا
ہوتے ہوتے اک بڑی بی سے مقدر لڑ گیا
نامۂ محبوب کی تحریر تھی سہمی ہوئی
ان کو اندازِ نگارش سے غلط فہمی ہوئی
دوسرے مکتوب میں دے ڈالا شادی کا پیام
’’ عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام ‘‘
کر کے شادی گھر میں لے آئے اُسے ذلت مآب
اور برے ارمان سے الٹا جو چہرے کا نقاب
ہائے کہہ کر لڑ کھڑائے، وائے کہہ کر گر پڑے
پیٹ کر چھاتی نئی بیگم سے یوں کہنے لگے
عازم ملکِ عدم تجھ کو جواںسمجھا تھا میں
’’ تیری جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں ‘‘
ہائے قسمت جنوری مانگی، تو جولائی ملی
حال کا طالب ہوا ماضی تمنائی ملی
مجھ کو نانی جان مرحومہ کی یاد آ جائے ہے
میں تجھے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
جان عزرائیل اب نخروں کا تیرے غم کروں
یا میں تجھ پر سورہ یٰسین پڑھ کر دم کروں
کُھل کے بولی وہ محبت کی پٹاری ’’ ہائے ہائے ‘‘
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایّام ہیں
قبر میں ہیں پاؤں لٹکائے مگر گلفام ہیں
کیا ہوا مجھ پر ہے گر انیس سو چودہ کی چھاپ
’’ تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
 
Top