عشق سے گر نظر نکل جائے غزل نمبر 99 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
عشق سے گر نظر نکل جائے
حُسن کا سب سحر نکل جائے

بِن تیرے میں تو وہ پرندہ ہوں
جس کا اُڑنے کا پر نکل جائے

کتنے ارمان سر اُٹھاتے ہیں
ایک حسرت اگر نکل جائے

حسرتیں اور سر اُٹھاتی ہیں
ایک ارماں اگر نکل جائے

ایسی قسمت سے ملی ہے چادر
پیر ڈھانپوں تو سر نکل جائے

اے خُدا مومنوں کی دھرتی سے
خیر باقی ہو شر نکل جائے

جو بھی چاہتا ہے آخرت میں خوشی
وہ خوشی بانٹ کر نکل جائے

دم ہے گُھٹتا کہ ہے ناپید وفا
جنگلوں میں شہر نکل جائے

پھر بھٹکتی ہے آسمان تلے
جب دعا سے اثر نکل جائے

لوگ خُود کو خدا سمجھ بیٹھے
خوف مرنے کا گر نکل جائے

کاش انسان کی طبیعت سے
نفرتوں کا زہر نکل جائے

بس تری یاد ہو خدا، دل سے
خواہشِ مال و زر نکل جائے

دل یہ کہتا ہے یاد میں ان کی
زندگی مختصر نکل جائے

چاند سے کاش یہ کوئی کہدے
شب ہے ڈھلنے کو گھر نکل جائے

دل کے رکنے تلک نہ یاد آئے
دل سے وہ اس قدر نکل جائے

آرزو ہے کہ تیرا ساتھ رہے
اور سکوں سے سفر نکل جائے

پھیل جاتی ہے آگ کی مانند
راز کی جب خبر نکل جائے

تیرے جانے کے بعد آنکھوں سے
آنسوؤں کا بحر نکل جائے

زندگی تو اِدھر تماشہ ہے
چل اے دل ہم اُدھر نکل جائے

آج پھر یاد ان کو کرتے ہیں
اشک اے چشمِ تر نکل جائے

ماسِوا ان کے کچھ نہیں چاہئے
ایک خواہش مگر نکل جائے


تنگ ہیں روزگار کے غم سے
اے خدایا یہ ڈر نکل جائے


عقلِ عالم کو دنگ کرتا ہے
عشق جب بے خطر نکل جائے

اک اشارے پہ مہر بھی پلٹے
جب علی کی عصر نکل جائے

اپنے اسلاف سے وابستہ رہو
ہاتھ سے یہ نہ در نکل جائے

سینے میں دل ہے مضطرب شارؔق
سوچتا ہے کدھر نکل جائے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بھائی ، مذاق کی معذرت لیکن اس غزل کا انیسواں شعر یہ ہے:
زندگی تو اِدھر تماشہ ہے
چل اے دل ہم اُدھر نکل جائے
اب آپ ہی بتائیے کہ اِس " ہم ادھر نکل جائے" کی داد آپ کو کس طرح دی جائے ۔:):):)
بقول راحل بھائی ، یار کچھ تو خیال کرو ۔ ہمیشہ معیار کو مقدار پر ترجیح دی جانی چاہئے ۔
 
Top