عشق،چاہت،دوستی سے، اختلاف اُس نے کیا از ناز مظفرآبادی

ابو سلوی

محفلین

عشق،چاہت،دوستی سے، اختلاف اُس نے کیا
دل کے ہر اِک فیصلے سے، انحراف اُس نے کیا

تب کہیں جا کر کھلے، اُس پر رموزِ بندگی
اپنے اندر بیٹھ کر جب اعتکاف اُس نے کیا

غیر ممکن ہے وہ اب بھرنا، کسی تدبیر سے
دل کی دیواروں کے اندر، جو شگاف اُس نے کیا

مل گیا تھا، منصفوں کو، بے گناہی کا ثبوت
دار تک پہنچا کے مجھ کو، انکشاف اُس نے کیا

زیر بحث آیا تو تھا، محشر میں، جرمِ شاعری
پر غزل سن کر مری، ہنس کر، معاف اُس نے کیا

زلف، لب، رخسار، آنکھیں، قدوقامت، چال ڈھال
اِتحادی فوج کو، میرے خلاف اُس نے کا

ناز تم یوں ہی ہواؤں میں بناتے ہو محل
وہ تمہارا ہے، کہاں یہ اعتراف اُس نے کیا
نازمظفرآبادی




یہ سانحہ بھی محبت کے،سانحات میں تھا
جو دسترس میں نہیں تھا،وہ ممکنات میں تھا

تمہارے بعد چمن میں،نہ کوئی پھول کھلا
خزاں کا عکس درختوں کے پات پات میں تھا

مرا جنوں ہی وہاں،غم کا ترجماں ٹھہرا
شناسا کون مرا، کُوئےالتفات میں تھا

ہمارے قتل کا ساماں تھے،وہ لب و عارض
شریک آنکھ کا کاجل بھی،واردات میں تھا

میں آئینوں کو سجانےکی بات کیا کرتا
کہ پتھروں کو سجانا لوازمات میں تھا

تلاش جس کی رہی ناز عمر بھر مجھ کو
چھپا ہوا وہ کہیں،میری اپنی ذات میں تھا
ناز مظفرآبادی​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top