عشق،محبت،پیار خفا ہیں غزل نمبر 83 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
عشق،محبت،پیار خفا ہیں
اس دل سے سب یار خفا ہیں

بوسہ دینے سے ڈرتے ہیں
کیا لب سے رخسار خفا ہیں

اک تیرے ناراض ہونے سے
چین،سکون،قرار خفا ہیں

آخر ڈوب ہی جائے گی
کشتی سے پتوار خفا ہیں

اے ساقی اک جام پلادے
دیکھو سب میخوار خفا ہیں

گل سے محبت کرنے پر
بلبل سے گلزار خفا ہیں

لیلیٰ سے کیوں ملنے دیتے
قیس سے دنیا دار خفا ہیں

کیوں فرہاد سے ملنے دیتے
شیریں سے سرکار خفا ہیں


شارؔق دیر سے پھر لوٹے گھر
وہ بیٹھے تیار خفا ہیں
 

الف عین

لائبریرین
عشق،محبت،پیار خفا ہیں
اس دل سے سب یار خفا ہیں
... تکنیکی طور پر درست، مگر مفہوم ؟

بوسہ دینے سے ڈرتے ہیں
کیا لب سے رخسار خفا ہیں
.. درست

اک تیرے ناراض ہونے سے
چین،سکون،قرار خفا ہیں
... پہلا مصرع تقطیع میں تب آتا ہے جب ہ کو گرا کر ض کا و سے وصال کءا جائے
یعنی اس طرح 'ناراضو.... نے سے' جو غلط ہے
تیری ناراضی کے باعث

آخر ڈوب ہی جائے گی
کشتی سے پتوار خفا ہیں
.. پہلے مصرع میں آخر میں 'یہ' کی کمی ہے

اے ساقی اک جام پلادے
دیکھو سب میخوار خفا ہیں
... شتر گربہ ہے،
ساقی بس اک جام پلا دو
کیا جا سکتا ہے

گل سے محبت کرنے پر
بلبل سے گلزار خفا ہیں
پہلے مصرع میں وہی 'یہ' کے ہم وزن کوئی لفظ درکار ہے
پھولوں سے الفت کرنے پر

لیلیٰ سے کیوں ملنے دیتے
قیس سے دنیا دار خفا ہیں
.. درست

کیوں فرہاد سے ملنے دیتے
شیریں سے سرکار خفا ہیں
.. یہ ایک طرح کا دہرایا جانا ہے، اسے نکال دو

شارؔق دیر سے پھر لوٹے گھر
وہ بیٹھے تیار خفا ہیں
.. چل سکتا ہے یوں بھی، اگرچہ تیار اور خفا دو الگ الگ حالتیں ہیں، ایک کو دوسرے کی صفت بھی قرار نہیں دے سکتے، عطف ہی کرنا پڑے گا
 

امین شارق

محفلین
بہت شکریہ سر آپ کی اصلاح کے بعد غزل پیش ہے۔۔۔

عشق،محبت،پیار خفا ہیں
اس دل سے سب یار خفا ہیں

مفہوم یہ ہے کہ میرے دل کو کبھی عشق محبت پیار الفت کچھ راس نہیں آیا ہمیشہ ناکامی ملی

بوسہ دینے سے ڈرتے ہیں
کیا لب سے رخسار خفا ہیں

اصلاح کے بعد
تیری ناراضی کے باعث
چین،سکون،قرار خفا ہیں

اصلاح کے بعد
آخر ڈوب ہی جائے گی یہ
کشتی سے پتوار خفا ہیں

اصلاح کے بعد
ساقی بس اک جام پلا دو
دیکھو سب میخوار خفا ہیں

اصلاح کے بعد
پھولوں سے الفت کرنے پر
بلبل سے گلزار خفا ہیں

لیلیٰ سے کیوں ملنے دیتے
قیس سے دنیا دار خفا ہیں

شارؔق دیر سے پھر لوٹے گھر
وہ بیٹھے تیار خفا ہیں
 
Top