تبصرہ کتب عرفان صدیقی ۔ حیات، خدمات اور شعری کائنات از عزیز نبیل ، آصف اعظمی

11002496_922321381136059_9094380848757224288_n.jpg


سخن میں رنگ تمہارے خیال ہی کے تو ہیں ۔ عرفان صدیقی
چوہدری لیاقت علی

توڑ دی اس نے وہ زنجیر ہی دلداری کی
او ر تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی

کچھ عرصہ قبل میرے پسندیدہ ترین شاعر جناب سعود عثمانی نے میری فرمائش پر اپنے پسندیدہ اشعار بذریعہ برقی ڈاک بھیجے جس میں یہ شعر بھی شامل تھا۔اس کے بعد سعود صاحب کا ایک مضمون ، تم سے بڑھ کر تو مجھے موج فنا چاہتی ہے پڑھنے کا موقع ملا جو شاعر عرفان صدیقی کی شاعری اور سعود صاحب کی ان سے ملاقاتوں پر مبنی تھا۔ مضمون کا ایک ایک لفظ محبت و عقیدت میں ڈوبا ہوا۔ مضمون میں عرفان صاحب کی شاعری کا انتخاب جیسے دل کو چھو گیا۔ جنوری ۲۰۱۵ء میں سعود صاحب اسلام آباد آئے تو میرے لیئے عرفان صدیقی صاحب کی کلیات دریا بطور تحفہ لائے۔ میرے لیئے تو سعود صاحب سے ملاقات ہی نعمت غیر مترقبہ تھی اس پر ایک ایسی کتاب جو ان کی پسندیدہ ترین کتاب ہو تومیری خوشی کی کیا انتہا ہو گی۔ مجھے ذاتی طور پر عام ڈگر سے ہٹ کر کی گئی شاعری بے حد پسند ہے۔ ایسے میں عرفان صدیقی کا مجموعہ کلام کیا کہنے۔ انتہائی سادہ اور پر اثر انگیز شاعری۔ جگہ جگہ دل کو چھو لینے والے اشعار۔ کچھ اشعار تو بغیر کسی کوشش کے جیسے دل میں بس گئے۔

ذرا سی بات ہے دل میں اگر بیاں ہو جائے
تمام مسئلے اظہار حال ہی کے تو ہیں

چاہتی ہے کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے
تم سے بڑھ کر تو مجھے موج فنا چاہتی ہے
روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن
خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

سر شوریدہ کو تہذیب سکھا بیٹھا ہوں
ورنہ دیوار مجھے روکنے والی بھی نہیں
بہت دنوں میں یہ بادل ادھر سے گزرا ہے
مرا مکاں کبھی سائباں بھی رکھتا تھا

ملی نہ جب کوئی راہ مفر تو کیا کرتا
میں ایک، سب کے مقابل میں ڈٹ گیا آخر

آخری امید کا مہتاب جل بجھنے کے بعد
میرا سوجانا مرے دیوار ودر کا جاگنا

یا مرا وہم ہے یہ نغمہ کوہ گزراں
یا کوئی نہر ہے اس کو ہ گراں کے پیچھے

اسی طرح کے ان گنت اشعار جا بجا ان کے کلیات میں بکھرے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سعود عثمانی کا لکھا ہوا تعریفی کلمہ صد فیصد سچا لگنے لگا کہ:
ہندوستان میں تو ایک ہی شاعر تھا اور وہ تھا عرفان صدیقی

میرے ذہن میں عرفان صاحب کے بارے میں کچھ اور جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ غالبا فروری میں محترم عزیز نبیل کی مرتب کردہ کتاب عرفان صدیقی حیات، خدمات اور شعری کائنات کی اشاعت کا علم ہوا۔ کسی طرح عزیز صاحب سے رابطہ ہو ا اورانہوں نے بہت محبت سے اپنی کتاب بھیجی۔ کتاب کیا ملی گویا عرفان صدیقی صاحب کی پوری شخصیت اور ان کی شاعری کے بہت سے پہلو آشکار ہوئے۔ سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ محترم عزیز نبیل اور آصف اعظمی نے ذاتی دلچسپی سے ایک ایسا مرقع تیار کیا ہے جو عرفان صدیقی صاحب پر تحقیق کام میں ممد اور سند ہو گا۔

سب سے پہلے کتاب کا ظاہری حسن۔ یہ کتاب نہایت سادہ اور پر کشش سر ورق کی حامل ہے۔ کتاب کا عقبی ورق بھی سادہ اور پر کشش ہے۔ سب سے اچھی بات یہ لگی کہ کتاب چونکہ عرفان صاحب پر لکھی گئی ہے، لہذا سرورق اور پس ورق پر انہی کی تصاویر لگائی گئیں ہیں وگرنہ تجریدی فن کے نمونے سے قارئین کا امتحان بھی لیا جا سکتا تھا۔ کاغذ بہت اعلیٰ، طباعت عمدہ اور اغلاط سے پاک۔ بہت سے رنگین اوراق سے مزین یہ کتاب انتہائی کم قیمت میں دستیاب ہے۔ تاہم یہ کتاب بحرین، قطر اور عرفان صدیقی کے آبائی وطن میں دستیاب ہے۔ پاکستان میں یہ کتاب کہیں بھی دستیاب نہیں ہے۔ اللہ کرے کہ ہمارا ہمسایہ ملک ہمارے ملک میں دہشت گرد بھیجنے کے بجائے کچھ اچھی کتابیں بھیجے تو شاید دونوں طرف کا بھلا ہو جائے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب پہلی نظر میں ہی دل کو چھو جاتی ہے۔
کتاب کو بجا طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یاد عرفان، تفہیم عرفان، عرفانیات اور آئینہ عرفان۔ پہلے حصے یاد عرفان میں یادیں، ملاقاتیں اور خاکے ہیں۔ ان کے قریبی اعزہ کے ان کے دوستوں کے ان کے رفقاء اور ان کے ہم عصروں کے۔ دوسرے حصے میں عرفان صدیقی کی شاعری ، ملازمت اور صحافت کے مختلف پہلو ؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ تیسرے حصے عرفانیات میں ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو، ان کی نثری تحاریر اور ان کی شاعری کا انتخاب اور چوتھے حصے آئینہ عرفان میں ان کے ذاتی کوائف، ان کی کتب کے سرورق اور ان کی چند تصاویر شامل کی گئیں ہیں۔ پوری کتاب کو اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ ان کی حیات اور شعری کائنات کا کوئی بھی گوشہ خالی نہ رہے۔ تاہم میری ذاتی رائے میں ایک مقولے کے مصداق کہ بہتری کی گنجائش ہر وقت موجود ہوتی ہے، اگر ان کے ذاتی کوائف کتاب کے شروع میں ترتیب دیئے جاتے تو یہ قیمتی کتاب مزید بہتر ہو جاتی۔ مگر اب بھی تما م حصے اپنا مقصد من و عن بیان کر رہے ہیں۔

عرفان صدیقی حیات، خدمات اور شعری کائنات کے پہلے حصے یاد عرفان میں بہت سے اچھے انشایئے شامل ہیں تاہم ان کے قریبی عزیز سید محمد اشرف کا لکھا ہوا مضمون اس کتاب کا خاصہ ہے۔ اشرف صاحب کی نثر بہت سادہ اور اندازبیان میں بہت روانی ہے۔ عرفان صدیقی کو جتنے قریب سے انہوں نے دیکھا شاید ہی کسی اور کو اتنی قربت ملی ہو۔ عرفان صاحب کی ذاتی زندگی، ان کا مزاج ، ان کا شعری سفر ، ان کی عادات و اطوار ہر چیز نہایت تفصیل سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ عرفان صاحب اوسط قدو قامت اور صبیح چہرے کے حامل تھے۔ مجموعی طور پر ایک دھیمی طبیعت رکھتے تھے۔ گفتگو سلیس اور شستہ۔ سنجیدہ، بردبار اور حلیم۔ بہت کم گو ،وضعداری اور شرافت ان کی پہچان تھی۔ یہ تو تھی ان کی شخصیت ۔ اب ذکر ہو ان کی شاعری کا ۔ جس پر میری حیثیت ہی کیا کہ میں بات کروں۔ بڑے بڑے ناقدین اور شعراء کرام جن میں محترم شمس الرحمٰن فاروقی ، ڈاکٹر خورشید رضوی اور سعود عثمانی جس کلام پر قلم اٹھا چکے ہوں، میری کیا اوقات کہ میں ان پر بات کروں۔ سو میں انہی کی زبانی کچھ اہم چیزیں نقل کرتا ہوں:

بقول شمس الرحمٰن فاروقی:

عرفان صدیقی کی غزل میں فن کی اہمیت، بلکہ فن کی حرمت پوری طرح جلوہ گر ہے۔ ان کے مصرعے انتہائی مربوط ہوتے ہیں اور ایک مصرعہ دوسرے کی پشت پناہی کرتا ہے۔ بات آگے بڑھاتا ہے اور دونوں مل کر مضمون قائم کرتے ہیں۔ یہ ایسا فن ہے جو آج بھی بہ مشکل ہی لوگوں کے قابو آتا ہے۔ عرفان صدیقی کی غزل میں استعارے سے زیادہ پیکر اور براہ راست جذبات سے زیادہ مضمون کی تازگی نظر آتی ہے۔ ان کے یہاں نئے الفاظ اور نئے فقرے کثرت سے ہیں۔ کہیں کہیں ان پر انگریزی کا بھی ہلکا سا اثر ہے۔ فارسیت اور جدت کے امتزاج سے ان کی غزل کی فضا نہایت خوشگوار اور شائستہ ہے۔ جو چیز ان کی آواز کو مزید انفرادیت عطا کرتی ہے وہ اس کا ٹھہراؤ اور لہجے کی روانی ہے۔
سعود عثمانی ان کے بارے میں رقم طراز ہیں:

ان (عرفان صدیقی) کی غزل ایک تہذیب کی بازیافت ہے۔ اور یہ تہذیب ان کی غزل کی دریافت۔اور یہ دونوں مل کر انکے شعری مزاج کی اس طرح تشکیل کرتے ہیں جیسے رنگ برنگ مشروب اس طرح ملا دئے جائیں کہ ایک ہی رنگ نظر آئے اور انہیں علحدہ علحدہ کرنا ممکن نہ رہے۔

مظہر امام لکھتے ہیں:

عرفان صدیقی کی نازک خیالی ، ان کے ڈکشن کی نفاست، ان کے شعور حیات کی رعنائی اور ان کے تصور عشق کی تہذیب ان کے اشعار سے چھلکی پڑتی ہے۔

اسعد بدایونی یوں عرفان صاحب کے فن کا احاطہ کرتے ہیں:

عرفان صدیقی کی غزل اپنے زمانے کا سچا اور کھرا اعلامیہ بن کر ابھرتی ہے۔ اس میں وہ تمام اعمال و افعال موجود ہیں جنہیں عرف عام میں عصری حسیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عرفان صدیقی کی شعری کائنات کا احاطہ اگر صرف چند لفظوں میں کرنے کی کوشش کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ گم گشتہ تہذیب و ثقافت کی باز آفرینی اور حال سے مثبت رابطے کی کوشش کے شاعر ہیں، مگر ان چند الفاظ سے ان کی شاعری کو پوری طرح سمجھا نہیں جاسکتا کہ یہ صرف گم شدگی اور رابطوں کی کہانی نہیں ہے۔ اس میں جو زیریں لہجہ ہے وہ ایک حساس فنکار کے ذہن کا مواج سمندر ہے اور اس سمندر کی لہریں غضب ناکی و طرب ناکی کا مجموعہ ہیں۔

ڈاکٹر توصیف تبسم عرفان صدیقی کے بارے میں یوں قلم اٹھاتے ہیں:

ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کا سفر، دراصل تہذیب انسانی ہی کے تسلسل کا دوسرا نام ہے۔ عرفان اسی تسلسل حیا ت کا شاعر ہے، اس کے یہاں زندگی ایک مسلسل بہاؤ کی صورت میں موجود ہے۔

اس نادر کتاب میں شامل ایک مضمون عرفان صدیقی اور روایت کی پاسداری جسے محترم توقیر عالم توقیر (پٹنہ) نے تحریر کیا ہے؛ کا ایک ایک حرف پڑھنے کے قابل ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے اساتذہ کی شاعری کی عرفان صدیقی پر چھاپ اور پھر عرفان صدیقی کی شاعری میں موجود استعارے ، ان کے الفاظ کا چناؤ، غرض ہر سطر پڑھنے کے قابل ہے۔

کتاب کا تیسراحصہ عرفان صاحب کے خیالات اور افکار پر مبنی گفتگو پر مشتمل ہے۔ ان کی گفتگو اور مختلف موضوعات پر ان کی گرفت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے صاحب علم اور قادر الکلام تھے۔ کوئی بھی موضوع ہوان کا مطالعہ نہایت وسیع ، ان کی گفتگو سادہ مگر مدلل ہوتی تھی۔ نیر مسعود، شمس الرحمٰن فاروقی اورشکیل صدیقی سے ان کی گفتگو۔ مضمون کی طوالت سے خوف آرہا ہے ورنہ ان کی گفتگو کا بہت سا حصہ شامل کرنے کے لائق ہے۔ اسی حصے میں ان کی شاعری اور ان کے اخباری کالموں کا ایک عمدہ انتخاب بھی شامل ہے۔ کتاب کے اواخر میں ان کی تمام مطبوعات کا عکس اور ان کی چند نادر تصاویر۔ غرض کتاب اپنے عنوان کو ہر طرح سے صحیح ثابت کرتی ہے۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ مرتبین کی عرفان صدیقی سے عقیدت، ان تھک محنت ، ذاتی توجہ اور دلچسپی ہی اس کتاب کے اتنے بامعنی اور پر اثر ہونے کا باعث ہے۔

کتاب کے مختلف مضا مین پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ جس طرح ہم اپنے ملک میں نابغوں کی قدر نہیں کرتے ویسے ہی ہمارے ہمسایہ ملک میں بھی یہی روایت ہے۔ پھر ایک اور مسئلہ بھی دونوں ممالک میں ازل سے چل رہا ہے اور وہ ہے دھڑے بندی۔ جہاں دو افراد ملے وہیں انھوں نے ایک گروہ بنا لیا۔ پھر جس دھڑے کو اوپر آنے کا موقع ملا وہ باقیوں کا خلاف ایک محاذ کھول لیتا ہے۔ادباء اور شعراء میں بھی لسانی، علاقائی اور مسلکی بنیادوں پر بہت سے دھڑے موجود ہیں۔ تاہم عرفان صاحب سب سے لا تعلق ہو کر ایک ایسے شجر کی آبیاری میں مصروف رہے کہ جو پوری آب و تاب سے اپنی چھب دکھلا رہا ہے۔ انہوں نے سب سے بے نیاز ہو کر ایسی کمال شاعری کی کہ جس کی بہت سی پرتوں پر سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ ان کے فن کے بہت سے رخ اس کتاب میں شامل ہیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ ابھی بھی بہت کام باقی ہے۔ تبھی تو میں عرفان صدیقی سے معذرت کے ساتھ ، انہی کے ایک شعر میں معمولی رد وبدل کر کے کہتا ہوں کہ:

غزل تو خیر ہر اہل سخن کا جادو ہے
مگر یہ نوک پلک تیرے فن کا جادو ہے
 
آخری تدوین:
Top