عرب دانشور اب اسرائیلی سائنس و ٹیکنالوجی کے مداح!

arifkarim

معطل
عرب میڈیا اکثر اسرائیل یا یہودیوں کے بارہ میں سخت اور توہین آمیز بیان بازی کا استعمال کرتا ہے البتہ ان کے دانشوروں کی طرف سے کبھی کبھار مضامین اسرائیل کی کامیابیوں پر تعریف کیلئے بھی لکھے جاتےہیں۔ یہ مضامین بنیادی طور پر اسرائیل کی اعلیٰ ٹیکنالوجی و سائنس پر مبنی تہذیب و ثقافت کے بارہ میں ہوتے ہیں اور اسکو باقی عرب دنیا کیلئے مشعل راہ تصور کیا جاتا ہے۔
The Middle East Media Research Institute (MEMRI) جو کہ عرب دنیا کے میڈیا پر نظر رکھنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے ،نے پچھلے سال اس حوالہ سے کچھ اقتباسات تیار کیئے ہیں۔ یہ چند اقتباسات یہاں پیش کئے جا رہے ہیں:

ْْْ× عبد اللہ بن بخيت ایک نامور سعودی کالم نگار پچھلے سال اپریل میں اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر لکھتے ہیں ،"عربوں کے برعکس یہود جدید مغربی تہذیب کے محض صارف ہی نہیں بلکہ اسکے خالق بھی ہیں۔۔۔ یہ جدید مغربی تہذیب جسکی ٹیکنالوجی ہم آپس میں روابط کیلئے استعمال کرتے ہیں، جسکے ایئر کنڈیشنرز کی آغوش میں ہم سوتے ہیں، جسکے ہسپتالوں میں ہمارا علاج ہوتا ہے، اور جسکی سیمنٹ کی چھتوں کے نیچے ہم اپنی نماز ادا کرتے ہیں، یہ تہذیب و ثقافت ہمارے دشمنان اول یہود و نصاریٰ کی تہذیب ہے!"

× پچھلے سال کوئیتی مصنف عمر الطب طبی نے فروری اور مارچ کے مہینہ میں تین اسرائیل حمایتی مضامین شائع کئے جن میں تفصیل کیساتھ یہ بیان کیا کہ آخر کس طرح اسرائیل نےاس خطے میں برتری اور کامیابی حاصل کی اور وہ بھی بغیر کسی قدرتی وسائل کے۔ وہ لکھتے ہیں،"کیا تم نے کبھی اسرائیل نامی چھوٹے سے جغرافیائی وجود کو پوری دنیا اپنی مٹھی میں دبانے سے متعلق غور و فکر کیا؟ بجائے پوری دنیا کیخلاف مسلسل لعنت ملامت کرنے کے، کیا تم نے اسرائیل کی تمام شعبہ جات زندگی میں انگنت کامیابیوں کو سمجھنے کی کوشش کی ؟
اسرائیل اپنی سائنسی اور تحقیقاتی پالیسیوں کے تحت دنیا بھر کے ذہین یہودی دماغوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسرائیل ایک ایسا وجود ہے جو ہمارے پچھواڑے ہی میں بستا ہے، وہاں ہمارے جیسا ہی موسم ہے، اور اگر ہم اسکی مزید گہرائی میں جائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہاں پیشتر عرب ممالک کی نسبت کوئی قیمتی قدرتی وسائل جیسے تیل کی فراوانی موجود نہیں ہے۔ لیکن اسکے باوجود یہ وجود ہر شعبہ زندگی میں ہم عربوں سے آگے ہے۔۔۔ اسرائیل بہت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ دور حاضر کی جدید اعلیٰ تعلیم ہی ہر کامیاب معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور اسکی ثقافت اور اتحاد کی بنیاد ہے۔"

× مصری مصنف علی خامس نے اخوان المسلمین کے صدر محمد مرسی کے دور حکومت کے دوران اخبار الوفد میں لکھا،"یہودی انقلابات سائنسی نوعیت کے ہوتے ہیں جبکہ عرب انقلابات المناک ہوتے ہیں۔ یہ وہ کھرا سچ ہے جو ہم نے حالیہ عرب بہار جیسے ناکام انقلابات بونے کے بعد کاٹا جس نے ہمارے قائم عرب معاشروں کی دھجیاں بکھیر دیں!"

×عراقی مصنف مہدی ماجد عبداللہ پچھلے سال ایک عرب ویب سائیٹ إيلاف میں ایک مضمون بنام 'عربوں اور مسلمانوں کواسرائیلی اخلاقیات سے سیکھنا چاہئے' میں لکھتے ہیں،"میں نے بہت اذیت برداشت کی اور آج بھی جھیل رہا ہوں ان تمام جذباتی احساس برتریوں کو جو ہمیں بچپن ہی سے یہود قوم کے بارہ میں اس عرب اور اسلامی تہذیب میں سکھائی جاتی ہیں۔ جیسے یہود بہت کمینے ، ڈرپوک لوگ ہوتے ہیں اور کوئی انکا یقین نہیں کرتا، کہ وہ دھوکے باز ، منافق اور نرگسیت ہوتے ہیں۔ اور دیگر قوموں کو تباہ و برباد کرنے میں ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کا قہر ہے۔ جو دوسرے لوگوں سے جلتے اور نفرت کرتے ہیں اور انسانیت کی فلاح و بہبود نہیں چاہتے وغیرہ۔۔۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، اور ہوش سنبھالنے کے بعد میرا واسطہ یہودی مرد، خواتین سے پڑا، ویسے ویسے یہ دھند کے بادل چھٹ گئے۔ اور یہود کے بارہ میں یہ خودساختہ مفروضے اور قیاس جن کو میں حق سمجھتا تھا بالکل اسفید جھوٹ بن کر سامنے آگئے۔ " عبداللہ مزید کہتے ہیں کہ،"فلسطینیوں کا اسرائیل میں کامیاب علاج کیا جاتا ہے۔ کیا کوئی عرب ملک اسرائیلیوں کو اس قسم کا علاج معالجہ فراہم کر سکتا ہے؟" مزید انہوں نے اسرائیلی جمہوریت کو بھی سراہا،"جب ہم اسرائیلی پارلیمنٹ میں عربی ممبران اسمبلی کو اسرائیلی حکومت کیخلاف کھلے عام تنقید کرتے اور الزامات کا نشانہ بناتے دیکھتے ہیں تو خود ہی سمجھ آجا تی ہے کہ آزاد ی اظہار کس چڑیا کا نام ہے!"

اسرائیلی اخبار Jpost سے ماخذ:
http://www.jpost.com/Middle-East/Ar...els-technology-democracy-and-morality-351122
فیڈ بیک کیلئے اوپر لنک پر کلک کریں۔ امید ہے یہ ویب سائٹ بلاک نہیں ہو گی :)
 
آخری تدوین:

ساجد

محفلین
خود مسلمانوں کی ترقی کا بھی وہی دور رہا ہے جب وہ سائنس و تکنیک میں آگے آگے تھے ، آج اس مقام پر دوسرے کھڑے ہیں اور ہم اپنے اپنے " مذہب" کے قلعے مضبوط کرنے میں مگن ہیں ۔
 

محمد سعد

محفلین
امید کرتا ہوں کہ اس گفتگو کے نتیجے میں اچھے کی وجہ سے برے کو اچھا یا برے کی وجہ سے اچھے کو برا نہیں بنایا جائے گا۔
 
Top