عدم برداشت

سیما علی

لائبریرین
عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان – روخان یوسفزئی
ستمبر 21, 2019 روخان یوسفزئی, کالم


کہا جاتا ہے کہ انسان زبان کے پردے میں چھپا ہوا رہتاہے جب زبان کھولتاہے تواس سے اندازہ لگ جاتا ہے کہ اس کی علمیت، مزاج، تربیت، سوچ واپروچ اور رویہ کیا اور کیسا ہے۔اس لیے رویے انسانی زندگی کا خاصہ ہیں۔ہمارا لہجہ، انداز بیان، آداب ملاقات اور تعلقات کو نبھانے کا طرز اور رنگ ڈھنگ رویوں کی ہی عکاسی اور ترجمانی کرتا نظرآتاہے۔ مشہور معقولہ ہے کہ غصہ کے وقت صبر کا ایک گھونٹ انسان کو ہزاروں پچھتاوؤں سے بچالیتا ہے۔ انسان کی زندگی جذبات واحساسات سے عبارت ہے، انسانی رویے جذبات واحساسات کی غمازی کرتے ہیں۔کبھی انسان پر خوشی کے جذبات کا غلبہ ہو تو وہ ہنس کراس کا اظہارکرتاہے جبکہ دل غم ویاس میں گرفتہ ہو تو آہیں اور سسکیاں دم بھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔کبھی دل شوخی وشرارت پر اکسانے لگے تو طفلانہ فعل سے تسکین حاصل ہوتی ہے مگر ایک عجیب گھمبیراحساس غصے اور عدم برداشت کی صورت پیدا ہوتاہے اور اس کی تباہ کاریاں انسان کی زندگی کا چین وقرار لوٹ لیتی ہیں۔یہ احساس اپنے ساتھ طوفانی بگولے لے کرآتاہے اور برسوں سے قائم رشتوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیتاہے۔ رشتے اور تعلق داریاں، جن فصل کی آبیاری محبت واخلاص سے کی جاتی ہے، عدم برداشت کے سیلاب سے پل بھر میں ڈھیرہوجاتی ہیں۔یہ رویہ اتنا بدصورت اور بھیانک ہے کہ ہر رشتے اور تعلق کا گلہ گھونٹ دیتاہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ یہ ایک وقتی کیفیت ہوتی ہے اور جب انسان اس کے چنگل سے نکلتاہے تو وہ تہی داماں رہ جاتاہے۔پھرخود کو کوسنے اور پچھتانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔انسان کواپنی اس نادانی کا ادراک اس وقت ہوتاہے جب وہ اپنے ہی ہاتھوں سب ملیامیٹ کرچکاہوتاہے۔ عدم برداشت انسانیت کے خوش نما چہرے پربدنما دھبہ ہے ایسا دھبہ جس کومٹانے کا خیال مشکل سے ہی دل میں اترتاہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ شدت پسندانہ طرز عمل ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیل رہاہے،گھر ہو یابازار، پبلک ٹرانسپورٹ، سکول ہو یا پارک،آفس ہو یا پکنک سپارٹ یہاں تک کہ مساجد میں بھی عدم برداشت کے عملی مظاہرے ہرجگہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مرض معاشرے کی رگ وپے میں اترچکاہے۔ ذاتی زندگی سے لے کراجتماعی رویوں تک ہرچیز اس کی لپیٹ میں ہے۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے یہ وباء ہر سوُ پھوٹ پڑی ہے اور علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی ہے تو اکثریت اس سے نابلد ہے۔ عدم برداشت کے مظاہرے کئی صورتوں میں سامنے آسکتے ہیںسماجی کو نگلتی ہوئی عدم برداشت دھیرے دھیرے ہمارے سماج کو کھوکھلا کررہی ہے۔ انفرادی واجتماعی سطح پر رویے خطرناک حدتک عدم برداشت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں،یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے ہر سو بھیانک و کریہہ صورتوں والے رویوں کے دیس میں آنکلے ہیں۔ اس کی مثال معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان سے ہی مل جاتی ہے جہاںایک نئے شادی شدہ جوڑے کی برداشت مل کر پوراخاندان آزماتاہے اور انہیں اس قدر زچ کردیاجاتاہے کہ بات عدم برداشت کی دہلیز پار کرجاتی ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ سب آناً فاناً ہوجاتاہے بلکہ یہ مسلسل عمل ہے جس سے رفتہ رفتہ انسان قابو کھودیتاہے۔ یوں ہی کسی کے اندر ہروقت کیڑے نکالے جائیں، اس کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے،بات بات پر طنزو طعنے دیے جائیں تو ایک روز برداشت جواب دے ہی جاتی ہے اور انسان عدم برداشت کا اسیر بن جاتاہے، سڑکوں پہ اس کی مثالیں موجود ہیں۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کو راستہ یا پبلک ٹرانسپورٹ میں سیٹ دینے کو تیار نہیں اور جو ذرا دیر کے لیے ٹریفک اشارہ بند ہوا تو نان سٹاپ ہارن دے کر سب کا جینا حرام کردینا ایک معمول کی بات ہوگئی ہے۔ مہذب قوموں کایہ شیوہ ہے کہ وہ سڑک کراس کرنے والوں کے لیے راستہ دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں مگرہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہواہے۔ مذہبی معاملات میں عدم برداشت اکثراوقات مذہبی انتہاپسندی کی صورت اختیار کرجاتی ہے، معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت مسلمان کو مسلمان کا دشمن بنارہی ہے۔ ایک فرقے کا بندہ دوسرے فرقے کی مسجد میں نماز پڑھنے کوتیار نہیں۔ یہ تو ابھی نہایت معمولی سی بات ہے۔ دو الگ الگ اہل فکر کے لوگ ایک دوسرے سے رشتہ داری تو درکنارسلام دعا کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ کئی قیمتیں جانیں فرقہ وارانہ فسادات کی نذر ہوجاتی ہیں۔ کبھی تو مذہب کے نام پرعدم برداشت کے واقعات کا محرک اپنے ذاتی واجتماعی اغراض ومقاصد ہوتے ہیں جن کو مذہب کی آڑ میں چھپا کر پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی اکثریت پر جارحیت کا الزام عائد کیاجاتاہے۔ مذہبی لحاظ سے ایک دوسرے کوطنز کانشانہ بنانے والے اپنے لیے بھی بے سکونی کا سامان پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ بعض اوقات اس قدر طوالت اختیار کرجاتاہے کہ وہ شخص خود تو دنیا سے چلا جاتاہے مگر اپنے رویے سے نفرت کے ایسے بیج بوجاتاہے جن سے اگنے والے پودے سدا ہرے رہتے ہیں اور یوں تن آور درخت بن جاتے ہیں۔ دین کو عمیق نگاہوں سے جانچا جائے تو بخوبی معلوم ہوتاہے کہ دین میں برداشت کا جو سبق دیاگیا ہے وہ بے مثال ہے مگر انسان صرف اپنے اندر ابھرنے والے جذبات کو قابو نہ کرسکنے کی وجہ سے صبروبرداشت کا دامن ہاتھ سے چھوڑدیتاہے اور زندگی بھر کے پچھتاوے اپنے نام کرلیتاہے۔
 
Top