خرد اعوان
محفلین
عجیب شام تھی جب لوٹ کر میں گھر آیا
کوئی چراغ لیے منتظر نظر آیا
دعا کو ہاتھ اٹھائے ہی تھے بوقتِ سحر
کہ اک ستارہ مرے ہاتھ پر اتر آیا
دیئے جلاتا ہوا اندلس کی گلیوں سے
تجھے خبر نہ ہوئی اور میں گزر آیا
تمام عمر ترے غم کی آب یاری کی
تو شاخ جاں میں گل تازہ کا ثمر آیا
گلے دے لگ کر میرے پوچھنے لگا دریا
میں اپنی پیاس کیوں صحرا میں چھوڑ کر آیا
پھر ایک شام درِ دل پر دستکیں جاگیں
اور ایک خواب کے ہمراہ نامہ بر آیا
یہ کس دیار کے قصّے سنا رہے ہو نوید
یہ کس حسین کا آنکھوں میں خواب در آیا
کوئی چراغ لیے منتظر نظر آیا
دعا کو ہاتھ اٹھائے ہی تھے بوقتِ سحر
کہ اک ستارہ مرے ہاتھ پر اتر آیا
دیئے جلاتا ہوا اندلس کی گلیوں سے
تجھے خبر نہ ہوئی اور میں گزر آیا
تمام عمر ترے غم کی آب یاری کی
تو شاخ جاں میں گل تازہ کا ثمر آیا
گلے دے لگ کر میرے پوچھنے لگا دریا
میں اپنی پیاس کیوں صحرا میں چھوڑ کر آیا
پھر ایک شام درِ دل پر دستکیں جاگیں
اور ایک خواب کے ہمراہ نامہ بر آیا
یہ کس دیار کے قصّے سنا رہے ہو نوید
یہ کس حسین کا آنکھوں میں خواب در آیا