عجیب رنگ میں اب کہ ‘مہم’ گزری ہے۔۔۔۔سہیل سانگی

دہشتگردی اور انتہا پسندوں کی کارروایوں کی وجہ سے تین صوبوں میں عوام کے وسیع تر حلقوں کو متحرک نہیں کیا جاسکا۔

گزشتہ ماہ پشاور میں الیکشن آفس کے قریب ہوئے بم دھماکے کے بعد امدادی کارروائی کا منظر۔ پاکستان میں اس مرتبہ انتخابی مہم تشدد اور حملوں کی زد میں رہی۔ —. فوٹو اے پی
خوف اور غیر یقینی فضا میں انتخابی مہم بالآخر اپنے اختتام کوپہنچی۔ انتخابی مہم کے دوران جو دہشتگردی اور تشدد واقعات ہوئے سو ہوئے مگر پولنگ کے دن بھی ایسے واقعات کوخارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انتخابات کے اعلان سے لے کر کاغذات نامزدگی کی چھان بین اور انتخابی مہم کے دوران بھی غیریقینی چھائی رہے کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ گزشتہ ہفتے آرمی چیف جنرل کیانی کے بیان سے صورتحال بہتر ہوئی تھی۔
یہ انتخابات ایسے موقع پر ہو رہے ہیں جس کے تقریباً ایک سال بعد افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی ہوگی۔ مبصرین ان انتخابات کو اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور طالبان کی انتخابی عمل میں مداخلت کو بھی اسی پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔
ملک میں دہشتگردی اور انتہاپسندی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ تضاد روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ امن امان کی صورتحال خراب ہورہی ہے۔ ملک کے معاشی حب کراچی میں ٹارگٹ کلنگز کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ انتخابات ایک میلے کا سماں ہوتے ہیں لیکن یہاں سوگ جیسی صورتحال چھائی رہی۔ انتخابات میں بعض نئے رجحانات سامنے آئے جو ناصرف ان انتخابات پر بلکہ ملک کی آئندہ سیاست پر بھی اثرانداز ہوں گے۔
پنجاب میں روایتی جوش خروش موجود ہے۔ باقی تین صوبوں میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے۔ کیا یہ انتخابات متنازع تو نہیں ہو جائیں گے؟ یہ سوال بار بار اُٹھایا جارہا ہے۔
تین اہم جماعتوں کا تعلق اتفاق سے سابق حکمران اتحاد سے ہے، ان کو پہلے دھمکیاں دی گئیں کہ وہ انتخابی عمل سے دور رہیں۔ بعد میں ان پر دہشتگردوں کے حملے ہوئے۔ ان حملوں کی وجہ سے بدامنی کا مسئلہ پیدا ہوا، مگر اس کے ساتھ ساتھ شدت پسندوں کی ڈکٹیشن تھی کہ کس پارٹی کو آئندہ حکومت میں آنا چاہئیے کس کو نہیں۔
بھٹو فیکٹر پاکستان کے انتخابات میں ہمیشہ اہم رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر 2008ء تک اسٹیبلشمنٹ اور پی پی مخالف حلقے اس فیکٹر سے تو کبھی اس کے شیڈو سے لڑتے رہے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ بھٹو فیکٹر کے بغیر انتخابات ہو رہے ہیں۔ ذائقے کے طور پر بلاول بھٹو کا ویڈیو خطاب آخری ایام میں شامل کیا گیا۔ اگر پیپلز پارٹی انتخابات جیت جاتی ہے تو یہ واقعی ثابت ہو جائے گا کہ اب یہ زرداری کی پارٹی ہے۔
انتخابی اتحاد پاکستان کی انتخابی تاریخ کا ایک خاصہ ر ہے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ملکی سطح پر کوئی اتحاد نہیں بن سکا۔ حالانکہ ایک جیسی پالیسی اور پروگرام رکھنے والی جماعتیں میدان میں موجود تھیں۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون دونوں کا جھکاؤ دائیں بازو کی طرف ہے اوربہت ساری باتوں میں ایک جیسی ہیں۔ دونوں کا حلقۂ انتخاب پنجاب ہے۔ مگر اتحاد نہ کر سکیں۔ ان کے اتحاد نہ کرنے کی وجہ سے پنجاب میں پہلے دو فریقی مقابلہ ہوتا تھا، وہ اب سہ فریقی ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی مخالف ووٹ تقسیم ہوگیا ہے۔
پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم نے بھی کوئی اتحاد نہیں بنایا۔ یہ تینوں جماعتیں حکومت میں اتحادی رہی ہیں۔ دوران حکومت صدر زرداری بارہا یہ کہتے رہے کہ اتحادی الیکشن بھی ساتھ لڑیں گے۔ انتخابی عمل شروع ہونے کے بعد تینوں جماعتوں کو دہشتگردی کے مشترکہ خطرے کا سامنا رہا۔ جس نے ان تینوں کو قریب تو کیا لیکن یہ قربت انتخابی اتحاد میں تبدیل نہ ہوسکی۔
نواز شریف نے بھی مختلف جماعتوں اور گروپس کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ بنائی ۔ یہی صورتحال دوسری پارٹیوں کی بھی رہی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہورہا ہے کہ انتخابی نتائج کے بارے میں کوئی بھی قابل اعتماد پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا سیاسی گروہوں نے اپنے آپشن کھلے رکھے ہیں اور کوئی اتحاد نہیں بنایا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم پرستوں کو میدان میں لایا گیا۔ ان کی سربراہی پیرپگار اکے ہاتھ میں دے دی گئی۔ تاکہ صورتحال قابو میں ہی رہے۔ لیکن یہ اتحاد اور فنکشنل لیگ سندھ میں پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا پارہی ہے۔
یہ بھی تاریخ کا حصہ رہے گا کہ دہشتگردی اور انتہا پسندوں کی کارروایوں کی وجہ سے تین صوبوں میں عوام کے وسیع تر حلقوں کو متحرک نہیں کیا جاسکا۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی کے امیدوار اور قیادت خطرے میں تھی تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں نے بلوچ رہنما کی انتخابی سرگرمیاں کو بلاک کیے رکھا۔ شاید اب ان تینوں صوبوں سے سیاسی نہیں بلکہ انتظامی طور پر نمٹا جائے گا۔
پہلی مرتبہ ملک میں سیاسی ابلاغ (پولیٹیکل کمیونیکیشن) کا طریقۂ کا ر تبدیل ہوا۔ اس کی ایک وجہ سیاسی مہم کو درپیش خطرات تھے تو دوسری طرف میڈیا اور کمیونیکیشن کی نئی ٹیکنالوجی کی دستیابی بھی تھی۔ ٹی وی پر ویڈیوز، اخبارات میں اشتہارات، ویڈیو لنک سے خطاب جاری رہا۔ پیپلز پارٹی نے خاص طور پر اس کا بھرپور استعمال کیا۔ کیونکہ صدر زرداری کچھ خطرات کے پیش نظر تو کچھ عدلیہ کے دباؤ کے نتیجے میں انتخابی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پارہے تھے۔
بلاول بھٹو جن کو پروگرام کے مطابق ان انتخابات میں بھرپور کردار ادا کرنا تھا، مگر سلامتی کے خطرات کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرسکے۔ انہوں نے مہم کے آخری ہفتے میں ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرنا شروع کیا۔ زخمی ہونے کے بعد عمران خان نے بھی ہسپتال سے ویڈیو کے ذریعے خطاب کیا۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف انتخابی گیم پر اثر انداز ہونے کے لیے تشریف لائے۔ مگر انہیں اثرانداز نہیں ہونے دیا گیا۔ اگرچہ وہ قید ہیں اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ الیکشن کے بعد وہ رہا ہو جائیں گے۔ ان کو قید رکھنے کا مقصد انتخابات کی ایکوییشن پر اثرانداز ہونے سے روکنا تھا۔
عوام کی شرکت بہت ہی کم رہی۔ بغیر ماس موبلائزیشن اور سیاسی کے نعرے کے یہ انتخابات غیر سیاسی لگ رہے تھے۔ انتخابی مہم کے اختتام تک عوام کی کم دلچسپی نمایاں تھی۔ سندھ میں ہر امیدوار اپنی اپنی انتخابی مہم چلاتا رہا۔
تجزیہ نگاروں کی رائے کے برعکس عمران خان ایک سیاسی قوت کے طور پر اُبھرے۔ سندھ اور بلوچستان میں عمران خان انتخابات کے حوالے سے غیرحاضر رہے۔ ان کی موجودگی ناصرف پنجاب میں بلکہ خیبر پختونخوا میں بھی محسوس کی گئی۔ وہ واقعی کتنی نشستیں لیں گے اس بارے میں تجزیہ نگاروں کی آراء میں اتنا فرق ہے کہ آسانی سے اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان میں انتخابی جیت کے لیے ہمدردی کا ووٹ شاید لازمی ہوگیا ہے۔ عمران خان کو ان کے گرنے کے واقعے سے اب ان کو ہمدردی کا ووٹ مل سکتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک حادثہ یا اتفاقی واقعہ تھا۔ اس سے مسلم لیگ نون کی پوزیشن پر اثر پڑسکتا ہے۔ نواز شریف نے ان سے اظہار یکجہتی کے طور پر ایک روز کے لیے انتخابی مہم معطل کردی۔ حالانکہ ملک کی تین بڑی پارٹیاں عملاً انتخابی سرگرمیوں سے باہر رہی، لیکن نواز شریف نے ناہموار انتخابی مہم پر باقی پارٹیوں کے لیے ٹھیک سے مطالبہ بھی نہیں کیا۔
روایتی بااثر وڈیرے، چوہدری، سردار اور پیر جو عرف عام میں سیاسی خاندان کہلاتے ہیں وہی امیدوار ہیں۔ جو اس سے پہلے مختلف ادوار میں منتخب ہوتے رہے ہیں۔
عوام تبدیلی چاہتے ہیں اور وہ آسرا لگائے بیٹھے ہیں کہ انتخابات ان کی قسمت بدل دیں گے۔ لیکن ایسا کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ سیاسی جماعتیں حکومت میں اپنی ایڈجسٹمنٹ چاہ رہی ہیں۔ بنیادی تبدیلی سے متعلق کوئی نعرہ فضاؤں میں نہیں گونجا۔ نظام کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی بحث نہیں چھڑی۔ انتخابی منشور اگرچہ بہت ہی مبہم تھے، اپنی جگہ پر رہے، ان منشوروں پر جلسوں بہت کم بات ہوئی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دہشتگردی کے خطرات اور موجودہ صورتحال میں عوام کس حد تک پولنگ اسٹیشن تک پہنچتے ہیں۔ اور اندھوں میں کانا راجا ہی سہی، پر اپنی مرضی سے منتخب کرنے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔

ربط
 
Top