مریم افتخار
محفلین
خواتین و حضرات! نصف دہائی سے دو سال پہلےہمارے ادارہ جی نے اپنی بے تاب روح کے سکون کے لیے ایک انٹرویو کی فی البدیہہ لڑی کا اجراء راتوں رات کیا تھا جس کی انٹرویو منعقد کرنے والوں کو بھی کانوں کان خبر نہ ہوئی تھی اور اس پر مستزاد یہ کہ ان کا انداز مکمل ان اپولوجیٹک تھا۔ اگر کسی کو مطلب سمجھ نہ آئے تو ہم کہنا چاہتے ہیں کہ یہی انداز تھا جو ابھی ہمارا ہے!!!

اب جب ان کے اپنے انٹرویو کی باری آئی تو انہوں نے نور جہاں سے تان ملا لی۔انٹرویو کا پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ادارہ مدیرانِ انٹرویو و محفل سے ہرگز معذرت خواہ نہیں کہ ہم سے پیارے عرفان سعید بھائی کی یہ بیتابی دیکھی نہیں جا رہی تھی-
یوں بھی جب سے معلوم پڑا کہ انہوں نے پالیمر میں مقالے جات لکھ رکھے ہیں ہمیں ان سے اُلفت و ہمدردی یکساں و بیک وقت ہو گئی ہے- لہذا ہم انکا انٹرویو شروع کر رہے-
انج وی بقول شخصے اگر دو انٹرویو ایک ساتھ بھی چل رہے ہوں تو کوئی نو بال نہیں ہو جاندی- وغیرہ وغیرہ
اگرچہ ہم اگلے دو تین دن کچھ مصروف تھے اور اپنی انٹرویو ٹیم کے ساتھ منظم ہوم ورک وغیرہ کا آغاز کرنے ہی والے تھے مگر عبداللہ بھائی کی ریزسٹینس نے نیوٹن کے تیسرے قانون کے مطابق برابر مگر مخالف سمت میں ری ایکشن کو جنم دیا۔ سو ہم نے سوچا نہ سمجھا اور یہ لڑی بنا لی۔ امید ہے کہ محفلین کے انٹرویو (سلسلہ دوم) کی یہ پہلی کڑی نہایت ہی مبارک ثابت ہوگی اور ہمارے سبھی محفلین ان سے اتنے سوال پوچھیں گے کہ یہ لڑی علم کے چھپے ہوئے سمندر میں مدوجزر کی عکاس بن جائے اور اسے دیکھ کر ہنسنے والے ہنسیں، رونے والے بھی ہنسیں اور جو لوگ ہنسنا بھول چکے ہیں وہ بقول ہمارے ابن سعید بھائی گالوں کے غبارے بنا کے پھوڑیں!ایداں نہیں چلدے انٹرویو کُڑیے
ایداں نہیں چلدے وغیرہ وغیرہ
آخری تدوین: