عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات؛ پروفیسر خورشید احمد

الف نظامی

لائبریرین
عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات
پروفیسر خورشید احمد​
میری آج کی گفتگو کا محور تین اُمور ہیں:-
ایک موجودہ معاشی عالمی بحران، دوسرا اسلامی معیشت اور اُس کا کردار، اور تیسرا اس پس منظر میں علمائے کرام کی ذمہ داری۔
موضوع بہت وسیع ہے، میں صرف ضروری اشارات ہی کرسکوں گا، اسلامک ڈویلپمنٹ بنک جدہ میں جو Annual Prize Lecture ہوتا ہے، اپریل ۲۰۱۲ء میں مجھے یہ خطاب کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، اور اُس میں میں نے تقریباً اسی موضوع کو لیا، میں اُس کے بنیادی نکات آپ کے سامنے آج کی اس محفل میں چاہتا ہوں کہ پیش کروں۔
عالمی معاشی بحران
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ابھی چند روز پہلے ہی ایک اور بھونچال مغرب کی مالیاتی دنیا میں آیا ہے، اور ایک بہت بڑے بنک--برکلے بنک--کے بہت ہی تکلیف دہ اسکنڈلز (scandals) سامنے آئے ہیں، جس سے معلوم ہوا کہ بنکوں کے بارے میں یہ تاثر کہ وہ بڑے قانون اور ضابطے کے پابند اور اپنی روایات کے مطابق کام کرتے ہیں،درست نہیں ہے۔ بلکہ اس سطح پر بھی کرپشن، گٹھ جوڑ، ہوس، ذاتی منافع اور ہیر پھیر (under hand)، ان سب کا رواج ہے۔
اور بنک آف انگلینڈ کے گورنر نے پرسوں ہی ایک بہت اہم تقریر کی ہے، جس میں اُس نے یہ کہا ہے کہ ہمارا بنکاری نظام پانچ سال سے شدید بحران کا شکار ہے، لیکن ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔یعنی ۲۰۰۷ء سے یہ بحران شروع ہوا ہے۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے پورے بنکاری طور طریقوں (banking culture)کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہم بحران سے نہیں نکل سکتے۔
اور پھر سب سے اہم نکتہ جو آخر میں اُس نے کہا ہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ محض مالی اور معاشی نہیں ہے، بلکہ اخلاقی ہے، اور جب تک اخلاقی اصلاح کا کام نہ ہو، جب تک ان تمام معاملات کے لیے اخلاقی اصول اور ضابطے بنانے اور اُن کو متحرک اور مؤثر کرنے کا کام نہ کیا جائے اُس وقت تک اس دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔
یہ وہ چیز ہے جو اس وقت مغرب کی سوچ کو سمجھنے والے اہلِ دانش کہنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ بلاشبہ ہمیشہ کچھ لوگ ایسے رہے ہیں جنہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے۔ اور اسلامی مفکرین تو علامہ اقبال سے لے کر آج تک اپنے اپنے انداز میں اس نکتے کو پیش کرتے رہے ہیں۔ اسلامی معاشیات کے باب میں پچھلے چالیس سال میں جو بھی تھوڑی بہت خدمات ہم نے انجام دی ہیں، اس کا بھی ایک مرکزی نکتہ یہی تھا۔ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ وہ جو اس بات کے منکر تھے کہ اخلاق اور معیشت کا کوئی تعلق ہے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ اخلاق کے بغیر معیشت کی اصلاح ممکن نہیں ۔
وقت کی کمی کے باعث میں بے شمار حوالے اپنے پاس ہوتے ہوئے بھی اُن کو پیش کرنے کی زحمت نہیں کررہا ہوں۔ صرف آپ کو بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ پچھلے ایک سال میں اور خاص طور سے پچھلے تین مہینے میں ایک درجن سے زیادہ چوٹی کے معاشی لکھنے والوں نے کھل کر یہ بات کہی ہے کہ جو معاشیات ہم نے آج تک پڑھی اور پڑھائی ہے، اور جس پر بنیاد ہے ہمارے پورے نظام کی، اس کی چولیں ہل گئی ہیں۔ جن بنیادوں پر وہ قائم تھی وہ متزلزل ہیں، اور اس کی بہترین عکاسیLondon Economist نے اپنے ایک سرورق پر کی ہے، جس کا عنوان ہی یہ ہے کہ What is wrong with Economics?، اور جو تصویر انہوں نے دی ہے وہ ایک معاشیات کی کتاب ہے جو ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گر رہی ہے۔ تو ایک نئی معیشت کی ضرورت، معاشی معاملات کو ایک نئے اپروچ کی ضرورت، یہ اس وقت ایک ایسی طلب ہے جو دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ اور یہ بڑا سانحہ ہوگا کہ مسلمان، جن کے پاس اﷲ کی کتاب ہے اور اس کی بنیاد پر ایک دوسرے متبادل نظام کا پورا نقشہ موجود ہے، وہ اپنی کوتاہی یا بدعملی کی بناء پر دنیا کے سامنے اُس نظام کو پیش نہ کرسکیں۔

دیکھیے، جدید سرمایہ داری کا بظاہر تو آغاز۱۸ویں صدی کے وسط میں ہوا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی سوچ اس سے پہلے سے موجود ہے، وہ فکری میدان میں بھی، عملی میدان میں بھی ترقی کررہی تھی، لیکن صنعتی انقلاب نے ایک ایسی کیفیت پیدا کردی جس کی بناء پر معیشت کا یہ تصور اور معاشی نظام کا یہ خاکہ ایک غالب قوت کی حیثیت سے سامنے آیا۔ جس نے دنیا کے نقشے کو بدل ڈالا اور معاشی ترقی کے ایسے نئے تصورات کو جنم دیا جنہوں نے معاشی قوت کے توازن کو مغربی اقوام کی طرف منتقل کردیا۔ اُس وقت سے اب تک یہی نظام ایک غالب معاشی نظام رہا ہے۔ اندرونی طور پر اس میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس کا آغاز صنعتی سرمایہ داری یعنی Industrial Capitalism سے ہوا تھا۔
جس کے معنی یہ ہیں کہ معاشی وسائل کو نجی ملکیت اور نجی سرمایہ کاری اور سود اور بنکنگ کے ذریعے منظم اور مرتب کرکے پیداوار کو بڑھانے کا کام انجام دیا جائے۔ اور یہ سوچ کہ ہر چیز جس کسوٹی پر پرکھی جائے وہ یہ ہے کہ پیداوار بڑھے، جس چیز کی طلب ہو، اسے فراہم کیا جائے، بلالحاظ اِس کے کہ وہ طلب جائز ہو یا ناجائز ہو۔ اگر اُس طلب کو پورا کرنے کے لیے قوتِ خرید (purchasing power)موجود ہے تو اس کی رسد کے لیے یہ وجہ کافی ہے۔ اورطلب اور رسد کے یہ تمام فیصلے منڈی کے ذریعے سے انجام دیے جائیں۔ یہی ترقی کا مؤثر ترین راستہ ہے، اور یہی وہ صورت ہے جس میں سرمایہ دار باقی تمام وسائل کو اپنے نقشے کے مطابق استعمال کرکے بہترین معاشی نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
اس طرح صنعتی سرمایہ داری(Industrial Capitalism )سے اس کاآغاز ہوا اور مالیات اُس کا ایک بڑا ہی اہم ستون اور ذریعہ تھا۔پھر آہستہ آہستہ بیسویں صدی میں ، اور خاص طور پر پچھلے پچاس برسوں میں یہ صنعتی سرمایہ داری نظام ایک مالیاتی سرمایہ داری نظام یا Financial Capitalism میں تبدیل ہوگیا۔
آغاز میں مالیات کا کام یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ حقیقی معاشی قوتوں کو متحرک کرے۔ اُس کے ذریعے سے محنت بھی، مشینری بھی، ٹیکنالوجی بھی اور دوسرے وسائلِ پیداوار بھی استعمال میں لائے جاسکیں۔ لیکن آہستہ آہستہ مالیات کو ایسا غلبہ حاصل ہوگیا کہ محض قرضوں اور مالیات کا تبادلہ یعنی credit اور financesکا تبادلہ پورے معاشی نظام پر چھا گیا، بلالحاظ اس سے کہ ان سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں۔ اب عملاً صورت یہ ہے کہ جو معاشی پیداوار اورمادی وسائل(physical resources) ہیں، اُن کے مقابلے میں مالیاتی نظام پچاس گنا زیادہ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بنک اور سرمایہ کاری ادارے( investment houses)اور وہ لوگ جو مالیات کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں، وہ ہر چیز پرچھائے ہوئے ہیں۔ ایک طرف دولت میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن دوسری طرف غربت ، بے روزگاری اور عدم مساوات میں اضافہ ہورہا ہے۔
آج دنیا کی آبادی سات ارب ہے، اس میں سے ۲ء ۱ ارب خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔ اور یہ معاملہ صرف ترقی پذیر اور ایشیا اور افریقہ کے ممالک کا نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر حصے میں، حتیٰ کہ امیر ترین ممالک میں بھی غربت موجودہے۔ امریکہ میں اس وقت غربت ۱۵ فیصد سے بڑھ چکی ہے، بے روزگاری ۱۰ فیصد ہے۔ لیکن اگر آپ معاشی اُمور طور پر سفید اور سیاہ فام لوگوں میں مقابلہ کریں تو سیاہ فام لوگوں میں۲۸ فیصدی بے روزگار ہیں۔ اسی طرح عدمِ مساوات کا پہلو ہے کہ دنیا کی ایک فیصدی آبادی دولت کے۳۷ فیصدی پر قابض ہے۔ ۱۰ فیصدی ۸۰ فیصدی پر قابض ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں عوامی سطح پر ایک تحریک چل رہی ہے جسےWall Street Occupationکہتے ہیں، یعنی Wall Street پر جو وہاں مالیاتی منڈی کا مرکز ہے، اُس پر قبضہ کرو۔ یعنی۹۹ فیصدی ایک فیصدی کے خلاف اُٹھ رہے ہیں۔ تو یہ ہے وہ کیفیت ۔
میں آپ کو بہت سے اعداد و شمار دینے کی کوشش نہیں کروں گا، صرف اصولی بات آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وسائل کی فراوانی کے باوجود وسائل کا غلط استعمال، دولت کا ارتکاز اور احتکار، ایک طبقے کا غلبہ اور معیشت،سیاست، تہذیب و تمدن، میڈیا، ان سب پر اُن کا قابض ہوجانا، اور ان کی قوت میں برابر اضافہ، یہ ہے بنیادی مسئلہ۔

بگاڑ کے اسباب
اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خواہ آپ علمِ معاشیات کودیکھیں یا معاشی نظام کو، جب اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو نظامِ سرمایہ داری اور موجودہ معاشی اور مالیاتی نظام کے بگاڑکے پانچ بنیادی اسباب ہیں۔ ان کو اچھی طرح سمجھ لیجیے اور اسی کے تقابل میں پھر ہم دیکھیں گے کہ اسلامی معاشیات اور اسلام کے سوچنے کا رویہ کیا ہے۔
اخلاقیات کا انکار: بگاڑ اور ناکامی کا پہلا سبب زندگی کی تقسیم ہے یعنی مذہبی اور غیر مذہبی، اخلاقی اور اخلاق سے عاری، دنیاوی اور اُخروی کی تقسیم۔ جس کے نتیجے کے طورپر، خواہ وہ علمِ معیشت ہو، خواہ وہ معاشی معاملات ہوں، خواہ وہ حکومت کی کارکردگی ہو، خواہ وہ معاشی پالیسیوں کا بنانا ہو، ان کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارے سامنے صر ف مادی فلاح اور مادی فلاح کا پیمانہ بھی پیداوار کی اضافت، دولت میں اضافہ، بلالحاظ اس کے کہ اس کی تقسیم منصفانہ ہے یا نہیں، اور یہ سارا کام بس فراہمی اور طلب کے قوانین کے تحت ہونا چاہیے، اس کے لیے کوئی اخلاقی حدود، کوئی الہامی ہدایت، کوئی بالاتر ضابطہ، نہیں۔ یہ سب سے پہلی خرابی ہے۔
زندگی کی وحدت کو نظر انداز کرنا: دوسری خامی یہ ہے کہ انسانی زندگی کی وحدت کا تصور نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دراصل انسانی زندگی مجموعہ ہے بے شمار پہلووں کا: روحانی، جسمانی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، سیاسی، قانونی، نفسیاتی۔ یہاں بھی specialization کے نام پر زندگی کی اس وحدت کو پارہ پارہ کردیا گیا ہے اور ہر علم نے کوشش کی ہے کہ زندگی کی پوری اکائی کو صرف اپنے محدود نقطہ نظر سے دیکھے، اُس کی تعبیر کرے اور اُس کو بدلنے کی کوشش کرے۔معاشیات میں بھی زندگی کے باقی تمام پہلو، خواہ اُن کا تعلق نفسیات سے ہو، اخلاقیات سے ہو جس کی بات تو ہم نے پہلے ہی کی ہے سیاست سے ہو، معاشرت سے ہو، ادارات سے ہو،نظر انداز کیے گئے تو اس کے نتیجے کے طور پر ایک غیر فطری نظام بنا اور محض و ہ لوگ جن کے ہاتھ میں مالی قوت تھی، جو ٹیکنالوجی پر حاوی تھے، وہ اس پورے نظام کے کرتا دھرتا ہوگئے ۔ یہ دوسری خرابی ہے۔
منڈی کی غیر منصفانہ اہمیت: تیسری خرابی یہ ہے کہ منڈی اور مارکیٹ کو ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ انسانی زندگی میں کیا آپ چاہیں، کیا آپ نہ چاہیں، کیا پسندیدہ ہے کیا پسندیدہ نہیں ہے، اس کا فیصلہ قیمتوں پر نہیں ہوسکتا۔ اس کا فیصلہ محض اس چیز پر نہیں ہوسکتا کہ کس کے پاس قوتِ خرید ہے اوروہ چیزوں کو خرید سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مارکیٹ ایک اہم ادارہ ہے، اس سے انکار نہیں، مارکیٹ وسائل کو ترقی دینے اور distributeکرنے کے لیے ایک مؤثر چیز ہے، لیکن اگر ہم صرف مارکیٹ کو ہر معاملے کو طے کرنے کا کام سونپ دیں تو یہ زندگی کو بگاڑ دیتا ہے۔ تو تیسری بنیادی خرابی یہ ہے کہ سوسائٹی کو محض معیشت اور معیشت کو محض مارکیٹ تک محدود کردیا گیا ہے، اور پھر ساری پالیسی سازی، انفرادی اور سرکاری سطح پر، اسی پر ہورہی ہے۔
صلاحیت اور عدل میں عدم توازن: چوتھی خرابی یہ ہے صلاحیت اور عدل میں توازن برقرار نہیں رکھاگیا۔بلاشبہ انسان کی معاشی زندگی میں کارکردگی، اہلیت، پیداآوری (productivity)اہم ہیں، جسے معاشیات کی اصطلاح میں efficiency کہتے ہیں۔ لیکن efficiencyسب کچھ نہیں ہے۔ efficiency کے ساتھ ساتھ عدل، انصاف، حقوق کی پاسداری اور اس اہلیت کا، اس صلاحیت کا ایسا استعمال جس کے نتیجے کے طور پر انسانی معاشرہ بہتر ہوسکے، ضروری ہے۔ محض دولت کی فراوانی مطلوب نہ ہو بلکہ تمام انسانوں کی خوشحالی مطلوب ہو۔ تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ efficiency اور equity ایک دوسرے سے کٹ گئے، عدل کو بھی ٹکسال باہر کردیا گیا۔
پیسے سے پیسا بنانا: اس سلسلے میں پانچویں اور آخری چیز، جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا، وہ یہ تھی کہ مالیات کا اصل کام پیداوار کو، معاشی وسائل کو، وسائلِ حیات کو مناسب مقدار میں مرتب اور منظم کرکے مفید تر بنانا تھا۔ اب ترتیب اُلٹی ہوگئی ہے۔ اب اصل چیز دولت ہے۔ زیادہ سے زیادہ مال بنانا، جائز اور ناجائز ہی نہیں بلکہ بلالحاظ اس کے کہ ان مالی وسائل سے حقیقی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے یا کمی ہوتی ہے۔ توبگاڑ کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ یہاں پیسے سے پیسہ بنتا ہے۔
یہاں میں اشارتاً عرض کردوں کہ اسلام کا یہ ایک بڑا انقلابی تصور ہے کہ زر اور مالیات انسانی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے، لیکن زر سے زر پیدا نہیں ہوتا، محض مالیات سے مزید مالیات پیدا نہیں ہوتیں، مالیات سے فوائد پیدا ہوتے ہیں اگر اس کو حقیقی پیداوا ریا خدمات کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے ۔ قرآن نے ایک چھوٹے سے جملے میں اس پورے انقلابی اصول کو بیان کردیا کہ
وَأَحَلَّ اللَّ۔ہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
’’حالانکہ اﷲ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ۔‘‘ (۲:۲۷۵)
رِبا یہ ہے کہ مالیات سے مالیات پیدا ہوں، بلالحاظ اس کے کہ یہ مالیات پیداواری عمل میں کوئی کردار ادا کریں۔ اور بیع یہ ہے کہ مالیات استعمال ہوں شے کو خریدنے، اسے پیدا کرنے، بنانے، اُسے فروخت کرنے میں۔ اس طرح گویا اشیاء اور خدمات کو جنم دینے سے مالیات اپنا اصل کردار ادا کرتی ہیں اور اس طرح سوسائٹی کے اندر value added ہوتا ہے۔ یہ ہے بنیادی نظام۔ مغربی معیشت اور معاشیات دونوں نے آہستہ آہستہ زر اور مالیات کا تعلق، حقیقی معیشت، حقیقی پیداوار اور معاشرے میں اشیائے صرف اور خدمات کے فروغ اور فراوانی سے توڑ دیا۔
یہ پانچ بنیادی خرابیاں ہیں۔ جب تک ان کی اصلاح نہ ہو۔ یہ چھوٹی موٹی چیزیں جو ہورہی ہیں کہ bail out کردو یعنی مزید قرض دے دو اور بنکوں کو کسی طرح بچالیا جائے، یہ اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اب تو حکومتوں کو بچارہے ہیں، اور کھربوں ڈالر اس کے لیے خرچ ہوئے ہیں، عام انسانوں کے۔ اور ظلم یہ ہے کہ اُسی عمل میں امریکہ میں جو دو ملین گھرانے رہن (mortgage) کی بناء پر بے گھر ہوئے، انہیں کسی نے bail outنہیں کیا۔ لیکن بڑے بڑے بنک جن کے مینیجرز اور چیئرمین billions ڈالر بطور تنخواہ اور بونس کے وصول کرتے ہیں اُن بنکوں کو bail out کیا گیا ہے، ٹیکس دہندگان کے پیسے سے۔ اور اب یہ کام حکومتوں کے لیے ہورہا ہے۔ سب سے پہلے آئس لینڈ کو کیا، آئرلینڈ کو کیا۔ اس وقت یونان کو کیا جارہا ہے۔ پھر اسپین اور اٹلی ہیں۔ یعنی یہ بڑے بڑے ممالک ہیں جو اس وقت bail out ہورہے ہیں۔ اس سارے بحران کی بنیادی وجوہات وہ ہیں جو بیان کی گئیں۔ جب تک اصل جڑ تک نہیں پہنچیں گے معاملات درست نہیں ہوں گے۔
اسلامی معیشت اور اس کا کردار
اسلامی نظامِ معیشت کی بنیادیں
اسلامی اپروچ: نظری پہلو
اسلامی اپروچ: عملی پہلو
علماء کی ذمہ داریاں
سوال و جواب
 

الف نظامی

لائبریرین

x boy

محفلین
بہت عمدہ

ابھی چند دن قبل ایک بحث دیکھ رہا تھا جس میں یہی کہا جارہا تھا،، اس دور کے لوگ بادشاہوں جیسا چل رہے ہیں
کوئی بھی شخص اچھا پہنے کی کوشش کرتا جیسے پرانے زمانے کے بادشاہ پہنتے تھے،
ریسٹورانٹ میں بیٹھ کر ایک کھانے پر اتفاق نہیں کرتا،، بلکہ متعدد کھانے آرڈر کرتے ہیں
شادی میں غیر اسلامی رسومات ادا کرکے پیسوں کو پانی کی طرح بہایا جاتا ہے تاکہ خاندان اور محلے میں ناک نہ کٹے۔
انسان کے سارے مسائل و مشکلات حل ہوسکتے ہیں اگر وہ اپنے مسائل اور مشکلات کو اپنی اوقات کے مطابق حل کرنے کی
کوشش کرے۔
انتھی۔
 
Top