احمد ندیم قاسمی عالمِ ہجر میں سویا ہوں ، نہ سونا چاہوں

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
عالمِ ہجر میں سویا ہوں ، نہ سونا چاہوں
میں تری ذات سے مایوس نہ ہونا چاہوں

گل ترے دل میں کھلیں اور مہک جاؤں میں
اس رشتے میں ہر انسان کو پرونا چاہوں

کیوں گوارا ہو ترے درد میں شرکتِ غیر
تو جو یاد آئے تو تنہائی میں رونا چاہوں

جستجو کے لیئے رہتا ہے بہانہ درکار
کھو کے پایا جسے ، پاکر اسے کھونا چاہوں

چھا رہا ہے مرے اندر غمِ انجام کا ابر
خوش بھی ہوتا ہوں تو آنکھوں کو بھگونا چاہوں

میں ہوں اک طرفہ بھکاری ، کوئی میری بھی سنو
رات کے فرش پہ کرنوں کا بچھونا چاہوں

یوں تو اک پھول کی پتی سے بہل جاتا ہوں
میں مچل جاؤں تو صحرا کا کھلونا چاہوں

میرا منصب نہیں پیغمبرِ فن بننے کا
میں تو احساس کو لفظوں میں سمونا چاہوں

اس زمانے کا عجب طرزِ تصوف ہے ندیم
کہ میں قطرے میں سمندر کو ڈبونا چاہوں
 

عمر سیف

محفلین
میں ہوں اک طرفہ بھکاری ، کوئی میری بھی سنو
رات کے فرش پہ کرنوں کا بچھونا چاہوں

یوں تو اک پھول کی پتی سے بہل جاتا ہوں
میں مچل جاؤں تو صحرا کا کھلونا چاہوں

واہ
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
Top