عاشورہ کا روزہ ۔ اہمیت اور فضیلت

محمداحمد

لائبریرین
یوں تو آج 19 محرم ہے اور یومِ عاشور گزر چکا ہے۔ تاہم یہ تحریر اس سوچ کے ساتھ ارسال کر رہا ہوں کہ عین ممکن ہے کہ اس اگلے سال یا پھر کبھی پڑھنے والوں کو فائدہ پہنچے۔

عاشورہ کا روزہ ۔ اہمیت اور فضیلت​

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ، اور حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ اسے شہراللہ یا اللہ کا مہینہ بھی کہا گیا ہے۔(صحیح مسلم:2755)

عاشورہ کا روزہ​

ماہِ محرم کی دس تاریخ یعنی عاشورہ کے دن کا روزہ رکھنا رسولِ اکرم ﷺ کی سنت ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:

میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ یوم عاشورہ کاروزہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔
صحیح مسلم: 2746

عاشورہ کے روزے کے ساتھ ایک روزہ ملا لیا جائے​

صحیح بخاری کی ایک حدیث میں آتا ہے:

جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے ۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون پر غلبہ پایا تھا ۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ پھر ہم ان کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں ۔ مسلمانو ! تم لوگ بھی اس دن روزہ رکھو ( پھر آپ ﷺ نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملانے کا حکم صادر فرمایا جو اب بھی مسنون ہے)۔
صحیح بخاری:4737
ایک حدیث صحیح مسلم کی بھی دیکھیے:

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس دن کی تو یہودی اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے راوی نے کہا کہ ابھی آئندہ سال نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔
صحیح مسلم2666
یعنی دس محرم کے ساتھ ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھا جائے۔ کچھ علماء یہ بھی کہتےہیں کہ اگر نو کا روزہ نہ رکھ سکیں تو دس کے ساتھ گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھ لیں۔

عاشورہ کا روزہ نفل روزہ ہے​

رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پیشتر عاشورہ یعنی دس محرم کا روزہ فرض تھا۔ اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے رکھ لے۔ یعنی اس کی فرضیت ختم ہو گئی۔ تاہم یہ ایک نفل روزہ اور سنت عمل کے طور پر قائم رہا۔ دیکھیے صحیح بخاری کی حدیث:

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ، قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ کا حکم دیا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہو گئے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
صحیح بخاری:1893
رمضان کے روزوں کی فرضیت کے باوجود بھی اہلِ اسلام عاشورہ کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے۔

عاشورہ کی صبح کو آنحضرت ﷺ نے انصار کے محلوں میں کہلا بھیجا کہ صبح جس نے کھا پی لیا ہو وہ دن کا باقی حصہ (روزہ دار کی طرح) پورے کرے اور جس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ روزے سے رہے۔ ربیع نے کہا کہ پھر بعد میں بھی (رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد) ہم اس دن روزہ رکھتے اور اپنے بچوں سے بھی رکھواتے تھے۔ انہیں ہم اون کا ایک کھلونا دے کر بہلائے رکھتے۔ جب کوئی کھانے کے لیے روتا تو وہی دے دیتے، یہاں تک کہ افطار کا وقت آ جاتا۔
صحیح بخاری:1960
الغرض عاشورہ کے دن کا روزہ ایک سُنت عمل ہے اور احادیثِ رسول ﷺ کی روشنی میں باعثِ ثواب بھی ہے۔


 
Top