عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

ٹک ساتھ ہو حسرت دلِ مرحوم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

قربان فنا ایک تجلی تری ہو لے
ظلمت کدۂ ہستی موہوم سے نکلے

کوچے میں گئے تھے متوقع ترے جو ہو
منہ ڈالے گریبان میں محروم سے نکلے

او دشمن انصاف خوشی کون سی تم کو
غم بن ترے کیونکر دل مغموم سے نکلے

کیوں نوخطوں* کی خوار قلمرو میں ہے فدوی
کیا شہر یہی ہے کہو مظلوم سے نکلے

فدوی دہلوی ثم عظیم آبادی
 
Top