عائشہ غازی کی نظم : مسجد اقصی کے نام

حسین منصور

محفلین
"مسجد اقصی کے نام "

مسجد اقصی تری حرمت کے ہم وارث نہیں
ہم تو بس آنسو بہانا جانتے ہیں مرگ پر
ہم ہیں متروک زماں، ہم دربدر ، ہم بے اثر
تارک قراں , زمیں کا بوجھ ہیں ہم بے بصر
تیری حرمت کے امیں عمر ( رض ) و صلاح الدین تھے
جن کی نظروں سے پگھلتے تھے بتان آزری
جن کے ہاتھوں میں دئیے تھے عرش نے لوح و قلم
جن کے پاؤں چومتی تھی بحر و بر کی سرکشی
جن کی شمشیریں گرجتی تھیں نیاموں میں پڑی
وہ تو سالار زمیں تھے وہ تھے فخرآسماں
ہم کو کیا نسبت ہے ان سے، ہم کہاں اور وہ کہاں
کفر کی زینت سے خیرہ ہے ہماری آرزو
موت سے لرزاں مسلماں طالبان رنگ و بو
ہم تو بس دھوکے میں ڈالے جا چکے مغضوب ہیں
نیل کے صحرا سے تا بہ کاشغر معتوب ہیں
ہم تو بس شرمندہ ءکون و مکاں ارض و سماں
ہم کہ دھتکارے ہوئے، ہارے ہوئے ، ہم بے اماں
ہم پہ بے تاثیر ہے ہر نعرہ سر نہاں
ہم پہ بے تاثیر ہے تکبیر بھی تدبیر بھی
ہم پہ بے تاثیر ہے کونین (ص) کی توقیر بھی
مسجد اقصی تری حرمت کے ہم وارث نہیں
تُو پکار اب پھر کسی سالار با کردار کو
کیا خبر تری ندا پر عرش کے روزن کھلیں
کیا خبر نصرت کوئی اترے کہیں افلاک سے
مسجد اقصی ہمیں اب اور آوازیں نہ دے
ہم تو بس آنسو بہانا جانتے ہیں مرگ پر
مرگ حرمت ہو کہ غیرت ہو کہ مرگ آرزو

(عائشہ غازی )
 
Top