ظہیر کاشمیری

10405280_402522176565576_1424557881275394017_n.jpg

ظہیر کاشمیری
٭12 دسمبر 1994ء کو اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب ظہیر کاشمیری لاہور میں وفات پاگئے اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
ظہیر کاشمیری کا اصل نام غلام دستگیر تھا اور وہ 21 اگست 1919ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ادب کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ ان کے شعری مجموعوں میں آدمی نامہ، جہان آگہی، چراغ آخر شب اور حرف سپاس کے نام شامل ہیں۔حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں، اُجالا ہے
-------------------

موسم بدلا، رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے

گُل بوٹوں کے رنگ اور نقشے، اب تو یونہی مٹ جائیں گے
ہم کہ فروغِ صبحِ چمن تھے، پابندِ فتراک ہوئے

مہرِ تغیّر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکا!
صدیوں کے افتادہ ذرّے، ہم دوشِ افلاک ہوئے

دل کے غم نے دردِ جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا
پہلے پلکیں پُرنم تھیں، اب عارض بھی نمناک ہوئے

کتنے الہڑ سپنے تھے جو دورِ سحر میں ٹوٹ گئے
کتنے ہنس مُکھ چہرے ، فصل بہاراں میں غمناک ہوئے

برقِ زمانہ دور تھی لیکن مشعلِ خانہ دور نہ تھی
ہم تو ظہیر اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے

(ظہیر کاشمیری)
------------------
یادگارِ بادہ و پیمانہ ہیں
ہم چراغِ کشتۂ میخانہ ہیں

چند تنکوں میں نہ تھا لطفِ بہار
چند شعلے زینتِ کاشانہ ہیں

ہر حقیقت ہے فریبِ اعتبار
یہ حسیں جلوے اگر افسانہ ہیں

ہم بھی مہر و ماہ سے باتیں کریں
ہم بھی عکسِ جلوۂ جانانہ ہیں

شب جو تھے محوِ طوافِ شمعِ ناز
صبحدم خاکسترِ پروانہ ہیں

بُت پرستو! ہم ہیں مسجودِ نظر
ہم غرورِ لعبتِ بُت خانہ ہیں
---------------
ساغر اچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے
ہر شے میں ان کا حسنِ نظر دیکھتے رہے

گلشن کو ہم برنگِ دگر دیکھتے رہے
ہر گام پر خزاں کا خطر دیکھتے رہے

ہم نے تو کروٹوں میں جوانی گزار دی
حسرت سے بزمِ غیر کا در دیکھتے رہے

وہ جنبشِ نقاب کا منظر نہ پوچھیے
کیا دیکھنا تھا اپنا جگر دیکھتے رہے

وہ بار بار دل میں جلاتے رہے چراغ
ہم سر جھکا ئے شمعِ سحر دیکھتے رہے

محسوس ہو رہا تھا کوئی سلسلہ ظہیر
پہروں زمین راہ گزر دیکھتے رہے
بشکریہاردو کلاسک

 
ظہیر کاشمری ترقی پسند تحریک کے سرخیل تھے
ان کی غزل "موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بیباک ہوئے" کو استاد امانت علی خان نے گا کر امر کر دیا
 
Top