ظہیر احمد کا غیر شائع شدہ کلا م ۔۔۔۔۔ خاکدان کے بعد کی کاوشات

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تقریباً دس سال پہلے جب میں نے اس محفل کو اتفاقیہ دریافت کیا تو یوں لگا کہ اپنا جو حرفِ سخن میں ایک عرصے سے چند قریبی دوستوں تک محدود رکھے ہوئے تھا اسے عام کرنے کے لیے صاحبانِ علم وہنر اور قارئینِ با ذوق کا ایک رنگا رنگ حلقہ میسر آ گیا ہے۔ اور پھر گزرتے وقت نے اس خیال کو ایک سو ایک فیصد درست ثابت کیا۔ میں نے دس سال کے اس عرصے میں تین دہائیوں پر محیط اپنا بیشتر کلام اس قدر دان محفل کے صفحات پر پیش کیا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ محفل میں پہلی چند غزلیں ہی پوسٹ کرنے کے بعد استادِ محترم الف عین نے مجھے حکم دیا تھا کہ اپنا کلام جلد از جلد انہیں ای بک بنانے کے لیے بھجوا دوں ۔ اس میں کچھ تاخیر ضرور ہوئی لیکن بالآخر تین چار سال پہلے خاکدان ای بک کی صورت میں شائع ہو گیا۔
محفل کی یہ دلفریب اور خوبصورت کھلی کتاب بیس برسوں بعد اب بند ہونے والی ہے تو میں اس موقع کو کھونا نہیں چاہتا اور خواہش ہے کہ اپنا وہ کلام جو خاکدان کا حصہ نہیں بن سکا یا اس کی اشاعت کے بعد لکھا گیا وہ یہاں ایک دھاگے میں محفوظ کرتا جاؤں کہ میری تمام شاعری اس محفل کے علاوہ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر کہیں اور موجود نہیں۔ میرا تمام سرمایۂ سخن شعر و ادب کے اسی طلسمات کدے میں بکھرا ہوا ہے۔ آئندہ چند روز میں اس دھاگے میں کلام پوسٹ کرتا رہوں گا۔ اگر آپ اسے پڑھ سکیں تو زہے نصیب ورنہ یہ مستقبل کے قارئین کے لیے میری طرف سے ایک ناچیز تحفہ رہے گا۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

مرے روز و شب کی کتاب میں کبھی تازہ برگ ِ گلاب تھا
خطِ زرفشاں سے لکھا ہوا مری زندگی کا نصاب تھا

وہ مثالِ ابر تھا آسرا ، کڑے موسموں کے دیار میں
وہ تمازتوں کے سوال پر مری تشنگی کا جواب تھا

جو بغاوتوں کے جواز میں مری سرکشی کا سبب رہا
وہ امین تھا مرے خواب کا ، وہ مرا غرور ِ شباب تھا

مرے کسب زارِ کمال میں مری جستجو کا ہدف بنا
وہ محبتوں کی معاش میں مری اُجرتوں کا حساب تھا

وہ رہا شریکِ سکوتِ شب مری حسرتوں میں بجھا ہوا
کبھی لب کشا جو ہوا اگر تو سراپا حسنِ خطاب تھا

وہ علامتوں کی بہار تھا مری شاعری کی زمین میں
وہ فلک تھا سر پہ خیال کا ، وہ سخن کا لبّ لباب تھا

(۲۰۰۵)​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

چپ یکایک جو ہو گیا ہوں میں
دست بستہ دعا دعا ہوں میں

جب پکارو گے ساتھ پاؤ گے
مت سمجھنا کہ جا چکا ہوں میں

میں جو تم کو نظر نہیں آتا
وجہ یہ ہے کہ مر مٹا ہوں میں

دیر کچھ تو لگے گی اٹھنے میں
اک بلندی سے گر گیا ہوں میں

یوں تو کہنے کو ہے بہت لیکن
اپنے لہجے سے ڈر گیا ہوں میں

جانے والے! نہ بھولنا یہ کبھی
جب بھی لوٹو گے در کھلا ہوں میں


-ق-

بھول جاؤ تو نا امیدی ہوں
یاد رکھو تو حوصلہ ہوں میں

مڑ کے دیکھو تو اک نشانی ہوں
آگے دیکھو تو رہنما ہوں میں

چھوڑ جاؤ تو ایک پتھر ہوں
ساتھ لے لو تو بے بہا ہوں میں

رکنا چاہو تو ایک منظر ہوں
چلنا چاہو تو راستہ ہوں میں

ویسے دیکھو تو اک رکاوٹ ہوں
اور سوچو تو آسرا ہوں میں

میں دریچہ نہیں ہوں ماضی کا
عہدِ فردا کا در کشا ہوں میں

جن کو دیکھا ہے عمر بھر تم نے
انہی خوابوں کا آئنہ ہوں میں

-ق-

کچّے دھاگوں کی بات مت پوچھو
رسّیوں سے بندھا ہوا ہوں میں

در حقیقت غزل کے پردے میں
اک فسانہ سنا رہا ہوں میں

یوں میں سب کا ہوں اور کسی کا نہیں
راستے میں رکھا دیا ہوں میں

کون دھرتا ہے کان اب مجھ پر
اک سخن ہوں سنا سنا ہوں میں

نہیں معلوم اُس کے حق میں ظہیرؔ
زہرِ قاتل ہوں یا دوا ہوں میں


 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
(اپنے آئیڈیل کے نام)

٭٭٭

روح کے زخم دکھائے نہ دوا مانگی تھی
میں نے کب دستِ مسیحا سے شفا مانگی تھی

آرزو میں تری ڈھونڈی تھیں پناہیں غم نے
درد نے عرصۂ الفت میں بقا مانگی تھی

ایک زنجیر ترے نام کی چاہی تھی فقط
میں نے زندانِ محبت کی سزا مانگی تھی

میں نے خاموشیِ ویرانۂ جسم و جاں میں
غنچۂ دل کے چٹکنے کی صدا مانگی تھی

میں نے ہنگامۂ صد عیش و طرب کب چاہا
دشتِتنہائی میں الفت کی نوا مانگی تھی

زندگی کے لیے مانگا تھا ترا دستِ دعا
ہاتھ مانگا تھا نہ خوشبوئے حنا مانگی تھی

جگنو مانگے تھے اندھیرے میں تری آنکھوں کے
چاندنی مانگی نہ تاروں کی ضیا مانگی تھی

عکس مانگا تھا ترا شیشۂ دل کی خاطر
عارضِ احمر و تاباں کی حیا مانگی تھی

تیرے ہونٹوں سے تبسم کی دھنک تھی درکار
گیت مانگے تھے نہ سوغاتِ غِنا مانگی تھی

تتلیاں مانگی تھیں مہکے ہوئے لفظوں کی فقط
خوشبوئے صحنِ گلستاں نہ صبا مانگی تھی

دھوپ مانگی تھی شرارت کی رخِ روشن سے
سایۂ زلف نہ آنچل کی ہوا مانگی تھی

رنگ مانگے تھے ترے شوخ تکلم کے ذرا
عشوہ و ناز نہ خلوت کی ادا مانگی تھی

خوشبو مانگی تھی ترے ہونے کی شہرِ جاں میں
پھول مانگے تھے نہ کلیوں کی ردا مانگی تھی

عکسِ جذبات نظر آئے ترا جس میں مجھے
صورتِ دید بھی آئینہ نما مانگی تھی

اذن مانگا تھا ترے اشک سکھانے کے لیے
غم گساری کے لیے تیری رضا مانگی تھی

سرحدِ حسن میں کب کوئی علاقہ مانگا
دل کی جاگیر میں تھوڑی سی جگہ مانگی تھی

ایک خاموش محبت کی تمنا تھی مجھے
کب کوئی چیز ترے غم کے سوا مانگی تھی

حرفِ تائیدِ محبت کی طلب تھی دل کو
اجرتِ غم نہ وفاؤں کی جزا مانگی تھی

نہ کوئی خواب دکھایا تھا نئی منزل کا
نہ کوئی رہ ترے رستے سے جدا مانگی تھی

آگہی چاہی تھی آلام و مسائل سے ترے
بے خودی مانگی نہ مدہوش فضا مانگی تھی

ایک بے نام سے احساسِ رفاقت کے لیے
ایک نسبت بصد امید و رجا مانگی تھی

زنگ آلود تھا آئینۂ ہستی کب سے
پرتوِ رخ سے ترے میں نے جِلا مانگی تھی

کب سے بے ربط تھا سازینۂ ایامِ حیات
تجھ سے اک جنبشِ آہنگ فزا مانگی تھی

دل کشا تجھ میں جو پنہاں ہے جہانِ اوصاف
اُس کی آزادیِ تحدیث و ثنا مانگی تھی

کب ترے سحر سے اس دل نے نکلنا چاہا
کب رہائی ترے افسوں سے بھلا مانگی تھی

کب کسی اور کو سونپا تھا یہ سرمایۂ حرف
کب کوئی وجہِ سخن تیرے سوا مانگی تھی

تجھ پر آئے نہ کسی غم کی کوئی آنچ کبھی
یہ دعا تیرے لیے صبح و مسا مانگی تھی

میں نے مایوسیِ فرقت میں بھی مانگی تھی امید
زہر مانگا تھا نہ مرنے کی دعا مانگی تھی

میں تو تقدیر کا لکھا ہوں ، خدا سے میں نے
عشق مانگا تھا نہ یہ خوئے وفا مانگی تھی

 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

وہ مجھ سے دور ہوا ہے نہ میرے پاس ہے وہ
مری دعاؤں میں شامل ہے میری آس ہے وہ

مری نگاہ سے دیکھو تو دیکھ پاؤ گے
خیال و خواب کا حصہ ہے ، مجھ سے خاص ہے وہ

اسے جو دیکھ لے تو آئنہ سنورتا ہے
جمالِ مہرِ منور کا انعکاس ہے وہ

اُسے جو دیکھیں تو گل پیرہن بدلتے ہیں
سراپا قوسِ قزح ہے ، شفق لباس ہے وہ

اسے جو چھوئے خزاں تو بہار بن جائے
نمودِ حسنِ گلستان کی اساس ہے وہ

ہر ایک حرفِ سخن ہم کلام ہے اُس سے
غزل کے لہجۂ خوش رنگ کی مٹھاس ہے وہ

غزل نہیں یہ قصیدہ ہے اُس کے ہونے کا
سخن سپاس ہے اور باعثِ سپاس ہے وہ

اُسی میں ڈھونڈتا رہتا ہوں اپنی سیرابی
سراب ہے مرے رستے کا ، میری پیاس ہے وہ

تمام رنگ مری ذات کے ہیں اُس میں ظہیر ؔ
مرے فسانۂ ہستی کا اقتباس ہے وہ
 
Top