احمد راہی طویل راتوں کی خامشی میں مری فغاں تھک کے سو گئ ھے(احمد راہی)

طویل راتوں کی خامشی میں مری فغاں تھک کے سو گئ ھے
تمہاری آنکھوں نے جو کہی تھی وہ داستاں تھک کے سو گئ ھے

مرے خیالوں میں آج بھی خوب عہد رفتہ کے جاگتے ھیں
تمہارے پہلو میں خواہش یاد پاستاں تھک کے سو گئ ھے

گلہ نہیں تجھ سے زندگی کے وہ نظریے ھی بدل گئے ھیں
مری وفا ، وہ ترے تغافل کی نوحہ خواں تھک سو گئ ھے

سحر کی امید اب کسے ھے ،سحر کی امید ھو بھی کیسے
کہ زیست امید و نا امیدی کے درمیاں تھک کے سو گئ ھے

نہ جانے کس ادھیڑ بن میں الجھ گیا ھوں کہ مجھ کو راہی
خبر نہیں کچھ ، وہ آرزوئے سکوں کہاں تھک کے سو گئ ھے
 
Top