طعنہء سود و زیاں مجھ کو نہ دینا ، دیکھو

یاسر شاہ

محفلین
یاسر شاہ بھائی ، نجانے كیوں مجھے آپ کی باتوں سے محسوس ہورہا ہے کہ تبصرہ آرائی کے پردے میں کوئی اور ہی جذبہ کارفرما ہے۔ اللّٰہ کرے یہ میرا گمان ہو اور ایسی کوئی بات نہ ہو ۔ بہرحال ، اگر ماضی میں میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ہوگئی ہو تو میں اس کے لیے دست بستہ معذرت خواہ ہوں۔ میں انسان ہوں اور خطا میری سرشت میں ہے لیکن بخدا میں نے آج تک دانستہ طور پر کسی کی دل آزاری نہیں کی۔ میرے نزدیک شعر و ادب تو کیا دنیا کی کوئی بھی چیز آدمی کے ادب اور احترام کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ خیالِ خاطرِ احباب میرے لیئ ہر چیز پر مقدم ہے ۔ اگرمجھ سے ایسی کوئی بات ہوگئی ہو تو درخواست گزار ہوں کہ آپ درگزر فرمائیں گے اور مجھے معاف فرمائیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے اشعار پر آپ کے اکثر تبصرے شعر کی غلط تفہیم پر مبنی ہوتے ہیں۔ بھائی، اگر کوئی لفظ یا ترکیب سمجھ میں نہ آئے تو لغت سے رجوع کرنا کوئی گناہ نہیں۔ بڑے بڑے شعرا اور ادیب ایسا کرتے آئے ہیں ۔میں اور آپ تو کسی شمار میں نہیں۔ اگر لغت دستیاب نہ ہو تو مجھ سے پوچھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اس بات کا کیا مطلب ہے۔ میں نے پہلے بھی کہیں عرض کیا تھا کہ آپ شعر کو اس کے جامد اور لفظی معنوں میں ہی دیکھتے ہیں ۔ جبکہ شاعری میں الفاظ کے صرف لغوی اور سامنے کے معنی نہیں لیے جاتے۔ سیاق و سباق کو دیکھا جاتا ہے۔ بیانیے کے مجموعی اور وسیع تر مفہوم کو لیا جاتا ہے۔ یہ تو شعر فہمی کا بنیادی اصول ہے۔ یاسر بھائی ، معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ آپ تو اصلاحِ سخن میں اصلاح دیتے ہیں لیکن اگر آپ ہی شعر فہمی کے بنیادی اصولوں کو توڑیں گے اور لفظ کے جامد اور سطحی معنوں کو لیں گے تو پھر بات کیسے بنے گی؟ مشہور شعر ہے :
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
اب اگر اس شعر پر یہ اعتراض کیا جائے کہ بت خود تو بھگوان نہیں بنتے۔ انہیں بھگوان کا درجہ تو انسان دیتے ہیں۔ تو پھر اس کا کیا جواب؟! اس شعر کا مطلب تو سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے وسیع تر معنوں سے سمجھا جائے گا۔
ہر شعر ہر آدمی کی سمجھ میں آنے لگے تو کیا بات ہے۔ میں تو خیر کج سخن اور عاجز البیان ہوں۔ غالب، میر اور اقبال جیسے شعرا کی شاعری پر شرحیں لکھی گئی ہیں۔ تو میں کس کھیت کی مولی ہوں۔ ایک دفعہ پھر اس سخن گستری کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ اللّٰہ کریم آپ کو خوش رکھے ، اپنی امان میں رکھے اور دین و دنیا کی تما نعمتوں سے سرفراز کرے ، خیر و عافیت کا معاملہ فرمائے ۔ آمین
ظہیر بھائی مجھے تبصرہ کرتے ہوئے لگ رہا تھا کہ آپ کی خوش طبعی کا باعث بنے گا، کیا خبر تھی کہ میری زجر و توبیخ ہو جائے گی بالفرض آپ کی بات درست ہو کہ میں لفظوں کے جامد معانی دیکھتا ہوں اور وسیع مفاہیم تک نہیں پہنچ پاتا تو اس سے ایک سبق تو ملا کہ وہ لوگ جو صاحب کلام کی خوشنودی کے لیے کلام کے لفظی ترجمے پڑھ کر صاحب کلام کی منشا کے خلاف تعبیر و تفسیر کر رہے ہیں ان کی بھی مرمت ہونے والی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور یہ بات دل میں اتار دے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے دوجا کرے تو ٹھینگا باجے۔آمین

ظہیر بھائی مسلک کے معاملے میں تو ڈرتا ہوں البتہ مجھے آپ ادب و شعر کی لائن میں غیر مقلد سمجھیں ۔آخر مجھے بھی تو مزے لوٹنے کا حق ہے غیر مقلدیت کے۔

بقول حالی

سخت مشکل ہے شیوہ_تسلیم
ہم بھی آخر میں جی چرانے لگے
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر شاہ تو اکثر اشعار کی مزاحیہ تشریح کرتے ہی رہتے ہیں، جس کو میں صرف مزاح ہی سمجھ کر مزے لیتا ہوں، اسے سنجیدگی سے لینے کی غلطی کر رہے ہیں ظہیراحمدظہیر کم از کم میں یہ سمجھتا ہوں۔ اور مجھے قوی امید ہے کہ میں غلطی پر نہیں ہوں
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھ کو جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

لیکن اعجاز صاحب میرا مزاح با مقصد بایں معنی ہوتا ہے کہ سچی بات کی تلخی کو کم کرنے کے لیے اکثر مزاح کا سہارا لیتا ہوں ورنہ میری رائے میں اگر کوئی شعر کی سنجیدہ تشریح جانتا نہ ہو اور مزاحیہ تشریح شروع کر دے ،یہ شعر و ادب کے ساتھ ظلم ہے۔

میں تنقید سوچ سمجھ کے،خود کو کچھ وقت کے لیے منصف سمجھ کر، شرح صدر کے ساتھ ہی کرتا ہوں اور اگر کسی کے لیے دل میں میل پاتا ہوں تو اس کی تخلیقات سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اور کوشش کرتا ہوں کہ تنقید کا جواب غلط اور کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو جواب الجواب نہ دیا جائے۔ کیونکہ تنقید کے بعد شعر سے عجیب و غریب معانی برآمد ہونے لگتے ہیں جو پہلے کبھی شعر میں نہ تھے بقول شخصے:

پہلے تو روغن_ گل بھینس کے انڈے سے نکال
پھر دوا جتنی ہے کل بھینس کے انڈے سے نکال


ابھی کچھ دن پہلے یہیں "چپکےسے" اصطلاح کا وسیع تناظر میں ایک نیا مطلب پتا چلا ہے اور وہ ہے "بلا اختیار" یا "بلا قصد و ارادہ" یعنی کوئی اگر کہے کہ فلاں نے فلانی کو چپکے سے بوسہ دیا تو اس نئے مطلب کی رو سے فلاں مجرم نہیں کیونکہ یہ کار_ شنیع بلا قصد و ارادہ سرزد ہو گیا۔😊

(از لغت الاردو فی الامریکہ)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ ظہیر بھائی ۔ خؤب غزل ہے سادگی اور کچھ کچھ پرکاری کا امتزاج بھی ۔ سلامت رہیے ۔
سخن نسبت والے شعر میں کچھ کتابت کی غلطی ہے شاید۔
حیرت ہے ٹیگ کے باوجود یہ غزل پوشیدہ رہی طویل عرصے تک ۔
بہت نوازش ، بہت عنایت ، عاطف بھائی!
عاطف بھائی ، یہ غزل اکتوبر 2015 میں محفل کی رکنیت اختیار کرنے کے چند ہفتوں بعد پوسٹ کی تھی ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اُن دنوں سات آٹھ غزلیں روزانہ ٹائپ کرکے یہاں پوسٹ کیا کرتا تھا کہ سارا کلام جلد ازجلد مجتمع کرنے کی دھن سوار تھی ۔ اتنے سارے ٹیگوں میں سے ایک آدھ کا رہ جانا قابلِ فہم ہے۔ سخن نسبت والے شعر کے مصرع اولیٰ میں واقعی کچھ ٹائپ ہونے سے رہ گیا ۔ اُس وقت تو اکثر فاتح بھائی اور آپ ٹائپو کی نشاندہی کردیا کرتے تھے اور میں کاغذات سے دیکھ کر ٹھیک کردیا کرتا تھا ۔ لیکن اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ میرا تمام سامان بکسوں میں بند کہیں دھرا ہے ۔ کاغذی مسودوں تک رسائی میں دو چار ماہ لگ سکتے ہیں ۔ ویسے تو یہ مصرع بحر میں ہے ۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ رمل مثمن سالم مخبون محذوف میں کسی ایک فعلاتن کو مسکن کرکے مفعولن میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ عروضی طور پر جائز ہے ۔ لیکن اس بحر میں ایسا کرنا مجھے پسند نہیں ہے اور نہ ہی دیگر شعرا عموماً ایسا کرتے ہیں۔ اس لیے کوشش ہوگی کہ جب مسودہ دستیاب ہو تو دیکھ کر اس کو درست کردیا جائے ۔
عاطف بھائی ، آپ کی توجہ کے لیے بہت ممنون ہوں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی مجھے تبصرہ کرتے ہوئے لگ رہا تھا کہ آپ کی خوش طبعی کا باعث بنے گا، کیا خبر تھی کہ میری زجر و توبیخ ہو جائے گی
یاسر بھائی ، خوش طبعی کا باعث تو تب بنتا جب آپ محض مذاق کررہے ہوتے ۔ آپ نے تو مزاح کے پہلو میں سنجیدگی سے اعتراضات اٹھائے تھے اور اشعار پر اپنی طرف سے اصلاح بھی دی تھی ۔ اور آپ اپنے دوسرے مراسلے میں اس طریقۂ کارکا اعتراف بھی کررہے ہیں ۔ سو اب میرا اتنا حق تو بنتا تھا کہ میں جواباً کم از کم اس بات کی تو نشاندہی کردوں کہ نہ تو آپ نے الفاظ کو درست معنوں میں دیکھا اور نہ ہی شعر کو سمجھا ۔:) یہ ایک پبلک فورم ہے۔ یہ تو ہونہیں سکتا کہ یہاں کوئی شخص کسی شعر یا نثر پر کوئی اعتراض اٹھائے اور پھر یہ توقع رکھے کہ اُس کی بات کو حرفِ آخر سمجھا جائے گا خواہ وہ درست ہو یا نہ ہو۔ صاحبِ تحریر کو اعتراض کا جواب دینے کی اجازت تو ہونی چاہیے۔ اور معترض میں اتنا حوصلہ ہونا چاہیے کہ ثبوت ملنے کے بعد اپنی غلطی کو تسلیم کرے ۔
یاسر بھائی ، اگر آپ میرے یا کسی اور کے اشعار پر مزاحیہ تشریح یا پیروڈی لکھنا چاہیں تو بصد شوق لکھیے لیکن دوسرے مزاح نگاروں کی طرح اس کو ایک علیحدہ دھاگے میں طنزو مزاح کے زمرے میں پوسٹ کریں ۔ داد و تحسین پیش کرنے والوں میں مجھے پیش پیش پائیں گے۔ :)

اس سے ایک سبق تو ملا کہ وہ لوگ جو صاحب کلام کی خوشنودی کے لیے کلام کے لفظی ترجمے پڑھ کر صاحب کلام کی منشا کے خلاف تعبیر و تفسیر کر رہے ہیں ان کی بھی مرمت ہونے والی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور یہ بات دل میں اتار دے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے دوجا کرے تو ٹھینگا باجے۔آمین
یاسر ، میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس ساری گفتگو میں محولہ بالا بات کا کیا محل ہے ۔اس موقع پر یہ بات بیان کرنے میں کیا نکتہ پوشیدہ ہے اس کی وضاحت کیجیے گا تاکہ میری موٹی عقل میں آجائے ۔ اس بات سے تو ہر ذی شعور آدمی اتفاق کرے گا کہ کلامِ الہٰی کا لفظی ترجمہ پڑھ کر خود سے اس کی تعبیر و تفسیر کرنا انتہائی جرات بلکہ بیوقوفی کی بات ہے ۔ یاسر بھائی ، اس بارے میں ڈھائی سال پہلے میں نے یہاں اردو محفل میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اگر دلچسپی ہو تو اس لڑی کو دیکھیے گا ۔

ظہیر بھائی مسلک کے معاملے میں تو ڈرتا ہوں البتہ مجھے آپ ادب و شعر کی لائن میں غیر مقلد سمجھیں ۔آخر مجھے بھی تو مزے لوٹنے کا حق ہے غیر مقلدیت کے۔
ارے صاحب ، آپ جو مسلک چاہے اختیار کیجیے ۔ دین میں کاہے کی زور زبردستی!:)
البتہ شعر و ادب کی بات دوسری ہے ۔ یہاں نظیر کا راج ہے ۔ حوالے اور دلیل کے بغیر بات نہیں بنتی ۔ زبان وبیان ، گرامر ، عروض وغیرہ کے مسلمہ اصول ہیں جو کسی شخص نے گھر بیٹھ کر نہیں بنائے بلکہ ان پر پوری اردو دنیا کا اجماع ہے ۔ میں اپنی مرضی سے کسی لفظ کے معنی یا محلِ استعمال نہیں گھڑسکتا ۔ جن معنوں میں زبان دانوں نے استعمال کیا ہے ویسے ہی استعمال کرنا ہوگا۔ جو ہے سو ہے ۔ اسے تسلیم کرنا پڑے گا ۔ زبان و بیان کے یہ اصول میر و غالب کے لیے بھی وہی ہیں اور میرے جیسے ہما شما کے لیے بھی ۔ اس میں کوئی استثنا نہیں ہے ۔ کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ کسی مشہورادیب کے سامنے کسی نے غالب کا شعر غلط پڑھ دیا تو برہم ہوگئے اور کہا کہ میاں یہ قرآن حدیث نہیں ہے کہ جیسا چاہا پڑھ دیا ،اردو کا شعر ہے ۔ اسے درست طریقے سے پڑھیے۔ وغیرہ

یاسر بھائی ، اگر ادب و شعر میں غیر مقلد ہونے سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ نہ کسی لغت کے حوالے کو ماننا ہے ، نہ کسی نظیر کو تسلیم کرناہے اور نہ ہی کسی دلیل کو دیکھنا ہے تو پھر اسے غیر مقلد ہونا نہیں بلکہ ملحد ہونا کہیں گے ۔ :D:D:D

یاسر بھائی ، ان شاء اللّٰہ پھر کسی اور دھاگے میں شگفتہ شگفتہ گفتگو رہے گی ۔:):):)
 
Top