ٹائپنگ مکمل طرح دار لونڈی

شمشاد

لائبریرین
طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 91

سیوتی : آخر یہ بات کیا جو آج سرکار بی بی کو بول رہے تھے؟ (خفا ہو رہے تھے)۔

مغلانی : بات کیا، کہیں اڑتی اڑتی خبر سن آئے ہیں۔ کوئی رنڈی لونڈی خریدنے پر جواب دہی میں گرفتار ہے، اب میاں کے پیٹ میں سانس نہیں سماتی۔ بیگم سے جدا ناراض ہیں؛ بے چارے منے کو جس کو کبھی گرم آنکھ نہ دیکھا تھا، آئ موئے خدا بخشا کے کارن خدا واسطے دو تین چٹخنے ایسے مارے کہ پانچوں اُنگلیاں بن گئیں۔ کہتے ہیں تمہیں نے لونڈی منگوائی۔ اب مغلانی بندی کی جان کو بھی وہی مصیبت پڑے گی۔ خدا نہ کرے جو اُس موئی رنڈی پر پڑی ہے۔

نجبنیا : مگلانی بی بی! تو ہم کچھ بکے نہیں۔ میاں نے کہا تم روٹی کپڑے پر ہو۔ اور بی بی ہمیں گھر میں رہنا ہے کہ باہر جانا، ہم کن سے کہنے جائیں گے۔

مغلانی : چل چل، اپنی قابلیت لڑکی اپنے تک رکھ۔ وہی مثل "منہ لگائی ڈومنی گائے تال بے تال" یہی باتیں تو سرکار کی مجھے زہر لگتی ہیں۔ لو صاحب لڑکی تو ابھی سلامتی سے لگی حرام حدیث، قانون، آئین، نپل کوڈ چھاٹنے۔

(بیوی کے پیٹ میں تو بھوک کے مارے گھوڑ دوڑ لگی تھی، دوسرے بی مغلانی جو کڑاکر کڑاکر لونڈی پر برسیں تو آنکھ کھل ہی گئی)۔

بیگم : اونھ، اونھ۔ (انگڑائی لے کے) کیا ہے۔ یہ آج کیا سر پر کونسل لگائی ہے۔

مغلانی : (آہستہ سے) کچھ نہیں، حضور سیوتی سے باتیں کرتی تھی۔ اور سنا بیغم صاحب! میاں کی لونڈی کی باتیں سنتی ہیں آپ؟

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 92

بیگم : کیا؟ کیا؟ مجھے سنائی نہیں دیتا، خلاصہ کہو۔

مغلانی : لونڈی نے مسئلہ نکالا ہے (ذرا کھینچ کر)۔

بیگم : کس بات کا؟

مغلانی : کہتی ہے میں کچھ زر خرید ہوں، جس وقت جی چاہے گا اٹھ کھڑی ہوں گی، چلتی پھرتی نظر آؤں گی۔

بیگم : ہاں صاحب! سلامتی سے اب یہ حوصلے ہوئے، خدا کی قدرت۔ پال پال میرے جی کا کال۔

مغلانی : اب اس بات کو سمجھ جائیے۔ آج اس کے منہ نکلا ہے۔اسی مارے کہتے نہیں، گھر میں ذرا سمجھ بوجھ کے بات کرنی چاہیے۔

بیگم میں خوب سمجھتی ہوں۔ یہ اُن کی سمجھ جو چاہے سو کرے، اُن کا دستور ہے۔ غصے کے وقت آنکھ بند کر لیتے ہیں، منہ کھول دیتے ہیں۔

مغلانی : نہیں۔ اس کی ابھی سے تگ و دو (تدبیر) چاہیے۔

نجبنیا : بی مگلانی! میرا منہ تھکے جو میں نے کچھ کہا ہو۔ میری جبان میں سانپ ڈسے جو یہ نکلا ہو۔ ابھی کا ابھی تم نے طوفان لگا لیا۔ ابھی تو بہن سیوتی بھی بیٹھی ہیں۔

مغلانی : بس چھوکری بس۔ اور سانپ کی ایسی کیا کھاٹ کٹی جو تیری زبان ڈسنے آئے گا۔ میرا کیا بوڑھا چونڈا منڈوائے گی؟ میں تیرے منہ لگتی نہیں، میں نے اپنی بیوی سے بات کہی تھی۔

سیوتی نے جو یہ رنگ دیکھا تو وہ چلتی ہوئی اور باورچی خانے میں آ بیٹھی۔ اس کے بعد نجنیا بھی وہیں اُٹھ آئی۔

نجبنیا : باجی دیکھا؟ مگلانی نے ابھی کیسی بات بنائی۔ کھڑی

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 93

گائے میں کیڑے ڈالتی ہیں۔

سیوتی : ابھی دیکھو تو اس گھر کے کارخانے۔ جہاں سوئی نہ جائے وہاں لٹھا کریں۔

نجبنیا : بہن نیکی اُتر ایسی مگلانی پر۔ لٹھا رکھیں اپنے ہوتے سوتوں کے واسطے۔

مغلانی : بھلا، بھلا۔ میں سب سنتی ہوں۔ تو مجھے کوسے کاٹے جا۔ اے بیغم صاحب! میں کہتی ہوں آج تو اس نے سارا گھر سر پر اُٹھایا ہے۔ سب کو ایک سرے سے پاجامے میں ڈال کر پہن لیا ہے۔ منہ در منہ کوسنے دیتی چلی جاتی ہے۔

بیگم : کیوں ری مردار! تو نہ مانے گی، آؤں؟ (یہ کہہ کر جو بید مارنا شروع کیے تو اللہ دے اور بندہ لے)۔

نجبنیا : ارے نہیں بی بی نہیں، میں مر گئی، میں مر گئی۔ اُوں، آوں۔ اب نہ ہو گی، ارے بی بی۔ توبہ ہے توبہ۔ ہائے رے، ہائے رے۔

بیگم : حرام زادی، قطامہ! لو صاحب چل نکلیں۔ بلا اپنے حمایتی کو۔ دیکھوں تو کون آتا ہے۔ مال زادی آپے ہی میں نہیں۔

مغلانی : نہیں بیغم صاحب! اب جانے دیجیے، موئی مر جائے گی۔ (بیوی ایک تو یوں ہی اُس سے جلی ہوئی، دوسرے بھوک کی جھانجھ۔ ایک تو کریلا کڑوا، دوسرے نیم چڑھا۔ خوب ہی بے چاری پر کندی ہوئی۔ اس کے بعد لکڑیوں والی کوٹھری میں بند کر دیا)۔

بیگم : خبر دار! کوئی اس مردار کو نہ کھولے۔

مغلانی : نہیں بس، اب سزا ہو گئی، جانے دیجیے۔ یہ نگوڑی کوسنے دے گی۔

بیگم : نہیں صاحب، بچھڑا تو کھونٹے کے بل کودتا ہے۔ اس کے دماغ میں ہوا بری بھر گئی ہے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 94

پانچواں باب

حفظ ما تقدم

صاحب خانہ : (بیدار ہو کے) ارے کوئی ہے؟ ادھر آؤ۔

مدو : حاضر۔

صاحب خانہ : شیخ صاحب چلے گئے؟

مدو : جی حضور کب کے۔

صاحب خانہ : اچھا مرزا کو بلا لا اور دیکھ اگر مرزا گھر پر نہ ہوں تو کہے آنا، جس وقت آئیں فوراً بھیج دیں، ایک ضروری کام ہے۔

مدو : بہت بجا۔

(اندر تشریف لے گئے)

صاحب خانہ : (بیوی سے) کیوں بیگم! اب بتاؤ، کیا تدبیر کریں۔

بیگم : اب تدبیر میں کیا بتاؤں! تم مرد ذات ہو کے مجھ سے پوچھتے ہو؛ مجھ سے جو کہو وہ کروں۔

مغلانی : یا اللہ یہ بات کیا ہے؟ یہ آج حضور کو کیا وہم سما گیا ہے؟ کچھ ہمارے یہاں نئی بات ہے، ساری دنیا پرورش کرتی ہے۔ اور اول تو یہ ہے کہ کسی کو گھر کے اندر کا حال معلوم ہی کیا؟ لوگوں پر ڈگریاں جاری ہوتی ہیں اور برسوں محل میں رہتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ یہ لوگ گناہ گار، نہ خطا وار، ایسا کیا شہر شملہ ہے۔

صاحب خانہ : ارے صاحب تم نہیں جانتی ہو۔ میں بہت دور

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 95

ہوں۔ وہ اور بات ہے، یہ فوج داری کا معاملہ بڑی ٹیڑھی کھیر ہے، خدا ہر ایک عزت و آبرو والے کو بچائے آج کل کے زمانے میں۔

بیگم : اچھا ایک بات میرے ذہن میں آئی ہے۔ چاہو وہ کر دیکھو۔

صاحب خانہ : اچھا، کہو کہو کیا ہے؟ صلاح تو دیوار سے بھی لیتے ہیں۔

بیگم : جب تک ہلڑ ہے، آؤ تب تک ان کو کسی کے ہاں رکھ دیں۔ بعد دو ایک مہینے کے سب رفت گزشت ہو جائے گا، تب بلا لیں۔

صاحب خانہ : صلاح تو واللہ معقول ہے مگر میرا کوئی دوست نہیں جس پر مجھے اس قدر اعتبار ہو۔ تم ہی کوئی جگہ تلاش کرو۔

بیگم : ان میں تلاش کیا کرنا۔ کوئی بڑا گھر تو درکار نہیں اور نہ مناسب ہے۔ ایسی جگہوں میں بات چھپی نہیں۔ یہی کسی نوکر چاکر کے یہاں رکھا دو۔ جو کچھ کھانے پینے میں خرچ ہو گا، دے دیا جاوے گا۔ اُس میں یہ بھی ہے، سارے خوف کے وہ بات ظاہر کبھی نہ ہونے دے گا۔

صاحب خانہ : بہت انسب، ہم کو بہ دل منظور، آج ہی شام کو بسم اللہ کیجیے، اس عذاب کو میرے گھر سے نکالیے۔

(اتنے میں مرزا صاحب کے آنے کی خبر ہوئی)۔

صاحب خانہ : اچھا تو میں باہر جاتا ہوں، تم اُس کی فکر کرو اور تجویز کرو کون شخص اس لائق ہے؟ اگر صلاح ہو تو کہو مرزا سے بھی اس کا تذکرہ کروں۔ شاید وہ بھی کوئی تدبیر معقول سوچیں۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 96

مغلانی : ہاں ہرج کیا ہے، اپنے آپ باہر بھی مشورہ کر لیں۔ مردوں کی اور بات ہے، اُن کی چار آنکھیں ہوتی ہیں۔

(باہر آ کر)

مرزا : آداب بجا لاتا ہوں۔

صاحب خانہ : کہو مرزا اب تدبیر بتاؤ۔ کیا کیا جائے۔

مرزا : پیر و مرشد! کچھ بھی نہیں۔ آپ تو یوں ہی طبیعت کے تئیں پریشان کرتے ہیں۔ سارا جہان مزے سے ہزاروں لونڈیاں لیے بیٹھا ہے۔ کسی کو اصلا خیال تک نہیں۔

صاحب خانہ : اگر تمہاری صلاح ہو تو اُن کو کسی کے یہاں بھیج دیں۔ جب یہ ہنگامہ فرو ہو جائے، بعد دو ایک مہینے کے پھر بلا لیں۔

مرزا : جی ہاں، کیا ہرج ہے، مگر ایسا کون شخص حضور نے تجویز کیا ہے جو ان کو اپنے گھر رکھے۔

صاحب خانہ : تمہیں تجویز کرو۔ بیگم نے مجھے اس وقت یہ صلاح دی۔

مرزا : نہیں واللہ! صلاح تو نہایت ہی خوب ہے ماشاء اللہ سے۔ میں بھی حضور کے یہاں سے اُٹھ کر اسی فکر میں غلطاں پیچاں تھا۔ اسی تردد میں آج کہیں نہیں گیا۔ بھلا مجھ سا کوچہ گرد آدمی اور اتنی دیر گھر پر رہے۔ مگر واللہ یہ مجھے نہیں سوجھی۔

صاحب خانہ : لاؤ شیخ صاحب کے یہاں بھیج دیے جائیں۔ مگر بھئی مجھ کو تو تمہیں پر اعتماد ہے۔ اگر تم اپنے گھر لے جاؤ تو سب طرح اطمینان ہو جائے۔

مرزا : حضور مجھے اس امر میں کچھ عذر نہیں، بسر و چشم بجا لاتا مگر یہ کام شیخ صاحب ہی سے خوب ہو گا۔ آئندہ جیسی

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 97

مرضیٔ والا۔ تابعدار کو عذر ہی کیا، حکمِ حاکم۔ اُن کے دو چار بال بچے بھی ہیں، ہل جُل کر رہیں گے۔ اور یہاں تو خانہ بدوش آدمی؛ ایک وہ آپ کی لونڈی اور ایک غلام، لیجیے اللہ اللہ خیر صلاح۔ اگر یہ دو اور جا کر شامل ہوئے اور محلے سے بو پھوٹی تو اور لینے کے دینے پڑے۔ اور برب کعبہ، خدا اور رسول گواہ ہے جو کسی اور بات کا خیال ہو۔ صرف یہ ڈر ہے کہ اگر کل کو کوئی جھگڑا فساد ہوا، محلے والے تو جانتے ہیں کہ حضور کے زُمرۂ غلاماں میں یہ بھی ہے، تو دشمنوں پر بھی جھپیٹ آنے کا اندیشہ ہے۔

صاحب خانہ : علی ہذا القیاس شیخ بھی یہی کہیں گے۔

مرزا : یہ بھی بجا ارشاد ہوتا ہے۔

صاحب خانہ : پھر؟

مرزا : بخشوا اس خدمت کو بہت مناسب ہے۔ وہ بال بچے بھی رکھتا ہے اور معتبر بھی ہے۔ اس سرکار کا قدیم نمک خوار ہے، بالکل گوشت پوست یہیں کا ہے۔

صاحب خانہ : بخشو ادھر تو آنا۔

بخشو : حاضر۔

مرزا : وہ جو لڑکی اور لڑکا ہے نا، فی الحال ذری زیادہ شرارت اور خود سری کرنے لگے ہیں۔ اُن کے واسطے تدارک مناسب ہے۔ برائے چندے گھر سے نکال دیں تاکہ آئندہ ایسی شوریدگی نہ کریں۔ تم اُن کو اپنے گھر لے جاؤ اور کہو کہ سرکار نے تم کو نکال دیا ہے۔ اگر چندے سیدھے رہو گے تو پھر خیر میں کہہ سن کر قصور معاف کرا دوں گا، نہیں تم کم بخت نکال دیئے جاؤ گے، دانے دانے کو محتاج ہو گے۔

بخشو : بہت خوب، مجال ہے سرکار کی عدول حکمی کی جائے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 98

پیر و مرشد اگر جان بھی نکل جائے تو اُف نہ کریں، ہیں کس دن کے واسطے۔ مگر خانہ زاد ذری سرکار کی کنیز سے پوچھ آئے۔

صاحب خانہ : اچھا کیا ہرج، مگر پوچھ کر جلد آؤ۔

(بخشو اور اُس کی بیوی)

بخشو : اجی بی گھر بسی! ایک بات تو سنو۔ آج سرکار نے بلا کے ہم سے کہا کہ وہ لڑکے جو عرصہ ہوا پرورش کے لیے گئے تھے، برائے چندے تم اپنے ہاں رکھو۔ تو میں ے کہا سوچ لوں، پھر جواب دوں۔ کہو تمہاری کیا رائے ہے؟

بی : ہٹو بھی! کہاں کا جھنجھٹ نکالا۔ میں سمجھی کوئی اپنے فائدے کی بات ہے۔ مجھے چلا ہے فقرہ دینے (چٹکی بجا کر) چلیے ہوا کھائیے۔ اگر آپ نے اُڑائی ہیں تو ہم نے بھی بھون بھون کر کھائی ہیں۔

بخشو : یہ باتیں تو اس وقت تہ کر رکھو، بتاؤ صلاح کیا ہے؟ ہمارے رزدیک تو لے آنا مناسب ہے۔ ایک تو سرکار کی خوشی، دوسرے آخر جب یہاں مہینہ دو مہینہ رہیں گے، جو کچھ کھانے پینے میں خرچ ہو گا، سرکار سے ملے ہی گا۔ چلو تمہارا فائدہ وہ رہے گا، کسی طرح کا گھاٹا نہیں ہے، یہ بات نفع سے خالی نہیں۔ اور تم نہیں جانتی ہو، اس میں حکمت ہے، پھر کسی وقت تم کو بتا دیں گے، بڑا قصہ ہے، چڑیل کی چوٹی ہاتھ آنا ہے۔

بی : اچھا لے آؤ نا، کوئی منع کرتا ہے۔ مل ایک بات ہے ؛ جو میرے یہاں رہے گا، میں کام ٖضرور اُس سے لوں گی۔ ہاں بھئی، سچی بات سعد اللہ کہیں سب کے من سے اُترے رہیں۔

بخشو : شوق سے، مزے دے بیگم بن کے کام لو۔ اب خوش ہوئیں؟

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 99

میاں بخشو نے جا کر اپنی رضا مندی ظاہر کی اور شب کو اُن دونوں کو اپنے گھر لے گئے۔ صاحب خانہ کے حواس درست ہئے، اطمینان سے رہنے سہنے لگے۔ کبھی کبھی سیوتی دیکھنے جایا کرتی تھی۔ ایک روز نجبنیا اور سیوطی سے یہ بات چیت ہوئی)۔

(نجبنیا اور سیوتی کی بات چیت)

نجبنیا : آھا، آؤ باجی۔ آج تو کئی دن کے باودان نظر آئی دیں۔ اے ہاں، اب ہم کو تو نکال باہر ہیکیا، چھوٹے گاؤں سے ناتا کای۔ اب ہم کون جس کو پوچھنے کوئی آؤے۔

سیوتی : ابھا اب تم سب کہہ لو تو میں بھی اُس کے در جواب میں کہوں۔

نجبنیا : اچھا اچھا، کہو شوق سے کہو، میں کہہ چکی، ہم گریبوں کا کہنا سننا کیا۔

سیوتی : بھلا سچ بتا، تجھے اپنی آنکھوں کی قسم۔ ہم لوگوں نے نکالا؟ ہم آکل کھرُے جگ سے برے نہیں، جو اپنی قدحے کی خیر منایا کریں۔

نجبنیا : اچھا، تم اپنے دم سے نہ سہی، اور تو تمہارے بیڑے میں ایسی ایسی اللہ کی سنواریاں مہجود (موجود ) ہیں۔

سیوتی : سچ کہوں، یہ سب کرتوت اُسی ڈھڈوُ کے ہیں۔

نجبنیا : بہن! اپنا سونا کھونٹا، پرکھنے والے کو کیا ڈوس۔

بی مگلانی ٹکے کی آدمی کیا کر سکتیں، اگر جو ہمارے مالک نہ ایسے موم کی ناک ہوتے۔

سیوتی : ہاں یہ تو سچ ہے، مگر نہیں وہ مگلانی بڑی کتر بیونت کی آدمی ہے۔

نجبنیا : اچھا کہو تو کچھ ہمارے بلانے کو بی بی کہتی ہیں؟

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 100

سیوتی : بہن یہ تو میاں کی مرضی پر ہے۔

نجبنیا : اب آج کل بی بی کی ڈیل کا کون کام کرتا ہے؟ منہ کون دھلاتا ہے، بدن کون ملتا ہے؟

سیوتی اُونھ، اب تو کوئی کام نہیں، جس کو کہہ دیا۔ مل ہاں آج کل مگلانی کی طرف سے کچھ دل پھیکا ہے۔

نجبنیا : ہاں چلو شکر ہے۔ جیسے اس پچھل پائی نے مجھے دودھ کی مکھی کی طرح نکال باہر کیا، خدا کرے اس کا چونڈا مونڈا جائے۔ بڑی کنکالاہے۔ میرا ہی جگرجانت اہے، مگلانی ہے، ارے کلیجہ پکاتی ہے۔ اس کے گھر میں میت پڑے۔ یا پاک پروردگار! جیسا اس نے میرے ساتھ کیا ویسا اس کے دیدوں گھٹنوں کےآگے آئے۔

سیوتی : ارے اب کوسنے کاٹنے سے کیا ہوتا ہے، چپ بھی رہو۔ اس میں اور بھی تو بہت سی باتیں تھیں، جن کے چلتے تم اس کے یہاں بھیجی گئیں۔

نجبنیا : ہاں باجی تجھے میری جان کی قسم! اور کیا بات تھی۔

سیوتی : کچھ کھل کے تو میں نے نہیں سنا، یہی ادھر اُدھر سے ایک آدھ بات لے اُڑی، اور نہ کوئی کھل کے کہتا ہے۔ مگھم میں سب باتیں ہوتی ہیں۔ مُل اتنا کھلا ہے، انگریز بہادر نے حکم لگایا ہے، خبردار کوئی اب لونڈی نہ خرید کرے۔

نجبنیا : تو یہاں خرید کس کو کیا ہے؟ مرزا صاحب نے بلاتے وقت یہی کہا تھا، چل تجھ کو روٹی کپڑے پر رکھا دیں۔ ہاں اتنا ہے دو دن رہ کے بھاگ نہ آنا۔ میں نےکہا مجھے جو کھانے کو دیں تو میں عمر بھر وہیں تیر کر دوں۔

سیوتی : واہ وا! یہاں تو اُنہوں نے دس روپیہ نغد (نقد) اُسی

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 101

وقت کھڑے کھڑے لیے۔ بلکن (بلکہ) مجھے اس سے یاد ہے، میں ہی تو اُس وقت صندوقچہ بی بی پاس لائی تھی۔

نجبنیا : اے ہے، ستیاناس جائے اس مرزا کا، اس نے تو میرے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے۔

سیوتی : اس میں ہرج کیا ہے۔ تم تو ناواکف (قف) ہو، تم کو کوئی روک تھوڑا ہی سکتا ہے۔

نجبنیا : باجی سچ کہوں، ات تو سرکا میں جانے کو جی نہیں چاہتا، ادھر سے ادھر ہی کہیں نکل جاؤں۔

سیوتی : ارے ایک دن یہ تو ہونا ہی ہے۔ ہاں کلام اللہ کسم! بعض وخت تو میرا جی بھی اوکتا جاتا ہے، اب ہم بھی اسی سبیتے میں ہیں۔

نجبنیا : (گلے میں باہیں ڈال کے) باجی ایک بات کہیں؟ کسی سے کہو گی تو نہیں؟

سیوتی : میں بھلا تیری بات کسی سے کہوں گی؟ اپنی جوانی کسم! جو کہیں ذکر کروں۔

نجبنیا : باجی دیکھو، اپنے ہی تک رکھنا۔ ابھی تک دو جنوں سے تیسرا کوئی نہیں جانتا۔ بخشو آج بہت دنوں سے میرے پیچھے پڑا ہے۔ پوریاں، ترکاری،مٹھائی لا دیتا ہے۔ کہتا ہے کوئی دن کچھ کھا لوں گا، دریاؤ میں ڈوب مروں گا۔ اب تم سرکار میں کیا جا کےکرو گی۔ یہیں رہو، میں تمہاری سب طرح سے خبر گیری کروں گا۔

سیوتی : ایں! یہ بخشو؟ بخشو بھلا وہ بال بچے والا آدمی۔ نا بھائی، ہماری صلاح نہیں۔

نجبنیا : وہ تو یہاں تک وعدہ کرتا ہے، چاہے اسٹام لکھا لو، میں عمر بھر روٹی کپڑا دینے کو تئیں ہوں۔ اور بھئی ایمان

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ102

کی تو یہ ہے، آج تک اُسی کے دم سے ہم کو یہاں سب طرح کا چین ہے۔ مزے سے گھر کی بی بی بنے کھاتے ہیں۔ نہیں تو اُس کی والی ایسی چنچل نٹ کھٹ ہے، دم بھر تو رہنے دیتی نہیں۔

سیوتی : اچھا تو ابھی دیکھو تو اُونٹ کس کل بیٹھتا ہے۔ اُس کو ابھی لگائے رہو، صاف جواب بھی نہ دو۔

نجبنیا : کیا کوئی کر کیا لے گا۔ دائیوں میں نوکری کر لیں گے، پانچ چھ روپیہ کہیں نہیں گئے۔

سیوتی : میں تو اب جاتی ہوں۔ مونگ کی دال بھگونا ہے۔ میاں پہریز (پرہیز) کرتےہیں۔

نجبنیا : ابھی اور بیٹھو، تمہارے آئے ذرا جی لگتا ہے۔

سیوتی : نہیں پھاٹک معمول کرنے کا بھی وخت آ گیا۔ ایسا نہ ہو موا سپاہی زنزیر دے دے تو رات بھر ٹاپتی پھریں۔

نجبنیا : اچھا بہن، اچھی رہنا۔
****************************************************************
بخشو اور اس کی جورو کے جوتی پیزار

جورو : سن تو سہی۔ یہ آج اپنی بہنیا بی نجن بیگم کو اچھی بڑی سی درپنی لا دینے کو پیسے اچھی طرح نکل آئے، اور اُس وقت مستان سرمے والے نے آواز لگائی، اللہ ہم ایک پیسہ مسی کو مانگا کیے، قسمیں کھانے لگا، کس شمر کے بچے کے پاس ایک جھنجھی بھی ہو، نہ دینا تھا نہ دیا، اب یہ کہاں سے دام نکلے؟

بخشو : میں کہتا ہوں نصیباً کی ماں! تم اپنے ہوش میں ہو؟ کہیں گھانس تو نہیں کھا گئیں؟ وہ باتیں کرتی ہو جس سے گدھے کو بھی بخار آتا ہے۔ شک کی بھی حد کر دی۔ آج کئی دن سے اُس نے پیسے دیے تھے، بازار اگر تم جانا تو میرے لیے

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 103

آئینہ لے آنا۔ تم جانو، میری بھول جانے کی تو خو ہے، نہ خیال رہا، آج دھیان آیا، لیتا آیا۔

جورو : چل ہٹ مردوے۔ یہ منہ دیکھی باتیں اپنے ہوتوں سوتوں کے واسطے تہہ کر رکھ۔ ہم سے چلا ہے چکمے بازی کرنے۔ اور ایک آئینہ؟ ابھی گنانے پر آؤں، خونے (خدا جانے) کے ہزار باتیں بتاؤں۔ بارے چھیڑ خانی کی مجھے عادت نہیں۔ابھی صاحب مہروان نوچندی کو چوڑی والی کو کس نے اپنی جیب سے نکال کر پیسے دیے تھے؟ یہ کپیوں تیل کس کی خاطر چلا آتا ہے؟ اور یہ پیسہ روز کے بیگمی پان بی صاحب کہاں سے کھاتی ہیں؟

بخشو : سنا نصیباً کی ماں! کیوں کسی کا صبر سمیٹتی ہو۔ جو کچھ کہو مجھ کو کہو۔ دیکھو اس معاملے میں زیادہ تُو تُو میں میں اچھی نہیں دیکھو! تم کہے چلے جاتی ہو اور مجھے غصہ چڑھتا چلا آتا ہے۔

جورو : اچھا آپ کو غصہ آئے گا تو کیا کر لیجیے گا؟ رانی روٹیں گی، اپنا راج لیں گی۔ لو صاحب ان کے پیچھے اپنے تئیں کو غارت کر دے، خاک میں ملا دے اور ان کے بھاویں نہیں۔

نجبنیا : (سامنے کوٹھری سے پائنچے سنبھالتی نکلی) دیکھو بئی میں پکارے کہے دیتی ہوں، جو میرا ذکر کسی نے کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں۔ پیاز کے چھلکے اتار کر دھر دوں گی۔ بندی کچھ نموہی نہیں۔ میں بھی کسم کلا اللہ کی ایسی ایسی سناؤں گی تو پھر مدتوں تک داگ نہ چھوٹیں گے۔

جورو : بی صاحب! تم سے تو میں کچھ کہتی نہیں، بھلا میری کیا مجال۔ میں تو بخشو مُردے کی جان کو روتی ہوں۔

بخشو : دیکھو، واللہ باللہ، جو ذرا اُس سےکلام کیا تو اس کا

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 104

مزہ چکھا دوں گا۔ چلو تب نہ سہی اب سہی۔ کیا کوئی میری ۔۔۔۔۔۔۔ کر لے گا۔ اس ضد پر دیکھ تو سہی حرام زادی تیرے سر پر لاتا ہوں، چل جہاں تک تجھ سے چلا جاوے۔

جورو : لے آ اپنی اور کوئی اماں بہینا۔ ایک کو تو لے آیا، اب سارا چکلہ بسا دے۔ تجھ کو بھی بائیں ہاتھ کا کھانا حرام ہے، جو اپنا ساراکنبہ نہ لے آئے۔ وہ تو میں پہلے سے سمجھی بیٹھی ہوں؛ میرا ماتھا تو تب ہی ٹھنکا تھا، پہلے ہی تو نے خوش خبر سنائی تھی۔

بخشو : چپ رہ، حرام زادی قطامہ! نہیں ارے جوتوں کے فرش کر دوں گا۔

جورو : اے تو مارنے والا غارت ہو، تیرا جنازہ نکلے، تیری صورت کو مردہ سو لے جائیں!

بخشو : مانتی ہی نہیں، چرخے کی طرح چلی جاتی ہے۔ لے جو کم بختی آئی ہے تو لے۔

یہ کہہ کر میاں بخشو نے جوتا اُتارا ہی تھا کہ جورو کمر سے چمٹ گئی۔ پھر تو اللہ دے اور بندہ لے۔ اگر ایک گھونسہ میاں بخشو نےلگایا تو تین چانٹے جورو نے رسید کیے۔ (دو بہ مد پیشگی) اُنہوں نے اس کے جھونٹے پکڑے، اس نے پٹے لیے۔ عورت تھی طاقت ور، یہ افیونی جوان، سینکیا پہلوان۔ چوٹی ہاتھ سے سٹ سے نکل گئی، اُدھر پٹے گئے اُنگلیوں میں اُلجھ۔ نہ وہ چھوڑتی ہے نہ خود چھوٹتے ہیں۔ اب یہ گردن جھکائے کہہ رہے ہیں۔

"اچھا بال میرے چھوڑ دے، دیکھ تو آج تیرا کیتس بھرتا بناتا ہوں۔"

جورو : اچھا اچھا، تو جوتی سے ٹھوکر مارے جا۔ سارو پاؤں

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 105

لہو لہان ہو گیا۔

بخشو : آج چاہے انگرکھا چونی چونی ہو جائے مگر تجھے آج بے درست کیے نہیں چھوڑوں گا، چاہے نیچو پھانسی ہو جائے۔

جورو : قسم جناب امیر کی! ناک ہی دانت اُڑا لوں گی، چھ مہینے کو چلی جاؤں گی بلا سے۔

جورو ‘ہوں‘ کر کے جو سامنے سے ریلتی ہے تو اُدھر میاں پیچھے کو ہٹے، اُدھر پائینچے میں پاؤں پھنسا، دھڑیم سے زمین پر۔ اس لنگر میں میاں بخشو بھی بال باندھے جھک گئے۔ موقع جو پایا تو آپ اُوپر اور جورو تلے۔ نیچے سے نکال کے اُلٹا ہاتھ جو مارتی ہے تو گال میں ٹوٹی چوڑی کا کھڑونچا لگ گیا، دہل دہل لہو بہنےلگا۔

بخشو : اچھا حرام زادی، تو نے تو آج مجھے زخمی کیا۔ میں کہتا تھا، کیا عورت ذات پر ہاتھ چلاؤں، لے آج بے جان لیے نہیں چھوڑنے کا!

نجبنیا نے جب دیکھا کہ میاں صاحب کا واقعہ ہوا جاتا، ہے، دوڑی اور چھڑانے لگی "ہائیں ہائیں، یہ کیا ہے؟ بس ہو چکا۔ اے نیک بخت کیا جان لو گی، گھائل تو کر دیا۔ نیکی اُترے ایسے غصے پر۔" بخشو کا ہاتھ پکڑ کر "تم بھی چھوڑ دو۔"

جورو : نہیں نہیں بہن، تو نہ بولو اس بیچ میں۔

بخشو : تم جاؤ، بیٹھو، اپنا کام کرو، مجھے آج درست کرنے دو۔

نجبنیا : چلو، بس ہو چکا۔ کوئی اپنے آدمی پر اس طرح ہاتھ چلاتا ہے۔ دیکھو تو سارے تمہارے اُن کے کپڑے لہو میں شربور ہو گئے، دونوں جنے جیسے نہا گئے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ106

بخشو : اچھا تو یہ میرے پٹے چھوڑ لے۔

جورو : لے میں تجھے کیا پکڑے ہوں!

قصہ مختصر دونوں جدا ہوئے۔ بخشو تو دامن سے کھڑے لہو پونچھ رہے ہیں اور بی صاحب نے بین میں لگا لگایا۔ تھوڑی دیر بعد چٹ نصیباً سے ڈولی منگوا کر سرکار میں جا پہنچیں۔

(بخشو کی جورو کی زار نالی)

سیوتی : (بیگم سے) حضور بخشو کی بی بی کی ڈولی آئی ہے۔ کہتی ہے مجھے کچھ ناب صاب اور بے ام صاحب سے عرض معروض کرنا ہے، حکم ہو تو اُتاری جائے؟

بیگم : کون بخشو؟

سیوتی : حضور سرکار کا خواص۔

بیگم : وہ تو کبھی پہلے آئی نہیں۔

مغلانی : نہیں ائی تو کیا ہوا! بلوا لینے میں کیا ہرج ہے۔

بیگم : اچھا آنے دو۔

بخشو کی جورو تین تسلیمیں بجا لا کے ایک طرف کھڑی ہو گئی۔

بیگم : اچھا بیٹھو۔ کیا ہے، آج کہاں چلیں؟

جورو : (تین تسلیمیں پھر کر کے بیٹھی) جی بے ام صاحب! بہت دفعہ جی چاہا کہ اپنی سرکار میں حاضر ہوا کروں۔ مل ایک تو آپ کا خانہ زاد مزاج کا ایسا خراب، چھینکتے ناک کاٹتا ہے۔ جو باہر نکلتا ہے دروازے کی باہری زنزیر بند کر جاتا ہے، گھر کے کام کاج میں دم لینے کی مہلت نہیں ملتی۔

بیگم : اچھا کہو آج کیوں کر آئیں۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 107

جورو : آج تو حضور پاس فریادی آئی ہوں، آپ ہی منصفی کیجیے۔ بے ادبانہ معاف، سرکاری لونڈی میری سوت بننا چاہتی ہے۔ وہ مردہ بھی ایسا اُس پر مرا دھرا ہے، مجال کیا ایک بات بھی کچھ زبان سے نکال سکو۔ یہ حضور کی خفگی لونڈی پر ایسی کیا ہوئی جو ایک سوت بھیجی۔ یوں ہی آئے دن کی تُو تُو میں میں، دانتا کلکل سے سوکھ کر کانٹا ہو رہی تھی، اُس پر اور ایزاد ہوا۔

بیگم : ہوش کی دوا کر عورت! میری لونڈی ایسی نہیں۔ تو اپنے خاوند کو روک، نہیں پھر مجھ سے برا کوئی نہیں، جو میری لونڈی میں کسی طرح کا داغ آیا۔

(اتنے میں اتفاق سے نواب صاحب تشریف لائے)

نواب : کیا ہے بیگم؟ یہ کون نیک بخت ہیں؟ کہاں سے آئی ہیں؟

بیگم : یہیں سے آئی ہیں، بخشو کی جورو ہیں۔

نواب : ہاں تو یہ کہو۔ ہم نے پہلے نہیں دیکھا۔

بخشو کی جورو : (تین تسلیمیں کر کے) سرکار کو خدا سلامت رکھے۔ آج تو لونڈی فریاد لے کے آئی ہے۔ اوپر خدا ہے اور نیچے حضور ہیں۔ اب اور کس کے پاس جا کر فریاد کروں۔

نواب : فریاد کیسی، کہو تو۔ (بیگم سے) کیوں بیگم! یہ کیا معاملہ ہے؟

بیگم : پوچھو نا۔ نیک بخت کہہ جو کچھ کہنا ہو۔

جورو : حضور کیا عرض کروں۔ سرکار کے غلام نے آپ کی لونڈی پر آج کل وہ ظلم کر رکھا ہے، خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کرے۔ اُٹھتے، بیٹھتے مار پیٹ، کوسنے موجود۔ جہاں کوئی بات ہوئی، بی بی اپنا چلتا دھندا کرو۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 108

ادھر جب سے سرکار سے لونڈی لے گیا ہے، تب سے اس کی بدولت جو اس جنم جلی پر آفت ہے، خدا پاؤن تلے کی چیونٹی کو بھی نصیب نہ کرے (آنچل سے آنسو پوچھ کر)۔ حضور بوڑھی ہونے کو آئی، جو جیتے رہتے، کئی بچوں کی ماں ہو چکتی۔ اور آج ذرا سی بات پر اُس نے بھس کر کے ایسا مارا کہ سارے بدن میں نیل پڑ گئے۔ حضور گھر میں ماں باپ نے تو ہاتھ اُٹھایا نہیں، اُس مردے نے آج مجھے بالکل پست کر دیا (اب تو زار و قطار رونے لگیں)۔

نواب : یہ تو عجیب قصہ معلوم ہوا۔ اچھا اچھا نیک بخت رونے سے کیا حاصل۔ اُس کا تدارک ہوا جاتا ہے۔ (اتنی سہ جو پائی تو پھر کیا تھا۔ اب فرمایشیں لیجیے)۔

جورو : حضور ہاں! سرکار اُس کو بلا کر خوب ذلیل کریں۔ کئی بار میرا جی چاہا، یہ مقدمہ سرکار کو کہلا بھیجوں، مل اسی ڈر کے مارے، شنوائی ہو نہ ہو، اپنی بات بھی گئی۔ اے حضور! جب سے یہاں سے اُس کو لے گیا ہے، کیا وہ اپنے آپے میں تھوڑی ہے۔ سرکار کے بھی کام میں نہیں جی لگتا ہے، نہ گھر سے خبر ہے۔ سمجھاتی ہوں، بجھاتی ہوں، ارے جو سرکار میں بات پہنچے گی تو بڑی غضبی آئے گی، نکال باہر کیا جائے گا، برطرف ہو جائے گا۔ بال بچے جورو لڑکے والا آدمی ایسی فیلسوفی اختیار کرے گا، تیرا کہاں پتہ لگے گا۔ ایک تو موے نشا پانی میں سب گھر گرہستی اُڑائی؛ تنخواہ پاتا ہے، اسی میں اُڑتی ہے۔ جو اُوپر سے چار پیسے ملتے ہیں، چنڈو بمبو میں پھونکتا ہے۔ بھلا کب مانتا ہے، اور پھر میری بات؟ اب حضور بلوا کر میرے ایک کی ایک کرا دیں۔ میں اب اُس گھر نہ جاؤں گی۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 109

جس میں نجنیا براجتی ہو گی، میں اُس ڈربے ہی کو پھونک دوں گی۔ اب یا تو وہ سب باتیں فیلسوفی کی چھوڑیں، نہیں تو مجھے اُن سے کام نہیں۔ میری اُن کی بھری کچہری میں فارخطی (فارغ خطی) ہو جائے۔ سمجھوں گی رانڈ، بیوہ ہو گئی۔ لڑکی اُن کی ہے، اپنے پاس رکھیں۔ مجھے کچھ اُس کی ایسی پروا نہیں ہے، وہ جانیں اُن کا کام جائے۔

نواب : (بیگم سے) یہ تو بہت بری بات ہے، بڑا تعجب ہے۔ ہم کو ابھی تک اصلا اس کی خبر نہ تھی، اس قدر یہ شخص لچا ہے۔ بلا کے برطرف کر دینا چاہیے۔

بیگم : بیٹھو بھی۔ تم بھی اُن لوگوں کے کہنے میں آتے ہو۔ خدا جانےکیا معاملہ ہو گا؟ سنتے ہو اس عورت کی باتیں۔ وہ فارخطی لینے کو موجود ہے۔ ارے یہ کمینے ہیں، ان کی ایسی ہی باتیں ہوا کرتی ہیں۔

نواب : نہیں صاحب! کچھ ہو، اب اُس کا وہاں رہنا کسی طرح اچھا نہیں۔ اور اُس مردود کو ابھی برطرف کرتا ہوں۔

بیگم : اچھا اچھا، برطرف کرنے کو کیا ہے؟ وہ تمہارا نوکر ہے، ہر وقت تمہارے اختیار میں ہے، جب چاہو نکال باہر کرو۔ کسی امر کو منع نہیں کرتی مگر پہلے بات کی تئیں تو سوچ لو۔

نواب : سبحان اللہ! اب ہم ایسے احق ہیں، کچھ سمجھتے ہی نہیں؟ بس اس معاملے میں اپنی عقل تہ کر رکھیے۔

مغلانی : بیغم صاحب، بیغم صاحب! جانے دیجیے، اُنہیں کی خوشی کیجیے۔ اچھا حضور! آپ مالک ہیں، جیسا مناسب جانیے کیجیے، مگر پہلے تحقیق کر لیجیے۔ حاکم بھی مقدمہ سنتا ہے، عذر معذرت سن لیتا ہے۔ اور لونڈی کو کیا ہے،

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 110

آج شام کو نگوڑی بلا لی جائے گی۔

نواب صاحب بھی کچھ ٹھنڈے ہوئے، کچھ بیگم صاحب بھی سمجھ کر چپ ہو رہیں۔ بخشو کی جورو بھی تھوڑی دیر کے بعد ڈولی منگا چلتی ہوئی۔ مگر ایک منہ بولی خالہ کے یہاں اتری، گھر نہ گئی۔ ادھر میاں بخشو کا حال معلوم ہوا کہ جورو نے خوب مرمت کی۔ سیروں ہلدی لگائی، گھر میں پڑے ہیں۔ مگر نجبنیا اور بخشو کو اس کی خبر بھی پہنچ گئی کہ جورو نے وہاں جا کر کیا آگ لگائی اور آج شب کو ہم دونوں میں فراق ہو گا۔

اتنی فرصت میں جو کچھ میاں بخشو اور نجبنیا کے مشورے ہوئے، وہ قصے میں آگے چل کے کھلتے جائیں گے۔ یہاں صرف اسی قدر کافی ہے کہ شام کو سیوتی گئی اور نجبنیا کو لوا لائی۔
**********************************************************

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 111

چھٹا باب

میاں بیوی کی بات چیت
وقت 10 بجے شب

میاں بیوی لیٹی ہیں اور سیوتی چپی پر ہیں۔

میاں : بیگم! بیگم! اجی کیا ابھی سے سو گئیں؟َ بھئی تمہارے خراٹے وحشت بڑھاتے ہیں۔

بیوی : اے تو کون سوتا ہے۔ کہو کیا کہتے ہو؟ میں تو ابھی چپ پڑی ہوں۔

میاں : سیوتی تو کھانا کھا چکی ہے؟

سیوتی : جی حضور کھا لوں گی۔

میاں : اچھا تم جاؤ، کھانا کھاؤ۔

میاں : کہیے آج کل وہ آپ کی نجبن نہیں دکھائی دیتیں۔

بیوی : اونہہ ہو گی مالزادی۔ سارا گھر ناحق بے ناحق کو اُس نگوڑی کے پیچھے پڑا ہے۔ جناب امیر کی قسم، اگر اُس سے سلیقے سے کام لیا جائے تو ایسی اچھی لونڈی ہو جسے کہتے ہیں ۔

میاں : اس میں کیا شک ۔ ایک آپ ہی اُس کے قدر دان باقی ہیں۔ وہ کہیے خدا نے پر سال صرف اتنی بات کے لیے تو قحط ڈالا ہی تھا۔ ایک ایسی لائق ہوشیار سلیقے کی عورت گلی گلی کی ٹھوکریں کھاتی پھرتی تھی۔ اس بہانے ایک اپنی قدر دان تک پہنچ سکی۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 112

بیوی چلو، تم کو طعن تشنیع کے سوا اور نہیں آتا۔

میاں : خیر یہ تو ہنسی تھی۔ آج دوپہر کو ہم نے عجیب کیفیت دیکھی۔

بیوی : کیا؟

میاں : میں اُوپر سے آتا تھا کہ بخشو سے نجبنیا باتیں کر رہی تھی۔ اور تو میں نے کچھ نہیں سنا، صرف اتنا سنا کہ بخشو کہہ رہا تھا، تیری جان کی قسم۔ وہ کہتی تھی، چل جھوٹے، کیا مفت کی میری جان بنائی؟

بیوی : تو کیا ہوا۔ لاکھ بات آدمی ہنسی میں کہتا ہی ہے۔ بس تم کو عیب ہی دکھائی دیتا ہے بات بات میں۔

میاں : نہیں۔ اس واسطے میں تم سے کہتا ہوں۔ ذری اس عورت سے ہشیار رہنا۔ آدمی کا اعتبار کیا۔ تم توشے خانے کی بھی کنجی اکثر اُسی کو دے دیتی ہو، مودی خانے میں بھی چلی جاتی ہے۔ بخشو آدمی نشے پانی والا ہے، اُس کا اعتبار ہی کیا۔ سب طرح کے لچوں شہدوں سے راہ رسم رکھنے والا۔ اور یہ بھیجانتی ہو، میاں کا چار روپیہ خشک میں ہوتا ہی کیا ہے، پھر بال بچے جدا۔ مجھ خوف ہے کہیں یہ صاحب اپنے یار کو میرا سارا گھر موس کے نہ دے دیں۔

بیوی : بس تمہارے اُوپر یہی دور اندیشی ختم ہے۔ مجال ہے تنکا بے ہمارے حکم باہر نکل جائے۔ اور یہ ذرا ذرا سی چیز پر نظر نہیںرکتھی۔ میاں چاہے برا مانو یا بھلا، یہ تو مجھ سے ہو گا نہیں۔ مودی خانے بھی خود ہی جاؤں، توشے خانے بھی ہر دفعہ آپ ہی جاؤں، ایسی تو میری ارواح ہے نہیں۔ نہ میں نے اپنے یہاں کبھی دیکھا نہ جانوں۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 113

ہاں اب تمہارے قابو میں ہوں، جو کہو کروں۔

میاں عجب سمجھ کی آدمی ہو۔ ارے صاحب اپنی خبرداری ہوشیاری کو کہتا ہوں، یا اور خدا نخواستہ میری کچھ عرض ہے۔

بیوی : ارے تم مجھے سمجھے کیا ہو۔ میں تو یہی حیران ہوں، افسوس کسی نے آج تک مجھے پہنچانا نہیں۔ ارے میں تو اُڑتی چڑیا کے پر گنتی ہوں، مجھ سے کوئی اُڑ کے کہاں جائے گا۔ اول تو کسی نے یوں ہی عداوت سے کہہ دیا ہے، نہیں، کیا ہنسی کی کسی کی مناہی (ممانعت) ہے، آخر ان کم بختوں کے بھی دل ہے کہ نہیں۔

میاں : جی درست، بجا۔ دیکھیے گا، بعد چندے اُن کا دل آپ کو کیسے کنوئیں جھنکواتا ہے۔ کسی دن وہ ہاتھ مارے گی کہ یاد کیجیے گا۔

بیوی : اے نہیں توبہ کرو۔ ایک بات ہے، چاہے برا مانو۔ اُس میں لاکھوں عیب ایک طرف اور یہ خوب ایک طرف۔ نیت اس کی خراب نہیں۔ لاکھ روپے کی چیز رکھی ہو گی، مگر اُس کی نیت جو تم چاہو ڈانوا دول ہو، کیا مجال۔ اب کی جب سے آئی ہے، تم جانو میرا سارا کام وہی کرتی ہے۔ اور سب طرح کی چیز اُس کےہاتھ سے رکھواتی اُٹھواتی ہوں، کیا مجال ایک رتی کا تو بل پڑے۔

میاں : خیر صاحب تم جانو۔ یہ باتیں ایسی ہیں، اس کا تجربہ تمہیں کو ہو سکتا ہے۔ جھوٹ سچ بولو، ہم آمنا صدقنا کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ اگر ہم تجربے کا قصد کریں تو تم بے چاری کو ابھی کل ہی سر مونڈ کر گدھے پر سوار کرو۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 114

بیوی : اخ آہ! تو اب معلوم ہوا، یہ بات ہے۔ چلو اچھا تو ہے، تم تو ایک حالوں حلال بھی ہے۔ لونڈی کی نیت نہیں، آپ ہی کی نیت سلامتی سے ڈانوا ڈول ہو چکی ہے۔

میاں : لے اب لگیں واہیات شاخیں نکالنے، اب سونے دو۔
***************************************************************
بخشو اور نجبنیا

بخشو : آج کل تو واللہ بے خرچ ہو رہے ہیں۔ مرزا کی دوکان پر نہیں جا سکتے۔ بارہ آنے پیسے ہو گئے، وہ ایک چھینٹا بھی نہیں دیتے۔

نجبنیا : ابھی اٹھوارہ نہ تمام ہوا ہو گا، تجھ کو ایک آرسی دے چکی ہوں، جا بیچ لا اور آج پھر وہی نخرا۔ کچھ اپنی اختیاری بات تو ہے نہیں۔ جب موقع ملتا ہے، ہاتھ چالاکی کر جاتی ہوں۔ روز جو گھی چپڑی لیا چاہو تو دوسرے دن سر مونڈا جائے۔ ہم تو دال میں نمک کھایا چاہیں۔

بخشو : اجی یہ تو رہے گا۔ اب یہ بتلاؤ، سب دیکھ بھال لیاِ؟ کہاں کہاں کون اسباب رکھا ہے۔ اور کہو اُس بات کو جو کہا تھا، اُس کی کچھ فقر (فکر) کی؟

نجبنیا : تم جانو یہ باتیں منہ کا نوالا تو ہے نہیں، رسانیت سے یہ باتیں کی جاتی ہیں۔ پہلے سب پکی پوڑھی کر لیں، موقع بھی ہاتھ آئے، اُس وقت تم سے کہیں۔ باقی تم سب سے کہی بدی رکھو۔ وہ لوگ تئیں رہیں۔ جب موقع لگے فورون (فوراً) خبر کر دیں۔

بخشو : سبحان اللہ! گھڑی بھر میں گھر جلے، اڑھائی گھڑی بھدرا۔ آج تک موقع محل ڈھونڈھے گی، یہاں واقعہ ہو جائے گا۔ آخر بنچو مرتے وقت سبیتا ہو گا؟ آج کل جو معاملہ لیس ہو جاتا، اندھیری بھی تھی۔ سب کام مزے سے ہو جاتے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 115

نجبنیا : اچھا یہ تو بتاؤ، کے آدمی شریک ہو اور کون کون ہے؟ اپنے قول پر سب مضبوط ہیں؟ دیکھو ایسا نہو ہو کل کدان کو، خدا نخواستہ دشمن کے کان بہرے، کوئی واردات ہو گئی تو ایک دوسرے کا نام تو نہ لیں گے؟

بخشو : واہ واہ! تم نے بھی ایک ہی کہی۔ ایسا کیا کہیں بچوں کا کھیل ہے۔ اور پھر اُن لوگوں میں جو ایسی ہی بات ہو تو کوئی کسی کا کیوں ساتھ دے۔ اُن لوگوں کا اگر گلا کاٹ ڈالو تو کیا معنی ایک حرف بھی زبان سے نکلے۔

نجبنیا : اچھا تو میں کہتی ہوں، اگر تم اکیلے کام کرو، کیا نصقان (نقصان) ہو؟

بخشو : یہ جان جوکھم کہیں اکیلی ہوتی ہے؟ دس پانچ سے مل کر یہ کام ہوتا ہے۔

نجبنیا : اچھا اس کو اپنے تم جانو۔ موقع تو آنے دو۔

بخشو : اب یہ تو بتاؤ، مال اسباب کدھر ہے؟

نجبنیا : تم جانو اسباب سب ایک جگہ تو ہے نہیں۔ ایک چیز ادھر پڑی ہے اور ایک اُدھر پڑی ہے۔ سرکار کے کپڑے تم جانو کچھ باہر رہتے ہیں۔ کچھ اور اسباب پینچوان، اپنچوان، دستگیان، چاندی کا اسباب، اغال دان، خاص دان، حقے، چلم، غلم، پٹکے ایسی چیزیں ایک لوہے کے بڑے صندوخ (صندوق) میں رہتے ہیں۔

بخشو : بھلا اُس میں قلف (قفل) ہے؟

نجبنیا : یہ مجھے اچھی طرح خیال نہیں۔ ہاں ہاں یاد تو آیا، اُس میں خود ہی کلف بنا نہیں ہے۔ اور جو ادھر وار کو بائیں طرف کمرہ ہے، اُس میں بیگم صاحب کے کپڑے ہیں جو روز پہنتی ہیں۔ اور بھاری کپڑے میں نے دیکھے نہیں۔ سنتی

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 116

ہوں کہ اسی کے پاس دوسری کوٹھری میں ہیں۔ ایک جگہ ہو، کہوں۔ چار چیزیں اس صندقچے میں ہین، دو اُس میں ہیں۔ اب تم جانو کرن پھول تو آج مہینہ ہونے کو آیا، بی بی کے کان میں ہیں۔ جس میں روپیہ پیسہ رہتا ہے، کچھ اُس میں ہے جس میں عطر جافران مسک رکھا جاتا ہے۔

بخشو : وہ صندوقچہ کہاں رکھا ہے؟

نجبنیا : عطر دان سامنے کے دالان کے طاق پر ہے۔ اور کچھ زیور توشے خانے کے اندر ایک بڑا بھاری لکڑی کا صندوق ہے، پہیے لگے ہیں، اُس کے اندر کئی ایک چھوٹی چھوٹی صندوقچی ہیں، اُن میں وہ بھی رکھا ہے، اُس میں بھی جڑاؤ زیور ہے۔ اور دوشالے رومال کی الماری وہیں ہے۔

بخشو : اچھا بتاؤ، وہاں تک پہنچنے کی کیا تدبیر ہے۔ بھلا سیندھ ہو سکے گی؟

نجبنیا : اے واہ۔ اتنا سب کچھ سمجھایا، اتنا بھی نہ سمجھے۔ بھلا کون سیندھ، کہاں توشہ خانہ۔ ارے کچھ احمو ہوا ہے وہ توشہ خانہ کوٹھے پر ہے یا کہیں نیچے۔

بخشو : اچھا بتاؤ تو کدھر ہے؟ تم آپ اول جلول بتاتی ہو۔ اچھا لے اب سرے سے بتا چلو۔

نجبنیا : اب جیسے تم ڈیوڑھی سے گھسے تو بائیں طرف جو صحنچی ہے، اُس میں یہ سب ہے۔

بخشو : بھال اُس کی چھت پر کس حکمت سے پہنچ سکیں گے؟

نجبنیا : اندر ہو کر راہ ہے، اور تو میں جانتی نہیں۔

بخشو : اچھا۔ اب کل تم ذری اُوپر کے کوٹھے پر کھڑی ہونا، اُس وقت ہم دیکھ کے اپنی تدبیر سوچ لیں گے۔ اگر

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 117

تدبیر بن پڑی تو چھت کاٹیں گے اور اُوپر ہی اُوپر مال اُوڑا دیں گے۔ کوئی کانوں کان خبر نہ ہو گا۔ ہاں خوب یاد آیا۔ پچھواڑے ایک مکان بھی تو کسی کا تھا، آج کل خالی ہو تو بس معاملہ چوکس ہے۔

نجبنیا : اچھا۔ لے اب جانے دو، دیرہوتی ہے۔

معرکے کی چوری

مقام عقت مکان، وقت : دو بجے شب

ننگو، کریم، رضا، الٰہی، دیبی، بخشو

کریم : ابے بکسو! بھئی کسم جوانی کی، اندھیری میں کیا موکے (موقعے) گٹھیں گے۔ ابے کدھر گیا؟ بتاتا نہیں، سالے دھروائے گا تو نہیں؟

بخشو : ابے چپ، کیا بک بک لگائی ہے۔ اس مکان کے کوٹھے پر سب چڑھو۔ میرا سب دیکھا پڑا ہے، سیدھی راہ ہے۔

رضا : ابھی تم نیچے رہو، ہم سب اُوپر جاتے ہیں۔

(ننگو، کریم، رضا، دیبی، بخشو کے پیچے کوٹھے پر آئے)

بخشو : یہ دیوار ہے۔ طاق پر پاؤں رکھ کر اُس پر ہو رہو۔ پس پھر آگے محل کی دیوال ہے۔

کریم : ابے تو تو اُوپر چڑھ، ہم ہی کو بالا بتاتا ہے۔

بخشو اچھا یوں ہی سہی، لے آؤ۔ ابے بیلچہ کمر سے گرنے نہ پائے۔ لے یار کوئی اور آؤ دیوار اُونچی ہے ذری۔

ننگو : بے اوجار پاس ہے۔ جری سا کھود لے، اُنگلیاں ٹک جائیں، پھر بنچو تڑپ کے اُوپر ہو رہنا۔

بخشو کھود ہی چلا تھا کہ کانسٹبل نے آواز لگائی، "بھلا جوان بھلا"، سب اپنی اپنی جگہ پر سمٹ رہے اور بخشو بھی دیوار سے سیدھا چمٹ گیا۔ ذری دیر کے بعد دیوار کھود اور پنجہ ٹیک اچکتا جو ہے تو بڑی چھت پر ہے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 118

پھر تو رسیوں کے سہارے سب کوٹھے پر تھے۔

کریم لے بچا، کدھر گئے بتاؤَ؟ تمہاری والدہ شریپھ کہاں پتا دے گئیں۔

بخشو : یار کریم تمہاری ٹھٹھے بازی ہر جگہ بھلی نہیں معلوم ہوتی۔ آگو وار مٹی کا پیالہ چھت پر رکھا ہو گا، بس وہی جگہ ہے۔

ننگو : ابے ملا، ملا۔ یہ دیکھ پیالہ دھرا ہے۔

بخشو : بس لے، بس یہی کوٹھری ہے۔

کریم : بس اب رات تو یہی گجری۔ ایک چھت کاٹی اور بٹا بکسو کو لے کے کچھ نیچے جائیں۔

ننگو : اب کوئی چڑیا کا ہامی نہیں بھرتا۔ اجی ہم مہجود ہیں۔ لے چلو میاں بکسو۔

بخشو : نا بھائی، میں نہ جاؤں گا۔ کل کدان کو پکڑ دھکڑ ہو تو میں گھر کا آدمی دھرا جاؤں۔

کریم : سڑی ہے، بارے بات پکی کی۔ اچھا ننگو اور ہم چلتے ہیں۔ ابے جینہ (زینہ) کُھلا ہو گا، یہی ہے نا؟

بخشو : ہاں اُس نے تو کہہ دیا تھا، میں کھلا رکھوں گی۔

ننگو اور کریم نیچے گئے۔ اتفاق سے دروازہ بند تھا۔ کریم نے نکال کے بڑا چاقو داہنے بازو کی دو اینٹیں کھسکائیں۔ ہاتھ ڈال کے ٹٹولا، تو کنڈی مل گئی۔ کھٹ سے کھول دی؛ پھر کیا تھا، صحن مکان میں تھے، مگر تھوڑی دور آگے بڑھے ہوں گے کہ ایک عورت نے جو پلنگ پر چت لیٹی تھی، کروٹ لی اور ان کی طرف پشت کر کے خراٹے لینے لگی۔ چور کا دل کتنا، یہ دونوں اُلٹے پاؤں پھرے۔

ننگو : ابے بکسو، ابے بکسو! کچھ چھت کٹی؟

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 119

بخشو : کٹی کیا، بہ بڑا بغارا، ابے دیکھ۔

کریم : ارے بڑی کھیر گجری۔ ایک چڑیل عین وہیں پلنگ بچھائے لیٹی تھی۔ ساید دروجے کی کھٹکار سے یا کیا، جری کنمنائی، بارے منہ پھیر کے سو رہی۔

بخشو : آہا! وہ تو رہی تھی، آج وہ وہیں سونے کو کہتی تھی۔ لے دیا سلائی لانا۔ اب جھانپ آ گئی۔

کریم : یہ تو اس سے نہ کاٹو۔ لوہا تک ہو تو یہ اُڑا دے۔

(دیبی نے دیا سلائی اور کو لا دیا اور جھانپ جلا کر راہ بنائی گئی)

رضا : بھائیو! اب ایک کُنگڑا نیچے اُترے۔

المختصر دیبی نے رسی کے سہارے نیچے اُتر کر دیا سلائی سے بتی جلائی اور خوب خوب توشے خانے کا جائزہ لیا۔ اب آواز لگاتے ہیں۔

دیبی : کریم میاں ہو! لے لو۔ رسی اُوٹھاؤ۔ صندوکچی لیو۔

کریم : ابے میں بھی آیا۔ دیکھ سبیتا کیے لیتے ہیں، مال ہے؟ ابے والے بکسو، دیبی او۔

کریم نے تو یہ صلاح کی کہ بڑی صندوق نہ جائیں گے۔ ان کے قفل، کنجی، کٹوا اور سنسی اور پینچ سے توڑ کر اسباب نکالا جائے اور اُوپر ننگو اور بخشو نے رضا کو ہم سائے کے مکان کی چھوٹی دیوار پر بھیجا۔ اب پشت والے مکان میں نیچے تو الٰہی، کوٹھے پر رضا اور بڑی چھت پر بخشو، اور توشے خانے میں کریم اور دیبی۔ اس طرح سے جابجا متعین ہو گئے جیسے عثمانی پاشا پلونا میں فوج تعینات کرتے تھے، اور حضت لگا مال چلنے۔ جتنے صندوق کھلے اور ٹوٹ سکے، سب کا مال ڈھو ڈالا۔ رضا، کریم، بخشو نیچے

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 120

اسباب سمیٹنے کو اُترے۔ پہلی کاروائی یہ ہوئی، حسب معمول چراغ گل ہوا، دو چار چیزیں لے چلے تھے کہ مغلانی کے پلنگ سے ٹھوکر لگی، اُس کی آنکھ کھل گئی اور چور چور کا غل مچایا۔

اب چوروں میں بھاگ پڑی۔

کوٹھے پر پہنچ کر۔

کریم : یار، جگ ہربری ہوئی۔ مسان نہ چلا، نہیں تو خوب مال چیرا ہوتا۔

رضا : ابے بکسو تو چنپت کہاں ہوتا ہے۔

بخشو : ابھی آیا۔

(بخشو چھٹ پٹ یاروں سمیت اُسی راہ سے اُتر کے پہنچا۔ مکان کے باہر کے حصے میں ڈیوڑھی کے قریب پھوس کا بنگلہ تھا، جھپاک دیا سلائی کھینچ، نہ دیکھا آؤ نہ تاؤ، آگ بتا ہی تو دی۔ تھوڑی دیر سلگتے سلگتے بھق بھق، چٹاخ پٹاخ، دھڑ دھڑ، بنگلہ لگا جلنے۔ جب خوب شعلہ بلند ہوا اور گرمی پھیلی، تو پھر غل تھا، "آگ لگی، آگ لگی، لینا لینا، پانی لاؤ، ارے جعفر دوڑیو، مدو لینا، محلے والوں کو آواز دو" تو چل، میں چل، ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ باہر کے مرد، گھر کی عورتیں سب اُسی کو دیکھنے پہنچیں۔ یہاں سارا مکان خالی، مغلانی اور سیوتی چور چور کرتی ہیں، کوئی نہیں سنتا)

کریم : ابے بخشو! بچا جتھے سے الگ ہوئے جاتے ہو۔ کسم بارہ آنے کی بگڑ جائے گی۔

بخشو : ابے گھاس کھائی ہے۔ چھپر میں آگ بتانے گیا تھا۔ سارا محلہ اُسی طرف ہے، لے اب مال لے چل۔

(سارا مال بہ آسانی و بہ اطمینان اپنی جگہ پر پہنچا،
 

شمشاد

لائبریرین
طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 171

نہیں پونچھا۔

بخشو : اجی لعنت بھیجو۔ وہ کر ہی کیا سکتی ہے۔ اُن کے فرشتوں تک کو خبر نہیں۔ میں نے یہ بھی سن گن پائی ہے، نواب صاحب بھی کچھ بپھرے معلوم ہوتے ہیں۔ بھلا پونچھو ہمارا کیا قصور۔

نجبنیا : ہماری کھوسی، ہمارا جی، اپنے چلے آئے۔ کیا دنیا زہان میں کہیں ہمارا ٹھکانا نہیں۔ ابھی اپنی والی پر آؤں، بیگم بن کے دکھا دوں۔ جیسے آدمی کا بچہ وہ ویسے سب۔ خالی خدا کی مہربانی چاہیے۔ وہ نہ پھرا ہوا چاہے۔ ابھی کے راتیں کٹیں، کے دن کٹے۔ کہیں ایک جگہ جم کے بیٹھ لیں، اجی اور کچھ نہیں، اناگیری تو کہیں گئی نہیں ہے۔ دس سے کن نہ ہوگی۔ پھر کھانا، پینا سب طنعں اچھے سے اچھا پہنو اور اچھے سے اچھا کھاؤ، اور پھر سارا گھر اُلٹا تابعداری کو مہزود۔ محے سے ایک دفعہ پلاؤ۔ پا چین سے لیٹی بیٹھی رہو، کوئی کام کیا۔ نہیں تو چار آدمی اور کھدمت کو آٹھواں پہر ہاں جو ہانجولے۔ تم کو خدا مہلت دے آج کل اناؤں کی بڑی مانگ ہے۔ اپنا لہو چوسانا بڑا کام ہے۔

بخشو : تم نے بھی کمال کیا۔ چھٹی کے دہان ابھی سے کٹنے لگے۔

نجبنیا : میں نے بات کہی۔ دنیا میں ایک سے ایک بڑھ کے سرکاریں پڑی ہیں۔ خدا رجاق ہمارا بھی ہے۔ چار کو دے کے تو ہم آپ کھا سکتے ہیں۔ بولو دو آدمیوں کا کھرچ ہی کیا۔ سیر بھر کل پکایا، ساری روٹیاں اُسی طنوں رکھی ہیں۔ آج تھاک بھو کر اُٹھا دیا۔ تمہارے لیے چاول

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 172

بہت تھے۔ سالن ایسی محنت سے تو پکایا، ایک روٹی کی تو گنہگار ہوں، اسی طریوں اُٹھا کے رکھ دیا۔ ہاں کوئی بچاری گریب بھوکی ٹوٹی مل جائے، رکھوا دو۔ بعضے وقت ہاتھ خالی نہیں ہوتا، اوپر کے کام کاز کے واسطے اور باکی مجے سے بیٹھی رہے گی۔ پیٹ بھر کھانا دیں گے، پھٹا پرانا بھی دے دیں گے۔

بخشو : اجی ان باتوں کی فقر تو مجھے خود ہے۔ یوں نہ ملے تو روپیہ بارہ آنے تک مہنگی نہیں لے اچھا اب یار لوگ چلتے ہیں۔

(خدا بخش جاتا ہے)
------------------------------------------------------------------------------

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 173

دسواں باب

(پیٹ سے پاؤں)

نجبنیا : (دیوار کے قریب جا کے) بی ہمسائی! اے بی ہمسائی! کیا چپ شاہ کی بالکی بنی ہو؟ آج بالکل ہی سناٹا ہے۔

ایک آواز : (گا کے)

نہیں روزن جو قصر یار میں پروا نہیں ہم کو
نگاہِ شوخ رخنہ کرتی ہے دیوار آہن میں

زیر دیوار ذرا جھانک کے تم دیکھ تو لو
ناتواں کرتے ہیں دل تھام کے آہیں کیوں کر

نجبنیا : ہاں! ہاں، کوئی بولتا تو ہے مگر نہیں۔

نوجوان : اجی واہ ۔۔۔۔۔ ع

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

(ایک تان) ۔۔۔۔

پیت تو ایسی کریے گوریا جیسے لوٹیا ڈور
اپن گلا پھنسائے کے جو دور سے لا وے بور

(دوسری تان) ۔۔۔۔

ہمری تمری عمر برابر چل ارری کے کھیت

(تیسری تان)۔۔۔۔

کہو بلبل سے لے جائے چمن سے آشیاں اپنا

نجبنیا : یہ پڑ کٹی اپنے ہی تک رکھیے۔ وہ کہتے نہیں، یہ منہ

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 174

اور چار چنگلی لاسا (سر اُٹھا کے جھانکتی ہے اور چار آنکھیں ہوتی ہیں)۔

نوجوان : ایں! کدھر سے آفتاب نکل آیا۔ (زیور کی چمک دیکھ کے سمجھتا ہے مالدار شکار ہے) اُف فوہ تیر مارا، دل نشانہ ہو گیا۔ (کلیجہ پکڑ کے) لے اب دن بھر کام ہو چکا۔ کوئی دم میں کاریگر آتے ہوں گے (ہاتھ جوڑ کے)خدا کے واسطے پرھ صورت تو دکھاؤ، جینے کا سہارا ہو جائے۔ اسی سہارے سے زندگی کاٹیں گے۔ ایسی نوکری؟ بڑی قسمت کے دھنی ہوں گے جن پر آپ کی مہربانی کی نظر ہو گی۔ لے اب ہماری تو خیریت نہیں۔

نجبنیا : (جی میں خوش ہو کے) اچھا توڑو ایسے کیوں ہو گئے؟ کوئی آتا نہ ہو۔ دل ٹھکانے رکھو۔ موکع ہوا کرے، اشارہ کر دیا کرو۔ اے ہاتھ خالی ہو آ جایا کریں گے۔ دیکھو دل قابو میں رکھنا۔

نوجوان : اچھا اب کہی بدی ہو گئی۔ اس وعدے کا دھیان رکھنا۔ دیوار کے پاس آ کے جب ہم اینٹ سے تین دفعہ کھٹ کھٹ کریں تو تم سمجھ جانا۔

نجبنیا : (اپنا چہرہ، گلے اور کانوں کا زیور دکھا کے) اچھا، اچھا، لے اب جاتے ہیں، اچھے رہنا۔

نوجوان : اجی ذرا ٹھہرو تو سہی۔ میں جی بھر کے بلائیں تو لے لوں۔

نجبنیا : ابھی آتے ہیں، تم یہیں کھڑے رہنا۔

(نجبنیا لپ چھپ پاندان کھول کے گلوری بناتی ہے اور دو تین الاچیاں مسلم ڈالتی ہے)۔

نجبنیا : (گلوری دکھا کے) یہ لیتے جاؤ، دیکھو! وہ جو سکص ہے، بڑا جالم ہے، عجب سکی کے پھندے میں پھنسے ہیں۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 175

بو نہ پھوٹنے پائے، بس ہمیں تم جانیں۔

چھپے چوری ہے اُلفت کی صنم زانے کہ ہم جانیں
نہ واکف ہو فرستہ بھی صنم زانے کہ ہم جانیں

لے اب جاتے ہیں، پھر ملیں گے۔ اچھی طرح صلاح ہو گی۔

(کارخانہ، کاریگر، اُستاد)۔

کاریگر : لے ننھے مرزا، لے بھئی مال دو۔ سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ آخر آج تم نے پہلے سے پہلے کیوں نہ نکال رکھا۔ تار کشی کا لونڈا بھی بیکار کو بیٹھا ہے۔ مفت خدا حقے کا ستیاناس کر رکھا اور وہ اڈے کہاں ہیں لوگوں کے آگے رکھو۔

ننھے مرزا : اجی تو کیا سب میرے ہی سر ہے۔ اُٹھا کیوں نہیں لیتے۔ اگر ننھے مرزا نہ ہو تو کام ہی نہ چلے۔ شام کو پیسے گنانے کے واسطے سب ہیں، کام کے واسطے نہیں۔

دوسرا کاریگر : آپ کے ہاتھ کا کام تھا، روز آپ ہی دیتے تھے۔ اس مارے کہتے ہیں، نہیں کسی کام میں لیبر ہیں، لے آج سے نہ کہیں گے۔ تم اُستاد سے کہہ دو جو آئے اپنا اپنا کام کرنے لگے۔ کاہے کو تمہارا راستہ دیکھے۔

ننھے مرزا : اجی جو کوئی اور لیبر نہیں تو ہم ایسے کیا گئے گذرے ہیں۔ آپ دباؤ کسی پر ڈالتے ہیں۔ یہاں ایسی کسی کی پروا بھی نہیں۔ آئیے! مقابلہ کر لیجیے۔ نکل جائیں جب ہی کہو۔ ایسے کارخانے کو میں سمجھتا کیا ہوں۔

اُستاد : ننھ مرزا! یہ تم کیا اول فول بکتے ہو۔ تم اپنے حواس میں رہو۔

ننھے مرزا : اُستاد دیکھیے۔ میں آپ کا بہت منہ کرتا ہوں۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 176

آپ بھی اُنہیں کی سی کہتے ہیں، بات سمجھتے ہی نہیں۔ ننھے مرزا کا س میں کیا قصور، خانخاہ کو بے نحق چھیڑ خانی کرتے ہیں۔ جب سے آئے ہیں، انسان کا دل ہے، کسو وقت طبیعت قابو میں ہے کسو وقت نہیں۔ ان لوگوں کا یہ حال ہے، ہر وقت چھیڑ خانی کیے جاتے ہیں۔ کسو سے کیوں دب کے رہنے لگے۔

اُستاد : میں بہت طرح دیے جاتا ہوں، تو ہے ماش کے آٹے کی طرح اینٹھتا ہی جاتا ہے۔ کون بات برا لگنے کی تھی۔ نو روز نے تو یہی کہا تھا، سب کاریگر بیٹھے ہیں، پھر اب بتاؤ، اس کا ہرجا کون دے گا؟ کارخانے ہی پر تو یہ لنگر پڑے گا۔ کس میں ہوتا ہے گھرواہے سے نکال کر دے۔

ننھے مرزا : ہمارا جانے ختکا۔

اُستاد : لے اب تم بہت بڑھ چلے۔ میں بہت طرح دیے جاتا ہوں۔ چپ رہ مردود۔ پالا پوشا، اتنا بڑا کیا؛ تجھ کو تمیز تو تھی نہیں، سرے سے سب کام سکھائے، سب سے واقف کار بنایا، سوئی پکڑنا تو آتا نہ تھا۔ یہ ہماری جوتیوں کے صدقے سے آج تو اس قابل ہوا۔ ہر طرح کے کام تجھ سے لیے۔ خدا کی مہربانی سے قسم جناب امیر کی اگر اپنی اولاد ہوتی، تب بھی اُس کے ساتھ اتنی ہی محنت کی جاتی، اور پھر دیکھو تو غرے، ڈبے بتانے کو طیار۔ سب کارخانے کا اختیار دے دیا۔ جو چاہو، دھرو، اُٹھاؤ، کام لو، مال مصالح تمہارے قبضے میں، چیز دو، مال سکھارو۔ مہاجنوں کے یہاںجانا، مال کا حساب کرنا، فرمائشوں کا پہنچانا، سب تمہارے ہاتھ میں کر دیا۔ میں تو برائے بودم ہوں اور تمہارا یہ حال کسی بات کی پروا نہیں، جیسے غیر آدمی آ کے بیٹھ گیا۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 177

سارا جھنجھٹ اور فکر پھر بھی میرے سر پڑی۔ اگر آج اپنے لطفے سے بھی کوئی حرام زادہ ہوتا تو کھڑے کھڑے نکال باہر کیا ہوتا۔ یہاں مانگے بھیک تو ملے گی نہیں۔ اگر آج کان پکڑ کے نکال باہر کروں تو کوڑی کے تین تین ہو جاؤ۔ ہر کام کے قابل بنایا، چار پیسہ کے کمانے کے لائق ہو گئے، پھر بھی ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ ابھی تم کو کسی امر کی تمیز تو ہے نہیں۔ دنیا میں چلنا اور چار پیسہ کمانا ٹیڑھی کھیر ہے۔ آج کون ایسا مائی کا لال ہے، تم کو آنکھ بند کر کے اپنا روپی ٹھنڈے جی سے دے دے گا۔ ارے یہاں برسوں ریاض کرتےہیں، چلموں پر آگ رکھتے ہیں، چٹکیاں جل جل جاتی ہیں۔ جوتی سیدھی کرتے کرتے ایک عمر گزرتی ہے۔ تب جا کے اگر کچھ آ گیا تو غنیمت سمجھتے ہیں۔ ابھی صاحب زادے ہو، تم کو آتا ہی کیا ہے؟

ننھے مرزا : چلیے ہم بھیک مانگیں گے، آپ کی بلا سے۔ آپ کے دروزاے پر آئیں دس جوتیاں ماریے گا۔ آپ بڑے خدا ہی تو بن کے آئے ہیں۔ ابھی بمبئی چلا جاؤں تو تیس چالیس کی کہیں نہیں گئی۔

اُستاد : جا نکل جا۔ مردوس، ہٹ جا میرے سامنے سے۔ وہ جھاپڑ دوں گا، ابھی منہ چرخا ہو جائے گا۔ مجھے خیال آتا ہے، کل کے لونڈے پر کیا ہاتھ چلاؤں۔ جتنا دیتا جاتا ہوں اُتنا تو سر چڑھتا جاتا ہے۔ (اُٹھ کھڑے ہوئے اور ننھے مرزا بھی بپھر بیٹھا)۔

کارخانے کے کئی کاریگر : جانے دیجیے اُستاد، جانے دیجیے! اپنی طرف خیال کیجیے، غصہ تھوک ڈالیے۔ یہ بڑے نالائق ہیں۔ اُستاد باپ سے بڑھ کر ہوتا ہے، ان کی نادانی ہے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 178

اُستاد : نہیں، یہ یوں نہ مانے گا، آج جوتے سے خبر لوں گا۔ میں آج کئی دن سے طرح دے رہا ہوں۔ چیونٹی کو پر لگے ہیں۔ خدا کی قدرت، ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کی عمر! ایسے لونڈے میں نے بیسیوں چرا کے پھینک دیے۔ میں دیکھتا ہوں، ان کو بڑا زعم ہو گیا ہے۔ نہ معلوم اپنے تئیں کو کیا سمجھے ہوئے ہے۔ اُونٹ جب تک پہاڑ کے نیچے نہیں آتا، اپنے سے کسی کو بڑا نہیں سمجھتا۔

ننھے مرزا : اُستاد! دیکھیے دیکھیے آپ بہت بڑھے جاتے ہیں اور میں کچھ نہیں کہتا۔ کل سے جو اس کارخانے پر پیشاب بھی کرنے آئے وہ اپنے باپ سے نہیں۔ آپ آج اپنا سب کچھ سمجھ لیں۔ خدا مالک ہے۔ دن رات یہیں مرو، سڑو، پڑے رہو، حفاظت کرو اور اُس کی قدر دانی یہ ہو۔ کیا کچھ لنگڑے لولے ہیں؟ جہاں ہاتھ پاؤں چلائیں گے، کھانے بھر کو مل ہی جائے گا۔ آج سمجھے جو کام اپنے ہاتھ میں پڑا ہے، اُس کا پونچھنے والا نہیں بھی ہے تو ڈلیا ڈھونا، مزدوری کرنا تو نہیں کہیں گیا ہے۔ نہ کہیں ملے گی کسی کا اکہ ہانکیں گے، کھجوے کی مٹی کھودیں گے۔ پیسہ گدھا لگا دیں گے، ہر صورت سے چار پیسہ پیدا کر دیں گے۔ آج تو ہم کسی کو نہیں دیکھتے، بے ہاتھ پاؤں ہلائے ایک تو کھانے کو دے دے۔ جب کسی کا کام آٹھ پیسے کا کرتے ہیں تب مسا کر کے چار پیسہ بھینٹ ہوتی ہے۔ بڑا اُستاد تو ہم جب جانتے، کوئی دن بے کار مفت میں دھیلی پاؤلا پکڑا دیا ہوتا، لو بازار میں مٹھائی کھاؤ۔ یہ نہیں صبح سبیرے سے منہ اندھیر تک دیدا ریزی کرو، جان کھپاؤ، کاریگروں سے جھائیں جھائیں کرو، تب جا کے روکھی سوکھی نصیب ہو۔

طرح
طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 171

نہیں پونچھا۔

بخشو : اجی لعنت بھیجو۔ وہ کر ہی کیا سکتی ہے۔ اُن کے فرشتوں تک کو خبر نہیں۔ میں نے یہ بھی سن گن پائی ہے، نواب صاحب بھی کچھ بپھرے معلوم ہوتے ہیں۔ بھلا پونچھو ہمارا کیا قصور۔

نجبنیا : ہماری کھوسی، ہمارا جی، اپنے چلے آئے۔ کیا دنیا زہان میں کہیں ہمارا ٹھکانا نہیں۔ ابھی اپنی والی پر آؤں، بیگم بن کے دکھا دوں۔ جیسے آدمی کا بچہ وہ ویسے سب۔ خالی خدا کی مہربانی چاہیے۔ وہ نہ پھرا ہوا چاہے۔ ابھی کے راتیں کٹیں، کے دن کٹے۔ کہیں ایک جگہ جم کے بیٹھ لیں، اجی اور کچھ نہیں، اناگیری تو کہیں گئی نہیں ہے۔ دس سے کن نہ ہوگی۔ پھر کھانا، پینا سب طنعں اچھے سے اچھا پہنو اور اچھے سے اچھا کھاؤ، اور پھر سارا گھر اُلٹا تابعداری کو مہزود۔ محے سے ایک دفعہ پلاؤ۔ پا چین سے لیٹی بیٹھی رہو، کوئی کام کیا۔ نہیں تو چار آدمی اور کھدمت کو آٹھواں پہر ہاں جو ہانجولے۔ تم کو خدا مہلت دے آج کل اناؤں کی بڑی مانگ ہے۔ اپنا لہو چوسانا بڑا کام ہے۔

بخشو : تم نے بھی کمال کیا۔ چھٹی کے دہان ابھی سے کٹنے لگے۔

نجبنیا : میں نے بات کہی۔ دنیا میں ایک سے ایک بڑھ کے سرکاریں پڑی ہیں۔ خدا رجاق ہمارا بھی ہے۔ چار کو دے کے تو ہم آپ کھا سکتے ہیں۔ بولو دو آدمیوں کا کھرچ ہی کیا۔ سیر بھر کل پکایا، ساری روٹیاں اُسی طنوں رکھی ہیں۔ آج تھاک بھو کر اُٹھا دیا۔ تمہارے لیے چاول

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 172

بہت تھے۔ سالن ایسی محنت سے تو پکایا، ایک روٹی کی تو گنہگار ہوں، اسی طریوں اُٹھا کے رکھ دیا۔ ہاں کوئی بچاری گریب بھوکی ٹوٹی مل جائے، رکھوا دو۔ بعضے وقت ہاتھ خالی نہیں ہوتا، اوپر کے کام کاز کے واسطے اور باکی مجے سے بیٹھی رہے گی۔ پیٹ بھر کھانا دیں گے، پھٹا پرانا بھی دے دیں گے۔

بخشو : اجی ان باتوں کی فقر تو مجھے خود ہے۔ یوں نہ ملے تو روپیہ بارہ آنے تک مہنگی نہیں لے اچھا اب یار لوگ چلتے ہیں۔

(خدا بخش جاتا ہے)
------------------------------------------------------------------------------

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 173

دسواں باب

(پیٹ سے پاؤں)

نجبنیا : (دیوار کے قریب جا کے) بی ہمسائی! اے بی ہمسائی! کیا چپ شاہ کی بالکی بنی ہو؟ آج بالکل ہی سناٹا ہے۔

ایک آواز : (گا کے)

نہیں روزن جو قصر یار میں پروا نہیں ہم کو
نگاہِ شوخ رخنہ کرتی ہے دیوار آہن میں

زیر دیوار ذرا جھانک کے تم دیکھ تو لو
ناتواں کرتے ہیں دل تھام کے آہیں کیوں کر

نجبنیا : ہاں! ہاں، کوئی بولتا تو ہے مگر نہیں۔

نوجوان : اجی واہ ۔۔۔۔۔ ع

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

(ایک تان) ۔۔۔۔

پیت تو ایسی کریے گوریا جیسے لوٹیا ڈور
اپن گلا پھنسائے کے جو دور سے لا وے بور

(دوسری تان) ۔۔۔۔

ہمری تمری عمر برابر چل ارری کے کھیت

(تیسری تان)۔۔۔۔

کہو بلبل سے لے جائے چمن سے آشیاں اپنا

نجبنیا : یہ پڑ کٹی اپنے ہی تک رکھیے۔ وہ کہتے نہیں، یہ منہ

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 174

اور چار چنگلی لاسا (سر اُٹھا کے جھانکتی ہے اور چار آنکھیں ہوتی ہیں)۔

نوجوان : ایں! کدھر سے آفتاب نکل آیا۔ (زیور کی چمک دیکھ کے سمجھتا ہے مالدار شکار ہے) اُف فوہ تیر مارا، دل نشانہ ہو گیا۔ (کلیجہ پکڑ کے) لے اب دن بھر کام ہو چکا۔ کوئی دم میں کاریگر آتے ہوں گے (ہاتھ جوڑ کے)خدا کے واسطے پرھ صورت تو دکھاؤ، جینے کا سہارا ہو جائے۔ اسی سہارے سے زندگی کاٹیں گے۔ ایسی نوکری؟ بڑی قسمت کے دھنی ہوں گے جن پر آپ کی مہربانی کی نظر ہو گی۔ لے اب ہماری تو خیریت نہیں۔

نجبنیا : (جی میں خوش ہو کے) اچھا توڑو ایسے کیوں ہو گئے؟ کوئی آتا نہ ہو۔ دل ٹھکانے رکھو۔ موکع ہوا کرے، اشارہ کر دیا کرو۔ اے ہاتھ خالی ہو آ جایا کریں گے۔ دیکھو دل قابو میں رکھنا۔

نوجوان : اچھا اب کہی بدی ہو گئی۔ اس وعدے کا دھیان رکھنا۔ دیوار کے پاس آ کے جب ہم اینٹ سے تین دفعہ کھٹ کھٹ کریں تو تم سمجھ جانا۔

نجبنیا : (اپنا چہرہ، گلے اور کانوں کا زیور دکھا کے) اچھا، اچھا، لے اب جاتے ہیں، اچھے رہنا۔

نوجوان : اجی ذرا ٹھہرو تو سہی۔ میں جی بھر کے بلائیں تو لے لوں۔

نجبنیا : ابھی آتے ہیں، تم یہیں کھڑے رہنا۔

(نجبنیا لپ چھپ پاندان کھول کے گلوری بناتی ہے اور دو تین الاچیاں مسلم ڈالتی ہے)۔

نجبنیا : (گلوری دکھا کے) یہ لیتے جاؤ، دیکھو! وہ جو سکص ہے، بڑا جالم ہے، عجب سکی کے پھندے میں پھنسے ہیں۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 175

بو نہ پھوٹنے پائے، بس ہمیں تم جانیں۔

چھپے چوری ہے اُلفت کی صنم زانے کہ ہم جانیں
نہ واکف ہو فرستہ بھی صنم زانے کہ ہم جانیں

لے اب جاتے ہیں، پھر ملیں گے۔ اچھی طرح صلاح ہو گی۔

(کارخانہ، کاریگر، اُستاد)۔

کاریگر : لے ننھے مرزا، لے بھئی مال دو۔ سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ آخر آج تم نے پہلے سے پہلے کیوں نہ نکال رکھا۔ تار کشی کا لونڈا بھی بیکار کو بیٹھا ہے۔ مفت خدا حقے کا ستیاناس کر رکھا اور وہ اڈے کہاں ہیں لوگوں کے آگے رکھو۔

ننھے مرزا : اجی تو کیا سب میرے ہی سر ہے۔ اُٹھا کیوں نہیں لیتے۔ اگر ننھے مرزا نہ ہو تو کام ہی نہ چلے۔ شام کو پیسے گنانے کے واسطے سب ہیں، کام کے واسطے نہیں۔

دوسرا کاریگر : آپ کے ہاتھ کا کام تھا، روز آپ ہی دیتے تھے۔ اس مارے کہتے ہیں، نہیں کسی کام میں لیبر ہیں، لے آج سے نہ کہیں گے۔ تم اُستاد سے کہہ دو جو آئے اپنا اپنا کام کرنے لگے۔ کاہے کو تمہارا راستہ دیکھے۔

ننھے مرزا : اجی جو کوئی اور لیبر نہیں تو ہم ایسے کیا گئے گذرے ہیں۔ آپ دباؤ کسی پر ڈالتے ہیں۔ یہاں ایسی کسی کی پروا بھی نہیں۔ آئیے! مقابلہ کر لیجیے۔ نکل جائیں جب ہی کہو۔ ایسے کارخانے کو میں سمجھتا کیا ہوں۔

اُستاد : ننھ مرزا! یہ تم کیا اول فول بکتے ہو۔ تم اپنے حواس میں رہو۔

ننھے مرزا : اُستاد دیکھیے۔ میں آپ کا بہت منہ کرتا ہوں۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 176

آپ بھی اُنہیں کی سی کہتے ہیں، بات سمجھتے ہی نہیں۔ ننھے مرزا کا س میں کیا قصور، خانخاہ کو بے نحق چھیڑ خانی کرتے ہیں۔ جب سے آئے ہیں، انسان کا دل ہے، کسو وقت طبیعت قابو میں ہے کسو وقت نہیں۔ ان لوگوں کا یہ حال ہے، ہر وقت چھیڑ خانی کیے جاتے ہیں۔ کسو سے کیوں دب کے رہنے لگے۔

اُستاد : میں بہت طرح دیے جاتا ہوں، تو ہے ماش کے آٹے کی طرح اینٹھتا ہی جاتا ہے۔ کون بات برا لگنے کی تھی۔ نو روز نے تو یہی کہا تھا، سب کاریگر بیٹھے ہیں، پھر اب بتاؤ، اس کا ہرجا کون دے گا؟ کارخانے ہی پر تو یہ لنگر پڑے گا۔ کس میں ہوتا ہے گھرواہے سے نکال کر دے۔

ننھے مرزا : ہمارا جانے ختکا۔

اُستاد : لے اب تم بہت بڑھ چلے۔ میں بہت طرح دیے جاتا ہوں۔ چپ رہ مردود۔ پالا پوشا، اتنا بڑا کیا؛ تجھ کو تمیز تو تھی نہیں، سرے سے سب کام سکھائے، سب سے واقف کار بنایا، سوئی پکڑنا تو آتا نہ تھا۔ یہ ہماری جوتیوں کے صدقے سے آج تو اس قابل ہوا۔ ہر طرح کے کام تجھ سے لیے۔ خدا کی مہربانی سے قسم جناب امیر کی اگر اپنی اولاد ہوتی، تب بھی اُس کے ساتھ اتنی ہی محنت کی جاتی، اور پھر دیکھو تو غرے، ڈبے بتانے کو طیار۔ سب کارخانے کا اختیار دے دیا۔ جو چاہو، دھرو، اُٹھاؤ، کام لو، مال مصالح تمہارے قبضے میں، چیز دو، مال سکھارو۔ مہاجنوں کے یہاںجانا، مال کا حساب کرنا، فرمائشوں کا پہنچانا، سب تمہارے ہاتھ میں کر دیا۔ میں تو برائے بودم ہوں اور تمہارا یہ حال کسی بات کی پروا نہیں، جیسے غیر آدمی آ کے بیٹھ گیا۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 177

سارا جھنجھٹ اور فکر پھر بھی میرے سر پڑی۔ اگر آج اپنے لطفے سے بھی کوئی حرام زادہ ہوتا تو کھڑے کھڑے نکال باہر کیا ہوتا۔ یہاں مانگے بھیک تو ملے گی نہیں۔ اگر آج کان پکڑ کے نکال باہر کروں تو کوڑی کے تین تین ہو جاؤ۔ ہر کام کے قابل بنایا، چار پیسہ کے کمانے کے لائق ہو گئے، پھر بھی ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ ابھی تم کو کسی امر کی تمیز تو ہے نہیں۔ دنیا میں چلنا اور چار پیسہ کمانا ٹیڑھی کھیر ہے۔ آج کون ایسا مائی کا لال ہے، تم کو آنکھ بند کر کے اپنا روپی ٹھنڈے جی سے دے دے گا۔ ارے یہاں برسوں ریاض کرتےہیں، چلموں پر آگ رکھتے ہیں، چٹکیاں جل جل جاتی ہیں۔ جوتی سیدھی کرتے کرتے ایک عمر گزرتی ہے۔ تب جا کے اگر کچھ آ گیا تو غنیمت سمجھتے ہیں۔ ابھی صاحب زادے ہو، تم کو آتا ہی کیا ہے؟

ننھے مرزا : چلیے ہم بھیک مانگیں گے، آپ کی بلا سے۔ آپ کے دروزاے پر آئیں دس جوتیاں ماریے گا۔ آپ بڑے خدا ہی تو بن کے آئے ہیں۔ ابھی بمبئی چلا جاؤں تو تیس چالیس کی کہیں نہیں گئی۔

اُستاد : جا نکل جا۔ مردوس، ہٹ جا میرے سامنے سے۔ وہ جھاپڑ دوں گا، ابھی منہ چرخا ہو جائے گا۔ مجھے خیال آتا ہے، کل کے لونڈے پر کیا ہاتھ چلاؤں۔ جتنا دیتا جاتا ہوں اُتنا تو سر چڑھتا جاتا ہے۔ (اُٹھ کھڑے ہوئے اور ننھے مرزا بھی بپھر بیٹھا)۔

کارخانے کے کئی کاریگر : جانے دیجیے اُستاد، جانے دیجیے! اپنی طرف خیال کیجیے، غصہ تھوک ڈالیے۔ یہ بڑے نالائق ہیں۔ اُستاد باپ سے بڑھ کر ہوتا ہے، ان کی نادانی ہے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 178

اُستاد : نہیں، یہ یوں نہ مانے گا، آج جوتے سے خبر لوں گا۔ میں آج کئی دن سے طرح دے رہا ہوں۔ چیونٹی کو پر لگے ہیں۔ خدا کی قدرت، ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کی عمر! ایسے لونڈے میں نے بیسیوں چرا کے پھینک دیے۔ میں دیکھتا ہوں، ان کو بڑا زعم ہو گیا ہے۔ نہ معلوم اپنے تئیں کو کیا سمجھے ہوئے ہے۔ اُونٹ جب تک پہاڑ کے نیچے نہیں آتا، اپنے سے کسی کو بڑا نہیں سمجھتا۔

ننھے مرزا : اُستاد! دیکھیے دیکھیے آپ بہت بڑھے جاتے ہیں اور میں کچھ نہیں کہتا۔ کل سے جو اس کارخانے پر پیشاب بھی کرنے آئے وہ اپنے باپ سے نہیں۔ آپ آج اپنا سب کچھ سمجھ لیں۔ خدا مالک ہے۔ دن رات یہیں مرو، سڑو، پڑے رہو، حفاظت کرو اور اُس کی قدر دانی یہ ہو۔ کیا کچھ لنگڑے لولے ہیں؟ جہاں ہاتھ پاؤں چلائیں گے، کھانے بھر کو مل ہی جائے گا۔ آج سمجھے جو کام اپنے ہاتھ میں پڑا ہے، اُس کا پونچھنے والا نہیں بھی ہے تو ڈلیا ڈھونا، مزدوری کرنا تو نہیں کہیں گیا ہے۔ نہ کہیں ملے گی کسی کا اکہ ہانکیں گے، کھجوے کی مٹی کھودیں گے۔ پیسہ گدھا لگا دیں گے، ہر صورت سے چار پیسہ پیدا کر دیں گے۔ آج تو ہم کسی کو نہیں دیکھتے، بے ہاتھ پاؤں ہلائے ایک تو کھانے کو دے دے۔ جب کسی کا کام آٹھ پیسے کا کرتے ہیں تب مسا کر کے چار پیسہ بھینٹ ہوتی ہے۔ بڑا اُستاد تو ہم جب جانتے، کوئی دن بے کار مفت میں دھیلی پاؤلا پکڑا دیا ہوتا، لو بازار میں مٹھائی کھاؤ۔ یہ نہیں صبح سبیرے سے منہ اندھیر تک دیدا ریزی کرو، جان کھپاؤ، کاریگروں سے جھائیں جھائیں کرو، تب جا کے روکھی سوکھی نصیب ہو۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 179

کارخانے کے کاریگر : اجی جانے بھی دو، تم بھی صاحبزادہ پن کرتے ہو۔ اُستاد ہیں، اگر ایک بات بے جا بھی کہی تو جا سے ہے۔ اور جانے آنے کا کیا ذکر، بھلا لگی روزی کوئی بھی چھوڑتا ہے۔

(غرض کہ دونوں جانب تتو تھمبو ہو گئی)

رات کا وقت، 10 بجے، نجبنیا کا مکان

آواز : کھول دو!

نجبنیا : کون ہے؟

بخشو : ہم ہیں جی اور کون ہو گا۔ کیا سوتی تھیں؟

نجبنیا : آنکھ لگ گئی تھی، آواج نہیں پہچانی۔ اس وقت اکیلی پھر ٹٹروں ٹوں، نہ کوئی آنے والا، نہ جانے والا، تمہار آج دن بھر پتا نہ چلا۔ دیکھو، ہم ایک بات کہتے ہیں، تم روز آیا کرو تو جری سبیرے آ زایا کرو، پھر حقہ پان کھا پی کے رات گئے اپنے گھر زایا کرو۔ بات یہ ہے، وہ بڑی کنکالہ ہے، کہیں ایسا نہ ہو، سن گن پاے اور چڑھ دوڑے سرکار میں۔ وہ کہتے نہیں ہیں، دشمن کہاں بغل میں۔ سب باتوں میں ہوسیاری چاہیے، ہر طرح چوکسی رہے۔ اور دیکھو، دن کو جو بہستی مسک لے کے آتا ہے، دوزاے پر کھڑا ہوتا ہے۔۔۔۔ داڑوں سے صاف دکھائی دیتا ہے، کوئی آر نہیں۔ بعضے وخت گلی کے لونڈے دوڑتے نکل جاتے ہیں بھدر بھدر کرتے ہوئے، کلیجہ دھک سے رہ جاتا ہے۔ ہزار طریوں کے حلال جادے حرام جادے ہوتے ہیں۔

بخشو : اچھا تو تم ایک کام کرو، کوئی چادر وادر دروازے پر ڈال دو۔ اور میں بھی سوچتا ہوں، کسی طرح کوئی سن گن نہ پائے۔ اندھیرے اُوجالے ادھر ہو نکلا کروں، دن

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 180

دوپہر یہاں آنا جانا اچھا نہیں۔ زیادہ لوگ مجھے دیکھیں گے، چرچیں گے۔ تم جو اکیلی ہو بڑا خیال رہتا ہے۔ جوانی قسم، یقین مانو، جان میری ہر وقت اسی محلے میں رہتی ہے اور جو کام کاج ہیں، سب مارے باندھے کے ہیں، خدا نے کھانے بھر کو دیا ہے، اب ہل کے پانی پینے کو جی نہیں چاہتا ہے۔ نوکری چاکری اب دوبھر معلوم ہوتی ہے۔

نجبنیا : ہاں ایک بات میں کہتی ہوں۔ حصہ بخرا سب کر لینا چاہیے۔ یہ تو کہو میری زورا زوری سے دو تین باتیں نکل آئیں، نہیں تو تم تو ایسے سست اپاہج ہو، آجکل آجکل کرتے کرتے برسوں کاٹ دیے۔

بخشو : اجی گھبراتی کیوں ہو۔ لینے کو کہو، ابھی تو کھڑے کھڑے بائیں ہاتھ سے رکھوا لوں گا۔ کون ایسا دھنا سیٹھ ہے جو مال دبائے گا۔ مگر کام کرنا چاہیے سہولت کے ساتھ، سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے۔ تم ابھی دیکھو تو سہی، کیوں کر اس امر کو کرتا ہوں، تیل دیکھیے تیل کی دھار دیکھیے۔ تم جلد باز ہو، اس سے کام نہیں نکلتا۔ ایک ادنیٰ سی بات میں تم سے کہوں، سب مال رکھا ہوا تو اُن کے پیٹ میں ہے۔ اگر کل کدان کو نیت بدل جائے تو کس کی ماں کو ماں پکاریں گے۔ جوتے کا گھاؤ میاں جانے یا جوتا۔ خدا نہ کرے، کلیجہ مسوس کے رہ جائیں۔ مگر وہ لوگ ایسے نہیں ہیں، پورا بھروسہ ہے اُن پر۔ اگر آج لاکھ روپیہ ہو تو کھڑے پیشاب نہ کرے۔ آپس میں اس پر قول قرار ہو چکا ہے۔ تم کو یہ نہیں معلوم ہے، آپس میں اگر ایسی باتیں نہ ہو لیں تو اتنی بڑی بات میں کوئی کسی کو ساتھ کیوں لے۔ چاہے گردن تک کٹ جائے، کیا

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 181

معنی کوئی بے موجب بات زبان سے نکلے۔

نجبنیا : اچھا، یہ تو خیر۔ باوا مریں گے تب بیل بٹیں گے۔ دو چار چیزوں کی ہم کو بڑی جرورت ہے۔ بڑا ہرز ہے۔

بخشو : کہو ابھی سامان کر دوں؟ بس اتنی دیر ہے، تنخواہ مل لے تو پھر میں بادشاہ ہوں۔ ہم کوڑی پیسہ کا منہ نہیں دیکھتے، ہاتھ کا میل ہے۔ تمہاری فرمائس اور اُس میں ہچر مچر۔ جوانی قسم، نہ ہوا اس وقت میرے پاس روپیہ، تم کو مکان میں بیگم بنا کے بٹھادیا ہوتا۔ اور آج ہو ہی بیگم، کلام کس کو ہے۔ قسم جناب امیر، کی چہرے مہرے میں سیکڑوں بیگموں کو مات کرتی ہو۔ ماشے اللہ سے حوریں شرماتی ہیں۔ عمر بھی ویسی ہی ہے۔کسی بات میں رتی بھر جو کمی ہو۔ تمیز داری، عقل وندی، کوئی تم سے سیکھ جائے۔ بات سمجھ کے، ہر بات سمجھ داری کی کرتی ہو۔

نجبنیا : لے یہ چوچلے تو اپنے تہ کر رکھیے۔ یہ وہیں اپنی چڑیل خان کو سنائیے گا (مسکرا کے) لے آج ہمارا ایک کام کرنا ہے۔ ضرور ہو، سو کام چھوڑ کے۔ ہم نہیں جانتے، چاہے مہلت ہو یا نہ ہو۔ ہمارا کام کرنا چاہیے (ٹھنک کے) اللہ پھر اور کس سے کہیں؟

بخشو : (گلےمیں باہیں ڈال کر) کہو کہو، کچھ تکلف نہ کرو۔ اجی تمہارے واسطے تو جان حاضر ہے۔ اگر تمہارا ہی کام نہ کیا تو کس کا کریں گے۔ جوانی قسم مجھے تمہارے کام کرنے میں وہ مزا ملتا ہے۔

نجبنیا : (جھیپ کے) چلو ہٹو بھی۔

بخشو : اوہ ہوے (گردن کو ہلا کے) قتل کرتی ہو، واللہ قتل۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 182

تمہار مارا پانی مانگ نہیں سکتا ہے، جیتی رہو، واللہ جی خوش کر دیتی ہو۔

نجبنیا : جیتے تم رہو۔ ابھی تم کو بہت سے کام کرنا ہیں۔ اُس مالجادی کو گوڑ گڑھا کرنا ہے۔ وہ کہتے نہیں ہیں، قبر میں جا کے رکھنا ہے۔ ابھی تم نے دنیا کی ہوا ہی کیا کھائی ہے، جمعہ جمعہ آٹھ دن۔

بخشو : اجی ہم تو مدت سے مر چکے ہیں۔

نجبنیا : مگر مرتے نہیں دیکھا، کہتے سب کو سنا۔

بخشو : یہ نہ کہو۔ ابھی اُس دن کی بات ہے، ایک ہمارا یار اتنی سے بات پر اپنے معشوق کے سامنے چقو سے گردن کاٹ کے مر گیا اور پھر اسی امین آباد میں۔ ع

خوشی سے کاٹ لے دل دار گردن

بلکن اُسی دن سے سرکار نے مناہی کر دی، خبردار! شہر میں یہ غزل کوئی نہ گائے۔ بس ایسے ہوتے ہیں مرنے والے۔ ایک دن دیکھ لینا، ہماری جان کی خیریت نہیں۔ بس جی چاہتا ہے، تم پر صدقے ہو جائیں۔ خدا نہ کرے جی سے لگی ہو۔ بے تمہارے ایک ایک گھڑی پہاڑ معلوم ہوتی ہے۔

نجبنیا : ہم کو نین سکھ لا دو۔

بخشو : کیا کرو گی؟

نجبنیا : کرنا کیا ہے، پائزامے بنائیں گے۔ موا پنڈا ہر وقت جلتا رہتا ہے، رانوں میں دانے پڑ گئے ہیں۔ اب ہم سے یہ موئے بالش بھر کے پینچے نہیں پہلے جاتے۔ مسی بھی لیتے آنا۔ باجار تو جاؤ گے، کھسبو دار سرمہ بھی لیتے آنا اور اسگر علی کے یہاں سے بہت بہت خوسبودار تیل اور عطر لیتے آنا۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 183

بخشو : اچھا یہ بتاؤ، کتنے کتنے کا چاہیے؟ عطر تو کوئی دو آنے کا بہت ہو گا اور دو ہی آنے کا تیل اور دو ہی آنے کا سرمہ اور دو ہی آنے کی مسی بھی چاہیے۔ کون بار بار منگائے۔ اور بتاؤ؟

نجبنیا : اور کیا، بس۔

بخشو : اور نین سکھ تو رہ گیا۔

نجبنیا : اے، لو ہاں۔ (مسکرا کے) کیا بھلکڑ ہوں۔ بس تم سے تو کہہ دہا، پائزامے کے واسطے۔

بخشو : یا اللہ، کچھ معلوم تو ہو، کے پائے جاموں کا؟ کن داموں کا کتنا درکار ہو گا؟

نجبنیا : یہ ہم کیا جانیں۔ کم سے کم کوئی بھلا چار پئزامے تو ہو جائیں۔

بخشو : پھر بھی نہ بتانا، کتنا چاہیے۔

نجبنیا : کتنا کیا، جتنے میں بنتے ہوں ہماری زانے بلا۔

بخشو : آخر بزار میں کیا جا کے کہیں گے؟

نجبنیا : بڑے پینچے کے پیزامے کوئی میں جانتی ہوں پچاس گج میں ہوتے ہوں گے۔ دیکھو اچھے خاصےہوں۔ کپڑا کھنگے نہیں، نہیں میں پھاڑ کے پھینک دوں گی۔

بخشو : اُف اُوہ، تو آپ کو بزاز کی ساری دوکان چاہیے ماذاللہ کی جا ہے۔ یہ پائجامہ ہو گا؟ یہ ایک اچھا خاصہ ڈیرا۔ (ہنس کے)۔

نجبنیا : اچھا تمہیں بتاؤ۔

بخشو : اجی ہمارے گھر میں تو چھ گز نین سکھ میں ایک پائجامہ بنتا ہے۔ تم بہت کرو بارہ گز میں بناؤ۔

نجبنیا : (بگڑ کے) چھ گز اور بارہ گز رکھو کفن کے واسطے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 184

غضب خدا کا، ہم اُس ٹکر گدی سفتل کے برابر ہو گئے۔ دیکھو صاحب! نہیں کہتے ہیں، مگلانی کو ہم نے دیکھا ہے، بیگم صاحب کے لیے اتنا بڑا پازامہ بناتی تھیں، مہینوں سینے میں لگتے ہیں۔۔۔۔۔ اچھا صاحب؛ معلوم ہوا، جو تم کو ہمارا سودا لانا برا لگتا ہے۔ جانے دو، اللہ ننگا بھوکا نہ رکھے گا۔ کوئی دن گلی میں گڑھے دھوتر والا نکلے گا اُس سے ہم لے لیں گے۔ چلو اس سے بھی تم کو چھٹی ہوئی۔

بخشو : (دھیرے ہو کے) تم تو نہ جانے کیسی بچوں کی سی باتیں کرتی ہو۔ ارے بھئی میں کسی امر میں انکار تھوڑی کرتا ہوں۔ لا دینے و خوشی خوشی حاضر ہوں۔ بات تو سمجھ لو، تم تو ذرا سی بات پر بگڑ جاتی ہو (آنکھوں میں آنسو بھر کے) اس وقت بڑا صدمہ دیا تم نے دل کو۔ واللہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ جان دے دینا بڑی بات نہیں، کچھ کھا کے سو رہتا۔ پھر کہتا ہوں، پتھر تلے ہاتھ ہے۔ ارے نادان! جب جان ہی نہ رہے گی، یہ مزے کون اُٹھائے گا۔ اجی بس میں تم سے کہوں، اب جو جیتے ہیں تو تمہارے ہی ناز اُٹھانے کے سہارے، یہ سارے زمانے کی باتیں ہیں۔ بھلا آپ ہشیار سمجھ دار آدمی اور یہ باتیں۔ مگر تم کیا کرو، مزاج ہی معشوق کا خدا نے دیا ہے۔

نجبنیا : اچھا جانے دو یہ باتیں، تم کو برا لگا۔ میں نے ہنسی سے کہی تھی۔ تم سے نہ کہیں تو کس سے کہیں۔ کوئی اور یہاں بیٹھا ہے۔ عمر بھر اللہ یوں کٹ دے۔ بی مگلانی کہا کرتی تھی۔۔۔۔ لڑنی رات کرے، بچھڑنی رات نہ کرے۔

بخشو : نہیں واللہ مجھے اس کا خیال نہیں۔ اسی پر تو میں خوش

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 185

ہوں۔ ایسے معشوق کے ناز اٹھانے کے واسطے تو ہم زندہ ہیں۔ نہیں آج کل دنیا میں کون کس کا ہوتا ہے جی۔ دو دن مزے کر کے آنکھ پھیر لی۔

ان تلوں تیل ہی نہ تھا گویا
آپ سے میل ہی نہ تھا گویا

کسی کی عزت آبرو لی، بیزار کی نوک سے۔ بانہہ گئے لاج کرنا۔ جب تک دم میں دم ہے تب تک نباہنا پڑے مردوں کا کام ہے۔ یہاں یہی عیب ہے۔ عمر بھر اسی میں برباد رہے۔ واللہ جوانی قسم، اسی نے ایسا ایسا ڈبویا ہے، دوسرا ہوتا، تھاہ نہ پاتا۔

نجبنیا : (گلوری دے کے) لو، پان لو، مداریہ بٹھا لاؤں۔ لے ہاں اب کہو، یہ چیجیں کب لاؤ گے؟

بخشو : آج ہی لو۔ خالی بات یہ ہے، آج کل ذری بے خرچ ہو رہے ہیں۔ سرکار سے طلب بھی نہیں ملی۔ آج کل معاملہ ایسا نازک ہو رہا ہے، اپنی طرف سے مانگ بھی نہیں سکتے۔ عجب کتیا کے چھنالے میں جان پڑی ہے۔ مثل ہے، بندھا خوب مار کھاتا ہے۔ اپنی طرف سے کوئی چھیڑخانی نہ ہونے پائے۔

نجبنیا : کھرچ کی کیا فکر، ہم دیں گے۔ لے بھلا تین روپیہ میں کیا ہو سکستا ہے۔ ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے گی۔ تین روپلیاں تو نون تیل میں چٹر پٹر اوٹھ جائیں گے۔ بیاہ نہیں کیا، برات تو دیکھی ہے۔ ایسی ہی فروہی ملے گی۔ اپنے دے دلا دینا۔ ابھی میں ہاتھ گلے کی کوئی چیج اتار کر دوں، برسوں کے لیے بہت ہو۔

بخشو : اچھا جو تمہاری خوشی۔ میں تمہاری بات کو کاٹتا نہیں۔ مگر تمہیں کسی طرح کی تکلیف ہو، زوف ہے اس زندگی پر۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 186

میں نااحسان مند نہیںہوں۔ اپنا باپ ہو، تب بھی خدا لگتی کہیں گے، لاکھوں کی دولت تو تم ملیں۔

نجبنیا : جڑاؤ پتے پاندان میں رکھے ہیں۔ کانوں میں تو یہی پانچ پانچ آتے ہیں۔ نہ ہو تو ایک پتہ لے جاؤ، ہزار میں دکھاؤ، جو دام اُٹھیں، جدا کر ڈالو اور وہیں سے یہی چیزیں لیتے چلے آؤ۔

بخشو : (دھیمی آواز سے) اچھا تو دے دو۔ آج ہو سکا تو کسی وقت آج ہی اور نہیں تو کل سب چیزیں یہیں لو۔ (جیب میں پتا رکھ کے) اچھا اب جاتے ہیں، کھانے کا انتظار نہ کرنا۔

(خدا بخش جاتا ہے)
------------------------------------------------------------------

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 187

گیارہواں باب

نجبنیا : (کنکری ہمسایے میں پھینکتی ہے)۔

نوجوان : (دیوار کے اُس پار) کہو، موقع ہے؟


نجبنیا : (دیوار پر اوچک کے) کہو، اچھے تو رہے؟ کیا کرتے تھے؟

نوجوان : اجی اچھے کیا، تمہاری محبت کی آزار میں گرفتار ہیں۔ سسکتے ہیں پڑے عاشق نہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔ خالی بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا جب تک دو چار دمڑی کر ڈالیں۔ اُسی طرح اُٹھے چلے آئے، کپڑے بھی نہیں پہنے۔

نجبنیا : ہاں وہی میں کہتی ہوں۔ ننگ دھڑنگ، برہنہ پیر کا بانکا کون نکل آیا، (شوق کی نظر سے نوجوان کو دیکھ کے) تم پر یہ شال باف کی غرقی کیا زوبن دیتی ہے۔ بھبوت تو سونے پر سہاگہ، ڈنڈ کیوں کر کرتے ہیں؟

نوجوان : (اپنے ڈنڈ بھجے دیکھ کے) واللہ، کیا بناتی ہو۔ یہ تو مٹی اوپر سے لگائی ہے، فائدہ کرتی ہے۔ کیا کہیں ڈنڈ تم کو دکھاتے، لیکن عورتوں کے سامنے کسرت کرنا منع ہے، خیر اچھا، خدا وہ دن لائے۔

نجبنیا : یہ مکان تو تمہارا ہی ہو گا؟

نوجوان : اجی یہ مکان تو ہماری کسرت کرنے کا ہے، یہاں اور کوئی آنے جانے نہیں پاتا۔ اس کے اُس پار کارخانہ ہے، اُس میں کاریگر لوگ بیٹھتے ہیں۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 188

نجبنیا : ہاں جب ہی میں کہتی ہوں، یہ اوجار پجار کیسا پڑا رہتا ہے، کھالی ایک طرف چھپر۔

نوجوان : ہاں، کونے میں کھڑکی لگا دی ہے، بس اُسی سے آتے جاتے ہیں۔ اور زیادہ بنواتے اس مارے نہیں، خامخواہ کو لوگ گھسے رہیں گے۔ ایک بات آپ سے کہنا تھا۔

نجبنیا : کہو، کہو، کوئی ہے تو نہیں؟

نوجوان : (قریب آ کے) بھلا کوئی موقع ملنے کا ہو سکتا ہے؟

نجبنیا : پاک محبت دور ہی سے اچھی، اُس میں بڑا مجا ہے۔ کھڑے رہنا، میں گلوری بنا لاؤں۔

(گلوری لا کے دیتی ہے)۔

نجبنیا : لو، مگر ہاتھوں میں تمہارے مٹی بھری ہے، منہ میں لے لو۔

نوجوان : کیسے پونچھیں؟

نجبنیا : تلے کچھ رکھ لو۔

نوجوان : بھلا ایسی کون چیز اس وقت ملے، مگر ٹھہر جاؤ۔

(نیم کی ڈالی پکڑ کے ہلکی سے زقند بھرتا ہے۔)

نجبنیا : ہاں، ہاں، درخت ہلے گا۔ گلی میں کوئی دیکھ نہ لے۔

(ہنوز یہ جملہ تمام نہ ہوا تھا کہ دیوار پر نوجوان آ گیا)

نجبنیا : دیکھو، پاؤں سنبھال کے رکھنا، دیوال بودی ہے۔

نوجوان : ہم تو بودے نہیں ہیں۔ اگر کہو تو جھم سے تمہارے گھر میں کود پڑوں۔

نجبنیا : (ہٹ کے) لے بیٹھ جاؤ، جھپاک سے، لو یہ پان منہ میں لو۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 189

نوجوان : واہ، وہ۔ بکری نے دودھ دیا تو میگنی بھرا۔ بائیں ہاتھ سے تو پان ہرگز نہ لیں گے۔

نجبنیا : یہ کیوں، لو بھئی حیران نہ کرو۔

نوجوان : بھلا کوئی بائیں ہاتھ سے دیتا ہے، آب دست کا ہاتھ۔

نجبنیا : (اپنی بے تمیزی پر جھیپ کے) اے ہاں بھول گئی۔ (داہنے ہاتھ میں پان لے کے) لو اب تو لو گے، راضی ہوئے؟

نوجوان : ہاں س کا مضائقہ نہیں۔ مگر اس کا مزا تو یہ نہیں ہے۔ رہنے دو اپنا پان، وقت پر کام آئے گا، کیوں خون کراتی ہو۔

نجبنیا : لو صاحب اُلٹے ہمیں سے کھفا ہو گئے۔ سبحان اللہ! پہلے منہ منہ چومتے گال کاٹا۔

نوجوان : واہ قربان آپ کی سمجھ کے۔ معلوم ہوا آدمی ہو بڑی پونچھ کے۔

نجبنیا : (قہقہہ لگا کے)۔ ع

سب صورت لنگور کی فقط دم کی کسر ہے

کیا کیا کھوب دیوال پر بیٹھے ہونا۔ خدا کے لیے نیم پر اُچک جانا۔

نوجوان : (جھیپ کے) اجی اس کا مزا یہ ہے، پان اپنے منہ میں لے کے یاروں کو کھلاؤ۔ جو آدمی مہربانی کرے تو پوری، اور یہ کیا بھیک کی طرح ہاتھ اُٹھا کے دے دیا۔

نجبنیا : معاج اللہ! کیا باتیں بنا آتی ہیں۔ اچھا لو تمہاری خوشی ہے تو جہاں (یہاں) انکار نہیں۔

نجبنیا : (دانت میں پان دبا کے نوجوان کی طرف رخ کرتی ہے)۔

نوجوان : (بے تکلفی کر کے چٹاخ سے) بھلا سیب کو چھوڑ کے

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 190

پتے کس نے کھلائے ہیں۔

نجبنیا : (گلوری داہنے ہتھ میں لے کے) ہو تم پورے لنگورے کے، گالوں کو کھراب کیا، لے اب پان لیتے ہو یا پھینک دیں۔

نوجوان : اچھا اچھا لوؤ۔ میوہ کھا کے پان کھاتے ہیں۔

نجبنیا : ہو تم بڑے نٹ کھٹ۔ آج کیسا کیسا حیران کیا مجھ کو۔ دیکھوں تو سہی دوپٹے میں مٹی تو نہیں بھر گئی، ذری ہٹ کے سٹرو، اوئی نوج۔

نوجوان : تمہارے واسطے اگر آج دنیا کی چاہے کالک لگ جائے، جو ہو سو ہو۔

نجبنیا : یہ تو سہی، اب بتاؤ کیوں کر ملیں گے۔ مگر دیکھو یہ کہتے دیتے ہیں، یہ کانوں کان کوئی نہ سنے نہیں بہت برا ہو گا۔ ارے تم مرد ذات ٹھہرے، تمیں کیا، اپنے یار دوستوں میں بیٹھ کے ڈینگ مارو گے۔ آبرو پر جس کی بن جائے گی اُس کی بن جائے گی۔ ہم تو کہیں منہ دکھانے کے لائک نہ رہیں گے (آنکھوں میں آنسو بھر کے) آج تک کسی امر سے واکف نہیں۔ تم کو دیکھ کے جی چاہا دو باتیں کر لیں۔ تمہاری بھولی بھالی صورت پر پیار آیا۔ تم ایک ہی چھٹے لُنگارے نکلے۔ اُسی کے ہاتھ آبرو ہے۔

نوجوان : اجی اس پر نہ جائیے۔ بڑے بڑے نواب زادے شاہزادے کیا ہوں گے۔ ہاں تمہارا دل مضبوط چاہیے، مگر تم ٹھہریں دوسرے کے بس میں۔

نجبنیا : اس کا تو کھیال نہ کرو۔ یہ تو دل کا سودا ہے۔ اپنی کھوشی کی بات ہے۔ کچھ کشی کی لونڈی باندی نہیں۔

نوجوان : تم تو پری ہو پری۔ نہ معلوم کس دیو کے پھندے
 

شمشاد

لائبریرین
طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 191

میں پھنس گئی۔

نجبنیا : دیوایو کون ہے۔ وہی مثل ہے، مانو تو دیو نہیں پتھل۔ آج زی چاہے اوٹھ کھڑے ہوں۔ یہ شکخص ہمارے مکان کے پاش رہتا تھا۔ گھر میں ایسی ہی بات ہوئی، اُٹھ کھڑے ہوئے۔ کھانے پینے کی کمی نہ تھی۔ ابا ہماری سوداگری کرتے ہیں۔ لاکھوں کا اشباب ہے۔ دس نوکر چاکر آگے ہیں۔ ایک بات ہوئی، مجاز کو ناغوار گذری، بھری تھالی میں لات مار کے اوٹھ کھڑے ہوئے۔ کھدا رجاک ہے، جو ہے مجھے جندگی بھر کو بہت ہے۔

نوجوان : (زیور کو بھانپ کر) تمہاری باتوں سے طبیعت بے چین ہوتی ہے۔ اب یہ بتاؤ ہماری زندگی کی کیا صورت ہو گی۔ اس کی بھی فکر ہے تم کو؟

نجبنیا : (ہنس کے) چہ کھوش۔ حواش درست کرو۔ کیا منہ کا نوالہ سمجھے ہیں۔ ٹھہرو جرا دم لو، دیکھو اونٹ کس کل بیٹھتا ہے۔ کیا ابھی جلدی پڑی ہے، کاتا اور لے دوڑی؛ ابھی کے دن ہوئے، کے راتیں۔ ایسے کا اعتبار کیا، ہر دیگی چمچا۔

نوجوان : اجی آپ یوں ہی باتیں بنائیے گا۔ یہاں دل کا یہ حال ہے، ایک لمحہ آپے میں نہیں آتا۔ امام حسینؑ کو اپنے ہاتھ سے شہید کرے جو جھونٹ کہے۔ کل یہ کس کافر سے کھانا کھایا گیا ہو۔ رات آنکھوں میں کٹی، کروٹیں لیتے لیتے پسلیاں دکھ گئیں، کام میں جدا جی نہیں لگتا۔ تمہارے کارن کل اُستاد سے بھی اُلجھن ہو گئی۔ دنیا اندھیر معلوم ہوتی ہے۔ معلوم کیا موہنی منتر تم نے پھونک دیا۔ تن بدن کی خبر نہیں۔ بعضے وقت تو ایسا غرقات ہو جاتا

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 192

ہوں، جی چاہتا ہے پر لگ جائیں اور تمہارے پاس پہنچ جاؤں۔ بیٹھے بیٹھے جی ایسا اُلجھتا ہے، کپڑے پھاڑ کے نکل جانے کو چاہتا ہے۔ یہ بات تو آج تک کبھی ہوئی نہ تھی۔ بعضے وقت جی ایسا کلفت ہوتا ہے، کسی کا بولنا چالنا زہر لگتا ہے۔ چڑیا بول، جیسے کسی نے تیر مارا۔ یہ کیا کر دیا تم نے۔ ہم تو کسی کام کے نہیں رہے اب جو کچھ دھن ہے، یہی، تم کسی طرح مل جاؤ۔ واللہ کھانا کھاتا ہوں حلق سے نوالہ نہیں اُترتا۔ معلوم ہوتا ہے حلق تک پیٹ بھر ہوا ہے۔ کیا کہوں، جن پر گزری ہو گی وہی جانتے ہوں گے۔ پہلے پہلی ایک دفعہ اسی لکھنؤ میں ٹھیٹھر آیا تا، بس جو سماں اُس میں دیکھا تھا وہی ہر وقت آنکھوں تلے پھرا کرتا ہے۔ تم کو کیا، مزے سے گھر میں بھیٹی ہو۔ ارے ظالم گذرتی تو ہے ہم ایسوں پر۔ تمہارا حکم ہے، کسی پر یہ بو پھوٹنے نہ پائے۔ اور اپنے تئیں بھی خیال ہے، ایسا کوئی امر نہ ہو جس سے دین دنیا سے جائیں۔

نجبنیا : ارے سنا ہے ایسا بہت۔

نوجوان : تو کیوں صاحب، ہمارا بھی ایسا ہی دکھ ہے۔ اچھا پھر سنانے سے فائدہ کیا۔ اندھے کے آگے روئے اپنے دیدے کھوئے۔

نجبنیا : ہاں صاحب، ہم ایسے ہی ہیں۔ پھر کوئی ایسا کوئی دیوانہ ہو، ہم سے بد تر، نکھتر حد بھر برے۔ دنیا اپنا رونا روتی ہے اور جو کسی پر گجرتی ہے، اُس کی کیا جانے زوتی۔ تم کو باتیں بنانا کھوب آتی ہیں۔ شمجھ لیا ہے یہ نادان احمک ہے، کھوب بناؤ۔ جو ہم پر بیت رہی ہے کھدا دسمن پر بھی نہ ڈالے۔ بھلا دل میں کچھ منشبی کرو۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 193

اگر جو کوئی بات نہ ہوتی تو ہم کاہے کو ملتے۔ شچ کہو تم نے ہماری ٹوہ لگائی یا ہم نے؟ مل ہم کو یہ بات منہ سے نکالنا نہ چاہیے تھی، تم اور بھی پھول جاؤ گے۔ مگر کھیر اب زو کہی سو کہی۔

نوجوان : دیکھو! اُس وقت کی بات کا دھیان رکھنا۔ ایسا نہ ہو کسی وقت بھول جاؤ۔ تم نے تو دل لگی کی مگر یہاں مارے کم بختی کے دل لگ گیا ہے۔ خیر، اور کچھ تو کہتے ہیں، اتنی بات کی فرمایش ہے، کبھی کسی وقت رات دن میں یہ خیال کر لیجئے گا، کوئی آپ پر جان دینے والا بھی ہے۔ لے اب جاتے ہیں، خدا حافظ، مگر مایوس جاتے ہیں، آپ کا کچھ گرہ سے خرچ نہیں ہوتا۔

نجبنیا : (جی میں خوش ہو گے) واہ اچھی کہی۔ ان کے لیکھے کچھ خرچ ہی نہیں ہوات۔ ارے یہ تو عجت (عزت) آبرو کی باتیں ہیں۔ موتی کی سی آبرو اُتر جاتی ہے، پھر آدمی میں رہتا ہیکیا ہے۔ دیکھو بہت گھبراؤ نا۔ بہت مٹھائی میں کیڑے پڑتے ہیں۔ دل کابو میں لاؤ، پھر کسو دن دیکھا جائے گا۔ پھر یہ تو ہم سمجھے بیتھے ہیں، وہی ہوتا ہے، ہم یاد کرتے ہیں، گھر میں تڑپتے ہوں گے، تمہاری بلا کو اتنی فقیر بھی نہ ہو گی، کون بلا ہے جو ہمارے پیچھے دیوانی ہے۔ بے وفائی تو مردوں کا حصہ ہے۔ تم کیوں اُس سے خالی ہونے لگے۔ منہ دیکھی باتیں ہیں

نوجوان : اچھا لے اب جاتے ہیں، خدا حافظ۔ کیا کہیں، تمہارے پاس سے اُٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ اُستاد آتے ہوں گے، اُن کے نکتوڑے الگ، تمہارا فراق جدا، ایک بات ہو تو کہیں، زندگی اجیرن ہے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 194

نجبینا : اچھا لے خدا حافج۔ اب کس وقت موکع ملے، مل یہ سمجھ لینا، ہم تو دن بھر گھر میں اکیلے بیٹھے رہتے ہیں، کوئی بات کرنے والا نہیں، ہر دم تمہارا دھیان رہا چاہے۔ ہاں تو یہ کہو یہ کارکھانہ تمہارا ہی ہے؟

نوجوان : ہمارا کیا ہے، تم اپنا ہی سمجھو۔

(نوجوان نیچے اُتر جاتا ہے اور نجبنیا دیوار کے پاس سے ہٹ جاتی ہے)

بخشو اور نجبنیا

بخشو : یہ لو آج تو بالکل پست ہو گئے۔ ایک ایک چیز ڈھونڈھتے آندھی روگ آ گیا۔ پھر لاؤ لاؤ، چوک سے کالے کوسوں۔ بالکل پسینے میں شرابور ہو گئے، اور پھر کئی ایک چیزیں نہیں ملتیں۔ مسی والے کی دکان بند تھی؛ نہیں معلوم اُ س کو ہیضہ ہو گیا یا کون آفت آئی۔ مفت خدا اُس کی تلاش کی رپڑ پڑی۔

نجبنیا : یہ تو کہو وہ کِتے کو گئی؟

بخشو : تہ دلی سے بیٹھنے تو دو، سب بتاتے ہیں، گبھرائی کیوں جاتی ہو۔ بھئی تمہاری جلد بازی ہاتھ پاؤں پھلائے دیتی ہے۔ لے پہلے یاروں کو حقہ تو پلوائیو۔ جوانی قسم راستے میں جو کہیں دم بھر ٹھہرے ہوں۔ مارا مار چلے آتے ہیں۔ رستے میں گول دروازے پر رزاق ککڑ والے نے لاکھ لاکھ کہا، کیا توا آ رہا ہے، دو پھونک پیتے جاؤ۔ بہت جی چاہا مگر ہم نے کہا بہت دیر ہوئی۔ تم بیٹھی راہ دیکھتی ہو گی۔ ایک ایک دم لاکھوں برس کے برابر ہے۔ یاد بخشو ان باتوں میں جو پھنسے رہے، یہیں ایک کان بہرا، ایک گونگا کیا، پڑے پکارا کرو، بلا سنتی ہے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 195

یہاں تاؤ ہی اور تھا۔ تم میری عادت جانتی ہو، کوئی کام ہو، جب تک جی پر نہیں رکھا نہیں رکھا، اس میں جتنی چاہے دیر ہو، جب کوئی امر محنت اور مشقت کا اُٹھا لیا، پھر بے کیے لمحہ بھر چین نہیں۔ جب تک نہ کریں گے کھانا پینا حرام۔ غلام حسین کے پل پر چاء کی دوکان پر ہماری غنی کے لنگوٹیا یار میر صاحب ملے، چسکی پیتے جاؤ۔ میں نے کہا بھائی صاحب معاف رکھو۔ اس وقت میں بڑے کام میں ہوں، دم لینے کی مہلت نہیں، مجھے کوئی انکار نہیں، پھر کسی دن دیکھا جائے گا، ایک دن کے ساٹھ دن، کہیں تم بھاگے جاتے ہو یا ہم۔ بھئی تم جانتے ہو کبھی میں نے انکار کیا ہے، جانے دو، آج نہ سہی کسی اور دن دیکھ لیا جائے گا۔

نجبنیا : ارے یہ تانتا پنواڑا ہوتا رہے گا۔ موئی بات نہ ہوئی، شیطان کی آنت ہوئی، ہونے نہیں آتی۔ کیا تمہاری بری خو ہے۔ زبان ہے موئی رنڈ کا چرکھا۔ مطلب کی بات بارہ بارہ چوبیس کوس نہیں۔ یہ سب کصہ دھرا گئے، حال نہ معلوم ہوا، چیج گئی کتے کی؟

بخشو : اجی چیز کو کیا پوچھتی ہو؟ سب روپیہ، ریزگاری اور ٹکے ملائے، کوئی پونے بارہ آنے کو پڑی۔ اچھا اب اپنا حساب سمجھ لو : چھبیس کا نین سکھ، پورا تھان ہے۔ سات کا یہی ہو گیا۔ اس کم بخت کو اُٹھائے اُٹھائے ہاتھ جھول گیا۔ اُف اوہ! معلوم ہوتا ہے سیسہ پلایا ہوا ہے اور کہنے کو تو صاحب سوت ہے۔ یہ عطر اور تیل لو۔ دیکھو سنبھال کے رکھنا، شیشی ٹوٹ نہ جائے۔ دو آنے کا تیل، چار آنے کا عطر نہیں ملتا اور جو ملتا بھی ہے دو ایک پھریریاں

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 196

ملتی ہیں۔ ہم نے کہا یہ تو جاتے ہی جاتے اڑ جائے گا، کہاں رکھیں گے۔ لو یہ پونے چار روپیہ بچےہیں، ان کی مالک ہو۔

نجبنیا : نین سکھ تو کچھ اچھا نہیں۔ نہ معلوم تم کہاں سے اُتھا لائے؟ بیگم صاحب کے پائجامے کے واسطے تو بڑا چکنا آتا تھا، جیسے کیلے کا گابھا۔ یہ تو موا موٹا کھدہڑ کس سے پہنا جاوے گا۔ تمام رانیں چھل جائیں گی۔ اسی مارے ہم نے کہا تھا، صوفیانہ کپڑا ہلکا ہلکا گھر میں اچھا ہو گا۔ اور ہاں ایک بات تم بھول ہی گئے۔ رنگ کی پڑیا تو تم لائے نہیں۔

بخشو : اجی جو تم نے بتایا وہ لے آئے۔ کیا علم غیب ہے۔ لے تمہارے دل کا حال کسی کو کیا معلوم۔

نجبنیا : اچھا اگر زو ہم بھول گئے تو تم کو کیوں نہ یاد آیا۔ تم کو کھدا نے اتنی سمجھ نہیں دی؛ یہ نہ سمجھے، آخر کیا سفید پائجامہ پہنیں گی۔ یہ رنڈسالہ تمہاری پچھل پائی کو ممارق رہے، یہاں دسمن،مدعی ، نوج کھد نہ کرے۔

بخشو : اجی تم بات بھی سنتی ہو۔ میں جو کہتا ہوں، رنگ کی کوئی بات نہیں۔ ابھی اتنی رات کو پیسہ دہ پیسہ کی پڑیا لا دوں۔اس میں برا ماننے کی کون بات۔ ہمارے جیتے جی تم کیوں رنڈ سالہ پہننے لگیں۔ اُسی کو تم جتنا چاہو ہو کوس لو، مگر یہ تو خیال کرو، آخر کس کے مرنے پر وہ رانڈ ہو گی۔ یہ گویا ہمیں کو کوسنا ٹھہرا۔

نجبنیا : ہم کیا جانیں۔ زو ہمارے شاتھ جیشا ہو گا ویسے ہی ہم بھی ہوں گے۔ مفت میرا صبر سمیٹتے ہو۔ تم کو میں نے کون بات کہی۔ تم اپنے گھر گئے ہو گے۔ میں نہ

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 197

مانوں گی۔ بش اُس پچھل پائی کی جھانجھ اُتارتے ہو۔ آج جری سے محنت کرنا پڑی، چین بول گئے۔ پھر کس برتے پر تتا پانی معلوم ہو گیا، دل میں ہمارے طرف سے کتنی جگہ ہے۔ شاری ہانڈی میں ایک چانول ٹٹولا جاتا ہے۔ بش میاں جی تانت باجی راگ بوجھا۔ سچ بھی ہے، ایک منمنا شی جان، کیا کرے کیا نہ کرے۔ بہت مار میں آدمی توجہ بھول جاتا ہے۔ اش سے تو بہتر ہے صاف جواب دو۔ ہمارا بھئی رجاک ہے تمہاری بھی زان چھوٹے ہماری بھی زان چھوٹے۔ سخی سے سوم بھلا جو جلدی دے جواب۔

بخشو : اجی خالی پیسے کی پڑیا پر یہ ملولہ ہے۔ لاؤ اسی وقت میں لائے دیتا ہوں، حقہ پھر آ کر پیوں گا۔ واللہ تمہاری اس وقت کی باتوں پر بہت ہی رنج ہوا ہم کو۔

نجبنیا : نہیں نہیں رہنے دو۔ گلی میں کئی ایک مسی سرمہ والے نکلتے ہیں، میں آپ پکار لوں گی، اور بھی کئی چیجیں لینا ہیں۔

بخشو : نہیں واللہ۔ اگر رنج سے کہتی ہو تو میں لانے کو طیار ہوں۔ لے دو پیسے۔

نجبنیا : نہیں میں نے تو ہنسی سے کہی تھی، تم نے بڑا مانا۔ جانے دو۔ للہ معاف کرو۔ تم بھی کیسی بچوں کی سی باتیں کرتے ہو اربنہ (دیرینہ) آدمی ہو کے۔ اچھا لے اب دیر ہوتی ہے، رات کو تم کو سونا ہے، دن بھر تھکے ماندے رہے ہو۔ مگر دیکھو شبح (صبح) کو جب ڈیوڑھی پر جانا، ادھر ہوتے جانا۔ اور ہاں یہ تو بتاؤ اُ پچھل پائی نے سن گن تو نہیں پائی۔ ڈیوڑھی پر تو ہمار جکر نہیں ہوتا؛ بھلا ڈیوڑھی کے پیسے ڈولی کے فاشلے پر ہو گی۔

بخشو : کوئی دو آنہ ڈولی کا فاصلہ یہاں اور ڈیوڑھی سے ہو گا۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 198

گلی میں مکان ٹھہرا، ٹوہ لگنا ممکن نہیں۔ تم نشا خاطر رہو، مزے سے گھر میں بیٹھو، کسی بات کی فکر نہ کرو۔ جب تک بخشو کے دم میں دم ہے کسی کی مجال نہیں۔ سمجھ بوجھ کے سب کام کرتے ہیں، کچھ کیا انیلے ہیں۔ آخر اتنی عمر آئی، اسی تمہارے نکھلوا میں چپہ چپہ چھانا پڑا ہے۔ بھلا ہماری چھپائی چیز آج کوئی ڈھونڈھ تو نکالے۔

نجبنیا : لے اب جاؤ، میں کنڈی بند کر لوں۔ نیند آتی ہے۔

نجبنیا : (بخشو جاتا ہے۔ غنغناتی ہے)

کبھی آیا کرو کبھی جایا کرو
نینوں سے نینا لڑایا کرو
کوٹے پر پنزرا (پنجرا) بنایا کرو
چھوٹی مینا سے لال لڑایا کرو

نجبنیا : اے جی! اے جی! کیا ابھی تک سوتے ہو؟

نوجوان : (آواز سن کے، غرقی باندھے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے) اجی سونا، کھانا پینا تو تمہارے نذر کر چکے۔ ہر وقت اسی طرف کان لگے رہتے ہیں۔

نجبنیا : جری ہیاں (یہاں) آنا، دھوپ میں کھڑے کیوں ہو۔

نوجوان : (گا کے) ؂

دھوپ میں ہم کو خراب و خوار رہنے دیجیے
آپ اپنا سایۂ دیوار رہنے دیجیے

بھئی پاس آتے ڈرتے ہیں۔ اچھا ایک وعدہ کرو، جو ہم کہیں کرو گی؟

نجبنیا : واپ! جو نہ کرنے کی بات ہو؟

نوجوان : بھلا وہ کون ایسی بات ہے جو ہمارے اور تمہارے

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 199

معاملے میں کرنے کی نہیں۔ محبت میں تو سب ہی کچھ کرتے ہیں۔ دل پر رکھو، سب کچھ ہو سکتا ہے۔ کہنے کو تو پہلے لوگ کہی گئے ہیں :

تیرا ہی دل نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں

نجبنیا : (مسکرا کر) اچھا یہ گلوری تو لو۔

نوجوان : (گلوری لے کے) ایک ترکیب رات کو سوچی ہے، جو تم بھی پسند کرو۔

نجبنیا : کہو کہو، اچھا کہو۔ کوئی ایسی ویسی بات نہ ہو۔

نوجوان : بھئی یوں دیوار کی بات چیت ٹھیک نہیں۔ ہمارے دالان میں کوٹھری ہے، اُس کی دیوار تمہارے دالان کی دیوار سے ملی ہوئی ہے، وہاں موکھا بنائیں۔ وقت بے وقت جب جی چاہا کرے، اپنے مزے سے بات چیت ہو جایا کرے۔

نجبنیا : (سوچ کے) ہاں ہے تو ٹھیک ہی بھلا تم لگا لگاؤ گے یا ہم اینٹیں ہٹا چلیں۔ کوئی بات کھل تو نہ جائے گی؟ ایسا ہوا تو بڑی کھرابی ہو گی ہمارے تمہارے لیے۔

نوجوان : اس کی طرف سے بے فکر رہو۔ کانوں کان کسی کو خبر نہ ہو گی۔ دو چار چیزیں مگدر و گدر موکھے کے سامنے رکھ دیں گے۔ سوائے ہمارے اُس کوٹھری میں آنے وال ہی کون ہے۔ ہاں جو ہو سکے، تم اپنی طرف سے مضبوطی کر لو۔ پرئے گھر کا حال کسی کو کیا معلوم؟

نجبنیا : اچھی بت ہے۔ یہاں کون ہے، ابھی تو اکیلے ہم ہیں۔ وہ وقت ے وقت آئے، دو چار باتیں کیں، چلے گئے۔ کیا پڑی ہے کونا کونا جھانکتے پڑے پھریں۔ ہم بھی کوئی آڑ لگا دیں گے۔ بھلا ایسا نہیں ہو سکتا؟ ہم ادھر سے

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 200

کھودیں اور تم اُدھر سے؟

نوجوان : ہاں بھئی، بات تو مزے دار ہے۔ مصرع

دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی

مگر ایک خرابی ہے؛ ہم نہ معلوم کہاں سے کھود چلیں، تم نہ معلوم کدھر سے لگا لگاؤَ

نجبنیا : اچھا تو اس سے کیا، ہمیں لگا لگاتے ہیں۔ بھلا تمہارے یہاں کچھ اینٹیں ہٹانے کو ہو گا؟

نوجوان : اچھا ٹھہر جاؤ۔ ڈھونڈیں، دیتے ہیں۔

(نجبنیا سروتے اور پنکھیا کی ڈنڈی سےکھٹ کھٹ کرنے لگی۔ کچھ دیر کی محنت میں اینت جو ذری ڈھیلی گلی تھ، ہٹا لی۔(

نوجوان : اس وقت اس مکان میں اور تو مل نہ سکا، لو یہ ایک کیل مل گئی ہے۔

نجبنیا : (کوٹھری سے باہر نکل کے) اجی ہم نے لگا بھی لگا دیا، ایک اینٹ بھی کھینچ لی۔ لاؤ رکھ لیں، شاید کوئی وقت اس سے بھی کام نکلے۔

(دن بھر میں اچھا خاصہ موکھا بن گیا)

نوجوان : واہ، وا! یہ تو خوب راستہ بن گیا۔
------------------------------------------------------------------------------
بخشو : کھولو، کھولو، (کنڈی کھٹکھٹا کے) ارے کیا سو گئیں؟

نجبنیا : (موکھے کے سامنے بچھونا اور جھلنگا پلنگ سے آڑ کر کے کوٹھری سے جلدی نکل کر) معاج اللہ، کیا زلدی مجاز میں ہے۔ آدمی کے ہاتھ پاؤں پھلائے دیتے ہو۔ میں نے کہا سب چیجیں گھر میںتتر بتر پڑی ہیں، لاؤ ٹھکانے سے رکھ دوں۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 201

موئی ہلکان ہو گئی۔ دوسرا آدمی بھی نہیں ملتا، بلا سے ہاتھ بٹائے۔ آپ ہی بی بی آپ ہی باندی۔

بخشو : کیا ہے، کیا۔ آج تم نے بڑی دیر لگائی۔ کیا سو گئیں تھیں یاکچھ پکاتی تھیں؟

نجبنیا : آرام چین تو موئے بخشو کے کٹے لگا۔ لو صاحب، ہم تو جان ہلکان کریں، جرا دم بھر کی دیر ہو گئی، جامے سے باہر ہو گئے۔ یہ تو نہ پوچھا، مرتی ہو جیتی ہو، پتھر ڈھوتی ہو؟ کہنے لگے کیا آرام کرتی ہو؟ واہ، وا! دیکھی آپ کی کدر دانی۔ کوئی اپنا لہو پانی ایک کرے! تمہارے پیجار کی نوک سے۔

بخشو : یا اللہ، میں تمہیں کچھ کہتا ہوں۔ آت تو تم ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو۔ اگر گھر کے کام دھندے میں پھنسی تھی تو اپنا گھر ہے۔ اس میں ہتھے پر سے اُکھڑے کی کون بات ہے۔ اس وقت ہم سودے کو ادھر آئے تھے، ہم نے کہا لاؤ دیکھتے چلیں۔

نجبنیا : دیکھنا کیا ہے۔ گھر میں ٹٹروں ٹوں اکیلے پڑے رہو، کوئی بات چیت کرنے والا نہیں۔ رات کو کیا مصیبت زان پر رہی۔ کل ذری پنڈا دھویا تھا، تم جانو پانی ہو گیا ختم، بہت ٹاپتی پھری، ایک بوند میسر نہ آیا، حلکوم میں کانٹے پڑ گئے۔ پیاس کا یہ حال، لاکھ پان پر پان کھاتی ہوں، آز بجھتی ہے نہ کل۔ پڑوس میں کسی سے بوند پانی بھی نہیں مانگ سکتی۔ عجب جنگل میدان میں لا کر تم نے ڈال دیا ہے۔ جو آدمی مر بھی جائے، کوئی بوند بھر پانی بھی نہ دے۔ کوئی آفت پڑے، کسی کو پکار بھی نہیں سکتی۔ وہی میاں بہشا وخت پر پانی دے جائیں تو جندگی ہو۔ کہو کھدا نے تمہارے دل

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 202

میں نیکی ڈال دی، ادھر ہو نکلے؛ نہیں تو یونہی مچھلی کی طرح تڑپ تڑپ کےمر جاتے۔ اب لیے کوئی دوسرا مکان آبادان محلہ میں۔

بخشو : تو کیا رات کو کٹورا بھر پانی نہ تھا؟ کو کہوں اس مکان میں کنواں نہیں، نہیں تو یہ دقت نہ پڑتی۔ خیر گھبراتی کیوں ہو۔ اب کوئی اچھا سا مکان لیں گے جس میں سب طرح کا آرام ہو۔اور اس وقت تو میں گھڑے، صراحیاں، آبخورے لائے دیتا ہوں، بھروا رکھنا۔

(بخشو سب چیزیں لا دیتا ہے)۔

نجبنیا : پانی بھر گیا؟ یہ تو بتاؤ، یہ سب برتن انواسے کس نے؟

بخشو : تمہارے بھی شک کی عجب عادت ہے۔ اجی اُسی بہشتی نے۔

نجبنیا : تم کھڑے دیکھا کیے؟

بخشو : اور نہیں میں کیا کرتا۔

نجبنیا : اجی قلمہ پڑھ کے پاک کرتے۔ کیا معلوم اُس نے قلمہ بھی پڑھا تھا یا نہیں۔ ہم ہوتے آپ ہی پاک کرتے۔ بس تمہاری یہی باتیں تو مجھے خار لگتی ہیں۔ سب گھڑے مٹکے نجس ہو گئے۔ ان سے رتی بھر پانی پینا ہمارے لیکھے سور مردار ہے۔

بخشو : مسافرت میں یہ باتیں نہیں چلتیں۔ لے اب ان باتوں کو میں کہاں تک خیال کروں۔ رات بھر سے تو پیاسی تھیں، اب انواسنے کا جھگڑا نکالا۔

نجبنیا : نہیں تو یہ کام کے نہیں، اپنے تمہیں کو ممارک۔ سب

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 203

بیکار۔ اب تہ دلی سے اور برتن مجھے لا دو۔

بخشو : لے اب تم نے بھی وہ جھگڑا نکالا۔ دن بھر میں اسی کتے خسی کا ہوا۔ دنیا میں کوئی دوسرا کام دھندا نہیں۔

نجبنیا : ہمارے کام میں یونہیں آندھی روگ آتا ہے۔ تم کو ہمارا کام ایسا ہی برا لگتا ہے نہ کرو صاحب، کیا کوئی جبردستی ہے۔ کہتے ہیں کوئی آدمی لا دو، تمہارے کیے نہیں ہوتا، پھر یہ کڑک، محلے میں کسی سے بولو چالو نہیں۔ پھر جندہ زان، کیوں کر کام چلے۔ سچ کہا ہے بندھا کھوب مار کھاتا ہے (رونے لگی)۔

بخشو : (گھبرا کے) ہیں ہیں اس میں خفا ہونے کی کون بات ہے۔ تم کو اتنی سے بات پر رنج ہوا۔ میں ابھی دوسرے گھڑے لائے دیتا ہوں۔ یہ ساری سوختی بہشتی کی ہمارے ساتھ نکالتی ہو۔ اس میں میرا کیا قصور۔ آدمی میں کیا پیدا کر دوں، ملتے ملتے ملے گا۔ تم تو چاہتی ہو ہتھیلی پر سرسوں جم جائے۔ اجنبی کو گھر میں بلا بھی نہیں سکتے۔ نیکی ہے، بدی ہے، ہزار باتیں ہیں۔ نہیں اس میں میرا کیا فائدہ ہے۔ خیر یہ بھی وقت کی بات ہے، تم اپنا دل چھوٹا نہ کرو، دیکھو تو خدا کیا کرتا ہے۔

نجبنیا : نہیں، تم اب میرے کام گھبراتے بہت ہو۔ یا تو زہاں ڈیوڑھی پر آئے، کوئی بات کہی، چاہے کسی کی سنو نہ سنو، مگر میرے کام سے جی نہ چراتے تھے۔ میں اب ادنیٰ اعلیٰ سب باتیں تمہیں سے کہوں۔ کب تک تم کر سکتے ہو، دل ہی کی تو بات ہے۔ اس میں جبردشتی کیا۔ اب وہ دل ہی نہیں رہ۔ گھر میں پڑی رہو۔ مُرگی زان سے گئی، خانے والوں کو سواد نہ ملا۔ تمہارے شر نہ پڑتے تو کاہے کو

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 204

ازیرن ہوتے۔ ہمن ے اپنے پاؤں کلہاڑی ماری، کوئی گلہ نہیں کرتے، اپنا کیا اپنے آگے آتا ہے۔

بخشو : لے اچھا جاتے ہیں۔ ہو سکے گا، کوئی وقت آ جائیں گے۔ تم کھانا پکا کے ہمارا انتظار نہ کیا کرو۔

نجبنیا : اچھا رات کو کس وقت آؤ گے؟ شاری رات آنکھوں میں کٹتی ہے۔ مچھر، کھٹمل موئے الگ ستاتے ہیں۔ کھٹکے کے مارے سو نہیں سکتے۔ سویا مویا برابر ہے؛ پھر کھٹمل، مچھر ال ستایا کرتے ہیں۔ بندی نہیں چوکتی۔

بخشو : دیکھو مہلت مل گئی، ضرور آ جاؤں گا۔ مگر آج وہ مہمان جانے والی ہیں، اگر چلی گئیں تو گھر چھوڑ کے نہیں آ سکتا۔ دس بجے تک تم انتظار کرنا، نہیں تو دروازہ زنجیر کر کے سو رہنا۔

(یہ کہہ کے بخشو چلا گیا)۔

نجبنیا : (موکھے سے) اے جی، اے جی! کیا کرتے ہو؟

نوجوان : ابھی کارخانے کے لوگوں کو چھٹی ہوئی۔ مال مسالہ سکھار کے رکھ آیا ہوں۔ لے اب نچنت ہو کے باتیں کریں گے۔ کہو تمہارے مزاج تو اچھے ہیں؟ کیا رنگ ڈھنگ ہیں؟

نجبنیا : ارے ہم بے چاروں کے کیا رنگ ڈھنگ۔ کید میں پڑے سڑتے ہیں۔ جرا جرا سی چیج کو دن بھر حیران ہیں۔ کوئی اتنا نہیں پیسے کے پان لے دے۔ کل چھالیہ نہ تھی، دن بھر منہ میں شابون گھلا رہا۔ موئی تماخو کی ایسی بری لت پڑ گئی، زہاں جرا سے دیر ہوئی زماہیاں آتے آتے باچھیں پھٹی جاتی ہیں۔

نوجوان : یہ تکلیفیں ہمارے ہوتے کیوں اُٹھاتی ہو، ادنی سا اشارہ کافی تھا۔ یہ سارا کارخانہ تمہار ہے ہے۔ جس وقت جس

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 205

کام کو کہہ دو، فوراً حاضر۔

نجبنیا : لے ہم کو کیا معلوم۔ آز کئی دن سے پیسے کی مسی منگوائی ہے، آز آتی ہے نہ کل۔ تیل جو آیا خوسبودار نہیں۔ نہ معلوم کہاں سے میٹھا تیل اُٹھا لائے، جرا جو خوسبو ہو۔ زمیع باتیں سمجھو۔ لے جب سے یہاں آئے ہیں پھولوں کے ہار کو ترس گئے۔ عادت تھی، چاہے کوئی خانے کو نہ دے، ایک اچھا سا موٹا ہار شرہانے کے تقیے کے پاس ضرور ہو۔

نوجوان : یہ کون بڑی بات ہے، آج ہی لو۔ مگر یہ تو بتاؤ ان ہاروں اور عطر کا سونگنے والا کون ہے۔ مسی کی دھڑی کون دیکھے گا۔ تم روز آجکل آجکل پر ٹالتی ہو۔ واللہ بے دودھ لڑکا رکھنا اسی کو کہتے ہیں۔

نجبنیا : کیا بھولی بھالی باتیں ہیں۔ ابھی کھیلو کھاؤ۔ ارے نادان یہ ٹیڑہی کھیر ہے۔

نوجوان : آپ کی جوتی سے۔ یہاں تو جان پر بنی ہے، وہاں آپ نصیحت نامہ کھول کے بیٹھی ہیں۔

نجبنیا : اچھا پھر کیا جلدی ہے۔ کوئی دن موکا ہو، اب تو موکھا ہو گیا ہے، سمجھو ہم تمہارے گھر میں، تم ہمارے گھر میں۔

نوجوان : تم نے پان نہ معلوم کیسا دیا تھا، ہمارا دل قابو میں نہیں۔ رات کروٹ بدلتے کٹتی ہے۔ اچھا یہ ٹالے بالے روز ہی رہیں گے۔ واللہ آج تو اگر چاہو مل سکتے ہیں۔ جو یونہی آج کل رہے گا تو کل دیکھ لینا ہم نہ ہوں گے۔

نجبنیا : اے ہے، ایسی بات نہ کرنا۔ تمہیں ہماری کسم، ایشا امر کوئی کرتا ہے؟ شمجھ دار ہو کے ایسی نادانی کسی

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 206

نے کی ہے؟

نوجوان : اجی روز کا جھگڑا چھوٹے۔ ہم کو یقین ہو گیا، ہماری جان کی خیریت نہیں۔ (آبدیدہ ہو کے) ہم تو رات دن تمہاری محبت میں جلتے بھنتے رہتے ہیں، تم تو آج کل پر ٹالتی ہو۔ دیکھو میں سچ کہتا ہوں، کوئی وقت مجھے اپنے ہی گھر سمجھو۔ باشد، ہر چہ بادا باد۔ دل کی ہوس تو جیتے جی نکال لیں۔ اور یہ تو دیکھا نہیں جاتا، ہم تو یہاں پڑے جلا کریں اور آپ مزے سے گھر میں چین سے رہیں۔

نجبنیا : دیکھو، ٹھہرو، سنبھلو۔ ایسی دیوانے کی سی باتیں نہیں کرتے۔ جو ایسی ہی بے تابی ہے، تمہارے بس کی بات ہے۔ ہم نے تو کہہ دیا، ہر وقت تم اپنے ہی پاس سمجھو۔ کہیں موکع ہوتا، ہم تم ایک پاس رہتے ہوتے۔

نوجوان : یہ کون بڑی بات ہے۔ اگر کہو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو، لے چلیں کسی مکان میں۔ اجی کہیں ٹھکانا نہیں، سرا تو کہیں نہیں گئی ہے۔

نجبنیا : پھر یہی کھیال ہے۔ اس گھر سے جا کے پھر یہاں کبھی نہ آئیں گے۔ کسی کے بس میں تو ہیں نہیں۔ اپنی خوسی خوان ہیں۔ جہاں چاہیں وہاں بیٹھیں۔ کشی کی بہو بیٹی نہیں۔

نوجوان : اچھا یہ کون تم کو یہاں لایا اور یہاں کیوں کر رہتی ہو؟

نجبنیا : کوئی بھی نہیں۔ منہ بولے بھائی ہیں، پھر بھائی نہ بھائی۔ ہم کو جو فقر ہے، ہمارے شاتھ کی چیزیں سہولت سے ہمارے شاتھ چلیں جائیں۔ سب طرح کی آرام آشایش اسی میں ہے۔

نوجوان : یہ تو کوئی بڑی دقت نہیں۔ اگر کہو تو اسی وقت ممکن

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 207

ہے۔ تم اپنا دل مضبوط کر لو۔ کاہے سے، ایک شخص ہے جس کے ساتھ اس محلے میں تم آئی ہو۔ اگر اُس کی طرف سے مضبوطی ہے تو ہر وقت ممکن ہے، کوئی اُلجھن بھی نہیں۔

(دن بھر میں شہر کے سرے پر ایک کچا پکا مکان سستے کرائے کو لیا اور غیر محلے کے کہار بلا کےلائے)۔

نوجوان : لے سب ٹھیک ہے۔ مکان وٖغیرہ سب ٹھہرا ہوا ہے۔ ڈولی بھی ساتھ ہی لیتے آئے ہیں، اور جو کوئی مزدور ٹھیلہ درکار ہو، وہ بھی آ سکتا ہے۔

نجبنیا : اس زگڑے کی کیا ضرورت ہے۔ پھیر دو۔ ہماری سنو، اسباب تو ہے نہیں، یہی ایک آدھ گٹھری، پان دان، ہم تم اندھیرے اُجالے لے لیں گے۔ اس گلی سے نکل کے پھر کوئی اواری سواری کر لیں گے۔ کوئی گھر سے نکلتے کانوں کان جانے بھی نہیں۔ وہ آئیں گے ضرور۔ کیا ضرور ہے کوئی جاتے وقت دیکھ لے۔ جہاں تک ہو سکے وہاں تک چھپائے۔

نوجوان : ہاں واللہ، یہ تو ٹھیک کہی۔ لانا چوڑی والا ہاتھ۔ کہاروں کو دو پیسے دے کے رخصت ہوتا ہوں۔ تو اب گیارہ بجے کا وعدہ ٹھہرا۔ مکان میں قف تو دے ہی آئے ہیں۔ یہاں سے نکل کے ڈولی یکہ کر لیں گے۔

نجبنیا : ہاں دیکھو ایک ہی سواری پر لگاتار چلے جانا بھی ٹھیک نہیں۔ جیسے پہلے اکہ کیا، تھوڑی دور چل کے ڈولی کی، جب آگے بڑھے اور کوئی شواری کر لی۔ اشی طرح، نہیں تھوڑی دور پیدل چلے اور اشل کھیر سے گھر میں پہنچ گئے۔

نوجوان : اچھا جو تم کہو گی کیا جائے گا۔ آج ہم اپنے گھر میں ایک دوست کی شادی میں جانے کا بہانہ کریں گے۔ دیر

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 208

سبیر میں پچھلے کو آئیں گے۔

نجبنیا : اچھا وہ تو آئیں گے نہیں، سب کھانے وانے کا بند و بشت کر لیں۔ پھر نچنت ہو کے بیٹھیں۔

(گیارہ بجنے کے بعد)

نجبنیا : اے جی اے جی! سنتے ہو، لے وخت ہے۔

نوجوان : سب تم نکال رکھو اور تم بھی طیار ہو رہو۔

نجبنیا : شب ٹھیک ہے۔ بش تمہارے آنے ہی کی کشر ہے۔ یہاں جھگڑا ہی کیا، نہنگ لاڈلے، درجی کا کیا کوچ کیا مکام۔

نوجوان : (دروازے پر آ کے آہستہ سے) لے کھولو۔

نجبنیا : یہ لو گٹھری بغل میں لیں گے۔ اوپر سے دولائی۔ یہ پاندان تم ہاتھ میں لے لینا۔ یہ لوٹا کٹورا ہے۔ دوشرے ہاتھ میں، بس نکل چلو۔ ارے یہ بچھونے کی دری رہ گئی۔

نوجوان : اجی اس کی کیا فکر، کاندھے پر ڈال لیں گے۔ لے بسم اللہ کرو۔

(راستے میں)

نوجوان : ارے میاں اکہ والے ہوت! کرایہ کرو گے؟ کے پیسے لو گے؟

اکہ والا : جائے گا کہاں؟

نوجوان : ارماں وہیں تک؛ وہ جو اکبری ہے نہیں، وہیں پر اُتار دینا، دو سواریاں ہیں۔

اکہ والا : کچھ اسباب بھی ہے؟

نوجوان : ارماں اسباب کیا، یہی پاندان

اکہ والا : دو آنے دیجیے گا؟

(سوار ہو کے اکبری دروازے پہنچتے ہیں)

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 209

نوجوان : (کہاروں کے اڈے پر پہنچ کے) ارے بھئی مہر اکوئی ڈولی ہے؟

مہرا : ہاں حجور۔ کہاں سواری پہنچانا ہو گی؟

نوجوان : ارماں یہیں نواز گنج تک۔ جلدی بولو، کیا لو گے؟

مہرا : چھ پیسے دینا پڑیں گے۔ کہاں سواری اُترے گی؟ ابھی تو ہوا کی طرح پہنچاتے ہیں۔

نوجوان : اچھا لے آؤ جھٹ پٹ ڈولی۔ یہ دولائی اوپر ڈال دینا۔

(ڈولی نواز گنج پہنچتی ہے)

نوجوان : لے بس یہیں اُتار دو۔ یہ تو مکان ہے۔ اب پیدل چلے جائیں گے، یہ چھ پیسے اپنےلو۔

(دونوں پیدل جاتے ہیں)

کانسٹبل : بھلا جوان بھلا۔ ارے کو جات ہے؟

نوجوان : ہم ہیں۔ مجلس میں جاتے ہیں۔ ماتم کر کے چلے آئیں گے۔

کانسٹبل : اور یو ہاتھ میں کاہے؟

نوجوان : ہے کیا، پاندان ہے، دیکھ لو۔

کانسٹبل : لے اتنی بریا میاں لوگ نکست ہو۔ بیگموں صاحب ساتھ۔ تھانے پر جائی چاہے۔ حکم نکلنے کا کوؤ کا نہیں۔

نوجوان : ارماں اپنا کام کرو۔ کیوں راستہ کھوٹا کرتے ہو۔ وہاں ماتم ہو چکے گا۔ ان سے لاکھ کہتے رہے سویرے چلو، اسی مارے کہا ہے عورتوں کا جھگڑا واہیات ہے۔

(دوانی نکال کے چپکے سے ہاتھ پر دھری)

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 210

نجبنیا : (آگے بڑھ کے) میری تو زان نکل گئی۔ واللہ خوب چقمہ دیا۔ میری تو گھگی بندھ جاتی۔ اچھا ہوا تم ساتھ تھے۔

نوجوان : اب پہنچ گئے۔ وہ دیکھو نکڑ کے وہاں مکان بھی ہے۔
--------------------------------------------------------------
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
صفحہ321


(ہنس کے) ٹھیکری سب ہی کی دشمن ہے۔

منے صاحب: (مسکرا کے) واللہ آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ ارے میاں اس وقت تو نوک جھونک سے باز رہو۔ یہاں تو آبرو پر بنی ہے، آپ کو ضلع جگت کی سوجھی ہے۔

شیخ صاحب: حضرت یہ عمر ہی آپ کی ایسی ہے، آپ کیا کریں۔ یہ اوباشوں کی صحبت، کوٹھوں پر جانا، کیا بالا ہی بالا جائے گا۔ بقول حافظ کہ:

عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکل ھا

منے صاحب: جی ہاں، ہمارا تو وہی حال ہے جو عرفی نے ایک قصیدہ میں کہا ہے:

دلم چو رنگ زلیخا شکستہ در خلوت

غمم چو تہمت یوسف و دیدہ در بازار

شیخ صاحب: بس جائیے، گھر میں جا کے مزے کیجیے۔ ہر چہ بادا باد۔ وقت پر دیکھا جائے گا۔ رخصت۔


عدالت اور مقدمہ، اظہار منے صاحب

منے صاحب: حضور مجھے کچھ نہیں معلوم۔ سنتا ہوں چوری ہوئی تھی۔ گھر کی سب چیزیں گئی تھیں۔ ہاں میں نے کچھ چیزیں نجبنیا کے پاس کمرے پر دیکھی تھیں۔ جیسے پان دان، گھر کا لوٹا، بالیاں، پتے، چھڑے، پہونچیاں۔ میں کبھی کبھی اس کے کمرے پر رنڈی سمجھ کے جاتا تھا۔ واللہ جو اصلاً مجھے خبر ہو کہ یہ وہی ہے جو ہمارے یہاں رہتی تھی، پھر بھاگ گئی تھی۔ مجھ سے اس سے آشنائی نہ تھی۔ لا حول ولا قوۃ۔ ہمارے ھر میں تو لونڈی کی طرح خدمت میں رہتی تھی۔


صفحہ322

ننے مرزا: حضور خدا کی قسم، میں نہیں بھگا لایا، بلکہ یہ خود آ کے کمرے پر بیٹھیں۔ میں روپے پیسے ان سے نہیں لیتا تھا بلکہ کئی سو روپیہ اپنے پاس سے خرچ کیا۔ یہ پڑوس کے گھر میں رہتی تھیں۔ میں نے ان کو ایک دفعہ دیکھا تھا، دیوار سے یہ جھانکتی تھیں۔

کریم: حضور یہ میرے نکاح میں تھیں۔ اور باتوں کا جواب بارسٹر صاحب سے پوچھ لوں تو دوں۔ مجھے کچھ نہیں معلوم۔ خدا جانے اُلٹی پڑے سیدھی پڑے۔ حاکم کا اجلاس ٹھہرا، منے مرزا سے نہیں ہے۔ (رو کے) حضور میں باز آیا۔ عدالت چھوڑ دیں، حضور کا نام بڑا ہو گا۔ یہ جو نالش منے مرزا پر کی تھی، بارسٹر صاحب کے کہنے سے کی تھی۔ اُنہوں نے بہت سمجھایا، میری سمجھ میں اُس وقت یہی آیا۔ میں کہتا ہوں کم بختی مجھ پر سوار تھی۔ اب میں خود ہی صاف صاف حضور سے سب حال کہتا ہوں، رتی بھر نہ چھپاؤں گا۔ حضور مجھے چھوڑ دیں، بال بچوں کو عمر بھر دعا دوں گا۔ شہید کربلا کے لہو کی قسم، میں اُس چوری میں شریک نہ تھا۔ اور لوگ دیبی، رمضان، کریم وغیرہ سب شریک تھے۔ ان نیک بخت نے کوٹھے کی کنڈی کھول دی تھی۔ سب چیزوں کا پتہ دیا تھا۔ کئی دن کی صلاح میں چوری ہوئی تھی۔ پھر ان کو حصہ کیا نہں دیا؟ برتن، زیور، اسباب ان کو ملا۔ ہاں پان سو روپیہ اپنے حصے کی بابت مجھ کو لا کلام ملا، اُس سے مجھ کو انکار نہیں۔


صفحہ323

(نجبنیا، جس کا اسباب حاضر عدالت تھا)

نجبنیا: ہاں یہ اسباب میرا ہے۔ مجھے انہیں لوگوں نے دیا۔ میں نہیں جانتی بیگم صاحب کا ہے یا کسی اور کا۔ میں بازار تو لینے گئی نہیں؛ میں ان کو جانتی ہوں، یہ بھی اسی سرکار میں نوکر تھے۔ اسی مارے تو ان کو منہ بولا بھائی بنایا تھا۔ پھر میں ان کی صلاح سے چلی آئی اور اپنی خوشی سے کچھ دنوں بعد نخاس میں کمرہ لیا۔ ایک بالی سونے کی ننھے مرزا کی معرفت بکوا کے خرچ کی، اور ایک جڑاؤ بالی انہوں نے بیچی۔ پھر بارسٹر صاحب کی نوکر ہو گئی۔ پھر یہ جھوٹا مقدمہ نکاح کا دائرہ ہو گیا۔ ننھے مرزا بے چارے کا میں کیوں صبرسمیٹوں۔ منے صاحب میرے یہاں ایک دفعہ آئے تھے۔ مجھے ان سے کوئی واسطہ نہ تھا، رنڈی سمجھ کے آئے تھے۔ امیر اُمرا کے لڑکے کمروں پر آیا جایا کرتے ہی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم اور لوگ جو چوری میں شریک تھے، کہاں ہیں۔ ایک دفعہ بارسٹر صاحب نے منع کیا تھا، کوئی اور آیا نہ کرے۔ وہ ان کا پروتی سائیس ہمارے یہاں آتا جاتا تھا۔

فیصلہ

اظہار گواہان سرکار اور خود کریم اور نجبنیا سے اقبال جرم کا پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ کوئی باضابطہ دعویٰ کسی شخص کی طرف سے نہیں ہے۔ اور جس کے یہاں جرم سرقہ ان لوگوں نے کیا، وہ کسی سبب سے دعوے دار نہیں ہے، مگر مسمی کریم اور نجبین اقبال کرتے ہیں کہ چوری کی۔ لہٰذا عدالت کی رائے میں اُن سے پانچ پانچ سو کی ضمانت لینا چاہیے۔ جو یہ پیش نہیں کر سکتے، پس اُس وقت تک یہ دوںوں حوالات


صفحہ324


میں رہیں۔ اور در صورت نہ پیش ہونے ضمانت مذکور کے بعد ایک ہفتے کے سزائے قید با مشقت کی میعادی ایک سال کے مستوجب ہوں۔

جیل خانہ

ننھے مرزا: (نجبنیا سے مل کے) کیا کہیں، اس نالائق کریم نے تمہارے ساتھ وہ کیا ہے کہ دشمن سے دشمن بھی نہ کرے گا۔ وہ تو کہو مجھے بھی لے مرا تھا، خدا نے فضل کیا۔ لے بھلا پوچھو، میں کسی امر میں شریک نہیں۔ صرف تمہارے لگاؤ سے یہ کسر نکالی۔ مگر نہیں ایک بات اور ہے۔ یہ سارا بس بویا ہمارے صاحب بہادر کا ہے۔ سنا ہے، حاکم نے اُن پر بھی غضبی کی ہے، کیا کہیں، جس وقت حکم سنایا ہے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ مجھے تو واللہ غش آ گیا۔ کٹہرا پکڑ نہ لوں تو زمین پردھڑ سے آ رہوں۔ اگر آج میرے واسطے پھانسی کا حکم دیا تو جناب امیر کی قسم اتنا رنج نہ ہوتا۔

نجبنیا: (آہ سرد بھر کر) کیا کہیں، قسمت کا لکھا۔ یہ جو کچھ بھی کرایا، اسی بخشو نے۔ میں نے تو ٹھان لی ہے، اب کبھی جیل خانے میں سامنا ہوتا ہے تو لاکھوں کوسنے دیتی ہوں۔ موا، خدائی خدائی خوار؛ حضرت عباس کا کیا اس سے بڑھ علم ٹوٹے گا؟ بھیج دیے گئے نا جیل خانہ کو خدا نے چاہا کیڑے پڑ کے نکلے گا۔ کم بخت آپ ڈوبا، دوسروں کی بھی دنیا خراب کی۔

ننھے مرزا: اجی تم کیوں پریشان ہوتی ہو۔ کوئی بات نہیں، یوں چٹکی بجاتے دن کٹ جاتے ہیں۔ مگر واللہ جس وقت آٹا پیسنے، سن کھولنے کا خیال آتا ہے۔ جگر پر برچھیاں پڑتی


صفحہ325


ہیں برچھیاں۔ واللہ اُس دن سے جو میں کسی بات ہر ہنسا ہوں۔ ہر وقت تمہاری طرف ہی دھیان رہتا ہے۔ اور سچ پوچھو تو میری زندگی تمہیں تک تھی۔ کئی دفعہ کچھ کھا کے سو رہنے کو جی چاہا؛ پھر خیال کرتا ہوں، جیل خانے میں جا کے تمہاری خیر صلاح لانے والا کوئی نہیں۔ کچھ گھبراؤ نہیں، یہ مصیبت کے دن چٹکی بجاتے کٹ جائیں گے۔

نجبینا: ہاں، جب سر پر پڑی ہے تو اٹھانا چاہیے۔ یہ تو کہو بخشو کے کارن یہ سب کچھ ہوا۔ ہاں یہ تو بتاؤ وہ کمرہ پھر ہم کو ملے گا؟ اور ہمارا زیور کہاں گیا؟ ہاتھ گلے کا تو یہاں موئے داروغے نے چھین لیا اور کچھ سپاہی لوگ لے گئے۔ جب خدا وہ دن کرے گا، لوگ کہتے ہیں، یہ سب تم کو دے دیں گے، رتی بھر چیز نہیں جائے گی۔ اگر ان لوگوں نے پہن پہن کے میلا کیا اور توڑ پھوڑ تو ہائے میرا زیور تو کسی کام کا نہ رہا۔ لے اب جاتے جاتے کہاں اتنا روپیہ آئے گا۔

ننھے مرزا: اجی تم دل چھوٹا نہ کرو۔ ان باتوں سے واللہ مجھ کو رونا آتا ہے۔ اجی جن خدا حسین کے صدقے میں اس عذاب سے جان بچائے گا، کیا اس کا سامان نہ کر دے گا۔ پہلے اپنی لاکھ روپے کی جان تو بچے۔

نجبینا: وہ وقت گذر گیا۔ اب جو کچھ خدا کو منظور ہے ہو گا۔ ہائے مجھے کیا کیا آرزو تھی اور کون کون جتن میں نے سوچے تھے۔ آج تک تو خدا نے میری سب سنی، جو مانگا دیا۔ خاک چاٹ کے کہتی ہوں، اس درجے تک پہنچایا۔ تم سمجھو خدا نے وہ بات مجھے آج دی تھی کہ بڑے سے بڑے


صفحہ326


آبرو دار عزت دار قدموں کے نیچے سری ٹیک کرتے تھے۔ اور جو اگر ہنس کے بلا لیا تو معراج سمجھتے تھے۔ اب تم سمجھو، دنیا میں یہی جینے کا مزا ہے۔ خدا نے اس نا چیز بندی کے واسطے کوئی چیز کی کمی نہیں رکھی ہے۔ ہمیشہ اپنی خوشی رہی۔ جو چاہا کھایا پیا، کسی کا نوکر تابعدار نہیں بنایا۔ صاحب آئے وہاں سے ہم پر حکومت کرنے۔

ننھے مرزا: میں نے تو جی میں کہا تھا، اگر ایسا ہی قرق بٹھانا ہے تو صاحب اپنا انتظام کرو، گھر لے جاؤ، کسی سے کیوں ملنے دو۔ اور صاحب یہ تو بازار کے کمرے کی بات ہے۔ ہزار آئیں گے، ہزار جائیں گے۔ جو تم کو ایسا ہی خیال ہے، بڑے آبرو دار بنے ہو تو کیوں یہ کرو۔ تم سمجھو بی نجم النسا! آدمی کی جو کچھ عزت آبروئی ہوتی ہے، نفع ہوتا ہے، سب اپنے گنوں سے۔ یہ کیا؟ کام تو کرو گے تماش بینوں کے اور بنو گے آبرودار۔ یہ مانا، چھپے چورئ ایک دو دفعہ ہو گیا، بھلا عیاشی، تماش بینی کلھیا کا گڑ نہیں ہے۔ وہ اور مرد ہوتے ہیں جو ادنیٰ ادنیٰ نچنیوں پر لاکھوں نچھاور کر دیتے ہیں اور تیور پر بل نہیں۔ اس کے لیے بڑا دل چاہیے۔

نجبنیا: بھلا یہ تو گڑھیا میں منہ دھو ڈالیں- ایسی میری کیا کھاٹ کٹی تھی جو اُن کی بندہ بندی اُٹھاتی۔ یہ تابعداری کرے پیزار کی نوک۔ یوں اپنا منہ سوندھا کرنے کو جو چاہیں کر لیں۔ میری ایسی ہی میت ہوتی تو آج جس کا جی چاہتا ہاتھ پکڑ لیتی۔ ایسی گھٹیا نیت تو کبھی ہوئی نہیں۔ لے نہیں دیکھو، بیسیوں آدمی منہ پھیلائے ہوئے ہیں۔ دروغہ بھہ ہنس ہنس کے باتیں کرتے ہیں۔ میں کہتی ہوں ان لوگوں کو ہوا کیا ہے۔ سب کو میں نے ڈانٹ دیا،


صفحہ327


خبردار ہم سے ایسے کوئی بات کی آرزو نہ رکھنا۔ یوں کہنے کو تو ہم ٹکے کے آدمی ہیں تمہارے سامنے۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ۔ تہاری بھی یہ مجال بری آنکھ ڈالو۔ کئی ایک بہنیں یہاں مجھے سمجھانے بجھانے لگیں۔ میں نے یہ کہا یہ کرتب تمھیں کو مبارک رہیں۔ کیا کوئی خدا ہے۔ یہی نہ محنت مشقت زیادہ دیں گے؛ پھر اوکھلی میں سر دیا تو چوٹوں کا کیا ڈر۔ اب تو مصیبت پڑی ہے، جھیلیں گے۔ اور یہ دن بھی کٹ جائیں گے؛ بڑے بڑے بادشاہ امیر تو بچے نہیں، ہم ادنیٰ سے اُس کے بندے ہیں۔ ہماری بادشاہت چھین لی اُس کی مرضی۔ خدا پھر راضی ہو گا، پھر وہی مزے ہیں۔ ہاں یہ تو بتاؤ، کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ پھر کسی حاکم کے یہاں عرضی دیں؟

ننھے مرزا: ہاں ایک آدھ دوست نے تو مجھ کو نڈھال دیکھ کے ڈھارس دی تھی، اجی اپیل کر کے چھڑا لاؤ۔ میں بھی کئی ایک مشہور وکیلوں کے یہاں اپنے وکیل کے ساتھ گیا۔ بڑے ڈبلو آختہ لوگ ہیں، بڑی بڑی کوٹھیاں اُن کی ہیں، لاکھوں کا خرچ ہے۔ سرکار میں بھی بڑی بات ہے مگر، سب نے کہا لکھنے کو تو لکھ دیں مگر چلے گی نہیں۔ اور ہمارے وکیل صاحب بھی کہتے تھے، تمہارے اور بخشو کے اظہار برے ہوئے۔ اسی سے پھنس گئیں۔

نجبینا: پھر میں بخشو کی باتوں پر جل کے یہ نہ کہتی تو کیا کہتی؟ ننھے مرزا! قسم حضرت عباس کی اُس کو دیکھتے میرے بدن میں آگ لگتی ہے۔ کیا کہوں، کئی دفعہ جی چاہا، وہیں بھری کچہری میں منہ نوچ لوں، دانت سے ناک کاٹ لوں۔ خوب ہی جی کھول کے کوسنے دیے میں نے۔ دل کی ہوس


صفحہ328


نہ رہی۔ میں نے کہا باشد، کچھ بھی ہو، اس کو سزا تو دے لوں، یہ بھی کیا یاد کرے گا۔ اور صاحب بڑے خوش مزاج آدمی معلوم دیتے تھے۔ ہنس ہنس کے پوچھتے جاتے تھے۔ میں سیدھے سبھاؤ کی آدمی، مجھے خیال ہی نہیں آیا، میرے حق میں یہ کانٹے بوئے جاتے ہیں۔ بلکہ ایک دفعہ حاکم کا اردلی آیا تھا، کہا صاحب تم سے بہت خوش ہیں۔ ہم کو حکم دیا ہے،کچہری سے کوئی دن بنگلے پر لاؤ اور سب ان کا حال دریافت کرو۔ کون ہیں؟ کہاں سے آئی ہیں؟ انہوں نے کرید کرید کے سب باتیں پوچھ لیں۔ جی تو کہتا تھا، سنبھل کے بات چیت کرو مگر پھر میں نے کہا یہی موقع ہے۔ اگر حاکم مہربان ہو گیا تو بخشو کو کالا پانی کرا کے چھوڑوں گی۔

ننھے مرزا: اور کیوں یہ بات سچ ہے منے صاحب کی جو تم نے کہی تھی؟

نجبینا: یہ کب؟ مجھے یاد نہیں۔

ننھے مرزا: اجی وہی پہلے دن جو تم نے جواب لکھایا ہے۔ وکیل کہتے تھے وہ بہت اچھا تھا۔ جو جو ہم نے بتایا تھا، اُسی کے موافق کہا گیا۔ اگر وہی اظہار ہوتا تو مقدمہ جیتا ہوتا۔

نجبینا: وہ تو میں نے کہہ ہی دیا تھا مگر پھر مجھے کسی کا صبر سمیٹنے کو جی نہ چاہا۔ اصل بات تو یہ تھی نہیں، میرے منہ سے نہ نکلی۔ بار بار زبان تک آئی تھی مگر کہہ نہ سکی، جیسے کسی نے منہ کیل دیا۔

ننھے مرزا: میں تو پھر یہی کہتا ہوں۔ یہ جو سارا بس بویا ہے، اسی کریم نے۔ بچا ابھی تو جیل خانے میں ہے۔ نکلنے کے بعد


صفحہ329


یار لوگ دکھائیں گے۔ جاتے کہاں ہیں؛ وہ بھی اسی شہر میں، ہم بھی اسی شہر میں، نہ اس کا مزہ چکھا دیا ہو تو ننھے مرزا نام نہیں۔ اچھے گھر بینا (بیعانہ) دیا۔ اُونٹ جب پہاڑ کے تلے آتا ہے، اس کو معلوم ہوتا ہے۔ مجھ سے بھی کوئی اُونچا ہے۔

نجبینا: ہاں پھر یہ تو ہونی ہی بدی ہے۔ آخر کب تک پتوں کی آڑ میں بکری چھپے گی۔ ایک دن بازار میں سامنا ہونا ہی ہے۔ چور ڈھور کا مزہ مل جاوے گا۔ ابھی تو ہم صبر کیے بیٹھے ہیں۔ خدا اس چپ کی داد دے گا۔ اُس کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی۔

ننھے مرزا: پھر نکل کے، جو خدا وہ دن لائے گا، رت جگا کرنا۔ میں تو بیسیوں مجلسیں کراتا ہوں اور ماتم تو ایسا ہوتا ہے کہ باید شاید۔ تمہارے واسطے سچ جاننا جان لڑا دی، پھر خدا کی مرضی میں کیا اختیار۔

نجبینا: مرزا تم اپنے دل پر میل نہ لاؤ، دل مضبوط رکھو۔ دیکھو تو ہرچہ بادا باد۔ تم مرد ہو کے ایسا چھوٹا دل رکھتے ہو۔ واللہ جو تم نے رنج کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں، ارے دنیا میں اسی لیے پیدا ہوئے ہیں۔ سمجھ دار ہو کے یہ نا سمجھی کی باتیں کرنے ہمت کم ہوتی ہے۔ پھر بھلا کم ہمت آدمی دنیا میں کیا کام کرے گا! نہیں، ہر حال میں خوش بشاش۔ ارے سب کچھ ہوا، خدا تو ہمارا کہیں نہیں گیا، بس اُسی پر تکیہ رکھو۔ جو بگاڑے گا، وہی بنائے گا۔ یہ بھی دنیا کی بات ہے۔ جس کو خدا عروج دیتا ہے، اُسی کو گراتا ہے۔ موئی پاؤں کی چیونٹی کیا اُونچے سے گرے گی۔


صفحہ330


ننھے مرزا: اچھا لے اب بتاؤ؛ اب کی دفعہ جو آئیں، تمہارے واسطے کیا لیتے آئیں؟

نجبینا: نہیں، کچھ تکلیف اُٹھانے کی ضرورت نہیں۔ خدا معلوم کس مصیبت میں تمہارا آپ دن رات کٹتا ہو گا۔ یہاں دینے دلانے کے لیے ہو سکے، دو ایک دوانیاں لیتے آنا۔ تم سمجھو، سپاہی اپاہی انعام کے لیے منہ کھولے رہتے ہیں۔

ننھے مرزا: اچھا تو یہ تین دوائیاں میرے پاس تھیں۔ سو، ایک دوانی سپاہی کو دی، باقی یہ ہیں۔ میں ایک دوست سے قرض لایا تھا۔ اچھا لے اب چپراسی جلدی کرتا ہے، جاتے ہیں، خدا کے سپرد کرتے ہیں۔ پھر اللہ نے چاہا اگلے اتوار کو پھر آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رخصت۔
 

محمد عمر

لائبریرین
301

صاحب : ول، رپٹ تھانہ میں کیا؟

نجبنیا : جی حضور کون کرتا، گھر میں کوئی مرد ذات تھا نہیں۔

صاحب : ول، تمہارا گھر کا آدمی کہاں ہے؟

نجبنیا: جی حضور کوئی بھی نہیں۔

صاحب: ول تو تم رنڈی ہے رنڈی؟

نجبنیا: جی ہاں، جو حضور سمجھیں۔

صاحب : ول اچھا، تم کو پھر عدالت بولائے گا، تم کو آنا ہو گا۔

نجبنیا: جی حضور، سر آنکھوں سے، جب آپ یاد کیجیے۔ آدھی رات کو یاد کیجیے گا، حاضر ہے۔ عدالت کا حکم عدول ہو سکتا ہے؟

302

اٹھارھواں باب

شیخ صاحب : (صاحب خانہ سے رُکھائی کے ساتھ) خداوند نعمت! آپ کا حکم پہنچا تھا، میں نے کہا تعمیل کرنا چاہیے۔ اگرچہ اُس وقت تپ اور درد سر میں زیادہ مبتلا تھا۔ لالہ صاحب کے یہاں ابھی تازہ ملازمت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا برسوں کے کاغذ پڑے ہیں، ٹھیک کر دو۔ کیا عرض کروں، محض اس خیال سے گوارا کر لیا کہ ایک تو اس سرکار کی بدولت لالہ صاحب سے برسوں سے ہر طرح کی ملاقات ہے۔ بخدا اگر دوسری جگہ جاؤں اور سو روپے تنخواہ ہوں تو گوارا نہیں۔ پھر اس بات کو سوچتا ہوں کہ اسی سرکار کے معاملات لالہ صاحب کے ساتھ ہیں اور بہت سے میرے اپنے ہاتھوں کے، تمام امور طرفین کے، جیسے حساب کتاب کے، جائداد، وغیرہ کچہری کے کاغذات جو اس غلام کے سمجھے ہیں، کوئی دوسرا اس سے واقف نہیں ہو سکتا۔ گو کہ کاغذ میں سب موجود ہے، مگر ایک کاغذوں سے دیکھا ہوا حال اور دوسرا اپنے ہاتھ سے کیے ہوئے معاملے میں بڑا فرق ہے۔ نہیں تو حضور کے اقبال سے باہر دوست احباب کے اکثر خط آتے ہیں اور بیش قرار تنخواہ مقرر کرتے ہیں۔ حضور کی مرضی بھی تھی، کسی بات کا چھپانا قدیمانہ نمک خواری کے خلاف ہے۔ خلاصہ یہ کہ روبکاری کے دن فدوی حاضر تھا۔ کریم بخش اور مسماۃ کے اظہار سب سنے۔ اگرچہ کچہری کا

303

عملہ کہتا تھا، تم کو اس مقدمے کیا واسطہ؟ یہاں سے چلے جانا مناسب ہے۔ مگر میں نے کہا، کام اپنا نکال لینا چاہیے۔ کچہری کے کتے تو آپ جانتے ہیں، کچھ ان کو جب دے دلا کے راضی کیا، تو انہوں نے ٹھہرنے دیا۔ کریم بخش کے اظہار سے معلوم ہوا، وہ بھی اس چوری میں شامل تھا۔ اچھا ہوا، مشتبہ آدمی بر طرف کیا گیا۔ بڑی نمک حرامی کی بات ہے۔ میرے نزدیک اب ضرورت عامل کے پاس جانے آنے کی نہیں۔ اگرچہ اُنہوں نے پتے سب ٹھیک دیے اور کہا تھا، کسی وقت تم آؤ، میں جفر کے زور سے اس کا نام بھی نکال دوں؛ تو اب معلوم ہو گیا، خود اُس کی جورو نے اظہار دیا۔

صاحب خانہ : یہاں تک نوبت پہنچی؟

شیخ صاحب : جی حضور، نوبت کیا معنی، اس نے نالش کی اور خود ہی اُس کے یہاں چوری کی۔

صاحب خانہ : نہیں معلوم آپ کیا کہتے ہیں، میری سمجھ میں نہیں آتا۔

شیخ صاحب : حضور اس مقدمے میں ایک رنڈی پیشہ ور مدعا علیہا ہے۔ کہتی ہے، میں علانیہ پیش کرتی ہوں۔ اور حضور کیا عرض کروں، ادب مانع ہے، یہ منے صاحب ہیں نہیں، ان سے کچھ واسطہ بتاتی ہے۔ اس کا بیان ہے، میں ان کے یہاں رہتی تھی، بیگم صاحب نے اُس کو نکال دیا۔ کریم بخش درمیانی تھا، نام بھلا سا بتاتی ہے اور سارا حلیہ کہتی ہے۔ خدا جانے، اُس کا دین ایمان۔ مگر تا نباشد چیز کے مردم نگوید چیزھا۔ آج کل صحبت بھی اچھی نہیں۔ زمانے کا یہی رنگ ہے، اب اس میں کیا ضرور قدغن ۔

304

صاحب خانہ : بھئی میرے تو حواس گئے۔

شیخ صاحب : اجی حضرت تردد کی کون بات، بلکہ کہیے مقدمے سے سرقے کا سراغ لگتا ہے۔ اب سب مال مل جائے گا۔ اچھا ہوا عامل صاحب کو مال دینا نہ پڑا۔ مگر ایک بات ہے، یہ سب مقدمہ سمجھا ہوا ایک بارسٹر صاحب کا ہے۔ چنانچہ میں نے اُنہیں کے ذریعے سے پانچ سو کے محنتانے پر سوال دے دیا، اپنے یہاں کے مال کا دعویٰ کیا۔ مگر بات ایسی آ پڑی کہ خاموشی مناسب معلوم ہوئی۔

صاحب خانہ : ہاں واللہ یہ تو اچھی بات تھی۔

شیخ صاحب : حضت بات یہ ہے کہ اس دن کی کارروائی بالکل مضر تھی۔ پولیس نے اُس مقدمۂ سرقہ میں لکھ دیا تھا، سب مال گھر ہی میں مل گیا، ہم کو کسی پر شبہ نہیں۔ وہی رپورٹ تھانے والوں نے کی۔ اب اگر دعویٰ مال مسروقہ کا کیا جاتا ہے تو اُلٹا مقدمہ قائم ہوتا ہے۔ اخفائے واردات تو بڑا جرم ہے۔ وہ تو کہیے بارسٹر صاحب نے بڑی کوشش کی، مگر عدالت نے اس بنا پر ہمارا دعویٰ خارج کر دیا کہ کوئی ثبوت نہیں، اور اس خطا پر کہ عدالت کو بے فائدہ تکلیف دی گئی، ایک ہزار روپیہ جرمانہ کیے۔ وہ تو کہیے اُسی وقت غلام جیل خانے جاتا مگر بارسٹر صاحب بڑے اشراف آدمی ہیں، انہوں نے اپنی ضمانت پر چھڑا کے مجھ سے کہا، آپ تو لمبے ہو جائیے اور چار بجتے بجتے زر جرمانہ داخل کیجیے۔ میں یہاں کا حال جانتا تھا۔ لالہ صاحب بے رقعہ کے اب دیں گے نہیں۔ انہوں نے کہا تھا کوئی جائیداد پاک نہیں، سب ہمارے مطالبے میں مکفول ہے۔ بلکہ اس پر دو تین دفعہ کو تلى دستاویزیں ہو گئیں، اب رتی بھر کسر نہیں۔ سمجھ بوجھ کے

305

روپیہ دیا جاوے گا۔ پس گھر آیا، جو کچھ اسباب زیور اثاثہ تھا، سب رہن رکھ دیا۔ واللہ پانی پینے کو کٹورا باقی نہیں۔ میں نے کہا، اپنی پرانی سرکار میں کہہ آؤں، وہ تو دینا ہی ہے۔

صاحب خانہ : اچھا بھئی دیکھو کچھ فکر کرتا ہوں۔ واللہ میں تو اس مقدمے میں بہت ہی زیر بار ہوا۔ افسوس ہے آپ ایسے کار گزار اہل کار مجھ جدا ہو گئے۔ مرزا صاحب گھر میں بیمار پڑے ہیں۔ جو جو آدمی میرے آرام کے تھے، ایک ایک کر کے سب برطرف ہو گئے۔

صاحب خانہ اور بیگم صاحب

صاحب خانہ : بیگم ایک بات کہنا ہے۔ اس وقت ایک بڑی ضرورت ہے۔ شیخ صاحب آئے ہیں اور کسی طرح فکر نہ ہو سکی۔ یہاں کچھ نہیں۔ مہاجن نے بھی جواب دے دیا۔ واللہ لالہ صاحب سے مجھے امید نہ تھی۔ ہمارے اُن کے معاملہ برسوں سے چلا آتا تھا، رتی بھر کا بل نہیں پڑا۔ سود جو انہوں نے مانگا ہم نے آنہ پائی سے مجرا دیا۔ کہتے تھے لاکھ روپیہ تک دینے کو حاضر ہوں۔ چوک کی دکانیں رھن ہو گئیں، قبضہ ہو گیا۔ گھر کا اسباب تھا، ضرورت کے وقت انہیں کے یہاں رھن ہوا۔ دیکھو تمہارے پاس کوئی شے ہو، اس وقت نکالو، آگے کہیں سے بندوبست کر دیا جاوے گا۔ سر دست کام تو نکلے۔

بیگم : تو اب اتنا بھی نہیں جو اس وقت اڑی پر کام آئے۔ میرے پاس بھی کچھ نہیں، نہیں کون بڑی بات تھی۔ ایک ایک کر کے جب ضرورت پڑی، گروی سے کام نکالا۔ اُس دن میں نے

306

ایک ضرورت سے دیکھا, زیور کا صندوق غائب۔ میں نے کہا کہیں اسباب میں دب گیا ہو گا، کسی وقت تلاش کروں گی۔ تب سے ہاتھوں کے طوطے اڑے ہوئے ہیں۔ اسی بات پر مغلانی سے حجت ہوئی، برطرف کیا۔ اور جو زیور اسباب تھا، جوڑے تھے، علم تھے، پٹکے تھے سب چوروں کے کٹے لگا۔ جو بچا کھچا، اُسی دن سے غایب ہے جس دن سے نجبنیا گئی۔ اب جو پوچھتی ہوں سب اُسی کا نام لیتے ہیں۔

صاحب خانہ : (غصے میں) آپ کو معلوم بھی ہے؟ وہ کمرہ لے کے آپ کے صاحب زادے کی بدولت رنڑی ہو گئی، کماتی ہے۔ اُسی سے تو سب معلوم ہوا۔

بیگم : لے بس سب کچھ منے صاحب کا صبر نہ سمیٹو۔ ابھی کل کا بچہ منہ سے دودھ کی بو تک گئی نہیں۔

صاحب خانہ : اجی بچہ ہے کہ درجنوں بچے جنا کر رکھ دے گا۔ وہ شہدا ہو گیا ہے۔ اُس کی صحبت میں لوگ تمام دنیا کے چھٹے ہوئے بھرے رہتے ہیں۔

بیگم : تمہیں نے خراب کیا۔ میں تو گھر کی بیٹھنے والی، میں ان باتوں کو کیا جانوں۔ اُوئی یہ بھی اُس پر طوفان۔

صاحب خانہ : بس کیوں بکتی ہو واہیات میرے سامنے۔ تمہاری نالائقی نے لاکھ کا گھر خاک کیا۔ مجھے بھی بھیک مانگنے کے لائق کر دیا۔ میں تو واللہ بعض وقت چاہتا ہوں کسی طرف منہ کالا کروں۔

بیگم : یہ ہم نے کیا یا تم نے؟ لو صاحب اپنی بلا ہمارے سر۔ اچھا میں نے گھر خاک کر دیا تو کوئی سلیقہ وند لائے ہوتے۔ یہاں تو جان خاک میں ملا دی اور کچھ بھاویں

307

نہیں۔ یہ اپنے تم جانو، تمہارا کام جانے۔ کیا خرچ کرتی ہوں؟ صاحب دعوتیں ہیں، جلسے ہیں، یہ کون کرتا ہے؟ مجھے کیا، دو پھلکے کھانے والی۔

صاحب خانہ : اچھا پھر دو ہی پیسے میں بسر کرو۔ یہ جھگڑا آئے دن کا اُٹھ نہیں سکتا۔ اب سنبھل کر چلو۔ اب بھی کچھ نہیں گیا۔ تمہاری سمجھ میں کوئی بات آتی نہیں۔

بیگم : خوب سمجھتے ہیں۔ اب کیا ایسے احمق ٹھہرے۔ تمہاری چتون آج بہت دن بدل ہوئی ہے؟ ہنس دلی سے بات ہی نہیں کرتے۔ میاں جو کچھ منظور ہو صاف صاف کہہ دو۔

صاحب خانہ : اچھا تو اس خود رائی سے صاحب میرے ساتھ پسر نہ ہو سکتی، آپ جائیے اپنے میکے۔ تم کو بڑا غرور اپنے چھبیس روپے کے وثیقے پر، بس۔

بیگم : کیا تمہارا دیا ہوا ہے؟ جو آج چھبیس روپے ہوتے، گھر میں فاقہ تھا، حساب تو کرو، آج کے مہینے ہوئے ہیں، تم نے کوئی کوڑی دی ہے؟ نہ معلوم قرض دام سے کیوں کر بسر کرتی ہوں۔ جناب امیر کی قسم بال بال قرضے میں بندہی ہوئی ہوں۔ بزار میں آدمی کا نکالنا دشوار ہے۔ اور الٹے آئے ہیں ہم سے مانگنے۔ آج اگر ہزار ہوتا تو میں بازار ہی کا دیتی۔

صاحب خانہ : ہاں تو یہ کہے۔ یہ اور دھونس ہے۔ آپ نے بازار کا قرضہ بھی کر رکھا!

بیگم : لو صاحب زندہ جان، اُس کا خرچ ہی نہیں۔ ساڑھے چار سو تو بزاز کے ہو گئے۔ آج دو مہینے سے پلنگ کی چادریں نہیں ہیں، بزاز مارکین نہیں دیتا۔ ڈیڑھ سو روپیہ بنیے کا ہو گیا، پچھتر گھی والے کے، پچاس گوشت والے کے۔ چاول، زعفران

308

وغیرہ، پھٹکل کے لالہ جگ موہن مار واڑی کے کوئی پونے دو سو کا حساب ہو گا۔ کس کو کس کو کہوں۔ کبڑن کے پھلیوں، آموں، خربوزوں کے دام کوئی تین بیسی بتاتی ہے۔ لے کچھ نہیں تو ہزار روپیہ ہو تو چٹر پٹر ادا ہو۔

صاحب خانہ : معاذ اللہ، تم نے مجھ کو بالکل ڈبو دیا۔ منگواؤ ڈولی سوار ہو جاؤ ابھی۔ صورت سے نفرت ہو گئی۔

بیگم : اور یہاں کس کو رغبت ہے۔ جب دیکھو گھر میں رونی صورت بنائے آتے ہیں۔ صاحب ان کو ہزار روپیہ دے دو۔ نہیں سمجھتے ہیں، خود کوڑی کوڑی کو حیران دوں۔

صاحب خانہ : بس بس زیادہ نہ بولیے۔ اپنے کیے کی خوب سزا پائی۔ مگر تم بھی ایسی سزا پاؤ گی یاد کرو گی۔ آپ جائیے، اسی وقت جائیے، دونوں لڑکے چھوڑ جائیے۔

بیگم : تو تم دونوں لڑکوں کے لینے والے کون؟

صاحب خانہ : (بگڑ کے) ارے ہم کوئی ہیں ہی نہیں؟

بیگم : اچھا صاحب تم جانو تمہاری اولاد۔

صاحب خانہ : میں تو سمجھا تھا، کس کی بکری کون ڈالے گھاس۔ اگر تم نہیں مانتی ہو سہی۔

بیگم : میرے اور میرے بچوں کے واسطے خدا کا دیا ہوا سب کچھ۔ (روتی جاتی ہیں) وہ تو کہو میرے گھر کا وثیقہ تھا۔ اگر آج نہ ہوتا تو تمہاری بدولت فاقوں کی نوبت آتی۔ آج میرا دل پاش پاش ہو گیا۔ جہاں زبان سے اتنی بات نکلی، سر سے اونچا پانی ہو گیا۔ نہیں معلوم خدا کو کیا منظور ہے۔ خیر! ہم تو جاتے ہیں مگر یہ سمجھ لو، میں نے تمہارے گھر کو اپنا گھر ہمیشہ سمجھا۔ اپنے حسابوں نوابی تھی تو یہ تھی، بادشاہی تھی تو یہ تھی،

309

غریبی تھی تو یہ تھی۔ خیر اچھا جانتے ہیں، کچھ زبردستی نہیں۔ یہ تو خوشی کا سودا تھا۔ ماں اگر خیال ہے تو تمہارے آرام آسائش کا۔ یوں تو خدا رزاق ہے۔ اُس نے روٹی دینے کا وعدہ کیا ہے۔ خدا جانے تمہاری سمجھ نہیں کیا آیا۔

صاحب خانہ : بس زیادہ نہ بکو، بہتر ہے اپنا چلتا دھندا کرو۔ کچھ آپ میری خدا نہیں۔ رانی روٹھیں گی، اپنا راج لیں گی، کسی کا سہاگ نہ لیں گی۔

بیگم : (زار و قطار روتی جاتی ہیں) دیکھو پھر میں کہتی ہوں، تمہارے دل میں کیا سمائی ہے؟ میں تو خیر جو حکم دو موجود ہوں؛ مگر دل دکھانا کس مذہب میں روا ہے؟

صاحب خانہ : (اور غصے ہو کے) دل دکھانا کیا معنی؟ موذی کے ضرر سے محفوظ رشتے کا خدا بھی حکم دیتا ہے۔ تم میری دشمن اور جانی دشمن اور اب چلی ہو باتیں بنانے۔ نا صاحب اب میں صورت نہ دیکھوں گا ؏

ارے یہ دل ہے پہلو میں کہ دشمن اس کو کہتے ہیں

میں انسانیت سے سب باتیں تمہاری سہتا جاتا تھا۔ جانتا تھا آج نہیں کل سنبھلو گی، وہ تو اور بگڑتی ہی چلی جاتی ہو۔ غضب خدا کا روپیہ پیسہ بھی سب خاک میں ملا دیا۔ جائداد جو تھی، خاک میں ملائی؛ بال بال قرض دار ہو گیا کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں۔ جائداد جو تھی مہاجن کے گھر پہنچی۔

بیگم : یہ نہ کہو، خدا نہ کرے۔ ہمارے دشمن مدعی، گھڑی بھر کا برا جیتنے والے۔ ابھی چوک کی دکانیں ہیں۔ حساب کرو، پندرہ روپے مہینہ آمدنی ہے، پھر یہ مکان ہے، بھلا کچھ نہ ہو گا۔ دس ہزار کا تو ہو گا۔

310

صاحب خانہ : کون کہتا ہے۔ وہ دکانیں بھی کم بخت گرو ہو گئیں۔ سود پر باہر کرا دیا، لالہ کا اُنہیں پر قبضہ ہے۔ مکان پر بھی سارے قرضے کا بار ہے۔

بیگم : یہ تو تم جانو۔ آخر اس میں میری کیا خطا ہے؟ میں نے تو یہ نہیں رکھا۔ آج وقت پر یہ بات بھی کھلی۔

صاحب خانہ : اچھا فضول بکواس سے کیا حاصل؟ اب کوئی تدبیر نہیں۔ تم ہنسی خوشی میکے جاؤ۔ غضب خدا کا، یہ میرے ساتھ حد کی دشمنی ہے۔ تم نے تو واللہ بھیک منگوا دی بھیک۔ جس وقت خیال آتا ہے، آنکھوں میں لہو اترتا ہے۔ اور صاحب سو بات کی ایک بات یہ ہے، ہماری تمہاری ایک رائے نہیں۔ جو کام اتفاق سے چاہیے، وہ اس نفاق میں کیوں کر ہو سکتے ہیں۔ بس میں نے عہد کر لیا، اب اس گھر میں تمہارا رہنا مناسب نہیں۔

بیگم : میں اصرار نہیں کرتی مگر آدمی جو کام کرے سوچ سمجھ کے کرے۔ جس دن تمہارے گھر میں آئی، تم نے میکے جانے نہیں دیا۔ اب ایکا ایکی جانے کا کون طریقہ ہے۔ اور پھر ننگی بچی۔ کیا بھری پری جاتی ہوں۔ لوگ دیکھیں گے، دشمن خوش ہوں گے، آؤ بھگت کریں گے، تمہاری کیا نیک نامی ہو گی، اور میری کون سی ذلت باقی رہے گی؟

نواب صاحب : تو کیا میں نے لے لیا۔ گھر میں بیٹھ کے سب تم نے لٹا دیا۔

بیگم : اچھا جو ہوا تمہارے ہی گھر میں ہوا۔ ابھی میں کہتی ہوں، جتنا اپنے گھر سے لائی تھی، برسوں کھاتی نہ چکتا۔ کیا میں غریب مفلس ماں باپ کے ہاں سے آئی تھی؛ سب ہی کچھ دام دھیز تھا۔

311

صاحب خانہ : اچھا ان فضول باتوں سے کیا مطلب؟ بس اب مناسب تو یہ ہے سوار ہو جاؤ۔

بیگم : کہتی تو ہوں یہ کون قرینہ ہے۔ مان نہ مان میں تیرا مہمان۔

نواب صاحب : اچھا تو بسم اللہ کیجیے۔

بیگم : اچھا وہاں جا کے کیا کہوں گی، ایکا ایکی جو اُتر پڑوں گی۔ اور یہ سب جھگڑیں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟

صاحب خانہ : یہ اپنے تم جانو وہ جانیں، ہماری بلا جانے۔

بیگم : یا اللہ یہ کیسی سمجھ ہو گئی۔ نہ اُلٹی مانتے ہیں نہ سیدہی۔ تم نہ پانی کے نیچے ہو نہ پانی کے اوپر۔ یہ آج سمائی کیا ہے۔

صاحب خانہ : جو سمائی ہے ہم خوب جانتے ہیں۔ بس اب تم جس طرح بنے جاؤ اور اسی وقت جاؤ۔ جب تک تم نہ جاؤ گی، واللہ داھنے ہاتھ کا کھانا حرام ہے۔ بس اب جو ٹھن گئی ٹھن گئی۔ میں نے عہد کر لیا ہے، کوئی کام تمہاری رائے کے مطابق نہ کروں گا۔ اگر خدا بھی آج آ کے مجھ سے کہے تو ماننے والے کو کچھ کہتا ہوں۔

بیگم : لے بس خدا خدا کرو، حد ہو گئی، کلمۂ کفر زبان سے نہ نکالو۔ ہم تو جاتے ہیں، اتنا کہے جاتے ہیں، یہ آدمی کے حواس کی باتیں نہیں۔ خدا کو نہ معلوم کیا منظور ہے۔ آج تک تو ایسی باتوں کا سامنا ہوتا تو اتنی عمر کاہے کو کٹتی۔

صاحب خانہ : لے اب ڈولی منگواتا ہوں، چلتی پھرتی نظر آئیے۔

سکینہ : (آب دیدہ ہو کے) تو کیا سچ مچ جائیں؟ پھر ہم کہاں رہیں گے؟

312

صاحب خانہ : تم اپنی ماں کے ساتھ جانا اور کہاں رہو گی۔

سکینہ : اچھا تو آپ کہاں رہیں گے؟

نواب صاحب : ہم بھی آ جائیں گے کسی دن۔

سکینہ : (ماں کو دیکھ کے اور اشارہ پا کے کچھ کہنے کو تھی مگر چپ رہتی ہے) اچھا۔

)صاحب خانہ باہر آئے)

صاحب خانہ : شیخ صاحب، مجھے خیال نہیں رہا۔ میں گھر میں ایسی مکروہات میں پھنس گیا تھا۔ اچھا اس وقت تو آپ جائیے، کچھ فکر کر دی جائے گی۔

شیخ صاحب : بہت اچھا، میں گھر جاتا ہوں۔ جب ضرورت ہو کسی اطلاع دیجیے گا۔ آج کل طبیعت بھی بہت نا درست ہے، زیادہ بیٹھ نہیں سکتا۔ میرا ہرج اوقات ہوتا ہے۔

صاحب خانہ : یہ جھگڑا ختم ہو لے تو میں نے جو انتظام سوچا ہے، وہ کیا جائے گا۔

شیخ صاحب : بس جھگڑا ختم ہی سمجھیے۔ اگر منظور ہے، کچھ کارروائی کر دی جائے گی ورنہ مجبوری ہے۔ لے رخصت۔

خفیہ رپورٹ

سعادت : (کورٹ انسپکٹر سے) یہ لیجیے۔ بعد تحقیقات کے میں نے یہ رپورٹ کی ہے۔ اس میں بہت سی مجھے کاروائیاں کرنا پڑیں۔ ایک صاحب بھی اس میں شامل معلوم ہوتے ہیں۔ بہت کچھ ان کی نسبت سنا گیا اور عجب پیچیدہ معاملہ ہے، بلکہ ایک آدھ دفعہ راستے گلی میں اُس سے صاحب سلام بھی ہوئی ہے۔ صورت آشنا بھی ہوں۔

انسپکٹر صاحب : اچھا مجھے دیجیے، میں دیکھوں۔ ضرورت کے وقت شاید مجھے پڑھنا ہو) معاملہ بھی سمجھ لوں۔

313

)پڑھتے ہیں)

”جناب عالی!

گزارش یہ ہے، مطابق حکم تابعدار نے تحقیقات اس مقدمے میں خفیہ جو کی ہے وہ ذیل میں عرض ہے۔ واضح ہو کہ یہ مقدمہ دائر کیا ہوا مسمی کریم بخش کا ہے جو محلہ۔۔۔ دوکان نمبر۔۔۔۔ میں لکڑی کا ٹال رکھتا ہے۔ تحقیقات کرنے سے معلوم ہوا کہ ابھی تھوڑے دن سے دوکان اس نے رکھی ہے۔ جب سے نواب صاحب کے یہاں چوری ہوئی، یہ چوروں سے ساز رکھتا تھا۔ افواہ ہے اُسی سرمائے سے یہ دوکان رکھی ہے۔ اور مسماہ نجبنیا نواب صاحب مذکور کے یہاں بطور ماما کے روٹی کپڑے پر خوراک پوشاک پر صغیر سنی سے تھی۔ گھر میں اس کا اختیار بہت تھا۔ معلوم ہوتا ہے اس مسماہ اور نواب صاحب کے بیٹے منے مرزا صاحب سے ناجائز تعلق تھا۔ چنانچہ بیگم صاحب اسی وجہ سے نہایت بد سلوکی کے ساتھ مسماہ پیش مذکور سے پیش آتی تھیں۔ منے صاحب مذکور نے اُس کو بھگا کے دوسرے مکان میں رکھا۔ اور اس کام میں درمیانی کریم بخش مذکور تھا۔ یہ بھی ان کا نوکر تھا۔ بعد اُس کے مسماہ مذکور محلہ۔۔۔۔ مکان۔۔۔۔ میں جا کے مقیم ہوئی اور نام نجم النسا تبدیل کیا۔ مسمی ننھے مرزا زردوزی کے کارخانے میں کام کرنے والا ایک کاریگر تھا۔ تحقیقات سے اس قدر معلوم ہوا ہے کہ اس کارخانے کے مالک سردار مرزا نے اس کو پالا اور پڑھایا تھا۔ بڑی تلاش و تفتیش سے معلوم ہوا کہ اس کی ماں ایک مختار کے ہاں کام کرتی ہے۔ مسماۃ مذکور اور اس سے واسطہ ہو گیا

314

اور لے کے نکل آیا۔ چنانچہ سردار مرزا صاحب نے اس کی خیانت اور بد دیانتی کی رپورٹ تھانے میں بھی کی۔ وہاں سے ہدایت نالش کی کی گئی۔ اس کے بعد مسماہ مذکور پیشہ طوائفی کا کرنے لگی۔ اور اس کے یہاں مسٹر۔۔۔ بارسٹر بھی آمد و رفت رکھتے تھے؛ بلکہ مشہور تھا، پچاس روپے ماہوار پر نوکر رکھا تھا۔ منے صاحب بھی اس کے یہاں آتے جاتے تھے۔ اس پر ناراض ہو کے بارسٹر صاحب نے صلاح نالش کی مسمی کریم بخش ہیزم فروش کو دی۔ چنانچہ اُس نے محض از راہ عداوت یہ مقدمہ دائر کیا۔ مسمی کریم بخش کی ایک زوجہ پہلے کی اور دو اولادیں ہیں اور مسماہ نجم النسا سے نکاح نہیں ہوا۔ مسمی کریم بخش چوری کے مقدمے میں اور بھی شریک بتاتا ہے۔ وہ آج کل شہر میں نہیں ہیں۔ عقلاً کہا جاتا ہے، وہ لوگ باہر کے دیہات کے ہیں۔ ارتکاب جرم کے واسطے خفیہ شہر میں آیا کرتے ہوں گے۔ مسماہ نجبنیا کو بھی بہت کچھ حصہ مال مسروقہ سے ملا تھا۔ چنانچہ اس کے یہاں جو موجود ہے اور جس کو وہ اپنا زر خرید کہتی ہے، اکثر از قسم زیور و ظروف، سب نواب صاحب کے یہاں کا ہے۔ اور مسمی کریم بخش نے جو دکان رکھی وہ بھی نواب صاحب کے مال مسروقہ سے رکھی ہو گی۔ مسمی مذکور پہلے کوئی روپیہ والا نہ تھا، بلکہ اسی شبہے پر مشہور تو ہے کہ نواب صاحب نے اس کو برطرف کر دیا ہے۔“

(بعد رپورٹ پڑھنے کے)

انسپکٹر : تو میرے نزدیک اس کا مفصل حال آپ خود چل کے صاحب کو سجھا دیں۔ یہ آپ کو اپنے ہاتھ سے دینا چاہیے۔

315

میں اس وقت بنگلہ پر جاتا ہوں۔ بہتر ہے آپ بھی چلیے۔

سعادت : (صاحب صاحب سے مل کے( حضور جو مقدمہ سپرد ہوا تھا، اُس کی خفیہ تحقیقات کر کے رپورٹ حاضر ہے۔

مجسٹریٹ : ول، اچھا پڑھیے۔

سعادت : (پڑھ کر) حضور اس میں ایک بات تحقیقات مزید چاہتی ہے۔ ابھی تک ان لوگوں کا ٹھیک پتا نہیں لگا جو نواب صاحب کی چوری میں شریک تھے۔ قیاس ہو سکتا ہے، وہ لوگ باہر کے ہوں گے۔ انشاء اللہ اگر ضرورت ہو گی تو حضور کے اقبال سے ان کی بھی تلاش کی جاوے گی۔

مجسٹریٹ : ول اچھا۔ کریم کے مقدمے میں منے صاحب، ننھے مرزا، مسماہ، کریم کو پھر عدالت طلب کرتی ہے۔

انسپکٹر : بہت خوب۔

بیگم صاحب روتی ہوئی میکے میں اترتی ہیں

بیگم صاحب کی ماں : خیر تو ہے بیٹی۔ آج یوں بے سامان کیسے آنا ہوا؟ شان نہ گمان، سب اچھے تو ہیں؟

بیگم : (رو کے) ہاں خیریت ہے۔ حواس درست ہو لیں تو حال بیان کروں۔ تابعدار کو کیا عذر۔ کہیں اور ٹھکانہ بھی نہیں۔ مصلحت اسی میں سمجھی چلی آئی۔ اسی گھر میں اتنی سے اتنی بڑی ہوئی۔ آپ لوگوں نے تو جو حق تھا ادا کیا۔ قسمت کی بات، یہی لکھا تھا۔

بڑی بیگم : چلو اچھا ہوا، بہتر ہوا۔ مگر کچھ حال تو معلوم ہو، کون سی بات ہوئی۔ افسر دولہ اس مزاج کا تھا نہیں۔ کوئی بات ہی ایسی ہو گی۔ دیکھو تو اگر ان کی رائے ہو گی تو میں بلواتی ہوں۔ واہ یہ بھی کوئی طریقہ ہے؟ ہاں بیٹی جس کمرے میں تمھارا جی چاہے، اپنا اسباب رکھواؤ۔ آرام

316

آسائش کا سامان کرو۔ دیکھو بہت سے کمرے صحنچیاں خالی پڑی ہیں۔ جو بہت دن ٹھہرنے کا سامان ہو تو ویسا بندوبست کرو، اور جو دو ہی ایک دن کی بات ہو تو خیر، زیادہ دقت اُٹھانا ضرور نہیں۔ دیکھو باہر سے اسباب لے جانے کی پکار مچی ہے۔ اے بیٹی کیا سب گھر کا اسباب اُٹھاتی لائی ہو؟ (کچھ سوچ کے) ہاں کیا ہوا؟ سکینہ اور منے صاحب بھی آتے ہوں گے؟

بیگم : جی ہاں، وہ بھی سب آتے ہیں اور سکینہ تو میرے ساتھ ہی آئی ہے۔

بڑی بیگم : تو منے صاحب کے واسطے بھی مردانے میں جگہ خالی کر دی جائے۔

(شام کو امیرن بہشتن آ کے پیام دیتی ہے)

امیرن : وافسر الدولہ نے بہت بہت بندگی عرض کی ہے اور کہا ہے، میں خود زبانی آ کے مصلحت عرض کروں گا۔ ابھی مجھ کو مہلت نہیں، میں بیگم کو خود بگھی پر سوار کر کے پہچا آتا۔ میں سمجھتا ہوں ابھی تھوڑے دن اُن کو آپ اجازت دیں گی۔ مستقل طور سے آپ کے یہاں قیام کریں۔ اس کے بعد دوسرا بندوبست ہو جائے گا۔ اُن کا یہ بھی گھر وہ بھی گھر، اور کسی امر کا بار اُٹھانا نہ پڑے گا۔ آگے جو آپ اپنی بیٹی کے ساتھ کریں گی میں مانع نہیں۔ کچھ ایسی پی بات ہے جو میں نے یہ تکلیف آپ کو دی ہے۔ میں خود بھی ہو سکے گا تو کبھی کبھی اُس محلے میں آ جایا کروں گا۔ آج کل مجھے کچھ کچہری کے کام ہیں، اس میں پریشان ہوں۔

317

حاکم کا فاصلہ

حاکم : اس مقدمے میں مسمی کریم بخش مدعی اور ننھے مرزا مدعا علیہ ہیں۔ گو ثبوت مدعی کے اس بیان کا نہیں ہے کہ مسماہ نجبین مدعی کی منکوحہ ہے۔ بلکہ بیانات سے ظاہر ہے کہ وہ داشتہ کسی اور شخص منے صاحب کی تھی، لہٰذا دعویٰ خارج۔ اس مقدمے میں ضمناً ایک چوری کا پتا چلتا ہے جو سابق میں بمکان نواب صاحب ہوئی تھی اور جس کی رپورٹ کی گئی تھی، اور ان تحقیقات پولیس میں درخواست گزری کہ گم شدہ چیزوں کا پتا چلا کہ گھر ہی ہیں مل گیا، کسی پر شبہ نہیں ہے، کاغذات داخل دفتر ہو گئے۔ پس عدالت کو مناسب معلوم ہوتا ہے مسماہ نجبین اور منے صاحب، ننھے مرزا بطور گواہ عدالت طلب کرے، اور مسمی کریم بخش مدعی اسی وقت سے حوالات پولیس ہو۔ اور مسماہ نجبین اور ننھے مرزا کو حکم دیا جاوے کہ تاریخ پیشی کو حاضر عدالت رہیں، اور منے صاحب کے نام سمن بھیجا جاوے، تاریخ پیشی پر حاضر عدالت ہوں۔ اور تاریخ مقدمہ در پیش ہو۔

عدالت سے باہر

کریم بخش : (نجینیا سے) اچھا سلوک کیا تم نے۔ پھانسی پر کیوں نہ چڑھا دیا۔

ننھے مرزا : جھگڑا تو بے ڈھب پڑ گیا۔

نجینیا : کیا اپنی جان پھنسواتی۔ (کریم بخش کی طرف اشارہ کر کے) ان کی سزا یہی ہے۔ ہم تو جو سچی سچی بات ہے یہاں سے لے کے خدا کے سامنے تک کہہ دیں گے، چھپائیں گے نہیں۔ بھلا حاکم سے کوئی بات چھپانا چاہیے۔

318

کریم بخش : اری نیک بخت، خدا خدا کر۔ کیوں جوتیوں سمیت آنکھوں میں پیٹھی جاتی ہو۔ خدا معلوم، کس کے بھروسے پر اس طرح تم بات چیت کرتی ہو (بارسٹر کی طرف دیکھ کے جو پھٹکے ہوئے کھڑے تھے) تو سہی، اس کا مزا کوئی دن تم نہ چکھو۔

بارسٹر: کچھ اندیشے کی بات نہیں۔ میاں کریم ڈرو نہیں۔ ہم اس کی اپیل کرتا ہے۔

کریم : حضور! اوپر خدا ہے، نیچے آپ۔ آپ ہی کے سنبھالے یہ ناؤ سنبھلے گی۔ اس کچہری میں تو اب ہمارے واسطے خیریت نہیں۔

نجنبیا : ہاں اب روتے ہو، تب نہ سوجھی؟

ننھے مرزا : جی اس سے کیا واسطہ۔ نہیں معلوم ہم کو صاحب نے کیوں بلایا ہے۔ بھئی ہم تو اس معاملے میں کوئی شریک نہیں۔ یہ مفت ہم کو لے مرے۔ خیر دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوا، دشمنوں کے منہ میں سیاہی لگی۔ انگریزی زمانہ ہے، سبحان اللہ کیا انصاف ہے۔ جیسے حاکم وہیں کھڑا تھا۔ ارے بھئی تب تو انگریز ایسے غدار شہر پر حکومت کرتے ہیں۔

کریم بخش : ہان بھئی۔ اب کیوں نہ کہو گے۔ جس کے منہ چاول ہوتے ہیں، ایسی ہی چبا چبا کے باتیں کرتا ہے۔ خیر کچھ ڈر نہیں۔ خدا نہ بگڑے، مقدمہ چاہے بگڑ جائے۔

کانسٹیبل : لے اب جاؤ اپنی اپنی طرف، بکواس نہ مچاؤ۔ آواز جائے گی، سب ابھی جیل خانے بھیج دیے جاؤ گے۔

بارسٹر : میاں کریم تم گھبرانا نہیں۔ ہمارا محرر تمہارے پاس آئے گا۔ پیشی کی تاریخ دریافت کر لے جائے گا۔ اُس دن ہم ضرور آئیں گے۔

319

شیخ صاحب اور منے صاحب

دین صاحب : اجی شیخ صاحب! مجھے آپ سے ایک بڑا ضروری کام ہے۔ آپ ہی سب کام کرتے تھے۔ جو آپ کو معلوم ہو گا وہ کسی کو نہیں۔ (سب حال کچہری کا بیان کر کے پوچھتے ہیں) مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟

شیخ صاحب : (رکھائی سے) حضت اصل بات یہ ہے، اُدھر کے حالات مجھے کچھ نہیں معلوم۔ آں دفتر را آؤ خورد۔ جو لڑکا آپ کے یہاں کا برائے چندے رکھنے کو ملا تھا، وہ بھی نہیں معلوم کدھر چلا گیا۔ کئی دن ہوئے نواب صاحب نے وعدہ کیا تھا، پھر خبر بھی نہ ہوئی۔ مجھے حاضر باشی کی نوبت نہ آئی۔ میں تو اب دوسری جگہ نوکر ہوں نا۔ آپ کی سرکار سے علاقہ نہیں۔

منے صاحب : اجی یہ بتائیے کچہری میں کیا کیا جائے؟

شیخ صاحب : کیجیے گا کیا، چلے جائیے تاریخ کو۔ جو عدالت کہے اُسے تعمیل کیجیے۔ آپ تو ماشاء اللہ ہوشیار ہیں۔ دو چار احباب سے رائے لے لیجیے۔ وکیل وغیرہ کا کام ہوتا تو میں ابھی لے چلتا۔

منے صاحب : شیخ صاحب! بھلا ایسا کون وکیل تھے جو بے لیے دیے صلاح دے، اور آج کل روپے کا کہیں نام نہیں۔ میں نے بہت فکر کی اور بہت کچھ کہا، بیگم صاحب کہتی ہیں تنخواہ آ لے تو روپے کی صورت ہو۔ وہ تو ایک دوست یار غار تھے، ان سے کہا، کہیں سے فکر نہ ہو سکی۔ اور کھلی بات یہ ہے کہ ان بے چاروں کی کوئی حیثیت پہلے ہی سے نہ تھی۔ جب ان کو ضرورت ہوئی، ہمیں آڑے آئے۔ پھر اب وہ کہاں سے لا سکتے ہیں۔

320

شیخ صاحب : تو چپ ھو رھیے۔ حوالے بخدا کیجیے، آگے دیکھا جائے گا۔ مگر سمن جو آپ کے نام آیا ہے، وہ کس حیثیت سے آیا ہے؟ بحیثیت مدعا علیہ ہے؟ مدعی آپ ہو نہیں سکتے، آپ نے کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ یا بطور گواہ طلبی ہے؟ کوئی کاغذ ثبوت بھی ہمراہ لانے کو لکھا ہے یا نہیں؟

منے صاحب : جی کچھ بھی نہیں۔ کاغذ واغذ تو کچھ نہیں۔ یہ لکھا ہے کہ فلاں تاریخ دس بجے حاضر عدالت ہو۔ پولیس کا سپاہی ڈھونڈتا ڈھونڈتا یہاں پہنچا، مجھ کو سمن دیا، میں حق حیران۔ آپ جانیے ایک تو کچہری عدالت کا معاملہ، میں ایسی باتوں سے اصلا واقف نہیں، پھر سنتا ہوں فوج داری میں قید ہوتی ہے، بیت پڑتے ہیں۔ (آب دیدہ ہو کے) شیخ صاحب! جناب امیر کی قسم، میں ایسی باتوں سے تمام عمر الگ تھلگ رہا۔ مجھے ان سے کیا واسطہ۔

شیخ صاحب : ہاں حضرت! معاملہ تو نازک ہے مگر کیا ہو سکتا ہے۔ تاریخ تو آنے دیجیے، دیکھا جائے گا۔ میں نمک خوار ہوں، ہر قوت حاضر ہوں۔ انشاء اللہ کسی امر کی تکلیف نہ ہو گی۔

منے صاحب : ہاں میرے شیخ صاحب، واللہ جیسے آپ نے بندۂ بے درم بنا لیا۔ اب آپ سمجھیے ایسے وقت میں ہم لوگوں کی دشمن گلی کی ٹھیکری تک ہے، اور بڑی بات آج کل روپے کا نہ ہونا۔

شیخ صاحب : اجی ٹھیکری کو نہ کہیے۔ چاہے راستے گلی کی ہو، چاہے گوشت پوست کی ہو؛ آپ لوگوں کی عمر میں
 

شمشاد

لائبریرین
طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 241

ننھے مرزا : (گستاخی معاف) یہ تو شوقینوں کی ملاقات ہے تسمیہ خوانی کا کوئی جلسہ نہیں۔

صادق : تب ہی تو بسم اللہ سے آپ نے شروع کیا۔

منے صاحب : اجی بی صاحب! بتائیے تو کب سے آپ یہاں آئی ہیں؟ شہر دیکھا؛ لوگ کیسے ہیں؟

نجبنیا : بہت اچھا ہے۔

منے صاحب : نہیں مطلب یہ ہے جی لگتا ہے؟ کسی چیز کی تکلیف تو نہیں؟

ننھے مرزا : جی حضور میں عرض کروں۔ جہاں جس شہر میں ایسے ایسے رئیس قدر دان پڑے ہوں، وہاں تکلیف ہو سکتی ہے؟

نجبنیا : مل ہاں، مالائی نہیں ملتی۔

ننھے مرزا : (شرما کے) جی حضور، عادت ہے، کھانا چاہے ایک حسابوں نہ دیجیے، صبح کو ایک پیالہ بالائی کا دے دیجیے، مہینوں کے واسطے کافی ہے۔ کاہے سے عادت بھی پڑی ہے۔

نجبنیا : جو کوئی دن نہیں کھاتی، کھانشی میں لہو کی ٹپکی آ جاتی ہے۔ ابھی اُشی دن دیکھیے مالائی کھانے میں نہیں آئی، شاف دوسرے دن کھانشی جو ہوں، لہو موجود۔ مالائی کلیجے میں تراوٹ کرتی ہے۔

ننھے مرزا : جی حضور، بالائی کا کیا کہنا، عجب چیز ہے۔ اور پھر یہ تو اور کچھ کھاتی بھی نہیں۔ عجب طرح کا مزاج پایا ہے۔ بس وہی شیر مال کا ٹکڑا، وہ بھی مسا کر کے بجبراً بڑے کہنے سنے سے، باقی دن بھر رات بھر گلوری پر گلوری؛ کسی امر کا شوق نہیں۔ آم نہ خربزہ، نہ میوہ نہ مٹھائی، ترکاری نہ پونڈا۔ ابھی کل کھیر والے سے دو پیالے لیے، چمچے

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 242

سے ایک رتی بھر زبان پر رکھا ہو گا، رات بھر بھوک نہ معلوم ہوئی۔ کہتی تھیں، حلق تک پیٹ بھرا معلوم ہوتا ہے۔ اے میں نے کہا تم نے کھایا ہی کیا ہے۔ اگر کہو تو بازار سے بوتل لا دوں، گھونٹ بھر پی لو، کنکر پتھر تک دم میں راکھ کر دے۔

نجبنیا : راکھ دشمنوں کو۔ ہم ایشے پیٹو نہیں ہیں، جو کھا لیتے ہیں اُشی کا ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے۔

منے صاحب : ہاں بات یہ ہے، کہیں چلنا پھرنا تو ہوتا نہیں۔ کسی وقت تو نکلا کیجیے۔

ننھے مرزا : کہاں نکلیں، تنہائی میں جاتے جی گھبراتا ہے۔ ہاں اگر کسی کا ساتھ ہو تو جی بھی بہلے۔

منے صاحب : ہمارے ساتھ بگھی میں نکلا کیجیے۔ ہم ہوا کھلا لائیں رات کو۔ چار دن میں سانڈے کی طرح ہو جائیں۔

صادق : اجی ہم حاضر ہیں، ہم سے کہیے، صبح شام ان کو ہوا کھلایا کریں۔

منے صاحب : اجی جائیے، آپ خود ہوا کھائیے۔

نجبنیا : (بات ٹال کے ننھے مرزا سے) اے مرجا! حکہ جل گیا ہو گا، تازہ چلم بٹھا لاؤ۔

ننھے مرزا : (اس ذلیل فرمائش پر خفت مٹانے کی نظر سے) دیکھیے ابھی تازہ دم بھرواتا ہوں، ذرا دم تو لیجیے۔

صادق : آپ کی طبیعت کی گرما گرمی کا تقاضا تو ہے۔

ننھے مرزا : آپ کیوں چٹختے ہیں، ان باتوں کا یہاں کوئی ضامن نہیں۔

نجبنیا : (ننھے مرزا سے ہنس کے) گلی میں جا کے کوڑی کوڑی گٹا آواز لگاؤ۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 243

ننھے مرزا : مجھے طمع خوں (تمباکو) کی نہیں۔

نجبنیا : تو ذرا ڈھانک کے لانا۔ چاہے ہو یا نہیں۔ طبیعت جل کے شلفہ ہو گئی۔ آپ تو بڑے ہم دم بنتے ہیں۔ بش شٹکیے یہاں سے۔ بڑے عظیم اللہ خان بن کے آئے ہیں۔ ڈیڑھ خمشہ تو ہو رہے ہیں مگر آواز میں وہی کڑک باقی ہے۔ جیسے ٹکے گنتے ہیں۔

ننھے مرزا : اجی اس زنانے کے تمباکو میں واللہ عجب ہی دم ہے۔

نجبنیا : (جھپ کے) رکے رکے کیوں بولتے ہو۔ بہت جی چاہے دو قش تم بھی پی لینا۔ لے بس ہٹ نہ کرو، اس بات پر ایک اچھا شا توا بھر لاؤ۔

ننھے مرزا : مگر تک تم کٹخ بنی رہو گی، مزا نہ آئے گا۔ وہ کہا نہیں ہے۔

حقہ یک دم دو دم سہ دم باشد
نہ کہ میراث جد و عم باشد

(منے صاحب کی طرف مخاطب ہو کے)

حقہ بھی بولتا ہے تو ہم سے رکا ہوا

حضور اس لب معشوق کا کیا کہنا۔

باجن لگی پانسلی اور نکسن لاگے ناگ

آپ خیال تو فرمائیے، پانی میں استادہ آگ سر پر رکھے، دھوئیں کی ریل گاڑی دم بھر میں کھیچتا ہے۔ سچ پوچھیے قسم حضرت عباس کی، اگلے بزرگوں نے پورے انجن کا مسالہ جمع کر دیا ہے۔ بھئی واہ، وا، سبحان اللہ! حکمت کے یہ معنی ہیں، ہر ایک گھر میں ریل کیا معنی انجن تک دوڑا دیتے تھے۔ تب تو لقمان، افلاطون کا اب تک نام

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 244

باقی ہے۔ اور مزا بھی جو حقے میں ہے، وہ دنیا کی کسی چیز میں نہیں۔ عورت مرد جس کو دیکھیے اس کا دم بھرتا ہے۔ گھسیارا بھی ٹکے کا آدمی دمڑی کا تمباکو شام کو ضرور پیتا ہے۔ حقہ پینے کا لطف مشہور ہے، نہائے کے، کھا کے، سوئے کے، منہ دھوئے کے۔ اور چار جگہ ناجائز بھی ہے : دھوپ میں، بھوک میں، اندھیارے میں۔ واللہ میں نے تو اکثر کر کے دیکھا ہے، کوئی مزا نہیں دیتا۔

نجبنیا : لے بش باتیں ہو چکیں، معاج اللہ تمام ہی ہونے نہیں آتیں۔ مر جا تمہاری باتیں تو عجب لچھے دار ہوتیں ہیں۔ موا تانتا پنواڑا اب تمام ہو۔ دیکھو وہ جنانے کا تمباکو آج لائے ہو، وہی آپ کے واسطے بھرواؤَ

ننھے مرزا : (زبان دانی دکھانے کو) زنانے کی تمباکو ہوتی ہے یا زنانے کا تمباکو ہوتا ہے (منے صاحب کی طرف دیکھ کے) حضور یہ ابھی باہر سے آئی ہیں، لکھنؤ کی زبان نہیں جانتیں۔

صادق : کیا ہوا تمباکو بھی تو زنانے کا ہے۔

نجبنیا : (جھیپ کے) مرزا جرا، تزم کزو، ایسزی بزاتیزیں نزا چزاہزائے چرپ رزو ہزو۔ (مرزا تم کو ایسی باتیں نہ چاہیے، چپ رہو)۔

ننھے مرزا : اجی تم ناراض کیوں ہوتی ہو، میں جاتا ہوں۔

منے صاحب : (صادق سے سرگوشی کر کے) ان سے پوچھو، کیا لیتی ہیں؟

صادق : (کان میں) اگر کچھ ارادہ اور ہے تو پھر کسی اور دن دیکھا جائے گا۔

منے صاحب : اچھا تو اب جاتے ہیں۔ خدا حافظ۔

نجبنیا : بہت ۔۔۔۔ اچھا، پھر بھی کبھی شر پھراج فرمائیے گا۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 245

منے صاحب : ہاں ہاں ضرور۔ اللہ نے چاہا، کسی دن اطمینان سے آ کے بیٹھیں گے۔

صادق : آج تو اتفاقیہ ادھر آ نکلے تھے۔

منے صاحب : (روپیہ دے کے) اب جاتے ہیں۔

(دونوں چلے گئے)

منے صاحب : یار آسامی تو ٹھیک ہے، صورت بھی بری نہیں۔ ہاں زبان روح فرسا ہے، مگر یار اس طرح کی عورت میں نے کہیں دیکھی ہے۔

صادق : چہ خوش، کل تو وہ باہر سے چلی آ رہی ہے، آپ دیکھنے کہاں گئے۔ ایک آدمی کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی؟ ہنستی ذرا منہ کھول کے ہے مگر واللہ آنکھیں کٹیلی ہیں۔ آدمی بھی ابھی گیگی سے معلوم ہوتی ہے۔ آپ کے شہر کی تراش خراش کو کہاں پہنچ سکتی ہے۔ مسی دیکھیے تولوں پھانکتی ہے۔ یہ تمیز آپ کے شہر پر ختم ہے۔ آنکھوں میں کاجل لگا ہے۔ کالی بلی بنی ہے۔

منے صاحب : اجی یہی باتیں تو بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ وہ معشوق کیا جو تکلف کا پتلا ہو۔ ؂

تکلف سے بری ہے حسن ذاتی
قبائے گل میں گل بوٹا کہا ہے

صادق : مگر یار طبیعت دار ہے۔ ننھے مرزا نے اتنی جلد خوب بنا لیا۔ آپ دیکھیے گا، شہر کی ہوا کھا کے کیسے پر پرزے دو ہی دن میں نکالتی ہے۔

منے صاحب : ہاں یار یہ نہ کھلا، ننے اُرا کہاں سے لایا۔ واللہ مال تو اچھا ہے۔ آتے ساتھ ہی سب سامان لیس کیسے ہو گیا؟

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 246

صادق : اس کو نہ کہیے، یہ لکھنؤ ہے۔ گھنٹہ بھر میں تو پوری شادی کا سامان ہو جاتا ہے۔ پھر سنا نہیں بالسٹر (بیرسٹر) کا معاملہ ہے۔ کچہری عدالت کے سوا روپے کا مینہ کس سرزمین پر برستا ہے۔ جو کوئی جانگلو پھنس جاتا ہے تو خوب ہی پھنستا ہے۔

منے صاحب : مگر جو میں کہتا تھا، بھئی ہو ہ ہو۔۔۔ میں نے ان کو کہیں دیکھا ضرور ہے۔ کڑے، چمپا کلی، بالی پتے کو جوڑ، اور داج سب ویسے ہی ہیں۔

صادق : اجی اس خبط میں پڑنے سے فائدہ۔ اب یہ کہو، کسی دن پھر آؤ گے؟ ہم کو ضرور خبر ہو، نہیں بگڑ جائے گی۔ تمہاری باتوں سے معلوم ہوتا ہے تم ٹالتے ہو۔ اگر جو ایسا ہوا تو وہیں جا کے مارے ڈھیلوں کے لولا نہ کر دیا ہو تو سند نہیں۔

منے صاحب : ارے عجب بدگمان ہو جی۔ گھبراتے کیوں ہو، آئیں گے پھر کسی دن۔

(اتنے میں ایک خفیہ پولیس سعادت نامی مل گیا)۔

سعادت : بندگی عرض۔ آج تو بہت دن کے بعد ملاقات ہوئی۔

منے صاحب : آؤ بھائی سلام علیک، مزاج تو اچھے ہیں۔ ارے یار ہاں اب ایک بات پوچھنا ہے۔ تم کو معلوم ہو گی، نہیں تو ٹوہ لگا سکتے ہو ارماں جانتے ہو۔ یہ نیک بخت نووارد کون ہے؟ کہاں سے آئی ہے؟ کیا نام ہے؟ کب سے ٹھہری ہے؟

سعادت : کون؟ میں ابھی اچھی طرح سمجھا نہیں۔ کچھ خلاصہ فرمائیے۔ تک و دو کی جائے، کون بڑی بات ہے؟

منے صاحب : یہی جو یہاں پر ٹھہری ہیں۔ ابھی ابھی اُنہیں

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 247

کے ہاں سے اُترے ہیں۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے، ان کو کہیں دیکھا ہے۔

سعادت : ابھی تک بندۂ درگاہ تو گئے نہیں۔ اتنا معلوم ہوتا ہے، چند روز سے ان کا آنا ہوا ہے۔ کچھ لوگ بھی تھوڑے ہی دنوں سے بو پا کر آنے جانے لگے ہیں۔ اکا دکا بھلے آدمی بھی بھولے بسرے، جیسے آپ، آ نکلتے ہیں۔ ایک بالسٹر کی بگھی البتہ کبھی کبھی دیکھی گئی۔ ادھر سے تو ہمارا اکثر گزر ہوتا ہے، ادبدا کے اکثر کر کے ملتی ہے۔ ابھی ایسی شہرت تو نصیب نہیں ہوئی، نہیں لوگوں کا غنچہ ہر وقت ہی رہتا۔ کچھ دو چار آنے جانے والے بھی مل جاتے، حال کھل جاتا۔ ابھی تو تازہ ولایت ہیں، ایک دن کھلے گا ضرور، ایسی بات تو ہے نہیں۔ اور جو اب کہیں کوشش کر کے حال دریافت کیا جائے، بھئی دوستوں کا کام سرکاری نوکری سے بڑھ کے جو نہ سمجھتا ہو، اپنے حسابوں نطفۂ حرام ہو۔

صادق : نہیں، کوئی ایسی بڑی بات نہیں، یونہی بطور تذکرہ پوچھ لیا، شاید تم واقف ہو۔ بھئی تم ٹھہرے خفیہ پولیس کے آدمی، ادنیٰ سے ادنیٰ بات معلوم ہوتی ہے۔ لے ہاں ذری اب سب حالات دریافت کر کے یاروں کو تو خبر کرو۔ یہ مال کس دساور کا ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کب سے رہا ہے؟ اسی طرح کی سب باتیں؛ تم کو سمجھانا کیا، بقول شخصے مچھلی کے بچے کو پیرنا کس نے سکھایا ہے۔ بس سمجھ جاؤ۔

سعادت : بس اتنی سے بات؟ یہ کون بڑی بات ہے؟ کل ہی لیجیے۔ مگر یار یہ تو کہو کیا ارادہ ہے؟ تمہاری باتوں سے کچھ دال میں کالا معلوم ہوتا ہے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 248

صادق : ارے یار نہیں، معاذ اللہ کچھ واسطہ نہیں۔ میں نے پوچھی، یونہی پوچھ لی۔ اور بھئی میں اس طرح کا آدمی بھی نہیں۔ یہ تو (منے صاحب کی طرف اشارہ کر کے)ان ایسے امیروں کا کام ہے۔ اور بھئی ان کو خدا نے دیا ہے، میں بچارا دن بھر دفتر میں نوکری کروں گا، بال بچوں کو پالوں گا یا رنڈی کروں گا۔ ارماں اس کے واسطے یہی لوگ بنے ہیں۔ جس کا کام اُسی کو چھاجے، اور کرے لبیدہ باجے۔

سعادت : ہم سے بھی اُڑتے ہو۔ اچھے چھیے رستموں کو خوب پہچانتا ہوں۔ اُڑ کے جاؤ گے کہاں۔ اچھا اب اس سے بحث کیا، جو بات آپ نے پوچھی ہے، اللہ نے چاہا کل تک انتظام ہو جائے گا۔ تم سمجھو، جب سے اس محکمے میں آئے ہیں، انہیں باتوں کی ٹوہ رہتی ہے۔ بہت اچھا۔ لے خدا حافظ۔

ٹھگوں کے فقرے
(شیخ صاحب اور مرزا صاحب ڈیوڑھی پر)

شیخ صاحب : (سیوتی سے) بی سیوتی ہم لوگوں کی طرف سے بیگم صاحب کی خدمت میں آداب تسلیمات پہلے عرض کرو، اور کہنا دونوں خادم تازہ مبارک باد دینے کو حاضر ہوئے ہیں۔ واللہ آج کوئی انعام ضرور دلوائیے۔ دیکھیے جاں فشانی ہماری۔ اگر ان قدموں کے نیچے جان تک کام آئے بلا دریغ حاضر ہے۔ بچہ شمر ہو جو رقی بھر دروغ کہتا ہو۔ اب حضور کا مال کوڑی اگلا جس دن حکم ہو، حاضر کیا جائے۔ اور حاضر کرنا کیا، میاں صاحب تو کہتے تھے، مال کہیں نہیں گیا، جوں کا توں رکھا ہے؛ ماں کے پیٹ میں دن قرار دینے کی بات باقی ہے، جس دن آپ فرمائیے خبر دی جائے، حاضر ہوں؛ اسی گھر سے سب مال نکلوا

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 249

نہ دیں تب کی سند۔ عامل ہیں، موکل تابع ہیں، بھلا یہ کوئی بات ہے؟ اور جھپ جھالیے (جعلیے) تو سیکڑوں پڑے ہیں۔ جس دن وہ آئیں کم سے کم دس بیس روپے تو اُن کی نذر دینا چاہیے۔ انہوں نے محنت بہت کی ہے۔ خود تو زبان سے نہیں کہتے تھے لیکن اب کی دفعہ اُن کو خرچ بھی کرنا ہو گا۔ جیسے میں بات کہتا ہوں، چیز بست لانے، سامان دعوت موکلان مہیا کرنے میں انہوں نے دو تولہ مشک، پانچ تولہ زعفران تو میرے سامنے منگوانے کی فرمائش ایک آغا کو دی ہے۔ اور ایک سنار کو بلوایا بھی ہے۔ اُس سے سونے کے پتلی کی بھی فرمائش کی ہے۔ اگرچہ مجھ سے صاف صاف نہیں کہا مگر خدا کو دیکھا نہیں، عقل سے پہچانا ہے۔ وہ سب حضور ہی کے کام کے واسطے، پھر اس میں کم سے کم دو سو روپے کی دھانکی تو یہی ہو گی۔

مرزا صاحب : پتلا کتے کا ہو گا؟

شیخ صاحب : بھئی مجھے ٹھیک تو نہیں معلوم۔ نہیں کچھ نہیں ہو گا، پانچ تولے سے بھلا کیا کم ہو گا؛ سوا سو اُس کے رکھے۔

مرزا صاحب : اجی ڈیڑھ سو کا کہیے۔ آج کل سونے کا بھاؤ بڑھا ہوا ہے۔ کچھ بسنت کی بھی خبر ہے آپ کو؟

شیخ صاحب : ہاں میں بھولا۔ اچھا تو اب بیگم صاحب سے سمجھا دینا۔ ڈھائی سو کی فکر اُس دن کے واسطے کر دیجیے۔ ابھی کچھ ایسی جلدی نہیں۔ یہ جس وقت سامان ہو جائے اُس دن بلا لیں گے۔ بس سمجھیے اسی پر معاملہ ختم۔ جب مال ہاتھ آئے، تب دل سے خود ہی روپیہ نکلے گا۔ سرکار ایسی نہیں ہے، حبہ حبہ کوڑی کوڑی اگلا مل جائے گا۔ انعام اکرام شکرانہ الگ، آگے قسمت ہم لوگوں کی۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 250

سعادت اور منے صاحب اور اُن کے دوست

سعادت : (بعد معمولی گفتگو کے) آپ کو یاد ہو گا، اُس دن ذکر کیا تھا، تحقیقات یار لوگوں جے اچھی طرح کر لی۔ ہاں کچھ رہ گئی ہے، وہ آج ہی کل میں کھل جائے گی۔ ہم نے کہا جو معلوم ہے خبر کریں۔


منے صاحب : ہاں ہاں بتائے کہ کی آپ کی تحقیقات میں آیا ہے۔

سعادت : اجی آپ تو کہتے تھے باہر کا ہے۔ جناب وہ شہر ہی کا ریزہ ہے۔ لوگ گھر سے نکال لائے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہاں تک پہنچی۔ مجھے صرف اتنا باقی ہے، وہ کون لکھ لٹ لاپرواہ گھر ہے کہ یہ سب باتیں ان بدمعاشوں نے چپ چپاتے کر لیں۔ اجی جناب آپ کے شہر میں ایک سے ایک چھٹا گرگا پڑا ہے۔ بڑے بدمعاش ہیں۔ وہ تو کہیے سرکار کی طرف سے بڑی قرق ہے، اور شہروں میں بھاگے ہوئے ہیں۔ یہاں کا بدمعاش ایسا ایسا پڑا ہوا ہے جن کی اسی پر وجہ معاش ہے۔ جب یہ تو شہر سرکار میں لکھا ہوا ہے (سارا حال نجبنیا اور اُس کا کریم کے ساتھ بھاگنے اور ننھے مرزا کے ساتھ نکل آنے کا دھراتا ہے) اب ایک بات رہ گئی ہے۔ یہاں ننھے مرزا کا اب کارخانے میں کام کرتا ہے یا بھاگا ہوا ہے۔ اور ذات شریف کہاں کے ہیں۔

منے صاحب : یہ سب کچھ تو دریافت کر لیا، اصل نام بھی معلوم ہوا؟ کبھی بسم اللہ کبھی نجم النسا لوگ بتاتے ہیں۔ جس طرح رنڈی کی کوئی ذات نہیں، ان کے نام بھی ہزاروں سیکڑوں؛ جیسا موقع دیکھا، کہہ دیا۔ ہم نے اسی مارے زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی۔ اصل نام بتانے سے رہی۔ پھر دنیا

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 251

جانتی بھی نہیں۔ فائدہ بھی کیا۔ آدمی جیسا ہے، جیسی صورت، جیسا مزاج، سب جانتے ہیں، نام تو برائے نام۔ ان لوگوں نے خوب طریقہ اختیار کیا ہے۔ نام کو بھی طبیعت کو حرکتوں سے ان لوگوں کو علاقہ نہیں۔ پھر یہی کام نکالنے کو ایک فرضی نام رکھ لینا۔ زید، عمرو، بکر کی طرح۔ اور یار ایک بات میں تم سے کہوں۔ بار بار مجھے شبہ ہوتا ہے، اس کو میں نے بھی کہیں دیکھا ہے۔

سعادت : ہوں ہو گا۔ کوئی دن تحقیق کر کے اور پتا لگا دوں۔

بیرسٹر صاحب کا سئیس اور نجم النسا

سائیس : توں صاحب ہم کا بھجن رہے۔ بڑے جدید (ضدی) کہن ہم آب نہ آوب، تمہرے حیاں رکم رکم کے آوے لاگ۔ اور صاحب بیگم صاحب آپ نائیں ہے، صاحب کی کچہری ماں بڑی بات ہے۔ ہم پنچ جانت ہیں۔ حاکم کا ہاتھ پکڑ لیت ہیں، جوں چاہے توں آج کرائے ڈاریں۔

ننھے مرزا : ارے بھئی صاحب کی خدمت میں ان کی طرف سے آداب تسلیمات عرض کرنا۔ واللہ کل سے جو صاحب نہیں آئے، ان کا کھانا پانی حرام ہے۔ منہ اوڑھے نڈھال پڑی رہتی ہیں۔ میں نے بججریہ اُٹھا کے منہ دھلایا ہے۔ اور باقی معاذ اللہ یہاں فرشتوں کے تو پر جلتے ہیں، کس کی مجال آنے جانے کی۔ صاحب ہمارے تو حاکم ہیں۔ ہاں آج بات ہی خدا نے ایسی بالا بنائی ہے۔ ہم سے کیا کہتے ہو، یہ تو جو نہ جانے اُس سے کہو۔

سائیس : صاحب بڑے کھپا ہیں، اس نہ جانت رہی، تم جانو صاحب کی مرجات بڑے بڑے لپٹن (کپٹن)، کرنیل کے ہیاں نوکری کر آئے ہیں، بڑا ساہ کھڑچ مالک ہے۔ ایک ایک پتریا کا

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 252

سیکڑوں لوٹ دے ڈالیں۔ روپیہ کی بات چیت تھوڑو۔ یاک ہمار بھائی بند پروتی رہیں، اُن کی مہرارو سے دوئی چار بیر ہنست رہیں، کبھوں ٹولٹی کا ففٹی کا نوٹ دیت رہیں، رات برات کوئی ایسی ویسی بلابن تو یاک یاک گھنٹے کے لیے ٹونٹی فایو ففٹی ہنڈل دے ڈارن، اس ساہ کھرچ۔ مدا اور بڑی بات ہے، صاحب کہن ہیں، ہم کا سب حال معلوم بھوا، تمہرے گھر نہ آؤب۔

بخشو اور بارسٹر

بخشو : حضور جو ارشاد فرمائیں، غلام حاضر ہے۔ میں عرض کروں، قسم جناب امیر کی، حضور لوگ غلاموں کے فائدے ہی کی بات فرمائیں گے۔

بارسٹر : دیکھو ہم سب بات سوچ لیا، ہم قانون قاعدہ جانتا ہے۔ اب ایک بات کرے، ایک سوال دے دے، تمہارا بیوی ہے، بدمعاش لوگ نکال لے گیا تھا، ننھے مرزا بڑا چور بدمعاش ہے، سزا دلوانا چاہیے۔

بخشو : (رو کر) عرض کروں، میں تو کسی کام کا نہ رہا۔ میں تو نوکری پر رہتا تھا، یہ پڑوس میں رہتا تھا۔ بس کچھ ایسی پٹی پڑھائی، میرا دل تو کہتا ہے ہو نہ ہو کچھ جادو کیا، نہیں حضور میں نے خود جا کے پوچھا، مجھ کم بخت کو چکمہ دے دیا، بہت خاک چھانی، ہار کے رو پیٹ کے بیٹھ رہا۔ اب حضور نے ہاتھ رکھا، میاں کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ اللہ نے چاہا، یہاں سے لے کے لندن تک لڑوں، بے پھانسی دلانے نہ رہوں۔ حضور کو خدا سلامت رکھے۔ اس پیٹ کے دھندے کے

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 253

مارے تگ و دو نہ کر سکا۔ نہیں معلوم حضرت عباس کی، بتی جلا دی ہوتی۔ اے حضور کٹنا ہے کٹنا۔ اب تو مزے ہیں۔ جو رئیس آیا دس روپیہ بی صاحب کو دیے تو روپیہ دھیلی پلے پڑا۔ حضور میں رتی رتی حال آپ سے بتا دوں گا۔

بارسٹر : دیکھو ہم صلاح دیتا ہے، اُس بیان میں لکھا جائے گا، تمہاری منکوحہ ہے۔ نکاح کا بند و بست کرو۔

بخشو : غلام نہ سمجھا، کیا کسی کا نکاح ہو گا؟

بارسٹر : اوہ، مطلب ہے گواہی کے واسطے کوئی مولوی ٹھہراؤ۔ دو چار آدمی پڑھے لکھے محلے میں ہوں، اُن کو گواہی دینے کو کہو۔ دو ایک آدمی نسبت شادی وغیر کے گواہی دیں، ہمارا کلرک سمجھا دے گا، سب بند و بست ہو جائے گا۔ اب تم کل صبح سویرے کوٹھی پر آ جانا۔ بس جو ہم بتائیں اُس پر چلنا۔ شہر کا لوگ بڑا خراب، بنا بنایا مقدمہ خراب جاتا ہے، خبردار کسی سے نہ کہنا۔

بخشو : حضور جو فرمائیں گے غلام بجا لائے گا۔ قسم پیارے حسین کے لہو کی! جو اس کا ذکر بھی آئے ناک کاٹ ڈالیے گا۔ بھلا مجال ہے، جس امر کی حضور مناہی کر دیں، وہ خطا غلا سے سرزد ہو، ابھی پھانسی دلوا دیجیے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 254

چودھواں باب

شیخ صاحب، مرزا صاحب اور صاحب خانہ

شیخ صاحب : مبارک ہو حضور! اب جے کے غلاموں کو خدا نے سرخروئی نصیب کی۔ بڑی بڑی کوششیں کی گئیں، خواب و خور حرام رہا۔ غلام نے تو یہ عہد کر لیا تھا، جب تک پتا نہ چل جائے گا، حضور کو منہ نہ دکھائے گا، کربلا چلا جائے گا، دو ایک باتوں کا انتظام کرنا تھا۔ مگر خدا کو تو نمک حراموں کو روسیہ کرنا منظور تھا، "کل امر مرہون باوقتہا"۔ اگر آج غلام قدموں سے جدا ہو کے کربلا چلا جاتا تو یہ سرخ روئی کہاں نصیب ہوتی۔ حضور قسم جناب امیر کی، بڑی بڑی کوششیں اور تدبیریں کی گئی ہیں، تب جا کے کہیں پتا چلا ہے۔ مگر واللہ میں تو قائل ہو گیا، کیا بات ارشاد فرمائی ہے، زمین و آسمان ٹل جائے مگر کیا مجال جو ارشاد خداوندی ٹلے۔

مرزا صاحب : بھلا ایسی بھی بات ہے۔ حضور جو بات زبان سے ارشاد فرماتے ہیں، پتھر کی لکیر ہو جتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے حضور بچشم ظاہر ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ نہیں واللہ خادم نے تو بارہا آزما دیکھا۔ شیخ صاحب میں تو قائل ہوں، اور قائل کیا معنہ، معتقد ہوں۔ اس میں آپ نے جو جو کوششیں کی ہیں، مریا ہی دل جانتا ہے اور صرف ہاتھ پاؤں ہی کی نہیں بلکہ اپنی گرہ سے خرچ کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوا۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 255

شیخ صاحب : حضرت بات یہ ہے، سرکار کا کام ہے، جان تک کام آئے، جو تامل کرے وہ شریف نہیں۔ روپیہ پیسہ کیا مال ہے۔ اسی سرکار سے گوشت پوست پلا ہے، جان تک حاضر ہے۔

صاحب خانہ : ہاں کچھ سنا تو میں نے بھی ہے، آپ کوشش میں تھے؛ اب فرمائیے کچھ اس سر کھپی کا نتیجہ نکلتا معلوم ہوتا ہے؟ مفت کی ٹھائیں ٹھائیں اور روپے پیسے کا خرچ ہے۔ مجھے تو ان باتوں کا ایسا خیال بھی نہیں؛ ہاں بیگم کو البتہ رات دن دہن رہتی ہے۔ کیا کہوں، عجب سمجھ کی آدمی ہیں۔ اول تو بہت کچھ چوری میں اُٹھ گیا، پھر اُس پر طرہ لونڈی صاحب خدا جانے کسی غفلت اور لاپروائی سے غائب ہو گئیں۔ زمین کھا گئی آسمان کھا گیا۔ آج کئی دن ہوئے، مغلانی سے اس بابت بیگم سے گفتگو آ گئی۔ کچھ ایسا ناگوار گذرا، باوجودے کہ دیرینہ اور معتبر آدمی تھیں مگر جھلاہٹ میں برطرف کر دیا۔ وہ جو عامل صاحب ملے تھے، اُن کا کیا حال ہے؟ کچھ کچھ تو اُمید بندھی ہے۔ اگر قسمت کا ہو گا مل جائے گا۔ میں نے سنا ہے آدمی کامل ہیں۔

شیخ صاحب : اے حضور، قسم وحدہ لا شریک کی، ایسا آدمی اہل کمال تو آج غلام کے نزدیک ہندوستان میں تو ہے نہیں۔ حضور یہ شہر عجب چیز ہے۔ ہر فن کا کمال والا موجود ہے۔ مگر یہی ہے، زمانے کی ناپرسانی سے گوشے میں چھپے پڑے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کا زمانہ نہیں رہا۔ وعدہ تو حتمی کرتے ہیں، بلکہ آج ہی کل میں مال نکلواے کو کہا ہے۔ اگر خدا کو سرخروئی منظور ہے، ان شاء اللہ یہ کام ہوا ہی تصور فرمائیے۔ زیادہ تشویش کی ضرورت نہیں۔ بقول شخصے

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 256

جانیں لڑا دیں۔ خدا جانے کہاں کہاں تلاش کرنے سے اور کن کن ترکیبوں سے ایسے لوگ ملے ہیں۔

صاحب خانہ : ہاں صاحب، آپ بجا فرماتے ہیں۔ مثل مشہور ہے ڈھونڈھے سے خدا مل جاتا ہے۔ مگر واللہ آپ کی کوشش اور خاک بیزی یادگار رہے گی۔ ہاں بھئی اگر یہ بات ہو جائے تو بڑی مہربانی ہے۔ کیا وجہ، مجے اب معلوم ہوا کہ رفتہ رفتہ گھر کا بہت سا مال نکل گیا۔ جو کچھ باقی تھا وہ منے صاحب نے ٹھکانے لگایا۔ کچھ ایسے اشرار بدمعاش صحبت میں آنے لگے ہیں کہ انہوں نے دوسری راہ پر لگایا ہے۔ پھر اُس کے واسطے روپے پیسے کی ضرورت۔ میں تو فضول دیتا نہیں، ہاں ان کے آبے رو پیٹ کے خوشامد درآمد سے کچھ لے مرتے ہیں۔ اور پھر صاحب وہاں تک غنیمت تھا؛ میں آپ سے کیا کہوں، کہنے کی بات نہیں، بقول مغلانی کہ یہ ٹانگ کھولو تو لاج وہ ٹانگ کھولو تو لاج۔ لوگوں نے دو چار چیزیں اُڑا دینے کی ایسی عدت ڈالی ہے کہ چلتے وقت جس پر ہاتھ پڑ غائب غلہ۔ اور یہی بدمعاش، لچے شہدے، سرنا بھرنا کرنے کو موجود۔ وہ تو مجھ سے اب بھی پردہ رہتا، اُس دن بی مغلانی کے نکالنے پر باتیں کھلیں۔ عامل صاحب کو کچھ روپیہ دینے کی ضرورت تھی۔ بیگم کو بیازونہ نکلوانے کی حاجت ہوئی۔ کچھ چیزیں توشہ خانے سے نکالنے گئیں، وہاں دیکھا تو صفایا، یا اللہ یہ کیا معاملہ ہے! کوئی آتا جاتا نہیں، ہو نہ ہو یہی ذات شریف ہیں۔ مگر یہ بات زبان پر لانے کے لائق نہیں۔ سن کے چپ لگ گئی۔ خیر یہ بھی خدا کی مہربانی، اولاد بھی دی تو ایسی۔ میری تو آس ٹوٹ گئی؛ نالائق، ننگ خاندان۔ اب آپ نے ضرورت جو

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 257

بتائی، نوری فکر لازم ہوئی۔

شیخ صاحب : حضور نے جو فرمایا، آج تک غلاموں کو جو خبر ہو۔ نہایت رنج ہوا۔ خیر خدا سے اُمید ہے، آگے چل کے سنبھل جائیں گے۔ آخر اُن کی تعلم و تربیت میں کس قدر بے دریغ روپیہ صرف کیا گیا۔ کیسے کیسے لئیق اتالیق، ماسٹر مقرر ہوئے۔ پھر اسکول میں جانے کے واسطے خرچ گوارا کیا گیا۔ لڑکا تو اپنی طبیعت سے ماشاء اللہ نیک رئیسانہ مزاج کا ہے، ہاں صحبت ذرا خراب ہے۔ حضور کا اشارہ ہو تو سب کا آنا جانا بدن کر دیا جاوے۔ واللہ غلام تو دنگ ہو گیا۔ جو کچھ ارشاد ہو، یہ سر و چشم بجا آوریٔ حکم کی جائے۔ بڑے افسوس کی بات ہے ہماری زندگی پر کہ جس سرکار سے پرورش ہوئی ہو، اُس کو ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔

صاحب خانہ : اب ان باتوں کا کوئی علاج نہیں۔ ہاں ایک ترکیب ذہن میں آتی ہے۔ بیگم بھی کہتی ہیں کہ شاید یہ جو بدمعاش اُن کے پاس آتے ہیں، اُن کی آمد و رفت یک قلم ترک کر دی جائے۔ خیال کیجیے چار دن میں کہیں بات ٹھہر جائے گی، اُس وقت بدنامیاں مجھ کو کس قدر شرمندہ کریں گی۔

شیخ صاحب : بہت انسب ہے حضور۔ اس کا بند و بست ہو جائے گا، تکلیف فرمانے کی ضرورت نہ ہو گی۔

صاحب خانہ : واللہ مجھے کھانا پینا حرام ہے، ضرور کوئی راہ نکالیے۔ اس لڑکے سے جیسی محبت تھی، اُسی قدر نفرت ہو گئی۔ غور کرنے کی بات ہے، میرا لڑکا اور ایسا آوارہ۔ میں تو آج ہی عاق کر دیتا، بیگم سے مجبور ہوں۔ اُن کا یہ حال ہے کہ جب تک گھر میں نہیں آتا، دن بھر کھانا

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 258

نہیں کھاتیں۔ اور میں تم سے کیا کہوں، کہنے کے لائق نہیں۔ ارے صاحب مجھے معلوم ہوا ہے، کئی جوڑے اور کئی زیور بنوا بنوا کے صاحب زادے کی رنڈی کو خود ماں دیتی ہیں۔ بھلا یہ کوئی انسانیت ہے۔ واہ ری آپ کی محبت مامتا۔ کیا کہوں مجبور ہوں ورنہ آج ہی کہتا، منگاؤ سواری میکے جاؤ، صاحب زادے کو بھی لیتی جاؤ۔ نانی نانا دیکھیں گے خوش ہوں گے۔

شیخ صاحب : حضور یہ باتیں درگذر کے لائق ہیں۔ انسان ہے اور مامتا کے آگے کچھ نہیں سوجھتا۔ یہ بھی محبت کا ایک درجہ ہے۔ جو جان سے پیارا ہوتا ہے، اُس کے دل خوش کرنے کو سب ہی کچھ کیا جاتا ہے۔ بعض مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ماں کے کلیجے کا حال وہی جان سکتا ہے جس کے دل میں اولاد کی ایسی ہی محبت ہو۔ اے حضور، مائیں بچے کی محبت میں دریا میں پھاند پڑتی ہیں، آگ میں کباب ہو گئیں، کوٹھوں سے بچوں کے ساتھ کود پڑی ہیں۔ حالاں کہ دیوانے سے دیوانے سے بھی پوچھیے تو یہی کہے گا اپنی جان بچانا مقدم ہے۔ ارے جب ہم ہی نہ رہیں گے تو ہمارے بچے کے ساتھ محبت کرنے والا کون رہے گا۔ مگر انصاف کی بات یہ ہےکہ یہ باتیں بے خودی اور اضطراب میں اُس وقت کچھ سجھائی نہیں دیتیں۔ خودی کا خیال مامتا کے آگے رہتا ہی نہیں کہ اپنا نفع نقصان دیکھیں۔ جن لوگوں میں بچوں کی محبت بے انتہا ہوتی ہے، تمام عقل اور سمجھ کی باتیں اُس کے آگے سجھائی نہیں دیتیں۔ اگرچہ بعد کو سمجھ میں آتی ہیں مگر دل تو ٹھہرا ایک، پھر ایک وقت میں محبت، مامتا اور عقل ایک ساتھ نہیں آ سکتی۔ خواہ مخواہ

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 259

ایک دوسرے میں تقدیم تاخیر ہو ہی جاتی ہے۔ جس میں جو چیز شدت سے ہے، بس وہی مقدم ہو گی۔ اسی طرح ماں کی مامتا سب پر مقدم خدا نے بنائی۔ تو وجہ کم تیرین کے ناقص ذہن میں یہی آئی ہے کہ خون کا جوش ہے۔ اے حضور بچہ ماں کا کلجزو ہے۔ جب ایک عضو پر صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو دوسرا حضور اُس کی مدافعت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ آنکھ میں ادنیٰ سا تنکا پڑنے کا خیال گزرا اور پلکوں نے پتلی کو دامن میں چھپایا۔ پھر یہ نور چشم ہی ہیں، آنکھوں کے تارے کہلاتے ہیں۔ اسی سبب سے پس اس خیال کو ذہن عالی سے رفع دفع فرمائیے۔ یہ باتیں بدون فطرت سے خداوند کریم نے رکھی ہیں مگر ہاں انسان کو ذی فہم ذی عقل بنایا ہے۔ موقع اور مصلحت سمجھنا اُس پر لازم ہے۔ نہیں تو انسان اور حیوان میں کیا فرق ہے؟ مگر عورت ناقص العقل و نافہم ہوتی ہیں۔ تابل درگذر ہیں، معذور ہیں، خدا نے بنایا مجبور ہیں۔ حضور یہ بڑی مردانہ عقل اور ضبط کا کام ہے کہ ہر حال میں عقل کا دامن نہ چھوٹے۔ حضور گستاخی معاف، یہ بات تو ہم نے سرکار ہی میں دیکھی؛ بھلا کسی حال میں کیا مجال جو عقل اور فہم کے خلاف کوئی بات سرزد ہو۔ اور حضور ان عورتوں کا کیا مقابلہ، اگر یہ عقل مند ہوں تو مرد ہیں، عورت نہیں۔ یہ بھی اُن کی بڑی عقل مندی ہے، اپنے انتظار خانہ داری میں اس ہوشیاری اور سمجھ داری کو صرف کرتی ہیں۔ ان باتوں پر خاک ڈالیے، دل ملوم نہ کیجیے۔ یہ بھی بشریف ہے، اس دنیا میں اس طرح کے معاملے پیش آ جاتے ہیں، اگرچہ عقل سلیم برابر بتاتی ہے۔ اگلے زمانے والے دفتر کے دفتر سیاہ

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 260

کر گئے ہیں، مگر ہوتا وہی ہے جو دنیا میں اُس وقت سے لے کر اب تک رائج ہے۔ دنیا اسی کا نام ہے۔ واللہ بعض وقت خیالات آتے ہیں، دنیا تر کر دینے کو جی چاہتا ہے۔

مرزا صاحب : بھئی واللہ شیخ صاحب، تم نے میرے جی کی کہی۔ اور اس طرح سے بات کو چوچلے کے ساتھ حضور میں عرض کیا کہ دوسرے کی مجال نہیں۔ واللہ سب باتیں میرے سمجھ میں آ گئیں۔

صاحب خانہ : ہاں ہاں شیخ صاحب، تمہارے بیان میں ایسا ہی اثر تھا۔ میں بجائے خود بہت کچھ قابل ہو گیا۔ اچھا اب یہ تو فرمائیے کیا کیا جاوے؟

شیخ صاحب : حضور جو ذہن عالی میں آئے انسب ہے۔ مجھ نالائق کی سمجھ میں جو آیا عرض کر دیا۔ حضور مالک ہیں، سب کے قدردان ہیں۔

صاحب خانہ : اچھا تو لالہ بنسی دھر کے ہاں جائیے۔ میں رقعہ لکھے دیتا ہوں، زیادہ کہنے سننے کی ضرورت نہیں، جو مناسب ہو اُن سے کہہ کے روپیہ لے آئیے۔ ہمارے اُن کے حساب کتاب ہوتا رہے گا۔ اس وقت کی ضرورتیں تو نکل جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ باہر دو ہزار میں کام نکل جائے گا، اور جو بچے گا اور مصارف میں کام آئے گا۔

شیخ صاحب جی دیکھیے عرض کرتا ہوں، حساب لگا لوں، صرف تخمینہ ہے، کمی بیشی ہوتی رہے گی۔

صاحب خانہ : ہاں بھئی، بار بار اُن کو تکلیف دینا نہ پڑے۔ آج کل کسی کے یہاں روپیہ ہر وقت تو موجود نہیں رہتا، اور خاص کر ہمارے بنسی دھر صاحب دوست، جن کا یہ حالہے دو چار روپے اوپر رکھ لیے، باقی کوٹھی میں داخل۔ زیادہ
 

شمشاد

لائبریرین
طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 261

رقم ہوئی بنک گھر بھیج دی۔ اور بھئی اصل بات تو یہ ہے، ملک میں روپے کا ہے توڑ۔ آمدنی سے بلا انتظام کیے بڑی بڑی مہاجنی کوٹھیاں تو ایک دم سے دے نہیں سکتی ہیں۔ رہ گیا بند و بست کرنا، پھر وہ ہر وقت حاضر نہیں۔، خواہ مخواہ ایک دو دن کی مہلت درکار ہوتی ہے۔ ارے بھئی اب روپیہ پیسہ، عزت آبرو، عقل مندی، بے وقوفی جو کچھ ہے وہ انتظام اور بند و بست سے۔ اگر یہ ہے تو لاکھوں کروروں کام انجام پائیں گے، اور انتظام نہیں ہے تو ایک ادنیٰ سا کام بھی سہولت اور آسانی سے نہیں ہو سکتا۔ چاہے آپ مہاجن، راجا، بابو، تعلق دار بلکہ لاٹ صاحب تک ہوں۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں، خدا کی خدائی میں اگر کچھ ہے کام کی بات تو یہی انتظام اور بند و بست۔

مرزا صاحب : جی حضور بند و بست کا کیا کہناَ؟ دیکھیے سرکار میں ہر تیس رس کے بعد نیا بند و بست کیا جاتا ہے، تب جا کے تیس برس تک چل سکتا ہے۔ گاؤں گاؤں کھیت کھیت پیداوار، مال گذاری، ہزاروں جھگڑے، سب اس بند و بست کے سبب سے۔

صاحب خانہ : (مرزا صاحب کی نافہمی پر مسکرا کے) اچھا آپ جا کے روپے کا بند و بست کیجیے، یہ رقعہ لیجیئے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 262

پندرھواں باب

(سعادت، مرزا صاحب اور صاحب خانہ کا دیوان خانہ)

مرزا صاحب : کیوں صاحب آپ کہاں سے آئے ہیں، کس کے پاس آئے ہیں؟

سعادت : جی یہیں سے آیا ہوں۔

مرزا صاحب : یہ وقت تو نواب صاحب کے برآمد ہونے کا نہیں، کسی اور وقت آئیے۔

سعادت : (مسکرا کے) نواب صاحب سے نہیں، منے صاحب سے کچھ کام ہے۔

مرزا صاحب : منے صاحب سے کیا کام؟ اہاہا! آپ اُن کے ملنے والوں میں ہیں (گرم ہو کے) تو اُن سے ملاقات نہ ہو گی آئندہ۔

سعادت : کیوں؟

مرزا صاحب : جی کیوں کیا معنے؟ بس اس وقت چلے جائیے۔ دوستانہ آپ سے کہتے ہیں، اُن سے اب ملاقات نہیں ہو سکتی۔ ایسی وضع کے لوگوں کو نواب صاحب ناپسند کرتے ہیں۔ نہیں معلوم کہاں کہاں کے شہدے لُچے چھانٹ چھانٹ کے ملاقات کے واسطے پیدا کیے ہیں۔ آپ ہی لوگوں نے غضب خدا کا بچے کو مطعون اور انگشت نما بنوا رکھا ہے۔ بس باز آئیے اس رسم و ملاقات سے۔ اپنی محبت

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 263

بس چھپر پر رکھیے۔ کیوں بے فائدہ لڑکے پر خفگی دلواتے ہیں آپ۔

سعادت : تو کیا اب منے صاحب گھر سے نکلنے سے ممنوع ہیں؟ اور جناب آپ نے چھوٹتے ہی سخت کلامی شروع کر دی، مجھے بڑا افسوس ہے۔ دیکھ بھال کے بھی کسی کو کہتے سنتے ہیں، یا سب دھان بائیس پنسیری۔ اے جناب میں اُن لوگوں میں نہیں ہوں۔ میں تو ایک اُنہیں کے فائدے کی بات کہنے آیا تھا۔ بہت اچھا جاتے ہیں، جو ممکن ہو اتنا کہہ دیجیے گا، ایک شخص سعادت آیا تھا اور ضروری امر جس کی نسبت آپ نے جو کہا تھا، اُسی کی بابت آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنا تھیں۔ ملاقات نہیں ہوئی، پھر کہیں آپ سے ملاقات ہو جائے گی، کہہ دیا جائے گا۔

مرزا صاحب : اجی جناب یہ آپ کہتے کس سے ہیں۔ آپ یہاں نہ آیا کیجیے، نہ اُن سے کہیں اور ملا کیجیے۔ ہن لوگوں کو حکم ہے آپ لوگوں سے ملنے نہ دیں، صحبت خراب ہے۔ رئیس کا لڑکا، آپ لوگوں کی اوباشانہ صحبت، کبھی لکڑی، بس اپنی مہربانی ہی رکھیے، کچھ کہا سنا نہیں جائے گا۔

سعادت : اجی غصے کو تھوک ڈالیے، کچھ حال تو بتائیے، معاملہ کیا ہے؟ خیریت تو ہے؟

مرزا صاحب : چہ خوش! گویا بالکل بھولے بنے جاتے ہیں۔

اے باد صبا ایں ہمہ آوردۂ تست

یہ سب آپ ہی لوگوں کی صحبت نے نتیجے پیدا کیے ہیں۔ اب منے صاحب سے ہاتھ دھو رکھیے، ایک لمحہ تو آپ سے ملاقات ہو گی نہیں۔ اس طرح کے لوگ اس لایق نہیں۔ لا حول ولا، آج کل ایسے ایسے پاک شہدے ہیں، جہاں چار

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 264

دن بیٹھے، کسی رئیس کےلڑکے سے صاحب سلامت ہوئی، دو ہی پٹیوں میں ایسا چنگ پر چڑھایا، دونوں جہان میں اُس کا تھل بیڑا نہ لگا۔ واہ صاحب واہ! آپ لوگوں سے شیطان نے پناہ مانگی۔ جس گھر میں گھسے بھیک منگوا دی۔ عزت کا خیال نہ آبرو کا، نہ روپے پیسے کا، صرف اپنی اہاہا ہوہو۔ دل لگی ہے واسطہ اور کچھ مطلب نہیں۔ لاحول وال آج کل کا زمانہ اس قابل نہیں۔ علم، فضل، تہذیب شرافت کا کیا ذکر؛ ایسے لچوں کی صحبت میں بجز نشہ بازی اور آوارگی، رنڈی بازی کے دوسرا کام نہیں آتا ہے۔ ہم تو حضت صاف صاف کہتے ہیں، آپ لوگوں کی صحبت سے خدا بچائے۔ اسی میں ہزاروں گھر برباد ہوئے اور ان کو کیا :

رند عالم سوز را با عاقبت بینی چہ کار

بس اندازے سے ادھر کا دھیان بھی نہ لائے گا۔ گئے وہ دن جب خلیل خاں فاختہ آڑاتے تھے۔ وہ تو کہیے بڑی جلدی خبر ہو گئی۔ آپ لوگ ہرگز کسی شریف سے ملنے کے لائق نہیں، محض بازاری آدمی۔ مبارک! (درباں سے) دیکھو تم کو حکم دیتے ہیں، منے صاحب کے ملنے جلنے والے جب آئیں ہرگز یہاں دم بھر ٹھہرنے نہ دو، نہیں تم اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھو۔

سعادت : اجی آپ کچھ بات تو بتاتے نہیں۔ خفا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ خیریت تو ہے؟ مزاج کیسا ہے؟ آج کچھ سرکار کی خفگی ہوئی یا گھر سے لڑ کے آئے ہیں۔ کہیے رات اچھی طرح کٹی تھی یا نہیں؟َ آپ تو معلوم ہوتا ہے آج تو بالکل ہتے پر سے اُکھڑے ہوئے ہیں۔ ہم تو انسانیت سے پوچھتے ہیں، آپ اُس کا جواب دیتے بگڑ بگڑ کے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 265

مرزا صاحب : واہیات باتوں کا جواب ہی کیا؟

جواب جاہلاں باشد خموشی

اصل یہ ہے، سرکار کو یہ صحبت پسند نہیں۔ اور صاحب اُن کا منصب اختیار ہے، اپنے گھر کا ہر شخص بادشاہ ہے۔ بس آپ کو نہیں حکم ہے آنے کا۔ انسانیت سے پیش آتے ہیں۔ نہیں دم بھر تو ٹھہرنے نہ دیتا۔ واللہ دیکھنے سے آنکھوں میں لہو اُتر آتا ہے۔

سعادت : اجی تو آپ سناتے کس کو ہیں۔ جاتے ہیں نہ آئیں گے۔کبھی پیشاب کرنے بھی نہ آئیں گے۔ ہم کو کیا غرض پڑی ہے۔ کچھ کسی کے غلام نہیں۔ ہم تو صرف محبت کے بندے ہیں۔ آپ کے کہنے سے معلوم ہو گیا۔ آپ غرے ڈبے کس کو دکھاتے ہیں، آپ کا کون دبیل ہے، یا منے صاحب کس کو سرفراز کیے دیتے ہیں اور وہ (گالی) شہدے لچے، قوم ساق ہوں گے جو ایسی باتیں سنتے ہوں گے۔ یہاں لاکھوں پر تو پیشاب نہ کریں، اچھا لے اب جاتے ہیں۔


(تھوڑی دیر میں منے صاحب بھی آ گئے)۔

مرزا صاحب! لیجیے صاحب اب جو بند و بست کیا گیا ہے، گھر پر حملے ہونے لگے۔ آپ کے اخوان الشیاطین میں سے ایک صاحب تشریف لائے تھے۔ میں موجود تھا، کہہ دیا گیا، ملاقات نہ ہو گی، آپ لوگ یہاں کی آمد و رفت نہ رکھیے گا، سرکار کی ممانعت ہے۔ اچھا ہوا آپ کا سامنا نہ ہوا، ہم سب کی آبرو گئی ہوتی۔ اتنے دن کی خیر خواہی خاک میں مل گئی تھی۔ (مبارک کی طرف اشارہ کر کے) اور اس بچارے کا تو کہیں دنیا جہان میں ٹھکانہ نہ لگتا۔ عمر بھر کی نمک حلالی پر داغ آ جاتا اور روٹیوں سے برطرف ہوتا ہے۔ وہ

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 266

گھاٹے میں۔ آج کل جیسا زمانہ ہے ظاہر ہے۔ طاقت و جوانی بھی نہیں، اس سرکار کے قدموں پر سب تصدق ہو گئی۔ بھلا اگر برطرفی ہوتی تو بھیک مانگے بھی نہ ملتی۔ مشہور تو یہ ہے :

قدیمان خود را بیفزای قدر
کہ ہرگز نہ آید ز پروردہ غدر

اُن کے واسطے اُلٹی گنگا بہتی، دانے دانے کو حیران ہوتے۔ نوکر چاکر ان کو اب کون رکھتا۔ اب تو یہ آدمی سے چٹکی کے لنگور ہو گئے ہیں۔ عمر بھر ڈیوڑھی پر پڑے ماما نچتیاں کھاتے کھاتے ہو گئے ہیں۔ اپاہج، رتوندھی آتی ہے۔ کہیے اس سرکار میں برے حال بھلے حال چلے جاتے ہیں۔ دوسری جگہ جائیں، کھڑے تو ہونے نہ پائیں۔ بس یہ سلوک آج ہوتا تھا، بڑی بلا ٹلی۔ دیکھیے حضور آپ کے دوستوں کی بدولت یہ انعام ملنے والا تھا۔ وہ تو کہیے میں موجود تھا، میں نے صاف صفا کہہ دیا، آئندہ سے آپ لوگوں کی ممانعت ہے۔

منے صاحب : ارے بھئی نام تو بتاؤ کون صاحب تھے؟

مرزا صاحب : کون صاحب کیا معنے؟ کوئی آپ کی صحبت کا لنگاڑا ہو گا۔ نشے باز، جواری، کسی رنڈی کا بھائی۔ بس اس قبیل کے دوست تو آپ کے رہ گئے ہیں۔ کیا کوئی رئیس نواب زادہ، شاہزادہ آتا ہے؟

منے صاحب : یا اللہ نام بھی نہیں پوچھاَ؟ آپ بھی کیا آدمی ہیں۔ اخر اُس کی شرمندگی میرے سر ہو گی۔ جب ملیں گے شکایت کریں گے۔ یہ تو گویا اُن کی نہیں عین میرے ذلت ہے۔

مرزا صاحب : اے حضت! کیا آپ نے مجھ کو بھی ایسا احمق

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 267

بنایا۔ نام وغیرہ میں نے سب پوچھ لیا ہے۔ اُن کی وضع دیکھ لی۔ وہ تھے ہی اس لائق۔

منے صاحب : نام تھا سعادت، پھر آپ کیا کیجیے گا؟

منے صاحب : آپ نے بڑی غلطی کی۔ افسوس! ارے صاحب وہ تو ہمارے بڑے دوست ہیں، ان سے ایک بھی تھا۔ آپ کسی کو دیکھتے بھالتے بھی ہیں یا صرف فرق بٹھاتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں وہ کون ہیں؟ وہ خفیہ پولیس ہیں۔

مرزا صاحب : (دھیمے ہو کے) باشد، ہوا کریں، صورت سے تو معلوم نیں ہوتے تھے۔ ابھی کل کا لونڈا صاحب خفیہ پولیس ہو گیا۔ یوں جو آپ فرمائیں سب کچھ ہیں، خفیہ پولیس کیا لاٹ صاحب کے بیٹے سہی۔ مگریہاں تو ایک کمزور سا، دبلا پتلا لونڈا، بے وردی پہنے، بازاری اوباشانہ وضع ہمارے سامنے آیا۔ علم غیب تو پڑھے نہیں، کچھ اُن کے ماتھے پر لکھا نہ تھا، ہم نے حکم سرکار کی تعمیل کی۔ ڈریے آپ، ہم کو کیا غرض پڑی ہے۔ وہ آپ کے دوست ہیں، یار غارہیں، ہن نوالہ ہیں، ہم پیالہ ہیں، خوشامد کیجیے آپ، یہاں کسی کو غرض پڑی ہے۔

منے صاحب : میں اور لوگوں کو نہیں کہتا۔ مگر اُن کے نہ ملنے سے ایک بڑے کام کا ہرج ہوا۔

مبارک : اور حضور وہ کہہ گئے ہیں، ہم نہ آئیں گے، ایک بڑا ضروری کام تھا۔

منے صاحب : ارے بھئی وہ تو میں بھی کہتا ہوں۔ افسوس بڑا ہرج ہوا۔ وہ آدمی کام کا ہے۔ خیر دیکھا جائے گا۔ اُس سے تو اب ملنا ضرور ہے۔ مرزا صاحب تو بعضی بات سمجھتے ہی نہیں۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 268

منے صاحب، سعادت اور نخاس

منے صاحب : اجی حضت، سلام علیک، مزاج شریف! آپ تو واللہ اس طرح چلے جاتے ہیں گویا علیک سلیک ہی نہیں۔ واللہ آپ کی مروت کی قسم کھانا چاہیے۔ واللہ اُس روز آپ آئے، مجھے بے ایمانوں نے خبر نہ کی، بڑا افسوس ہے، نہایت درجہ رنج ہوا۔ بس انہیں باتوں سے تو گھر مجھے جہنم سے بدتر معلوم ہوتا ہے۔

سعادت :خیر حضت، آپ نے صاحب سلامت کی، عادتاً مجھے بھی جواب دینا لازم آیا۔ طریقہ مسلمانی کے خلاف تھا جو سکوت کرتا، مگر اس میں کلام نہیں، کیے کی خوب سزا پائی۔ واقعی ہیں ہم ہیں اسی لائق، واللہ مجھے رنج نہیں۔ صاحب ہر شخص کو اختیار ہے، کوئی ہم کو جانے کیا۔ ایسے کام پر مقرر ہیں، جب تک کوئی واقف نہ ہو، کیا جان سکتا ہے۔ کوئی وردی تو پہنے نہیں، اور دوسرے بہت سے کاموں میں اخفا بھی ضرور ہے۔ کیا واہیات پیشہ ہے۔ میں جب کانسٹبل تھا، مزے میں تھا۔ وردی پہنی، لاٹ صاحب کے برابر ہو گئے۔ اب یہ نوکری کیا ہے، گویا اُلٹی سزا ہے۔ مگر بھائی پیٹ بری بلا ہے۔ آج کل یہی غنیمت ہے، چاہے راہ گلی میں کوئی دس جوتے بھی مار لے۔ مرزا صاحب نے تو بڑی تہذیب صرف کی، ہم کو اُن کا ممنون ہونا چاہیے۔ یہ سب آپ کی محبت کا خمیازہ ہے۔ خیر کل سے توبہ کی۔ اسی وجہ سے کہا ہے، بڑے آدمیوں کی ملاقات میں اپنا ہی اُلٹا نقصان ہوتا ہے۔ بھئی اسی مارے مجھے صاحب سلامت میں تامل ہوا۔ آپ کے کہنے کے مطابق اُس امر کو میں نے اچھی طرح سے دریافت کر لیا۔ دراصل وہ معاملہ کہیں باہر

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 269

سے نہیں آیا، یہیں کا ہے۔ کسی گھر سے نکل آئی ہے۔ کوئی آدمی کریم بخش نامی ہے، وہ گھرسے نکال لایا ہے۔ چند روز لے جا کے ایک مکان میں رکھا، وہاں ایک زردوز صاحب پہنچ گئے۔ اُن کا ستارہ چمکا، اُڑا لائے۔ اُس کارخانے میں کام کرتا تھا اور گھر بار ماں باپ کا پتا نہیں۔ وہی کارخانہ دار صاحب بہت معقول آدمی، وہی کھانا پانی دیتے تھے اور رفتہ رفتہ سب کام سپرد کر دیے تھے؛ ایسا کہ مال مصالحہ دینا، کام دینا اُسی کے ہاتھ تھا۔ قریب اُنہیں کا خالی مکان تھا، اُسی میں پڑا رہتا تھا۔ میاں کریم نے بھی ان نیک بخت کے واسطے مکان لیا تھا۔ پھر تم جانو خالی مکان، بھوتوں کا راج، یہ ایک ہی شہدان، لکا سگا ہو گیا۔ کارخانے کا بہت سا مال اُڑا دیا۔ اونٹ کی چوری جھکے جھکے کیوں کر ہو سکتی ہے۔ چار ہی دن میں بھانڈا پھوٹا، نکال دیے گئے۔ اب یہ بی صاحب کو گلے میں باندھے، نکلے مانگتے کھانے کو۔ عورت بھی طرح دار تھی، کچھ مال بھی لے کے نکلی تھی۔ میں نے سنا ہے، کسی بڑی چوری میں ان کی اور کریم بخش کی کچھ شرکت بھی تھی، بلکہ ایک زمانے میں پولیس تحقیقات کو بھی گئی تھی، مگر امیر کا گھر، لکھ لٹ کارخانہ، ایسا کچھ پیچ پڑا، کچھ اُلٹا دے دلا کے یہ لکھوانا پڑا کہ مال بازیافت ہو گیا۔ پھر میاں کریم صاحب نے بہت سر مارا، کسی نے پتا نہ بتایا۔ دوسرے یہ کہ جو مال اُس چوری میں لوگوں نے اُڑایا تھا، اُس میں بہت سے چھٹے ہوئے بدمعاش، عادی مجرم شریک تھے۔ کچھ زیور اور اسباب تو ان نیک بخت کے ہاتھ لگا اور نقدی روپیہ کچھ میاں کریم

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 270

کو ملا؛ چناں چہ اب جا کے انہوں نے لکڑی کی دکان رکھی ہے۔ بلکہ آج کل وہ جو نکڑ ہے، اُس پر وہ جو اونچی سی ٹال ہے، انہیں کی ہے۔ اب دریا سے کشتیاں کی کشتیاں لاتے ہیں، چار پیسے کے آدمی ہو گئے۔ ادھر ان کے آشنا ننے مرزا زردوزی چھوڑ چھاڑ کے اُس ٹوم کو نخاس کے کمروں پر اُٹھا لائے۔ ایک بارسٹر صاحب بھی پھنس گئے ہیں۔ چناں چہ حال میں میں نے سنا ہے، میاں کریم نے اُنہیں کے مشورے سے نالش فوج داری دائر کی ہے۔

منے صاحب : بھئی واللہ، تم نے خوب ٹوہ لگائی! بھلا یہ تو بتاؤ، یہ سب باتیں تم کو معلوم کیوں کر ہوئیں؟

سعادت : اجی بس اس کو نہ پوچھیے، ہمارا محکمہ ہی ایسا ہے۔ سب باتوں کو ادھر اُدھر سے سن کے خفیہ تحقیقات کر کے پورا سلسلہ قائم کر لیتا ہے۔ کچھ سرکاری کاغذات سے پتا چلا ہے؛ جس جس محلے میں رہے ہیں، اُن کے بھنگیوں سے سراغ لگا ہے۔ اور بہت سے باتیں تو نجیبن نے اپنی ایک بڑی رازدار سیدانی سے بیان کی ہیں۔ وہ اُس کے یہاں بہت آتی جاتی ہے۔ غرض کہ اُس کا الگ طویل قصہ ہے۔ آپ کو اُس سے کوئی علاقہ نہیں۔ وہ کہیے، آپ کی محبت اور عنایت اس قدر ہے، مختصر حال بیان کر دیا ورنہ ان باتوں کو آپ کیا جان سکتے ہیں۔ یہ ہمارے محکمے کی راز کی باتیں ہیں۔ اگر حکام کو معلوم ہو جائے، ابھی ممنوع روزگار ہو جائیں۔ پھر علاوہ بدنامی کے روٹیاں بند ہو جائیں۔ آپ اپنے کام سے کام رکھیے، آپ کا کچھ فائدہ بھی نہیں ہے۔ یہ جو میں نے آپ سے کہہ دیا، محض اس وجہ سے کہ آئندہ مجھے آپ کا کوئی کام کرنا منظور نہیں، اخیر خدمت ہے۔ میں حق دوستی

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 271

سے ادا ہوتا ہوں۔ آپ ان باتوں کو یاد کیجیے گا۔ ہاں اتنا اخیر دفعہ کہے جاتے ہیں کہ آج سے ہم سے آپ سے صاحب سلامت نہ ہو گی۔ اور یہی آپ کے اور میرے حق میں مناسب بھی ہے۔ مگرایک بات دوستانہ اور کہتا ہوں۔ مجھے آپ کے یہاں کے ڈھنگ اندر سے لے کے باہر تک اچھے نہیں معلوم ہوتے۔

منے صاحب : خیر؛ اچھا بھائی تمہاری اگر یہی مرضی ہے تو ہم کو کیا کلام، مگر یار یہ تم نے صاحب سلامت ترک کرنے کی بری سنائی، بڑا افسوس ہے۔ ایسا دوست اور سچا آدمی کہاں ملے گا۔ میں جانتا ہوں، کل مرزا صاحب کی باتوں نے آپ کو کبیدہ کر دیا۔ خیر کیا کہوں، ان نالائقوں سے بہت ہی زچ ہوں۔ بلکہ بعض معاملے میں تو یہی جی چاہتا ہے، لعنت بھیجو گھر بار کو۔ یہ عمر عیش و آرام بے فکری کی ہے۔ یہ لوگ ہمارے دشمن جانی ہیں۔ بہت سی باتوں کا خیال آتا ہے، نہیں ایک آدھ کی جان لے لیتا۔ بھئی مجبور ہوں، گھر سے باہر نکل کے کہاں جا سکتا ہوں۔ کوئی دوست آشنا بھی نہیں ایسا، اپنے گھر میں برس دو برس آرام دے سکے۔ ابا اُٹھتے بیٹھتے نکال دینے کو کہتے ہیں، والدہ صاحبہ کے دم سے میں پڑا ہوں۔

سعادت : خیر اب آپ دل کو سنبھالیے، سب انگیز کیجیے۔ آسان ترکیب تو یہ تھی کہ آپ کہیں نوکری کر لیتے۔ پھر کوئی دقت نہ تھی۔

منے صاحب : سر دست وہ بھی ممکن نہیں۔ مجھے کوئی انکار تو نہیں، یہ آزادی کی بات ہے، مگر آج کہیں نوکری ملے تو میرے خرچ کو تنخواہ کافی نہ ہو۔ نوکر چاکر، کھانا پکڑا

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 272

کچھ نہیں تو دو سو روپے میں ہونا چاہیے۔ دوست احباب کی خاطر مدارت کے واسطے حسب حیثیت سو روپیہ ماہوار چاہیے۔ ایک گاڑی گھوڑا کم سے کم درکار ہے۔ آپ سمجھیے کم سے کم نوروز جی کی دکان سے ایک بوتل روزانہ درکا رہے۔ اگر یار احباب جمع ہو گئے تو دو تین کی نوبت پہنچتی ہے۔ کوئی ہفتہ نہیں جاتا، اُس کا بل پچاس ساٹھ کا نہ ادا کرتا ہوں۔ غرض کہ یہی باتیں ہیں جن سے مجبور ہوں۔

سعادت : یہ تو ٹھیک ہے مگر نوکری پیشہ کو ان باتوں سے کیا واسطہ۔ تو پھر مناسب ہے کہ موافق آمدنی کے خرچ رکھا جائے۔

منے صاحب : بھئی کیوں کر ممکن ہے۔ ارے بھائی تمہیں بتاؤ کس کس بات کو کم کروں۔ اور اگر اسی طرح سے رہنتا ہے تو زندگی کا مزا کیا۔ اور ابھی بڑا خرچ میں نے بتایا ہی نہیں۔ پانچ چار روہے ادھر اُدھر خرچ ہو ہی جاتے ہیں اور کبھی کبھی فرمایس ایسی ہوتی ہے، جب تک کوئی غیر معمولی فکر نہ کی جائے، ٹلتی ہی نہیں۔

سعادت : چونکہ میں آپ کا نیاز مند ہوں اور آیندہ بہ مصلحت رسم رکھنا مناسب بھی نہیں، اس واسطے صاف صاف گوش گزار کرتا ہوں۔ معاف فرمائیے گا، گو میرا منصب نہیں اور کچھ نصیحت نہیں کرتا، محض دل سوزی سے اخیر بات اتنی کہتا ہوں کہ جس آرام و آسایش کو آپ چاہتے ہیں، وہ آپ کے طریقوں اور گھر کے ڈھنگوں سے کبھی ملنے والی نہیں۔ بلکہ فکریں زیادہ ہوتی جائیں گی۔ اچھا اب آداب عرض کرتا ہوں۔

منے صاحب : (آپ دیدہ ہو کے) مجھے ایسے دوست کو رخصت کرتے بڑا افسوس معلوم ہوتا ہے، مگر بھئی بس ہی کیا ہے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 273

بندھا خوب مار کھاتا ہے۔ اس مردود مرزا پر مجھے بڑا غصہ معلوم ہوتا ہے۔ بار بار یہی جی چاہتا ہے، یہ امر جو ہوا محض اسی کی وجہ سے ہوا ہے۔ تو سہی، اسی بات پر اور ان باتوں کوکروں، خوب دشمنوں کو جلاؤں۔ لیجے صاحب اور بندوبست کیجے۔ خوب خیر خواہی دکھلائی۔ اور اپنی نہیں کہتے، روز چکمے دے کے ہزاروں کے رقعے لکھو لے جاتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے، پانچ ہزار گھر میں آیا، سب شیخ صاحب اور اُن کے پیٹ میں گیا۔ بقول شخصے گا بجا کے سب اپنا کر لیا۔ میں نے سن گن پائی، والدہ سے کہا تھا اور کوئی بڑی بات نہیں، کل ڈھائی سو روپیہ مجھے درکار تھا۔ اُنہوں نے وعدہ کیا تھا، جس طرح سے بنے گا، مجھے دیں گے مگر وہاں ایسا لکھا ڈیوڑھا بتایا، سب انہیں بے ایمانوں کے کٹے لگا۔ واللہ خون جگر کھا کے رہ گیا۔ ان لوگوں کو دیکھ کے میری آنکھوں میں لہو اُترتا ہے۔ بار بار یہی جی میں آتا ہے، حضرت تو یونہیں سب ان بے ایمانوں کو کھلا دیں گے؛ تو سہی، اس سے دونا خود نہ خرچ کیا ہو، جاتا تو ہے ہی۔ یہ تو مجال ہی نہیں کوئی منع کرے مگر آپ سمجھے، کچھ ہمارا بھی حق ہے۔ ارے ہم کب عیش کریں گے۔ دوست احباب کو کھلائیں گے۔ زندگی کا مزا کیا۔ ارے میاں کیا ایک دفعہ مر کر پھر جینے کو آئیں گے۔ دینامیں رہتا کیا ہے؟ یہی نیک نامی، بدنامی۔

سعادت : ہاں یہ تو بات ٹھیک کہی آپ نے مگر اس کو تو سوچیے، ہمت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ باپ دادا کی دولت پر یہ ساری جھانجھ نکالی جائے۔ بھلے آدمی خود کچھ کمائے، پھر یہ مصارف کرے، پھر یہ مزہ بھی ہے۔نام بھی ہے۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 274

کوئی اگر کہے تو یہی کہے، خوب کمایا خوب لٹایا۔

منے صاحب : ہاں یہ تو آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر جناب میرا بہت جی جلتا ہے تو یہی خیال آتا ہے۔

سعادت : اچھا تو میں آپ کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ کھڑے کھڑے دیر ہو گئی، آپ کو تکلیف بھی ہو گی۔ کہیے اب ادھر سے کہاں جائیے گا؟

منے صاحب : بھئی اب سیدھا گھر جاؤں گا۔ آج محض تمہاری للک میں نکلا تھا، خدا نے ملاقات کرا دی۔ اور جو آپ کی رائے ہو، چلیں کمرے پر، دم بھر وہیں بیٹھیں، غم غلط کریں۔

سعادت : نہیں، میں اب تو وہاں نہ جاؤں گا اور نہ ضرورت ہے۔ ہاں آپ چاہیں خوشی سے جائیں۔

منے صاحب : نہیں، میرا بھی اب جی نہیں چاہتا۔ (ہاتھ ملا کے) اچھا بھائی رخصت، خدا حافظ و ناصر!

سعادت : (گلے سے چمٹ کے اور آب دیدہ ہو کے) منے صاحب، سچ باور کرو، مجھے تم سے محبت تھی مگر افسوس ہے۔

منے صاحب : (بھاری آواز سے) خدا حافظ۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 275

سولھواں باب

نجم النسا اور ننھے مرزا

ننھے مرزا : اجی تم نے سنا؟ غضب ہو گیا۔ واللہ کل سے تو میرا کھانا پانی حرام ہے، اور اس مارے رات کو آیا بھی نہیں۔ وہ تو کہو خدا نے ایک وکیل صاحب کے دل میں نیکی ڈال دی، تب اُن بچاروں نے چھڑایا۔ قسم جناب امیر کی عجب اشراف آدمی ہیں۔ اُن سے یہاں کی یاد اللہ تھی۔ بے کہے بے سنے خود سینہ سپر ہو گئے اور خوب خوب روبکاریاں کیں۔

نجم النسا : کیوں خیر تو ہے؟ یہ کون وکیل تھے؟ کچھ خلاصہ تو کہو۔ ادھ کٹی بات شبھ نہیں بھاتی؟ آخر ہوا کیا۔

ننھے مرزا : اجی ٹھہرو، پیٹ میں سانس تو سما لے۔ میں دوڑتا ہوا حوالات سے چھوٹ کے بھاگتا آتا ہوں۔ قسم حضرت عباس کی، منہ سے کوئی بات نہیں نکلتی۔ تم پریشان نہ ہونا، اوکھلی میں سر دیا تع دھمکوں کا کیا ڈر۔ کر لے وہ بھی عداوت جتنی اُس سے کی جائے۔ میں کیا کہوں، اچانک پھنس گیا۔ واللہ ثم باللہ! اصلا جو مجھے خبر ہو۔ میں سیدھے سبھاؤ چلا آتا تھا، پولیس کے ایک سپاہی نے کاغذ دکھلایا اور نکال کے ہتھکڑی ڈال دی۔ لاکھ کہتا ہوں، بھائی یہ کیا معاملہ ہے؟ ہنس کے فرماتے ہیں، چلو تمہار چالان ہو گیا۔ ارے بھائی کچھ کہو سنو گے بھی، اچھی زبردستی ہے۔ کون

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 276

جرم کیا ہے؟ آخر وجہ معلوم تو ہو۔ چلنے میں کیا عذر؛ ہم ٹھہرے رعایا، تم حاکم، جہاں چاہو لے چلو مگر بتا تو دو۔ سپاہی صاحب کہنے لگے، ایسے بھولے، ان کو کچھ معلوم ہی نہیں۔ چوری نہیں کی، ڈاکہ نہیں ڈالا، اور کی مہریا تو بھگا لائے۔ تب میں جا کے سمجھا، کچھ دال میں کالا ہے، اُسی تمہارے آشنا کی کارستانی ہے۔ واللہ اُس وقت سے میرے حواس درست نہیں۔ میں نے جی میں کہا، یار برے پھنسے۔ اور جو کہیں ذرا بھی سن گن پاتا، بندہ وہیں سے دو تین ہوتا۔ جو تمہارے یار صاحب مل جاتے تو یہ جی چاہتا تھا دانتوں سے بوٹیاں نوچوں۔ مگر بندھا خوب مار کھاتا ہے۔ میں سمجھ گیا، دشمنوں میں پھنس گئے، یار اب بری ہوئی۔ افسوس ہے کوئی خبر کرنے والا نہیں۔ لاکھ کہتا ہوں، یہ تو مکان ہے، کھڑے کھڑے ہو آنے دو، میں ابھی آیا، نہ یقین آئے ساتھ چلو، بس دو دو باتیں کرنا ہیں، مگر وہ ایک ہی نطفہ شیطان، دوسرے اُس طرف سے کچھ دے دلا دیا ہو گا۔ میرے پاس اُس وقت جھنجھی نہیں، بالکل بے خرچ۔ وہ تو کہو ہاتھ میں دو انگوٹھیاں پڑی تھیں۔ کمر بند میں چقو تھا۔ میں نے کہا بھائی یہ لے لو، اپنا کام کرو اور اُس کے بعد دیکھا جائے گا مگر وہ لوگ تم جانو ایک ہے بے مروت۔

نجم النسا : غضب ہوا، کسی طرح یہاں تک آ جاتے تو جتنے میں راضی ہوتا، دیا جاتا۔

ننھے مرزا : میں تو لاکھ لاکھ کہتا رہا، اُن لوگوں نے سنا بھی نہیں۔ بلکہ جب میں ذری ٹھٹک رہا تو ایک نے پیچھے سے گھونسا مار کے آگے کو دھکیل دیا (آب دیدہ ہو کے) چار آدمی راہ گیر جمع ہو گئے۔ بس تم سے کیا کہوں، تو چل

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 277

اور میں چل، بازار میں ٹھٹ لگ گئے۔ ایک بات سے مجبور تھا، چاروں طرف سے لوگ مجھے گھیرے تھے۔ جی تو یہی چاہتا تھا وہیں کھڑے کھڑے وارا نیارا ہو جائے۔ اتنے میں آپ کے میاں یار صاحب بھی آ گئے۔

نجم النسا : خدا غارت کرے یار کو، حضرت عباس کا علم ٹوٹے۔ یا شیر خدا! کیا دیر لگائی ہے، فنا کیوں نہیں کر دیتے۔ تم ہر دفعہ بار بار جو کہتے ہو مجھے گصہ چھوٹتا ہے۔ یار ہو گا اپنی اماں بہنیا کا۔ اتنی کی گنہگار ہیں، رانڈ پڑوس کا معاملہ، دینی بھائی البتہ بنایا۔ میں تو سیدھے سبھاؤ کی آدمی، جہل پانچ کیا جانوں؟ کہیں مکان لیا، اُس میں ٹھہرا دیا۔ اگر جو ایسی بات ہوتی تو کیا دنیا میں جوان جہان اپنے ہم عمر گبرو نہ جڑتے تھے جو ایسے بوبک کا ساتھ دیتے۔ یہ کہو وقت پڑے پر گدھے کو باپ بناتے ہیں۔ اگر کچھ نیت بدلی ہو گی تو وہ جانے۔

ننھے مرزا : اجی نیت کیسی، یہ تو مجھے اب معلوم ہوا۔ اُس نے سوال دیا ہے، صآحب میری منکوحہ تھیں، ننے مرزا گھر سے سیڑھی لگا کر آدھی رات کو بھگا لائے ہیں۔

نجم النسا : منکوحہ ہو گی اُس کی ماں۔ بڑا منکوحہ والا آیا۔ سات پیڑھی کوئی منکوحہ نصیب ہوئی تھی؟ موا طوفان لگاتا ہے، تولے باندھتا ہے۔ چولہے میں جھونکوں اُس کے منکوحہ کو۔ نوج خدا نہ کرے میرے دشمن منکوحہ ہوں۔ خدا اُس دن کے لیے مجھے زمین کا پیوند کرے۔ بھلا سرکار پوچھے کھانے کو بھی کوڑی تیری پلے ہے؟ بڑا چلا ہے منکوحہ کرنے۔ تو سہی، سب حال بھری کچہری میں نہ کھول دیا ہو۔ اُلٹی ہتھکڑیاں پڑ جائیں گی۔ وہ سمجھا کیا ہے اپنے تئیں

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 278

کو کیوں بے فائدہ منہ کھلاتا ہے۔ اپنی والی پر آؤں تو خاک میں ملا کے رکھ دوں۔ میاں کا دنیا جہان میں کہیں ٹھکانہ نہ لگے۔ کالا پانی ہو، تب میں نجم النسا اپنے نام کی۔ اور وہ ہوتا کون ہے منکوحہ کرنے والا۔ ہم کیا کسی کسی کی لونڈی باندی ہیں۔ اپنے خوشی خان آدمی؛ جہاں جی چاہا، جس سے راضی ہوئے، ہماری خوشی کی بات ہے۔

ننھے مرزا : اجی تم کو معلوم نہیں۔ یہ بے ایمان جب تک پھانسی نہ پائے گا، چین نہ ہو گا۔ہاں اور سنو۔ وہ جو بالسٹر صاحب کبھی کبھی آتے جاتے تھے، اُن کووکیل کیا ہے۔

نجم النسا : اخاہ اخاہ، بالسٹر کیے ہیں! اُس کے پاس کھانے کو تو تھا نہیں، پیسہ کہاں پایا۔ ہو نہ ہو کچھ اس میں بھی چال ہے۔ بالسٹر صآحب آج کل ذری گئے ہیں نا۔ اوہ! کچھ بات نہیں (چٹکی بجا کے) میں یوں تو اُن کے سیدھا کر لوں گی۔

ننھے مرزا : میں نے کہا چلو اچھا ہے، ہم کو خرچ نہ کرنا پڑے گا۔ گھر کی بات ہے، کہیں جانا نہیں۔

نجم النسا : اچھا تو اب پیشی کب ہےَ؟ کیا کرنا چاہیے؟

ننھے مرزا : کرنا کیا چاہیے، یہی تم کہہ دینا۔

نجم النسا : تو کیا میری بھی پوچھ گچھ ہو گی؟ دیکھو مرزا جہاں تک ہو سکے اس بلا کو ٹالو۔ اور جو مجھ سے ادنیٰ سی بات پوچھی گئی تو میں پیاز کے سے چھلکے اُدھیڑ کے رکھ دوں گی۔ کیا حاصل بات بڑھے۔ گندہ بات جتنی کریدی جائے گی، اُتنی بدبو پھیلے گی۔

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 279

ننھے مرزا : میں نے کل سے دانہ منہ پر جو رکھا ہو تو اسی رزق کی مار پڑے۔ میرے حواس ہی کہاں تھے، بھوک پیاس سب غائب تھی۔ واللہ کس طرح سے رات کٹی ہے، تم سے کہہ نہیں سکتا۔ خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کرے۔ یہ تو کہیے بچارے وکیل راہ چلتے آڑے آ گئے۔ نہیں آپ جانیے، ہزاروں برس کی ملاقات دوستی سب طرح کا سلوک کرو مگر وقت پر آج کل کےزمانے میں بھائی صاحب ہر ایک سے ممکن نہیں۔ خدا اس کے بچے سلامت رکھے۔ مشکل کشا علی اُس کے اسی طرح اڑی پر کام آئیں۔ اچھا ایک چلم پی کے پھر جاتا ہوں اُن کے یہاں۔ جو صلاح بتائیں کی جائے۔ تم سمجھو ایسے دوست کہیں روز ملتے ہیں۔ واللہ رویاں رویاں میر دعائیں دیتا ہے۔ میری کھال کی اگر جوتیاں بنائیں اُف نہ کروں۔ وہ تو گویا اُنہوں نے بے داموں غلام بنا لیا۔

نجم النسا : ہاں بہتر ہے، اب سب باتوں کی صلاح اُنہیں سے پوچھنا چاہیے۔ جو صلاح وہ دیں وہی ٹھیک ہے۔

ننھے مرزا : اچھا میں تو اب چلا، تم اطمینان سے بیٹھو، گھبرانا نہیں، تمہیں میری جان کی قسم۔ وقت ہی تو ہے، بڑوں بڑوں پر پڑ جاتا ہے۔ لے بھلا ہم کیا چیز ہیں، بادشاہ پیغمبر تو بچے نہیں، غضب خدا کا، رسول کے نواسوں پر بیبیوں پر کیا کیا ظلم نہیں ہوئے۔

نجم النسا : خیر اچھا، مجبوری کا نام شکر ہے۔ میں دل مسوسے کمرے پر بیٹھی رہوں گی۔ چین آرام تو خدا کو منظور ہی نہیں۔ جب تک یہ کانٹا نہ نکل جائے، بھلا چین یہاں کس پچھل پائی کو آ سکتا ہے۔ رات ہی کو میرا ماتھا

طرح دار لونڈی ریختہ صفحہ 280

ٹھنکا تھا۔ اندر والس کہتا تھا خدا خیر کرے۔ میری بائیں آنکھ پھڑکتی ہے، اور میں نے ادبدا کے دیکھا ہے۔ جب میرا داہنا بازو پھڑکتا ہے، ضرور کسی نہ کسی رنج کا سامنا ہوتا ہے۔

ننھے مرزا اور وکیل صاحب

ننھے مرزا : حضور میں عرض کروں، میں عمر بھر کا غلام ہو گیا۔ بلکہ اُس کوبھی عذر ہو گا مگر مجھے نہیں۔ واللہ آپ نے مرد کا کام کیا۔ خدا آپ کو اس کا اجر دے گا۔ حضور کہہ تو نہیں سکتا، میں نے کہا چھوٹ کے پہلے سیدھا آپ کے پاس ہو آؤں، نہیں کہیں گے عجب پاجی تھا، ملنے بھی نہیں آیا۔ یہ شیوہ بھلے آدمیوں کا نہیں ہے، اپنے محسنوں کا احسان نہ مانے۔ میں تو کہتا ہوں آج اگر آپ کہہ دیں تو آگ میں پھاند پڑو، واللہ قسم جناب امیر کی، اگر تامل کروں تو اُس کے باپ کے نطفے میں فرق۔ اب تدبیر کا موقع ملا ہے۔ کچھ ایسی پیروی چاہیے، اس جھنجھٹ سے حضور کی بدولت گلو خلاصی ہو۔ اور میں کہتا ہوں، آج یہ بالسٹر صاحب بخشو کی طرف سے آئے تھے کیسے۔ یہ تو ہمارے مہربان ہیں بلکہ بی صاحب بھی بخوبی جانتی ہیں ۔ ان کو کسی طرح یقین ہی نہیں آت۔ کہتی ہیں تم کو دھوکہ ہوا ہو گا، وہ نہ ہوں گے، آخر ہماری ملاقات کا اتنا بھی حق نہ مانیں گے۔ یہ تو انسانیت سے بعید ہے۔ میں نے کہا بیٹھو، ہوش کی دوا کرو۔ یہ سب بالسٹر آج کل انسان ہو گے ولایت سے کب آتے ہیں۔ اجی جو بندر ہوتا ہے وہ تو بندر ہی ہے۔ ستم تو وہ انسان کرتا ہے جو ہوا بندر ہوتا ہے۔ ان کے یہاں انسانیت آدمیت کیا چیز ہے۔ حد ہو چکی، باپ کو باپ،
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
سترہواں باب
روبکاری - اظہارات

ریختہ صفحہ- 291

کریم بخش : ( بہ جواب سر رشتہ )،حضور میں اصلا خبر نہیں،جیسی چاہے قسم لے لیجئے۔غریب آدمی،نوکری کر کے بسر کرتا ہوں۔ہاں اب لکڑی کی ٹال رکھ لی ہے۔صبح سے شام تک خدا رزاق ہے۔کھانے کو دیتا ہے۔حضور نوکری کر کے چار پیسے جوڑے،کچھ بازار کا روبیہ قرض دام بیازونہ لے کے،گھر کے لوگوں کا اسباب رکھ کے دکان رکھی۔کچھ بڑی پونجی تو ہے نہیں،یہی دس بیس کی بات ہے۔کھانے بھر کو خدا دیتا ہے۔ہاں حضور سچ ہے،یہ غلام کے نکاح میں ہیں۔(مجین کی طرف اشارہ کر کے)حضور نکاح ہو گیا ہے۔ پنجوں میں بیاہ لایا ہوں۔اے دیکھیے صاحب سب گواہ ہیں۔شرعی نکاح ہوا تھا۔پیش نماز سید عرفان علی نے نکاح پڑھایا تھا۔پِھر صاحب مزے سے گھر میں رہتی تھیں۔تابعدار آدمی گھر میں ہر وقت تو رہتا نہ تھا،کام پر جاتا تھا؛اس میں ایسا ہوا کہ ننھے مِرزا صاحب کی آمد و رفت شروع ہوئی۔پاس پڑوس کا واسطہ،یہ ٹھہریں عورت ذات،کم سن،کچی لکڑی،نہ معلوم کیا پٹی ایسی پڑھائی کہ سب لے دے کے دونوں کے دونوں چلتے ہوئے۔گھر میں آئے،دیکھا تو کانی چڑیا نہیں۔حضور بہ شدت دوڑا دھوپا،پوچھ گچھ کی،کون

ریختہ صفحہ- 292

بتائے۔اس صفائی سے لے گئے،کانوں کان کسی کو خبر نہیں۔لوگوں سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا،اکے پر لے گئے تھے۔اِکے والا گواہ ہے۔ایک چوراہے پر جاکر اتر پڑے۔حضور پھر آگے پتہ نہیں چلتا۔خود ننھے مِرزا سے اُستاد کے سامنے پوچھا۔
حاکم : ول، اُستاد کون؟
کریم : حضور اُن کے جو اُستاد ہیں،بھلا سا اُن کا نام ہے،موٹے سے ہیں،گورے چٹے ہیں،ادھیڑ عمر ہوگی۔دارینہ آدمی ہیں،بڑے نیک ہیں۔میں روتا تھا،تسلی دی،گھبراؤ نہیں،دیکھو خدا کیا کرتا ہے۔اُن کو بلایا،آنکھوں نے اُن کے سامنے بھی ہیکڑی کی لی،آنکھیں دکھائیں۔کہا اکیلے دکیلے سمجھ لیں گے۔خبردار اس گلی میں نہ چلنا۔حضور اُستاد نے اُن کو نکال دیا سب مال مصالحہ پاس رہتا تھا،سب گھوما دیا۔اس بات پر کارخانے سے نکالے گئے۔میری نوکری میں بل آیا جاتا تھا۔ہار کے اڑتے اڑتے بیٹھ رہا۔بڑی تلاش کے بعد ٹوہ لگی۔صاحب اُن کو لے جا کے کمرے پہ بٹھایا ہے۔سب میں میری بے آبروئی ہوئی۔نقصان اس شادی میں بہت ہوا،میں تو حضور میں مٹا۔کھانے پانی کی الگ تکلیف،نوکری چھوٹ گئی۔اب جا کے پتہ چلا اُن کا۔میں چاہتا ہوں یہ میرے ساتھ کر دی جائیں۔تکلیف نہ ہوگی،کھانا کپڑا دینے کو موجود،مزے سے گھر میں رہیں۔حضور دو مکان میرے اپنے ہیں۔ایک میں خود رہتا ہُوں،ایک کرائے پر اٹھا دیا ہے،جدّی مکان ہیں۔مگر ہاں، ہوں گے سو سو دو دو سو کے۔اور اس ننھے مرزا کو سزا ہو جائے،جو روپیہ میرا اٹھا ہے،سرکار دلوا دے۔

ریختہ صفحہ- 293

بہ جواب جرح

جی حضور مجھے کسی نے سکھلایا نہیں۔میرا تو گھر ہی اُجڑ گیا۔جب سے معلوم ہوا ہے،تھی ذات شریف ہیں،عداوت ہو گئی ہے۔اور حضور کسی کو نہ ہوگی۔اس سے پہلے کوئی عداوت نہ تھی،صورت آشنا تک نہیں۔یہ غلط ہے۔دستوری پر اُن سے جھگڑا ہوا تھا۔میں اُن کو بھگا نہیں لایا۔ہاں البتہ اتنا ہوا،جب یہ آئیں،چار آدمیوں کو بولا کے دو بول پڑھوا لیے۔اس کو سب گواہ سنتے تھے۔کسی صاحب نے میرے یہاں رہنے کو بھی کہا تھا۔یہ جیسا دستور ہے،نکاح کے بعد میرے گھر آئیں تھیں۔میں اُن کی خبر گیری کے واسطے تنخواہ نہیں پاتا تھا،نہ کچھ منے صاحب خرچ دیتے تھے۔ہاں لکڑی کی ٹال البت کرتا ہوں۔خُفیہ فروشی نہیں کرتا اور ٹیکس نہیں دیتا ہوں۔میں کسی مقدمے میں سزا نہیں پا چکا ہوں۔بانسٹر صاحب جو یہ کھڑے ہیں،میں جانتا ہوں۔ہاں اور ایک دفعہ کوٹھی پر گیا تھا۔اُن کے محرر صاحب ٹال پر سے بلا لیے گئے تھے۔میرے وکیل ہیں،میں نے کچھ اُن کو دیا نہیں ،غریب آدمی ہوں۔ادھی کی اوقات میں کیا عرض۔اُن کے دینے کے لائق میرا منہ نہیں۔نہ انہوں نے محنتانہ چکایا۔ترس خدا سے رحم کر کے مقدمہ کرتے ہیں،محرر کہتا تھا ،باورچی خانے کے واسطے تمہاری دکان سے ہمارا باورچی دس بیس روپے کی مہینے میں لکڑیاں لے جایا کرے گا۔صاحب کا کھانا تو کولے میں پکتا ہے۔بڑے شاہ خرچ ہیں،بالکل انگریزی کھانا ہوتا ہے۔صاحب اب میں کسی کا نوکر نہیں۔مگر ہاں پہلے ایک نواب صاحب کے یہاں تھا۔اُن کا مکان یہاں سے کوئی تین آنہ

ریختہ صفحہ - 294

ڈولی ہوگا۔میرے مکان سے آپ سمجھیں بہت دینا ہوں گے،کوئی دو آنے۔مجھ سے کسی چوٹٹے سے ملاقات نہیں،نہ کسی کے ساتھ کہیں چوری میں گیا۔حضور نوکری والا آدمی،میرا یہ شیوہ نہیں۔جب سے دکان رکھی ہے،دکان پر بیٹھتا ہوں۔میں چوری کے مال پر پیشاب کرتا ہوں۔میں سیندھ ہونے اور چوری ہونے میں کچھ کسی کا شریک نہ تھا،میں نے حصہ نہیں لیا،نہ روپے پیسے میں۔کسی چور کا نام نہیں بتا سکتا۔میرا گھر تو اُجڑ گیا۔مجھے اپنے نکاح کا خرچ یاد نہیں اور نہ مجھے یہ معلوم ہے،میرے گھر میں کیا کیا تھا اور بیوی کیا کیا لے کر نکل گئی۔میرے کوئی لڑکا نہیں ہوا۔اگر لڑکا ہوتا تو یہ امر نہ ہوتا۔اُن کو اولاد کی تو محبت ہوتی۔اگر اس گھر میں نہ رکھتا تو ننھے مرزا بھگا لے جاتے۔مجھ سے منے صاحب نے اُن کی خبر گیری کے واسطے نوکری کو نہیں کہا۔

مسماۃ کا اظہار - نوجوان حاکم

حاکم بھی دیکھتے ہی ہوئے اُس کے مشتری
سنیے کہ روبكاری ہوئی پہلے لونڈی کی

صاحب : ول مسماۃ کیا بولتا؟
نجبنیا : ( گھبرا کے ) حضور جو پوچھیے۔میں کسی کی بی بی نہیں۔
صاحب : ول جو مدعی کہتا ہے سب ٹھیک ہے؟
نجبنيا : ہاں حضور ٹھیک ہے۔میں اُس کی بی بی نہیں، اُس کے ساتھ نکل بلا شک آئی۔میں نے کہا تم میرے دین دنیا کے بھائی،میں تمہاری بہن۔تم مجھے ایک دن مکان کہیں لے کے،منے صاحب بتا دیں گے،کہیں لے چلو،پہنچا آؤ۔اور تو بات کیا تھی،منے صاحب کے گھر میں ہم رہتے تھے۔

ریختہ صفحہ - 295

صاحب : منے صاحب کے ساتھ بیاہ ہوا تھا ؟
نجبانیا : ( حواس درست کر کے) نہیں حضور، آپ کی سمجھ میں بیاہ آتا ہے۔کیا کوئی کسی کے یہاں یوں ہی بھی رہتا؟ پِھر صاحب اُن کی ماں ہم پر شبہ کرنے لگیں۔بہت خفا رہتی تھیں،کھانا کپڑا نہیں دیتی تھیں،دو دو دن فاقے سے رہی۔
صاحب : ول تم کیوں نہیں چلا گیا ؟
نجبانيا : حضور کو خدا سلامت رکھے، ملکہ ٹوریا بنائے۔بندا،بندی ایسی صاحب گھر سے باہر قدم نہ رکھو۔رو پڑو وہیں رہو۔پِھر آپ جانیے جناب امیر کی قسم کئی دفعہ ایسی بودی مار ماری کہ بدن میں بٹیں پڑ گئیں ( ہاتھ کھول کے دکھاتی ہے )۔
صاحب : ول اچھا اچھا کیا ہوا ؟
نجبنیا : حضور، پِھر ایک مغلائی،وہ بڑی گستاخ تھیں وہ اور شک مرچ لگاتی تھیں۔صاحب مہربان ایک دن کی بات ہے،ہم کو بخار آیا،اٹھنے کو جی نہیں چاہا۔منے صاحب نے پانی مانگا،ہمارا جی نہ چاہا۔اُس پر کھانا اُس دن نہ ملا۔ہماری اُن کی رنجش تھی۔بیگم صاحب نے پہلے جوتی،پِھر چھڑی سے مارنا شروع کیا،کپڑے پھٹ گئے۔کہا ہرگز نہ بنوا دوں گی۔حضور ایک ایک بات کی تکلیف کہوں۔جو مجھ پر گزری ہے، خدا پاؤں کی چیونٹی کو بھی نہ دے۔(رو کر)سارا گھر دشمن ہو گیا۔منے صاحب صاحب سے اکیلے میں کیا باتیں ہوتی ہیں؟تو نے ہمارے لڑکے کو خراب کیا۔آخر ہمارے اور منے صاحب کے صلاح ہوئی،تم کو یہاں سے لے جا کے علیحدہ رکھیں گے۔یہ سرکار میں نوکر تھا۔ہم کو الگ

ریختہ صفحہ - 296

گھر میں ٹھہرا دیا۔وہاں بخشو آیا کرتے تھے۔اُن کی بیوی بچے بھی ہیں،وہ بھی اُس گھر میں تھے۔پِھر تتوتھمبو ہو گئی۔پِھر ہم کو منے صاحب نے بلا لیا۔خدا مغلانی کو غارت کرے،وہ بڑی عداوت کرتی تھی ہم سے۔تھوڑے دنوں کے بعد اشغلہ چھوڑ دیا۔ہم صاحب کوٹھری میں قید ہوئے۔
صاحب : کتنی دیر تک قید رہا ؟
نجبنیا : حضور ( آنچل سے آنسو پونچھ کر) بہت گھنٹے تک۔کوئی بیس پچیس گھنٹے ہوئے ہوں گے۔سرکاری سپاہی آئے۔پِھر میں جی کڑا کر کے نکل آئی۔اے کوئی ہم کو قید کرے۔گھر میں بڑا ہلڑ مچ گیا۔منے صاحب نے رات کو ہم سے کہا،یہ زیور ہے،جا کے بخشو کے یہاں رکھ آؤ۔اُس کو سمجھا دیا۔اُس دن سے صاحب، بیگم صاحب جان کی دشمن ہو گئیں۔میں نے کسی سے کہا نہیں۔
صاحب : تم کو منے صاحب نے منع کیا تھا؟
نجبنیا : جی حضور نہیں۔یہ بات کسی سے کہنے کے لائق تھی؟ہمارے اور منے صاحب کے بیچ کی بات تھی،کون اپنا سر منڈواتا۔یوں ہی گھر بھر لہو کا پیاسا بن رہا تھا۔نواب صاحب سنتے،وہیں زمین میں کھود کے گاڑ نہ دیتے۔بھائی کر تو کر،نہیں خدا کے غضب سے در۔پِھر ایک دن چھجے کے نیچے کھٹولا بچھائے ہم لیٹے تھے،وہیں پانی برس کے نکل گیا تھا۔بس اوپر سے چھجا ایسا گرا،آٹھ نہ جاؤں تو سب میرے ہی اوپر۔کسی کا کچھ نہ جاتا،(رو کے) میری تو جان گئی تھی۔اُس دن سے میں نے منے صاحب سے کہا،اب سر سے پانی اونچا ہو گیا،یہاں

ریختہ صفحہ - 297

رہنا ٹھیک نہیں۔اگر جو تم کو منظور ہے محبت رکھنا،تو دوسری جگہ لو۔انہوں نے کہا ابھی میرا ہاتھ پتھر تلے ہے،موقع ہونے دو،دیکھا جائےگا۔پِھر کچھ سمجھ کے بخشو کے یہاں ہم کو بھیج دیا،مگر اب کی دفعہ اپنے یہاں نہ لے گیا۔کاہے سے،ایک عورت ہم سے عداوت کرتی تھی اور بخشو سے فوجداری کرتی تھی۔لے جا کے ہم کو رکھا کہیں اور، محلے کا نام نہیں معلوم۔ایلو صاحب مہربان ، چنانچہ گھر میں کانی چڑیا نہیں، کوا ہکنی بنی گھر میں بیٹھو۔ہاں کبھی نہ کبھی بخشو پانی پان کی خبر گیری کرنے آ جایا کرتا تھا۔بس صاحب جو چاہو سمجھو۔نوج میں اُس موئے کی بی بی بنتی۔یہ بھلا کیا کھا کے ہم سے بیاہ کرے گا۔اے حضور سب جھوٹ ، تہمت۔اُس کے آپ بیوی بچے گھر میں بیٹھے اُس کی جان کو کوستے ہیں۔میں تو اُس سے پاخانے میں لوٹا بھی نہ رکھواؤں۔نوج دوربار چھائیں پھوئیں۔ جہاں میری دائی
نے ہاتھ دھوئے ہوں، وہاں اُس کو اپنے سر پر سے صدقے کر کے چھوڑوں۔موکھ سٹ خدائی خوار۔
صاحب : ول ول ننھے مرزا کا کیا بات؟
نجبنیا : حضور کو خدا سلامت رکھے۔دیکھیے میں سب کہتی ہوں،جی ٹھکانے ہوئے: حضور عورت مانی گھبرا گئی ہوں،دم لے لوں تو سب بتاؤں،میں کوئی بات چھپاؤں گی نہیں۔آنکھوں قسم! ننھے مِرزا کی یہ بات،ہم کو بھگا نہیں لائے۔بخشو جھوٹ کہتا ہے۔ہم اپنی خوشی سےآپ نکل کھڑے ہوئے۔آپ جانیے منے صاحب نے تو آنا جانا چھوڑ دیا،ہم کس کے اوپر بیٹھے رہتے۔خدا رزاق ہے،ایک در بند

ریختہ صفحہ - 298

ہزار در کھلے۔ہم کسی کی بہو بیٹی نہیں اپنی خوشی خان جہاں چاہے گئے، جہاں چاہے بیٹھے۔کسی کی لونڈی باندی نہیں۔اور زیور اسباب جو ہمارے پاس ہیں،منے صاحب کا دیا ہوا ہے۔اور حضور بخشو جھوٹ کہتے ہیں،ہم اکے پر نہیں آئے۔ننھے مرزا نے یہی کہا تھا،یہاں اکہ نہ آئے گا۔ڈولی اگر کہو آئے۔
صاحب : ول تو تم ننھے مِرزا صاحب کے ساتھ بھاگا ؟
نجبنیا : جی حضور، آپ سمجھے نہیں۔میں دروازے میں کھڑی کسی کی طاق میں تھی،کوئی آتا جاتا ادھر سے آ نکلے سواری منگواؤں۔قضا عند الله یہ اُدھر سے نکلے،میں نے ہاتھ جوڑ کے کہا،ہمارا ایک کام نہیں کر دیتے،تمہاری بڑی سہر ہوگی،یا الله آدمی کے کام آدمی آتا ہے۔اُنہوں نے کہا جو کہو ہم حاضر ہیں۔اے خدا تمہیں جیتا رکھے۔بھیا مجھے ایک ڈولی لا دے،جو کہار مانگیں گے اُسی وقت دوں گی۔ ایلو وہ چھپاک سے جا کے ڈولی ساتھ ہی لائے۔ میں نے اندر سے دلائی دی،جو میرا اسباب تھا،لا کے رکھوایا اور نکل کھڑی ہوئی۔
صاحب : ول کہاں نکل گیا ؟
نجبنیا : حضور جہاں خدا لے جائے،کسی کی تابعداری لونڈی باندی تو تھی نہیں۔پِھر صاحب ایک کے یہاں اُتری۔مکان خود ہے کرائے کو لیا اور رہنے لگی۔اور حضور یہ بخشو بڑا چور ہے۔اُس نے چار چوروں کو سرکار میں جہاں یہ تھا،بلا لیا۔جہاں تک ملا اسباب ڈھو ڈالا۔سچ پوچھو تو گھر بھر میں ستھرائی دے دی۔ایسی دنیا میں بھنگن بھی نہیں دیتی۔اور سنتی ہُوں چوروں سے اب بھی اُس سے

ریختہ صفحہ -299

سانٹھ گانٹھ ہے۔لیکن آنھیں کے روپے سے ٹال لگائی ہے اور سرکار میں کانوں کان خبر نہیں میں تو اُس کو جانتی ہوں،بڑا بے ایمان پلے سرے کا دغاباز۔موا جھپ جھالیا،پریبیا،جعلیا،روپے میں بارہ آنے کھا جاتا ہے ہمیشہ اُس کی یہی حالت ہے۔ہم سے بھی یہی کہتا تھا کوئی چیز اُڑا دو،مجھے لا کے باہر دے دو۔میں نے کانوں پر ہاتھ رکھے،خدا اُس دن کے لیے مجھے اٹھا لے۔کہاں آدمی رہے ایسا امر نہ کرے۔واہ،تم نے کوئی چور چھنال بنایا۔ہاں ایک دن اتنا لا کلام کہا،کہ کیا کہوں تمہارے ساتھ نکاح کر لیتا۔میں نے ایک دو ہتھڑ مارا،کھی کھی ہنسنے لگا۔موا بے غیرت! میں نے کہا،یہ کیا ہنستے ہو،اپنے جنموں کو روتے ہو۔موا بے غیرت،میں نے کہا جا کے اپنا منہ بنواؤ۔ٹھیکرے میں موت کی صورت تو دیکھو اپنی۔چونی بھی کہے مجھے گھی سے کھاؤ،خدا کی شان۔دیکھو خبردار ایسی بات ہمارے سامنے نہ کہنا،نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں،پیاز کے سے چھلکے اُدھیڑ کے رکھ دوں گی،جو ابھی کہہ دوں،سر پر چوتالا بجنے لگے،گھر کی راہ بھول جاؤ۔ابھی کسی سے پالا نہیں پڑا،کہیں دہی کے دھوکے کپاس نہ کھا جانا۔واہ ہم کو یہ باتیں اچھی نہیں لگتیں۔حضور پھر اُس نے کیا کیا،ہمارے کمرے پر چوری کرا دی۔وہ تو کہیے میں چونک اٹھی،بی جانو آپ جانیے افیمی آدمی،دن بھر اونگا کرتی،رات بھر جاگتی ہے،جب دیکھی کھر کھر کر رہی ہے۔اُس نے آہٹ پائی،کفن پھاڑ کر بولی: اے تو کون؟ یہ سب چور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے،بھدر بھدر۔بلکن اُس کا جوتا بھی

ریختہ صفحہ - 300

چھوٹ گیا،میں نے اٹھا کر پھینک دیا۔گھر میں دیکھا،سب لے گئے۔ننھے مِرزا اُس دن نہ تھے،نہیں تو ایک ایک کو چمٹ جاتے،کچومر نکال دیا ہوتا،چوری کا مزا۔
صاحب : کیا کیا گیا؟
نجبنیا : کیا بتاؤں، لٹ گئی، پوت کا چھلا تک تو باقی رہا نہیں۔لوٹا کٹورا،اے دیکھیے صاحب مہربانی،پانی پینے کو موئے آٹھ بجے تک ترستی رہی،اور پیشاب کا یہ حال،کہتا تھا اب لگ کے کبھی لگوں گا ہی نہیں،پیٹ پھٹا جاتا تھا۔تب تو میں نے کہا بلا سے کپڑے نجس ہوں گے،پھر طاہر کر ڈالوں گی۔سر سے پاؤں تک اللّٰه کا دیا سبھی کچھ تھا،اپنی حیثیت سے سب چیزیں بن گئی تھیں۔اے دیکھیے صاحب مہربان ! ناک کی نتھ ایک نے بنوا دی تھی؛لال چھند چودھری نے جوزی لا دی تھی،گھر بھر کو ایسا مو کیلا،چوروں نے صریحا منہ در منہ اُتار لی۔کانوں کے بالے پتے بڑے مزے سے لیے۔مجھ نگوڑی پر خزاں آ گئی۔اُس دن سے سوکھ کے ہڈی چمڑا ره گیا۔کنگن موؤں نے ہتھیائے،چوہے دتیاں موس لے گئے،جوشن کھینچ لیے،افتیاں اترا لیں۔میرے ہاتھ پاؤں میں جیسے سکت ہی نہ رہا۔ اور یہ سوا بخشو جو اب بڑا ساہوکار بن کے کہتا ہے،نکاح ہوا ہے،غرے ڈبے دکھا کے کہتا تھا،کمر بند سے کنجیاں کھول دو،جو اپنی جان بچانا چاہو۔میں نے کہا موئے میں نے پہچان لیا۔رہ تو سہی،تیری ٹنڈیں کسواؤں گی،پڑے پڑے جیل خانے میں نہ کیڑے پڑ جائیں تب کی سند۔
 
Top