طب کی ابتداء کب اور کیسے (ایک تاریخی جائزہ)

عندلیب

محفلین
طب کی ابتداء کب اور کیسے (ایک تاریخی جائزہ)
پروفیسر کلیم اللہ خان ، نظامیہ طبیہ کالج ، حیدرآباد

انسان آج کے اس ترقی یافتہ ہائی ٹیک دور میں اپنی ترقی کے منازل کو عبور کرتے ہوئے نئی نئی ایجادات خواہ وہ طب کی ہویا سائنس کی ہو ، پھر ٹکنالوجی کو عمل میں لاتے ہوئے زندگی کو صھت مند گزارنے کی کوشش کررہا ہے۔ طب کے میدان میں سائنسدان کئی ایک تحقیقات کے بعد اگر ایک مرض پر قابو پالیتے ہیں تو پھر کچھ دنوں بعد ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا میں ایک نیا مرض وجود میں آجاتا ہے یا پھر کسی مرض کے وباء سے ساری انسانیت پریشان ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ٹکنالوجی پر بھی بہت کچھ اہم دریافت سانسدانوں نے حاصل کر لی ہے جیسا کہ انسان اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کے لیے راکٹ لانچرس وغیرہ بنائے تو وہیں پر یہ تباہ کن اسلحہ کسی اور طریقہ سے انسانی زندگی کو ختم کر رہے ہیں۔ انسان اور حیوان میں فرق صرف نطق (یعنی بات کرنے والا) اور شعور (عقل اور سلیقہ) کا ہے ان دو علامتوں کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے بلکہ کائنات کے ان پوشیدہ رموز سے بھی آگاہ کیا جو اسے ذہنی اور روحانی ترقی کی منزل تک لے جا سکتے ہیں۔ طب کی ابتداء اور اس کے وجود کے بارے میں آئے دن نت نئے نظریات جنم لیتے ہیں اور پرانی باتیں کتاب کی رونق بن جاتی ہیں اب تک ہوئی حشتی تختیوں پر تحقیقات کے مطابق دجلہ و فرات کے درمیانی حصہ کو طب کا مرکز اولین قرار دیا گیا ہے۔

حشتی تختیوں کے عظیم تحقیق کار کیمر اور مارٹن لیوی نے ان پرانی حشتی تختیوں کو اولین طبی دستاویز قرار دیتے ہوئے 1952ء میں جائزہ پیش کیا اس کے لحاظ سے طب کی ابتداء دجلہ و فرات کے درمیان علاقہ سے ہوئی جہاں پر 3 ہزار سال قبل مسیح سمیر نام کی ایک قوم آباد ہونے کے نشانات ملتے ہیں۔ طب کی ابتداء اور علاج معالجہ کا آغاز کب اور کیسے شروع ہوا یہ بتانا تو بہت مشکل ہے لیکن طب کی ابتداء کا سبب بھائی برادری آپسی ہمدردی اور انسانی فطرت قرار دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے طب کی ابتداء میں عقیدۂ انسانی کا بھی بڑا دخل ہے۔ مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے اپنے اپنے عقائد کے اعتبار سے طب کی ابتداء کا سہرا اپنے اپنے پیشواؤں کے سر باندھا ہے۔ کچھ لوگ طب کی ابتداء انبیاء کرام سے منسوب کرتے ہیں تو کچھ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بعض لوگ زرتشت کو اور بعض برہماجی کو اس کا موجد مانتے ہیں ۔ جبکہ قدیم یونانی اپنے مذہبی پیشوا اسقلی بیوس اول کو پہلا طبیب قرار دیتے ہیں۔ طبی و ارضی تحقیق سے معلوم ہوا کہ دنیا میں وجود انسان سے ہی جراثیم موجود تھے( سر آرتھر کیتھ کے مطابق 30 ہزار سے زیادہ جراثیم کرہ ارض پر موجود تھے) اسی وجہ سے طب کی ابتداء کے سلسلہ میں اندازہ ہے کہ جب دنیا میں انسانی زندگی کا وجود ہوا ہوگا تو یقیناً انسانی زندگی کا خاتمہ بھی ہوا ہوگا۔ اور ہر جاندار کو اپنی زندگی عزیز ہوتی ہے چنانچہ قدیم طبی کتابوں میں بھی یہ ذکر ملتا ہے کہ جب جانور بیمار ہوتے ہیں تو ممکنہ طور پر وہ اپنا علاج خود کرتے ہیں جیسے عمل طائر سے حقنہ(Enema ) اور گینڈے کے عمل فصد (Venesection) کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ جب جانور اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے فکر مند ہوسکتے ہیں تو انسان جو تمام جانداروں سے برتر ہے وہ کسی بھی زمانہ میں اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے صحت کی دیکھ بھال سے غافل نہ رہا ہوگا اسی وجہ سے قیاس کیا جا رہا ہے کہ فن طب اتنا ہی قدیم ہوگا جتنا قدیم انسان کا دنیا میں وجود ہے۔

فن طب کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی اور کونسا انسان سب سے قبل کون سے مرض میں مبتلاء ہوا اور اس کا علاج کس نے کیا اور کون سی تدابیر روک تھام کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ تمام معلومات تاریخ طب میں محفوظ نہ رہ سکی لیکن یہ بات بھی تسلیم کرنا پرَ گا کہ علم طب اور علاج و معالجہ انسان کی کئی برسوں کی محنت تجربہ اور قیاسات کا ایک افضل ترین نمونہ ہے لیکن موجودہ دور میں طب ایک وسیع مضمون میں پھیل گیا ہے آج کے اس ٹکنالوجی کے دور میں بھی زمانہ قدیم کے تجربات و قیاسات کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف قسم کے معنوں سے مرض کی تشخیص کی جارہی ہے۔
 
Top