طالبان گروپوں کی اندرونی جنگ مذاکرات کی بحالی میں بڑی رکاوٹ

طالبان گروپوں کی اندرونی جنگ مذاکرات کی بحالی میں بڑی رکاوٹ

اسلام آباد (احمدحسن)ابھی چند روز قبل وزیراعظم نواز شریف کی وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف ملاقاتوں کے بعد طالبان شوریٰ کے ساتھ امن بات چیت کی بحالی کی جوامید ہو چلی تھی فی الحال اس میں کوئی قدم آگے بڑھتا نظر نہیں آتا کیوں کہ طالبان کے مختلف گروپوں کے مابین حالیہ شدید لڑائی نے صورتِ حال کو مزیدگھمبیر بنا کر رکھ دیا ہے۔اور ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کے جمعہ کے روز اپنے سب سے بڑے حریف خان سید عرف سجنا کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے بعد طالبان تنظیم کا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔ دریں اثناء ایک حکومتی ذریعے نے جنگ کو بتایا کہ حکومت ایسے حالات میں جب کہ قبائلی علاقوں خاص طور پر شمالی و جنوبی وزیرستان ایجنسیوں میں طالبان کے مختلف گروہ آپس میں بر سرِ پیکار ہوں اپنی کمیٹی کے اراکین کو بھیجنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ دوسری جانب طالبان رابطہ کار کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم خان کہتے ہیں کہ طالبان اب بھی مذاکراتی عمل دوبارہ شروع کرنے کے لئے بے جینی سے منتظر ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کوئی عندیہ نہیں مل رہا۔ طالبان اور ان کی رابطہ کار کمیٹی مسلسل اس بات کا مطالبہ کرتی رہی ہے کہ ان مذاکرات کی کامیابی کی ضمانت صرف فوج کی براہ راست اس عمل میں شرکت ہی ہو سکتی ہے تاہم ابھی تک فوجی قیادت نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی۔ نہ ہی فوج نے مذاکرات کی حمایت میں یا مخالفت میں کوئی بیان جاری کیا ہے۔ طالبان رابطہ کار کمیٹی کے ایک رکن مولانا یوسف شاہ کہتے ہیں ۔’’ حکومت پراسرار طور پر با لکل خاموش ہے اور کسی کو معلوم نہیں وہ کیا سوچ رہی ہے‘‘ محسود قبائلی جنگ کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تحریک طالبان کے نئے سربراہ ملا فضل اللہ نے جو پچھلے سال نومبر میں اپنے انتخاب کے بعد سے غیر فعال نظر آتے تھے پہلی مرتبہ اپنی اتھارٹی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سب سے بڑے حریف مشہور محسود کمانڈر خان سید عرف سجنا کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے ان کا یہ فیصلہ مانا جاتا ہے اور وزیرستان میں مختلف گروپوں میں امن قائم ہوتا ہے یا نہیںاگر وہاں امن قائم ہو چاتا ہے تو حکومت کے لیے بات چیت کے عمل کو دوبارہ بحال کرنا آسا ن ہو جائے گا۔ مولانا یوسف شاہ نے جنگ کو بتایا کہ حکومت کی پراسرار خاموشی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی نہ تو پچھلی ملاقات میں قائم ہونے والی سب کمیٹی نے کوئی پیش رفت کی ہے نہ ہی حکومت نے ان تین سو میں سے ایک بھی غیر عسکری فرد کو رہا کیا ہے۔ جن انیس افراد کی رہائی بارے میں دعویٰ کیا گیا ان میں کوئی ایک نام بھی اس فہرست میں سے نہیں لیا گیا۔

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=198708
 
Top