طالبان کون ہیں؟

مہوش علی

لائبریرین
طالبان کون ہیں؟,,,, سلیم صافی

طالبان کون ہیں ؟، اس سوال کا جواب مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ یہ القاعدہ اور افغان طالبان کے ایکسٹینشن ہیں ہم غور سے دیکھ لیں تو پاکستانی طالبان ، افغان طالبان کی ایک نئی اور بگڑی ہوئی شکل کے سوا کچھ نہیں جو کچھ اس وقت سوات میں نظرآرہا ہے ، یہ گزشتہ چھ سالوں سے قبائلی علاقوں میں ہورہا ہے اور جو کچھ قبائلی علاقوں میں گزشتہ چھ سالوں سے ہورہا ہے وہ افغانستان میں 1994ء سے ہورہا تھا۔ افغان طالبان ، پاکستانی طالبان کے طریق کار سے اختلاف کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کا اثرورسوخ ان کے لئے سازگار ماحول کی فراہمی کا موجب بنتا ہے ، اس لئے وہ طریق کار سے اختلاف کے باوجود ان کو اپنا اثاثہ سمجھتے ہیں۔ پاکستانی سرزمین پر اس وقت طالبان کے نام سے جو کچھ ہورہا ہے ، اندر جھانک کر دیکھ لیا جائے تو اس پورے عمل کی معمار بھی القاعدہ ہے اور ڈرائیونگ سیٹ پر وہ بیٹھا ہے ۔ اس عمل کی ابتداء جنوبی وزیرستان سے ہوئی اور نائن الیون کے بعد وہاں پر افغان طالبان سے زیادہ عرب اور ازبک بڑی تعداد میں منتقل ہوئے تھے ۔ جنوبی وزیرستان میں افغان طالبان کے جس رہنما نے زیادہ مداخلت کی یا پھر یہاں پر طالبان تحریک کو منظم کیا ، وہ ملاداد اللہ منصور تھے اور ملاداداللہ منصور وہ فرد تھے جو افغان طالبان کی صفوں میں القاعدہ کے خاص آدمی بلکہ ملامحمد عمر سے زیادہ القاعدہ کے وفادار سمجھے جاتے تھے ۔ جنوبی اور پھر اس کے بعد شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کی رٹ کو یقینی بنانے کے بعد القاعدہ نے پاکستان کے حوالے سے یکسر مختلف حکمت عملی بنائی ۔ القاعدہ کے منصوبہ سازوں نے اگر دیکھا کہ اسلام آباد کے کسی مسجد کے منتظمین میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ شریعت کے غلبے کے لئے بندوق اٹھانے پر آمادہ ہوسکتے ہیں تو انہوں نے بالواسطہ ان کو استعمال کرنا شروع کیا۔ اسی طرح جب انہوں نے دیکھا کہ سوات میں مولانا فضل اللہ اپنے گرد لوگوں کو جمع کرسکتے اور بندوق اٹھاسکتے ہیں تو ان کے سپورٹ کے لئے پہنچ گئے ۔ جہاں انہوں نے دیکھا کہ لوگ کسی علاقے میں خوانین یا بااثر لوگوں سے تنگ ہیں تو وہاں ان کو ٹارگٹ کرنے سے کام کا آغاز کیا۔ جہاں دیکھا کہ شیعہ سنی کی بنیاد پر بات آگے بڑھ سکتی ہے ، تو ایسے لوگوں کو آگے کیا جو فرقہ وارانہ سوچ کے حامل تھے اور جہاں دیکھا کہ پولیس اور حکومتی اداروں کے خلاف فضا سازگار ہے تو ابتداء ان لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کی پالیسی اپنائی ۔ کستانی طالبان میں کئی قسم کے لوگ جمع ہوگئے ہیں ۔ مولانا فضل اللہ ماضی میں نہ افغانستان میں لڑے ہیں اور نہ جہاد ی سرگرمیوں سے وابستہ رہے ہیں ۔ وہ ابتداء میں پنج پیری نکتہ نظر کے حامل تھے اور بعد میں اس طرف چلے آئے جبکہ بیت اللہ محسود دیوبندی ہیں اور ماضی میں وہ افغانستان میں طالبان کی طرف سے لڑائیوں میں شریک رہے ہیں ۔ اسی طرح درہ آدم خیل کے طالبان کے لیڈر طارق آفریدی کا مذہبی پس منظر کچھ اور ہے اور وہ سپاہ صحابہ کے نظریات کے حامل رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ کے طالبان کی ترجیحات مختلف نظر آتی ہیں ۔مزارات اور پیری مریدی پر یقین رکھنے والے لوگوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں لیکن وزیرستان کے طالبان کی آپ کو ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آئے گی ۔ اسی طرح درہ آدم خیل یا پھر کرم ایجنسی کے طالبان شیعہ کمیونٹی کے لوگوں کو زیادہ نشانہ بناتے ہیں لیکن مہمند ایجنسی اور خیبر ایجنسی کے طالبان کے ہاں یہ رجحان نظر نہیں آتا۔ لیکن اس تنوع اور اختلاف کے باوجود یہ سب عناصر القاعدہ کے زیرسرپرستی چند مشترکات کی بنیاد پر آج اکٹھے ہوئے ہیں ۔ امریکہ کے خلاف نفرت اور جنگ، پاکستانی ریاست کے خلاف نفرت اور جنگ، شریعت کا نفاذ ( اپنی اپنی فہم کے مطابق) اور شریعت کے نفاذ کے لئے مسلح جدوجہد ۔ یہی وہ مشترکات ہیں جن کی بنیاد پر یہ لوگ آج تحریک طالبان پاکستان کے نام پر اکٹھے ہوکر ایک نظر آرہے ہیں ۔ وہ لوگ جنہیں امریکہ یا پاکستانی حکومت سے نفرت تھی ، وہ جس بھی سیاسی یا مذہبی پس منظر کے حامل تھے ، طالبان کے ساتھ جاملے ہیں ۔ وہ لوگ جنہیں اپنے علاقے کے کسی خان پر غصہ تھا یا پھر پولیس کے ساتھ اپنا اسکور برابر کرنا چاہتے تھے ، بھی طالب بن گئے ہیں ۔ بے روزگاری اس علاقے میں زوروں پر تھی اور جب نوجوانوں نے دیکھا کہ ایک ایسا فورم میسرآرہا ہے کہ جس کے ساتھ مل کر روزگار کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے اور آخرت بھی سنور سکتی ہیں تو وہ اس طرف آگئے ۔ ایسے جرائم پیشہ لوگ جو اپنے دھندے کے لئے ماضی میں پولیس اور حکومتی عہدیداروں کے ساتھ نبھا کے رکھتے تھے نے بھی اپنے دھندے کو جاری رکھنے کے لئے اپنے آپ کو طالبان کی صفوں میں شامل کرلیا۔ میری دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ طالبان (جن کو ہم طالبان کہتے ہیں) اور ان کے فلسفے کے سپورٹر پورے پاکستان میں ایک جیسے موجود ہیں اور پنجاب سے لے کر اندرون سندھ اور کراچی تک ہر جگہ کی فضا ان کے لئے یکساں سازگار بنتی جارہی ہے ۔ اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ بعض مین اسٹریم مذہبی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بعض افراد بھی نہ صرف ان علاقوں میں منتقل ہوچکے ہیں بلکہ خودکش حملہ آوروں کی تربیت جیسے عمل میں بھی شریک ہیں یہ روابط نئے استوار نہیں ہوئے بلکہ کئی حوالوں سے دیرینہ اور پرانے ہیں۔ میں عرض یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ یہ کڑیاں کہیں نہ کہیں جاکر آپس میں کسی نہ کسی شکل میں ضرور مل جاتی ہیں ۔ اگر طالبان صرف مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کا نام ہے تو پھر سوات سے لے کر وزیرستان تک ہونے والے معاملے میں بھی ان کی تعداد بہت کم ہے لیکن اگر طالبان ایسے عناصر کا نام ہے جو امریکہ سے نفرت کرتے ، طاقت کے زور پر حدودتعزیرات کے نفاذ سے آغاز کرکے شریعت نافذ کرنے کے خواہشمند عناصر کا نام ہے تو پھر یہ پورے پاکستان میں موجود ہیں ۔ ان کے ساتھ نہ صرف ان لوگوں کے روابط موجود ہیں بلکہ جب بھی وہ جس شہر میں چاہیں گے ان کو اسی طرح اٹھائیں گے جس طرح کہ انہوں نے سوات میں اٹھادیا ہے ۔ طالبان کے بارے میں ہمارے ہاں رائج غلط تصورات کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ لوگوں کی اکثریت مولانا صوفی محمد کو طالبان کا لیڈر سمجھتی ہے حالانکہ صوفی محمد صاحب کا القاعدہ کے ساتھ کوئی رابطہ ہے اور نہ پاکستانی طالبان کے ساتھ ان کا کوئی تنظیمی تعلق قائم ہے۔ماضی میں وہ چونکہ افغانستان میں لڑنے کے لئے گئے یا پھر اب سوات امن معاہدے میں ان کو اہم رول دیا گیا تو لوگ انہیں بھی طالبان کا لیڈر سمجھنے لگے ۔مولانا صوفی محمد کون ہیں ، کیا کرنا چاہتے ہیں اور وہ طالبان سے کس طرح الگ ہیں ، ان سوالوں کا جواب پھر کبھی ۔
 
Top