طالبان کا آپريٹنگ سسٹم

Fawad -

محفلین
مسٹر فواد ، آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کی حکومت اور نیٹو کی فوج دنیا میں جہاں بھی قدم رکھ دے وہیں القاعدہ اور اس کے دہشت گرد پیدا ہو جاتے ہیں؟۔ آپ کی افواج دہائیوں تک ان کے خلاف دنیا کے بہترین ہتھیاروں اور تکنیک سے جنگ لڑتی ہیں لیکن یہ دہشت گرد آپ کے قابو میں نہیں آتے بلکہ معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیلنے میں مزید مہارت پیدا کر لیتے ہیں؟۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


سب سے پہلے تو آپ کی يہ دليل کہ دہشت گردی کا عفريت صرف انھی ممالک اور خطوں سے نمودار ہو رہا ہے جہاں پر امريکی يا نيٹو افواج کی موجودگی ہے، حقائق کی معمولی تحقيق اور واقعات کے تسلسل کے سرسری جائزے سے ہی کمزور پڑ جاتی ہے۔ چاہے 911 کے المناک حادثے کی روداد ہو يا سال 2002 ميں بالی ميں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کی بازگشت، سال 1998 ميں کينيا اور تنزانيہ ميں سينکڑوں بے گناہوں کی ہلاکت کا معاملہ ہو يا سال 2008 ميں ممبئ ميں دہشت گردی کی کاروائ – دنيا بھر سے ايسی درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہيں جہاں دہشت گردوں نے نا صرف يہ کہ دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنايا، عوامی عمارات کو تباہ و برباد کيا بلکہ مستقبل ميں بھی ايسی ہی کاروائياں جاری رکھنے کا عنديہ ديا – باوجود اس کے کہ ان ممالک ميں امريکی اور نيٹو افواج کو تعنيات نہيں کيا گيا تھا۔ حقيقت يہ ہے کہ امريکی اور نيٹو افواج کی تعنياتی اور ناگزير فوجی کاروائ اس عالمی دہشت گردی کے خلاف ضروری ردعمل اور آخری حربہ تھا جس کا نشانہ دنيا کے ہر حصے ميں بغير کسی تفريق کے تمام انسانيت کو بنايا جا رہا تھا۔

جہاں تک آپ کا يہ دعوی ہے کہ امريکہ دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ ہار چکا ہے تو ميں نہيں سمجھ سکا کہ کس پيمانے کے تحت آپ نے يہ مفروضہ اخذ کيا ہے۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران اسامہ بن لادن سميت القائدہ کی دو تہائ سے زيادہ قيادت ہلاک يا گرفتار کی جا چکی ہے۔ آج اس تنظيم کی يہ صورت حال ہے کہ دنيا بھر ميں دہشت گردی کے نت نئے منصوبے تشکيل دينے کی بجائے اس کے بچے کچھے اراکين اور ليڈر اپنی بقا اور تنظيم کو موجودہ دور ميں کسی بھی حوالے سے فعال رکھنے کے ليے تگ ودو کر رہے ہيں۔ جبکہ سال 2002 ميں افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل القائدہ کی صلاحيت اور اس کا تنظيمی ڈھانچہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ دہشت گردی بدستور ايک اہم عالمی مسلہ اور تمام مہذب دنيا کے ليے ايک چيلنج ہے۔ ليکن يہ سوچنا غير منطقی اور غلط ہے کہ ہم اس ايشو کے حوالے سے اپنے قدم پيچھے ہٹا ليں گے يا ان مجرموں کے ہاتھوں شکست تسليم کر ليں گے جن کے نزديک انسانی زندگی کی کوئ وقعت نہیں ہے۔
اس ضمن ميں کوئ غلط فہمی نہيں رہنی چاہيے۔ جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے تو امريکہ سميت دنيا کے کسی بھی ملک کے ليے شکست کسی بھی طور قابل قبول حل يا آپشن ہرگز نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[URL='http://www.state.gov']www.state.go[/URL][URL='http://www.state.gov'][URL='http://www.state.gov']v[/URL][/URL]

http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
Top