فارسی شاعری طاعتے کآں درحقیقت موجبِ قربِ خداست - محمد فضولی بغدادی (قصیدہ بحضورِ امامِ عالی مقام مع ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
طاعتے کآں درحقیقت موجبِ قربِ خداست
طوفِ خاکِ درگۂ مظلومِ دشتِ کربلاست
(وہ طاعت جو درحقیقت خدا کے قرب کا موجب ہے، وہ مظلومِ کربلا کی درگاہ کا طواف کرنا ہے۔)
اے خوش آں مردم کہ بہرِ قوتِ نورِ نظر
در نظر او را مدام آں قبلۂ حاجت رواست
(وہ شخص کتنا خوش نصیب ہے کہ جو اپنی آنکھوں کا نور بڑھانے کے لیے ہمیشہ اُس قبلۂ حاجت روا کو نگاہوں میں رکھتا ہے۔)
اے خوش آں طالب کہ در ہنگامِ حاجت خواستن
خاکِ راہِ کربلا در چشمِ او چوں توتیاست
(وہ طالبِ حاجات کتنا خوش قسمت ہے کہ جو حاجت خواہی کے وقت کربلا کی خاک کو اپنی آنکھوں میں بطور سرمے کے رکھتا ہے۔)
اے خوش آں زائر کہ او را در چناں حاجت گہے
گہ نمازِ بے رعونت، گہ نیازِ بے ریاست
(وہ زائر کتنا خوش قسمت ہے کہ جو اس طرح کی حاجت گاہ میں کبھی بے رعونت نماز پڑھتا ہے اور کبھی بے ریا عاجزی دکھاتا ہے۔)
گہ بہ یاد تشنۂ آں بادیہ اشکش رواں
گہ برائے سجدۂ آں خاکِ در، قدّش دوتاست
(گاہے اُس زائر کے اشک صحرائے کربلا کے تشنہ لب امام کی یاد میں رواں ہوتے ہیں، تو گاہے اُس کے در کی خاک کو سجدہ کرنے کے واسطے اُس کی قامت خم رہتی ہے۔)
گربلا گنجےست در ویرانۂ دیرینِ دہر
لیکن آں گنجے کہ نقدش، نقدِ شاہِ اولیاست
(کربلا اس پرانے ویرانۂ دہر میں ایک خزانے کے مانند ہے، لیکن ایسا خزانہ جس کا سیم و زر شاہِ اولیا امام حُسین ہیں۔)
خازنِ حکمت نہادہ در چناں گنجِ شریف
طرفہ صندوقے کہ پُر از درِّ دُرجِ لافتاست
(خازنِ حکمت یعنی خدا تعالیٰ نے اس گنجِ شریف میں ایسا عجیب صندوق ڈالا ہے جو صندوقچۂ لافتیٰ کے موتیوں سے پُر ہے۔)
یا گلستانےست آں روضہ کہ گر بینند باز
رنگِ گلہایش زِ خونِ رنگِ آلِ مصطفاست
(یا اگر اُسے دوبارہ دیکھیں تو وہ روضہ شاید ایک گلستان ہے جس کے پھولوں کا رنگ آلِ مصطفیٰ کے خون کے طفیل ہے۔)
حدّت ار دارد ہوائے بقعہ اش نبوَد عجب
آتشِ دلہائے سوزاں در مزاجِ آں ہواست
(اگر امام حُسین کی زیارتگاہ کے اطراف کی ہوا گرم ہے تو اِس میں ایسی کیا حیران کن بات ہے؟ اُس ہوا کے مزاج میں بھی جلتے ہوئے دلوں کی آگ ہے۔)
شور اگر خیزد زِ خاکش آب دارد جائے آں
چوں ہمیشہ چشمۂ آں آب، آب چشمِ ماست
(اگر وہاں کی خاک اور پانی میں نمکینی پائی جاتی ہے تو یہ بھی مناسب بات ہے کیونکہ اُس آپ کا سرچشمہ ہمیشہ ہماری آنکھوں کا پانی ہوتا ہے۔)
در میانِ روضہ و آں بقعہ تا یابند فرق
در میانِ جان و دل انواعِ بحثِ ماجراست
(میرے جان و دل میں باہم طرح طرح کی بحثیں چھڑی ہوئی ہیں، تاکہ وہ جنت اور امام حُسین کی زیارتگاہ کے بیچ فرق جان سکیں۔)
بحث دارد جاں کہ آں روضہ شبیہِ بقعہ است
دل معارض می شود کآں ہر دو از ہم کے جداست
(میری جان کہتی ہے کہ وہ جنت کربلا کے مانند ہے جب کہ دل اعتراض کرتا ہے کہ اُن دونوں میں فرق ہی کب تھا؟)
با وجودِ آں ہمہ رفعت کہ دارد آسماں
گر زمیں از آسماں خود را فزوں گیرد، رواست
(آسماں کی تمام تر رفعتوں کے باوجود اگر زمین (کربلا کے باعث) خود کو آسماں سے فزوں پندارے تو یہ بالکل روا بات ہے۔)
از زمیںِ جزوَست صحرائے شریف کربلا
کربلا جائے حُسین ابنِ علیِ مرتضاست
(اس بلندی کی وجہ یہ ہے کہ کربلا کا صحرا زمین کا جزو ہے، اور وہ کربلا حسین ابنِ علی کی آرامگاہ ہے۔)
آں امامِ ظاہر و باطن کہ از محضِ صفا
ہمچو ظاہر باطنش آئینۂ گیتی نماست
(حُسین ظاہر و باطن کا وہ امام ہے کہ جس کی پرخلوص پاکیزگی کے باعث اُس کے ظاہر کی طرح اُس کا باطن بھی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں کائنات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔)
کے رود ناکام ہر کس کآورَد رُو سوئے اُو
کے شود محروم ہر کس را کہ با او التجاست
(جو شخص بھی اُس کی طرف اپنا رخ موڑتا ہے، وہ کب ناکام ہوتا ہے؟ جو شخص بھی اُس سے التجا کرتا ہے وہ کب محروم ہوتا ہے؟)
رتبۂ گردے کہ خیزَد از رہِ زوّارِ اُو
از رہِ رفعت قرارِ بارگاہِ کبریاست
(اُس خاک کا رتبہ جو کہ حُسین کے زوار کی راہ سے اٹھتی ہے یہ ہے کہ وہ اپنی رفعت کے باعث بارگاہِ کبریا کی قرارگاہ بن گئی ہے۔)
شہسوارِ یثرب و بطحا، امامِ انس و جاں
پادشاہِ صورت و معنی، شہِ ہر دو سراست
زندگی بخشِ دلِ اربابِ صدق و اعتقاد
کشتۂ تیغِ جفائے ناکسانِ بے وفاست
عاصیانِ خیر را از قتلِ آں معصومِ پاک
صد خجالت روزِ حشر از حضرتِ خیرالنساست
(گناہگار روزِ حشر کو حضرت خیرالنساء فاطمہ کے سامنے بصد خجالت پیش ہوں گے کہ وہ کیوں معصومِ پاک کی نصرت کر کے اُنہیں قتل سے نہ بچا سکے۔)
تا اثر دارد جہاں در دعوائے خونِ حسین
صد ہزاراں بے ادب در معرضِ فوت و فناست
(جب تک انتقامِ خونِ حسین کی اس جہان میں علامات باقی ہیں، اُس وقت تک لاکھوں بے ادب فوت و فنا کا لقمہ بنتے رہیں گے۔)
باد نصرت نیک بختے را کہ دائم در جہاں
از رہِ اخلاص دارد نیتِ ایں بازخواست
(اس نیک بخت کو کامیابی نصیب ہو جو از رہِ اخلاص ہمیشہ امام کا انتقام لینے کی نیت رکھتا ہے۔)
السلام اے نور بخشِ دیدۂ اہلِ نظر
السلام اے آں کہ درگاہِ تو حاجت گاہِ ماست
دردمندے نیست کز لطفِ تو درمانے نیافت
خاکِ درگاہِ تو اہلِ درد را دارالشفاست
(کوئی بھی ایسا دردمند نہیں ہے جسے تیرے لطف سے درمان نہ ملا ہو، تیری درگاہ کی خاک اہلِ درد کے لیے دارالشفا ہے۔)

سایۂ لطفِ خود از فرقِ فضولی وا مگیر
زاں کہ ہم بیچارہ و ہم بیکس و ہم بے نواست
(اپنے سایۂ لطف کو فضولی کے سر پر سے مت اٹھاؤ، اس لیے کہ وہ بیچارہ بھی ہے، بیکس بھی ہے اور بے نوا بھی ہے۔)​

از غریبی رہ ندارد بر سلوکِ خود ہنوز
ہر چہ می خواہد کند در خاطرش بیمِ خطاست
(فضولی کو غریبی کے باعث ابھی تک اپنے سلوک کی راہ نہیں مل سکی ہے، وہ جو بھی کرنا چاہتا ہے اُسے یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں اِس میں خطا نہ ہو جائے۔)
چشم دارم آں عمل توفیقِ حق روزے کند
کآں پریشاں را درو نفع و ترا در وے رضاست
(میں اس بات کی اُمید رکھتا ہوں کہ ایک دن فضولی خدا کی توفیق سے ایسا عمل کرے گا جس سے اُس پریشان کو نفع حاصل ہوگا اور جس میں تیری رضا ہوگی۔)
(محمد فضولی بغدادی)
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی کا مجسمہ باکو (آذربائجان) میں:
fuzuli.jpg

450px-Fuzuli_monument.jpg


محمد فضولی کا مجسمہ استانبول (ترکی) میں:
7982509642_bd89078a6a_z.jpg

denizbebekparkta106.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ وارث بھائی۔ جب آپ کلام پڑھتے ہیں تو میری محنت وصول ہو جاتی ہے۔ :)

بس آپ محنت کرتے رہیں، وصول ہو نہ ہو۔ فارسی شاعری کے ساتھ کچھ ایسا ہی چکر ہے، ہیرے جواہرات جڑے ہوتے ہیں فارسی اشعار میں لیکن ۔۔۔۔۔۔خیر :)
 
Top